( المرشد الؐامام ، عمامہ اور اتباع سنت ، مقام فاروق پر شیعہ و سنی اتحاد،قانون شہادت و اسلام )مقالات

المرشد والامام

(ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے کچھ عرصہ قبل "تنظیم اسلامی" کےنام سے ایک جماعت قائم کی ہے جس کی بنیاد ان سے گہری وابستگی اور مشہور اسلامی مسئلہ بیعت "پر رکھی ہے۔برصغیر کی تقسیم سے قبل بھی دہلی میں ایک عالم دین کی  طرف سے "امامت" کی بنیاد پر ایک جماعت غرباء قائم کی گئی تھی۔اور اس وقت اس مسئلے پر مختلف علماء کی طرف سے اظہار خیال بھی ہوا تھا۔چنانچہ زیر نظر مقالہ میں حافظ عبداللہ محدث روپڑی ؒ کے  ایک  فاضل شاگرد نے اسی مسئلہ کا جائزہ کتاب وسنت کی روشنی میں پیش کیا تھا۔اور جو حالات کی مناسبت سے آج بھی ہدیہ قارئین ہے۔(ادارہ))
"اس مقالہ میں مندرجہ ذیل مسائل پر گفتگو کی گئی ہے:"
ا۔امام کی قسمیں
2۔بیعت کس امام کے ہاتھ پر ہوسکتی ہے؟
3۔شرائط امام
4۔مسلمانوں کا امام بیعت ایک ہی ہوتا ہے یا متعدد بھی ہوسکتے ہیں؟
5۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر سلطانی حیثیت کے بیعت لی ہے یا نہیں؟
6۔اگر کوئی بغیر بعیت کے رہے تو وہ کسی وعید کا مستحق ہے یا نہیں؟
7۔جو بغیر بعیت کے مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت کب ہوگی؟
8۔زکواۃ بغیر خلیفہ وقت کی اجازت کے ادا ہوجاتی ہے یا نہیں؟
9۔پیری مریدی کی بیعت کا کیا حکم ہے؟
1۔امام کی قسمیں
قسم اول امام نماز ہے!
جیسے حدیث میں ہے:"ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے،پس جب تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تم بھی  تکبیر کہو اور رکوع کرو۔پس تحقیق امام رکوع بھی تم سے پہلے کرے گا۔اور ا ٹھے گا بھی تم سے پہلے الحدیث !ایک دوسری حدیث میں ہے!
"حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے ،فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ امام تو اسی واسطے کیا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ اقتداء کی جاوے پس جب تکبیر کہے امام ،تم بھی تکبیر کہو اور جب رکوع کرے تو  تم بھی رکوع کرو۔"
ایسی احادیث میں بالتصریح ظاہر ہے کہ ان میں امام سے مراد امام نماز ہے۔
دوسری قسم امامِ ہدایت:
جیسے قرآن مجید میں ہے:سورہ فرقان کی اس آیت میں متقیوں کے لئے امام ہونے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ جو امام بمعنے سلطان ہے وہ خاص متقیوں کانہیں ہوتا ۔جیسے دوسری جگہ قرآن مجید کے بارے میں فرمایا ہے:پس کتاب کا کام صرف ہدایت ہے!
اور دوسری جگہ کتاب کو امام بھی  فرمایا ہے:اور راہ کو بھی امام کہا گیا ہے:لوح محفوظ کو بھی امام کہاگیا ہے:تیسری قسم امام بمعنی بادشاہ ہے:

جیسے حدیث میں ہے:"سوا اس کے نہیں کہ امام ڈھال ہے۔اس کے پیچھے لڑائی کی جاتی ہے اور  اس کے ساتھ (دشمن سے) بچا جاتا ہے۔"

اس حدیث میں امام بمعنے بادشاہ ہے جیسا کہ الفاظ سے ظاہر ہے!

2۔بیعت کس امام کےہاتھ پر ہوسکتی ہے؟

ظاہر ہے کہ امام  نماز کو بیعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔کیونکہ نماز پڑھنے سے پہلے یہ نہیں کہ پہلے اس کے ہاتھ پر بیعت کریں۔اور پھر نماز پڑھیں یاہمیشہ کے لئے بیعت کرلیں کہ ہم تیرے ہی پیچھے نمازپڑھیں گے۔اور امام ہدایت کے ہاتھ پر بھی بیعت نہیں ہوتی کیونکہ امام ہدایت سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگوں کو دین سکھلا دے اور اس میں تمام علماء ربانی داخل ہیں۔ تو کیا ہر ایک کے ہاتھ پربیعت کرتا پھرے؟ایسا خیر قرون میں بالکل نہیں ہوا۔اگر کسی کا د عویٰ ہے توثابت کرے اور کتاب اور راستہ قابل بیعت ہی نہیں۔اب صرف امام بمعنے بادشاہ کے ہاتھ پربیعت ہوسکتی ہے۔خواہ بادشاہ ہی حیثیت بیعت سے پہلے ہو۔خواہ وہ جماعت جو بیعت کرنے والی ہے۔وہ خود مختار اور صاحب اقتداء رہو۔تاکہ اس جماعت کی بیعت سے بادشاہی حیثیت پیدا ہوجاوے۔اور(عربی) کی طرح نہ ہوجاوے۔اور قرآن مجید وحدیث شریف سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔سنیے قرآن مجید میں ہے:
یہ بیعت صلح حدیبیہ کے موقع پر ہوئی ہے جو چھٹا سال سن ہجری کا ہے۔اور اس سے پہلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہی حیثیت حاصل تھی۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے بادشاہ ہوچکے تھے۔اور بڑے بڑے جنگ مثل بدر اور خندق اور احد وغیرہ کرچکے تھے۔
رہی دوسری صورت کے بعیت کرنے سے شاہی حیثیت پیدا ہوجائے۔ سو اس کا ذکر سنیے:
"عبادہ بن صامت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔کہ میں ان سرداروں سے تھا،جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعیت کی تھی ۔اور فرمایا(عبادہ بن صامت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہ) بیعت کی ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پرکہ نہ شریک کریں گے ہم ساتھ اللہ کے کسی کو اور نہ چوری کریں گے اور نہ زنا کریں گے اور نہ کسی کوقتل کریں گے مگر ساتھ حق کے اور نہ لوٹ مار کریں گے اور نہ معصیت کے مرتکب ہوں گے۔جنت کے وعدے پر اگر پُورا کیا ہم نے ان سب مذکورہ بالا امور کو۔پس اگر ترک کیا ہم نے اس سے کچھ تو فیصلہ اس کا اللہ کی طرف ہے!"
ایک د وسری حدیث یوں ہے کہ:"ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ ضماد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مکہ شریف میں آیا اور تھا ضماد قبیلے ازد شنوءۃ سے،اور تھا دم کیا کرتا جنون سے۔پس سنا اس نے مکہ کے بیوقوف لوگوں سے کہ کہتے تھے۔کہ تحقیق محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیوانہ ہے۔ضماد نے کہا کہ اگردیکھوں میں اس آدمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تو شاید اللہ تعالیٰ شفا بخشے اس کو میرے ہاتھ پر ۔کہا ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نےکہ ملا ضماد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پس کہا اس نے کہ یا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)  تحقیق میں رقیہ کرتا ہوں اس ہوا سے اور اللہ شفا دیتا ہے کہ میرے ہاتھ سے جس کو چاہتا ہے پس کیا ہے واسطے تیرے رغبت ؟پس فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے"الحمدللہ " سے لے کر"امابعد" تک!پس کہا ضماد نے کہ ان کلمات کو میرے اُوپر لوٹا۔پس لوٹایا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ضماد تین مرتبہ۔پھر کہا ضماد نے کہ بے شک سنا میں نے قول کا ہنوں کااور جادوگروں اور شعراء کا۔پس نہیں سنا میں نے مثل ان کلمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے،اور تحقیق پہنچے گہرائی دریا کو۔پھر کہا ضماد نے کہ لائیے ہاتھ اپنا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتا ہوں اسلام پر۔کہاکہ پھر بعیت کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ضماد نے۔پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اپنی قوم کی طرف سے بھی بعیت کرتے ہو؟"کہا کہ" ہاں کرتا ہوں۔"کہا ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہ پھر بھیجا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کو پس گزری وہ ساتھ قوم ضماد کے۔پھر فرمایا افسر نے لشکر کو کہ"کیا تم نے کوئی چیز ان سے لی ہے (جبراً)؟پس کہا ایک آدمی نے کہ"پہنچا میں لوٹے کو"پھر کہا کہ"رد کرو اس کو" پس یہ لوگ ضماد کی قوم ہیں۔

ان دوحدیثوں سے پہلی میں انصار کے بعیت کرنے کاذکر ہے اور انصار خود مختار غیر محکوم تھے۔اوراسی طرح دوسری حدیث میں ضماد اوراس کی قوم کو سمجھ لیناچاہیے۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بیعت سے شاہی حیثیت حاصل ہوگئی کیونکہ اس وقت ہر ایک قوم الگ الگ حکومت کررہی تھی۔گویا کہ یہ ایسا  ہوگیا جیسے بادشاہ کسی ضرورت کی وجہ سے اپنی رعیت سے الگ رہے۔جیسے امیرکابل ہندوستان میں آجائے ٹھیک اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کااذن نہ ہونے کی وجہ سے مکہ میں اپنی رعیت سے جن سے بیعت لی۔جُدا رہے۔

پس اس پہلے تمام مذکورہ بالا بیان سے خوب واضح ہوگیا کہ بعیت کاتعلق جس امام سے ہے وہ بادشاہ ہے۔خواہ بیعت لینے سے پہلے بادشاہ ہو یا بیعت لینے سے بادشاہ بنے۔اور پھر بیعت کے لئے مطلق بادشاہ ہونا کافی نہیں ہے بلکہ کچھاورشرائط بھی ہیں جو یہ ہیں:

3۔شرائط ِ امام:

شرط اول یہ ہے کہ امام مسلمان ہووے جیسے عبادہ بن صامت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں ہے:یعنی کافر امامت سے خارج کیا جاوے گا بلکہ قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔

4۔امامِ بیعت ایک یا متعدد
دوسری شرط یہ ہے کہ امام سب مسلمانوں کاایک ہی ہوتا کہ امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں تفرقہ نہ ہوجائے،جیسا کہ ہندوستان میں موجود ہے۔چنانچہ عرفجہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:
"کہا عرفجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ "بے شک ہوجائیں گے شر وروفسادات پس جس نے ارادہ کیا کہ تفرقہ  پیدا کرے۔امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں در آنحالیکہ ان کا اتفاق ہو۔پس قتل کرو  اس کو ساتھ تلوار کے چاہے کوئی بھی ہو۔"
"ابو سعید خدری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بیان کیا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے،"جب بیعت کی جاوے واسطے دو خلفیوں کے پس قتل کردو جس نے بعد میں بیعت لینی شروع کی ہے ان دونوں سے ۔"
"ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"تھے بنی اسرائیل میں سیاست کرتے نبی۔جب فوت ہوتا ایک نبی خلیفہ ہوتا اس کا دوسرا نبی۔اورتحقیق میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ اور جلد ہوں گے خلیفے پس زیادہ ہوں گے۔کہا صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہ"آپ صلی اللہ علیہ وسلم(اس بارے میں) ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟"فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو پہلا خلیفہ ہے اس کی بیعت پوری کرو اور دوحق ان کا۔بے شک اللہ سوال کرے گا اس چیز سے کہ والی بنایا ان کو۔"
ان تینوں حدیثوں سے معلوم ہوگیا کہ تمام مسلمانوں کی بیعت ایک ہی امام کے ہاتھ پر ہونی چاہیے اور یہ نہیں کہ ہر ملک کے لئے الگ الگ ہو۔بعض اورشرائط بھی ہیں۔اگر ضرورت ہوگی تو کسی مفصل رسالہ میں ذکر ہونگے۔ان شاء اللہ۔
5۔سلطانی حیثیت کے بغیر بعیت
اعتراض اول:
اگر کہا جاوے جب ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضماد سے بیعت لی اور عقبہ میں انصار سے بیعت لی تو اس وقت بادشاہ ہوگئے۔پھر کیاوجہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائی نہیں کی او رنہ حدود قائم کئے؟
جواب:لڑائی اورحدود قائم کرنے کا حکم مدینہ میں اترا ہے حکم اترنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام کس طرح کرسکتے تھے؟ہاں اگراُترنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بادشاہ ہونے پراعتراض پڑتا۔اب کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔
اعتراض ثانی:
اگر کوئی کہے کہ بادشاہ کی قید کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ ابراہیم                علیہ السلام نمرود کے محکوم تھے اور اللہ تعالیٰ ان کو فرماتا ہے کہ (عربی)
اس کے تین جواب ہیں:
1۔پہلے  نبیوں کی سنت پر اس قدر عمل کرنا ضروری ہے جو قرآن وحدیث کے موافق ہو۔جیسے آدم علیہ السلام کے وقت میں دو بہن بھائی کا نکاح صحیح تھا۔اب کوئی اپنی بہن کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتا،ایسے یہ بھی حکم منسوخ ہے یعنی اب محکوم امام بیعت لینے والا نہیں ہوسکتا۔کیونکہ صحیح حدیث میں کلمہ حصر کے ساتھ فرمایاگیا ہے۔(عربی)"اور اس پر خیر قرون کا تعامل بھی دال ہے۔
2۔اگر محکوم امام تھے تو ہدایت کے امام تھے۔کیونکہ ان کا امام ہونا تو ثابت ہے لیکن بیعت لینا ثابت نہیں۔(عربی)
3۔اگر آیت کریمہ(عربی) کی طرف غور کیا جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کو اللہ تعالیٰ نے امام کہاتھا تو وہ نمرود کے محکوم نہ تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امامت کا عہدہ تب دیا ہے جب ابتلاء میں پورے اترے اور بعد ابتلاء کے ابراہیم علیہ السلام نمرود کی سلطنت سے ہجرت کرگئے تھے ۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ"(عربی)" ملاحظہ ہو ابن کثیر وغیرہ۔
اس کے علاوہ بعض روایات میں ہے:
یعنی سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے خطبہ پڑھا ہے اور سب سے پہلے قاصد بھیجا اور سب سے پہلے تلوار چلائی۔"(تفسیر ابن کثیر جلد اول)
اس روایت سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اسوقت محکوم نہ تھے۔ چنانچہ قاصد بھیجنا اور تلوار چلانا اس پر دلالت کرتا ہے۔
اعتراض ثالث:
اگر کوئی کہے کہ(عربی)سورہ سجدہ میں ہے کہ"ہمنے بنی اسرائیل میں امام بنائے وہ ہدایت کرتے تھے میرے حکم کے ساتھ۔"
جواب:۔یہ بھی ہدایت کے امام تھے۔جیسے ہدایت کالفظ اس پر دلالت کرتاہے۔
6۔7۔بغیر بعیت کے وعید یا جاہلیت کی موت کب؟
اعتراض:۔
جب بیعت بغیر امام بادشاہ کے جائز نہیں ہے اور نہ ہی ہندوستان میں امام بادشاہ موجود ہے تو تمام مسلمان جاہلیت کی موت مرے۔کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ:
یعنی"جو شخص بغیر بعیت امام کےمرا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔"
جواب۔انسان گناہ گار تب ہوسکتا ہے جب گناہ سے بچنے کی طاقت ہو دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔:
یعنی"اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اتنی تکلیف نہیں دیتا جو وہ برداشت نہ کرسکے"
اب چونکہ اس ملک میں امام بادشاہ موجود نہیں ہے تو بیعت کس سے کریں؟بتلایئے جو لوگ حبشہ میں تھے ان میں جو بغیر بیعت کے فوت ہوگئے اور نجاشی بھی بغیر بعیت کے فوت ہوگئے کیا یہ سب جاہلیت کی موت مرے؟معاذاللہ ،ہرگز نہیں!۔۔۔اور اویس قرنی ؒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں آئے،تو کیااتنی مدت وہ بے بعیت رہنے کی وجہ سے کسی وعید کے مستحق ہوئے؟ہرگز نہیں!۔۔۔وہ  تو ایسے بزرگ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بہترین  تابعین فرمایا۔اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنھم اجمعین  کو فرمایا کہ"جب تم اس کو ملو تو ا س سے اپنے لئے بخشش کی دعا کراؤ۔"ملاحظہ ہو مشکواۃ ص581 باب ذکر الیمن والشام وزکر اویس القرنی الفصل الاول:
علازہ ازیں حذیفہ بن یمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں ہے،فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے:
"لازم پکڑ جماعت مسلمین کو اور ان کے امام کو"پھر کہا میں نے (حذیفہ نے)"پس اگر نہ ہووے جماعت اور امام؟"تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے،" دور رہ ان تمام فرقوں سے اور اگرچہ چک مارے تو درخت کی جڑ پرحتیٰ کہ فوت ہوجاوے اور تو اُسی پر ہو۔"

یعنی کسی سے بیعت مت کر۔اگر مسلمانوں کا امام بادشاہ نہ ہووے،خواہ یہاں تک نوبت پہنچے کہ تجھ کو درخت کھانا پڑے۔یہ مطلب نہیں کہ درخت ضرور کھا۔جو یہ مطلب بیان کرتے ہیں وہ غلط ہے ۔کیونکہ یہ حدیث کے لفظوں میں نہیں۔

مزید سنئے ! کہ سعد بن عبادہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور خزرج کے سردار ہیں بیعت عقبہ۔جنگ بدر۔جنگ احد۔بیعت رضوان میں شریک ہوئے اور نقباء سے ہیں۔چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ اصابہ میں فرماتے ہیں:(عربی)"یعنی اس کا بدری ہونا امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے ،اور تہذیب التہذیب میں ہےکہ(عربی)" اور ان مقامات میں شریک ہونے والوں کےلئے قرآن وحدیث میں بڑی خوشخبریاں آئی ہیں۔اورحضرت ابو بکر صدیق اکبر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی اور اسی حالت میں فوت ہوگئے۔(ملاحظہ ہوکتب مذکور)

۔۔۔بتلایئے اتنے بڑے صحابی کیاجاہلیت کی موت مرے؟ہرگز نہیں،بلکہ اس سے معلوم ہوگیا کہ کسی غلطی کیوجہ سے جاہلیت کی موت نہیں مرتا۔علاوہ ازیں امام حسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یزید کی بیعت نہیں کی یہاں تک کہ میدان کربلا میں شہید ہوگئے اس لئے معلوم ہوا کہ اما م کو دیکھ کر بیعت کرنی چاہیے اگر اس کی امامت میں نقص ہوتو بیعت نہ کرنے والا جاہلیت کی موت نہیں مرتا۔چہ جائیکہ جھوٹا امام ہو،جیسے آج کل محض زکواۃ کی وصولی کے لئے امام بناتے ہیں۔خدا ان سے بچا رکھے ۔آمین ثمہ آمین!اور بعض لوگ یہ حدیث پیش کرتے ہیں:
کہ"جب تو کسی شہر  میں گزرے اور اس شہر میں سلطان نہ ہووے پس اس میں مت داخل ہو کیونکہ سلطان سایہ ہے اللہ کا اور نیزہ ہے اس کا۔"
یعنی جب مسلمانوں کا بادشاہ نہ ہووے تو شہرمیں مت رہو۔
جواب۔یہ استدلال غلط ہے کیونکہ سلطان کالفظ غیر مسلم اور مسلم دونوں پر بولاجاتاہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واسطے منع فرمایا ہے۔ کہ جہاں کوئی انتظام نہیں ہوتا وہاں جان ومال کا خطرہ ہوتا ہے ۔اور اگر مسلم مراد ہو تو لازم آتا ہے۔کہ جو صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  تجارت وغیرہ کے لئے غیر ملکوں میں جاتے رہے انہوں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کیا۔بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو حبشہ کی طرف ہجرت  کی اجازت دی۔نیز صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ہاتھ کافر بادشاہوں کو خطوط بھیجے۔پس معلوم ہواکہ سلطان کا لفظ عام ہے۔ ہاں اگر داخل نہ ہونے یہ مراد ہو کہ تمیں کوشش کرنی چاہیے۔ کہ ہر شہر میں حکومت اسلامی قائم ہو جائے تاکہ ایسے شہر میں داخل ہونے کی نوبت نہ آوے جہاں ٖغیر مسلم حاکم ہو ، تو اس  صورت میں بے شک مسلمان بھی مراد ہوسکتا ہے۔دیگر حدیث میں نکلنے کا کوئی لفظ نہیں ہے۔
8۔زکواۃ بغیر خلیفہ وقت کی اجازت کے ادا ہوجاتی ہے یا نہیں؟
بالفرض اگر امام بیعت یہاں موجود ہو تو بھی زکواۃ بغیر اجازت امام کے ہوسکتی ہے۔چہ چائیکہ امام موجود ہی نہ ہو۔ایسی حالت میں زکواۃ کے ادا ہونے میں کیاشبہ ہوسکتا ہے؟
دلیل:"موضع سکون نجیب قوم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد آیا اور وہ 13 آدمی تھے،مع زکواۃ اپنے مال کے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور ان کی عزت کے ساتھ مہمانی کی اور کہا انہوں نے"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" ہم اپنے مالوں کی زکواۃ لائے ہیں"پس فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے غربا ء سے بچ گیا ہے وہ لائے ہیں"کہا ابوبکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" ایسا عرب سے کوئی وفد نہیں آیا۔"پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ،"بے شک ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے ایمان کے لئے اس کا سینہ کھول دیتا ہے۔"
اس حدیث سے دو مسئلے ظاہر ہوگئے۔اول بغیر اجازت امام کے زکواۃ ادا ہوجاتی ہے ثانی پہلے اپنے غرباء کا حق ہے اس میں امام کی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس کی تائید حدیث ذیل سے بھی ہوتی ہے:"عمران بن حصین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو عامل بنایا گیا ،جب وہ واپس آئے،کہاگیا کہ " ماں کہاں ہے؟"انہوں نے فرمایا کہ مجھے مال کے واسطے بھیجا گیاتھا ۔لیا ہم نے اس کو جہاں سے لیتے تھے ۔عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں' اور رکھا ہم نے  اس کو جہاں رکھا کرتے تھے۔"
اس حدیث سے بھی ثابت ہوگیا کہ جو مصارف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلائے ہیں،وہاں ہی زکواۃ ادا کرنی چاہیے اور کسی امام کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ہوچکی ہے۔اور اگر کوئی امام کہے کہ غرباء کو بھی میری اجازت کے بغیر مت دو تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف ہے۔۔۔اور ان دو نوں حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا یہ فرمانا کہ (عربی)[1] یہ اس صورت میں ہے جب لوگ زکواۃ کے مسئلے سے انکار  کردیں جیسے لوگ نماز نہ پڑھیں تو امام زبردستی نماز پڑھوائے گا لیکن اگر پڑھیں تو اجازت کی ضرورت نہیں ہے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسی بناء پر ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا تھا کہ (عربی)[2] اور جو اس حدیث میں ہے کہ: (عربی) یہ وہ مال تھا  جو زکواۃ دینے والوں کے غرباء سے بچتاتھا ۔جیسا وفد نجیب کے قصہ سے ظاہرہے۔ اور عمران بن حصین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث بھی اس کی موئید ہے۔اوراگر کوئی اور حدیث ہو جس میں صدقہ کازکر،والیوں کی طرف رد کرنے کا ،ہوتو وہ بھی اسی پر محمول ہے۔
9۔پیری مریدی کی بیعت کا کیاحکم ہے؟
مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوگیا کہ پیری مریدی کی بیعت کا کوئی اصل نہیں ہے۔کیونکہ خیر قرون میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔بلکہ جہاں بعیت کا ذکر ہے،بادشاہی حیثیت کے ساتھ ہے،خواہ بیعت توبہ ہو یاغیرتوبہ۔اسی میں عورتوں کی بیعت بھی آگئی محکوم کے ہاتھ پر بیعت خیر قرون میں ثابت  نہیں ہے پس اس سے بچنا چاہیے۔ 

