جناب صدر اسلام کہاں ہے؟

صدر پاکستا ن ،جنرل محمد ضیاء الحق نے فرما یا ہے کہ:"نئے وزیر اعظم کے حلف اُٹھا نے اور سول حکومت کی بحالی کے بعد وہ بہت زیادہ مسرت اور (اپنے تیئں)ہلکا پھلکامحسوس کر رہے ہیں ۔۔۔وہ خدا تعالیٰ کے احسان مند ہیں کہ اس نے انہیں قوم سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کرنے کی قوت اور حوصلہ بخشا!"(روزنامہ جنگ 26مارچ1985ء)۔۔۔ہم اس "ایفائے عہد" پر صدر صاحب کو مبارکباد"پیش کرنے  کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی یا د دلانا چاہتے ہیں کہ ان کا بحالی جمہوریت کا یہ وعدہ پوری قوم سے نہیں بلکہ درحقیقت صرف سیاستدانوں سے تھا جو اُن کے دوران اقتداران کے واحد حریف ہیں اور جن میں سے اکثر آج بھی جیلوں میں یا اپنے اپنے گھروں میں نظر بند ہیں لہٰذاایہ فیصلہ کرنا کہ صدر صاحب نے بحالی جمہوریت کے تقاضے کس حد تک پورے کیے ہیں ۔ان نظر بند سیاستدانوں کا کا م ہے!۔۔۔البتہ جہا ں تک عوام کا تعلق ہے ،انہیں ان بحالی جمہوریت سے نہ کل کو ئی خاص د لچسپی تھی نہ آج کو ئی دلچسپی ہے ۔۔۔ہاں مگر چند لو گ ایسے ضرور ہیں کہ مغربی جمہوریت سے مرعوب ہو نے کے ساتھ ساتھ زبان وقلم تک بھی جن کو رسائی حاصل  ہے،وہ جمہوریت کا ڈنڈا لیے عوام کے سر پر سوار ہیں ۔اور یوں اس نعرہ جمہوریت کو خود ہی انہوں نے عوام کی نظروں میں مقبول تصور کر لیا ہے۔۔۔ چنانچہ یہ پرو پیگنڈہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے کہ:"عوام نے انتخابات میں بھر پو ر شرکت کر کے  جمہوریت اور انتخابی عمل سے اپنی گہری وابستگی کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔"
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی عمل میں عوام کی اس دلچسپی کو،ان کی جمہوریت پسندی کا نام دینا،ان پر افتراء سے کم نہیں !۔۔۔پاکستان کے عوام کو جمہوریت ا گر اسی قدر عزیز ہوتی تو وہ غیر جماعتی انتخابات میں جو ش وخروش سے حصہ لینے کی بجائے علمبرداران جمہوریت کے"پس دیوار زنداں"دھکیل دیے جا نے پر سراپا احتجاج بن جاتے اور ان کی رہائی کے بعد جماعتی بنیادوں پر انتخابات سے کم کسی قیمت پر راضی نہ ہوتے ۔
لیکن اس کے بر عکس اگر انہوں نے جمہوریت پر ستوں کی طرف سے ،ریفرنڈم اور غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کو مستردکرتے ہوئے حالیہ انتخابات میں حصہ لے کر صدر صاحب کو اپنے عملی تعاون کا یقین دلایا ہے ،جمہوری قوتوں کی بد ترین شکست اورصدر صاحب سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے!۔