انسانی فطرت اور پرویز

فطرت انسانی کے متعلق پرویز صاحب کا موقف:

ان کے مندرجہ ذیل اقتباسات سے ظاہر ہے:

1۔فطرت مجبور اشیاء کی ہوتی ہے جو اسے بدلنے پر قادر نہیں ہوتیں۔لہذا صاحب اختیار وارادہ کی کوئی فطرت نہیں ہوسکتی اور انسان کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ صاحب صاحب اختیار وارادہ ہے۔(تفسیرمطالب الفرقان ج2صفحہ 33)

2۔فطرت ان بنیادی خصوصیات کو کہا جاتا ہے جو غیر متبدل ہوں،اگرانسانی فطرت کے نظریہ کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو پھر خُدا کی طرف سے سلسلہ ہدایت اور حضرات انبیاء کی بعثت،عبث ہوکررہ جاتی ہے کیونکہ جب فطری خصوصیات کو بدلا ہی نہیں جاسکتاتو پھر اس تمام سلسلہء رشدوہدایت سے حاصل کیا ہوگا۔تفسیر مطالب الفرقان ج2 صفحہ 36)

﴿إِنَّ الإِنسـٰنَ خُلِقَ هَلوعًا ﴿١٩﴾... سورة المعارج

"انسان بڑا ہی بے صبرا ہے اس کی نیت ہی نہیں بھرتی۔"

﴿إِنَّهُ كانَ ظَلومًا جَهولًا ﴿٧٢﴾... سورةالاحزاب

"بڑا ہی ظالم اور جاہل ہے۔"

﴿قُتِلَ الإِنسـٰنُ ما أَكفَرَهُ ﴿١٧﴾... سورة عبس

"بڑا ہی ناشکرا ہے۔"

﴿وَكانَ الإِنسـٰنُ عَجولًا ﴿١١﴾... سورة الإسراء

"بڑا ہی جلد باز ہے"

﴿وَكانَ الإِنسـٰنُ أَكثَرَ شَىءٍ جَدَلًا ﴿٥٤﴾... سورة الكهف

"اکثر باتوں میں جھگڑتا رہتا ہے۔"

﴿فَإِذا هُوَ خَصيمٌ مُبينٌ ﴿٧٧﴾... سورةيس

"بڑا ہی جھگڑالو ہے"

یہ کچھ قرآن نے "الانسان" کے متعلق کہا ہے اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے۔تو اس سے خود"خدا کی فطرت" کے متعلق جو تصور سامنے آتا ہے وہ نعوذ باللہ بڑا گھناؤنا ہے۔لہذا قرآن کی رو سے یہ نظریہ صحیح نہیں کہ خُدا نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے۔(لغات الفرقان۔صفحہ1292)

4اگر انسان کی کوئی "فطرت" ہوتی تو اسے ارادہ واختیار کی صلاحیت کی کبھی نہ ملتی۔"فطرت" اور "اختیار وارادہ" دو متضاد باتیں ہیں خارجی کائنات میں ہر شئے کی ایک فطرت ہے،اس لئے ان میں سے کسی کو اختیار وارادہ کی صلاحیت نہیں ہے۔انسان کو اختیار وارادہ کی صلاحیت حاصل ہے اس لئے اس کی کوئی فطرت نہیں۔(لغات الفرقان صفحہ 1294)

پرویز صاحب کی ان عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ :

1۔انسان کی کوئی فطرت نہیں ہے۔

2۔فطر ت مجبور اشیاء کی ہوتی ہے۔

3۔اگر انسان کی فطرت وہ ہو جو قران نے "هلوعا"،"ظلوما جهولا" اور"اكثر شئي جدلا" میں بیان کی ہے۔اور خُدا کی بھی یہی فطرت ہو تو اس سے خدا کے متعلق بڑ ا گھناؤنا تصور سامنے آتا ہے۔

لفظ فطرت کی لغوی وضاحت:

قبل اس کے کہ ہم پرویز صاحب کے ان نکات پر تفصیل سے بحث کریں۔فطرت کا مفہوم ازروئے لغت جاننا ضروری ہے۔

اس لفظ کا مادہ(ف۔ط۔ر) ہے۔اس کابنیادی معنیٰ کسی حجاب یارکاوٹ سے کسی چیز کا باہر آنا یااسے نکالنا اور ظاہر کرنا ہے۔

"فطر الشئي يفطره فطرا، فانفطر وفطره : شقه وتفطر الشئي: تشقق، والفطر: الشق، وجمعه فطور وفى التنزيل العزيز:هل ترى من فطور.............. واصل الفطر الشق، ومنه قوله تعالي﴿اذالسماء انفطرت اى انشقت ................. وانفطر الثوب اذانشق وكذالك تفطر، وتفطرت الارض بالنبات اذا تصدعت ........ وفطر الله الخلق يفطرهم: خلقهم وبدأهم والفطرة: الابتداء والاختراع وفى التنزيل العزيز الحمدلله فاطرالسموات والارض. قال ابن عباس رضي الله عنه: ماكنت ادرى مافاطرالسماوات والارض حتى اتانى أعرابيان يختصمان فى بئر. فقال احدهما: انا فطرتها اى انا ابتدأت حفرها وذكر ابوالعباس انه سمع من ابن الاعرابى يقول: انا اول من فطر هذا اى ابتداء"

"الفطر: الابتداء والابتداء والفطرةمنه الحالة كالجسلة والركبة. لسنا العرب ج،ص55 تا 58

"فطر الشئي يفطره فطرا، فانفطر" اس نے ایک شئی کو پھاڑا وہ پھٹ گئی۔ "وفطره" اس نے اسے شق کیا(پھاڑ ڈالا) "تفطر الشئي" چیز پھٹ گئی۔"الفطر" پھٹن۔شگاف۔اس کی جمع فطور ہے۔قرآن میں ہے" هل ترى من فطور" کیا تو کوئی دراڑ یاشگاف دیکھتا ہے۔""واصل الفطر: الشق" فطر کااصل مفہوم پھٹنا یا پھاڑنا ہے اسی سے یہ فرمان ایزدی ہے۔﴿اذا السماء انفطرت﴾ جب آسمان پھٹ پڑے گا۔"۔۔۔۔۔۔

"وانفطر الثوب اذانشق"کپڑے کا پھٹ جانا۔اور اسی طرح کہا جاتا ہے۔"تفطرت الارض بالنبات اذا تصدعت" زمین سے نباتات پھوٹ پڑی جبکہ زمین پھٹ پڑی اور نباتات برآمد ہوئی۔"الفطر" ابتداء اور اختراع (کوکہتے ہیں) اور"فطرة" اسی ابتدائی اوراختراعی حالت کا نام ہے جیسے جلسہ اور رکبہ۔

"فطر، الفاء والطاء والراء اصل صحيح يدل على فتح شئي وابراره. من ذلك الفطر من الصوم يقال افطر افطارا"

ف۔ط۔ر۔اس کی صحیح اصل ہے جو کسی چیز کے کھل جانے اور نمایاں ہوجانے پر دلالت کرتی ہے اسی سے ہے۔روزوں کا افطار کرنا۔

چونکہ عامۃ الناس کو لغوی تحقیق سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اس لئے ہم انہی دو لغات کے اقتباسات پر اکتفاء کرتے ہیں۔اس سے یہ واضح ہے کہ اس لفظ کے مادہ(ف۔ط۔ر) کے بنیادی معنوں میں پھٹنے اور شق ہونے کا مفہوم پایاجاتا ہے۔لیکن اس طرح پھٹنا کہ پھٹ کر نکلنے والی چیز اپنے موانعات ،مزاحمات،اور پردوں میں سے نکل کر برآمد ہو ۔مثلاً

"فطرناب البعير اذانشق اللحم وطلع" ۔اونٹ کے مسوڑھوں کے گوشت کا پھٹ جانا اور اس میں سے دانت کا ظاہر ہونا۔"

"الفطر: العنب اذا بدت رؤوسه" انگور کے سروں کا برآمد ہونا۔"

"افطر الصائم" روزہ دار کا کھانے پینے کی پابندی کو توڑ کرباہر نکل آنا۔"

"فاطر السماوت والارض" پردہ عدم کو پھاڑ کر زمین وآسمان کاوجود برآمد کرنے والا۔(خدا)"

"تفطرت الارض باالنبات" زمین کے پھٹنے پر نباتات کا ظہور ہونا۔"

"الفطرة" حالت ،ہیت،کیفیت یعنی جبلت اورطبیعت کی ایسی کیفیت،جو قبول دین پراُکساتی ہے قطع نظر اس کے کہ یہ دین صحیح ہو یا غلط۔

