امام ابو الحسن دارقطنی ؒ اور اُن کی علمی خدمات

امام ابو الحسن دارقطنیؒ کا شمار ممتا ز محدثین کرام میں ہوتا ہے۔آپ ایک بلند پایہ محدث،متجرعالم اورجُملہ علوم اسلامیہ میں کامل دستگاہ رکھتے تھے۔امام دارقطنیؒ کی شہرت،حدیث میں بدرجہ اتم کمال حاصل کرنے سے ہوئی۔ائمہ فن اور نامور محدثین کرام نے اُن کے عظیم المرتبت اور صاحب کمال ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

علامہ خطیب بغدادی (م463ھ) لکھتے ہیں ،کہ:

"احاادیث و آثار کا علم ان پرختم ہوگیا،وہ حدیث میں یکتائے روگار ،محبوب دہر اوررامِ فن تھے۔" ۔علامہ اب خلکانؒ(م681ھ)حافظ ابن کثیرؒ(م731ھ) علامہ سبکی ؒ(م771ھ) اور علامہ عبدالحئی ؒ بن العمار الحنبلیؒ(م1089ھ)نے بھی امام دارقطنی ؒ کی حدیث میں ممتاز اورصاحب کمال ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ (م1239ھ) لکھتے ہیں:

"درفن علل حدیث واسماء آلرجال بے نظیر وقت یگانہ عصر خود بود۔"

امام دارقطنی ؒ کی شخصیت ابتداء سے آج تک مسلمہ ہے اور ہر دور کے صاحب علم وفن نے ان کے علم وفضل اور علمی تبحر اور جلالت قدر کا اعتراف کیا ہے۔

امام دارقطنیؒ حدیث کے علاوہ دوسرے علوم الاسلامیہ یعنی تفسیر،فقہ،اصول فقہ، قراءۃ صرف ونحو اور تجوید میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔قرآن اور علوم قرآن وتفسیر سے انھیں بڑا شغف تھا۔ارباب سیر اور تذکرہ نویسیوں نے آپ کو درج ذیل الفاظ سے یاد کیا ہے:

"كا رأسا فى اللغة العربية اور جمع العلم والفقه والادب واللغة"

امام د ارقطنی ؒ جہاں صاحب علم وفضل تھے۔وہاں آپ زہدورع اور تقویٰ میں بھی بے مثال تھے فہم ودانش میں بھی یکتائے رورگار تھے۔اور سب سے بڑا وصف جو امام دارقطنی ؒ میں موجود تھا۔کہ آپ دین کے معاملے میں کسی قسم کی مصلحت ،نرمی اور مداہنت کو پسند نہیں کرتے تھے۔اُن کے زمانے میں شیعوں کا زور تھا۔لیکن آپ نے ہمیشہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل قرار دیا ۔ اور آ پ کے اس اقدام سے اس کی بھی نفی ہوتی ہے کہ آپ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔حالانکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔اور یہ واقعہ صرف اسقدر ہے کہ امام صاحب قوی الحافظہ تھے۔اور آپ کو مشہور شیعہ شاعر سید حمیری کا دیوان زبانی یاد تھا۔جو ایک غالی شیعہ تھا جس کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ عسقلانی (م852ھ) لکھتے ہیں:

"وكان رافضيا خبيثا"

"یعنی وہ بڑا وریدہ دہن اور گستاخ شیعہ تھا۔"

اس لئے یہ لازم نہیں آتا کہ سید حمیری کا دیوان یاد کرنے سے امام دار قطنیؒ کوشیعہ قرار دیا جائے چنانچہ خطیب بغدایؒ(م463ھ)لکھتے ہیں:

"وانتهى اليه علم الاتر، مع صحة الاعتقاد وسلامة المذهب"

"یعنی اُن کا عقیدہ صحیح اور درست تھا۔"

اس لئے امام دارقطنی ؒ کی تشیع کی طرف نسبت قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے۔

امام دارقطنی ؒ کا مسلک:

امام دارقطنی ؒ شافعی المذہب تھے۔لیکن ان کا شمار اس مذہب کے صاحب وجوہ فقہاء میں ہوتا ہے۔اور صاحب وجوہ فقہاء وہ کہلاتے ہیں جنھوں نے اپنے ائمہ کے مذاہب کی تکمیل اور ان سے منسوب مختلف روایات کے درمیان تطبیق وترجیح اور اُن کے وجود علل واضح کئے ہون اس لئے مورخ ابن خلکان(م681ھ) آپ کو "فقيها على مذهب الشافعى" لکھا ہے۔

