حديث "من لم تنهه صلاته"
زیر عنوان حدیث کو امام ابن ابی حاتمؒ اور ابن مردویہ ؒ نے قرآن کریم کی آیت ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ .... ﴿٤٥﴾...العنکبوت
(ترجمہ :بیشک نماز فحش باتوں اور منکرات سے روکتی ہے)
کی تفسیر میں بطریق (محمد بن هارون المخرزمي الفلاس حدثنا عبد الرحمن بن نافع ابو زياد حدثنا عمر بن ابى عثمان حدثنا الحسن عم عمر أن بن الحصين قال : سئل النبى صلى الله عليه وسلم عن قول الله تعالى:﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾قال فذكره
(یعنی حضرت عمران بن الحصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی شخص نے اللہ تعا لیٰ کے اس ارشاد کہ نماز بے شک تمام فحش باتوں اور منکرا ت سے روکتی ہے کہ متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :پھر یہ حدیث بیان کی )روایت کیا ہے مشہور مفسر قرآن امام ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر (6)میں اور ابن عروہؒ نے کو کب الدراری (3)میں اس حدیث کو وارد کیا ہے لیکن اس حدیث کی سند میں کئی امور محل نظر ہیں پہلی چیز یہ کہ آئمہ کے نزدیک حضرت عمران بن الحصین ؒسے حضرت حسن بصریؒ کا سماع مختلف فیہ ہے اگرچہ امام بزار ؒنے اپنی "مسند "(4) میں اور امام حاکم ؒ نے اپنی مستدرک علی الصحیحین "(5)میں حسن بصری ؒکے عمران بن الحصین ؒ سے سماع کی صراحت کی ہے لیکن علامہ مار دینی ؒ فر ما تے ہیں ۔
"امام بیہقیؒ نے باب "من جعل فى النار كفارة يمين"
بروایت حسن بصری عن عمران ابن الحصین ذکر کی ہے اور فر ما یا ہے کہ یہ منقطع ہے حسن بصری ؒ کا اس طرح عمران سے سماع بسند صحیح درست نہیں ہے "(6)پس اگر حسن بصری ؒ کا عمران بن الحصین ؒ سے سماع ثابت نہ ہو تو یہ سند منقطع قرار پائے گی اگر یہ سماع بقول امام حاکمؒ و بزار ؒ ثابت تسلیم کر لیا جائے تو بھی حسن بصری ؒ پر عنعنہ و تدریس کی علت بہر صورت برقرار رہے گی ۔اس سند میں دوسری محل نظر چیز عمر ابن ابی عثمان نامی راوی کا دنیا ئے روایت میں گمنام ہو تا ہے تلاش بسیار کے باوجود کہیں اس کا ترجمہ نہ مل سکا ان دو علل کی موجودگی کے باعث محدث عصر شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب سلسلۃ الاحادیث الضعیفتہ و الموضوعۃ "میں وارد کر کے اس پر "منکر "ہونے کا حکم لگایا ہے مگر افسوس کہ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے "معارف القرآن "(7)میں اور مولانا محمد زکریا کاندھلوی صاحب نے "تبلیغی نصاب "(8)میں عدم تتبع کے باعث اس منکر حدیث سے احتجاج کیا ہے ۔
اس سلسلہ کی دوسری حدیث (حديث بطريق ابو بكر محمد بن احمد بن المسور ثنا مقدام بن داؤد ثنا على بن معبد ثنا هشيم عن يونس عن الحسن قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم )اس طرح مروی ہے ۔
" من لم تنهه صلاته عن الفحشاء و المنكر لم تزده من الله الا بعدا"
"جس شخص کو اس کی نماز فحش باتوں اور منکرات سے نہ روکتی ہو ایسی نماز اس کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ دور کر دیتی ہے "