(ب) "الحالة"۔طریقہ،سیرت،طرز خواہ غلط ہویا درست۔

(ج) "السنة" نظام حیات،ضابطہ،زندگی،طرز فکر وعمل، خواہ رواہویا ناروا۔

(د) "الابتداء والاختراع" پیدائش اور آفرمینش نو۔"

تعدد فطر:

فطرت کے ان معنی کو نگاہ تعمق سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کسی چیز کو فطرت صرف ایک ہی نہیں ہوتی بلکہ بہت سی فطرتیں ہوتی ہیں۔پرویز صاحب فطرت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"فطرت کسے کہتے ہیں؟پانی کو اگر علی حالہ چھوڑ دیا جائے تو وہ نشیب کی طرف بہتا ہے۔ہر برتن کی شکل اختیار کرلیتاہے ایک خاص درجہ حرارت پر جا کر منجمد ہوجاتاہے۔اور دوسری طرف بھانپ بن کر اڑ جاتا ہے۔یہ خصوصیات پانی کی فطرت کہلائیں گی۔یامثلاً بکری گھاس کھاتی ہے۔گوشت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتی ،شیر گوشت کھاتا ہےکسی دوسری غذا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اسے بکری اورشیر کی فطرت کہا جائے گا۔"(تفسیر مطالب الفرقان ج2،صفحہ 33)

یہ اقتباس اس چیز کو واضح کرتا ہے کہ پانی کا نشیب کی طرف بہنا بھی ایک فطرت ہے۔ہر برتن کی شکل اختیار کرلینا بھی اس کی فطرت ہے،ایک خاص درجہء حرارت پر مجمد ہونا اور پھر دوسری طرف مخصوص درجہ حرارت پر اس کا بھاپ بن جانا بھی فطرت ہے۔اسی طرح بکری کا گھاس کھانا اورشیر کاگوشت کھانا بھی ان کی فطرتیں ہیں۔لیکن بکری اور شیر کی یہی ایک فطرت نہیں ہے کہ وہ گھاس یاگوشت کھاتے ہیں بلکہ یہ بھی ان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ابتدائی زمانے میں دودھ پیتے ہیں خواہ دودھ پینے کی یہ مدت کتنی ہی عارضی اور کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو۔ایک مدت کےبعد بکری اور شیر دودھ کرگھاس پات اور گوشت خوری پر اُتر آتے ہیں۔اب اس صورت حال کو یا تو یوں کہہ لیجئے کہ بکری اور شیر کی شیر نوشی کی فطرت نے معدوم ہوکر بکری کی گھاس خوری اور شیر کی اکل لحم کی فطرت کے لئے جگہ خالی کردی یا یوں کہہ لیجئے کہ ان دونوں جانوروں کی پہلی فطرت (عدم کا شکار ہوئے بغیر) دوسری فطرت میں تبدیل ہوگئی۔یا یوں کہہ لیجئے کہ ایک قسم کی فطرت دب گئی اور دوسری قسم کی فطرت نمایاں اور اُجاگر ہوگئی۔ہمیں الفاظ کے تفاوت سے کوئی سروکار نہیں آپ جن الفاظ کو چاہیں اس حقیقت کی تعبیر کے لئے منتخب کرلیں۔لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت ہے۔کہ کسی چیز کی ایک ہی بنیادی خصوصیت نہیں ہوتی۔بلکہ بہت سے خصائص ہوتے ہیں۔جن کو اس کی فطرتین کہا جاتا ہے۔بکری اور شیر کی بھی کوئی ایک فطرت نہیں ہے۔بلکہ بہت سی فطرتیں ہیں۔بعض عارضی اور وقتی فطرتیں ہیں۔اور بعض دائمی اورمستقل۔شیر اور بکری کی ابتدائی دور کی فطرت (شرب لبن کی فطرت) ایک عارضی فطرت ہے جو بعد میں یا تو معدوم ہوجاتی ہے یا ایک دوسری فطرت میں بدل جاتی ہے۔جس کے تحت بکری سبزہ خوری اورشیر گوشت خوری پر اُتر آتا ہے۔لہذا پرویز صاحب کا یہ قول قاطبۃً صحیح نہیں ہے کہ"فطرت اس بنیادی خصوصیت کو کہتے ہیں جو غیر متبدل ہو۔"(تفسیر مطالب الفرقان ،ج2،صفحہ 33)

اسی طرح انسان کی کوئی ایک حالت یا خصوصیت نہیں ہے۔بلکہ بہت سی حالتیں اور خصوصیتیں ہیں۔جو مختلف فطرتوں سے وابستہ ہیں۔ان میں سے بعض وہ فطرتیں ہیں جو پوری نوع انسان میں مشترک طور پر پائی جاتی ہیں۔اوربعض وہ ہیں جوافراد بشر میں فرداًفرداً پائی جاتی ہیں۔انسانی وجود،چونکہ حیوانیت اور اخلاقیت کے دو پہلوؤں کو محیط ہے۔اس لئے انسان کی بعض فطرتیں اس کے لئے حیوانی پہلو سے تعلق رکھتی ہیں۔اور بعض اس کے اخلاقی پہلو سے۔اول الذکر پہلو سے متعلقہ فطرتیں غیر اختیاری ہیں۔جبکہ ثانی الذکر پہلو سے وابستہ فطرتیں اختیاری ہیں۔پھر کہیں یہ فطرتیں ،شعوری ہوتی ہیں۔اور کہیں غیر شعوری۔کہیں عقلی ہوتی ہیں اورکہیں غیر عقلی۔

عالم طفولیت کی فطرتیں:

بچہ اپنی چھوٹی عمر میں کیاکرتا ہے؟وہ اشیاء کو منتشر کردیتا ہےدوسروں کی چیزوں پرقبضہ جما لیتا ہے۔قابل حفاظت اشیاء کو توڑ دیتا ہے جہاں چاہتا ہے بول وبراز کرڈالتا ہے۔آگ اورپانی میں ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ان حرکات کودیکھ کرانسان سوچتا ہے کہ کیا بچے کی یہی فطرت ہے؟ہاں بلاشبہ بچے کی حالت بچپن کی یہی فطرت ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کرتارہے مگریہ "کچھ نہ کچھ" کرتے رہنے کی یہ فطرت اس د ور کی ہے۔جب ہنوز اس کی عقل وشعور کی قوتوں کو جلا نہیں ملی۔وہ اگر اس عمر میں کنکر ،مٹی،یا برادے کو منہ میں ڈالتا ہے۔تو غیر شعوری طور پر یہ جاننے کے لئے کہ چکھ کر ان اشیاء کی حقیقت کو پالے ،وہ اگر اشیاء کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بناتا ہے۔تو غیر شعوری طور پر"شکست وریخت" کی اس فطرت کو تسکین دیتا ہے جو شعور وعقل کی حالت میں تعمیر کا پیش خیمہ ہوتی ہے وہ اگر آگ اورپانی میں ہاتھ ڈالتا ہے۔تو ا پنی فطرت کے اس اقتضاء کو پورا کرنے کے لئے کہ وہ ہاتھوں سے ٹٹول کر ان اشیاء کی ماہیت کا علم حاصل کرے۔کیونکہ علم انسان کو فطرتاً مرغوب ومحبوب ہے۔(خواہ یہ کتنی ہی ادنیٰ چیز کا کیوں نہ ہو) وہ اگروہیں بول وبراز کرڈالتا ہے۔جہاں وہ کھیلتا ہے۔تو یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔کہ وہ اپنی طبعی حوائج سے جلد فار غ ہوجائے۔الغرض بچے کی یہ حرکات بھی اس کی بچپن کی فطرت کا ہی نتیجہ ہیں۔بے شعوری یا خام عقلی کی اس عمر میں جس طرح بچے کی یہ حرکات اس کی فطرت کا اقتضاء ہیں،فطرت دونوں ہی ہیں، ایک عارضی اوروقتی فطرت ہے جو غیر عقلی اور غیر شعوری عمر تک محدود رہتی ہے۔اور دوسری د ائمی اورمستقل فطرت ہے۔جو عقل وشعور کی عمر میں نہ صرف یہ کہ برقرار ر ہتی ہے بلکہ قدسیہ یا تذکیہ سے دو چار ہوتی ہے۔پرویز صاحب کی بیان کردہ مثالیں ہیں،بکری،یا شیر کا ابتدائی دور میں دودھ پینابھی فطرت ہے۔مگر عارضی اورتبدل پزیر۔بعد ازاں بکری کا نباتا خوری اور شیر کا گوشت خوری پراُتر آنا بھی فطرت ہے۔مگر مستقل اور دائمی بچے کا نادانی کی حالت میں یہ سب کچھ کرنا بھی اس کی فطرت ہے مگر بے عقلی اور بے سمجھی کے ساتھ بعد میں اپنی ان حرکات کو ترک کردینا بھی اس کی فطرت ہے مگر عقل وشعور کی موجودگی کے ساتھ۔

