مراسلات بسلسلہ رُوح،عذاب قبر ،سماع ِ موتیٰ
ثبوت سماع موتیٰ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے!
1۔سماع موتیٰ کے باب میں قلیب بدر والی حدیث مشہور ومعروف ہے۔جو حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے کبار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہے۔ان کی روایات بخاری مسلم شریف میں موجود ہیں۔
2۔میت جوتیوں کی آہٹ کی آوازسنتا ہے۔یہ حدیث بھی سماع موتیٰ پر دلالت کرتی ہے یہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے۔
3۔ترجمہ۔طبرانی نے اوسط میں عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا اور حاکم وبیہقی نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب احد سے مراجعت فرماہوئے توحضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے مزارات پرتشریف لے گئے اور فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک زندہ ہو پر اپنے امتیوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور بعد میں آنے والوں کوحکم فرمایا کہ ان شہداء کرام کی زیارت کرو اور ان پر سلام بھیجو،مجھے اس ذات اقدس کی قسم جس کے قبضہ قدر ت میں میری جان ہے ۔جوشخص بھی قیامت تک انہیں سلام دے گا۔یہ شہدا ء کرام اس کا جواب دیں گے۔
اس روایت سے شہداء کازائرین کو جاننا سلام سننا ،جواب دینا ثابت ہوتا ہے۔جب شہداء میں یہ چیزثابت ہوگئی تو اولیاء کاملین صدیقین اور انبیاء کرام میں بطریقین اولیٰ ثابت ہوجائے گی۔کیونکہ فضیلت میں شہداء تیسرے نمبر پر ہیں۔کیا کیلانی صاحب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کے بعد کسی اور کسی شہادت بھی درکار ہے؟
سماع موتیٰ اورصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین :
4۔ترجمہ۔ابن عبدالبر نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کوئی شخص بھی جب اپنے مومن بھائی کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے جسے صاحب قبردنیا میں جانتا تھا۔پس سلام دیتا ہے توصاحب قبر اسے پہچان لیتا ہے۔اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔اس روایت کو محدث عبدالحق نے صحیح کہا اورابن عبدالبر نے استذکاروتمہید میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔
5۔ترجمہ۔مسلم شریف میں حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ قریب المرگ تھے انہوں نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا جب میں فوت ہوجاؤں تو کوئی نوحہ کرنے والی عورت میرے ساتھ نہ چلے اور نہ آگ میرے ہمراہ لائی جائے۔(جیسا کہ رسم جاہلیت تھی) جب مجھے دفن کرچکو تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا پھر میری قبر کے پاس اتنی دیرکھڑےرہنا جتنی دیراونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیاجاسکتا ہے تاکہ میں تم سے انس حاصل کروں اور پورے وثوق کے ساتھ اپنے رب کے بھیجے ہوئے ملائکہ کو ان کے سوالوں کاجواب دےسکوں۔
حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ وصیت اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کی اور حضرت عبداللہ نے اسے خلاف ِقرآن وسنت نہ سمجھا،یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک اہل قبور کا زائر کو جاننا پہچاننا اورانس حاصل کرنا مشہورومعروف تھا اور نہ ان کے صاحبزادے جو خود بھی ایک جلیل القدر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔یہ ضرور کہتے کہ آپ تو وہاں بے جان لاش ہوں گے میرے وہاں ٹھہرنے کا کیا فائدہ؟