اور کون نہیں جا نتا کہ صدر صاحب سے عوام کی یہ محبت اس لیے ہے کہ وہ باربار اسلام کا نام لیتے رہے،اور اس بناء پر ایک اسلام دوست حکمران "سمجھے جاتے رہے ہیں ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ عوام نے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لے کر ،صدرصاحب کے مقابلے میں جمہوری سیاستدانوں کوشہ مات دی ہے اور صرف اسی لیے انہوں نےموجود ہ مارشل  لاء کی طوالت کو برداشت لر لیا  ہے کہ وہ صدرصاحب کے وعدوں پر اعتبار کرکے ان سے اسلام کی آس لگائے بیٹھے تھے !۔۔۔لیکن آج اگر صدر صاحب "اسلام دوستی"کی بجائے" جمہوریت نوازی"پر اتر آئے ہیں اور اس کے لیے خداتعالیٰ کے احسان مند ہو نے کا اظہار بھی کر رہے ہیں ۔تو یہ عوام کے جذبات کی قدر دانی نہیں ، ان کے جذبات سے کھیلنے بلکہ انہیں کچل دینے کے مترادف ہے!۔
ہمیں اس موقع پر آج سے چند سال قبل کی وہ بات یاد آرہی ہے،جب عوام"قومی اتحاد"کے لیڈروں کواتحاد توڑ دینے کی بناء پر سر بازار کوستے  نظر آتے تھے۔لیکن ان لیڈروں کے بقول ،"اب بھی ان کے ہاتھ عوام کی نبضوں پر تھے"۔۔۔ چنانچہ آج بھی کم و بیش وہی صورت حال ہے۔۔۔ادھر عوام حیران و پریشان ،سوالیہ نگاہوں سے صدرصاحب کا منہ تک رہے ہیں کہ صدر صاحب ،وہ اسلام کہاں ہے ۔جس کا وعدہ آپ نے قوم سے ایک بار نہیں متعدد مرتبہ کیا تھا بلکہ جسے دوسرے وعدوں پر آپ نے فوقیت دی تھی؟۔۔۔لیکن اُدھر صدرصاحب مطمئن ومسرور شاداں وفرحاں یہ اعلان کرتے سنائی دیتے ہیں کہ اُنہوں نے قوم سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کردیا  ہے!۔۔۔یوں معلوم ہوتا ہے ،صدرصاحب  بھی اب پکے سیاستدان بن گئے ہیں !۔۔۔ فانا لله وانا اليه راجعون
صدرصاحب نے قوم کو جس ایفائے عہد کی خوشخبری سنائی ہے۔وہقوم کا مقصود مطلوب ہی نہ تھا ۔۔۔اور جن لوگوں نے حالیہ انتخابات میں عوام کی دلچسپی کی بناء  پر انہیں گہرے سیاسی شعور سے بہرہ ور ہونے " کا تمغہ خدمت "عطاء فرمایا ہے، وہ بھول رہے ہیں کہ پاکستان  کے عوام جیسے کچھ  بھی ہیں وہ اسلام سے بے حد پیار کرتے ہیں ۔۔۔اسلام کا یہی وہ مظلوم نعرہ ہے کہ جس کو ہر نئے آنے والےنے اچھا لا ضرور،مگر اس کی لاج کسی نے نہ رکھی ۔۔۔اور پاکستان کے یہی وہ مظلوم عوام ہیں کہ یہ نعرہ سن کر انہوں نے ہر نعرہ باز پر اندھا دھند اعتماد کر لیا۔
لیکن ہر مرتبہ دھوکا کھا ۔۔۔اور سب سے طویل دھوکا،اسلام کے نام پر انہوں نے حال ہی میں کھایا ہے!۔۔۔جی ہاں صدرصاحب کے وعدے اس قدر حسین اور دلفریب تھے۔کہ ان کے نقاد بڑے بڑے حامیان دین متین بھی آج تک صرف یہی کہہ سکے کہ" اسلامی نظام کی طرف پیش رفت برابر جاری ہے۔اگرچہ رفتار بیحد سست ہے!"۔۔۔اور اس سست رفتاری پر عوام کا تبصرہ عموماً یہ ہوتا تھاکہ"صدرصاحب نے ابھی تک قرآن مجید کی دو ایک آیات پڑھی ہیں ۔جبکہ پورا قرآن مجید باقی پڑا ہے!۔۔۔لیکن آج جبکہ یہ قرآن پڑھنا ہی چھوڑدیا۔گیا ہے۔وعدے بھی ختم ہو کررہ گئے ہیں۔