جماعت اسلامی کی تحریک اتحاد ملت

تحریک اتحاد ملت کے سلسلہ میں جماعت اسلامی کی ایک علاقائی تنظیم نے "اتحاد بین المسلمین" کے موضوع پر  ایک جلسہ کاانتظام کیا تھا۔۔۔بریلوی فرقہ کی ایک مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد عوام کی ایک بڑی تعداد جمع تھی اور سٹیج پر اہل حدیث۔دیوبندی۔بریلوی اور شیعہ فرقوں کے مقامی علماء شانہ بشانہ رونق افروزتھے ۔مہمان خصوصی ایک سجادہ نشین تھے۔جبکہ علاقے کے چیئر مین کرسی صدارت پرتشریف رکھتے تھے۔۔۔سٹیج سیکرٹری(جو ایک پر جوش نوجوان تھے) نے یہ تاکیدکرنے کےبعد کہ نعرہ صرف سٹیج سے لگایا جائےگا۔"نعرہ تکبیر۔۔۔اللہ اکبر!" اوراتحاد بین المسلمین۔۔۔۔زندہ باد!" کے نعرے بلندکئے اور تلاوت کے لئے قاری صاحب کو دعوت دی۔۔۔جلسہ کاآغاذ ہوچکا تھا ۔کلام پاک کے بعد مقررین نے یکے بعد دیگرے اپنے اپنے خیالات کااظہارفرمایا۔ان تمام حضرات کے درمیان قدر مشترک تو نعرہ اتحاد تھا لیکن اس کی عملی صورت کچھ یوں تھی کہ:

دیوبندی عالم دین نے"اختلاف امتي رحمة  ایک حدیث جسے بعض محدثین نے موضوع قراردیا ہے۔کا حوالہ دے کر اختلافات وتعصبات کے زہر کو تریاق میں بدلنے کی ناکام کوشش فرمائی۔۔۔ناکام اس لئے کہ اس کی تشریح وہ محض یہی بیان کرسکے کہ اختلافات تو آئمہ اربعہ کے درمیان بھی موجود تھے لیکن یہ ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے۔اس کے بعد اس احترام کے سلسلے میں انہوں نے دو ایک حوالے پیش کئے۔رہی یہ بات کہ اختلافات کی اس وسیع خلیج کو پاٹ کرآج اتحاد کی عملی صورت کیا ہوگی؟ اور جسے وہ بیان کرنے کے لئے جلسہ گاہ میں تشریف لائے تھے۔اس طرف توجہ دینے کی انہیں مہلت نہ ملی کیونکہ تقریر ہی ختم ہوگئی تھی!

بریلوی مقرر نے ﴿ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ﴾پڑھ کر جو لمبی تان اٹھائی (کیونکہ ان کی آواز نہایت خوبصورت تھی)تو یہ ۔۔۔"یانبی سلام علیک ۔صلوات اللہ علیک"۔۔۔پرآن کرٹوٹی ۔لفظ"نبی ؐ " پر وہ اپنے انگھوٹوں کو چوم کر آنکھوں سے لگاتے تھے۔جبکہ باقی الفاظ ادا کرتے و قت وہ اپنے ہاتھوں کو نیچے سے اُوپر کی طرف اچھالتے تھے۔۔۔چنانچہ عوام میں سے کچھ لوگوں نے ان کی منشاء سمجھ کر ان کی ہمنوائی شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سمان بندھ گیا۔۔۔اب پہلے سے طے شدہ پروگرام کے برعکس عوام کی طرف سے بھی نعرہ رسالت۔۔۔یا رسول اللہ!کے نعرے بلند ہونے لگے تھے،جبکہ مقرر کے علاوہ باقی علماء ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔

شیعہ مقرر نے اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ آلِ مُحَمَّدٍ پڑھ کر تقریر شروع  کی اور فرمایا کہ غیر مسلم اگر ایک کتاب اور ایک رسول کو مان کر بھی متحد رہ سکتے ہیں تو ہم،کہ جن کا خدا بھی ایک ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک اورقرآن بھی ایک ہم متحد کیوں نہیں ہوسکتے؟۔۔۔یاد رکھئے،ہمارا مقصود بھی ایک ہے اور مرکز بھی ایک  ہمارا مقصود توحید ہے اور مرکز رسالت ہے۔!"

واضح رہے کہ شیعہ مقرر کی یہ تقریر اہل حدیث مقرر کی تقریر کے بعد ہوئی تھی۔اور سٹیج سیکرٹری جو اسے قبل کئی بار اپنے اس خیال کا اظہار کرچکے تھے کہ ہم اپنے اپنے مسلک کے پابند رہ کر بھی متحد ہوسکتے ہیں۔اہلحدیث مقرر کی تقریر سن کر برملا یہ کہہ  اٹھے کہ"انہوں نے مرض کی تشخیص بھی کی ہے اور اس کا علاج بھی بتلایا ہے!"

جلسہ کے اختتام پر صاحب صدر نے د عا کی کہ"اے اللہ" ہمیں متحد رہنے کی توفیق عطا فرما۔۔۔آمین!" یہ الگ بات ہے کہ دعا کے بعد سٹیج پر ہی علماء کی باہمی نونک جھونک شروع ہوچکی تھی!

قارئین کرام!یہاں ہم نے اہلحدیث مقرر کے خیالات کی نشاندہی نہیں کی کیونکہ ہم اسے  مضمون کے آخر میں بیان کرنے والے ہیں۔اور اس مضمون کا محرک بھی یہی نقطہ نظر ہے!