اس کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بھی مختلف کتب احادیث میں سماع موتیٰ کی موید روایات موجودہیں۔
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ر ضی اللہ عنہا اور سماع موتیٰ(حضرت ام المومنین کے انکارسماع پر ایک نظر)
مولانا کیلانی صاحب نے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے انکار کو بنیاد بناکر مقتولین بدر اورسماع موتیٰ پردلالت کرنے والی تمام روایات کومردوداور ناقابل اعتمادٹھہرایا ہے اوران کی روایت قبول کرنے کاسبب انکاتفقہ بتایا ہے۔موصوف کاحضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا سے استدلال چند وجوہ کی بنا ء پرغلط ہے۔
اول ۔حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کا یہ قول اپنے اجتہاد واستنباط پرمبنی ہے۔
دوم۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود یہ ضابطہ وقاعدہ بیان فرمایا ہے کہ جس کو واقعہ کا مشاہدہ ہے اس کاقول راحج ومختار ہے مسلم شریف میں ہے کہ حضرت شریح ابن ہانی نے حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا سے مسح خفین کی مدت سے متعلق سوال کیاتو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:ترجمہ۔توحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو۔ اور ان سےدریافت کر وہ سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے۔اوردوسری روایت میں ہے کہ انہیں اس معاملہ میں مجھ سے زیادہ علم ہے۔
اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ جس کوواقعہ کا علم زیادہ ہے۔اسی کا قول معتبر ہے۔ اوراس کا علم دوسروں سے بہرحال زیادہ ہے۔ جو موقعہ پر موجود ہو۔چونکہ بدری صحابہ کرامرضوان اللہ عنھم اجمعین موقع کے گواہ ہیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تعجب کا اظہار کرنے حقیقت حال دریافت کرنے والے ہیں۔لہذاانہیں کاقول معتبر ہے۔
علامہ محمود آلوسی صاحب روح المعانی فرماتے ہیں۔"امام سہیلی نے فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کے وقت موجود نہ تھیں لہذا ان کے علاوہ جوصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین وہاں موجود تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےالفاظ کو زیادہ محفوظ رکھنے والے ہیں۔ترجمہ جلد نمبر21۔ص50)
سوم۔حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت "کہ جو کچھ میں کہہ رہاہوں یہ مقتول اسی کو سن رہے ہیں کہ جواب میں فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاتھا "کہ یہ مردار جانتے ہیں کہ جو کچھ میں انہیں کہاکرتا تھا وہ حق ہے۔محدثین نے فرمایا کہ دو نوں روایتوں میں تخالف نہیں۔ ان کے لئے علم ممکن ہے۔ تو سماع بھی ممکن ہے۔منکرین سماع حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی جو روایت پیش کرتے ہیں۔اس میں یہ تصریح موجود ہے کہ آپ قلیب بدر پرتشریف لے گئے۔اختلاف ہے تو صرف اس میں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے استفسار کا جواب دیتے ہوئے کیا الفاظ فرمائے۔
چہارم۔حضرت ام المومنین صدیقہ رضی اللہ عنہا نےاگرچہ پہلے سماع کی نفی فرمائی۔ لیکن بعد میں رجوع کرلیا۔حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں۔بتحقیق ذکر کردہ است در مواہب لدنیہ کہ در مغاذی محمد ابن اسحاق باسناد وجید ودر مسند امام احمد بن حنبل باسناد حسن از عائشہ رضی اللہ عنہا مثل حدیث عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آمدہ۔پس گویا عائشہ(رضی اللہ عنہا) رجوع کرداز انکار بسبب آنچہ ثابت شود نزدوے ازروایت ثقات صحابہ کبار زیراکہ وے رضی اللہ عنہا حاضر نبو دور آں قفیہ ودر شرح مسلم نیز مثل ایں مذکور شد۔(مدارج النبوت،اشعۃ اللمات شرح مشکواۃ جلد سوم ص422)