بلکہ یہ کہہ کر ٹکا سا جواب دے دیا گیا ہے کہ "میں نے پارلیمانی بنیادوں پر جموریت بحال کر دی ہے اب اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکوں گا[1] عوام انگشت بدنداں ہیں کہ شاید بازی الٹ چکی ہے۔اور اسلام کی بجا ئے چند جمہوری کھلونےان کے ہاتھوں میں تھما کر انہیں بہلا دیا گیا ہے!۔باور کیجئے کہ آج کا یہ عرصہ عرصہ حیرت ہے۔۔۔کچھ مدت گزرے گی اور عوامحیرت کے سمندر میں ڈوب کر جب دوبارہ مکمل احساس وشعور کی سطح پرابھریں گے توانہیں معلوم ہوگا کہ منزل مقصود سے ہزاروں میل دور انہیں ایک ایسی جمہوری دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے کہ جس سے نکلنا شاید ہی انہیں نصیب ہوا۔انہیں یہ یا د آئےگاکہ پارلیمنٹ بجائے یہاں کو ئی مجلس شوریٰ ہوا کرتی تھی جہاں اسلام کے قانون شہادت اور مسودہ قصاص ودیت پر طویل گرماگرم  بحثوں نے انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا  تھا کہ ان اسلامی قوانین کا نفاذ بس اب ہوا ہی چاہتا ہے ۔لیکن اب یہ کھنڈر ویران پڑے ہیں ۔وزیر اعظم کے سیکرٹریٹ کی بجا ئے یہاں ایوان صدر ہوا کرتا تھا جہاں سے دن رات اسلامی قوانین کے چرچے سنائی دیتے اور اسلام پر صدر صاحب کے لمبے چوڑے دلنشین وعظ ہوا کرتے تھے ۔۔۔مگر اب یہاں سے جمہوری نغمے سنائی دیتے ہیں !۔۔۔وہ یہ سوچیں گے کہ یہاں تو ہر طرف اسلام ،اسلام کا شور برپا تھا ۔۔۔پھرنہ جا نے وہ ناظمین صلوٰۃ کہاں چلے گئے ؟۔۔۔وہ قاضی کو رٹس کے قیام کے وعدے کیا ہوئے؟ حدود آرڈی نینس کہاں اٹک گئے؟۔۔۔کیا زکوٰۃ وعشر آرڈی نینس محض ایک نام تھاکہ ٹیکسوں کے علاوہ بھی جس کے ذریعے انہیں لوٹ لیا گیا تھا؟۔۔۔آہ!
یہ سب کچھ ایک سراب تھا۔۔۔ دھوکا تھا !۔۔۔چادروچار دیواری کے تحفظ کی باتیں ہوا ہوگئیں ۔۔۔خواتین کو وہی حقوق دینے کے عزائم جورسول اللہﷺنے انہیں  دیے تھے ایک دیوانے کی بڑتھے۔۔۔ اب اسلام ضابطہ حیات ہی نہ رہاقرآن مجید مسلمانوں کا دستور نہ رہا ۔۔اسلام کی بجا ئے انہیں جمہوریت مل گئی اور قرآنکی بجا ئے انہیں 73ءکا ترمیم شدہ متنازعہ فیہ دستور مل گیا ۔!
یوں معلوم ہوتا ہےکہ اب تک جو کچھ ہوتا رہا اور اب اس غلطی کی تصیح کر دی گئی ہے!افسوس صدر صاحب آپ نے ایک ایسی قوم کے انتہائی قیمتی آٹھ سال ضائع کردیے کہ جس کی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب لیا جا نا اس کا جزو ایمان ہے اور اب  پھر  وہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ نہ جا نے ابھی کتنے مدادی اور آئیں گے جو اسلام کے نا م پر انہیں بیوقوف بناتے اور نت نئے تماشے دکھا تے رہیں گے ؟۔۔۔لیکن جہاں تک اسلام کا تعلق ہے وہ اس اعصاب شکن اور صبر آزما طویل انتظار کے باوجودآج بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں آج سے آٹھ سال قبل نہیں ۔بلکہ آج سے سینتیس سال قبل کھڑے تھے!