قضاعیؒ کی یہ روایت "مرفوع"نہیں بلکہ" مرسل "ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو براہ راست روایت کرنے ولا راوی کو ئی صحابی نہیں بلکہ طبقہ سوم کے مشہور تابعی حسن بن بسیار البصری ؒہیں جو بلا شبہ ایک بلند درجہ امام ثقہ فقیہ فاضل صالح اور صاحب سنت تھے لیکن بکثرت ارسال و تدریس کرنا ان کی عادت میں شامل تھا جیسا کہ حفاظ نقاد نے بیان کیا ہے اور زیر مطالعہ حدیث اس امر کی زندہ مثال خود ہمارے سامنے موجود ہے امام ابن حجر عسقلانی ؒ فر ما تے ہیں ۔
"تابعین کے سادات میں سے مشہور امام تھے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودیکھا اور ان کا خطبہ سناتھا آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی دیکھا تھا مگر ان سے آپ کا سماع ثابت نہیں ہے حدیث میں (لفظ مٹاہوا ہے)تھے ہر شخص کے ساتھ بکثرت ارسال کرتے تھے امام نسائیؒ وغیرہ نے ان کے تدلیس اسناد کے وصف کی نشاندہی کی ہے ۔"
امام ابن حجرؒ ہی ایک اور مقام پر فر ما تے ہیں :
"حسن ان لوگوں سےبصیغہ "عن"بکثرت ارسال کرتے تھے جن سے ان کی ملاقات تک نہیں ہوئی لہٰذا ان کا عنعنہ سماع پر محمول نہیں ہوتا ۔"
امام بزارؒ اپنی مسند میں سعید بن المسیب عن ابی ہریرۃ کے ترجمہ کے اختتام پر فر ما تے ہیں :
"حسن بصری ؒ کا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت سے سماع ہے مگر وہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اس دوسری جماعت سے بھی روایت کرتے ہیں جنہیں انھوں نے نہیں پایا تھا پس جن صحابہ سے ان کا سماع ثابت ہے وہ یہ ہیں ۔۔۔الخ "
شاید اسی لیے امام ابن سیرین ؒ فر ما تے ہیں ۔ " لا تأخذوا بمر اسيل الحسن فإنه لا يبالى عمن أخذ حديثه"
مزید تفصیلات کے لیے ھاشیہ (10)کے تحت درج کتب کی طرف رجوع فرمائیں ۔
اس حدیث کے متعلق حافظ عراقی ؒ فر ما تے ہیں :
"اس کو علی بن معبد نے کتاب الطاعۃ والمعصیۃ میں حسن بصریؒ سے صحیح سند کے ساتھ مرسلاً روایت کیا ہے "
لیکن حافظ عراقیؒ کا یہ قول دو وجہ سے محل نظر ہے پہلی وجہ حدیث کا "مرسل "ہونا ہے اور "مرسل"روایت "ضعیف کی انواع میں شمار کی جا تی ہے ۔دوسری وجہ یہ کہ اس سند کا ایک راوی مقدام بن داؤد بن عیسیٰ بن تلید الرعینی "ضعیف "ہے ابن ابی حاتمؒ کا قول ہے :اس پر کلام کیا گیا ہے " امام نسائیؒ الکنی میں فر ما تے ہیں کہ "ثقہ نہیں ہے "محمد بن یوسف الکندیؒ فرما تے ہیں "مفتی اور فقیہ تھا لیکن روایت حدیث میں محمودنہ تھا "۔۔۔ابویونس ؒ وغیرہ کا قول ہے کہ "اس پر آئمہ نے کلام کیا ہے "علامہ برہان الدین حلبیؒ فر ما تے ہیں ۔"امام حاکمؒ نے اپنی مستدرک میں جمال المرتحل والی ایک حدیث اس سے وارد کی ہے اور فر ما تے ہیں ۔ " وله شاهد فذكره"۔۔۔مگر امام ذہبیؒ بیان کرتے ہیں ۔اس پر امام حاکمؒ نے کلام نہیں کیا ہے جبکہ یہ علی سند الصحیحین موضوع ہے اور مقدام متکلم فیہ ہے اور اس روایت کی آفت اس کی جانب سے ہے آں رحمہ اللہ کے قول ۔ " والآفة منه"سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہی اس کو وضع کیا ہے (واللہ اعلم)
تفصیلی حالات کے لیے حاشیہ (11)کے تحت درج کتب کا مطالعہ مفید ہوگا ۔
افسوس کہ مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ صاحب حسن بصری کی اس مرسل روایت کو "تبلیغی نصاب "(12) میں بطور حجت تسلیم کیا ہے ۔