باب سماع میں حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایات
1۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں کوئی ایساشخص جو کہ اپنے بھائی کی قبر کی زیارت کرتا ہے اور اس کے پاس بیٹھتا ہے۔مگر اسے اس کے ذریعہ انس اورراحت وسکون میسر آتا ہے۔سلام کاجواب بھی دیتا ہے ۔اوریہ سکون اس وقت تک حاصل رہتا ہے جب تک بیٹھا رہے جب وہاں سے رخصت ہوگا تو یہ حالت ختم ہوجائے گی۔
2۔ترجمہ۔ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ جب عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام حبشے میں فوت ہوگئے تو انہیں وہاں سے مکہ مکرمہ کی طرف منتقل کرکے وہاں دفن کردیا گیا ۔جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ تشریف لائیں تو اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر پر تشریف لائیں اور فرمایا ۔ہم جزیمہ کے دو صاحبوں کی طرح زمانہ کا ایک طویل حصہ اکھٹے رہے،حتیٰ کہ کہاگیا کہ یہ ہرگز جدا نہ ہوں گے۔اور جب ہم جدا ہوگئے تو گویا میں اور مالک باوجود عرصہ دراز تک اکھٹے رہنے کے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک رات بھی اکھٹے نہیں رہے تھے۔پھر اپنے بھائی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا،بخدا اگر میں اس وقت موجود ہوتی جبکہ آپ کا انتقال ہوا تھا۔ اور اگر اس وقت حاضر ہوتی تو اب تیری زیارت نہ کرتی۔شیخ عبدالحق محدث فرماتے ہیں کہ" چونکہ ازواج مطہرات کا بغیر کسی ضرورت ومجبوری کے اپنے گھروں سے نکلنا روا نہیں تھا۔اس لئے فرمایا کہ میں اگر اس وقت الوداع کرلیتی تو اب زیارت نہ کرتی۔"
حضرت ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاخطاب اورالوداع کہنے کے لئے قبر پرتشریف لے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےنزدیک بھی صاحب قبر کو زائر کاعلم ہوتا ہے اور وہ اس کے کلام کوسنتا ہے۔
ترمذی شریف کی یہ روایت ابن ابی الدنیا کی روایت کی موید ہے۔امام ترمذی کی صحیح روایت کے بعد یہ عذر بھی ختم ہوگیا کہ امام ابن ابی الدنیا ضعیف محدث ہے۔ویسے جب ذہن میں پہلے ہی ایک غلط مفروضہ قائم کرلیا جائے۔پھر کوئی بھی روایت ہو وہ ضعیف ہوتی چلی جائےگی۔احمد۔حاکم کی یہ روایت بھی ان روایات کی تصدیق کرتی ہے۔
ترجمہ ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔میں اپنے حجرہ اقدس میں داخل ہوتی تھی۔جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں۔تو پردہ کا اہتمام نہ کرتی تھی اور دل میں کہتی تھی یہ تو میرے خاوند ہیں اور دوسرے میرے والد ہیں۔جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دفن ہوئے تو بخدا میں بغیر اچھی طرح پردہ حجاب کیے ہرگز داخل نہ ہوتی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حیا کرتے ہوئے۔
اس روایت سے حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کانظریہ اہل قبور سے متعلق واضح ہوگیا کہ حضرت سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حیات برزخ کی قائل ہیں۔اس کے علاوہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چند روایات مروی ہیں۔جن سے سماع موتیٰ ثابت ہوتا ہے۔جیسے "میت کی ہڈی توڑنا ایسا ہے جیسازندہ زندہ شخص کی ہڈی توڑنا۔(یہ سماع موتیٰ ثابت ہورہا ہے۔ناقل)
ان روایات کی روشنی میں جناب کیلانی صاحب کا یہ دعویٰ محض غلط ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سماع موتیٰ کی منکر ہیں۔