صدر صاحب آپ نے کسی سے بھی کو ئی بھی کیا ہوا وعدہپورا نہیں کیا! مخالفین کو آپ کی اس بحالی جموریت پر اطمینان نہیں ہے جبکہ شب و روزآپ کی درازی عمر اور درازی اقتدار کی دعائیں مانگنے والے حمایتیوں کو آپ نے چکرا کر رکھ دیا ہے ۔اور انہیں وہ اڑ نگا پٹخنی دی ہے کہ "﴿إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّـهِ﴾[2] ان کے ورد زبان ہونے لگا ہے۔۔۔۔اور وہ خدا تعالیٰ کہ جس کے آپ احسان مند ہونے چلے ہیں۔اس نے کرسی صدارت پرآپ کے تشریف فرما ہوتے ہی آپ سے یہ عہد لیا تھا :
﴿الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ﴾[3]
۔۔۔لیکن یہ عہد بھی ایک بھولی بسری داستان ہو کر رہ گیا ہے!۔۔۔آپ اپنے تئیں ہلکا پھلکا محسوس نہ کیجئے ۔۔۔نفاذاسلام کی ذمہ داری خود آپ نے بھی اپنے سرلی تھی اور اللہ رب العزت کی طرف سے بھی آپ پر عائد ہوتی تھی۔۔۔اور بوجھ اب بھی آپ کی گردن پر ہے !۔۔۔یاد رکھیے اقتدار آنی جانی چیز ہے جس کی خاطر آپ نے عوامی خواہشات کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی داؤپر لگا دیا ہے لیکن یہ زندگی پھر دوبارہ نہ ملے گی!۔۔۔آپ کے لیےقابل اطمینان امر صرف یہ ہے کہ آپ اب بھی اس ملک کےصدر ہیں اور اگر آپ نے کرسی صدارت کے تحفظ کی راہ نکال لی ہے تو نفاذ شریعت کے تقاضوںکو بھی آپ پورا کرسکتے ہیں ۔۔۔پانی ابھی سر سے بہر  حال نہیں گزرا۔۔۔اگر آپ قوم کو اس سے کیے گئے وعدوں کے ایفاءکا یقین دلانا چاہتے ہیں تو ان وعدوں کو پورا کیجئے جو شب و روز آپ کی زبان پر تھے ۔۔۔۔ورنہ وہ دن دور نہیں جب نو کروڑعوام کی زبانیں اللہ رب العزت کے حضور فریادی ہو ں گی ۔اور ان کے اٹھارہ کروڑہاتھ آپ کے دامن کو تار تار کردیں گے ۔۔۔لیکن اس سے قبل اس دنیا میں بھی آپ کا حشر اپنے پیش روؤںسے مختلف نہ ہو گا !
﴿قُلِ اللَّـهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ [4]
(اکرام اللہ ساجد)


[1] ۔روزنامہ جنگ 27مارچ85ء
[2] ۔میں اپنے غم واندوہ کی شکایت اللہ(وہی)سے کرتا ہوں !"(یوسف86)
[3] ۔وہ لوگ کہ جنھیں اگر ہم زمین میں قدرت دیں تو وہ نمازیں قائم کرتے زکوٰۃدیتے،نیکی کا حکم کرتے اور برائیوں سے روکتے ہیں اور انجام کا را للہ رب العزت ہی کے لیے ہے۔"(الحج 41)
[4]۔کہہ دیجئے کہ "اےاللہ ،مالک الملک توجسے چاہے ملک عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہے چھین لیتا ہے جسے چاہے عزت دیتا ہے ۔اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے۔بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے!(آل عمران:26)