اس سلسلہ کی تیسری روایت سابقہ روایت کے الفاظ سے قدر ے مشابہ یوں وارد ہے " من لم تنهه صلاته عن الفحشاء و المنكر لم يزدد بها من الله الابعدا"
اس حدیث کو امام طبرانیؒ نے اپنی "معجم الکبیر "(13)میں اور قضاعی :نے "مسند شہاب "(14)میں بطریق يحىى بن طلحة ابو زكريا اليربوعى ثنا ابو معاومة عن ليث عن طاؤس عن ابن عباس مرفوعا به "روایت کیا ہے علامہ ہیثمی ؒ فر ما تے ہیں ۔اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ہے جو چقہ تو ہے لیکن مدلس ہے۔ (15)شاید علامہ ہیثمیؒ کی نگاہ سے اس سند کا دوسرا مجروح راوی یحییٰ ؒ بن طلحہ ابو زکریا بن ابی کثیر الیربوعی سہوار ہ گیا ہے ۔
لیث بن ابی سلیم کے متعلق امام احمدؒ فر ما تے ہیں ۔"مضطرب والحدیث ہے"اور یحییٰ و نسائی ؒ نے اسے "ضعیف "بتایا ہے ابن معینؒ کا قول ہے کہ "اس میں کو ئی حرج نہیں "مجلی" کا ایک قول بھی یہی ہے آں رحمہ اللہ کے دوسرے قول کے مطابق لیث "جائز الحدیث ہے"امام بیہقی ؒ فر ما تے ہیں ۔"محدثین کے نزدیک ضعیف ہے "امام بیہقیؒ نے ان کی بہت سے ورایات کو معلول کیا ہے ابن قطان ؒکا قول ہے "فیہ مقال" ۔۔۔ابن سعد ؒ فر ماتے ہیں "صالح شخص تھا مگر ضعیف الحدیث تھا "ثقات میں سے شعبہ ؒاور ثوری ؒنے اس سے روایت کی ہے امام مسلم ؒ نے بھی متابعات میں اس سے تخریج کی ہے مگر امام ابن حجر عسقلانی ؒفتح الباری "میں لکھتے ہیں "ضعیف اور سیی الحفظ ہے اس کے باوجود اس کی حدیث پر اعتبار واستشہار کیا جا تا ہے "آں رحمہ اللہ ہی اپنی دوسری کتاب "تقریب والتہذیب "میں فر ما تے ہیں "صدوق ہے اسے آخر عمر میں اختلاط ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اپنی حدیث میں تمیز نہ کر پاتا تھا پس متروک ہے ۔"خلاصہ میں ہے کہ فضیل بن عیاض کہتے ہیں کہ "اہل علم میں سے ہے "ابن حبانؒ فر ما تے ہیں ۔"آخر عمر میں اختلاط کا شکار تھا اسانید گھڑتا تھا مراسل کو مرفوع کرتا اور ثقات کی طرف سے ایسی روایا ت لاتا تھا جو ان کی احادیث میں سے نہیں ہو تی تھیں ۔"عبد الحق ؒفر ما تے ہیں "ضعیف والحدیث ہے ۔"علامہ زیلعی حنفیؒ بیان کرتے ہیں ۔"مستضعف متکلم فیہ ضعیف و فیہ مقال "علامہ ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی ؒفر ما تے ہیں ۔"یحییٰ القطانؒ ابن مہدی ؒ ابن معین ؒ اور احمد بن حنبل ؒ نے اس کو ترک کیا ہے "اور امام نوویؒ تہذیب ولاسماء " میں فر ما تے ہیں علماء کا اس کے ضعف پر اتفاق ہے " مزید تفصیلی حالات کے لیے حاشیہ 16)کے تحت درج کتب کا مطالعہ مفید ہو گا ۔
اس سند کے دوسرے مجروح راوی یحییٰ بن طلحۃ کے متعلق امام نسائی فر ما تے ہیں ۔"کچھ بھی نہیں ہے"ابن حجرعسقلانیؒ فر ما تے ہیں : طبقہ وہم کا"لین الحدیث "راوی ہے "امام ذہبی ؒ فر ما تے ہیں :"صویلح الحدیث وقد وثق "جبکہ علی بن الجنیدؒ کا قول ہے" کذب و زور "یحییٰ کے تفصیلی حالات کے لیے حاشیہ (17)میں درج شدہ کتب کی طرف رجوع فرمائیں ۔
پس یہ حدیث بھی "ضعیف "ثابت ہوئی امام ذہبیؒ نے اس حدیث کو اپنی کتاب "میزن والاعتدال فی نقد الرجال "(18)میں یحییٰ بن طلحہ ابو زکریا الیربوعی کے ترجمہ کے تحت وارد کیا ہے افسوس کہ مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ صاحب نے" تبلیغی نصاب "(19)میں اس حدیث سے بھی احتجاج کیا ہے ۔اس باب کی چوتھی روایت اس طرح ہے ۔