مقالات                                                    جناب محمدسمیع اللہ (اسلام آباد)

عمامہ اور اتباع سنت علمائے کرام سے خصوصی التماس

(عربی)

حضرت عبادہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"عمامہ(پگڑیاں) باندھنا تم لازم پکڑو کیونکہ یہ فرشتوں کی علامت ہے اور ان کے شملے اپنی پشت کے پیچھے چھوڑ دو۔"

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

1۔(عربی)

2۔(عربی)

"اور جو دے تم کو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سو لے لو،اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو۔"

اس عریضہ میں میں خود طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بھولی بسری سنت یعنی عمامہ کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں جو کہ عام مسلمانوں کا کیا کہنا ،علمائے کرام تک کی ایک عظیم اکثریت نے ترک کردی ہے۔حالانکہ اس پر آشوب دور میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں مٹ رہی ہیں۔ان کو از سر نو جاری وساری کرنا یا زندہ کرنا تجدید ایمان اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کااولین تقاضا ہے۔اس ضمن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے:

(عربی)

"حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جس نے میری سنت کے مطابق عمل کیا میر ی امت کے بگڑنے کے وقت اس کے لئے سو شہید کاثواب ہے،ایک اورحدیث میں ارشا د ہے؛

(عربی)

"جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔"

نیز ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

(عربی)

"حضرت انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا۔یہاں تک کہ میں اس  کے لئے اس کے باپ اور اس کی اولاد اور سب آدمیوں کی نسبت زیادہ پیارا ہوجاؤں۔"(بخاری ومسلم)

عمامہ کا باندھنا سنت متواترہ ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمامہ باندھنے کا حکم اُوپر شروع کی حدیث میں نقل کیا گیا ہے۔چنانچہ ایک اور ارشاد ہے۔کہ"عمامہ باندھا کرو کہ اس سے حلم میں بڑھ جاؤ گے۔"(فتح الباری)

عمامہ کے نیچے ٹوپی رکھنا سنت ہے ۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو شملہ دونوں شاخوں کے درمیان چھوڑ لیتے تھے۔اور کبھی بے شملہ عمامہ باندھتے تھے۔(شمائل ترمذی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ کا شملہ ایک بالشت کے قریب چھوڑتے۔شملہ کی مقدار ایک ہاتھ سے زیادہ بھی ثابت ہے عمامہ تقریباً پانچ گز اور بعض روایات میں سات گز ہوتا تھا۔وصال کے وقت سیاہ عمامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر تھا اور اس کا شملہ دونوں شانوں کے درمیان تھا(خصائل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم)

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ لنگی (تہبند) باندھنے کی تھی۔پاجامہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایامگر احادیث میں اس کا پہننا ثابت نہیں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تہبند چار ہاتھ اور ایک بالشت لمبا تھا اور تین ہاتھ ایک بالشت چوڑاتھا۔(شمائل ترمذی)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "مسلمان کی لنگی آدھی پنڈلی تک ہونی چاہیے اور اس کے نیچے ٹخنوں تک میں بھی مضائقہ نہیں لیکن ٹخنوں سے نیچے جس قدر لنگی(یاشلوار) لٹکے گی وہ آگ میں جلے گا۔"(بخاری)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول صبح کے کھانے میں سے شام کے لئے بچا کررکھنے کا نہ تھا۔نہ شام کے کھانے میں سے صبح کے لئے بچانے کا تھا اور کوئی کپڑا ،کرتا ،چادر یالنگی یاجوتا دوعدد نہ تھے۔

سفید لباس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھا۔ارشادگرامی ہے:

"سفید کپڑے پہنا کرو اس لئے کہ وہ بہت پاک اور پسندیدہ ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔"(احمد،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ)

مناسب ہوگا کہ سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں وغیرہ میں سفید رنگ کی یونیفارم یعنی لنگی یا پاجامہ ،شلوار،کرتہ اور عمامہ کولازمی قرار دیا جائے۔تاکہ سادگی اور کفایت شعاری کا دور دورہ ہو اور جس کی بدولت حلاوت ایمان وحب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہو۔اس سے اسلامی تشخص کی نشوونما میں بھی مدد ملے گی۔اور تشبہ بالکفار کا خاتمہ ہوگا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

(عربی)

"جو شخص کسی قوم کی مشابہت کواختیارکرے وہ گویا اسی قوم میں سے ہے۔"

ہمارے ہاں سرڈھانپنے کے لئے دینی اورسماجی حلقوںمیں قراقلی ٹوپی (جناح کیپ۔یالیاقت کیپ) پہننے کا جو رواج چلا ہے اس میں نہ صرف تصنع ہے۔ بلکہ چمڑے کی صفائی میں کیمیائی اجزاء کے استعمال سے اس کا پاک ہونا بھی مشتبہ ہے۔علاوہ ازیں اس میں اسراف کا بھی پہلو ہے کہ اصلی قراقلی ٹوپی فی زمانہ پانچ سو روپے سے کم نہیں ملتی۔علاوہ ازیں قراقلی ٹوپی پہننے میں ظلم  کاعنصر پنہاں  ہے۔کہ نرم کھال حاصل کرنے کے لئے بھیڑ،بکری،کے نوزائیدہ بچے کو ذبح کردیا جاتا ہے۔ کہ جس کا گوشت بھی کھانے کے لائق نہیں ہوتا کسی بزرگ نے سچ کہاہے کہ جب سے قراقلی ٹوپی آئی ہے نمازوں میں خضوع وخشوع باقی نہیں رہا۔

اس لئے اشد ضروری ہے۔ کہ منبر ومحراب سے عمامہ کو رواج دینے اور مقبول عام بنانے کےلئے خواص  وعوام الناس کو اس کا احساس دلایا جائے تاکہ ہمارے معاشرے میں اس کی قدرومنزلت ہو اور اس کی نسبت کسی قومی لیڈر کی بجائے براہ راست سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو۔جن کے نورانی طریقوں میں ہماری دنیاوی واخروی کامیابی ہے۔اور جن کی ایک سنت مطہرہ اپنانے سے دوسری سنتوں کے اپنانے کے راستے کھل جاتے ہیں ۔تجربہ شاہد ہے کہ داڑھی رکھنے اور مونچھیں کٹوانے سے مغربی لباس ترک کرنا اور اسلامی وضع قطع اختیار کرنا آسان ہوجاتا ہے۔دل  میں اسلام کی عظمت آجاتی ہے۔بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کی فکر ہوتی ہے۔اور طبیعت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچنے کے  لئے چوکس ہوجاتی ہے۔

چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے:

(عربی)

"آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) فرمادیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو  تو تم لوگ میری اتباع کرو۔اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہ معاف کردیں گے اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے اور بڑی عنائیت فرمانے والے ہیں"(3)

ہمارے لئے مکمل اتباع کا نمونہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ کردیا ہے:

(عربی)

"درحقیقت تمہارے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخر کا اُمید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یادکرے۔"

مرد کے چہرے کی زینت داڑھی سے ہے اور سر کی زینت عمامہ سے ہے در اصل عمامہ سر کاتاج ہے۔اسے چھوڑناگویا تخت وتاج سے دستبردار ہونا ہے جو کہ ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہے۔

لہذا آئیے آج ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بھولی بسری سنت کو زندہ کرکے سو شہیدوں کے ثواب کے مستحق بنیں۔

علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب کہا ہے:۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

درج زیل ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر غور وفکر کے ساتھ یہ عریضہ ختم کرتا ہوں:

(عربی)

"حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری  سب اُمت جنت میں داخل ہوگی مگر جس نے انکار کیا۔''کہا کیا کس نے انکار کیا؟"جس نے میری اطاعت کی جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی پس اس نے انکار کیا۔"

آخر میں استدعا ہے کہ اس  عریضہ میں پیش کردہ گزارشات اور ترغیبی کلمات کو اپنے مقتدیوں طلباء اورسامعین تک پہنچائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں عمل کی  توفیق نصیب فرمائے۔جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزا

مقالات                                                   مولانا عبدالرحمٰن عزیز الٰہ آبادی

مقام فاروق پر شیعہ سنی اتحاد

نام ونسب اور منصب:

نام عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کنیت ابو حفص والد کا نام خطاب بن فضیل قریشی اور والدہ کا نام خنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھا۔مشہور روایات کے مطابق ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چالیس برس قبل پیدا ہوئے۔اور بروایت حضرت عمر و بن العاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت عمرفاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی پیدائش کے وقت غیر معمولی خوشی منائی گئی۔(تاریخ دمشق لابن عساکر)

ہوش سنبھالنے کے بعد والد نے اونٹ چرانے کی خدمت ان کے سپرد کردی شباب کے آغاذ میں شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے۔مثلاً نسب دانی،سپہ  گری ،شہ سواری،پہلوانی ،فن خطابت وغیرہ۔

علامہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ "جاعظ نے کتاب البیان والتبیین میں بالتصریح لکھا ہے کہ نسب دانی کا حق حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے خاندان میں موروتی چلا آتا تھا ۔حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ان کے باپ ،دادا تینوں بہت بڑے نسب دان تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے خاندان عدی میں سفارت اور فیصلہ ۔۔۔موروثی چلے آتے تھے جن کو سر انجام دینے کے لئے انساب کا جاننا ضروری تھا ۔"(الفاروق ص 14 مطبوعہ رنگین پریس دہلی)

"پہلوانی اور کشتی کے فن میں کمال حاصل تھا۔عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔شہسواری میں بھی ان کا کمال مسلم ہے کہ گھوڑے پراچھل کر سوار ہوتے تھے۔قوت تقریرمیں مہارت تامہ حاصل تھی اس لئے ان کو منصب سفارت سے نوازاگیا۔"(ایضاً)

ان جملہ فنون سےفارغ ہوتے ہی تجارت کو ذریعہ معاش گردانا اور یہی شغل ان کی بہت بڑی ترقیوں کاسبب ہوا۔بغرض تجارت دور دراز ملکوں میں جاتے اور معزز[1] لوگوں سے ملتے تھے۔بلند حوصلگی  تجربہ کاری اور معاملہ دانی جیسے اوصاف حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  میں موجود تھے۔گویا کہ ایک بہت بڑے تاجر بین الاقوامی شہرت کے مالک نامی پہلوان،گرامی شہسوار،مشہور سپہ گر،نامور مقرر ،امام النسب،تعلیم یافتہ ،شمشیر زن،معاملہ فہم،سفیر قریش شجاع ،صاحب مال واملاک  تجربہ کار اور جہاندیدہ تھے۔

ایمان عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ :

علامہ شبلی نعمانی نے (الفاروق ص15/1 مطبوعہ دہلی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص226/1 مطبوعہ لاہور میں ) ذکر کیا ہے کہ" حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ستائیسواں سال تھا کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوا اوراسلام کی صدا بلند ہوئی۔حضرت عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے گھرانے میں حضرت زید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی وجہ سے  توحید کی آواز پہنچی۔سب سے پہلے حضرت زید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے لخت جگر حضرت سعید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مشرف باسلام ہوئے،پھر حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ہمشیرہ  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا۔اسی گھرانے کے ایک شخص نعیم بن عبداللہ بھی مسلمان ہوچکے تھے۔مگرحضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے۔جب ان کے کانوں تک یہ صدا  پہنچی تو بہت برہم ہوئے۔حتیٰ کہ جولوگ قبیلہ میں سے ایمان لا چکے تھے ان کے سخت دشمن ہوگئے۔جس جس پر بس چلتاتھا ذدوکوب کرنے سے دریغ نہ کرتے تھے۔بے تحاشا مارتے جب تھک جاتے تو کہتے دم لے لوپھر ماروں[2] گا۔حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوارکمر سے سیدھے لٹکائے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف چلے۔کارکنان قضا وقدر نے کہا کہ ۔ ع