ان دنوں کالعدم جماعت اسلامی کی طرف سے "اتحاد ملت" کی تحریک بڑے زور وشور سے چلائی جارہی ہے۔جلسے منعقد ہورہے ہیں۔اخبارات میں ایک پانچ نکاتی پروگرام شائع ہوچکا ہے اور اس سلسلہ کے متعدد پمفلٹ بھی طباعت کے بعد عوام میں ہاتھوں ہاتھ تقسیم ہوچکے ہیں۔۔۔تاہم"اتحاد" کے موضوع پر منعقد ہونے والے اس جلسہ کو سن کرہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ داعیان اتحاد ملت کے پاس اتحاد کے لئے کوئی ٹھوس پروگرام اور واضح لائع عمل موجود نہیں ہے۔بس وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہر فرقہ کہ لوگ اپنے اپنے مسلک سے منسلک بھی رہیں اور اتحاد اتحاد کا نعرہ بھی بلند کرتے ہیں۔تاکہ سند رہے اور بوقت انتخابات کام آئے!۔۔۔بدگمانی اچھی چیز نہیں  تاہم اس وقت جبکہ انتخابات کی آمد آمد ہے اتحاد کے اس خالی خولی نعرہ کا مفہوم ہم کچھ اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔اور ممکن ہے یہ اتحاد آئندہ انتخابات میں ان کے لئے مفید ثابت ہو۔تاہم قرآن مجید کی نظر میں امت مسلمہ کا مطلوبہ اتحاد ہرگز  یہ نہیں ہے۔اولاً  تو ایسا اتحاد ممکن نہیں اور اگر ممکن ہو تو عارضی ثابت ہوگا۔اس سلسلے میں ماضی قریب کے نوستاروں کے قومی اتحاد کو بطور مثال پیش کیاجاسکتا ہے۔۔۔حالانکہ:

"نو کا عدد کبھی نہیں ٹوٹتا!"(لیڈران قومی اتحاد)

علاوہ ازیں ہم یہاں جماعت اسلامی کے اطمینان کے لئے مولانا مودودی علیہ الرحمۃ کی تفہیم القرآن" کا ایک اقتباس نقل  کرتے ہیں۔۔۔مولانا مرحوم نے تفہیم القرآن جلد سوم ص 118۔119۔پر سورۃ طہٰ کی آیت 94 کے سلسلہ میں یہ عبارت درج فرمائی ہے۔۔۔آیت یہ ہے:

﴿قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي﴾

اس کاترجمہ اور تشریح بھی مولانا کے قلم سے ملاحظہ ہو:

"ہارون علیہ السلام نے جواب دیا"اے  میری ماں کے بیٹے میری داڑھی نہ پکڑ نہ میرے سر کے بال کھینچ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا  پاس نہ کیا۔حضرت ہارون علیہ السلام کے اس جواب کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قوم کا مجتمع رہنا اس کے راہ راست پر رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔اوراتحاد چاہے وہ شرک پر ہی کیوں نہ ہو افتراق سے بہتر ہے خواہ اس کی بنا حق اور باطل ہی کا اختلاف ہو۔اس آیت کایہ مطلب اگر کوئی شخص لے گا تو قرآن سے ہدایت کے بجائے گمراہی اخذ کرے گا۔ حضرت ہارونؑ کی پوری بات سمجھنے کے لئے اس آیت کو سورۃ اعراف کی آیت 150 کے ساتھ ملا کر  پڑھنا چاہیے۔۔۔الخ!"

اس کے بعد مولانا نے ان دونوں آیتوں کو جمع کرکے صورت واقعہ کی اصل تصویر پیش فرمائی ہے جسے ہم بخوف طوالت نظر انداز کررہے ہیں۔ویسے بھی استدلال کے لئے اسی قدر کافی ہے ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ خود مولانا علیہ الرحمۃ کے نزدیک حق وباطل کے اختلاف کے باجود اتحاد نیز شرک پر اتحاد ہدایت کے بجائے گمراہی اخذ کرنے کے مترادف ہے۔

فلهذا  "﴿  كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ﴾ " کا مصداق رہ کر بھی اتحاد اتحاد کا نعرہ بلند کئے جانا نہ صرف صحیح فکر نہیں ہے۔ بلکہ یہ بات فرقہ بازی کو جواز مہیا کرنے کےلئے ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے!

بیجانہ ہوگا اگر ہم یہاں حالیہ تحریک اتحاد ملت کے سلسلہ میں شائع کیے جانے والے ایک پمفلٹ:

"امت مسلمہ میں فرقہ بندی کیوں؟۔۔۔از سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ بھی  دے دیں۔مولانا نے اپنے اس مقالہ میں دین اور شریعت کی تعریف بیان کرکے نظریہ اتحاد پر روشنی  ڈالی ہے۔دین کی تعریف میں آپ لکھتے ہیں:

﴿إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ﴾

"اللہ کے نزدیک حقیقی دین صرف اسلام ہے!"

"یعنی خدا کے نذدیک اصل دین بس وہی ہے جس میں انسان صرف اللہ کو عزت والا مانے اور اس کے سوا کسی کے آگے اپنے  آپ کو ذلیل نہ کرے۔صرف اللہ کو آقا اور مالک اور سلطان سمجھے۔اور اس کے سوا کسی کا غلام فرمانبردار اور تابعدار بن کر نہ رہے صرف اللہ کو حساب کرنے اور جزاوسزا دینے والا سمجھے اور اس کے سوا کسی کے حساب سے نہ ڈرے۔کسی کی جزا کا لالچ نہ کرے اور کسی کی سزا کا خوف نہ کھائے اسی دین کا نام"اسلام"ہے۔اگر اس کو چھوڑ کرآدمی نے کسی اور کو اصلی عزت والا ۔اصلی حاکم،اصلی بادشاہ اور مالک۔اصلی جزا وسزا دینے والا سمجھا اور اس کے سامنے ذلت سے سر جھکایا اس کی بندگی اور غلامی کی اس کا حکم مانا اور اور اس کی جزا لالچ اور سزا کا خوف کھایا  تو یہ جھوٹا دین ہوگا۔اللہ ایسے دین کو ہرگز تسلیم نہیں کرتاکیونکہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔خدا کے سوا کوئی دوسری ہستی اس تمام کائنات میں اصلی عزت والا نہیں ہے۔نہ کسی اور کی سلطنت  اور بادشاہی ہے۔نہ کسی اور کی بندگی اور غلامی کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔نہ اس مالک حقیقی کے سوا کوئی اور جزا اورسزا دینے والا ہے۔یہی بات د وسری آیتوں میں اسطرح بیان کی گئی ہے۔

﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْه﴾

"یعنی جو شخص خدا کی سلطانی اور بادشاہی کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مالک اور حاکم مانے گا۔اوراس کی بندگی اور غلامی اختیار کرے گا۔اور اس کو سزا وجزا دینے والا سمجھے گا۔اس کے دین کو خدا ہرگز قبول کرنے والا نہیں ہے۔اس لئے کہ:

﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ﴾

" انسانوں کو تو  خدا نے اپنا بندہ بنایا ہے اور اپنے سوا کسی اور کی بندگی کا حکم ہی نہیں دیا ہے۔ان کاتو فرض یہ ہے کہ سب طرف  سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے لئے اپنے دین یعنی اطاعت اور غلامی کو مخصوص کردیں اور یکسو ہوکر صرف اسی کی بندگی کریں اور صرف اسی کے حساب  سے ڈریں:

﴿أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّـهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ ﴾

"کیا انسان خدا کے سوا کسی اور کی غلامی اور فرمانبرداری کرنا چاہتا ہے حالانکہ  زمین وآسمان کی ساری چیزیں صرف خدا کی غلام اور فرمانبردار ہیں اور ان ساری چیزوں کو اپنے حساب کتاب کے لئے خدا کے سوا کسی اور طرف نہیں جانا ہے۔کیا انسان زمین اورآسمان کی ساری کائنات کے خلاف ایک نرالا راستہ اپنے  لئے نکالنا چاہتا ہے؟"

﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾

"اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہدایت اور دین حق دے کر اس لئے بھیجا ہے کہ وہ سارے جھوٹے خداؤں کی خدائی ختم کردے۔اور انسان کو ایسا آزاد کرے کے وہ خداوند عالم کے سوا کسی کا بندہ نہ رہے چاہے کفار اور مشرکین اس پر اپنی جہالت سے کتنا ہی واویلا مچائیں اور کتنی ہی ناک  بھوں چڑھائیں۔

﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّـهِ﴾

"اور تم جنگ کرو اس لئے کہ دنیا سے غیر اللہ کی فرمانروائی کا فتنہ مٹ جائے اور دنیا میںبس خدا کا قانون ہی چلے خدا ہی کی بادشاہی تسلیم کیجائے اور انسان صرف اسی کی بندگی کرے!"(پمفلٹ مذکورہ ص4،5،6)


جماعت اسلامی  کی حالیہ تحریک اتحاد ملت کے قائدین ایک طرف مولانا کی اس  عبارت کو غور سے پڑھیں اور دوسری طرف یہ دیکھیں کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ننگ دھڑنگ فقیروں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔عقیدت سے ان کے ہاتھ پاؤں دباتے ہیں۔حتیٰ کہ ان کے منہ سے گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہیں ہوتے بلکہ انھیں رحمت کے پھول سمجھ کر ا پنے دامنوں میں سمیٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔گیارہویں کی کھیر نہ پکائیں تو ہر آن ان کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ان کی بھینسوں کا دودھ خشک ہوجائےگا۔مردوں کو"ککڑ" دے کر "پتر" کا سودا کرنے والے بھی موجود ہیں۔"یا علی مشکل کشا" کا نعرہ لگانے والے بھی بہت ہیں بلکہ اب تو

 قبر ونشر حشر میں تو ساتھ دے     ہومرا مشکل کشا احمد رضا

حشر کے دن جب کہیں سایہ نہ ہو اپنے سایہ میں چھپا احمد رضا

کا ورد بھی  ہونے لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سٹیجوں پر جھوم جھوم کر

امدا د کن امداد کن                     از بند غم آزاد کن

دردین ودنیا شاد کن                   یاشیخ عبدالقادرا

پڑھنے والوں کا بھی کوئی قحط نہیں۔۔۔اور اگر آپ ان تمام باتوں کو "صرف اللہ ہی کی بندگی"کے منافی سمجھ کر ایسے عقائد رکھنے والوں کے دین کو"جھوٹا دین"کہیں گے تو وہ آ پ کے پاس ایک لمحہ بھی رکنے کےلئے تیار نہ ہوں گے۔ جبکہ آپ ان سے اتحاد چاہتے ہیں۔ اگر آپ ان سے یہ کہیں گے کہ"سب طرف سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے لئے اپنےدین یعنی اطاعت اورغلامی کو مخصوص کردیں تو وہ آپ پر وہابیت منکر اولیاء اورگستاخ رسول ہونے کا فتویٰ لگائیں گے اورآپ کو اپنی مسجد میں نماز  تک پڑھنے کی اجازت نہ دیں گے لیکن آپ ان سے ووٹوں کے طلب گار ہیں!۔۔۔آپ ان سے اتحاد ملت کے جلسہ میں یہ کہیے کہ خدا کے علاوہ اگر کسی کو پکارا جائے تو یہ اس کو خدا بنانے کے مترادف ہے اور جھوٹے  خداؤں کی خدائی  ختم ہونی چاہیے تو ہمیں امید نہیں  کہ آپ بخیریت اپنے گھر واپس جاسکیں گے۔پھر جہاں آپ نے ان غلط عقائد کی تردید کے لئے دین حق کے غلبے کے لئے

﴿وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾

کی آیت تلاوت فرمائی تو وہ آپ کو فسادی فنتہ باز کافر گر اور نہ جانے کیا کیاکہیں گے،پھر آپ نعرہ اتحاد کو کہاں کہاں لئے پھریں گے؟آپ دین کے معنی اطاعت بیان کرکے

﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴾

پڑھیں گے تو مولانا عبدالستار نیازی اوران کے عقیدت مند آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے کہ آپ نے فقہ کو اساس حجیت میں شامل کیوں نہیں کیا؟"

جلسہ اتحاد ملت میں شامل تمام مقلدین حضرات سٹیج سے اتر اتر کر اپنے اپنے گھر کی راہ لیں گے اورسٹیج خالی ہوجائے گا۔اور اگر آپ نے یہ نعرہ بلند کیا کہ"دنیا میں بس خدا کا ہی قانون چلے" تو آپ خود ہی واک آؤٹ کرجائیں گے۔۔۔اور جمہوریت کی یہ نیا جس پراہل پاکستان کولاد کر آپ ساحل مراد تک پہنچاناچاہتے ہیں۔اپنے ناخداؤں سے محروم ہوکر ڈانواں ڈول ہوجائے گی۔۔۔اب نہ ووٹوں کی آپ کو ضرورت پڑے گی اور نہ ہی نعرہ اتحاد کی کوئی اہمیت باقی ر ہ جائے گی۔کیونکہ جمہوریت کی تعریف یہ ہے:

اور یہ تعریف دنیا میں بس خدا کاقانون ہی چلے"سے لگا نہیں کھاتی۔۔۔پھر اگر  آپ اسے اسلامی بنانا چاہیں گے تو کیا قانون سازی سے دستبردار ہوجائیں گے؟۔۔۔یا کثرت رائے کے اصول کو فراموش کردیں گے؟اسمبلی میں اگر گندی اور لچر فلموں کو تفریح کا نام دینے والوں کےووٹ زیادہ ہوگئے تو  آپ اس کثرت رائے کے سامنے سرتسلیم خم کردیں گے؟اسے بہرحال آپ کو تسلیم کرنا ہوگا۔کیونکہ کثرت رائے ہی کے بل بوتے پر تو آپ اسمبلی میں تشریف لائے تھے۔

۔۔۔اے اللہ کے بندو!آپ نے تو  یہ پمفلٹ اس لئے شائع کیاتھا کہ اتحاد ہوجائے لیکن ایک دنیا  آپ کے خلاف ہوگئی ہے۔حتیٰ کہ آپ خود سے بھی بیگانہ ہوگئے ۔۔۔بقول شخص کہ

ہم خود بھی اکیلے ہوتے گئے جب ایک خدا کا نام لیا

سب دنیا ہم کو چھوڑ گئی ہم تنہا پائے جاتے ہیں

۔۔۔دراصل آپ سمجھے نہیں،مولانا مرحوم یہاں دین کی  تعریف کرکے بڑی خاموشی سے آپ کو اس مرکز تک لے آئے ہیں جہاں اتحاد کاعظیم الشان محل تعمیر ہونے والا ہے۔۔۔کہ اتحاد کا پہلانکتہ توحید الوہیت ہے ۔توحید ہی وحدت کا باعث ہے۔۔۔توحید ہوگی تو اتحاد ہوگا اگر توحید پر اتحاد نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ کو قطعاً ایسا اتحاد مطلوب ومحبوب نہیں۔۔۔پھر

﴿لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ﴾

کا نعرہ لگے گا اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ ہوجائے گا۔

مولانا نے تو آپ کو یہ مشورہ دیا کہ:

﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ﴾

"اور تم جنگ کرو، اس لئے کہ دنیا سے غیر اللہ کی فرمانراوائی کا فتنہ مٹ جائے۔اور دنیا میں بس خدا کا ہی قانون چلے خدا ہی کی بادشاہی تسلیم کی جائے اور انسان صرف اسی کی ہی بندگی کرے!"

لیکن آپ ہیں کہ صلح کل پر مائل ہیں۔ہر ایک اپنے مسلک سے چمٹا رہنے کی آزادی بھی دیتے ہیں اور اتحاد کی نوید بھی!۔۔۔آپ اپنے ہی اس شائع شدہ پمفلٹ کو دوبارہ بغور پڑھیں، جس کے ٹائٹل پر تحریک اتحاد ملت کے الفاظ نمایاں ہیں۔اور پھر اس تحریک کے مقاصد کوپیش نظر ر کھتے ہوئے خود فیصلہ کریں کہ مولانا ؒ کے نقطہ نظر سے آپ نے خود کہاں تک اتفاق کیا ہے؟۔۔۔بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں یہ عین ممکن ہے مولانا عبدالستار نیازی نے "اتحاد بین المسلمین۔۔۔۔۔۔۔!کے عنوان کے تحت"نوائے وقت" کی ددقسطوں میں (یہ الفاظ لکھنے تک اس مضمون کی تیسری قسط شائع نہیں ہوئی۔[1]آپ  کو جلی کٹی سنائی ہیں،اس کی بنیاد یہی نکتہ توحید ہو یہ شبہ اس امر سے بھی تقویت پاتا ہے۔کہ یہ مضمون لکھتے وقت آپ کا یہ پمفلٹ مولانا نیازی کے نہ صرف پیش نظر رہا ہے بلکہ اس کے اقتباسات بھی انہوں نے نقل کیے ہیں۔چنانچہ ان کے مضمون سے ٹپکنے والے شدید غیض وغضب اور پھر علم غیب وغیرہ کے مباحث چھیڑنے کی یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ:

﴿وَإِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾

"اور جب تنہا اللہ کا زکر  کیا جاتا ہے۔ تو ان لوگوں کے دل تنگ ہونے لگتے ہیں جن کا آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ہاں اس کے سوا جب اوروں کازکر کیا جاتا ہے تو خوشی سے ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں!"

۔۔۔اور یہ تو ظاہر ہے کہ مولانا نے اپنے اس مقالہ میں دین کی تعریف بیان کرتے وقت اکیلے خدا ہی کا نام لیا ہے!

مولانا مودودی نے اس کے بعد شریعت کی تعریف بیان  فرمائی ہے۔تاہم اس میں بعض باتیں مغالطہ آمیز ہیں مثلاً انہوں نےدین اورشریعت کا فرق بیان کرتے ہوئے ایک آقا اور اس کے چند نوکروں کی مثال بیان کی ہے۔ اس مثال کا پہلا حصہ تو خیر امام سابقہ سے تعلق رکھتا ہے جو درست ہے۔لیکن امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کےسلسلہ میں وہ اس مثال کا دوسرا حصہ یوں بیان  فرماتے ہیں:

"اسی طرح اگر آقا(اللہ تعالیٰ)کا حکم سن کر ایک نوکر (بندہ)اس کی منشاء کچھ سمجھتا ہے اور دوسرا کچھ اور۔اور یوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں تو نوکری میں دونوں برابر ہیں ۔یہ ہوسکتا ہے۔کہ ایک نے مطلب سمجھنے میں غلطی کی ہو اور دوسرے نے صحیح مطلب سمجھا ہو لیکن جب اطاعت دونوں نے کی ہے تو ایک کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ تو نا فرمان ہے یا تجھے آقا کی نوکری ہی سے خارج کردیا گیا ہے۔!"(ص9)

ان الفاظ پر ہمیں اعتراض اسی لئے ہیے کہ اس مثال میں آقا اور نوکر کے درمیان ایک ایسی تیسری شخصیت کا ذکر موجود نہیں ہے،جس کا منصب آقا اور بندہ کے درمیان واسطہ بن کر

﴿يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾

کامقدس فریضہ اسرانجام دینا اور نوکر کو مالک کی منشاء سمجھانا ہے۔جبکہ اُسے اس منشاء کے سمجھنے میں آزاد چھوڑ کر

﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ﴾

کی حامل شخصیت کے خلاء کواپنی اپنی سمجھ سے پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اور یہ اس اپنی اپنی سمجھ کا ہی نتیجہ ہےکہ:

کہ آقا کا حکم سن کر ایک نوکراس کی منشاء کچھ سمجھتا ہے۔اور دوسرا  کچھ اور۔۔۔کیا شریعت اتنی ہی وہمی چیز ہے کہ ہمیں شش وپنج میں مبتلا چھوڑ کر یہ کہنے پر مجبور کر دے کہ:

"ہوسکتا ہے کہ ایک نے سمجھنے میں غلطی کی ہو اور دوسرے نے صحیح  مطلب سمجھا ہو!"

