نومبر 1989ء

غیر اہل کتاب کے ساتھ کھانا کھانے کا مسئلہ

پس منظر:

واقعہ یہ ہے کہ تمام خلیجی عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب میں اپنے بہت سے پاکستانی بھائیوں سے ملاقات کے دوران یہ چیز علم میں آئی کہ غیر مسلم اشخاص بالخصوص غیر اہل کتاب (مثلا ہندو ۔سکھ ۔چینی ۔بدھ مت۔اور لادین وغیرہ) کے ساتھ کھاناکھانا شرعاً درست نہیں ہے۔نیز شریعت میں اُن کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانے کی ممانعت بھی علماء سے منقول ہے۔

راقم الحروف پہلے دن سے عوام کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش قولاً وفعلاً کرتا رہا ہے۔لیکن اس مسئلہ نے شدت اُس وقت اختیار کی جب انجمن خدام قرآن لاہور وپاکستانی تنظیم اسلامی کے موسس وامیر جنا ب ڈاکٹر اسراراحمد صاحب نے سعودی عرب میں اپنے تبلیغی دورہ کے دوران پاکستانی کمیونٹی ہائی اسکول الخیر(سعودی عرب) میں تشریف لا کر اپنے خطاب کے بعد پاکستان کے قومی وملی مسائل پرگفتگو کرتے ہوئے انتہائی وثوق اعتماد کے ساتھ اسی غلط تصور کو بیا ن کیا۔آں موصوف کے اس تبلیغی دورے کی رپورٹرروزنامہ نوائے وقت کراچی مجریہ 19نومبر 1985ء اور بعدہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی زیرادارت شائع ہونے والی تنظیم اسلامی پاکستان کے آرگن ماہنامہ "میثاق" لاہور کے شمارہ بابت ماہ فروری 1986ء میں صفحات ص 9۔10۔پربحوالہ "نوائے وقت" کراچی شائع ہوئی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق ڈاکٹرصاحب فرماتے ہیں:

"سعودی عرب میں تارکین وطن کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ انھیں کیمپوں میں ہندوؤں کے ساتھ یاہندو باورچیوں کا تیار کردہ کھانابرداشت کرنا پڑتا ہے۔ جس پر متعدد بار پاکستانیوں کوناگوارحالات کا سامنا کرناپڑا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ غیراہل کتاب کے ساتھ کھانے پینے کی ممانعت ہے۔اس لئے مسلمانوں کواحتیاط کرنی چاہیے۔۔۔الخ"(ماہنامہ "میثاق" لاہور ص10 ج35 عددشمارہ 2)

اپنے سعودی عرب کے دورہ کی اس اخباری رپورٹ کی صحت کی تائید میں ڈاکٹر صاحب موصوف خود اسطرح رقمطراز ہیں:

۔۔۔۔۔اس بار وہاں بھی براہ راست پاکستان کے قومی وملی مسائل پر گفتگو ہوئی۔اس جلسے کی ر پورٹ اور تحریر کا خلاصہ روزنامہ نوائے وقت کے نمائندے طارق نسیم صاحب نے اپنے روزنامہ کو ارسال کیا۔اور جو نوائے وقت کراچی کی اشاعت بابت 19 نومبر 1985ء میں شائع ہوا وہ حیرت انگیز حد تک صحیح ہے۔۔۔الخ ماہنامہ میثاق ص9 ج35 عدد شمارہ 2 ڈاکٹر صاحب کی تصیح کے بعد اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ ڈاکٹر صاحب نے واقعتاً ایسا فرمایا ہے۔نیز لفظ ممانعت سے آپ کی مراد یقیناً ایسے کھانے کا شرعاً حرام ہونا ہے۔ڈاکٹر صاحب کے بلاتحقیق ایسا فرمانے بعدہ اس کو شائع کرکے اس کی تصیح فرمانے پر تعجب اور افسوس ہوا۔"فانا لله وانا اليه راجعون"

اس خلاف واقعہ بیان کے شائع ہونےسے اکثر مقامات پر پاکستانی عوام اور اہل علم حضرات کے مابین یہ مسئلہ انتہائی نزاعی صورت اختیار کرگیا۔جس کو دلائل کے ساتھ رفع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔

بعض رفقاء نے ڈاکٹر صاحب کو ان کی غلطی کی نشاندہی کے لئے خط لکھنے کے لئے راقم کو متوجہ کیا۔لیکن بعض ذاتی مجبوریوں کے باعث کچھ نہ لکھ سکا۔البتہ اپنے ایک کرم فرما(جناب افضل الرحمٰن محبوب شریف صاحب) کے باصرار تقاضہ پر مورخہ 2 مارچ 1986ء کو اُن کا ایک مخلصانہ خط(جس کی بعض عبارتیں اگرچہ تلخ تھیں۔) بنام ڈاکٹر اصرار احمد صاحب نے خوش خط نقل کر کے بذریعہ پاکستانی رجسٹرڈ میل روانہ کیا گیا جس میں آں موصوف کو تمام حقائق سے روشناس کراتے ہوئے یہ تقاضا کیا گیا تھا کہ آں موصوف کے پاس گر اپنے مؤقف کی تائید میں کوئی صریح نص(یعنی کتاب وسنت سے کوئی شرعی دلیل) موجود ہے تو پیش فرمائیں۔بصورت دیگر ماہنامہ میثاق لاہور کے اگلے شمارہ میں اپنے سابقہ قول کی تردید اور اس سے رجوع کا اعلان فرمائیں۔یا محترم افضل الرحمٰن صاحب کا خط بجنسہ شائع فرما کر اتمام حجت کا حق ادا کریں جس سے عوام الناس کی اصلاح ہوسکے۔باوجود مسئلہ کی اہمیت وسنگینی کے ڈاکٹر صاحب کی جانب سے تاہنوذ نہ تو اُس خط کا کوئی جواب براہ راست موصول ہوا ہے اور نہ ہی ماہنامہ میثاق کے ماہ اپریل 1986ء کے شمارہ میں اس ضمن میں کوئی چیز شائع کرنا ضروری تصور کی گئی ہے۔

جواب کے اس طویل انتظار کے دوران کراچی لاہور۔راولپنڈی۔اور کوئٹہ سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت روزنامہ جنگ کے ایک جمعہ ایڈیشن میں اسی موضو ع سے متعلق ایک فتویٰ اقراء۔۔۔اسلامی صفحہ پر زیر عنوان"آپ کے مسائل اور اُن کا حل شائع ہوا جو حسب ذیل ہے:

"س:ایک مسلمان اس غرض سے کہ وہ لوگ اسلام قبول کرلیں ایک غیر مسلم(غیر اہل کتاب) کے گھر آتا جاتا ہے۔اور انھیں ماں بہن کی طرح تصور کرتا ہے۔کیا اُس گھر یا اُن کے ہاتھ کا یا اُن کے برتن میں کھانا اُس مسلم کے لئے جائز ہے؟

ج۔اگر اطمیان ہو کہ یہ برتن پاک ہیں اور کھانا حلال ہے تو کھانا پینا جائز ہے۔"(مستفتی:نثار احمد خاں صاحب از کراچی۔مفتی مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب روزنامہ جنگ بابت 14 مارچ 1986ء)"

پیش نظر فتویٰ میں مستفتی کا سوال جس قدر غلط ہے۔اُس سے کہیں زیادہ غلط اور تشنہ مفتی صاحب کا جواب ہے۔مستفتی نے اپنے سوال میں اُن غیر اہل کتاب کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا مقصد غرض کی شرط لگائی ہے۔جبکہ مذکورہ مشروط سوال کے جواب میں مفتی صاحب نے اس امر کی وضاحت سے گریز کیا ہے۔کہ نفس مسئلہ کا اسلام کی طرف دعوت دینے کی غرض سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نیز کسی غیر محرم عورت (خواہ مسلم ہو اہل کتاب ہو یا غیر اہل کتاب) کےساتھ ملاقات ونشست وبرخواست کے تعلقات رکھنے کا اسلام میں کیا شرعی حکم ہے؟

بہرحال اسلامی جذبہ واحقاق حق کے پیش نظر اور رفقا کے بے حد اصرا ر پرراقم کو نہایت خوشگوار کے ساتھ یہ فریضہ انجام سردینا پڑ رہا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو نفس وہوٰی کی پیروی سے محفوظ ومامون رکھے۔اور شریعت مطہرہ کی فہم وفراست کے ساتھ ہمیشہ کتاب وسنت کے احکام کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