آمدم آں یارے کہ مامی خواستیم

راستہ میں نعیم بن عبداللہ سے ملاقات ہوئی۔تیور دیکھ کر نعیم بن عبداللہ بن اسید نے کہا،"عمر کہاں کا ارادہ ہے؟"جواب دیا،"محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فیصلہ کرنے جارہا ہوں اس نے قریش کے باشعور لوگوں کو بیوقوف  گردانا ہے۔اور ہمارے معبودوں کی شان میں نازیبا کلمات کہے ہیں۔"نعیم نے کہا،" پہلے اپنے گھر کی خبر لو،سعید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور فاطمہ  رضی اللہ عنہا ایمان لاچکے ہیں۔"حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غصہ اور تیز ہوگیا،بولے،"نعیم اگر مجھے یقین ہوجائے کہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہو تو تم ہی سے آغاز کروں!"یہ کہہ کر فوراً پلٹے اور فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت خطاب  اپنی بہن کے گھر پہنچے۔وہ قرآن پڑھ رہی تھیں،آہٹ پا کر خاموش ہوگئیں اور قرآنی اجزاء چھپا لئے۔مگر آواز حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے کانوں میں پڑ چکی تھی۔حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی ہمشیرہ سے دریافت کیا کہ یہ کیا پڑھ رہی تھیں؟"بہن نے کہا،"کچھ بھی نہیں؟بولے" میں سن چکا ہوں ،تم دونوں مرتد ہوچکے ہو"یہ کہہ کر بہنوئی سے دست گریبان ہوئے ۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر کی امداد کے لئے آگے بڑھیں توحضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ان کو بھی خوب مارا یہاں تک کہ ان کا بدن لہولہان ہوگیا ۔اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا "اے عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جو بن آئے کرو لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا"ان الفاظ نے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دل پرگہرا اثر کیا۔محبت بھری نگاہ سے بہن کو دیکھا ۔خون جاری دیکھ کر اور بھی رقت پیدا ہوگئی،کہنے لگے،"جو کچھ تم پڑھ رہے تھے مجھے بھی سناؤ۔" حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اجزاء قرآن لا کر سامنے رکھ دیے۔اٹھا کردیکھا تو یہ سورۃ تھی"(عربی) ایک ایک لفظ پر حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا دل مرعوب ہوا جا تاتھا۔جب اس آیت پر پہنچے(عربی) تو بے اختیار پکار اٹھے۔(عربی) کلمہ شہادت سنتے ہی جو لوگ مکان میں پوشیدہ تھے باہر آگئے۔اور جوش مسرت میں نعرہ تکبیر بلند کیا ۔پھرکہااے عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تمھیں بشارت ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شنبہ کودعا کی تھی۔

(عربی)

"الٰہی ،عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام کے ذریعہ سے اسلام کو غلبہ دے!"

ہم سمجھتے ہیں وہ د عا آپ کے حق میں تھی ۔لہذا ہم سب کی طرف سے مبارکباد قبول فرمایئے!

مقبول احمد شیعہ رقمطراز ہیں:

شیعہ روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب رحیم سے حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی منظوری لی اور پسندیدہ دین کا غلبہ اور غیرت کا حصول ایمان عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں دیکھا۔چنانچہ شیعہ مجتہد مقبول احمدصاحب رقمطراز ہیں:

(عربی)

"عیاشی نے حضرت امام باقر ؒ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی ،"الٰہی تو عمر بن خطاب یا ابی جہل بن ہشام کے ذریعہ اسلام کو عزت وغلبہ عطافرما۔"(تفصیل کے لئے دیکھئے بحار الانوار کتاب السماء والعالم مجمع البیان طبرسی)

چنانچہ جب حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ایمان کا ہمیشرہ اور بہنوئی کو مکمل یقین ہوا تو ساتھ لے کردار ِارقم کی  طرف روانہ ہوئے جو کوہ صفا کی تلی میں واقع تھا۔حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے دروازہ پر پہنچ کر دستک دی،پوچھاگیا،"کون ہے؟"جواب ملا"عمر بن خطاب"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے دروازہ کھولنے میں تامل کیا۔حضرت امیر حمزہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا "آنے دو مخلصانہ آیا ہے تو بہتر۔بصورت دیگر اسی کی تلوار سے اسی کا سر قلم کردیا جائےگا۔"حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودآگے بڑھے اور حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا دامن پکڑ کر  فرمایا:"عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کس ارادے سےآئےہو؟"نبوت کی پُر رعب آواز نے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کوکپکپادیا۔نہایت خضوع کےساتھ عرض کی:"ایمان لانے کی غرض سے آیا ہوں!"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بے ساختہ اللہ اکبر پکاراٹھے اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے جووہاں موجودتھے،اس زور سے نعرہ  تکبیر بلند کیا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں۔"(مزید تفصیل انساب الاشراف بلازری ،طبقات ابن سعد اسد الغابہ تاریخ ابن عساکر کامل ابن اثیر الفاروق علامہ شبلی نعمانی  مطبوعہ رنگین پریس دہلی ص16 جلد اول میں دیکھئے)

نیادور:

حضرت عمرف  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے قبول اسلام سے دعوت اسلام ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔گوعرب کے مشہور بہادر حضرت امیر حمزہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بھی مشرف باسلام ہوچکے تھے۔مگر مسلمان اپنے  فرائض مذہبی  علانیہ  طور پرادا نہیں کرسکتے تھے۔اسلام عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بعد دفتعاً یہ حالت بدل گئی۔انہوں نے اپنا اسلام ظاہر کیا اور کعبۃ اللہ میں جا کر نماز ادا کی۔ابن ہشام نے بروایت ابن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ذکر کیا ہے کہ:

(عربی)

کہ"جب حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اسلام لائے تو قریش سے لڑے یہاں تک کہ کعبہ میں نماز ادا کی اور ہم نےبھی ان کے ساتھ نماز ادا کی۔"یہ واقعہ سن نبوت کے چھٹے سال میں وقوع پزیرہوا۔

غزوات حیدری:

غزوات حیدری میں ہے کہ"جب دروازہ کھولا تو عمر بصد عذر خواہی خدمت رسالت میں پناہی میں حاضر ہوا۔ حضرت نے بعد از تلقین مراتب اسلام اس کو مرحبا کہا اور باعزاز پاس اپنے بٹھایا  تب حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عرض کی یا نبی اللہ اب ہم کو اجازت دیجئے اور بےتکلف فرمائیے  تاکہ حرم محترم میں جا کر آشکارا نماز پڑھیں اوراطاعت الٰہی بجماعت بجا لاویں۔ہرگاہ اصحاب فضیلت انتساب نے جماعت پر اتفاق کیا۔محبوب ایزد خلاق نے بھی شاداں وفرحاں طرف سجدہ گاہ آفاق کے قدم رنجہ فرمایا اورآگے سب کے عمر تیغ بکمر بجماعت وافراور پیچھے اصحاب بصد کروفرہنستے اور باتیں کرتے بے خطر داخل خانہ داور ہوئے۔یکبا رجدا حرم نے بصد افتخار ر اپنا بعرش کودگار پہنچایا۔کفار ناہنجار نے جس وقت یہ حال دیکھا اور جاہ وجلال یاوران نیک افعال کااس مرتبہ مشاہدہ کیا اور اس نے خودسر نے عمر کے آکےکہا کہ "اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ "یہ کیافتنہ دگر ہے اور اس گروہ شکوہ پر کیوں تیغ بکمر ہے؟" عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یہ بات سن کر پہلے اپنا اسلام ظاہر کیا اور بصد طیش کیا"ا ے نابکار،ہفوت شعار،اگرتم میں سے  اگرایک نے بھی اپنی جگہ سے حرکت کی یا کوئی بات بے جاز بان پر آئی۔بخدا لا یزال ایک کاسر بھی بدن پر نہ ہوگا"پس دلاوران دین اصحاب سید المرسلین مسجد میں آئے اورصف اسلام کو نبیت اقتداء جما کر برابر کھڑے ہوگئے۔خطیب مسجد اقصیٰ حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے قصد امامت کیا اورواسطے نیت نماز کے دست تابگوش پہنچایا۔

نبی گفت تکبیرچوں در حرم                         فتادندا صنام برروہے ہم

اور اہل شر یر ہر چند دیکھتے تھے لیکن کسی کو مجال مقادمت نہ تھی۔"(غزوات حیدری از شیعہ مجتہد زص 42 وقائع دوم)

ایمان عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عقل کی کسوٹی پر:

فریقین کے معتبر کتب سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   ترغیب وتبلیغ سے مشرف باسلام ہوئے۔لیکن حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو ایمان کے صحیح راستہ پر لانے کے لئے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مجیب الدعوات کی طرف رجوع کرنا پڑا۔خدائے ذوالمنن نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا(عربی)  کو شرف قبولیت بخشا حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بارگاہ نبوت میں حاضری دی۔دولت ایمانیہ سے مالا مال ہوئے اور علانیہ  طور پر کعبۃ اللہ میں نماز ادا کی۔اگرایمان عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  میں کمی،نفاق،یا طمع نفسانی کے دخول کا تصور ذہن میں لایا جائے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سعی وکوشش اور خدائے ذوالمنن کی عطا وبخشش کے ضیاع اور رائیگاں ہوجانے کاخدشہ ہے۔پر طبع نفسانی کاسوال وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں خواہشات نفسانی کی تکمیل کےلئے ہر چیز موجود ہو۔مگر یہاں؟۔۔۔منافقانہ ایمان صرف حصول مال وزرا اور جاہ وحشمت کے لئے ہوسکتا ہے مگر اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملک عرب کے بادشاہ تھے۔نہ اقتداء ملک کی باگ ڈور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےہاتھ میں تھی نہ افواج قاہرہ نہ سامان حرب ،اس وقت تو مسلمان مجبور ومقہورسر چھپانے کے لئے پہاڑ کی تلی میں واقع دارارقم میں محصور تمام ملک عرب دشمن اور اہل عرب خون کے پیاسے جملہ مسلمانوں کی تعداد بشمول مردوزن 39 اور عرب کے باشندگان لاتعداد!۔۔۔پھر یہ کیسے باور کیا جاسکتاہے کہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جیسے تجربہ کار انسان صرف حصول مال وزر کے لئے ایمان لائے ؟فافہم وتدبر!(جاری ہے)

مقالات                                                   مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

قانون شہادت اوراسلام:

شہادت کا مفہوم اور تعریف:

لغوی لحاظ سے شہادت کامعنیٰ حاضر ہونا یا موجود ہونابھی ہے اور کسی چیز کا مشاہدہ کرنا بھی خواہ یہ مشاہدہ ظاہری آنکھ سے ہو یا بصیرت سے (مفردات) اورجب یہ لفظ ایک شرعی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ:

"وہ بات جو کامل علم ویقین سے کہی جائے خواہ یہ علم ویقین مشاہدہ بصر سے حاصل ہو یابصیرت سے!(مفردات امام راغب)

لیکن امام موصوف کی یہ تعریف بھی شہادت کے جملہ پہلوؤں کااحاطہ نہیں کرتی ۔کیونکہ شہادت یہ بھی ہے کہ کوئی بات یا بیان  کسی عدالت یا قاضی کے روبرو دیاجائے تاکہ کسی متنازعہ فیہ امر کو فیصل کرنے کے لئے یہ بیان ممد ثابت ہو۔