مولاناعبدالرحمٰن نے روح۔عذاب قبر۔سماع موتیٰ سے متعلق مضمون کی دوسری قسط میں ایک جگہ لکھا ہے ۔"حیرت کی بات ہے کہ سماع موتیٰ اور اس طرح سلو ک تصوف حنفیوں اور بالخصوص ۔بریلوی طبقہ میں اتنا مقبول کیوں ہوگیا۔جبکہ امام ابو حنیفہ سماع موتی کے مخالف تھے۔اور آگے امام صاحب سے متعلق واقعہ درج کیا ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ سے سماع موتیٰ کے متعلق نفی میں کچھ بھی ثابت نہیں اورجو روایات امام موصوف سے منسوب کی جاتی ہیں وہ شاذ اور ناقابل اعتبار ہیں۔
مسلک دیو بندکے نامورعالم مولوی رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں"امام اعظم ؒ سےاس باب میں کچھ منصوص نہیں اور وہ روایات جو کچھ امام صاحب سے آئی ہیں ،شاذ ہیں۔فتاویٰ رشید یہ ص227)
منکرین سماع کے امام اعظم اور سماع موتیٰ
مولوی اسماعیل بن شاہ عبدالغنی بن شاہ ولی محدث دہلوی صراط مستقیم ص166 پر رقمطراز ہیں۔ترجمہ"سید احمد بریلوی کو سلسلہ چشتیہ کی نسبت حاصل ہونے کا بیان یہ ہے کہ ایک دن آپ حضرت خواجہ خواجگان خواجہ قطب الدین کی قدس سرہ کے مزا رمنور پرحاضر ہوئے اور مراقبہ کرکے بیٹھ گئے۔اسی اثناء میں حضرت خواجہ کی روح پر فتوح سے ملاقات ہوئی اورآنجناب نے سید صاحب پر بہت توجہ فرمائی اور اس توجہ کی وجہ سے نسبت چشتیہ کے ابتداء نصیب ہوگئی۔
جناب منشی محمد جعفر تھا نیسری لکھتے ہیں۔"ایک روز ارواح مقدس جناب غوث الثقلین سید عبدالقادر جیلانی وحضرت بہا ؤ الدین نقشبد متوجہ حال سید صاحب ہوئیں اور قریبا ا یک ماہ تک کسی قدر تنازعہ ان دونوں روحوں کے درمیان رہا ہر ایک ر وح ان دونوں روحوں میں سے سید صاحب کو اپنی طرف جذب کرنا چاہتی تھی۔آخر بعد انقضائے ایام تنازعہ کے دونوں روحوں کی بالاشتراک جذب کرنے پر صلح ہوگئی۔تب دونوں ارواح مقدسہ نے بالاشتراک آپ پر جلوہ گر ہو کر ایک پہرتک بہ نفس نفیس محو توجہ قوی اور تاثیر زود آور فرمائی کہ اس ایک پہرہ میں نسبت ان دونوں خاندانوں کی آپ کو حاصل ہوگئی ۔سوانح احمدی ص64۔65)
یہ روایت صراط مستقیم میں بھی درج ہے۔
اب یہ معمہ تو کیلانی صاحب ہی حل فرمائیں گے کہ کیا سید صاحب پر توجہ ڈالنا اتنا ضروری تھا ۔کہ ان دونوں بزرگوں کی ارواح قدست اسرار ہم علیین اور اعلیٰ علیین کی نعمتیں اور بلند مقام چھوڑ کرایک ماہ تک آپس میں جھگڑتی رہیں۔
کیاکیلانی صاحب یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ اگر (عربی)اور (عربی) کااطلاق فوت شدہ بزرگوں پر ہی ہوتا ہے۔تو سید احمد بریلوی مزار خواجہ قطب الدین ؒ پر کیا لینے گئے تھے۔ اگر پکارنے والے کی پکار کی خبر نہیں ہوتی تو وہاں سید صاحب کی ملاقات کس سے ہوئی تھی۔اگر انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔تو شاہ نقشبند کو بخارا میں اورشاہ جیلان کو بغداد میں کیسے خبر ہوئی کہ ہندوستان میں کوئی سید احمد بریلوی نامی بھی شخص ہے چل کر اس پر توجہ ڈالی جائے جس کی تشہر بزعم خود توحید پرستوں کے امام ازل مولوی اسماعیل صاحب دہلوی نے صراط مستقیم میں کی ہے۔
آخر میں امید کرتا ہوں کہ ادارہ محدث جو کہ کتاب وسنت کی روشنی میں آزادانہ بحث وتحقیق کاحامی ہے۔تصویر کا دوسرارخ شائع کرنے کی زحمت گواراکرے گا تاکہ "محدث" کامطالعہ کرنے والے حق وباطل کو خود پرکھ سکیں۔(مخلص۔چوہدری محمد علی حنفی پکا ڈیرہ وڑائچاں موضع کوٹ رنجیت ضلع شیخو پوری)
(قارئین کرام۔ہم نے چوہدری محمد علی صاحب کا مضمون من وعن مکمل شائع کردیاہے۔اور حسب سابق اس میں عبارات واملاء کی بے شمار اغلاط کی تصیح کی طرف توجہ نہیں دی تاکہ کانٹ چھانٹ کاالزام ہم پر نہ آسکے۔۔۔اب آپ مولانا کیلانی صاحب کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔(ادارہ)