اصل مسئلہ پر بحث شروع کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حلال وحرام کے معیار اور اس سے متعلق چنداصولی وبنیادی باتیں واضح کردی جائیں تاکہ موضوع زیر بحث کو بخوبی سمجھنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔

قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تحلیل وتحریم کی تمام بحث مکی سورتوں میں مذکور ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کریم کی نظر میں یہ مسئلہ فروعات وجزئیات کا نہیں بلکہ مستحکم اصول وکلیات کا ہے کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کے لئے اسلام نے جو اصول وضع کئے ہیں۔اُن میں سے پہلا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام دنیاوی چیزیں اصلاً مباح اور حلال ہیں۔بجز اُن چیزوں کے جن کی حُرمت کے متعلق صحیح اور صریح نصوص وارد ہوئی ہیں۔لہذا اگر صحیح نص موجود نہ ہو بلکہ ضعیف ہو یا ایسی ہوکہ حرمت پر واضح وصریح طور پر دلالت نہ کرتی ہوتو اس چیز کی اصل اباحت برقرار رہے گی۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

اگرچہ بعض چیزیں استحباب اور بعض چیزیں کراہت کے درجہ میں ہوتی ہیں ۔لیکن جب تک شریعت واضح طور پر پابندی عائد نہ کرے۔وہ اپنی اصل اطلاقی حالت پر باقی رہتی ہیں۔"

(القواعد النورانیہ الفہقیہ تالیف امام ابن تیمیہؒ ص112۔113)

اسلامی شریعت میں محرمات کادائرہ بہت تنگ اور اس کے برعکس مباح اور حلال چیزوں کادائرہ بہت وسیع ہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے"

﴿وَقَد فَصَّلَ لَكُم ما حَرَّمَ عَلَيكُم...﴿١١٩﴾... سورۃالانعام

"اللہ تعالیٰ نے ان سب چیزوں کی تفصیل بیان فرمادی ہے جن کو تم پرحرام ٹھہرایا ہے۔"

ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مروی ہے:

«ما احل الله فى كتابه فهو حلال وما حرم فهو حرام وما سكت عنه فهو عفو فاقبلوامن الله عافية فان الله لم يكن ينسى شيئا وتلاو ماكان ربك نسيا»

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس چیز کو حلال ٹھہرایا وہ حلال ہے اور جس چیز کو حرام ٹھہرایا وہ حرام ہے اور جن چیزوں کے بارے میں سکوت فرمایا وہ معاف ہیں۔لہذا اللہ تعالیٰ کی اس فیاضی کو قبول کرو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بھول چوک کا صدر نہیں ہوتا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ مریم کی آیت 64 یعنی آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے۔تلاوت فرمائی۔(رواہ الحاکم ولابزار)

ایک دوسری حدیث میں ہے:

«وحرم اشياء فلا تنتهكوها وسكت عن اشياء رحمة بكم غير لسيان فلا تبحثوا عنها»

اور جن چیزوں کو اس نے حرام ٹھہرایا ہے اُن کی بے حرمتی نہ کرو۔اور جن چیزوں کے بارے میں اُس نے دانستہ سکو ت اختیار فرمایا ہے۔وہ چیزیں تمھارے لئے رحمت ہیں لہذا ایسی چیزوں کے متعلق بحث میں نہ پڑو۔"

سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«الحلال ما احل الله فى كتابه والحرام ما حرم الله فى كتابه وما سكت عنه مما عفالكم»

"حلال وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال ٹھہرایا۔اور حرام وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام ٹھہرایا۔باقی وہ اشیاء جن سے اُس نے سکوت فرمایا وہ معاف ہیں۔"