گویا شہادت کی بھی دو قسمیں ہوئیں ایک عینی شہادت جسے انگریزی میں witnessکہتے ہیں۔اور یہ لفظ عموماً چشم دید گواہ کے لئے آتا ہے۔اوردوسرے قلبی  شہادت جس میں عینی مشاہدہ ضروری نہیں ہوتا اور وہ بیان حاصل شدہ علم ویقین کی بناء پر دیا جاتا ہے۔جیسے کلمہ شہادت جس کے ذریعہ کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتاہے۔اس قلبی شہادت کو انگریزی میں عموماً EVIDENCE کہاجاتاہے۔یہ لفظWITNESS سے زیادہ ابلغ اور وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔اور کبھی WITNESS کے معنوں میں بھی آجاتا ہے۔

شہادت کی اہمیت:

اثبات دعویٰ کے چارشرعی طریقوں میں سے ایک اہم طریقہ شہادت ہے۔اور یہ چار طریقے بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔اقرار مدعا علیہ۔2۔شہادات ازطرف مدعی۔3۔مدعا علیہ کے انکار کی صورت میں قسم اور 4۔قرائن

شہادت کی اہمیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الفاظ میں واضح فرمایا:

(عربی)

کہ"اگر لوگوں کے دعویٰ ہی کی بنا ء پر ان کے مطالبات پورے کئے جائیں تو لوگ خون اوراموال کے بہت زیادہ مقدمات دائر کردیں۔لہذا شہادت یا بار ثبوت مدعی کے ذمہ ہے اور مدعا علیہ پرقسم ہے۔"

ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:

(عربی)

جبکہ ایک  تیسری روایت کے الفاظ یوں ہیں:

(عربی)

ان تینوں روایات کامطلب ایک ہی ہے۔ان روایات سے درج ذیل نتائج مستنبط ہوتے ہیں:

1۔باہمی حقوق کے جھگڑوں اورمقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے مدعی کے لئے شہادات مہیا کرنا ایک نہایت اہم ضرورت ہے۔

2۔مدعی خواہ کتناہی متقی اور راست باز کیوں نہ ہو اورمدعا علیہ خواہ کیسا ہی فاسق وفاجر یاکافر ہو،صرف مدعی کے بیان پر اس کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔جس کی واضح مثال یہ واقعہ ہے کہ جب حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی زرہ ان کے اپنے دور خلافت میں ایک یہودی نے چُرالی تو حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جیسے راستباز اور خلیفہ وقت کوبھی اپنا مقدمہ عدالت میں پیش کرنا پڑا اور یہودی کے مقابلہ میں اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے گواہ پیش کرنا پڑے۔

3۔شہادت کی فراہمی ایک ذمہ د اری ہے جو مدعی پر ہے اور یہ ایک حق بھی ہے اور یہ حق مدعی کا ہی ہے مدعا علیہ کا نہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ مدعی دعویٰ کرے تو مدعا علیہ اس کے برخلاف شہادات مہیا کرکے دعویٰ خارج کرادے۔

4۔البتہ قسم مدعا علیہ کاحق ہے۔مقدمہ زیر نزاع کے اقدامات اس طرح ہوتے ہیں کہ مدعی کے دعویٰ دائرکرنے پر:

(الف) اگر مدعا علیہ اس کا اقرار کرلیتا ہے تو دعویٰ ثابت ہوگیا اور یہ اثبات د عویٰ کی سب سے بہتر صورت ہے۔

(ب) اگر مدعا علیہ اقرار نہیں کرتا تو پھر مدعی کو شہادات فراہم کرنا ہوں گی۔اگر وہ اس میں کامیاب ہوجائے اور معتبر شہادات مہیا کردے تو بھی مدعی کا دعویٰ ثابت اور فیصلہ اس کے حق میں ہوجائے گا۔

(ج) اگر مدعا علیہ اقرار بھی نہیں کرتا اور مدعی معتبر شہادات فراہم کرنے سے قاصر  رہا ہے تو پھر مدعا علیہ اپنے بیان پر قسم اٹھائے گا۔اوردعویٰ خارج ہوجائےگا۔

(د) قطع نزاع کے لئے دوران مقدمہ قرائن سے مدد اور راہنمائی حاصل کرنا قاضی کا کام ہے۔

شہادت اور اقرار کا فرق:

اقرار بھی در اصل شہادت ہی کی ایک قسم ہے۔اقرار اس شہادت کو کہتے ہیں جو مدعا علیہ اپنے خلاف بیان دیتا ہے۔اور قرآن میں شہادت کالفظ ان معنوں میں بھی آیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(عربی)

"وہ (کافر قیامت کے دن) کہیں گے ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار[3] ہے۔ان لوگوں کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھاتھا اور اب خود اپنے اُوپر  گواہی دی کہ وہ کفر کرتے رہے تھے۔"(ترجمہ فتح محمد جالندھری)

اوردوسرے مقام پر ہے

(عربی)

"اے ایمان والو ،عدل وانصاف کے پابند رہو اور اللہ کےلئے گواہی دو خواہ وہ اپنے ہی خلاف کیوں نہ پڑے اورخواہ تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہو۔"

شہادت اور اقرار میں  دوسرا فرق یہ ہے کہ اقرار کااثر صرف مقر کی ذات تک محدود ہوتا ہے۔جبکہ گواہی دوسرے پراثر انداز ہوتی ہے اس کی وضاحت اس مثال سے سمجھئے کہ چند افراد پرقرض کا دعویٰ کیا گیا۔اب ان میں سے ایک دو نے اپنے قرض کا اقرار کرلیا۔مگر باقی افراد نے اقرار نہیں کیا۔تو جن لوگوں نے اقرارکیا ہے۔ان کا اقرار اپنی ذات تک محدود رہے گا۔لیکن جب مدعی اپنے دعوے کے ثبوت میں گواہ پیش کردے تو اس کااثر تمام مدعا علہیان پر یکساں ہوگا۔

اور تیسرا فرق یہ ہے کہ مقر اگر حقوق العباد میں اقرار کرتا ہے تواس اقرار سے پھر نہیں سکتا۔لیکن حقوق اللہ میں اگر اقرار کے بعد انکار کردے تو اس کا یہ انکار  جمہور علماء کے نزدیک معتبر ہے۔اور اس سے حد شرعیہ ٹل جائے گی۔کیونکہ انکار کے بعد کئی طرح کے شکوک واحتمالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔جبکہ شہادت سےکوئی شاہد کسی صورت میں بھی منحرف نہیں ہوسکتا۔

گواہی دینے کا حکم:

کسی شخص کےجائز حق کوثابت کرنے کے لئے عندالطلب گواہی دینا نہایت ضروری ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(عربی)

"اور گواہوں کو جب طلب کیا جائے تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے۔"

ایک دوسرے مقام پر  فرمایا:

(عربی)

"اورگواہی کو چھپاؤ نہیں۔اور جوا سے چھپائے تو اس کا دل گناہگار ہے۔"

شہادت کو چھپانا شہادت نہ دینے سے بھی بڑ اگناہ ہے۔جوشخص عدالت میں  تو چلا جاتا ہے۔ اور سب کچھ جاننے کے باجود حقیقت حال کو ظاہر نہیں کرتا وہ اس شخص سے زیادہ مجرم ہے۔جو نہ عدالت میں جاتا ہے اور نہ ہی گواہی دیتا ہے۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ عدالت میں جا کر اگر اس نے سچ بات نہیں بتلائی تو کم از کم جھوٹ بھی تو نہیں بولا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتمان شہادت کو بھی جھوٹی شہادت کے برابر قرار دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

(عربی)

"جس شخص نے گواہی کو اس وقت چھپایا جب اسے گواہی دینے کے لئے کہاگیا تو وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے جھوٹی گواہی دی۔"

جبکہ سچی گواہی کوترغیب دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(عربی)

" کیا میں  تمھیں ایسے گواہ کی خبر نہ دوں جو سب سے زیادہ بہتر ہے؟ایسا گواہ وہ ہے جوطلب کرنے سے پہلے ہی گواہی دےدے۔"

مگر ایسی گواہی صرف اس شخص کے حق میں ہو جو کمزور ہو اور اس پر علانیہ ظلم ہوتا دیکھ رہاہو۔اور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسی گواہی دینا مشہود علیہ کو اپنا دشمن بنانےکے مترادف اور بڑا جان جوکھوں کا کام ہے۔اسی لئے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گواہ کو "خیر الشہداء" کے لقب سے نوازا ہے۔

گواہی نہ دینے کا حکم:

حقوق العباد میں گواہی دینا بہتر ہے۔جبکہ حقوق اللہ جس میں کسی پر حد قائم نہ ہونے کا خطرہ ہو گواہی نہ دینا زیادہ بہتر ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(عربی)

جس نے کسی مسلمان (کے کسی جرم) پر پردہ ڈالا تو اللہ تعالیٰ دنیا اورآخرت میں اس ( کے جرائم) پر پردہ ڈالے گا۔"

اسی طرح کسی چوہدری قسم کے آدمی کی محض حمایت حاصل کرنے کے لئے اس کے  کہنے پر اس کے حق میں گواہی دینایا بن بلائے ہی جا کر گواہی دینا سخت مذموم فعل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(عربی)

"جو شخص کسی قوم کے ساتھ اسی لئے چلتا ہے کہ لوگ اسے گواہ سمجھیں حالانکہ وہ گواہ نہیں ہے۔تو وہ اس شخص کی مانند ہے جو جھوٹی گواہی دیتا ہے۔"ایک موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(عربی)

بہترین زمانہ میرا دور ہے،پھر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا پھر تابعین ؒ کا۔پھر اس کے بعد ایک ایسی قوم آئےگی جو موٹاپے کو  پسند کرے گی۔خوردونوش کے دلدادہ ہوں گے اور گواہی طلب کئے بغیر گواہی دیتے پھریں گے۔"

جھوٹی گواہی کا گناہ:

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جھوٹی گواہی دینے سے منع فرمایاہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(عربی)

"اور وہ مسلمان جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔"

شہادت کے سلسلہ میں اللہ نے کذب کی بجائے"زُور" کا لفظ استعمال فرمایا،جو کذب سے زیادہ ابلغ ہے۔کذب یہ ہے کہ کوئی بات خلاف واقعہ بیان کی جائے۔اور "زُور" میں یہ بات بھی شامل ہے۔کہ واقعہ کی نوعیت کو تو نہ بدلاجائے لیکن اسے اسی طرح توڑموڑ کر یاایچ پیچ ڈال کر بیان کردیا جائے کہ اس سے مدعی یا مدعا علیہ کے حقوق متاثر ہوئے ہوں۔بالفاظ دیگر ہم اسے فریب ودجل کا جھوٹ یا بدترین جھوٹ کہہ سکتے ہیں۔

حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا:

"لوگو،سن لو!جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے۔"

پھر دلیل کے طور پر یہ آیت پڑھی:

(عربی)

"اور جھوٹے گواہ کی سزا کے متعلق آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"قیامت کے دن جھوٹے گواہ کے قدم کہیں نہ ٹک سکیں گے،حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے دوزخ واجب کردےگا۔"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض سنی سنائی بات کو آگے بیان کرنے سے بھی منع فرمادیا پھر اس طرح کی سنی سنائی بات کے مطابق عدالت میں گواہی دینا تودور کی بات ہے،ارشاد  گرامی ہے:

(عربی)

"کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہرسنی سنائی بات کوآگے بیان کردے۔"

گواہی کی صحت کی شرائط:

گواہی کی صحت کے لئے کچھ شرائط ایجابی ہیں۔مثلاً:

1۔ایک مسلمان ہو:

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک اعرابی کو جس نے نیا چاند دیکھا تھا گواہی دینے  کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایاگیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:

(عربی)

"کیا یہ بھی گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں؟"

اعرابی نے کہا،"ہاں!"اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کی گواہی قبول فرمائی۔(نسائی ۔کتاب الصیام۔باب شہادۃ رجل واحد)