متضاد فطری خصائل:

انسانی فطرت کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ اس میں متضاد فطری خصائل موجود ہیں۔رحم وشقاوت ،بخل وسخاوت، بزدلی وشجاعت،کمینگی وشرافت ،حرص وقناعت،تاخیر وعجلت،سختی ونرمی،حیا وبے شرمی،سردی وگرمی، رضا وناراضگی ،تحمل وغصہ،نفرت ومحبت،یہ سب فطری صفات ہیں۔اور بخشذہ ایزدی ہیں۔ان میں سے کسی کا یہ مقصد نہیں کہ انہیں فنا کردیا جائے۔اب مقام غور ہے کہ آخر ان مثبت صفات کے ساتھ یہ منفی اوصاف انسان کو کیوں ودیعت کئے گئے؟اس لئے کہ انسان،ان ایجابی اور سلبی اوصاف میں اعتدال وتوازن پیدا کرے کہ ایسا کرنا خود انسانی فطرت ہی کا تقاضا ہے۔

ان اوصاف میں اقتضاء فطرت کے تین پہلو:

ان جملہ صفات کے استعمال میں بتقاضائے فطرت ،تین پہلوؤں پر مشتمل ہے۔

اولاً۔۔۔یہ کہ ان تمام ودائع فطرہ کو (خواہ وہ مثبت ہوں یا منفی) کسی نصب العین میں صرف کیاجائے۔انسان اور حیوان میں اصلی اور بنیادی فرق یہی ہے کہ حیوانی زندگی نصب العین سے خالی ہوتی ہے۔جبکہ انسانی زندگی کا وجود اس کے بغیر بے معنیٰ ہے)اگر وہ صحیح نصب العین کو اختیار نہیں کرےگا۔تو غلط نصب العین اس کی تگ وتاز کو اپنی گرفت میں لےلے گا۔اگر وہ راہ حق میں مجاہدہ نہیں کرے گا۔تو راہ باطل میں سر گرم عمل ہوگا۔اگر اُس کی پوری زندگی صحیح اور صالح افکار ونظریات کے زیر سایہ بسر نہ ہوگی۔تو غلط معتقدات کے تحت بسر ہوگی۔اور ان جملہ فطری اوصاف کو ان ہی راستوں میں صرف کرنے پر مجبور ہوگا جو وہ اختیار کرے گا۔

ثانیاً۔۔۔یہ کہ ان جملہ فضائل ورذائل کو ٹھیک محل پر صرف کرے۔کیونکہ یہی تقاضائے فطرت ہے۔مثلا جذبہ شہوت ایک فطری جذبہ ہے۔ اس کا ایک مصرف یہ ہے کہ اسے بجا اور بے جا مقام ومحل پر صرف کیا جائے۔بیوی اور غیر بیوی کے فرق سے بالاتر ہوکر قضاء شہوت کی جائے۔دوسرا مصرف یہ ہے کہ صحیح مقام و محل پرصرف کیا جائے۔غیر محل پر اس کے استعمال سے اجتناب کیا جائے،تیسرا مصرف(بشرط یہ کہ اسے کہا بھی جائے) یہ ہے کہ سنیاسی ،جوگی، اور راہب بن کر اس فطری جذبے کو فنا کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔اور ترک لذات دنیا اور رہبانیت اختیار کیا جائے بجا استعمال کے علاوہ باقی سب صورتیں غیر فطری ہیں۔کیونکہ انسانی تمدن کے حق میں ان کا نتیجہ فساد اور بگاڑ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔اسی طرح رحم کو اگر غیر صحیح موضع پراستعما ل کیا جائے تو وہ جرائم ومعاصی میں معاون ومددگار بن جاتا ہے۔منفی صفات میں سے عداوت بھی ایک وصف ہے۔جسے اگر اس کے صحیح محل پر استعمال نہ کیا جائے۔تو وہ انسانی معاشرے کی تلخیوں میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔لیکن اگر﴿ان الشيطان لكم عدو فاتخذوه عدوا﴾ کے تحت اسے برمحل اختیار کیا جائے تو اس کا نتیجہ سراپا خیر ہوتا ہے۔الغرض،ان تمام رذائل وفضائل کے بارے میں انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں وقف محل صحیح رکھا جائے۔جہاں ،جس وقت ،جس مقام پر جو چیز اختیار کی جانی چاہیے۔وہاں ا ُسی وقت اُسی مقام پر وہی چیز اختیار کی جائے۔جہاں واقعی کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے۔ورنہ" سخاوت" کرنا بے محل ہوگا۔اورجہاں "سخاوت وفیاضی" سے کام لینا چاہیے۔وہاں بخل سے کام لینا بے محل ہوگا اور نتیجہ بُرا ظاہر ہوگا۔مروت،اگر بے موقع استعمال کی جائے تو بدکاریوں میں بے باکی اور جسارت پیدا کرتی ہے فروتنی اور انکساری اگر بے محل ہوتو انسان کی عزت نفس خاک میں مل جاتی ہے،فروتنی اور انکساری اگر بے محل ہو تو انسان کی عزت نفس خاک میں مل جاتی ہے ۔الغرض فطرت انسانی کا یہ تقاضا ہے کہ ہر وصف کو اُس کے موقع محل پر صرف کیا جائے۔بہرحال ہر اچھی بُری صفت کو اس کے اصل ٹھکانے پر استعمال کرنا تقاضائے فطرت ہے۔لیکن اصل ٹھکانہ اور صحیح موقع ومحل کیا ہے۔اس کا تعین انسان کے نصب العین حیات کی روشنی میں ہوتا ہے۔

ثالثاً۔۔۔یہ کہ ان فطری اوصاف کے صرف واستعمال میں اعتدال،توازن اور تناسب کو ملحوظ رکھا جائے۔اگر ان کا استعمال،اعتدال وتوسط کی حدود سے نکل کر افراط وتفریط کی حدوں تک پہنچ جائے تو صحیح محل پر استعمال کے باوجود بھی ان کا نتیجہ نقصان دہ ہوگا۔مثلا ً حرص ایک فطری صفت ہے۔جو انسان کو بندہ غرض بنا کر بدترین گناہوں پر آمادہ کرتی ہے۔اسے اگر تفریط کی طرف لے جاکر نقطہء فناتک پہنچادیا جائے۔تو انسانی عمل کے سوتے خشک ہوجائیں گے۔کیونکہ یہی چیز اس کے لئے محرک عمل ہے۔اسی طرح شہوت کا جذبہ وہ جذبہ ہے جس کے تحت انسان نے جس قدر گناہ کئے ہیں شاید اس کے علاوہ کسی اور جذبے کےتحت اتنے گناہ نہ کیے ہوں۔ اسے اگر ختم کردیا جائے تو نسل انسانی کا سلسلہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔لیکن اگر اس کو حد اعتدال سے بڑھا کر غیر مشروط اور بے قید کردیاجائے۔تو انسان انسانیت کی سطح سےگر کر حیوانیت کی سطح تک آجائے۔غضب وغصہ بھی ایک فطری صفت ہے۔جس نے دنیا میں کئی جھگڑے اور ظلم وستم پیدا کیے ہیں۔اگر اس کو سراسر بدی سمجھ کر معدوم کردیا جائے۔تو امن وامان ختم ہوجائے کیونکہ یہ غضب وغصہ کے جذبات ہی ہیں جو بدی کی قوتوں کی سرکوبی کے لئے انسان کو اُکساتے ہیں اور اس طرح امن وامان کے ضامن بنتے ہیں۔یہی حال اچھی صفات کا ہے۔کہ ان میں سے جسے بھی اعتدال وتوسط سے کام میں نہ لایا جائے وہ تمدن انسانی کے لئے وجہ شر اور سبب فساد بن جاتی ہے۔مثلاً شجاعت،اگرحد اعتدال سے متجاوز ہوکر افراط کی انتہاء کو پہنچ جائے۔تو وہ تہوار اور حماقت بن جاتی ہے۔دوراندیشی اگر حد سے بڑھ جائے تو بزدلی اور نامردی بن جاتی ہے۔رحم اگر نقطہء وسط کو چھوڑ دے تو جرائم ومعاصی میں مدد گار بن جاتا ہے۔فیاضی اگر حد سے متجاوز ہوجائے تو اسراف وتبذیر کا روپ دھار لیتی ہے۔کفایت شعاری پراگر ضرورت سے زیادہ زوردیا جائے تو بخل اور کنجوسی میں بدل جاتی ہے محبت اگر حدود آشناء نہ رہے تو انسان کو اندھا کردیتی ہے۔الغرض نفس انسانی کوجو صفات وخصوصیات فطرتاً ودیعت کی گئی ہیں۔انہیں نہ تو مائل بہ تفریط ہوتے ہوئے فنا کرنے کی ضرورت ہے۔اور نہ افراط کی طرف مائل ہوتے ہوئے ان کے مسرفانہ استعمال کی حاجت ہے۔اقتضاء فطرت یہ ہے کہ ان میں اعتدال وتناسب کو ملحوظ رکھا جائے۔