اسلام کادوسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ تحلیل وتحریم کا اختیار کسی مخلوق کو نہیں۔بلکہ یہ حق فقط اورفقط خالق حقیقی کا ہے کسی مولوی ،مفتی عالم ،پیر ،ولی،قاضی،فقیہ،محدث ،امام،مجتہد،یاحکمران، کو قطعاً یہ حق واختیار نہیں ہے کہ وہ بندگان خدا تعالیٰ پر کسی حلال چیز کو حرام یا حرام چیز کوحلال ٹھہرائے۔جو شخص بھی اس فعل مذموم کی جسارت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تشریعی حقوق میں حد سے تجاوز کا مرتکب ہوگا نیز جو ایسے شخص کی اتباع کرے گا اور اپنے قول یا فعل سے اس کے ساتھ تعاون یا اُس پر رضا مندی کااظہار کرے گا وہ شرک کا مرتکب قرار پائے گا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿م لَهُم شُرَكـٰؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ...﴿٢١﴾... سورة الشورى

"کیا اُن کے کچھ ایسے شریک خدائی میں جنھوں نے اُن کئے لئے ایسا دین مقرر کردیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی ہے؟"

اس آیت میں استفہام انکاری سے مقصود ہے کہ کوئی اس قابل نہیں کہ خدا کے خلاف اُس کا مقرر کیا ہوا دین معتبر ہوسکے۔

یہود ونصاریٰ نے تحیل وتحریم کے اختیارات اپنے علماء ومشائخ کو دے رکھے تھے جس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں سخت نکیر فرمائی ہے ارشاد ہوتا ہے:

﴿اتَّخَذوا أَحبارَهُم وَرُهبـٰنَهُم أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ وَالمَسيحَ ابنَ مَريَمَ وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدوا إِلـٰهًا و‌ٰحِدًا لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ سُبحـٰنَهُ عَمّا يُشرِكونَ ﴿٣١﴾... سورة التوبة

"انھوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کرا پنے علماء مشائخ کو (باعتبار اطاعت کے) اپنا رب بنا رکھا ہے۔اور مسیح ؑ ابن مریم ؑ کو بھی حالانکہ انھیں ایک معبود کے سوا کسی کی عبادت کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔وہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اُن کی مشرکانوں باتوں سے پاک ہے۔"

ایک حدیث میں مروی ہے:

«وقد جاء عدى بن حاتم الى النبى صلي الله عليه وسلم فلما سمع النبى صلي الله عليه وسلم يقرأ هذه الآية قال: يارسول الله انهم لم يعبدوهم فقال بلى انهم حرموا عليهم الحلال واحلوا لهم الحرام فاتبعوهم فذلك عبادتهم اياهم»

"جب عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے اپنے علماء ومشائخ کی عبادت تو نہیں کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں؟انھوں نے اُن پر حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرایا تھا۔اور اُن لوگوں نے اُن کی اتباع کی ۔علماء ومشائخ (احبار ورہبان) کی عبادت کا یہ مطلب ہے؟(رواہ ترمذی)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:

«اما انهم لم يكونوا يعبدونهم والكنهم كانوا اذا احلوا لهم شيئا استحلوه واذا حراموا عليهم شيئا حرموه»

یہ لوگ علماء مشائخ کی پرستش نہیں کرتے تھے بلکہ اُن کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے لئے حلال اور حرام کی ہوئی چیز کو اپنے لئے حرام کرلیتے تھے۔"

پس واضح ہوا کہ حلال کو حلال اور حرام کو حرام قرار دینے کا حق واختیار فقط اللہ تعالیٰ کو ہے۔اگر کوئی انسان کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال ٹھہرائے تو اُس کا یہ فعل بد شرک کے قبیل سے قرار پائے گا۔اسلام نے اُن لوگوں کی شدید مذمت کی ہے۔جو تحلیل وتحریم کے مختار بن جائیں۔خاص طور سے اُس نے حلال کو حرام کرنے والوں پرسخت گرفت کی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق بلا سبب تنگی اورضیق میں مبتلا ہوجاتی ہے۔اور اُس کے اندر تعمق پسندانہ رجحانات سر ابھارنے لگتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعمق وتشدد کے رجحانات سے منع فرمایا ہے اور اس قسم کا رویہ اختیا ر کرنے والوں کو سخت مذمت فرمائی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:

«الا هلك المتنطعون ، الا هلك المتنطعون ، الا هلك المتنطعون»

