میں عید مبارک بھول گیا
مغموم سی تھی گلشن کی فضا میں عید مبارک بھول گیا
مسموم سی تھی کچھ آب وہوا میں عید مبارک بھول گیا
ہر غنچہ وگل تھا شعلہ نما میں عید مبارک بھول گیا
اور لُو کی طرح چلتی تھی صبا میں عید مبارک بھول گیا
افغانستان میں مدت سے بارود کی بارش ہونے سے
بربادی کا یوں پھل تھا اگا میں عید مبارک بھول گیا
تو سنتا ہے کیا نغموں کی نوا یہ چنگ ورباب ونے کی ندا
سن ہند کے مظلوموں کی صدا میں عید مبارک بھول گیا
کشمیر وفلسطین خون میں ڈوبے خون کے آنسو رلاتے ہیں
ایران وعراق کی جنگ چُھڑا میں عید مبارک بھول گیا
جس چاند کو دیکھ کے اہل وطن سب عید مبارک کہتے ہیں
وہی چاند مجھے شمشیر لگا میں عید مبارک بھول گیا
کچھ لوگ تھے کپڑے پہنے ہوئے کمخواب واطلس وریشم کے
ایک شخص تھا اوڑھے غم کی ردا میں عید مبارک بھول گیا
جس روز بھی ہو دیدار تر وُہی روز ہے روزِ عید مرا
جلوؤں میں تیرے یوں محو ہوا میں عید مبارک بھول گیا