علامہ شبیر احمد عثمانی (م1949ء) لکھتے ہیں:

"امام دارقطنی شافعی مذہب کی طرف مائل تھے۔مگر وہ مجتہدین اور ائمہ حدیث وسنت میں تھے۔ان کا حال اپنے مابعد کے اکابر محدثین کی طرح نہیں تھا جو سوائے چند گنے چنے مسائل کے عموماً تقلید کو لازمی سمجھتے تھے۔امام دارقطنی ؒ فقہ واجتہاد اور علم میں ان لوگوں سے فائق وبرتر تھے۔

امام دارقطنی ؒ کی علمی خدمات:

امام دارقطنی ؒ صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔آپ کی تمام تصانیف مفید،بلند پایہ اورحسن لطیف کا نمونہ ہیں۔ آپ کی زیادہ تصانیف حدیث ،اصول حدیث اور رجال کے موضوع پر ہیں ارباب سیر اور تذکرۃ نویسوں نے آپ کی 24 تصانیف کا ذکر کیا ہے۔جن میں اکثر وبیشتر نایاب ہیں۔امام صاحب کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے:

1۔کتاب الروایہ۔2۔کتاب المستاجد۔3۔کتاب المعرفۃ مذاہب الفقہاء۔4۔غریب اللغہ۔5۔غرائب مالک۔6۔الاربعین۔7۔کتاب الضعفاء۔8اسماء المدلسین 9۔اسئلہ الحاکم 10۔کتاب الجہر۔11۔کتاب القراءۃ ۔12۔الرباعیات ۔13۔کتاب المجتبیٰ من سنن الماثورۃ۔14۔کتاب الافراد ۔15۔کتاب التصحیف۔16۔کتاب الموتلف والمختلف۔17۔کتاب العلل۔18۔کتاب الاسخیاء۔15۔کتاب الزامات والتبع ۔20۔سنن دارقطنیؒ

سنن دارقطنی ؒ:

سنن دار قطنی امام صاحب کی سب سے اہم اور مشہور تصنیف ہے۔صحاح ستہ کے بعد جو کتابیں شہرت وقبول اور وثوق واعتبار کے لحاظ سے ممتاز اور اہم مانی جاتی ہیں ان میں سنن دارقطنی بھی شامل ہے۔

حاجی خلیفہ بن مصطفیٰ ؒ(م1067)لکھتے ہیں:

"فن حدیث میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔مگر علمائے سلف وخلف کااتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح اور معتبرکتاب صحیح بخاری ہے پھر صحیح مسلم اور موطا امام مالک ہیں۔ان کے بعدامام ابو داؤد ۔ترمذی۔نسائی۔ابن ماجہ۔اور دارقطنی کی کتابوں اور مشہورمسانید کادرجہ ہے۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ (م1239ھ) نے طبقات حدیث میں سنن دارقطنی کوتیسرے طبقہ میں شمار کیا ہے۔ تاہم سنن دارقطنی اہم خصوصیات کی حامل کتا ب ہے۔حافظ ا بن صلاحؒ (م6416ھ) اور امام نوویؒ (م676ھ) اور علامہ سیوطیؒ (م911ھ) نے مصنفین صحاح ستہ کے بعد جن سات نامور محدثین کرام کی تصنیفات کو عمدہ اور نفع بخش بتایا ہے۔اُن میں امام دارقطنی ؒ کا نام سر فہرست شامل ہے۔

سنن دار قطنی بے شمار خصوصیات کی حامل ہے۔آپ نے اپنی اس کتاب میں اکثر حدیثوں کے حسن یا ضعیف ہونے کو واضح کیا ہے۔اس کے ساتھ آپ نے احادیث کے طرق واسانید بیان کئے ہیں۔اور حدیث کی نشاندہی کی ہے کہ یہ حدیث کس پایہ کی ہے اس لئے کہ امام دارقطنی ؒ فن جرح وتعدیل کے امام تھے۔اور رجال حدیث پر ان کی گہری نظر تھی۔

اس کے علاوہ امام صاحب نے راوی کے نام وکنیت اوربلاد واماکن اور بعض مشکل الفاظ کی وضاحت بھی کی ہے۔