۔۔۔ایک نوکر دوسرے نوکر کو آقا کی نوکری سے خارج کردینے کا اختیار تو خیر نہیں رکھتا لیکن اگر کوئی نوکر اپنی سمجھ کے مطابق کوئی ایسا کام کرتا ہے جو صریحاً سنت رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کے خلاف ہوکر بدعت کے زمرے میں آتا ہے تو دوسرا نوکر آقا اور نوکر کے درمیان واسطہ بننے والی شخصیت کے فرمان کا حوالہ دے کر اس سے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ بدعتی کا کوئی عمل قابل قبول نہیں اور وہ روز محشر ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں آب کوثر پینے کی بجائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے" سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ غَيَّرَ بَعْدِي"کی ڈانٹ سنے گا۔یہ اپنی اپنی سمجھ ہی تو سارے فسادکی جڑ ہے!آخر یہ کیسا اتحاد ہے اور فرقہ بندی کا کیا علاج کہ نوبت بہ ایں جارسید:

"اب اگر اس شریعت کے احکام کو ایک شخص کس طرح سمجھتا ہے۔اور دوسرا کسی اور طرح اوردونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس  پر عمل کرتے ہیں تو چاہے ان کے عمل میں کتنا ہی فرق ہو ان میں سے کوئی نوکری سے خارج نہ ہوگا اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک جس طریقہ پر چل رہا ہے یہی سمجھ کرچل رہا ہے کہ یہ آقا کا حکم ہے!"(ص11)

۔۔۔شریعت نہ ہوئی چوں چوں کا مربہ  ہوگیا۔۔۔پھر بھی اس کا نام اطاعت ہے۔[2]اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ ہرطریقہ شریعت ہے۔(کیونکہ مولانا نے بھی شریعت کا معنی طریقہ ہی بتلایا ہے۔)[3]پھر یہ مختلف شریعتیں بھی ایک ہی شریعت ہے۔دین  اور شریعت میں فرق ضرور ہے کہ دین ہمیشہ سے ایک رہا ہے۔اورشریعتیں مختلف(بشرط یہ کہ ایک ہی دین کے لئے ہوں)لیکن شریعت محمدیہ بلاشبہ ایک ہی شریعت ہے! یہ نہیں کہ جتنے نوکراتنی ہی شریعتیں ہوں اور ہر شریعت کے منجانب اللہ  ہونے کا یہ معیار کہ میری سمجھ میں آقا کے حکم کی منشاء یہ ہے اور فلاں کی سمجھ میں فلاں منشاء! آقا تو آواز پہ آواز دے رہا ہے کہ دیکھو،میری منشاء وہ ہے جو میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلادی۔

﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴾

" جس نے میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی،وہی میری اطاعت ہوگی!"لیکن یہاں سب﴿كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ﴾کے مصداق بھی اور اس ڈر سے خاموش اور مہر بلب بھی کہ مبادا اتحاد ٹوٹے اور فرقہ بندی کو راہ مل جائے۔۔۔اگر اتحاد کے یہی معنی ہیں تو پھر داعیاں حق کا فریضہ کیا ہے؟۔۔۔"امر بالمعروف اور نہی عن المنکر"کاذکر قرآن میں کیوں ہوا؟۔۔۔سورۃ آل عمران میں جہاں:﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ارشاد ہوا  وہاں اس کے بعد آیت(105) میں
﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ﴾کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دعوت الی الخیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ تو اتحاد کے منافی ہے اور نہ فرقہ بندی کا باعث بنتا ہے!

در اصل یہ مثال آئمہ کے خالص اجتہادی مسائل کی حد تک تو گوارا ہوسکتی ہے۔لیکن موجودہ فرقہ بازی اور تعصب میں ایسی توجیہ کی کوئی گنجائش نہیں۔کیونکہ اجتہاد سے بسا اوقات جو اختلاف رونما ہوتا ہے۔ وہ عموماً شریعت کے ہی مختلف پہلوؤں کا اظہار ہوتا ہے۔اسی لئے ائمہ نے کبھی اس  کی بنیاد  پرنہ فرقہ بندی کی ہے اور نہ اپنے اپنے مؤقف کو بے دلیل قبول کرنے کی اجازت دی ہے۔بلکہ ان کی تعلیم بار بار یہی رہی ہے کہ ہمارے اقوال کو کتاب وسنت پر پیش کیا جائے۔اگر موافق ہوں تو قبول کرلئے جائیں ورنہ انہیں دیوار سے دے  مارا جائے۔لیکن موجودہ فرقوں اور مقلدین نے ان کے اس قول کو تو تقلید کے دعوے کے باوجود نہ مانا۔جبکہ ان کی باقی تمام آراء کو جن کی حیثیت در اصل فقہ اور اجتہاد کی تھی فقہ سے بھی بڑھ کر شریعت کا درجہ دے دیا ہے۔[4] فقہ اور شریعت کا یہی فرق مولانا  کی عبارت میں ملحوظ نہ رکھاگیا ہے۔اور جتنی مثالیں آقااور نوکر کی دی ہیں ان کامصداق تو ائمہ کے اجتہادات ہیں لیکن جنھیں  جواز فراہم کرتے ہوئے مقلدین کی فرقہ بازی کی حوصلہ افزائی ہوگئی ہے۔گویا اتحاد کی دعوت نہیں فرقہ بندی کو فروغ مل رہا ہے۔اور اخلاص کی بجائے رواداری کے نام پر منافقت پھیل رہی ہے۔پس موجودہ فرقہ بندی ان مثالوں کا مصداق قطعاً نہیں ہے بالخصوص اس لئے کہ ان مثالوں میں شریعت اور فقہ کجا دین اورشریعت بھی آپس میں گڈ مڈ ہوکر رہ گئے ہیں۔اور اسی طرح شریعت بھی ان باتوں کی مصداق نہیں ہے کہ شریعت اپنی اپنی سمجھ کا نام نہیں ہے۔