اس شرط میں استثناء یہ ہے کہ اگر لین دین کے معاملات یعنی مالی مقدمات میں دو مسلمان گواہ  میسر نہ آسکیں۔جیسے حالت سفر میں کسی مسلمان کی موت کے وقت ۔تو غیر مسلموں کو بھی گوارا کیا جاسکتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(عربی)

"اے ایمان والو،جب تم میں سے کوئی قریب مرگ ہو اور وصیت کرنا چاہے تو دو دیہانت دار گواہ بنا لو جو تم میں سے (مسلمان) ہوں(اوراگر نہ مل سکیں)تو  غیر مسلموں کو ہی گواہ بنا لو۔"

2۔عادل ہو:گواہ کا عادل ہونا بھی ضروری ہے۔قرآن مجید میں جہاں بھی گواہی دینے کا ذکرآیا ہے۔تو ساتھ ہی عدل کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔جیسا کہ اُوپر کی آیت سے بھی واضح ہے ۔ایک دوسرے مقام پرطلاق کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(عربی)

"اور مسلمانوں میں سے دو صاحب عدل گواہ بنا لو۔"

صاحب عدل گواہ کو ہم اپنی زبان میں معتدل گواہ کہتے ہیں۔یعنی ایسا بالغ شخص  جس کے حواس خمسہ اور اور بالخصوص قوت مشاہدہ ٹھیک ٹھاک ہو۔قوت بیان بھی درست ہو۔قوت حافظہ بھی رکھتا ہو۔اور بحیثیت راستباز ہونے کے اچھی شہرت رکھتا  ہو بالفاظ دیگر عادل میں دو باتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔

1۔ثقاہت ۔2۔حفظ وضبط۔

ان ایجابی شرائط کے علاوہ سلبی شرائط درج ذیل ہیں:

3۔تا۔5۔۔۔۔بچہ ،مجنون یامجبور نہ ہو۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

(عربی)

"تین قسم کے لوگوں کی بات اعتبار نہیں1۔بچہ یعنی نابالغ۔2۔مجنون۔ یا۔پاگل۔3۔اور مجبور شخص۔"

لہذا پابند سلاسل مجرم کا اقرار یا شہادت معتبر قرار نہیں دی جاسکتی۔جیسے کہ پولیس کی مار دھاڑ کے ڈر سے ملزم کا اقرار یاشہادت کوئی وقعت نہیں رکھتی۔

6۔قاذف:

قاذف (زنا کی تہمت لگانے ،پھر اسے ثابت نہ کرسکنے والے) کی گواہی مردود ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(عربی)

"اور جو لوگ پرہیز گار عورتوں پر بدکاری کاعیب لگائیں  پھر اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارو اور آئندہ کبھی ان کی شہادت کو مت قبول کرو۔"

7۔جس گواہ کی کوئی پہلی گواہی عدالت میں جھوٹی ثابت ہوچکی ہو،اس کی گواہی بھی آئندہ کے لئے مردود قرارپائے گی۔حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

(عربی)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کی گواہی کومردود قراردیا جو پہلے کسی معاملے میں جھوٹی گواہی دے چکا تھا۔"

8تا10۔زانی اور  زانیہ خائن اورخائنہ ،نیز ایساشخص جس کی مشہود علیہ کے ساتھ کوئی سابقہ پرخاش یا دشمنی ہوتو ایسے تینوں اشخصاص کی شہادت بھی مردود قرارپائے گی۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

(عربی)

"خائن ،خائنہ۔زانی زانیہ اور اس شخص کی بھی شہادت قبول نہیں جواپنے بھائی (مشہود علیہ) سے دشمنی رکھتا ہو۔"

11۔جائے واردات یا وقوعہ سے کسی دور رہنے والے شخص کی شہادت بھی قابل قبول نہیں۔کیونکہ اس میں زیادہ احتمال شنید کا ہوتا ہے۔مشاہدہ کا نہیں ہوتا۔ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

"کسی دیہاتی کی کسی شہری کے حق میں گواہی قبول نہیں۔"(ابو داؤد مع عون ج3ص 336)

12 تا 15۔دو ایسے افراد جن میں ایک سے دوسرے کی تربیت کا تعلق ہو،ان کی بھی ایک دوسرے کے حق میں گواہی ناقابل قبول ہے۔مثلاً:

12۔باپ کی بیٹے کے حق میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور  اس کے برعکس

13۔عورت کی شوہر کے حق میں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے برعکس

14۔غلام کی آقا کے حق میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے برعکس

15۔مزدور کی مالک کے حق میں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے برعکس

ایسی سب شہادات ایک دوسرےکے حق میں ناقابل قبول ہیں۔(السنن الکبریٰ بہیقی مطبوعہ حیدر آباد دکن ج10)

چنانچہ ایک یہودی نے حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی زرہ چوری کی تو آپ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو معلوم ہوگیا اور آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے قاضی شریح کی عدالت میں اس یہودی کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔  ساتھ ہی اپنے دعوے کے ثبوت میں حضرت حسن  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اوراپنے ایک غلام کو بطور گواہ پیش کیا۔توقاضی شریح نے ان دونوں گواہیوں کو مسترد قرار دے کر مقدمہ خارج کردیا۔

(اس بے مثال قسم کے عدل وانصاف کودیکھ کر یہودی نے از خود زرہ حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو واپس کردی اور مسلمان بھی ہوگیا)

مندرجہ بالا شرائط تو وہ ہیں جو کتاب وسنت میں مذکور ہیں پھر انہی آیات وروایات سے استنباط کرکے فقہاء نے چند مزید شرائط کااضافہ کیاہے۔مثلاً:

16۔مرتد کی گواہی۔خواہ وہ اعتقاداً مرتد ہو یا عملاً کیونکہ مرتد مسلمان نہیں بلکہ منافق اور بدترین قسم کا کافر ہوتا ہے۔

17۔فاسق تارک صلواۃ ۔سودخور۔اورکبائر کےمرتکب کی گواہی بھی مردود ہے۔(قدوری کتاب الشہادات ۔نور الہدایہ ج3 ص73)

18۔کسی ذاتی منفعت کی بناء پر گواہی دینے والے کی گواہی بھی مردود ہے۔

19۔عادی یا پیشہ ورگواہ کی گواہی بھی ناقابل قبول ہے۔

مندرجہ بالا قسم کے گواہوں گواہی عدالت مجاز تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہے۔لیکن جب ایسے گواہ میسر نہ آئیں اور کسی حقدار کا علانیہ حق غصب ہو رہا ہوتو قاضی اپنی صوابدید کے مطابق اضطراری طور پر گواہی قبول کرسکتا ہے۔

یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔کہ اگر (مثلاً)زنا کا جرم شہادتوں کے ذریعہ ثابت ہونا تقریباً ناممکن ہے تو شریعت نے ایسی شہادتوں کو مقرر کیوں کیا؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شریعت نے جہاں احکامات حجاب اور بعض دوسرے احکام کے ذریعہ فحاشی اور زنا کے تمام دروازوں کاسد باب کیا ہے۔وہاں یہ آئینی شہادتیں اور ان شہادتوں پر ایسی کڑی پابندیاں بھی اثبات جرم کے لئے نہیں بلکہ فحاشی کے سدباب کے لئے مقرر کی ہیں۔چنانچہ سورہ نور میں جہاں ان گواہیوں کا ذکر ہے وہاں اس کی وجہ یہ بیان کردی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(عربی)

" جو اس بات  کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی (یعنی تہمت۔بدکاری کی خبر) پھیلے ان کو دنیا اورآخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا اور اللہ وہ کچھ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے۔"

غور فرمائیے کہ اگر زنا کی شہادت کا نصاب بھی 2 گواہیاں ہوتا اور ان گواہیوں پر ایسی کڑی پابندیاں بھی نہ ہوتیں تو کس قدر مقدمات عدالتوں تک پہنچ جاتے۔فحاشی کے تذکرے نجی سطح سے نکل کر  سرکاری سطح تک پہنچتے۔ان پر گرما گرم بحثیں ہوتیں اور لوگوں میں ایسی فحاشی کےتذکروں کے لئے دلچسپی کا سامان پیدا ہوجاتا جو مزید فحاشی پھیلانے کا ایک بڑا ذریعہ بن جاتا۔لہذا شریعت کا منشاء یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جگہ ایسی  فحاشی دیکھے یا اس کے علم میں آئے تو وہیں اس پر مٹی ڈال دے اور بات کوآگے نہ چلائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ:

(عربی)

"جس نے کسی مسلمان کے جرم پر پردہ ڈالا تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کے جرائم پر پردہ ڈال دےگا!"

ایسے ہی مواقع کے لئے ہے۔

رہی یہ بات کہ اگر شہادت سے مقصود ثبوت زنا نہیں۔اورگواہی دینے کی بجائے اس کو چھپانا بہتر ہے تو اس طرح معاشرے کو کھلا چھوڑ دینے پر معاشرہ میں فحاشی نہ پھیلے گی؟تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ:

1۔اگر کچھ باتیں یا افواہیں نجی سطح پر لوگوں میں پھیل بھی جائیں تو کچھ عرصہ بعد از خود نسیاً منسیاً ہوجاتی ہیں۔لیکن جو باتیں سرکاری سطح پر عدالتی ریکارڈ میں آجائیں وہ بقائے دوام کی صورت اختیار کرجاتی ہیں۔اور  یہ شریعت کا منشاء ہرگز نہیں۔

2۔شریعت کا منشاء یہ بھی نہیں کہ شہادت میں نرمی اختیار کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا جرم ثابت کیا جائے اورایسی شدید ترین سزائیں دی جائیں۔

3۔اقرار اور قرائن ایسےذرائع موجود ہیں جن کے زریعے معاشرےکو اس شدید جرم کی شدید سزا سے متنبہ  رکھاجاسکتا ہے۔مثلاً حمل کسی  کنواری کے  زنا کے لئے واضح قرینہ ہے۔پھر اسی زانیہ سے زانی کا پتہ چل سکتا ہے۔شادی شدہ ہونے کی صورت میں مرد کی طرف سے  دعویٰ اورعورت کا حمل پوا ثبوت مہیا کردیتے ہیں۔اورآج کل زنا کے قرائن کی بہت سی ایسی چیزیں ایجاد ہوچکی ہیں جن سے زنا کا واضح ثبوت مہیا ہوجاتا ہے۔

4۔اقراراورقرائن کا فائدہ یہ ہے کہ ان سے اثبات جرم تو ہوجاتا ہے۔ لیکن شہادتوں کی نسبت سے فحاشی بہت کم پھیلتی ہے ۔اب جتنے جرائم کااقرار وقرائن سے پتہ چل سکتا ہے۔اس سے زیادہ کا پتہ چلانا اور انہیں سزا دینا شریعت کا مقصود ہی نہیں۔

نصاب شہادت

1۔چار مردوں کی گواہی:

چار شہادتوں کی ضرورت صرف زنا کے معاملہ میں پیش آتی ہے۔(سورہ نور 24/4) زنا کی سزا چونکہ شدید ترین ہے۔اس لئے اس کی شہادت میں احتیاط بھی سب سے زیادہ ملحوظ رکھی گئی ہے۔اور وہ یہ کہ اس معاملے میں صرف عینی شہادت ہی قبول کی جاسکتی ہے ۔وہ بھی اس صورت میں  کہ  گواہ نے کسی عورت اور مرد کو محض ایک بستر میں ہی نہ دیکھا ہو بلکہ فی الواقع جماع کرتے دیکھا ہو۔ظاہر ہے کہ اس قسم کی چار شہادت کا میسر آنا انتہائی مشکل ہے لہذا دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صرف اقرار جرم کی بنیاد پر ہی زنا کی حد جاری کی  جاتی رہی ہے۔یا پھر اس سلسلے میں قرائن سے کام لیاجاسکتا ہے۔مثلاً کسی کنواری کو حمل ہوجانا اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ اس نے زناکیا ہے۔

جرم زنا کے گواہیوں کی بناء پر ثابت نہ ہوسکنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ زنا کے گواہ خود بھی در اصل گواہ کی حیثیت سے نہیں۔بلکہ مجرم کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں۔اگر ان چار گواہوں بیانات میں معمولی سا بھی تضاد واقع ہوجائے یا ثبوت جرم میں زرا سا بھی اشتباہ پیدا ہوجائے تو یہ گواہ خود قذف کے مجرم قرار پائیں گے۔اصل ملزمان توسزا سے  بچ جائیں گے لیکن ان گواہوں کوضرور سزا مل جائے  گی۔کیونکہ ان کاالزام عدالت میں ثابت ہوگیا۔ان دو وجوہ کی بناء پر زنا کا جرم شہادات کے ذریعہ ثابت ہونا  تقریباً نا ممکن ہے۔اقرار اورقرائن ہی اس  جرم کو ثابت کرسکتے ہیں۔

2۔تین مردوں کی گواہی:

افلاس کو ثابت کرنے اور اس بناء پر لوگوں سے سوال کے جواز کے لئے تین گواہیوں کی ضرورت ہے۔حضرت قبیصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بن مخارق اپنا واقعہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

"میں نے حمالہ(کسی دوسرے شخص کے قرضہ کی ضمانت) اٹھا لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا!