سنن دارقطنی ؒ کے نسخے:

سنن دارقطنی کے چھ نسخے متد اول ہیں۔ان نسخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اصولی کوئی فرق نہیں۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ (م1239ھ) نے تین نسخوں کا ذکر کیا ہے ،جو 1۔ابو بکر محمد بن عبدالملک بن بشر ان2۔ابوطاہر محمد بن احمد بن محمد۔3۔ابوبکر احمد بن محمد بن احمد الرقانی سے روایت کردہ ہیں۔ باقی تین نسخے ۔1۔ابو الطیب طاہر بن عبداللہ بن طاہر طبری۔2۔شریف ابوالحسن محمد بن علی بن عبداللہ بن عبدالصمد ۔3۔ابو منصور محمد بن محمد توقانی سے روایت کردہ ہیں۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ (م1239ھ) اپنےان تینوں نسخوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

"ودرمیان ایں ہر سہ نسخہ تفاوت واختلاف واقع است اما در تقدیم وتاخیر وزیارت ونقصان در نسبت رواۃ ودر الفاظ نیز اما در اصل حدیث ہیچ اختلاف نیست احادیث در ہرنسخہ ازیں نسخہ سرگانہ بالا ستیفائد کو رند مگر کتاب السبق کہ وروایت ابن عبدالرحیم موجود نیست۔

"یعنی ان تینوں نسخوں میں بھی اختلاف اور تفاوت موجود ہے۔لیکن یہ اختلاف صرف بعض راویوں کی نسبت اور نسبت کی کمی اورزیادتی میں ہے۔اور بعض جگہ بعض الفاظ بھی مختلف ہیں۔اصل حدیث میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔ہر نسخہ میں حدیثیں بالاستیعاب مذکور ہیں۔البتہ کتاب السبق بین الخیل ابن عبدالرحیم کے روایت کردہ نسخے میں موجود نہیں ہے۔

سنن دارقطنی کے حواشی اور تعلیقات:

سنن دارقطنی کی اہمیت،عظمت اورافادیت کے پیش نظر اس کے حواشی اورتعلیقات لکھے ہیں:

علامہ بغویؒ(م519ھ) اورعلامہ جلال الدین سیوطی ؒ(م911ھ) نے اس کی حدیثوں کی تخریج کی ہے۔اورحافظ ابن حجر عسقلانی ؒ(م852ھ)نے اس کے اطراف لکھے ہیں۔اور علامہ ابن ملخص ؒ(م804ھ) نے اس کے رجال پر بحث وتحقیق کی ہے۔

علامہ شمس الحق ڈیانویؒ عظیم آبادی:

علامہ شمس الحق ڈیانوی ؒ عظیم آبادی (م1329ھ) کا شمار برصغیر پاک وہند کے ممتاز علمائے اہل حدیث میں ہوتا ہے۔آپ ایک بلند پایہ محدث اور نامور عالم تھے۔حدیث میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔سنن ابو داؤد کی 2ضخیم شرحیں"غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد(عربی) 22 جلد اور عون المعبود فی شرح سنن ابی داؤد(عربی) چار جلدوں میں لکھی۔علامہ شمس الحق ڈیانویؒ عظیم آبادی ن سنن دارقطنی کی مختصر شرح اور تعلیق بھی لکھی جو سنن کے ساتھ حاشیہ میں چھپی ہے۔

مولانا ضیا الدین اصلاحی ؒ صاحب لکھتے ہیں:

"اس شرح میں حدیثوں کی تحقیق وتنقید ،ان کے علل مصالح ،مطالب اور بعض مشکل مقامات کو حل کیا گیا ہے اور ائمہ فقہ واجتہاد کے مذاہب ومسالک ،راوی کے ناموں ،کنیتوں اور بلاد واماکن کی وضاحت اور فقہی وتفسیری مباحث پر بھی ان فنون کی اہم کتابوں کے حوالہ سے بقدر ضرورت گفتگو کی گئی ہے۔حواشی کی ابتداء میں سنن وصاحب سنن کا تعارف اس کے نسخوں اورمولف کتاب تک اپنی سند کا سلسلہ بیان کیا گیا ہے۔

سنن دارقطنی ؒ پر اعتراض:

سنن دارقطنی پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس میں ضعیف ،غریب، موضوع ور منکر احادیث جمع کی گئی ہیں۔