اسی طرح مولانا نے فرمایا ہے:
"مسلمانوں میں نماز پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں۔ایک شخص سینے پر ہاتھ باندھتا ہے دوسرا ناف پر باندھتا ہے ۔ایک شخص امام کے  پیچھے فاتحہ پڑھتا ہے۔دوسرا نہیں پڑھتا۔ایک شخص آمین زور سے کہتا ہے دوسرا آمین آہستہ کہتا ہے۔ان میں سے ہر شخص یہی سمجھ کرچل رہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔اس لئے نماز کی صورتیں مختلف ہونے کے باوجود دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو ہیں۔مگر جن ظالموں نے شریعت کے ان مسائل کو دین سمجھ رکھا ہے انہوں نے محض انہی طریقوں کے اختلاف کودین کا اختلاف سمجھ لیا!(ص12۔13)ہم بھی ان باتوں کو دین کا اختلاف نہیں سمجھتے لیکن ہم انہیں شریعت کااختلاف سمجھنے سے بھی انکاری ہین۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اگر یہ ہو کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے۔اور یہ بھی ہو کہ نہ پڑھی جائے۔تو دونوں صورتوں ایک ہی شریعت میں داخل ہیں۔اس صورت میں دونوں ہی (پڑھنے واال اور نہ پڑھنے والا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو ہوں گے۔لیکن اگر  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز کو ایک ہی سلسلہ کلام میں تین بار ناقص اور ناتمام فرمایا ہو تو امام کے پیچھے سورۃفاتحہ پڑھنا ہی شریعت ہوگا۔دوسرے طریقے کو ہم خلاف شریعت کہیں گے۔پس پڑھنے والا اور نہ پڑھنے والا دونوں ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو کار نہیں ہوں گے۔کیونکہ اس طرح یا تو شریعت میں اختلاف لازم آئے گا۔یا یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ شریعت ایک کی بجائے کئی ہیں۔لہذا پڑھنے والا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرو کار ہوگا لیکن جس نے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر انداز کرکے کسی امام کی تقلید میں اس کے پڑھنے سے انکار کردیاہے اس نے گویا رسالت کی مسند پراس امام کو بٹھادیا ہے!
علاوہ ازیں اختلافات صر ف آمین ۔فاتحہ خلف الامام۔ اور نماز میں ہاتھ باندھنے تک محدود نہیں ہیں۔نہ ہی مولانا کے ان الفاظ کے پابند رہ سکتے ہیں۔بلکہ اگر سنت کو نظر انداز کردیا جائے گا۔تو یہ گاڑی شرک و بدعت سے ورے نہیں رکے گی۔
اتحاد ہمیں بھی عزیز سے عزیز تر ہےلیکن اس کے لئے ہمیں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دستبردار ہوناگوارا نہیں ہے۔خود مولانا کے یہ الفاظ ہمارے ذہن میں گونج رہے ہیں کہ:
"حضرت ہارونؑ کے اس جواب کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قوم کامجتمع رہنا اس کے راہ راست پررہنے سےزیادہ اہمیت رکھتا ہے۔!"
پس ہر شخص کو"اپنی اپنی سمجھ" کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دینا اتحاد کاباعث نہیں انتشار کو راہ دیتا ہے۔فرقہ بندی کی جڑ نہیں کاٹتا اس کو پروان چڑھا کر ایک تن آور درخت بناتا ہے۔اور جوں جوں یہ درخت پھلتا پھولتا جائے گا
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ
کی گرفت ڈھیلی پرتی جائے گی۔
ارشا د باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٣١﴾ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا﴾
"مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔یعنی ان لوگوں میں سے کہ جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکرے کردیا اور گروہوں میں بٹ گئے!"
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾
کہ"(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے گروہ بندیاں اختیار کرلیں آپ کو ان سے کچھ سروکار نہیں ہے۔ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔پھر وہ ان کو جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں خوب جتلا دے گا!"
اور اسی سورۃ کی آیت 65 میں  تو فرقہ بندی کو عذاب الٰہی کی قسموں میں سے ایک قسم شمار کیا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
﴿قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ﴾
"(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) فرمادیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے یاتمھیں فرقہ فرقہ کردے اور ایک کو دوسرے (سے لڑا کر آپس) کی لڑائی کامزہ چکھا دے۔!"
ان آیات کی روشنی میں کوئی بھی زی ہوش انسان انتشار وافتراق کو ختم کرنے اور اتحاد واتفاق کی ضرورت واہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔حتیٰ کہ جو قوم انتشار وافتراق کو اپنی صفوں میں راہ دیتی ہے صرف یہی نہیں کہ اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کرسکتی اور اپنی سلامتی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ بلکہ قرآن مجید نے تو یہ زکر کرکے فرقہ بندی مشرکین کا شیوہ ہے۔اتحاد واخوت کے سلسلہ کااخروی پہلو بھی ہمارے سامنے پیش کیا ہے!
تاہم اے قائدین تحریک اتحاد ملت قرآن کریم ان بنیادوں کی طرف بھی ہماری راہنمائی فرماتا ہے جن بنیادوں پراتحاد واخوت کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوسکتی ہے۔اور ان مقامات کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔جہاں کسی مزعومہ اتحاد کے بنے بنائے محل اچانک چکنا چورہوتے رہے ہیں۔تاریخ عام پر ایک اچٹتی سی نگاہ تو ڈالئے یہ کیا وجہ ہے کہ حضرت نوح ؑ اور ان کا حقیقی بیٹا ایک ہی کشتی کے سوارنہ بن سکے؟۔۔۔حالات کی  نزاکت سے کسے انکار ہے؟نوحؑ کو بیٹے کی موت کا اندیشہ ہی نہیں بلکہ وہ ان کی نگاہوں کے سامنے غرق ہورہا ہے۔اس عالم اضطراب میں وہ اپنےرب کوپکارتے ہیں کہ(عربی)لیکن بارگاہ الوہیت کو یہ اتحادی ادا ایک آنکھ نہیں بھاتی اور دو ٹوک جواب دیا کہ(عربی)وہ آپ کا اہل نہیں ہے!"وجہ یہ کہ(عربی)اس کے اعمال صالح نہیں ہیں!"نہ تو انہوں نے میری الوہیت کی لاج رکھی نہ آپ کی رسالت کی شرم اسے دامن گیر ہوئی۔(عربی)مجھ سے ایسی بات کا سوال نہ کریں جس کا آپ کو علم نہیں ہے میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ جاہلوں میں سے نہ ہوجائیں!"
قرآن کریم ہی ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ لوطؑ اور اُن کی  بیوی کی راہیں بھی اس گہرے رشتے کے باوجود جداہوگئی تھیں۔چنانچہ آل لوطؑ کو(عربی)کی خوشخبری ملنے کے باوجود(عربی) کااستثناء ظاہر وباہر ہے کہ لوطؑ اوراُن کے ساتھی تو بچ نکلے۔لیکن آپؑ کی بیوی مجرموں کے ساتھ پتھروں کی بارش کا نشانہ بن گئی۔
