تہذیب اطفال (قسط2)
کتا ب و سنت کی روشنی میں احکام عقیقہ:
8۔ہر مسلمان کو حتیٰ الوسع اپنی اولاد(مذکریا مؤنث)کا عقیقہ کرنا چایئے ۔کیونکہ حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ )روایت کرتے ہیں :کہ" میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ۔آپﷺ فرماتے تھے لڑکے کا عقیقہ ہے اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس سے تکلیف کو دور کر دو!"
9۔عقیقہ کرنا واجب یا فرض نہیں بلکہ سنت ہے کیو نکہ آپﷺ نے خود حضرت حسن و حضرت حسین کا عقیقہ کی چنانچہ حضرت برید روایت کرتے ہیں :کہ"رسول اللہ ﷺ نے حضرات حسن وحسین کا عقیقہ کیا !"
اسی طرح آپﷺ نے دوسروں کو عقیقے کا حکم دیا ۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے "کہ"رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کر کے عقیقہ کریں ۔اور دوسروں کو رغبت دلانے کے ساتھ آپ ﷺ نے ایسا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بھی دیا ۔لہٰذا عقیقہ کو فرض یا واجب کہنا دلا ئل کی روشنی میں ثابت نہیں ہو تا جیسا کہ مندرجہ احادیث سے ثابت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر ما یا :
کہ" جس کے ہاں بچہ پیدا ہو پس وہ اپنے بچے کا عقیقہ کرنا چا ہے تو کرے۔"
ایک دوسری روایت میں ہے:کہ"جس کے ہاں بچہ پیدا ہوں ۔پھر وہ اس کی جا نب سے ذبح بھی کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرے البتہ عقیقہ کرنے کی اہمیت مندرجہ ذیل حدیث سے واضح ہو جا تی ہے :کہ"ہر بچہ اپنے عقیقے سے منسلک ہے ۔"اس حدیث کی وضاحت امام اہل سنت احمد بن حنبلؒ نے ان الفاظ میں بیا ن فرما ئی ہے:کہ" اس کا تعلق شفا عت سے ہے ان کی را ئے یہ ہے کہ اگر مولود کا عقیقہ نہ کیا گیا اور وہ بچپن میں ہی مر گیا تو اپنے والدین کے حق میں شفاعت نہیں کرے گا ۔"
تاہم اس قدر اہمیت و فضیلت کے با وجود بھی عقیقے کو نماز اور زکوٰۃکی مانند فرض نہیں قراردیاجا سکتا ہے۔
10۔جیسا کہ گزر چکا ہے لڑکے کی طرف سے دو بکریا ں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جا ئے گی ۔چنانچہ حضرت ام کرز ؓ روایت کرتی ہیں :"میں نے نبی کر یم ﷺ کو فر ما تے ہو ئے سنا لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے۔"
ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فر ما یا بکریاں خواہ نر ہوں یا مادہ اس سے چنداں فرق نہیں پڑتا ۔
11۔بکری نر مادہ کے مفہوم میں اس کے قریب تر جا نو ر بھی شامل ہیں جیسے مینڈھا ،دنبہ، چھترا ۔وغیرہ کیو نکہ رسول اللہ ﷺ نے بذات خود حضرت حسن اور حضرت حسین کی طرف سے مینڈھے کا عقیقہ دیا ہے:یعنی" رسول اللہﷺ نے حضرات حسن و حسین ؓ کی طرف سے دودو مینڈھوں کا عقیقہ کیا۔
12۔عقیقے کے دونوں جا نو ر ایک جیسے ہو نے چاہئیں یعنی جنس ،قد اور عمر کے لحاظ سے آپ ﷺ کا ارشاد گرا می ہے :
( الف ) عربی ( کتاب الاضاحی باب فی العقیقۃ حدیث صحیح ہے )
’’ لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ‘‘
( ب ) حدیث
’’ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریوں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا ۔‘‘
( ج ) اسی معنی کی حدیث مسئلہ نمبر 10 میں گذر چکی ہے ۔
13۔ عقیقہ صرف بکری یا اس کے مشابہ جانوروں کا ہونا چاہیے جیسا کہ احادیث میں گذر چکا ہے ۔ گائے یا اونٹ سے متعلق کوئی صحیح یا قابل اعتماد حدیث موجود نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث جسے طبرانی نے ص 278 پر روایت کیا ہے ، موضوع ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ( ارواء الخلیل ج 4 ص 393)
چنانچہ ایک موقع پر حضرت عائشہ ؓ سے اونٹ ذبح کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے انکار فرمایا ، ملاحظہ ہو :
حدیث ’’ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو حضرت عائشہ ؓ سے کہا گیا کہ اونٹ ذبح کریں ، انہوں نے فرمایا ’’ اللہ کی پناہ اس کی بجائے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو ایک جیسی بکریاں ۔‘‘
اس مفہوم کی حدیث مستدرک الحاکم میں بھی موجود ہے ( ج 4 ص 238،239) سند صحیح ہے ) اور اگر کسی صحابی سے اونٹ یا گائے ذبح کرنا ثابت بھی ہو تو اس کے دو جواب ہیں :
( الف ) اس صحابی کو حدیث کی خبر نہ ہو گی ۔
( ب ) صحابی کا قول یا فعل مقبول حدیث کی موجودگی میں قابل قبول نہیں !
( 14) عقیقہ ساتویں روز کرنا افضل ہے رسول اللہ ﷺ کا قول اور فعل اس کی بہترین دلیل ہے چنانچہ حضرت سمرہ بن جندب ؓ بیان فرماتے ہیں :
حدیث کہ ’’ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ ہر بچہ اپنے عقیقے سے بندھا ہوا ہے ۔ ساتویں روز اس کا عقیقہ کیا جائے گا ۔ اس کا سر مونڈا جائے گا اور نام تجویز ہو گا۔‘‘
چودھویں یا اکیسویں دن عقیقہ کرنا بھی جائز ہے ۔ بعض احادیث سے اس کی رہنمائی ملتی ہے ۔ مثلا :
حدیث حضرت بریدۃ ؓ روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے عقیقہ کے بارے میں فرمایا : ’’ ساتویں ، چودھویں یا اکیسویں دن ذبح کیا جائے گا ۔ ‘‘
یہ حدیث سند کے اعتبار سے اگرچہ قدرے ضعیف ہے لیکن حضرت عائشہ ؓ سے مروی مندرجہ ذیل صحیح حدیث اس کی معاون ہے :
حدیث حضرت ام کرز اور ابو کرز ؓ روایت کرتے ہیں حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : یہ (عقیقہ )ساتویں روز ہونا چاہیے اور اگر نہ ہو سکے تو چودھویں روز اور پھر بھی میسر نہ ہو تو اکیسویں روز ۔‘‘
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چودھویں یا اکیسویں روز اس شکل میں جائز ہے جب ساتویں روز میسر نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب!
جاری ہے