" من لم تأمره صلاته بالمعروف و تنهاه عن المنكر لم يزدد من الله الا بعدا "
"جس شخص کو اس کی نماز بھلائی کا حکم نہ دے اور منکرات نہ روکے تو اس کی نماز اللہ تعالیٰ سے اس کے بُعد کو اور زیادہ کرتی ہے ۔
اس حدیث کو بھی امام طبرانیؒ نے اپنی "معجم الکبیر" میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً روایت کیا ہے علامہ ہیثمیؒ فر ما تے ہیں ۔"اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں " (20)علامہ اسماعیل عجلونی الجراحی ؒ فر ما تے ہیں اس کو امام احمدؒ نے کتاب الزہد میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً اور ابن جریرؒ نے مرفوعاً روایت کیا ہے (21) لیکن ابن صمادح الاندلسیؒ نے"جامع التفسیر للطبری"کے خلاصہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کو موقوفاً ہی وارد کیا ہے ۔(22)
ابن جریرؒ الطبریؒ نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک اور روایت یوں بھی نقل فر ما ئی ہے ۔ "لا صلوة لمن لم يطع الصلوة"
(یعنی اس شخص کی نماز ہی نہیں جس نے اپنی نماز کی اطاعت نہیں کی )اور قرآن کی آیت زیر مطالعہ کے مطابق نماز کی اطاعت یہی ہے کہ فواحش و منکرات سے باز آجایا جا ئے ۔امام ابن کثیرؒ نے ان تمام روایتوں کو اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد اس بات کو ترجیح دی ہے کہ ان میں سے کو ئی روایت بھی مرفوع نہیں ہے بلکہ بلکہ یہ حضرت عمراان بن الحصین ؒ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے اقوال ہیں جو ان حضرات نے اس آیت کی تفسیرمیں بیان کئے ہیں لیکن راقم کہتا ہے کہ ان شخصی اقوال کی ان صحابہ کرام کی جانب نسبت بھی باسناد صحیح ثابت نہ ہو نے کے باعث مشکوک و مشتبہ ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا واقعۃً نماز پڑھنے میں خاصہ وتاثیر مضمر ہے کہ وہ انسان کو منکرات وفواحش سے روک دے یانمازی کا ضمیر اسے ترک منکرات پر اکساتا ہے؟ اس سلسلہ میں مفتی محمد شفیع صاحب فر ما تے ہیں ۔
"متعدد مستند احادیث کی روسے یہ مطلب ہے کہ اقامت صلوٰۃ میں بالخاصہ تاثیر ہے جو کہ اس کوادا کرتا ہے اس سے گناہ چھوٹ جا تے ہیں بشرطیکہ صرف نماز پڑھنا نہ ہو بلکہ الفاظ قرآن کے مطابق اقامت صلوٰۃ ہو ۔۔۔کرنے والے کو منجانب اللہ خود بخود توفیق اعمال صالحہ کی بھی ہو تی ہے ۔اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی بھی اور جو شخص نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے نہ بچا تو سمجھ لے کہ اس کی نماز ہی میں قصور ہے جیسا کہ حضرت عمران بن حصین ؒ سے روایت ہے ۔۔۔الخ (23)یہی بات مولانا محمد زکریا صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں :
"بے شک نماز ایسی ہی بڑی دولت ہے اور اس کو اپنی اصلی حالت پر پڑھنے کا ثمرہ یہی ہے کہ وہ ایسی نامناسب باتوں سے روک دے اگر یہ بات پیدا نہیں ہوئی تو نماز کے کمال میں کمی ہے بہت سی حدیثوں میں یہ مضمون وارد ہوا ہے۔۔۔الخ "(24)بلکہ مولانا محمد زکریا کاندھلوی صاحب تو نماز کی جادوئی تاثیر کے اس درجہ قائل ہیں کہ فرماتے ہیں :