"آگاہ ہوجاؤ کے دین میں تعمق وتشدد پیدا کرنے والے ہلاک ہوگئے۔آگاہ ہوجاؤ کہ دین میں تعمق وتشدد پیدا کرنے والے ہلاک ہوگئے آگاہ ہوجاؤ کہ دین میں تعمق وتشدد پیدا کرنے والے ہلاک ہوگئے۔"(رواہ مسلم ۔ابو داؤد،احمد)

ایک حدیث میں رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

«بعثت بالحنيفية السمحة»

میں ایسے دین کےساتھ بھیجاگیا ہوں کہ جو حنیف ہے اور فراخ بھی۔"(رواہ احمد)

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں۔کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتاہے:

«وَإِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُشْرِكُوا بِي مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا»

میں نے اپنے بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا۔لیکن شیاطین نے انھیں بہکایا،اور اُن پر اُن چیزوں کو حرام کردیا۔ جن کو میں نے حلال کیا تھا۔اور انھیں حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ اُن کو شریک ٹھہرائیں جن کے شریک خدا ہونے کہ میں نے قطعاً کوئی سند نازل نہیں کی۔"(رواہ مسلم)

مشہورواقعہ ہے کہ مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا ایسا گروہ پیدا ہوگیا تھا۔جن میں شدت پسندی اور طیبات اور مباح چیزوں کو اپنے نفس پر حرام کرلینے کا رُجحان غالب ہوگیا تھا۔اس موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے محکم آیات نازل فرما کر ا ُن کو حدود اللہ پر پابند رہنے اورصراط مستقیم پرقائم رہنے کی ہدایت فرمائی۔جوقرآن کریم میں اس طرح مذکور ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُحَرِّموا طَيِّبـٰتِ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكُم وَلا تَعتَدوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ ﴿٨٧﴾ وَكُلوا مِمّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلـٰلًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذى أَنتُم بِهِ مُؤمِنونَ ﴿٨٨﴾... سورة المائدة

"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تمہارے لئے حلال کی ہیں اُن کو حرام نہ ٹھہراؤ اور حد سے تجاوز نہ کرو۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔جو حلال اورطیب رزق اللہ تعالیٰ نے تم کو بخشا ہے۔اُسے کھاؤ اور اُس اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔"

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ سے منقول ہے کہ"سلف صالحین حرام کااطلاق صر اس چیز پر کیا کرتے تھے جس کی حرمت قطعی طور پر ثابت ہے۔"

اسی طرح امام احمد بن حنبل ؒ تحلیل وتحریم سے متعلق سوالات کے جواب میں فرماتے:

"میں اسے مکروہ خیال کرتاہوں۔یا اچھا نہیں سمجھتا یا یہ پسندیدہ نہیں ہے۔"یہی بات امام مالک ؒ۔اور امام ابو حنیفہؒ۔اوردیگر تمام ائمہ فقہ واجتہاد سے منقول ہے۔قاضی ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں کہ:

"میں نے بہت سے اہل علم مشائخ کو دیکھا ہے کہ وہ اس بارے میں فتویٰ دینا پسند نہیں کرتے۔ اور کسی چیز کو حلال یا حرام کہنے کی بجائے کتاب اللہ میں جو کچھ مذکور ہے۔ اُسے بلاتفسیر بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔کوفہ کے ممتاز فقہاء تابعین ؒ میں سے امام ابراہیم نخعی ؒ سے منقول ہے کہ جب اُن کے اصحاب فتویٰ دیتے تو یہ مکروہ ہے۔یااس میں کوئی حرج نہیں کہ الفاظ استعمال کرتے تھے۔کیونکہ کسی چیز کی حلت وحرمت کا حکم لگانے سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ بات اور کیا ہوسکتی ہے؟(کتاب الاُم۔تالیف امام شافعی مختصراً)

ا س تمہیدی بحث کے اختتام پر تحلیل وتحریم کے سلسلے میں یہ وضاحت کرنا یقیناً غیر مفید نہ ہوگا۔اس قبیل کی صرف اُن چیزوں سے روکنا چاہیے جن کو اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح حرام ٹھہرایا ہے۔بصورت دیگر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہم پر صادق آئے گا۔