فطرت صالحہ اور فطرت سئیہ:

اقتضاء فطرت ان کے تینوں پہلوؤں میں لحاظ اورعدم لحاظ وہ چیز ہے جس سے فطرت صالحہ اور فطرت سئیہ کا وجود پیدا ہوتا ہے۔ان دونوں قسم کی فطرتوں کو فطرت سلیمہ وفطرت سقیمہ کہے یا فطرت صحیحہ وغیر صحیحہ فطرت صالحہ وفطرت سیئہ کہیے یا فطرت حقہ وباطلہ۔ہمیں الفاظ سے کوئی سروکار نہیں۔لیکن یہ الفاظ بہرحال جس حقیقت کے اظہار کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں وہ ایک اٹل چیز ہے۔

وجود فطرت اورکتب پرویز:

خود پرویز صاحب کے درج زیل اقتباسات،اس حقیقت پر شاہد عدل ہیں۔ہم پہلےوہ اقتباسات پیش کرتے ہیں۔جن میں "فطرت انسانی"کے وجود کو ایک امر بدہیی اور مسلمہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے:

1۔انسانی فطرت کی عجوبہ کاریاں:انسان کی فطرت عجیب واقع ہوئی ہے۔ اس کو اللہ اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے ۔تو یہ روگردانی کرلیتا ہے۔سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی کی ہنر مندیوں کی بدولت ملا ہے۔کہاں کا خدا اور کون سی اس کی رحمت اور جب اس سے وہ رحمتیں چھن جاتی ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اب اس کاکوئی آسرا باقی نہیں رہا۔(معارف القرآن،ج1،صفحہ 158)

2۔جب فطرت انسانی میں اس حد تک علم ودیعت کرکے رکھ دیا گیا تو ملائکہ کی گردنیں اس کے آگے جھک جانی ضروری تھیں۔(معارف القرآن ،ج2،صفحہ 35)

3۔قصہ آدمؑ کو اس مقام تک پہنچا کر دوسرا ورق اُلٹ دیا جاتا ہے جہاں امم سابقہ اور اقوام گزشتہ کے احوال وظروف اور ان کے اعمال کے نتائج وعواقب سے فطرت انسانی کے ان مسلمات کی تشریح وتوضیح کی جاتی ہے۔جن کا ذکر اوپرآچکا ہے۔(معارف القرآن،ج2،صفحہ 39)

4۔قصہ آدمؑ ،نوع انسانی کی فطرت کا تذکرہ ہے۔نہ کسی ایک میاں بیوی کےسرگزشت۔(معارف القرآن،ج2،صفحہ43)

5۔یہ وہ انداز زندگی ہے جس میں فطرت انسانی کو صحیح تسکین وطمانیت حاصل ہوتی ہے اور جسے جنت کی زندگی کہا جاتا ہے۔یہ ان اعمال کی بدولت ملتی ہے۔جو انسان میں بقائے دوام کی صلاحیت پیدا کردیں۔یہ ہے فطرت انسانی کا تمثیلی بیان۔(معارف القرآن،ج2،صفحہ 54)

6۔خُدائی احکام کے مقابلے میں شیطانی احکام کے اتباع کانام،شیطان کی عبودیت(محکومیت) اختیار کرنا ہے۔فطرت انسانی سے اسی عبودیت سے احتراز کا عہد لیاگیا ہے۔(معارف القرآن،ج2،صفحہ 125)

7۔ان حالات کے ماتحت حضرت اسحاق ؑ کی پیدائش کی خوشخبری پہنچی۔مقامات مصرحہ میں فطرت انسانی کی ایک لطیف سی جھلک قابل غور ہے مرد خواہ کتنا ہی بوڑھا ہوچکا ہو اس کے لئے نئی اولاد کسی قسم کی جھجک کا باعث نہیں ہوتی،لیکن ایک سن رسیدہ(بوڑھی) عورت کے لئ اولاد کاتصور(خواہ اس کی آرزو کیسی ہی گہری کیوں نہ ہو) خفیف سے حجاب کا باعث ضرور ہوتا ہے۔فطرت انسانی کی یہی وہ جھلک ہے جو حضرت سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ان حرکات سے بے نقاب ہورہی ہے جو اس کی کبر سنی میں بیٹے کی خوشخبری سے خود بخود ان سے سرزد ہوگئیں۔(معارف القرآن،ج3،صفحہ 34)

8۔"اسرارورموز"کی یہ تمام نظر فریب عمارت،جس کی آئینہ بندی بڑے بڑے دیدہ وروں کی نگاہوں میں خیرگی پیدا کردیتی ہے ۔ایک ایسی بنیاد پراستوار ہے جس کی سندقرآن کریم میں کہیں نہیں مل سکتی،اس کا جذبہ ،محرکہ بھی در اصل فطرت انسانی کی وہی اعجوبہ پسندی ہے جو کھلی ہوئی حقیقتوں سے سیراب ہونے کی بجائے،سربستہ رازوں کی تلاش میں لذت محسوس کرتی ہے۔(معارف القرآن،ج3،صفحہ 384)

9۔آخری ضابطہ قوانین پوری کی پوری فطرت انسانی کو سامنے رکھ کر عطا کیا گیا،اس لئے اس کے بعد کسی اور تجدید کی ضرورت نہ رہی اس میں وہ سب کچھ بھی ہے جو پہلے ضوابط میں موجود تھا۔اوراسکے علاوہ وہ سب کچھ بھی ،جس کی فطرت انسانی کو تکمیل شرف انسانیت کے لئے ضرورت ہے۔(معارف القرآن،ج3،صفحہ 643)

10۔نہ صرف کسی ایک زمانے کے انسانوں کےلئے دین ایک تھا۔بلکہ ہر زمانے میں ایک تھا،اس لئے کے انسان کی فطرت اور اس فطرت کے مقتضیات ایک ہی ہیں۔(معارف القرآن،ج3،صفحہ 611)

جناب پرویز صاحب کے یہ دس اقتباسات ہیں ،جن میں فطرت انسانی کے وجود کو کھلے الفاظ میں تسلیم کیا گیا ہے۔یعنی ﴿تلك عشرة كاملة﴾

یہ اقتباسات بھی مشتے نمونہ از خر وارے ہیں ورنہ میں بیسیوں عبارتیں پرویزصاحب کے لٹریچر سے پیش کرسکتا ہوں جو فطرت انسانی کے وجود کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔

فطرت سئیہ وصالحہ کا وجود"کُتب پرویز" میں:

اب میں ان قتباسات پرویز کو نذر قارئین کررہا ہوں۔جن میں اچھی اوربُری دونوں فطرتوں کاتذکرہ ہے:

1۔انسان کی فطرت صالحہ پر قسم قسم کے خارجی اثرات اثر انداز ہوجاتے ہیں۔(معارف القرآن،ج1،صفحہ 339)

2۔فطرت انسانی میں تسلیم واطاعت کی ملکوتی اور سرکشی وعصیان کی ابلیسی قوتیں دونوں موجود ہیں وہ اسے فطرت صحیحہ کی طرف مائل کرتی ہیں۔اور یہ قانون شکنی ومعصیت کوشی کی غیر فطری زندگی کی طرف۔(معارف القرآن،ج2،صفحہ 33)

3۔سورہ ممتحنہ میں عورتوں سے بھی اس امر کا اقرار لیا گیا ہے کہ وہ قتل اولاد سے مجتنب رہیں گی۔حالانکہ"ماں کی مامتا" ایک مسلمہ حقیقت تسلیم کی جاتی ہے۔لیکن جب انسانی فطرت مسخ ہوجائے تو کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ یہ کہاں تک پہنچ کررکے گا۔اس لئے قرآن پاک نے جب اس کیطرف توجہ دلائی ہے۔تو ایک ایسے دلکش اور مؤثر انداز میں جذبات کواپیل کیا ہے کہ اگر سینہ میں فطرت صحیحہ کی کوئی رمق بھی موجود ہے رتو وہ پھر یری لے کراٹھ بیٹھے۔(معارف القرآن،ج4،صفحہ9 13)