"اگر کو شخص بری باتوں سے مشغول ہو تو اس کو اہتمام سے نماز میں مشغول ہونا چاہیے بری باتیں اس سے خود ہی چھوٹ جا ئیں گی ہر بری بات کو چھوڑوانے کا اہتمام دشوار بھی ہے اور دیر طلب بھی اور اہتمام سے نماز میں مشغول ہو جا نا آسان بھی ہے اور دیر طلب بھی نہیں اس کی برکت سے بری باتیں اس سے اپنے آپ چھوٹتی چلی جا ئیں گی۔۔۔۔الخ (25)
واضح رہے کہ مولانا زکریا صاحب کا یہ قول بے دلیل اور صوفیانہ مزاج کی حامل تبلیغی جماعت کی فکری عکاسی کرتا ہے اپنے موقف کی تائید میں مولانا مفتی محمد شفیع اور مولانا محمد زکریا کاندھلوی صاحبان نے مندرجہ ذیل روایت نقل کی ہے :
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں آدمی رات کوتہجد پڑ ھتا ہے اور جب صبح ہو جا تی ہے تو چوری کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ۔کہ عنقریب نماز اس کو چوری سے روک دے گی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد وہ اپنے گناہوں سے تائب ہو گیا ۔(26)
یہ حدیث کتب احادیث میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح مروی ہے ۔ " عن ابى هريرة قال قال رجل للنبى صلى الله عليه وسلم فقال إن فلانا يصلى بالليل فإذا أصبح سرق قال ينهاه ما يقول " اور " عن جابر قال قال رجل للنبى صلى الله عليه وسلم إن فلانا یصلى فإذا أصبح سرق قال سينهاه ما يقول "
ان میں سے اول الذکر حدیث کوامام احمد بن حنبل "اور امام بزار " نے اپنی اپنی "مسند" میں روایت کیا ہے علامہ ہیثمیؒ فر ما تے ہیں کہ"اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں "(27)جبکی ثانی الذکر حدیث کو صرف امام بزار ؒ نے اپنی "مسند "میں روایت کیا ہے اور بقول علامہ ہیثمیؒ اس کے رجال بھی ثقات ہیں ۔" (28)مگر حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے استدلال کے لیے اوپر مولانا مفتی محمد شفیع اور مولانا زکریا کاندھلوی صاحبان کی جو عبارتیں نقل کی گئی ہیں اس پر پہلا مواخذہ تو یہ عائد ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات نے روایت کی تخریج کے لیے حدیث کی کسی کتاب کا حوالہ نہ دے کر فقط "ابن کثیر "اور "درشور "کے حوالے دیئے ہیں ہمارے اکثر علامء کی کتابوں کا المیہ یہی ہے کہ ان میں تخریج احادیث کے لیے امہارت الکتب کے بجائے یاتو کسی تفسیر کی کتاب کا حوالہ دے دیا جا تا ہے یا پھر منتخب احادیث کے متد اول مجموعوں مثلاً مشکوۃ المصابیح ،متقی الاخبار، بلوغ المرام ،ریاض الصالحین ،اذکار اور ترغیب و ترہیب وغیرہ میں سے کسی کے حوالے پر اکتفا کیا جا تا ہے حالانکہ ان کتب کی طرف کسی حدیث کو منسوب کرنا اس حدیث کی تخریج نہیں ہے۔بلکہ یہ طریق کار تو عند المحققین انتہائی معیوب سمجھا جا تا ہے دوسرا مواخذہ یہ کہ ان دونوں روایات میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز یہ صراحت نہیں فر ما ئی ہے کہ "چونکہ نماز میں یہ واصف یا تا ثیر پوشیدہ ہے لہٰذا ہر شخص چوری سے بازآجائے گا ۔بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے چوری سے رک جا نے کی جو پیشین گوئی فر ما ئی تھی وہ قرآن کریم میں وارد ارشاد حق کی روشنی میں تھی "بے شک نماز فواحش و منکرات سے روکتی ہے "عین ممکن ہے کہ خود اس شخص کے ضمیر نے اسے جھنجھوڑا اور ملامت کیا ہوکہ تورات بھر اللہ کے حضور کس انکساری و عاجزی کے ساتھ کھڑا رہتا ہے اس کے باوجود دن ہونے پر چوری کرتا ہے حالانکہ اللہ عزوجل نے تجھے سرقہ سے منع فر ما یا ہے تو آخر تو دوبارہ باری تعا لیٰ کے حضور میں کو ن سامنہ لے کر جا ئے گا لہٰذا وہ اپنے ضمیر کی اس پکار پر چوری جیسے قبیح فعل سے باز آگیا ہو ایسی امکانی صورت کی موجود گی میں مولانا مفتی محمد شفیع اور مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ صاحبان کا ان روایات سے اپنے موقف پر استدلال کرنا کہاں تک درست ہے ۔
ویسے بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بعض حضرات کی عمریں صوم وصلوٰۃ اور تلاوت کی پابندی میں گزر جا تی ہیں اس کے باوجود رشوت خوری یااسی قبیل کے دوسرے بڑے گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں حتی کہ اسی حالت میں اس دارفانی سے کوچ بھی کر جا تے ہیں ان لوگوں کے فعل کو دیکھ کر آیت قرآن کی صداقت پر ہر گز شبہ نہیں کرنا چا ہیے بلکہ یہ تضاد تو ہمیں اس شخص کے اپنے اعمال کو قرآنی تعلیمات کے مطابق بنانے اور ان کے ضمیر کی بے حصی کے باعث نظر آتا ہے جس طرح قرآن کریم واحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم انسان کو تمام صغائر و کبائر کے ارتکاب سے منع کرتی ہیں اسی طرح سورۃ عنکبوت کی آیت نمبر 45 کے تحت نماز بھی انسان کو فواحش اور منکرات سے منع کرتی ہے لیکن یہ ضروری تو نہیں ہے کہ قرآن و حدیث جن باتوں سے منع کریں انسان ان کے ارتکاب سے لازماً رک بھی جا ئے ۔اگر ایسا ہوا کرتا تو یہ کرہ ارض کب کا جملہ برائیوں سے پاک ہو چکا ہوتا کسی برائی کے ارتکاب سے رک جا نا اصلاً اس شخص کے دل و ضمیر کے احساس کر لینے پھر ذہن و قلب کی گہرائیوں سے نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس برائی کے عدم تکرار کے کے عزم مصمم کرنے اور سب سے بڑھ کر توفیق الٰہی سے ہوا کرتا ہے لیکن مولانا مفتی محمد شفیع صاحب یہ منوانے پر مصر نظر آتے ہیں کہ:
"اکثر حضرات مفسرین نے فر ما یا کہ نماز کے منع کرنے کا مفہوم صرف حکم دینا نہیں بلکہ نماز میں بالخاصہ یہ اثر بھی ہے کہ اس کے بڑھنے والے کو گناہوں سے بچنے کی توفیق ہو جا تی ہے اور جس کو توفیق نہ ہو تو غور کرنے سے ثابت ہو جا ئے گا کہ اس کی نماز میں کو ئی خلل تھا اور اقامت صلوٰۃ کا حق اس نے ادا نہیں کیا احادیث مذکورہ سے اسی مضمون کی تائید ہو تی ہے ۔"(واللہ اعلم بالصواب
حاشیہ جات :
(1)العنکبوت :45۔۔۔(2)تفسیر ابن کثیر ج2 ص414۔۔۔(3)الکوکب الدرادی لابن عروۃ ج1 ص83۔۔۔(4)کمانی نصب الرایۃ للزیلعی ج1ص90۔۔۔(5)المستدرک علی الصحیحین للحاکم ج1ص29۔۔۔(6)الجوھرالنقی للمار دینی ص216۔۔۔(7)معارف القرآن للشفیع ج6ص684۔۔۔(8)تبلیغی نصاب للکاندی ھلوی ص418۔۔۔(فضائل نماز باب سوئم )۔۔(9)مسند الشہاب للتعضاعی ج1ص305۔۔۔(10)تقریب التہذیب لابن حجرج1ص165۔۔۔تعریف اہل لتقدلیس لابن حجر ص56جامع التحصیل للطائی ص135 تہذیب الکمال للزی ج1ص255۔259۔معرفۃ الثقات للعجلی ج1ص293۔تہذیب لابن حجر ج2 ص263 الجرح والتعدیل لابن ابی خاتم ج3ص40۔