الجواب۔
18۔قلیب بدر اور مردہ کے جوتوں کی چاپ سننے والی احادیث:
یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ اور میں ان پرپہلے بھر پور بحث کرچکا ہوں۔ان میں پہلی حدیث معجزہ سے تعلق رکھتی ہے۔اوردوسری ایک اضطراری امر ہے۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کثیر تعداد ان حدیثوں کو جاننے کے باوجود علی الاطلاق سماع موتیٰ کی منکر ہے۔
19۔طبرانی،حاکم اور بیہقی تیسرے درجہ کی کتب احادیث ہیں:
طبرانی حاکم اور بیہقی تینوں کتابیں تیسرے درجے کی ہیں۔ان سے اگر جواز ثابت ہو بھی جائے توقابل احتجاج نہیں۔جیسا کہ میں پہلے بالوضاحت لکھ چکا ہوں۔کہ احادیث میں سے تیسرے اورچوتھے درجے کی احادیث سماع کا جواز ثابت کرتی ہیں یہ یاد رہے کہ صحاح ستہ میں سے بخاری اور مسلم اول درجہ کی ،باقی چار کتابیں درجہ دوم کی ہیں۔اور ان کے علاوہ تمام کتب احادیث درجہ سوم اور چہارم کی ہیں۔
20۔موضوع حدیث:
یہ حدیث جو شرح الصدور ااورطحاوی کے حوالہ سے پیش کی گئی ہے۔موضوع ہے اور اسے میں اپنے مضمون محدث ربیع الاول 1404ھص95/47 پرزیر بحث لاچکا ہوں۔
21۔حدیث صحیح ہے لیکن استنباط غلط:
یہ حدیث صحیح ہے ۔مگر اس کا جو نتیجہ پیش کیاگیا ہے وہ درست نہیں۔کیونکہ یہ حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا خیال اور تدبیر تھی۔اور یہ ویسا ہی خیال اورتدبیر تھی جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے لڑکوں کو تاکید کی تھی کہ جب مصر پہنچو تو ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا:"وہ تدبیر خدا کے حکم کو زرا بھی نہیں ٹال سکتی تھی۔ہاں وہ یعقوب علیہ السلام کے دل کی بس خواہش تھی جوانہوں نے پوری کی تھی۔"(ترجمہ۔فتح محمد جالندھری)
تو جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کی یہ تدبیر مشیت الٰہی کے مقابلہ میں بے اثر ہونے کےباوجودشریعت کے منافی نہ تھی۔بالکل یہی صورت حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تدبیر کی ہے جو انہوں نے محض اپنی دلجمعی کے واسطے بتلائی ۔یہ تدبیر بھی کتاب وسنت کے منافی نہیں تھی۔تاہم یہ مطابق بھی نہ تھی۔کیونکہ اگر مطابق ہوتی تواکیلے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاکیا ذکر بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ایسی وصیتیں کرجاتے۔بلکہ خودحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے(عربی) کاارشاد فرمایاتھا۔اسی طرح اس موانست کے لئے بھی کوئی ارشاد فرمادیتے۔
پھر یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات سکرات موت کی بحرانی کیفیت میں کہی اور یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وصیت پر عمل بھی کیا تھا کہ نہیں؟مزیدبرآں امام نووی شارح مسلم نے اس حدیث کے متعلق تصریح بھی فرمادی ہے۔کہ اس حدیث کے فن اور اسناد دونوں پر کلام کیاگیا ہے۔پھر اس جرح کی تفصیل بھی درج کی ہے ۔(شرح مسلم عربی ج1 ص 76)
22۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سماع موتیٰ سے انکار کی کی بنیاد اجتہاد۔واستنباط۔
حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ قول اگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اپنے اجتہاد واستنباط پرمبنی ہے تو تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنےاجتہاد واستنباط ہی کی بناء پر سماع موتیٰ کے قائل تھے۔گویا وہاں بھی بات اجتہاد واستنباط ہی کی ہے!