4۔وہ (یعنی قرآن کریم۔۔۔قاسمی) تسلیم کرتا ہے کہ ایسی بُرائیاں بھی ہیں جوہنگامی طور پرسرزد ہوتی ہیں اور بُرائی کرنےوالے کی فطرت مسخ نہیں ہوتی۔اس لئے ایسی بُرائیوں کادفعیہ ،عقل ودانش اور فطرت سلیمہ کو اپیل کرنے سے ہوسکتا ہے۔اسی کا نام بُرائی کی مدافعت بھلائی سے کرنا ہے۔(معارف القرآن،ج4،صفحہ 486)

5۔لیکن چونکہ وہ(یعنی قرآن مجید ۔۔۔قاسمی) فطرت انسانی کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کرتا،اس لئے وہ یہاں پہنچ کررُک نہیں جاتا بلکہ دوسرے رُخ کو بھی سامنے لاتا ہے اورکہتا ہے کہ بُرائی کرنے والوں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی فطرتیں مسخ ہوجاتی ہیں اور وہ دیدہ ودانستہ سرکشی و طغیانی پر اُتر آتے ہیں۔یہ وہ بُرائی ہے جس کا دفعیہ،قوت ہی سے ہوسکتا ہے،یہ وہ جرم ہے جس کی سزا ضروری ہے۔(معارف القرآن ،ج4،صفحہ 486)

6۔ہجرت،انسانی فطرت صحیحہ کا تقاضا اور مرد مومن کی مجاہدانہ زندگی کاشعار ہے۔(معارف القرآن ،ج4،صفحہ 357)

7۔قوانین خدا وندی کی اطاعت،درحقیقت ،انسان کی اپنی فطرت عالیہ کے نوامیس کی اطاعت ہے۔کسی غیر کی محکومیت نہیں،فلہذا اس مملکت میں انسان کسی غیر کا محکوم اور غلام نہیں ہوتا۔بلکہ اس حریت وآزادی کا زندہ پیکر ہوتا ہے۔جو اس کی فطرت صحیحہ کاتقاضا ہوتا ہے۔(معارف القرآن ،ج4،صفحہ 440)

8۔چونکہ قوانین الٰہیہ ،نوامیس فطرت انسانیہ کے مطابق ہیں اور فطرت صحیحہ کے تقاضوں میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی۔اس لئے قوانین خداوندی کےمطابق فیصلے عدل مطلقabsolute justice پر مبنی ہوں گے۔(معارف القرآن ،ج4،صفحہ 421)

9۔یہ وہ پیغام ہے جو ضمیر انسانی کی انتہائی گہرائیوں سے اُبھرتا ہے اور اس کی فطرت سعیدہ کی ترجمانی کرتاہے۔اس لئے یہ کبھی پُرانا نہیں ہوسکتا۔(معارف القرآن ،ج4،صفحہ 789)

پرویز صاحب کے یہ جملہ اقتباسات ،نہ صرف یہ کہ" انسانی فطرت" کے وجود کا ثبوت ہیں بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ یہ فطرت صالحہ بھی ہوسکتی ہے اور غیر صالحہ بھی، اور مسخ شدہ بھی ہوسکتی ہے۔اور غیر مسخ شدہ بھی سعیدہ بھی ہوسکتی ہے۔اور غیر سعیدہ بھی خارجی اثرات سے دب بھی سکتی ہے اور ان سے آزاد ہوکر اُبھر بھی سکتی ہے۔

آیت فطرت اور پرویز صاحب:

اس کے بعدآئیے سورہ الروم کی اس مشہور آیت کی طرف جس میں"انسانی فطرت" کا ذکر یوں کیا گیا ہے:

﴿فَأَقِم وَجهَكَ لِلدّينِ حَنيفًا فِطرَتَ اللَّهِ الَّتى فَطَرَ النّاسَ عَلَيها لا تَبديلَ لِخَلقِ اللَّهِ...﴿٣٠﴾... سورة الروم

"پس آ پ اپنے چہرے کو یکسوئی کے ساتھ دین پر جما دیجئے۔یہی خُدا کی فطرت ہے ۔جس پر اس نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے خُدا کی ساخت کو تبدیل نہ کریں۔"

جناب پرویز صاحب اس آیت میں لفظ"فطرت" کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اس لفظ کے مادہ(ف۔ط۔ر) کے متعلق مطالب القرآن جلد اول (زیر تشریح آیت 2 /21) میں تفصیل سے بتایا جاچکا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ﴿فاطر السماوات والارض﴾(6/14) کہا ہے۔فطر کے معنی ہیں کسی شے کو عدم سے وجود میں لانا،اسے پہلی بار پیدا کرنا،لہذا فطرت کے معنیٰ ہوئے ،خدا کا وہ طریق(یا قانون)تخلیق،جس کی رو سے وہ کسی شئے کو عدم سے وجود میں لاتا ہے۔فطر کے ان معانی کی روشنی میں آیت(30/30) کا صاف مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ،انسانوں کو بھی اسی قانون وطریق تخلیق کے مطابق عدم سے وجود میں لایا ہے جس طریق کے مطابق جملہ کائنات کو پیدا کیا۔(تفسیر مطالب القرآن،ج2،صفحہ 35)

اس آیت کے معنی ومفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے پرویز صاحب نے تین لغزشیں کی ہیں:

پہلی لغزش:

ان کی پہلی لغزش یہ ہے کہ انہوں نے "فطرت" کا معنیٰ"قانون وطریق تخلیق" کیا ہے۔حالانکہ دنیا جہاں کی کسی عربی لُغت میں یہ معنیٰ نہیں پایاگیا ہے۔

"الفطرة منه الحالة كالجسلة والركبة المعنى انه يولد على نوع من الجبلة والطبع المتهىء لقبول الدين" لسان العرب ج5ص85

اسی سے فطرت ہے جو حالت کوکہتے ہیں،جس پر اسے پیدا کیا گیا جیسے جلسۃ(بیٹھنے کی حالت) اور رکبۃ (سوار ہونے کی ہیت) پس فطرت کا معنیٰ یہ ہوا کہ بچہ کو ایک خاص جبلت اور طبع پر پیدا کیا جو کسی نہ کسی دین کو قبول کرنے پر تیار رہتا ہے۔

و۔۔۔"الفطرة: الخلقه" حالتِ پیدائش(معجم مقاییس الغۃ ،ج4،صفحہ 510)

"ومنه الفطرة، وفطر الله الخلق وهو ايجاده الشئي وابداعه على هيئة مترشحه لفعل من الافعال"

و۔۔۔اوراسی سے فطرۃ ہے۔"فطر الله الخلق" کا معنیٰ ہے اس کا کسی شئے کو ایک ایسی ہیت پر وجود میں لانا اور بنانا ہے جو کسی فعل کے کرنے پر اسے آمادہ کرے۔(المفردات،امام راغب)

"الفطرة: صدقة الفطر، والخلقه التى يكون عليها كل موجود اول خلقه ، والطبعية السليمة لم تشب بعيب"

و۔۔۔۔"فطرة" 1۔صدقۃ الفطر2۔وہ حالت پیدائش ،جس پر ہر صاحب وجود،پیدائش سے اب تک قائم ہے۔3۔وطبیعت سلیمہ جس میں عیب کاشائبہ نہ ہو۔(المعجم الوسیط)

الغرض آپ کوئی سی لغت کی کتاب اُٹھا کر دیکھ لیں۔فطرت کا معنیٰ"قانون تخلیق" یا"طریق تخلیق" کہیں نہیں ملے گا۔"حالت تخلیق" کا معنیٰ تو مل جائے گا مگر پرویز صاحب کے بیان کردہ معانی سے ہر کتاب لغت خالی ہوگی۔پرویز صاحب کی یہ عادت ہے۔کہ وہ پہلے سے ایک مخصوص ذہن بنا لیتے ہیں اور پھر اسکے تحت کتب لغت کوکھنگا لتے ہیں وہ اپنے ذہن سے موافقت رکھنے والی بال کی نوک کے برابر بھی کوئی چیز پائیں تو اسے لے کر اس میں اپنے خود ساختہ معانی کو ملا کر ایک ملغوبہ تیار کرلیتے ہیں۔اسے لغات القرآن کے نام سے منظر عام پر لے آتے ہیں۔الفاظ لغت ہے۔اور قرآن سے لیتے ہیں۔مگر ان میں مفہوم اور معانی کی اپنی د نیا سمو دیتے ہیں۔