"اے قبیصہ،یہاں ٹھہرو۔صدقہ کا مال آئے گا تو ہم تجھے دیں گے۔"

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اے قبیصہ،تین شخصوں کے علاوہ کسی کو سوال کرنا جائزنہیں۔ایک وہ شخص جس پر قرضے یاضمانت کا بوجھ پڑگیا ہو،اور وہ اس کی ادائیگی سے معذور ہو(جیسا کہ خود حضرت قبیصہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا معاملہ تھا) وہ مانگ لے تاآنکہ اس کی رقم پوری ہوجائے پھر رک جائے!

دوسرا وہ شخص کہ ناگہانی آفت سے اس کا مال یا کھیتی ضائع ہوگئی اور وہ محتاج ہوگیا وہ اس حد تک سوال کرسکتا ہے کہ اپنے پاؤں پرکھڑا ہوسکے۔تیسرے وہ فاقہ زدہ آدمی جس کے متعلق اس کی قوم کے تین معتبر آدمی اس کی فاقہ زدگی پرشہادت دیں تو اسے سوال کرنا حلال ہے۔"(نسائی۔کتاب الذکواۃ)

دومردوں کی گواہی:

زنا کے علاوہ بقیہ حدود مثلاً قصاص،چوری،قذف وغیرہ میں دو مردوں کی گواہی شرط ہے۔طلاق کے معاملہ میں دو مردوں کی گواہی ضروری ہے(الطلاق:2) نکاح میں کم از کم دو مرد ہوسکتے ہیں۔جتنے زیادہ ہوسکیں بہتر ہے۔

4۔دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی:

مالی مقدمات مثلاً خرید وفروخت ،قرضہ ،لین دین،وراثت ،وصیت اورغصب وغیرہ کے معاملات میں دو مرد مل جائیں تو بہتر ہے۔اور اگر ایسا ممکن نہ ہوتو ایک مرد اوردو عورتوں کی گواہی سے بھی کام چل سکتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(عربی)

اور(قرضہ کی تحریر کے وقت) اپنے(مسلمان) مردوں میں سے دو گواہ بنالیا کرو۔اوراگر وہ میسر نہ آسکیں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے جنھیں تم بطور گواہ پسند کرو(یعنی وہ عادل ہوں)"

آیت بالا سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں:

1۔بہتر صورت یہی ہے کہ مالی مقدمات کے گواہ بھی دو مرد ہی ہوں۔کیونکہ عدالتوں میں جا کر گواہی دینا عورت کے دائرہ کار سے خارج ہے۔ ہاں اگر دوعادل مسلمان مرد میسر نہ آئیں تواضطراری صورت میں عورت کو بھی اس میدان میں لایا جاسکتا ہے۔جیسا کہ اضطراری صورت میں اگر مسلمان میسر نہ آئیں تو غیر مسلموں کو بھی گواہ بنایاجاسکتا ہے۔(المائدہ۔106)

2۔دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔"اور ایک عورت کی گواہی ایک مرد کی نصف شہادت کے مثل ہے۔"(بخاری ،مسلم)

3۔یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اگر دو مسلمان مرد میسر نہ ہوں تو چار عورتوں کی گواہی سے کام چلا لیا جائے۔بلکہ اس کی وہی عین ومقرر صورت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان  فرمادی۔

5۔صرف ایک مرد کی گواہی:

صرف ایک مرد کی گواہی درج ذیل امور میں کافی ہے:

1۔روئیت ہلال:جیسا کہ ہم مسلمان ہونے کی شرط کے تحت ایک اعرابی کے واقعہ سے متعلق حدیث درج کرچکے ہیں۔(نسائی۔کتاب الصیام باب شہادۃ رجل واحد)

2۔اموال سلب:کے اثبات کے لئے بھی ایک گواہی کافی ہے غزوہ حنین کے  موقعہ پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(عربی)

"جس مسلمان نے کسی کافر کو قتل کیا ہو،اس کا سامان اسی مسلمان کو دیا جائے گا،بشرط یہ کہ اس کے پاس کوئی گواہ ہو۔"

چنانچہ ابو قتادہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ"میں نے ایک مشرک کو قتل کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان پر پکارا کہ"کون میرے لئے گواہی دے گا؟"لیکن کوئی شخص نہ بولا۔میں نے دوبارہ اور سہ بارہ یہی بات دہرائی مگر کوئی نہ بولا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا،"ابو قتادہ ،کیا بات ہے؟ میں نے عرض کی،"میں نے بھی ایک مشرک کو قتل کیا ہے۔"اتنےمیں ایک آدمی نے کہا،"ابو قتادہ سچ کہتا ہے،اور اس کے متقول کاسامان میرے پاس ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مال میرے پاس رہنے دیں اوراسے اپنے پاس دے دے دیں۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،" نہیں۔یہ سلب شدہ مال ابو قتادہ کو ملے گا۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مال مجھے دلوادیا۔"

3۔ثبوت رضاعت:کے لئے بھی ایک گواہ کافی ہے۔اور اس میں عورت مرد دونوں کی حیثیت برابر ہے(بخاری ۔کتاب النکاح باب شہادۃ المرضعۃ) کیونکہ یہ معاملہ عورتوں سے تعلق رکھتا ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ"ثبوت رضاعت کے لئے کتنے گواہ درکار ہیں؟"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(عربی)

یعنی ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی کافی ہے۔"

4۔عورت کی طرف سے طلاق کادعویٰ:اگر عورت یہ دعویٰ کرے  کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی ہے اور وہ ایک عادل گواہ بھی پیش کردے،توثبوت مکمل ہوگیا لیکن اس کے باوجود شریعت نے طلاق کو چونکہ(عربی) قرار دیا ہےلہذا مدعا علیہ یعنی شوہر سے قسم لی جائے گی۔اگر وہ کہہ دے کہ میں نے عورت کو طلاق نہیں دی توگواہی غیر مؤثر ہوجائے گی۔اورطلاق واقع نہ ہوگی۔(زاد المعاد لابن القیم)

5۔شاگردوں کے معاملات میں صرف  معلم کی گواہ کافی ہے۔(الاشباہ والنظائر لابن القیم ص51) گو یہ گواہی ایک ہے مگر مشروط ہے۔

6۔جرح وتعدیل:گواہوں کی جرح وتعدیل اورعادل ہونے میں بھی صرف ایک گواہی کافی ہے۔(الاشباہ والنظائر لابن القیم ص51)

مقدمہ میں گواہوں پر مدعا علیہ اور اس کا وکیل جرح کرسکتے ہیں۔اور مدعی  یا اس کا وکیل ان کی تعدیل کرسکتا ہے جب کہ قاضی کو ہر طرح سے جرح وتعدیل کے پورے اختیارات ہوتے ہیں۔

7۔وکیل کو معزول کرنے کی خبر اگر ایک آدمی دیتا ہے تو وکیل معزول سمجھا جائے  گا۔(ایضاً)

8۔ثبوت نقصان کے لئے بھی ایک گواہی کافی ہے۔(ایضاً)

عورت کی گواہی:

مقدمات ومعاملات عموماً تین قسم کے ہوتے ہیں جن میں عورت کی گواہی کی حیثیت درج ذیل ہے۔

حدود:حدود اللہ یعنی قصاص ،زنا،چوری،ڈاکہ۔قذف اور شراب وغیرہ میں عورت کی گواہی قابل قبول نہیں۔امام زہری (م124ھ)جنہوں نے سب سے پہلے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے حکم سے حدیث کی تدوین فرمائی ،کہتے ہیں:

(عربی)

"عہد نبوی ؐ سے یہ دستور چلا آرہا ہے۔ کہ حدود میں عورتوں کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔"

2۔لین دین کے معاملات :لین دین کے معاملات میں اضطراری صورت میں عورت کی گواہی کو گوارا کیا گیا ہے۔لیکن اس کے باجود اس کی گواہی کی حیثیت مر د کی گواہی سے نصف ہے۔

3۔عورتوں سے متعلقہ مسائل:مثلاً رضاعت اور بچہ کی پیدائش وغیرہ۔ ایسے معاملات میں عورت کی گواہی معتبر اور مکمل ہوتی ہے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی پیدائش کے سلسلے میں صرف ایک دائی کی گواہی کو جائز قرار دیا اسی طرح رضاعت کے ثبوت کے لئے صرف ایک عورت کی شہادت کو تسلیم کیا(بخاری کتاب النکاح باب شہادۃ المرضعۃ)

ان تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عدالتوں کی طرف سے عورتوں کو گواہی کے لئے بلا یا جانا اور عورتوں کاعدالت میں جاکر گواہیاں دیتے پھر ناعورت کے احترام کے منافی اورشریعت کی نگاہ  میں ناپسندیدہ ہے۔اورایسی باتیں عورت کے دائرہ کار سے خارج ہیں البتہ جو معاملات عورتوں سے ہی متعلق ہیں ان میں ان کی گواہی کی ضرورت بھی ہے۔اور ایسی گواہی کو معتبر اور مکمل بھی سمجھا گیا ہے۔

شہادت سے متعلق چند مسائل جدیدہ

1۔گواہوں کا علیحدہ علیحدہ بیان:

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہایت سادہ تھا۔مدعی ،مدعا علیہ اور گواہ سب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان دیتے اور جو کچھ وہ بیان کرتے اس کے مطابق فیصلہ کردیا جاتا یہ تصور نسبتاً بہت کم تھا کہ گواہ جھوٹ بول کر مقدمہ کا فیصلہ غلط بھی کرواسکتے ہیں۔گواہ بھی عموماً چونکہ جھوٹ نہ بولتے تھے،لہذا گواہوں پرجرح کاطریقہ بھی رائج نہ تھا۔حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور خلافت میں گواہوں کو علیحدہ علیحدہ بلانے اور بیان لینے کا رواج پڑا نیز جرح کی ابتدا ہوئی۔خودحضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے چند مقدمات میں گواہوں کو علیحدہ علحدہ بلا کر گواہی لی۔جس سے  آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو حقیقت  حال کا علم ہوگیا۔(اطرفی الحکیمۃ لابن القیم ص48)

2۔مدعی اور گواہوں سے قسم:

اسی طرح دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مدعی اور گواہوں سے قسم لینے کا بھی رواج نہ تھا۔نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسا حکم فرمایاتھا۔تاہم اس سے منع بھی نہیں فرمایا۔لہذا اگرقاضی ایسی ضرورت سمجھے تو عندالضرورت اس کی اجازت ہے۔قرآن مجید میں ہے کہ اگر دو غیر مسلم گواہ حالت سفر میں کسی مسلمان کے مرنے کی خبر اور اس کی وصیت پر گواہی دیں تو ایسے گواہوں کے لئے قرآن مجید نے قسم کی ہدایت فرمائی ہے۔(المائدہ۔106۔107) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطابق فیصلہ بھی فرمایا۔