﴿قُل أَرَءَيتُم ما أَنزَلَ اللَّهُ لَكُم مِن رِزقٍ فَجَعَلتُم مِنهُ حَرامًا وَحَلـٰلًا قُل ءاللَّهُ أَذِنَ لَكُم أَم عَلَى اللَّهِ تَفتَرونَ ﴿٥٩﴾... سورة يونس

"آپ(اُن سے) کہہ دیجئے کہ کیا تم نے یہ بھی سوچا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو رزق تمہارے لئے نازل فرمایا تھا اُس میں سے (از خود) کسی کوتم نے حرام اور کسی کو حلال ٹھہرالیا؟آپ(اُن سے) پوچھئے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت دی تھی۔یا (محض) تم اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتے ہو۔"

اللہ تعالیٰ پر افتراء اور کذب بیانی سے کام لینے والا شخص بلاشبہ ہر گز نجات وفلاح نہیں پاسکتا۔جیسا کہ قرآن کریم میں خود باری تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَلا تَقولوا لِما تَصِفُ أَلسِنَتُكُمُ الكَذِبَ هـٰذا حَلـٰلٌ وَهـٰذا حَرامٌ لِتَفتَروا عَلَى اللَّهِ الكَذِبَ إِنَّ الَّذينَ يَفتَرونَ عَلَى اللَّهِ الكَذِبَ لا يُفلِحونَ ﴿١١٦﴾... سورةالنحل

"یہ جو تمہاری زبانیں اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی کرتے ہوئے جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ چیز حرام ہے تو ایسی باتیں نہ کیاکرو۔کیونکہ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہ پائیں گے۔

اب زیر بحث موضوع سے متعلق پیدا ہونے والے مختلف النوع سوالات اورشریعت مطہرہ کی روشن تعلیمات میں اُن سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی سعی کی جائے گی۔وبااللہ التوفیق والمنتہ!

اس مسئلہ کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا کسی غیر مسلم (بالخصوص غیر اہل کتاب ولادین) شخص کے ساتھ اُس کے برتنوں میں کھانا کھانا یا کسی غیر اہل کتاب ولادین شخص کے ہاتھ تیار کردہ کھانا کھانے ایک مسلمان کے لئے شرعاً جائز ہے یا نہیں؟اگر جواب اثبات میں ہے تو اس کے لئے کیا شرائط اوراستثنائی صورتیں ہیں؟

مندرجہ بالا سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی غیر اہل کتاب یا لادین شخص کے ساتھ اُس کے برتنوں میں کھانا کھانا یا اُس کے ہاتھ کا تیار شدہ کھاناکھانے میں ہرگز کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔کیونکہ اس کی حرمت کتاب اللہ یا کسی صحیح وصریح حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کافرہ کے ساتھ کھانا کھانا ثابت ہے۔امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ۔«قبول الهدية المشركين» کے عنوان سے مستقل ایک باب باندھا ہے۔جس میں وہ چار روایات لائے ہیں اسی باب کی ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غیر مسلمہ کی پیش کردہ زہر آلود بکری کا قبول کرنا اور اُسے تناول کرنا مذکور ہے۔

ملاحظہ ہو«صحيح البخارى كتاب الهبة باب قبول الهدية من المشركين»

کسی غیر مسلم کے کھانے کو استعمال کرنے کے لئے جو چند شرائط ہیں وہ یہ ہیں کہ:کھانا کھانے کے برتن اور ساتھ کھانا کھانے والا غیر اہل کتاب شخص ظاہری طور پر جسمانی نجاست سے پاک ہو۔نیز وہ کھانا اُن اشیاء پر مشتمل نہ ہو یا کھانا پکانے کے دوران ایسے برتن یا ایسی چیزوں کا استعمال نہ کیاگیا ہو۔جن کی حرمت صراحت کے ساتھ کتاب وسنت میں مذکور ہے۔ان شرائط کے علاوہ اس کے لئے کوئی اور شرط یا غرض یااستثنائی صورت کتاب وسنت میں نہیں ملتی ہے۔