وہ جھوٹ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔جس میں "سچ" کی بھی( کسی مقدار میں) آمیزش کی گئی ہو۔مجرد جھوٹ، اسقدر غارتگر اور فنتہ انگیز نہیں ہوتا۔جس قدر کہ وہ جھوٹ ،جس میں کسی قدر سچ کی چاشنی بھی داخل کی گئی ہو۔پرویز صاحب نے کتب لغات میں "فطرۃ" کے معانی میں"حالت تخلیق کو دیکھا اور پھر اس پورے مرکب اضافی کی مجرد صداقت میں سے"تخلیق"کو جُدا کرلیا۔اور اس کے ساتھ"قانون" یا "طریق" کا لفظ ملا کر حق وباطل کا ایک ملغوبہ بنا کر پیش کریا جو مجرد جھوٹ کی نسبت زیادہ خطرناک ہے۔

دوسری لغزش:

پرویز صاحب نے آیت زیر بحث میں دوسری لغزش کا ارتکاب۔۔۔﴿لا تبديل لخلق الله﴾ ۔۔۔کے مفہوم میں کیا ہے،ان کے نزدیک آیت میں خبر کامفہوم پایا جاتا ہے۔جبکہ فی الواقعہ اس میں"امر" کا مفہوم واقع ہے۔موصوف محترم کا مفہوم تسلیم کرلینے کی صورت میں ،یہ ماننا پڑتا ہے کہ۔۔۔"خُدا کی خلق میں تبدیلی نہیں ہوتی ۔۔۔حالانکہ خود قرآن ہی اس امر پر گواہ ہے کہ خلق اللہ میں تغیر وتبدیل کا فعل اتباع شیطان ہمیشہ کرتے رہے ہیں۔﴿فليغيرن خلق الله﴾ (4/119)" پھر وہ اللہ کی خلق میں تبدیلی کریں گے"۔کے الفاظ،اس امر پر شاہد ہیں۔لہذا پرویز صاحب کا ان الفاظ کے مفہوم کو "خبر" قرار دینا قطعی غلط ہے ،آیت زیر بحث کے الفاظ اگرچہ لفظاً خبر ہیں مگر معناً امر ہیں۔اس لئے ان کا اصل مفہوم یہ نہیں کہ۔"خُدا کی خلق میں تبدیلی نہیں ہوتی"۔۔۔بلکہ یہ ہے کہ۔۔۔"خُدا کی خلق میں تبدیلی نہ کرو۔"

تیسری لغزش:

"مفکر قرآن"صاحب کی تیسری لغزش یہ ہے کہ انہوں نے "فطرۃ اللہ سے مراد"خدا کی اپنی فطرت"مُراد لے کر اس پر اپنے استدلال کا قصرفلک بوس یوں تعمیر کیا کہ قرآن نے"انسان کی فطرت" یہ بیان کی ہے کہ وہ"بے صبرا" ظالم وجاہل"ناشکرا"جلد باز" اور "جھگڑالو"ہے۔اب اگر خُدا نے اپنی فطرت پر انسان کو پیدا کرکے ان میں یہ صفات رکھی ہیں تو اس سے خدا کے متعلق بڑا گھناؤنا تصور سامنے آتا ہے۔استدلال کی یہ بلند وبالا عمارت،اس مفروضہ پر اُٹھائی گئی ہے کہ فطرۃ اللہ کا معنیٰ خود"خُدا کی اپنی فطرت" ہے۔حالانکہ اس کامعنیٰ "خُدا کی اپنی فطرت " نہیں ہے۔بلکہ" خدا کی بنائی ہوئی فطرت" ہےیہاں فطرت کی اضافت،خُدا کی طرف ،اس معنیٰ میں نہیں ہے کہ یہ"خُدا کی اپنی فطرت" ہے بلکہ اس کا معنیٰ ہے کہ یہ"خُدا کی بنائی ہوئی فطرت" ہے۔قرآن پاک میں ایک جگہ ھذا خلق اللہ کے الفاظ ہیں۔ان الفاظ کا یہ معنیٰ تو نہیں ہوسکتا کہ خدا خود مخلوق ہے اور۔۔۔"یہ خُدا کی اپنی پیدائش ہے۔"بلکہ یہی معنیٰ ہیں کہ"خُدا خود خالق ہے" اور یہ۔۔۔"خُدا کی بنائی ہوئی خلق ہے"بلکہ اسی طرح"فطرۃ اللہ" کا یہ مفہوم نہیں کہ یہ "خُدا کی اپنی فطرت" ہے۔بلکہ یہ معنیٰ ہیں کہ۔۔۔یہ "خُدا کی بنائی ہوئی فطرت ہے۔"اس وضاحت کے بعد،آیت فطرت کا مفہوم یوں نکھرکر سامنے آجاتا ہے۔

"پس اے مخاطب!آپ اپنے چہرے کو یکسوئی کے ساتھ دین پرجمادیجئے،یہی خُدا کی بنائی ہوئی وہ فطرت ہے۔جس پر اس نے انسانوں کو پیدا فرمایا۔اللہ کی پیدائش وساخت میں تبدیلی نہ کیجئے۔"

لیکن پرویز صاحب،اس واضح مفہوم کی بجائے ،الفاظ کے گورکھ دھندے میں پڑتے ہوئے،آج یہ مفہوم بیان کرتے ہیں۔

"لہذا صحیح روش زندگی یہ ہے کہ تو ان تمام غلط راہوں سے منہ موڑ کر،اپنی تمام توجہات کو اسی نظام زندگی پر مرکوز کردے۔جو خُدا کے تخلیقی قانون کاتقاضا ہے۔اور جس قانون کے مطابق ،اس نے خود انسان کو پیدا کیا ہے خدا کا یہ قانون تخلیق غیرمتبدل ہے(اسلئے یہ نظام زندگی،جو انسانی معاشرے کے لئے ،بذریعہ وحی دیاگیا ہے اسی طرح غیر متبدل ہے ) یہی و ہ نظام زندگی ہے جو نہایت محکم اور تمام نوع انسان میں توازن قائم رکھنے کا موجب ہے۔لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کا علم نہیں رکھتے۔"(مفہوم القرآن،آیت 30/30)

پرویز صاحب کے نزدیک "مفہوم القرآن"شاید اس چیز کا نام ہے کہ آیت میں سے چند الفاظ کے اُردو میں مترادفات تلاش کرکے انہیں لفاظی کے ذریعہ،اپنے خود ساختہ طولانی جملوں میں استعمال کردیا جائے اگر اسکے باوجود بات نہ بن پائے تو بین القوسین کچھ جملے لکھ کر اس کسر کو پورا کر ڈالا جائے اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور پر التزام برتا جائے کہ"مفہوم القرآن" میں «خيراالكلام ما قل ودل» کے اُصول کی کوئی پرچھائیں عبارت پر نہ پڑسکے۔

عقائد پنجگانہ:

وہ علماء جو آیت فطرت کامفہوم ،پرویز صاحب کے مفہوم سے مختلف بیان کرتے ہیں،ان کی "بے علمی" اور"جہالت" پر حیرت اور طنز کا اظہار کرتے ہوئے پرویز صاحب فرماتے ہیں:

"حیرت اندر حیرت کہ خود مسلمانوں نے بھی اسی نظریہ کو(یعنی انسانی فطرت کے نظریہ کو) اختیار کرلیا اور یہیں تک اکتفاء نہیں کیا۔بلکہ اسے بڑھا چڑھا کر یہاں تک لے گئے کہ یہ عقیدہ وضع کرلیا کہ:

1۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے۔

2۔لہذا انسان کی فطرت،عین خُدا کی فطرت ہے۔

3۔اسلام دین فطرت ہے یعنی عین انسانی فطرت کے مطابق۔

4۔لہذا کوئی کام جو انسانی فطرت کے خلاف ہو وہ اسلام کے خلاف ہے۔

5۔ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے اگر اسے ماحول کے اثرات سے غیر متاثر رکھا جائے،تو ا س کی زندگی،اسلام کے مطابق ہوگی۔"(تفسیر مطالب القرآن،ج2صفحہ 34)

عقائد پنجگانہ اور پرویز صاحب:

ان"عقائد پنجگانہ" میں سے کوئی عقیدہ بھی ایسا نہیں جس کا پرویز صاحب نے اقرار وا ثبات نہ کیا ہو،موصوف محترم کے درج زیل اقتباسات کو ملاحظہ فرمائیے:

و۔۔۔اگر کہیں مسٹر بٹلر کے سامنے قرآن کریم ہوتا تو اسے حسرت وحرمان نصیبی سے یوں مضطرب وحیران نہ ہونا پڑتا۔وہ قرآن جس کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ نے فطرت انسانی کو خود اپنی فطرت کے خطوط پر مشکل کیا ہے۔"فطرت الله التى فطرالناس عليها" (معارف القرآن ،ج3صفحہ 583)

و۔۔وہ ذات حق مطلق ہے اور چونکہ انسانی فطرت خود اسی حق کی فطرت پرمتفرع ہے اس لئے ہو نہیں سکتا کہ انسان کی تخلیق باطل ہو اور بلا مقصد ہو۔(معارف القرآن ،ج3،صفحہ 301)