مدعی اور گواہوں سے باقاعدہ قسم لینے کی ابتداء قاضی شریح نے ہی کی تھی۔لوگوں نے ان پر اعتراض بھی کیا کہ تم نے مدعی سے قسم لے کر بدعت کا آغاذ کیا ہے۔جس کے جواب میں انہوں نے کہا۔جب لوگوں نے بدعت پیدا کرلی تو میں نے بھی بدعت کو پیدا کیا۔"(الطرق الحکمیہ لابن القیم ص128)

3۔شہادت پروکلاء کی اثر اندازی:

عہد نبوی میں مدعی خود اپنا دعویٰ پیش کرتا تھا۔اور مدعا علیہ بھی خود اس کا جواب دیتا تھا۔وکیل کی ضرورت ہی نہ تھی تاہم معذوری کی حالت  میں اسلام نے اس کی اجازت دی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے"

(عربی)

"اگر قرض لینے والا بے عقل یا کمزور ہو اورادائے بیان کی اہلیت نہ رکھتاہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ بیان لکھوائے۔"

مگر وکالت کی موجودہ شکل جس میں مدعی اور مدعا علیہ دونوں کے لئے وکیل کرنا ضروری ہے۔قطعاً  درست نہیں آج وکالت نے ایک پیشہ کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔جس کے نقصانات اس کے فوائد سے بہت بڑھ گئے ہیں۔وکیل صاحب یہ جاننے کے باوجود کہ ان کے موکل کا موقف سراسرغلط ہے۔محض پیسے بٹورنے کی خاطر اسے سبز باغ دکھا کر مقدمہ میں الجھادیتے ہیں۔جھوٹی گواہیاں پیدا کرنے کی ترغیب گواہوں کو غلط بیانات سکھلانا جھوٹی قسمیں کھانا اوردلوانا ان کا  روز مرہ کا معمول ہے۔قانونی موشگافیوں کے ذریعہ واقعات میں اشتباہ پیدا کرکے صحیح مجرم کو سزا سے بچانا ان کی انتہائی کامیابی ہوتی ہے۔ان کا اصل مقصد ہر جائز وناجائز زریعہ کو عمل میں لاکر مقدمہ جیتنا ہوتا ہے۔اور وہ اس بات سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ ان کے طرز عمل سے فریق مخالف پر کس قدر ظلم اورزیادتی ہورہی ہے۔ایسی صورتوں میں یہ پیشہ حرام اور اس کی کمائی بھی حرام ہوجاتی ہے۔مقدمات میں  روز افزوں اضافہ کی ایک بڑی وجہ یہی وکلاء کی فوج ظفر موج کا وجود ہے۔پھر ان کی بھاری فیسوں نے حصول  انصاف کو گراں تر بنادیا ہے۔

سعودی عرب جہاں آج کل حدودشرعیہ نافذ ہیں میں آج بھی مقدمات وکلاء کی پیروی کے بغیر فیصل ہوتے ہیں گواہ بھی وہی کچھ بیان دیتے ہیں جس کاانہیں علم ہوتا ہے اور یہی وہ سیدھا سادہ طریقہ ہے جو اسلام نے ہمیں سکھلایا ہے۔

شہادت اورقرآئن:

شہادت اور قرائن کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے۔لہذا قرائن پر ضمنی بحث بھی ضروری ہے۔اثبات دعویٰ کے سلسلے میں قرائن بعض دفعہ تو شہادت کی گمشدہ کڑیوں کو ملاتے ہیں۔بعض دفعہ شہادت کا قائمقام بن جاتے ہیں اور بعض دفعہ اقرار سے بھی زیادہ ثبوت  دعویٰ لے مہیا کردیتے ہیں اب ان کی مثالیں ملاحظہ  فرمائیے:

1۔حضرت یوسف علیہ السلام پر  زلیخا نے بدکاری کاالزام لگایا توزلیخا کے گھر کے افراد میں سے ایک شاہد نے شہادت دی کہ اگر یوسفؑ کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تو یوسف ؑـ(معاذ اللہ جھوٹے) اورزلیخا سچی ہے۔اور اگرقمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو یوسف سچے اور زلیخا جھوٹی ہے۔

اب دیکھئے کہ شاہد نے جو شہادت دی وہ شہادت کی تعریف پر پوری نہیں اترتی بلکہ وہ ایک قرینہ ہے۔اور اس قرینہ کو قرآن مجید نے درست تسلیم ہی نہیں کیا۔بلکہ اس کے لئے شہادت کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔

2۔شرابی کے منہ سے  اگر شراب کی بو بھی  آرہی ہو اور وہ نشہ سے متوالا بھی ہو تو کسی شہادت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔اور یہ قرینی شہادتوں کے قائمقام بن جاتا ہے۔

3۔اگر چور سے چوری کا مال برآمد ہوجائے تو وہ اس کے اقرار سے بھی زیادہ موثرثبوت ہوجاتاہے۔ اور یہ تو ہم بتلا چکے ہیں کہ ثبوت جرم کے سلسلہ میں شہادتوں سے اقرار زیادہ موثر ہوتا ہے۔

4۔بعض دفعہ اس عالم محسوس میں کوئی قرینہ سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا بلکہ قاضی اپنی فہم وفراست کے ذریعے اس معنوی قرینہ تک پہنچتا ہے۔

اس کی مثال داؤد علیہ السلام کی  پیش آمدہ وہ مقدمہ ہے جس میں ایک عورت نے کسی دوسری عورت کے بچہ کے متعلق یہ دعویٰ کردیا کہ یہ بچہ میرا ہے۔اب دونوں عورتیں یہ کہتی تھیں کہ یہ بچہ میرا ہے دونوں عورتیں مدعیہ بھی تھیں اور مدعا علیہ بھی اور ثبوت کسی کے پاس نہ تھا۔حضرت داؤد علیہ السلام نے  فیصلہ کیا کہ ایک تیز چھری سے بچہ کے دو برابر ٹکڑے کردیئے جائیں اور ہر ایک مدعا علیہ کوایک ایک ٹکڑا دے دیا جائے۔یہ فیصلہ سن کر جھوٹی مدعا علیہا توخاموش رہی مگرحقیقی والدہ پکار اٹھی کہ ٹکڑے نہ کئے جائیں۔یہ لڑکا اس دوسری عورت کا ہے اور میں اپنے دعوے سےدستبردار ہوتی ہوں یہ پکارسن کرحضرت داؤدؑ سمجھ گئے کہ یہ پکارنے والی عورت ہی حقیقی والدہ ہوسکتی ہے لہذا بچہ اس حقیقی والدہ کے حوالے کردیا۔(بخاری کتاب الفرائض باب ازالادتالمراۃ کذبا)

اب دیکھئے اس مقدمہ میں حضرت داؤدؑ نے ایک ناقابل تردیدفطری حقیقت"ماں کی مامتا" کے اصول کے تحت فیصلہ کیا۔جسے اللہ تعالیٰ نے درست فرمایا حالانکہ ظاہرمیں کوئی قرینہ موجودنہ تھانہ شہادت تھی ا س مقدمہ کا فیصلہ انتہائی مشکل بات تھی۔

ان تمام باتوں کے باجود بعض دفعہ بہت سے قرآئن مل کر مکمل ثبوت مہیا نہیں کرتے اورشک وشبہ کاگمان رہتاہے۔اورشک وشبہ کی بناء پر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا شہادتوں کی ضرورت باقی رہتی ہے۔تاہم شک وشبہ تو شہادتوں کی صورت میں بھی باقی رہ سکتا ہے۔اور غلط یا جھوٹی شہادتوں کی بناء پر فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔لیکن ایسی صورت میں غلط کا بار یا گناہ قاضی پر نہیں رہتا بلکہ مدعی یاگواہوں پر جاپڑتاہے۔قرائن کی بناء پر فیصلہ نہ کر پانے کی مثال یہ ہے کہ مدینہ میں ایک بدکار عورت رہتی تھی۔قرائن پوری طرح شہادت دے رہے تھے کہ وہ بدکار ہے لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اگر میں بغیر گواہوں کے کسی کو رجم کرسکتا تو میں فلاں فلاں عورت کوضرور رجم کردیتا کیونکہ ان کی باتوں اس کی ہیت اور وہ لوگ جو اس کے پاس آتے جاتے ہیں،ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زانیہ ہے۔"(بخاری۔ کتاب المحاربین ۔ماب ماجاء فی التعریض)

1۔بعض دفعہ قرائن خواہ کتنے ہی زیادہ ہوں یہ مکمل ثبوت بہم نہیں پہنچاتے۔
2۔قرائن میں شک وشبہ کی بنا ء پر قاضی فیصلہ نہیں د ے سکتا۔جب کہ شہادات کی صورت میں وہ شہادات کا پابند ہوتا ہے۔اور اسی کے مطابق اسے فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔اگرچہ اس میں بھی شک وشبہ کی گنجائش موجود ہے اس لحاظ سے شہادات قرائن سے زیادہ معتبر قرار پاتی ہیں۔
3۔قاضی کاذاتی علم  فیصلہ کی بنیاد نہیں بن سکتا۔وہ بہرحال شہادات کی بنیاد پر فیصلہ کا پابند ہوتاہے۔ 

[1] ۔علامہ سعودی نے کتاب مروج الذہب میں لکھا ہے کہ:
(عربی)
"حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے زمانہ جاہلیت میں جو عراق وشام کے سفر کیے اور ان سفروں میں جس  طرح وہ عرب وعجم کے بادشاہوں سے ملے اس کے متعلق بہت سے واقعات ہیں۔تفصیل کے لئے دیکھئے اخبارالزماں،کتاب الوسط لعلامہ سعودی۔
[2] ۔حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ایک کنیز تھیں حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس بے کس کو مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے"میں نے تجھ کو رحم کی بنا پر نہیں بلکہ اس وجہ سے چھوڑا ہے کہ تھک گیا ہوں،زرا دم لے لوں پر ماروں گا۔"اسی طرح ذنیر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بے انتہا ستاتے تھے۔حضرت سعید بن زید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کوحضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ہی رسیوں سے باندھا تھا،جب وہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوئےتھے(بخاری) لیکن یہ تمام مظالم ایک مومن کے پائے ثبات کو متزلزل نہ کرسکے۔ایک نصرانی مورخ نے لکھا ہے کہ :

"اگر اس کو عیسائی یا د رکھیں تو اچھا ہو۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مسائل نے وہ نشہ اپنے پیرؤں میں پیدا کیا جس کو حضرت عیسیٰ ؑ کے ابتدائی پیروؤں میں تلاش کرنا بے فائدہ ہے۔جب حضرت عیسیٰ ؑ کو سولی پر لے گئے تو ان کے جانثار بھاگ گئے۔ان کادینی نشہ جاتا رہا اور وہ اپنے مقتداء کو موت کے پنجے میں گرفتار چھوڑ کرچل دیئے۔برعکس اس کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر کل دشمنوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  غالب کیا۔"(بحوالہ سیرۃ النبیؐ ص،236 277۔)

[3] ۔جس شخص کے حق میں شہادت دی جائے سے مشہور دلہ اور جس شخص کے خلاف دی جائے اسے مشہود علیہ کہتے ہیں۔اوراگر یہ شہادت اپنے خلاف ہی ہو تو اسی کا نام اقرار  جرم ہے۔


[1] ۔اگر یہ (اونٹ کا گھٹنا باندھنے کا) وہ تسمہ دینے سے بھی انکار کریں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں  وہ دیا کرتے تھے تو میں اس پر ان سے ضرور جنگ کروں گا۔"
[2] ۔بخدا میں ضرور اس سے جنگ کروں گا جو زکواۃ  اور نماز میں فرق کرے گا۔( یعنی نماز تو پڑھے لیکن زکواۃ ادا نہ کرے۔")