بعض لوگ کسی غیر اہل کتاب سے مستقل باورچی کے طور پر خدمت لینا مکروہ بتاتے ہیں۔چنانچہ بعض فقہاء حنفیہ کا قول ہے کہ اتفاقیہ ایک دو بار مشرکین کے ساتھ یا اُن کے ہاتھ کا تیار کردہ کھاناکھالینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کافرہ کے ساتھ کھانا تناوہل فرمانا ثابت ہے لیکن اسے ہمیشہ کی عادت بنالینا مکروہ ہے۔

«ان كان ذلك مرة اومرتين يجوز لان النبى صلي الله عليه وسلم اكل مع كافرة فحملناه على ذلك ولكن يكره المداومة عليه»

اسی طرح فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاویٰ عالمگیری میں کہیں گھر جانے کی صورت میں اس بات کی ایک دو دفعہ اجادت دی ہے لیکن مداومت کو مکروہ قرار دیا ہے:

«انابتلى به المسلم مرة اومرتين فلابأس واما الدوام عليه فيكره»

مداومت سے متعلق فقہائے حنفیہ کی بیان کردہ"کراہت" علوم نقلیہ کی بنیا د پر نہیں،بلکہ محض قیاس، اور اجتہادی رائے پر ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ واضح قابل قدر اور حق وانصاف کے قریب تر فتویٰ مشہور حنفی عالم جناب مولانا عبدالحئی لکھنوی مرحوم کا ہے جس میں آپ سے کسی مستفتی نے سوال کیا:

(س) کیافرماتے ہیں علماءشریعت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم اس صورت میں کہ قوم مسہڑ یا ڈوم یا ھیمارل یا دو سادمہ جوہندو کافر مردار خو ر ہوتے ہیں،اکثر چیزیں حرام مثل چوہا اور بلا اورعنب یعنی گوہ اور کیکڑ وغیرہا کو کھایا کرتے ہیں۔اُن کے یہاں کی چیزیں ا ز قسم حلال پکی ہوئی کھانا یایا اُن کے ہاتھ کاپانی کنویں یا دریا سے نکالا ہوا پیناکہ جس میں کوئی شبہ تلویث اشیاء حرام یا نجاست وغیرہا کا نہ ہوشرعاً ممنوع ہے یاجائز ؟اور اُن کے ہاتھ سے چیزیں مثل روٹی یاگوشت یاخشکہ اور دال پکوانا۔یہ سب چیزیں اُن لوگوں کے ہاتھ کی چھوئی ہوئی مسلمانوں کو کھانا روا ہوگا یا نہیں الخ؟"

آں مرحوم نے اس مفصل سوا ل لے جواب میں تحریر فرمایا:

(ج)"جب کوئی نجاست ظاہری یقیناً اعظائے ظاہری کافرہ پر نہ ہو۔اُس کے ہاتھ سے کھانا پکوانا یا پانی نکلوانا یہ سب درست ہے ۔واقعی روا ہوگا جب تک تیقن نجاست نہیں ہوگا۔الخ۔"

(فتاویٰ عبدالئی لکھنوی ج1ص171۔استفتاء رثم نمبر 136 مختصراً)

بعض فقہاء یہاں تک فرماتے ہیں۔ کہ مشرکین کے کھانے میں اگر نجاست موجود ہونے کا وہم ہوتو بھی اس کھانے پر طہارت اور صحت وسلامتی کا حکم لگے گا الایہ کہ تیقن نجاست اورفساد وبطلان پر کوئی قطعی حجت ودلیل قائم ہو۔پس ایسی صورت میں کفار ومشرکین یا کسی بھی لادین کے ساتھ کھانا کھانا روا ہوگا۔چنانچہ فتاویٰ حمادیہ"میں مذکورہے:

«والاطعمة التى يتخذها اهل الشرك ويتوهم فيها اصابة النجاسة كل ذلك محكوم بطهارته حتى تيقن بنجاستها»

(فتاویٰ حمادیہ مختصراً)

اگر مشرکین کے برتنوں کی نجاست کا پہلے سے علم نہ ہوتو اُن میں بلا دھوئے ہوئے کھانا پینا بھی جائز ہے۔اگر پہلے سے برتنوں کی نجاست کا علم ہو مگر انھیں استعمال سے قبل دھو کر پا ک کرلیاگیا ہو۔ تو اُن میں کوئی قباحت نہیں رہ جاتی۔لیکن بغیر دھوئے ہوئے ایسے برتن جن کی نجاست کا علم ہو استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