و۔۔۔اے پیغمبر اسلام! ہر طرف سے منہ موڑ کر اس نظام زندگی کی طرف اپنا رخ پھیر لو جو اس فطرت خداوندی کے عین مطابق ہے۔(معارف القرآن،ج4،صفحہ 421)

و۔۔۔یہی دین ہے جس کا میزان خداوندی میں وزن ہے اس کے علاوہ کوئی دین(نظام مملکت) فطرت انسانی کے مطابق نہیں۔(معارف القرآن،ج4،صفحہ426)

و۔۔۔یہ نظام چونکہ فطرت انسانی کے مطابق ہے۔اس لئے تمام نوع انسانی کے لئے مطلوب ہے۔(معارف القرآن ،ج4صفحہ 441)

و۔۔۔قرآن فطرت انسانی کا ترجمان ہے۔(معارف القرآن،ج4،صفحہ 747)

پرویز صاحب کا زمانہ انکارفطرت:

ممکن ہے کہ تقلید پرویز کی اندھی لاٹھی کے سہارے چلنے والے یہ کہہ دیں کہ "مفکر قرآن" کے یہ تمام اقتباسات ،اس دور کے ہیں۔جبکہ وہ انسانی فطرت کے قائل تھے مگر اب ان کی تحقیق بدل چکی ہے بعد میں وہ انسانی فطرت کے قائل نہیں رہے،(لہذا ان کے دورسابق کے اقتباسات کو پیش کرنا بے سود ہے ان کی بعد کی تصانیف میں سے اگر کوئی اقتباس ہے تو پیش کیجئے۔۔۔ میں جواباً عرض کردوں گا۔ کہ جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے۔پرویز صاحب نے انسانی فطرت کا انکار سب سے پہلے لغات القرآن میں کیا ہے۔جو جنوری 1961 میں پہلی مرتبہ طبع ہوئی ہے۔اس کے بعد وہ انسانی فطرت کے انکار اور اس کے دلائل کو (بشرط یہ کہ انہیں کہا بھی جاسکتا ہو)اپنی مختلف تصانیف میں دُہراتے چلے گئے ہیں۔لیکن"انسانی فطرت" کا یہ پہلو بڑا ہی تابناک ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو منوا کر چھوڑتی ہے۔خواہ منکر کتنا ہی انکار کیوں نہ کرے ،چنانچہ پرویز صاحب کو بھی اس کے وجود کا اقرار کرنا ہی پڑا۔انہوں نے ستمبر 1973ء میں ایک مقالہ بعنوان"کیا ہم آزاد ہیں؟" میں فرمایا کہ ۔۔۔ایسے شخص کی اطاعت قطعاً نہیں کرنی چاہیے ،جو۔۔۔

1۔خود بھی کوئی بھلا کام نہ کرے اوردوسروں کو بھی بھلائی کے کاموں سے روکتا رہے صحیح قوانین سے سرکشی برتنے میں سب سے آگے اورمنفعت بخش اُمور میں سے سے پیچھے ہو،شقی القلب ،سخت گیر،بے رحم،جھگڑالو،ہروقت کی کوشش یہ کہ دوسروں کا سب کچھ ہڑپ کرجائے اس قسم کے لوگ اس قدر ذلیل فطرت اورگھناؤنے کردار کے باوجود لوگوں کے لیڈر اس لئے بن جاتے ہیں۔کہ وہ مالدار ہوتے ہیں۔(طلوع اسلام،ستمبر 1973ء ،صفحہ 42)

یہ اقتباس نہ صرف یہ کہ"انسانی فطرت" کے وجود کا اثبات کرتا ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ یہ فطرت گھٹیا اور گھناؤنی بھی ہوسکتی ہے۔علاوہ ازیں درج ذیل اقتباسات بھی ملاحظہ فرمائیے:

2۔خدا کے ایک برگزیدہ رسول کو ایک ایسی ہیت میں (اشارہ ہے توراۃ کے زیرحوالہ اقتباس کیطرف۔قاسمی) پیش کیا گیا ہے جس سے سعید فطرت کا تصور بھی کانپ اُٹھے۔(مطالب الفرقان،ج15،صفحہ 420۔طبع 1982ء)

3۔ان لوگوں کی دوں فطرتی اس حد تک آگے بڑھ جاتی ہے کہ جب ان سے فریق مقابل کے دلائل کا جواب نہیں بن پڑتا تو یہ استخفاف اور استہزاء پر اُترآئے ہیں۔(مطالب الفرقان،ج5،صفحہ 380 طبع 1982)

انسانی فطرت کے شدید انکار کے بعد،اس کا یہ اعتراف ،وہ جادو ہے جو منکر فطرت انسانی کے سرپرچڑھ کر بول رہا ہے۔

مزاج پرویز کا ایک پہلو:

پرویز صاحب کے مزاج کا یہ پہلو،کسی ایسے شخص پر مخفی نہیں ہے جس نے اس کے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے کہ وہ علماء مغرب کے متضاد اقوال وآراء میں سے ایک پسندیدہ قول کو لیتے ہیں۔اور پھر قرآن کو چھیل چھال کر اُسے"قرآنی دریافت"ثابت کرڈالتے ہیں۔پھر وہ ذہن دماغ اورزبان وقلم کی جملہ قوتوں کو اس قول کے حق میں "قرآنی دلائل" فراہم کرنے میں صرف کر ڈالتے ہیں۔لیکن ترتیب بیان میں"قرآنی دلائل" کومقدم رکھ کر ،آخر میں علماء مغرب کاوہ قول پیش کردیتے ہیں۔جس کے زیراثر وہ یہ"قرآنی دلائل"فراہم کرنے میں کوشاں رہے ہیں۔انسانی فطرت کے انکار میں جس قول کو انہوں نے ذہنی بنیاد کے طور پر قبول کیا ہے وہ ایرچ فرام Erich fromm کا یہ قول ہے:

"علم الانسان کے ماہرین کی اکثریت نے یہ انکشاف کیا ہے کہ انسان ایک قرطاس ابیض(سفید کاغذ) لے کر پیدا ہوتا ہے جس پر کلچر اپنا متن تحریر کردیتا ہے۔ The anatomy of humdan destructiveness p_247)(تفسیر مطالب الفرقان ۔ج2 صفحہ 37)

اس قول کے متعلق ،وہ یہ فرماتے ہیں کہ:

"علم النفس کے ماہر(اب) اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ انسان کی کوئی فطرت نہیں Erich fromm نے عمر بھر کے تجارب کے بعد،اس غلط نظریہ کی بڑی محققانہ انداز سے تردید کی ہے۔"(تفسیر مطالب الفرقان ،ج2،صفحہ 34)

میں نہیں جانتا کہ ایرچ فام کیمونسٹ عقیدے سے وابستہ ہے۔یا کسی دوسرے فکر سے۔لیکن یہ بات بہرحال واضح ہے کہ،"انسانی فطرت" کا انکار، اشتراکیت کےعلمبرداروں نے کیا ہے اور پرویز صاحب ہی وہ شخص ہیں جنھوں نے اشتراکی نظام کے ڈھانچے کو"نظام ربوبیت"کے لیبل سے عین اسلام ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کے نزدیک چودہ صدیوں میں پیدا ہونے والے مسلم علماء اور سکالرز ،قرآن کے نظام معیشت کو نہیں سمجھ سکے،اسے صرف "حضرت" کارل مارکس اور اس کے یار غار"حضرت"اینجلر ہی نے سمجھا ہے ۔اور اب اُمت مسلمہ میں پرویز صاحب وہ پہلے "مفکر" ہیں،جنھوں نے اسے جان لیا ہے۔

پرویز صاحب اور تقلید مغرب:

بہرحال آج پرویز صاحب صرف ایک" ایرچ فرا" کی تقلید میں "انسانی فطرت" کا انکار کررہے ہیں جبکہ کل تک دیگر علمائے مغرب کی تقلید میں وہ انسانی فطرت کا دم بھرتے رہے ہیں۔چنانچہ لکھتے ہیں کہ:

Confucianism and اپنی کتاب R.F johnstod weshtmizster confossion میں modrm chine کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

"(عیسائیت کا۔۔۔قاسمی) ازلی گناہ کا عقیدہ درحقیقت ایک"ازلی خرابی" ہے ۔جس کی وجہ سے ہم ہر قسم کے خیر سے بیزاار اور ہرقسم کے شر کی طرف مائل رہتے ہیں۔