42تاریخ یحییٰ بن معین ج4ص229التاریخ الکبیر للعجاری ج2ص290العال لا بن المدینی ص51۔53۔ھدی الساری لابن حجر ص367فتح الباری لابن حجر ج1ص109ج2ص268ج4ج5ص89۔241،419703ج6ص437ج9ص222۔382۔403ج10ص277ج11ص69ج12ص80ج13ص66۔تحفۃ الاحوذی للمبار کفوری ج1ص535۔7۔53،538ج4ص436۔520۔686ج6ص591ج7ص111،297۔484۔ج8ص199ج9ص187۔سنن الدارقطنی ج1ص102 الستدرک علی الصحیحین للحاکم ج1ص176۔274۔ج2ص35السنن الکبری للبیہقی ج4ص168۔ج5ص288۔313ج6ص42ج8ص35ج10ص7080نصب الرات للزیلعی ج1ص20۔48۔51۔88۔89۔90۔91۔92۔172۔205۔282۔ج2ص92126۔159۔419۔476۔ج3ص221۔387۔ج4ص39۔48۔164۔168۔270۔313۔۔۔(11)الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج3ص137۔میزان الاعتدال للذہبی ج4ص175۔176۔تنزیہ الشریعۃ لابن عراق ج1ص119۔الکشف عمنرمی بوضع الحدیث للجلی ص428۔۔۔(12)تبلیغی نصاب للکاندھلوی ص418(فضائل نماز باب سوم ۔۔۔(13)المعجم الکبیر للطبرانی نمبر 52011۔۔۔(14)مسند الشہاب للقضاعی ج1ص305306۔۔۔(15)مجمع لزوائد للہیثمی ج2ص258۔۔۔(16)التاریخ الکبیر للبخاری ج4ص246۔تاریخ یحییٰ بن معین ج2ص501الضعفاء الکبیر للعقیلی ج4ص14الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ج3ص177 المجروحین لابن حبان ج2 ص131۔الکامل فی الضعفاء لابن عدی ج6ص2105۔میزان الاعتدال للذہبی ج3ص420تہذیب التہذب لابن حجر ج8ص465۔تقریب التہذیب
لابن حجر ج2ص138۔الضعفاء والمتروکون للنسائی ترجمہ نمبر 511الضعفاء والمترکین لابن الجوزی ج3ص29 السنن الکبری للبیہقی ج1ص108۔ج2ص120۔160۔ج4ص108ج5ص58۔ج7ص170۔192۔ج10ص38قانون الضعفاء للفتنی ص28۔6287الطال لاحمد بن حنبل ج1 ص389۔تاریخ الدارمی عن ابن معین ص150۔197۔اللبقات الکبری لابن سعد ج6ص349معرفۃ الثقات للعجلی ج2ص231۔شرح صحیح مسلم للنووی ج1 ص51۔53۔سنن دارقطنی ج1 ص67۔68۔33۔ج2ص191ج3ص269۔ھدی الساری لابن حجر ص349۔فتح الباری لابن حجر ج1 ص258۔ج2ص214۔335۔417۔ج3ص233۔459۔534۔ج4ص167۔ص169۔363۔ج5ص375۔ج10ص138۔234۔594۔ج13ص429۔ تحفۃ الاحوذی للمبار کفوری ج1 ص261ج2ص216عون المعبود للعظیم آبادی ج1ص49بذل الجہود للسہار نپوری ج1 ص322۔325۔مجمع الزوئد للہیثمی ج1ص83ج3ص22ج6ص245۔279۔ج10ص94۔142۔180۔349۔نصب الرایۃ للزیلعی ج1ص417۔ج2ص759۔334۔389۔ج3ص96۔102۔ج4ص27۔33۔411۔۔۔(17)الضعفاء والمتروکون للنسائی ترجمہ نمبر 641۔الضعفاء والتروکین لابن الجوزی ج3ص197تحفۃ الاحوذی للمبار کپوریج3 ص8تقریب التہذیب لابن حجرج2ص350میزان الاعتدال للذہبی ج4ص387۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج9ص160۔۔۔۔(18)میزان الاعتدال للذہبی ج4ص387۔۔۔(19)تبلیغی نصاب للکاندھلوی ص418۔419۔۔۔(20)مجمع الزوائد للہیثمی ج2ص258۔۔۔(21)کشف الحفاء مزیل الالباس للعجلونی ج2ص364۔۔۔(22)مصحف القادسیہ المفسر تفسیر الطبری لابن صمادح ص335۔۔۔(23)معارف القرآن للشفیع ج6 ص684۔۔۔(24) تبلیغی نصاب للکاندھلوی ص418 ۔۔(25)تبلیغی نصاب للکاندھلوی ص419۔۔(26)معارف القرآن للشفیع ج6ص684۔686۔بحوالہ ابن کثیر و تبلیغی نصاب للزکریا کاندھلوی ص418۔419۔بحوالہ درمنشور ۔۔۔(27)مجمع الزوائد للہیثمی ج3ص258۔۔۔(28)مجمع لزوائد للہیثمی ج2ص258۔۔۔(29)معارف القرآن للشفیع ج6ص686۔