23۔موقع کے گواہ:
چوہدری صاحب نے روح المعانی کے حوالے سے فرمایا ہے۔کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کے وقت موجود نہ تھیں۔
۔۔۔لیکن مشکل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی قلیب بدر کے واقعہ کے وقت خود موجود نہیں تھے۔ان کو جنگ بدر اور جنگ احد دونوں موقعوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کم سنی کی بنا پر جہاد میں شرکت کی اجازت ہی نہ دی تھی۔انہیں پہلی مرتبہ جنگ خندق میں شمولیت کی اجازت ملی اور اس وقت ان کی عمر پندرہ سا ل تھی (دائرۃ المعارف الاسلامیہ۔مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور جلد 12 ص800 ازعنوان عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ )
24۔یہ معجزہ کی صورت ہے:
یہ معلوم ہونے کے بعد کہ نہ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا موقعہ پر موجود تھیں اور نہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اب ہمیں لامحالہ قتادہ عن انس بن مالک عن ابی طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اور ان کے استنباط پر انحصار کرناپڑےگا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سوال کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ بیان فرمائے تھے وہ یہ ہیں:
یعنی"جوکچھ میں کہہ رہا ہوں یہ مردے بھی ایسے ہی سن رہے ہیں جیسے تم سن رہے ہو۔"
اورحضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کایہ استنباط بھی سماع موتیٰ کے سلسلہ میں چنداں مفید نہیں۔کیونکہ ان الفاظ سے واضح ہے کہ یہ معجزہ کی صورت ہے۔
25۔سماع موتیٰ کے انکار سے حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رجوع؟:
یہ عبدالحق محدث صاحب کااپنا خیال ہے ۔کوئی حدیث تودرج نہیں فرمائی ،بس چند کتابوں کے نام گنوادیئے ہیں۔پھر عجیب بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاسماع موتیٰ سے انکار تو بخاری سے ثابت ہو ،لیکن رجوع مواہب لدنیہ اور مغازی محمد بن اسحاق جیسی کتابوں سے؟۔۔۔ہاں اگروہ حدیث درج فرمادیتے تومسند احمد بن حنبل کی طرف رجوع کیا جاسکتا تھا۔
2۔ابن ابی الدنیا کی روایات:
ابن ابی الدینا کے متعلق پہلے وضاحت ہوچکی ہے کہ اس کی روایات قابل احتجاج نہیں۔
27۔حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کااپنے بھائی سے خطاب:
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کی زیارت کی جو ان کی عدم موجودگی میں دفن کئے گئے تھے۔اورقبر پرجا کر تمیم کے دو شعر بھی پڑھے جو اس نے اپنے بھائی مالک کی وفات پر مرثیہ کے طور پر کہے تھے۔پھر یہ کہا کہ اگر میں تمہاری وفات کے وقت موجودہوتی تو میں تمھیں اسی جگہ دفن کرتی۔جہاں تم فوت ہوئے تھے اورتمہاری موت کے وقت میں موجود ہوتی تو تمہاری قبر پر بھی نہ آتی۔"
اب دیکھئے ایسا خطاب تو لوگ اپنے مرے ہوئے عزیزوں کواکثر کیا ہی کرتے ہیں۔حالانکہ انہیں یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ وہ سن رہے ہیں اورشا عر حضرات تو ہوا کو مخاطب کرکے اس کے ذمہ پیغام رسانی کا فریضہ بھی لگادیتے ہیں۔صرف مخاطب کرناتوبڑی آسان بات ہے۔مثلاً اقبال کہتا ہےکہ:
اے ہمالہ:اے فصیل کشور ہندوستان چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کرآسماں
تو کیا اس سے سمجھ لیناچاہیے کہ اقبال کا یہ عقیدہ تھا کہ ہمالہ پہاڑ بھی میرا یہ خطاب سن رہا ہے؟اس طرح کا طرزخطاب تو محض اپنے جذبات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ایسی باتوں کوعقیدہ کی بنیاد بنانا آخر کہاں تک درست ہے؟اگر آپ نے سماع موتیٰ کو احادیث سے ثابت کرنا ہی تھا تو اس سے تو وہ حدیث بدر جہا مفیدتھی۔جس میں مسلمانوں کو قبرستان میں جا کر سلام ،دعا کہنے کی تلقین کی گئی ہے۔۔۔لیکن اس کا جواب بھی ہم اپنے مضمون میں دے چکے ہیں۔
28۔ابن ابی الدنیا
ترمذی کی اس ر وایت سے ابن ابی الدنیا ثقہ راوی کیسے بن گیا؟تر مذی کی یہ روایت ابن ابی ملیکہ کی ہے۔اور اس میں صرف خطاب ہی خطب ہے۔جبکہ اب ابی الدنیا کی روایت یوں ہے کہ مرد ے صرف سنتے ہی نہیں جواب بھی دیتے ہیں تو جب متن حدیث میں ہی اصولی اختلاف ہوتو ابن ابی الدنیا کو کیسے معتبرراوی قراردیا جاسکتا ہے؟
29۔یہ بھی خوب کہی:
چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حیات برزخ کی قائل ہیں۔۔۔سوال یہ ہے کہ حیات برزخ کاکون قائل نہیں؟حیات برزخ سےتوانکار تو عذاب وثواب قبر کے انکار کے مترادف ہے۔اور میں نے اپنے مضمون میں اس حیات برزخ کے متعلق بہت کچھ لکھاہے۔مگر اس حیات برزخ سے یہ کب لازم آتا ہے کہ فوت شدہ ہم اہل دنیا کی باتیں سنتے اورجواب دیتے ہیں۔بلکہ حاجت روائی اور مشکل کشائی بھی کرتے ہیں۔
باقی رہی حیا کی بات اورقبروں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس طرح کی دنیاوی زندگی کامعاملہ تو اس سلسلہ میں مسنداحمد کے علاوہ صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔اس حدیث کی راوی بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (بوقت وفات) عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصیت کی کہ مجھے میری ساتھیوں کے ساتھ دفن کرنا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے گھر میں دفن نہ کرنا۔میں نہیں چاہتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں سے زیادہ لوگ میری تعریف کریں۔"(ترجمہ وحید الزمان)
دیکھئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں بیان کی کہ وہاں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی دفن ہیں۔ اور میں ان سے پردہ کرتی ہوں بلکہ یہ بتائی ہے کہ میں اپنی ساتھیوں سے زیادہ ممتاز بننا پسند نہیں کرتی۔
علاوہ ازیں اگر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر میں مدفون حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پردہ کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبر میں زندہ ہیں اور انہیں دیکھ سکتے ہیں تو قبر مبارک پر پڑی ہوئی منوں مٹی سے پار دیکھ لینے والی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نظروں سے معمولی کپڑے کا پردہ حجاب کیا معنی رکھتا ہے؟فافہیم وتدبر۔
اصل بات یہ ہے کہ پردہ کا حکم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہش پر نازل ہواتھا۔اور صدیقہ مطہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس غیرت کا احترام ان کی وفات کے بعد بھی ملحوظ رکھا!