حضرت ابراہیمؑ اور اُن کے باپ کا حال بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے باپ کو مورتیاں پوجنے سے باز رہنے کو فرمایااور اس نے آپؑ کو سنگسار کرنے کی دھمکی دے کر گھر سے نکل جانے کو کہا۔تو آپؑ نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ جھوٹے خداؤں کی خاطر مجھے چھوڑنے پر کمربستہ ہے تو میں سچے خدا کی خاطر اسے کیوں نہیں چھوڑ سکتا؟۔۔۔اس کو الوداعی سلام کہا اور   گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔۔۔حقیقی باپ اور بیٹے کا اتحاد بھی ہمیں اس مقام پربھی مفقود نظر آتا ہے۔
الغرض قرآن مجید کے زریعے ہم نے ابراہیمؑ کو بادشاہ وقت سے مناظرہ کرتے دیکھا۔موسیٰ ؑ کو اس شخص کے خلاف صف آراپایا جس کی گود میں وہ پل کر جوان ہوئےتھے۔۔۔پھر ہاتھ میں عصا لے کرا نہیں جادوگروں کے مقابلہ میں اسی شخص کو نیچا دکھانے کی خاطر میدان میں اترتے دیکھا۔تورات لے کر واپس ہوئے اور قوم کو بچھڑا پوجتے ہوئے پایا تو پہلے بڑے بھائی سے باز پرس کی معقول معذرت سننے کے باوجود اپنے رب سے اپنے اور اپنے بھائی کی بخشش کے لئے دعا کی۔اور پھر کسی بھی اتحاد کا لحاظ نہ رکھے ہوئے کسی بھی انتشار وافتراق کے خطرہ کی پرواہ کئے بغیر اس حرکت شنیع کے محرک سامری کو(عربی) کی سزا سنادی اور اس کے جھوٹے معبود(بچھڑے) کو آگ میں جلا کر اس کی راکھ کو سمندر میں بہادیا(دیکھئے سورۃ اعراف اور سورۃ طہٰ)
۔۔۔اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم نے یہ پایا کہ بھتیجا(محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تو (عربی) کا اعلان کررہا تھا۔لیکن حقیقی چچا (عربی) "پکارنے کے علاوہ اپنے اس سگے بھتیجے پر پھتربھی پھینکتا چلاجاتا تھا۔یہ وہی عرب تھے کہ جن کی خاندانی عصبیتوں اور خونی انتقام کے سلسلے پچاس پچاس سالوں پر محیط ہوجاتے تھے۔۔۔تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک ہی خاندان کےیہ دو قریبی فرد آپس میں متحدرہنے کی بجائے باہم مدمقابل ہیں؟ایک  طرف یہی قریشی نوجوان ہے۔(صلی اللہ علیہ  وسلم) تو دوسری طرف بھی قریش ہی موجود ہیں۔معرکے بپا ہوتے ہیں۔اور بدر اُحد احزاب وحنین کے میدانوں سے گزرتا ہوا یہ قافلہ سالار ہر اس شخص کو تو الگ کرتا چلا جاتا ہے۔ جو اللہ کی الوہیت اور اپنی رسالت کا انکاری ہے خواہ اپنا قریبی ہی کیوں نہ ہو!تاہم ان  لوگوں کو اپنے جلو میں لے چلا جاتا ہے جو اللہ کے قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کے فرمان کو اپنا مقصود وایمان قراردے چکے ہیں خواہ اس سے قبل ان سے دور کی شناسائی بھی نہ ہو!گویا اتحاد ہوا اور بلاشبہ ہوا۔بے مثال ہوا اور بے نظیر پایاگیا۔لیکن کن بنیادوں پر؟آسمانوں سے قرآن مجید نازل ہوتا تھا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم اس کو  پڑھ کر صرف لوگوں کوسناتے ہی نہ تھے اپنے عمل مبارک سے انھیں سمجھاتے بھی تھے۔۔۔چنانچہ وہ وہ نفوس قدسیہ جنھوں نے کتاب وسنت کی ان آوازوں پرلبیک کہی۔آپ صلی اللہ علیہ  وسلم کی صفوں میں شامل ہوتے گئے تاآنکہ اس ہستی کامل صلی اللہ علیہ  وسلم کے گروہ ہمیں توحید ورسالت کے ان پروانوں کا ایک جم غفیر نظر آتا ہے جوکی مکمل تصویر ہیں!
اب ان کے درمیان وہ رشتہ ہے کے جس کے سامنے خون کے رشتے سرنگوں ہیں وہ تعلق ہے جس کے سامنے دیگر تمام علائق ہیچ ہیں۔۔۔اور یہ وہ اتحاد ہے۔ جس کا غلغلہ زمین وآسمان میں ہے۔رہتی دنیا تک اللہ کےقرآن میں ہے:
"اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر لٹا دی گئی۔تم آپس میں دشمن تھے لیکن اس نے تمہارے دلوں کو الفت سے معمور کردیا۔چنانچہ اس نعمت کے سبب تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے!"
۔۔۔اب یہ وہ لوگ ہیں کہ روئے زمین کی وسعتیں جن کے قدموں میں پامال ہیں لیکن ان کی سوچ ایک ہے فکر ایک ہے۔۔۔مقصود ایک اور مرکز ایک ہے۔!ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں الا یہ کہ جس کو دور کرنے کے لئے کوئی  فرمان رسول صلی اللہ علیہ  وسلم ان تک نہ پہنچ سکا۔۔۔یا وہ فطری اختلاف کہ جس کو دور کرنے کا انسان ازروئے شریعت مکلف نہیں۔۔۔یہاں کوئی سیاسی جماعت نہیں الگ الگ منشور نہیں۔کوئی فرقہ بندی نہیں۔اسلئے کہ وہ ہر معاملہ میں قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ  وسلم سے سند لاتے تھے۔۔۔وہ کسی امام کے پابند نہ تھے ہاں مگر اس رسول صلی اللہ علیہ  وسلم کے اطاعت گزار تھے کہ جس کی اطاعت در حقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت تھی۔۔۔جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم ان کے درمیان موجود رہے وہ اپنی الجھنیں آپ صلی اللہ علیہ  وسلم کی خدمت میں پیش کیاکرتے تھے۔اور جب آپ صلی اللہ علیہ  وسلم اُن کو داغِ مفارقت دے کرفردوس بریں کوسدھارے تو جاتے وقت ان کو یہ پیغام دےگئے۔
کہ"میں تم میں دو چیزیں چھوڑے چلا ہوں جب تک تم نے ان کو مضبوطی سے پکڑے رکھا ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے اور د وسری اس کے رسول صلی اللہ علیہ  وسلم کی سنت!"
چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  تادم آخر کتاب وسنت کے پابند رہے اور ان کا یہی طرز عمل آج بھی ہمارے سامنے اتحاد واخوت کے سلسلہ میں روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتا ہے!
۔۔۔پس اے د اعیان اتحاد ۔اتحاد واخوت کی بنیاد صرف اورصرف کتاب وسنت ہے توحید ورسالت ہے۔۔۔ اگر آپ و اقعی اتحاد چاہتے ہیں تو کتاب وسنت کی بنیادوں پر متحد ہونے کاعہد کریں ہم ان شاء اللہ اپنی آنکھیں آپ کے فرشِ راہ کردیں گے۔۔۔ورنہ ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ اتحاد کا نام بھی نہ لیجئے۔۔۔ کہ فرقہ بندی کا یہ قضیہ آپ کے نپٹانے کانہیں ہے!
رہے وہ لوگ کہ جو کتاب وسنت کے پابند ہوکر اس لئے پریشان ہیں کہ ہماری حیثیت ہی کیا ہے؟۔۔۔آٹے میں نمک کے برابر؟۔۔۔تو یہ فرمان باری تعالیٰ ان کے لئے موجب اطمینان ہونا چاہیے:
"بے شک ابراہیم ؑ اکیلے ہی پوری امت تھے خدا کے فرمانبردار ۔۔۔ایک طرف کے ہورہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے!"۔۔۔اگر آپ نے کتاب وسنت کی دعوت کو جاری رکھا اور اس میں مخلص رہے تو اس ہجوم کو پیش نظر رکھئے جو اکیلے ابراہیمؑ کی سنت کو زندہ رکھنے کے لئے آج بھی کعبۃ اللہ کے گرد منڈلارہا ہے۔۔۔ خدا آپ کو بھی ضائع نہیں کرے گا۔تاہم اخلاص شرط اولیں ہے۔