علامہ ابن عبدالہادی ؒ(م744ھ) لکھتے ہیں:

"الدارقطنى يجمع فى كتابه غرائب السنن ويكثر فيه من رواية الاحاديث الضعيفة والمنكرة بل والموضوعة"

"امام دارقطنی ؒ نے اپنی سنن میں غریب حدیثیں اورضعیف ومنکر بلکہ موضوع روایات تک بھی کثرت سے جمع کی ہیں"۔

لیکن علامہ ابن الہادی ؒ کا یہ یہ اعتراض اسوقت صحیح ہوتا جب سنن دارقطنی کہ تمام تر صحیح اور مستند حدیثوں کا مجموعہ مانا جاتا۔اس کا دعویٰ تو خود امام دارقطنی ؒ نے نہیں کیا بلکہ انھوں نے سنن میں جابجا احادیث کی نوعیت اور اس کی صحت وسقم کی حقیقت واضح کی ہے فن نے سنن دارقطنی کو طبقات حدیث میں تیسرے طبقہ میں شامل کیا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (م1176ھ) لکھتے ہیں کہ:

سنن دارقطنی صحیح ،حسن،ضعیف،منکر،غریب،شاذ،خطاء وصواب ،ثابت ومقلوب ہرقسم کی حدیثوں پر مشتمل ہے۔"

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی اس تحریر کے مطابق اس اعتراض کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔اور نہ ہی سنن دارقطنیؒ کے مرتبہ ومقام اور اس کی عظمت میں کوئی فرق آتا ہے۔


حاشیہ و حوالہ

1۔خطیب بغدادی تاریخ البغداد ج12 ص34۔

2۔ ابن خلکان وفیات الاعیان ج2ص5،ابن کثیر البدایہ والنہایہ ج11ص317 الطبقات الشافعیہ ج2ص34۔ابن العماد الحنبلی شذرات الذہب ج3ص116۔

3۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ بستان المحدثین ص 46۔

4۔خطیب بغدادی تاریخ بغداد ج12ص 36،شمس الدین ذہبی،تذکرۃ الحفاظ ج3ص188،ابن السبکی،طبقات الشافعیہ ج3ص 311۔

5۔خطیب بغدادی ،تاریخ بغداد ج12ص38۔

6۔ابن حجر عسقلانی لسان المیزان ج1ص436۔

7۔خطیب بغدادی۔تاریخ بغداد ،ج12،ص36۔

8۔ابن خلکان ،وفیات الاعیان ج2 ص5۔

9۔شبیر احمد عثمانی مقدمہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم ج1ص101۔

10۔شمس الدین ذہبی ،تذکرہ الحفاظ ج3ص 200۔

11۔حاجی خلیفہ بن مصطفیٰ کشف الظنون ج2ص158۔سید سلمان ندوی حیات امام مالک ص104۔جلال الدین سیوطی تدریب الراوی س291۔عبدالرحمٰن مبارک پوری مقدمہ تحفۃ الاحوذی ص53۔خطیب بغدادی تاریخ بغداد ج13 ص35۔نواب صدیق حسن خان اتحاف النبہاء ص137۔سید انور کاشمیری مقدمۃ فیض الباری س57۔عبدالسلام مبارک پوری سیرۃ البخاری۔ص96 شاہ عبدالعزیز ؒ محدث دہلوی عجالہ ناقصہ مع فوائد جامعہ ص5۔

12۔حاجی خلیفہ بن مصطفیٰ کشف الظنون ج1،ص426۔

13۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی عجانہ نافعہ مع فوائد جامعہ ص5۔

14۔حافظ ابن صلاح مقدمہ ابن صلاح 192۔نووی مقدمہ صحیح مسلم سیوطی تدریب الراوی ص260۔

15۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ بستان المحدثین ص45۔

16۔ایضاً ص48۔

17۔محمد شمس الحق عظیم آبادی مقدمہ حاشیہ سنن دار قطنی۔ص3۔

18۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی بستان المحدثین ص48۔

19۔ ضیاء الدین اصلاحی تذکرۃ المحدثین ج2ص114۔

20۔ضیا ءالدین اصلاحی تذکرۃ المحدثین ج2ص114۔

21۔ابن عبدالہادی الصارم المنکی فی الرد علی السبکی ص12۔

22۔شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ حجۃ اللہ البالغہ ج1ص107۔