30۔امام ابو حنیفہ ؒ سے منسوب روایات:
روایات کے لفظ سے معلوم ہوتاہے کہ گو میں نے ایک روایت درج کی تھی لیکن اور بھی روایات ہیں۔اب یہ روایات شاذ ہیں یاناقابل اعتبار اس کا فیصلہ توحنفی حضرات ہی کریں جن کے لئے آپ کے اقوال بھی حجت ہیں۔ہم نے تو محض تائید کے طور پر یہ روایت درج کی تھی۔ اوراس کا حوالہ حاضر خدمت ہے۔دیکھئے(غرائب فی تحقیق المذاہب وتفہیم المسائل ص91 محمد بشیر الدین)
علاوہ ازیں ہدایہ کی یہ عبارت بھی قابل غور ہے:یعنی"اسی طرح اگر کسی نے یہ قسم کھائی کہ میں تم سے نہ کلام کروں گا نہ تمہارے پاس آؤں گا۔پھر مرنے کے بعد اس کی قبر کی زیارت یا کلام کیا تو قسم نہ ٹوٹے گی کیونکہ کلام سے مقصود سمجھاناہوتا ہے اورموت اس (افہام) سے روک دیتی ہے۔!"
31۔ہمارے لئے حجت صرف کتاب وسنت ہیں:
جوحضرات عالم بھی ہوں اورطریقت وسلوک میں بھی ان کا دامن اُلجھا ہوا ہو ان کے ذہنی انتشار کی بھی عجیب کیفیت ہوتی ہے۔شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒ سید اسماعیل شہید ،ابن حجر مکی وغیرہ ہم سب اس قبیل سے ہیں۔اب ایک طرف شاہ ولی اللہ کی کتاب"البلاغ المبین" دیکھئے۔اور دوسری طرف"اتفاس العارفین" اسی طرح شاہ اسماعیل کی کتاب تقویۃ الایمان دیکھئے پھر صراط مستقیم آپ کو یہ یقین ہی نہ آئے گا۔کہ یہ ہر دو کتب ایک ہی مصنف کی لکھی ہوئی ہیں۔دونوں کتابوں میں ایک دوسری کا مکمل رد موجود ہوتا ہے۔اگر آپ نے صراط مستقیم ملاحظہ فرمائی ہے۔تو تقویۃ الایمان بھی دیکھ لیجئے۔ہمارے لئے ان کتابوں میں سے کوئی کتاب بھی حجت کی حیثیت نہیں رکھتی۔ان کو بھی پرکھنے کامعیار یہی ہے کہ انھیں کتاب وسنت پر پیش کیا جائے۔اور(عربی)کے اصول پرعمل کا جائے۔
رہی یہ بات کہ سید احمد شہید کو چشتیہ نسبت کیسے حاصل ہوئی اورقادریہ کیسے؟آخرسید احمد میں کونسی خوبی تھی کہ بغداد سے پیران پیر کی روح توجہ ڈالنے کے لئےآگئی۔اوردوسری طرف سے قطب الدین بختیار کاکی کی روح تشریف لائی۔پھر ان روحوں میں ایک ماہ تک تنازعہ ہوتا رہا۔بالاخر سمجھوتہ کی صورت میں صلح ہوگئی اورسید احمد کو دونوں نشستیں حاصل ہوگئیں۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔اگر ہم ان واقعات کو درست سمجھتے ہوں تو پھر تو معمہ بھی سمجھیں ورنہ یہ معمہ کیسا اور ان کو ہم حل کرنے کے مکلف کیونکر؟۔۔۔ایسے کشفی واقعات حالات کی حیثیت خواب کی سی ہوتی ہے۔جنھیں اہل طریقت وسلوک خود بھی حجت تسلیم نہیں کرتے!(عبدالرحمٰن کیلانی)