مملکۃ العربیہ سعودیۃ کی مشہور یونیورسٹی جامعہ امام محمد بن سعود الریاض کےاستاذ شیخ عبدالعزیز محمد سلیمان لکھتے ہیں:

"کفار کے لباس اور برتن مباح ہیں اگر اُن کی کیفیت نا معلوم ہو کیونکہ مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے ایک مشرکہ کے مزادہ سے وضو فرمایا تھا۔"(الاسئلۃ ولاجوبۃ المفقہیۃ المقونۃ بالادلۃ الشرعیۃ ج1 ص 7 طبع وہم 1983ء الریاض وکذافی الصحیحین)

سن ابو داؤد کی ایک روایت جسے امام احمد ؒ نے بھی روایت کیا ہے میں دوران غزوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ عنھم اجمعین کا مشرکین کے برتن استعمال کرنے کا ذکر ملتا ہے۔اس روایت کو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرح روایت کیا ہے۔

«كنانغزوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فنصيب من آنية المشركين واسقيتهم فنستمنع بها فلا يعيب ذلك عليهم» رواه احمد، ابوداؤد

ایک اور روایت میں ابی ثعلبہ الخشنی سے مروی ہے کہ:

«أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ إِنَّا نُجَاوِرُ أَهْلَ الْكِتَابِ وَهُمْ يَطْبُخُونَ فِي قُدُورِهِمُ الْخِنْزِيرَ وَيَشْرَبُونَ فِي آنِيَتِهِمُ الْخَمْرَ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ إِنْ وَجَدْتُمْ غَيْرَهَا فَكُلُوا فِيهَا وَاشْرَبُوا وَإِنْ لَمْ تَجِدُوا غَيْرَهَا فَارْحَضُوهَا بِالْمَاءِ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا.»(رواه ابوداؤد مع العون المعبود ج3ص482 باب الاكل فى انية اهل الكتاب ، طبع دهلى و ملتان)

شارح سنن ابو داؤد علامہ شمس الحق عظیم آبادی ؒ فرماتے ہیں:

"خطابی کا قول ہے کہ(اوپر بیان کی ہوئی پہلی) حدیث سے ظاہر ہے کہ مشرکین کے برتن بغیر دھوئے اور پاک کئے ہوئے استعمال کرنا علی الاطلاق مباح ہیں ( اور یہ اباحت عقیدۃ ہے۔اس شرط کے ساتھ جو اس باب کی(دوسری) حدیث میں مذکور ہے(بزار کی روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ ہم نے اُن برتنوں کو دھویا اور اُن میں کھانا کھایا جیسا کہ حافظ ؒ نے فتح میں بیان کیا ہے)خطابی ؒ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اُن کے برتنوں کے غسل کی اجازت ہے لیکن اس سلسلہ میں اصل قابل لحاظ بات یہ ہے کہ اگر مشرکین کا حال معلوم ہوجائے کہ وہ اپنے برتنوں میں خنزیر پکاتے اور شراب پیتے ہیں تو اُن برتنوں کابغیر دھوئے ہوئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔"(عون المعبود شرح سنن ابوداؤد ج3ص428 طبع دہلی وملتان)

بعض فقہائے حنفیہ کے نزدیک مشرکین کے برتنوں میں بغیردھوئے ہوئے کھانا پینا جائز لیکن مکروہ ہے بشرط یہ کہ برتنوں کی نجاست کاعلم نہ ہو۔بصورت دیگر بغیر دھوئے ہوئے اُن میں کھانا پینا ناجائز ہے۔جیسا کہ"فتاویٰ عالمگیری" میں مذکور ہے:

"ويكره الاكل والشرب فى اوانى المشركين قبل الغسل ومع هذا لو اكل او شرب قبل الغسل جاز ولا يكون الاكل والشرب حراما وهذا اذ لم يعلم بنجاسة الاوانى فلما اذا علم فانه لا يجوز له ان يشرب ويأكل معها قبل الغسل"

"عالمگیری" کیاس مذکورہ کراہت کی بنیاد بھی محض قیاس پر ہے ،جسے ثابت کرنے کےلئے کوئی ٹھوس اثر موجود نہیں ہے۔ (جاری ہے)