[1] ۔اور اسی  لئے فی الحال ہم اس سے صرف نظر کررہے ہیں۔۔۔مولانا نیازی صاحب کے اس مضمون پر تبصرہ آئندہ اشاعت میں کیا جائے گاان شاء اللہ!
[2] ۔دیکھئے مولانا کے الفاظ:
"لیکن جب اطاعت دونوں نے کی ہے۔۔۔!(ص9)
[3] ۔شریعت کے معنی طریقے اور راستے کے ہیں!"(ص7)
[4] ۔۔اس کتابچے میں مولانا مودودی نے دین کی تعریف اطاعت سے اور شریعت  کی تعریف طریقہ سے کی ہے گویا جو طریقہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی اطاعت کے لئے بیان فرمایا ہے وہ شریعت ہے۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی  حدتک دین وشریعت کی اس توجیہ کو ہم  غلط نہیں کہتے لیکن امت کے اجتہادات ان معنوں میں شریعت سے علیحدہ چیز ہیں کہ ان میں وجوہ اختلاف کی بناء پر تعدد پایا جاتا ہے۔اور بعد کے مجتہدین کے نئے اجتہاد کی وجہ سے ان میں تغیر وتبدل بھی ہوتا  رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی حیثیت فقہ واجتہاد کی ہوتی ہے۔اور یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی  طرف منسوب ہونے کی بجائے ان ائمہ کی  طرف منسوب ہوتے ہیں۔اوراس تعدد اور تغیر کے باوجود شریعت کاتعدد تغیر لازم نہیں آتا۔گویا شریعت ایک ہے اوردائمی بھی جبکہ فقہ واجتہاد کئی ہوسکتے ہیں اور متغیر بھی۔لیکن ہر مقلد نے ان اجتہادات میں سے کسی ایک شخص کےفقہ واجتہاد کے بے دلیل قبول کرنے کااعلان کرکے اپنے امام اور اس کی فقہ کو شریعت کادرجہ دے رکھا ہے۔لہذا وہ اسی فقہ کو اپنے لئے قابل اطاعت و اتباع سمجھ کر دائمی حیثیت دیتا ہے۔گویا یہ فقہ اس کے لئے شریعت بھی ہے اور دین بھی!چنانچہ امام  کااجتہاد تو کتاب وسنت کی اطاعت ہی وہوتی ہے۔جبکہ اس کے مقلد کی تقلید کتاب وسنت سے قطع نظر اپنے امامم ہی کی اطاعت واتباع۔۔۔۔یہی وہ  فرق ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیت میں مقلدین کوسمجھایا ہے۔
﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ﴾
"انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا ہے!"علاوہ ازیں یہ بات بھی درست نہیں کہ موجودہ  فرقہ بندی کی وجہ ائمہ مجتہدین کے اختلافات ہی ہیں۔کیونکہ خود ائمہ ان اختلافات کی بناء پر فرقوں میں نہ بٹے۔لیکن نسل در نسل ان اختلافات نے سینکڑوں صورتیں بدل کر انہی ائمہ کے نام پر فرقہ بندی کو وہ شکل دے دی ہے جس سے ان ائمہ کو دور کا بھی واسطہ نہیں ہے!