سرہنری جونس اپنی کتاب A.Faith That Enquires میں اس عقیدے کی تردید وتکذیب کے بعد،فطرت انسانی کے نیک ہونے کا اعلان کرتا ہے۔Sir,James/Rvine نے سینٹ اینڈریوز کے گرجے میں ایک بصیرت افروز تقریر کے دوران میں کہا کہ جو چیز میرے دل میں سب سے زیادہ نمایاں حیثیت لئے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ میرے تجربے نے میرے اس احساس کواور بھی زیادہ شدید کردیا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے نیک ہے۔TIMES.London.dated 20/1/1933 مشہور عالم نفسیات William mc dougall اپنی کتاب jharacter and the ccdiuct of life میں لکھتا ہے:

اب دور حاضر کے بچے کی عزت نفس کوشروع ہی سے اس عقیدے سے ٹھیس نہیں لگائی جاتی کہ وہ فطرتاً بدواقع ہواہے۔بلکہ اب اس کی تربیت اس کلیہ کے ماتحت عمل میں آتی ہے کہ وہ فطرتاً نیک ہے اور وہ ایک مہذب اور شستہ ماحول میں یقیناً نیکی ۔سچائی۔اورحُسن کامتلاشی ہوگا۔یہ یقیناً فوز عظیم ہے۔

مسٹر ٹیلر AB .Talor لکھتا ہے کہ یہ عقیدہ ایک بطلان ہے اور میں کسی ایسے سائنٹفیک اور خُدا کی طرف دعوت دینے والے مذہب کااستقبال کر وں گا۔جو ہمیں فطرت انسانی پر ایسی مضحکہ خیز تہمت پر ایمان رکھنے کی ضرورت بچالے۔Mind.joly 1912)(معارف القرآن،ج3،صفحہ582)

غور فرمائیے،کل تک پرویز صاحب ان علمائے مغرب کی تقلید میں "انسانی فطرت" کے قائل رہے ہیں اور آج وہ ایرچ فرام کی تقلید میں اس کے انکار پر تل گئے ہیں۔کیونکہ یہ چیز ان کے عقیدہ اشتراکیت سے میل کھاتی ہے۔جسے انہوں نے "نظام ربوبیت"کاخوش آئند نام دیا ہے،مغرب مفکرین کی تقلید کے پیش نظر وہ ذہنی جمناسٹک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۔کبھی ایک چیز کاانکار کرتے ہیں اور کبھی اقرار۔اس طرح جب وہ ایک مفکر کی رائے کو قبول کرکے اسے خیر باد کہہ کر دوسرے مفکر کی رائے کو قبول کرتے ہیں اور اس "ردوقبول" کو وہ "علمی تحقیق" کا نام دیتے ہیں تو اس راہ پرچلتے ہوئے وہ ایک وقت میں کسی چیز کو ثابت کرنے کے لئے قرآن سے"دلائل"کشید کرتے ہیں اور دوسرے وقت میں اسی چیز کو تردید میں کتاب اللہ سے"براہین"نچوڑڈالتے ہیں،جب وہ انسانی فطرت کے قائل تھے تو حدیث ۔«كل مولود يولد على الفطرة» مطابق قرآن تھی۔

لیکن آج جب کہ "انسانی فطرت" کا نظریہ غیرقرآنی نظریہ قرار پاگیا تویہ حدیث مردود طے پاگئی۔کیونکہ پرویز صاحب نے روایات حدیث کے رود قبول کے بارے میں اس مسلک کواپنا رکھا ہے کہ:

روایات کے بارے میں میرامسلک یہ ہے کہ ان کے صحیح اورغلط ہونے کا میعار قرآن کریم میں ہے۔(تفسیر مطالب الفرقان،ج3،صفحہ 247)

اورقرآن کریم وہ چیز ہے جسے جس وقت جومفہوم چاہا۔اس کی طرف منسوب کردیا اور یہ کہہ دیا کہ چونکہ فلاں حدیث ،قرآن کے خلاف ہے۔لہذا ناقابل قبول ہے۔حالانکہ وہ قرآن کریم کےمفہوم کے خلاف نہیں ہوتی۔بلکہ صرف اس مفہوم کے خلاف ہوتی ہے۔جسے قرآن کے گلے مڈھ دیا جاتا ہ ے۔

انسانی فطرت اور اشکال پرویز:

بہرحال بات"انسانی فطرت" کے متعلق ہورہی تھی ،جس کے متعلق پرویز صاحب نے ایک اشکال یہ پیش کیا ہے:

"اگرانسانی فطرت کے نظریہ کو صحیح تسلیم کر لیاجائے تو پھر خدا کی طرف سے سلسلہء ہدایت اور حضرات انبیاء کرام کی بعثت عبث ہوکر رہ جاتی ہے۔کیونکہ جب فطری خصوصیات کو بدلا ہی نہیں جاسکتا تو پھر اس سلسلہء ہدایت سے حاصل کیاہوگا؟"(تفسیر مطالب الفرقان،ج2،صفحہ 36)

یہ ایک لفظی بحث ہے کہ فطری خصوصیات کو بدلا جاسکتا ہے یا کہ نہیں ،ہم اس کے تغیر پزیر ہونے پر خود پرویز صاحب کے بہت سے اقتباسات پیش کرچکے ہیں کہ بعض فطرتیں،زمانی حدود میں ہوتی ہیں۔مثلاً بکری کی ابتدائی زمانے میں شیر خوری کی فطرت جو ایسی عارضی اورتغیر پزیر فطرت ہے جو ایک عرصے کے بعد باقی نہیں رہتی۔لیکن اگر پرویز صاحب کے اس مفروضے کو صحیح بھی مان لیا جائے کہ فطری خصو صیات ناقابل تغیر ہیں۔ تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔کیونکہ ان کو ناقابل تبدل ماننے کا یہ معنیٰ ہر گز نہیں ہے کہ۔۔۔"یہ خصوصیات خارجی اثرات سے دب بھی نہیں سکتی ہیں۔"اگر ان کے "قابل تغیر وتبدل" ہونے کا مفہوم پرویز صاحب پرگراں گزرتا ہے تو بہرحال ان خصوصیات کا غلط ماحول کے زیر اثر دب جانا اور غلط اثرات کا ان پر حاوی ہوجانا تو خود انہیں بھی مسلم ہے۔چنانچہ و ہ فرماتے ہیں کہ "انسانی فطرت صالحہ پر(ماحول ،وارثت،وغیرہ کے)اثرات، اس درجہ موثر ہوتے ہیں کہ فطرت ان خارجی اثرات سے بالکل دب جاتی ہے۔اس لئے ہدایت خداوندی کی رہبری کی ضرورت ہوتی ہے۔جو اسے آگاہ کرتی ہے کہ سیدھا راستہ کونساہے۔اور غلط کون سا۔

﴿وَهَدَينـٰهُ النَّجدَينِ ﴿١٠﴾... سورةالبلد

"ہم نے اسے دونوں راستے دکھادیئے ۔"(معارف القرآن ،ج1،صفحہ 339)

انسان کی فطرت صالحہ پرقسم قسم کے خارجی اثرات اثر انداز ہوتے ہیں ۔جن کے نیچے یہ فطرت دب جاتی ہے اور جس راستے پر چلنے کے لئے انسان تخلیق کیاگیا تھا۔وہ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔اس راستے کو بھلا بیٹھتا ہے۔ ہدایت خداوندی سے مقصود یہ ہے کہ وہ اس بھولے ہوئے سبق کی یاد دلاوے،اس لئے قرآن کریم کو تذکرہ کہاگیاہے یعنی بھولی بسری یادوں کو یاددلانے والا۔سو اللہ کے راستہ میں صحیح جدوجہد کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان اس تذکرہ کی مد د سے صحیح راہ پر گامزن ہوجائے۔(معارف القرآن،ج1،صفحہ 339)

اب یا تو یہ کہہ لیجئے کہ اسلام کی بدولت،انسان کی فطرت فاسدہ ،فطرت صالحہ میں تبدیل ہوجاتی ہے یا یہ کہہ لیجئے کہ اسکی فطرت صالحہ جوماحول ووراثت کے اثرات سے دب گئی تھی۔اب اسلام کی بدولت ان موثرات کے دباؤ سے آزاد ہوگئی ہے۔ہمیں اس سے غرض نہیں کہ آپ اس حقیقت کی تعبیر کے لئے الفاظ کیا استعمال کرتے ہیں۔لیکن بہرحال یہ حقیقت ہے کہ انسان کی ایک نہیں کئی فطرتیں ہیں صالح بھی اور فاسد بھی۔ماحول کے زیر اثر یہ تغیر وتبدل کا شکار بھی ہوتی ہیں۔یا بالفاظ دیگر خارجی اثرات سے بھی دب جاتی ہیں۔اوران سے آزاد ہوکر بے نقاب بھی ہوجاتی ہیں۔