تقابل ادیان

تورات ،زبور ،انجیل،اور قرآن مجید


لفظ قرآن مصدر ہے جس کا معنی ہے "پڑھنا " یہ اللہ عز وجل کی کتاب کا خاص نام ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی جبکہ کسی دوسری آسما نی کتاب کا بطورمعروف نام قرآن نہیں ہے نیز اس کا اطلاق قرآن کریم کے جزو کل سب پر یکساں طور پر ہوتا ہے۔

وجہ تسمیہ

قرآن کی وجہ تسمیہ کے متعلق علماء کے مختلف اقوال ہیں کسی نے کہا قرا کا معنی جمع کرنا ہے چونکہ قرآن سابقہ کتب الہٰیہ کا حاصل اور مجموعہ ہے چنانچہ صحیح بخاریؒکے ترجمۃ الباب میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے منقول ہے۔

(عربی)

یعنی قرآن ہر اس کتاب پر امین ہے جو اس سے پہلے تھی ۔حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے فتح الباری میں اس قول کی تو جہیہ یوں بیان کی ہے :

(عربی)

امام راغب اصفہانیؒ نے مزید یوں اضافہ کیا ہے کہ قرآن تمام علوم کا مجموعہ ہے جبکہ ابو عبیدہؒ رقمطراز ہیں کہ سورتوں کا مجموعہ ہے۔

نزول قرآن

قران کریم کا نزول اور اس کی تکمیل رفتہ رفتہ 23سالوں میں ہوئی ۔

ارشاد باری تعا لیٰ ہے :

(عربی)

اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر سناؤ اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ہے ۔

(عربی)

اور کا فر کہتے ہیں کہ اس قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں اتار اگیا اس طرح (آہستہ آہستہ)اس لیے (اتار گیا )کہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں اور (اسی واسطے) ہم اس کو ٹھہر کر پڑھتے رہے ہیں ۔آیت ہذا کے کے تحت بعض مفسرین نے لکھا ہے ۔اس آیت میں دلیل ہے کہ دیگر آسمانی کتب یکمشت نازل ہو ئیں تھیں ۔(احکام القرآن لا بی بکرابن العربی)

قرآن مجید کے اس طرح تدریجاً اترنے کی علما ء نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں اور خود قرآن حکیم میں بعض کی طرف اشارات ملتے ہیں مثلاً:

(1)تاکہ لو گو ں کو اچھی طرح یاد ہو جا ئے ۔

(عربی)

(2)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جمعی اور ڈھارس بندھانے کی خاطر

(عربی)

(3) تحدی اور چیلنج کے لیے مثلاً :پہلے اس جیسا قرآن لانے کا پھر دس سورتیں اور آخر میں اس جیسی صرف ایک سورت لانے کا چیلنج کیا۔اور سورت سے مراد ہے وہ نظم قرآنی جس کی کم از کم تین آیات ہوں ۔

(4)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حفظ و فہم کی سہولت کے لیے

(عربی)

اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم )وحی کے پڑھنے کے لیے اپنی زبان نہ چلایا کرو کہ اس کو جلد یاد کرلو۔اس کا جمع کر نا اور پڑھا نا ہمارے ذمے ہے۔

(5)تاکہ واقعات و حوادث زمانہ کے ساتھ مطابقت ہوسکے ۔

(6) تاکہ شریعت کا بیک وقت بوجھ ڈالنے کی بجا ئے تدریجاً احکام نازل ہوں جن کو قبول کرنا آسان ہو قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر رمضان المبارک میں شب قدر کو ہوا تھا قرآن کریم میں ہے ۔

(عربی)

(روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا۔ (عربی)

کہ ہم نے اس( کتاب ) کو مبارک رات میں نازل فر ما یا ۔

(عربی)

(ہم نے اس (قرآن کو شب قدر میں نازل کرنا شروع )کیا۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :

(عربی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر قرآنی وحی کا آغاز غار حرا ءمیں سورۃ العلق کی ان ابتدائی آیات کے نزول کے ساتھ ہوا ۔

(عربی)

(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم )اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا ۔پڑھواور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھا ئیں جس کا اس کو علم نہ تھا ۔بعد ازاں تقریباً اڑھائی سال وحی منقطع رہی پھر سورۃ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور وحی کا باقا عدہ سلسلہ شروع ہو گیا ۔(ملا حظہ ہو صحیح بخاری باب بدءالوحی)

جمع تدوین قرآن

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع و تدوین قرآن کا کا م دو طرح سے ہو تا تھا ۔

(1)حفظ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

(عربی)

یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اترتے وقت مشقت میں پڑ جا تے تھے پس جب بھی وحی اترتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لب ہلا تے رہتے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا (وحی اترتے وقت) اس ڈر سے کہ مبادا بھول نہ جا ؤ زبان نہ ہلا یا کرو اس کا تمہا رے دل میں جما دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارے ذمے ہے جب ہم اس کو پڑھا کریں (یعنی جبریل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھا ئے )تو جیسے جبریل پڑھ کر سنائے تم بھی اسی طرح پڑھا کرو ۔پھر یہ بھی ہمارا ہی کا م ہے کہ ہم تمہاری زبان سے اس کو پڑھو ا دیں گے یا اس کے معنی اور مطالب تجھ پر کھول دیں گے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار میں بصدشوق آیات قرآنیہ حفظ کرتے تھے حدیث میں ہے ۔

(عربی)

دوسری روایت میں ہے :

(عربی)

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی طمع و حرص اور مما رست کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے معلم قرآن کا اہتمام فر ما تے عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے :

(عربی)

پھر وہ لو گ جو بئرمعونہ میں شہید کردئیے گئے ۔ان کی تعداد ستر تھی اور وہ سب کے سب قراء تھے نیز علامہ قرطبیؒ فر ما تے ہیں ۔

(عربی)

یعنی جنگ یمامہ میں ستر قاری شہید ہو ئے تھے ۔

(2)کتابت : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فریضہ کی اہمیت کے پیش نظر چند ایک جلیل القدر صحابہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کا تب وحی مقرر کیا ہو اتھا ۔روایات شاہد کہ جب کو ئی آیت نازل ہو تی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم فر ما تے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں جگہ رکھ دو۔

سورۃ اور آیات کی تر تیب

بعض اہل علم کا خیا ل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صرف آیات کی ترتیب تھی لیکن سورتوں کی تر تیب کا صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں اہتمام کیا گیا ۔

شیخ منع القطان فر ما تے ہیں ۔

(عربی)

(ملاحظہ ہو مبا حث فی علوم القرآن ۔ص 124)

علامہ بہیقی ؒاور سیوطیؒ کا خیا ل یہ ہے ۔کہ سورۃ البراءۃ اور سورۃ الانفال کے علاوہ باقی سب سورتوں کی تر تیب توفیقی ہے۔(واللہ اعلم بالصواب )

یہاں ایک سوال پیدا ہو تا ہے ۔

سوال:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور حیات میں قرآن مجید کو یکجا کرنے میں کیا امر مانع تھا ؟

جواب: تو اس کے جواب میں امام ابو سلیما ن خطابیؒ وغیرہ فر ما تے ہیں :

(عربی)

(ملاحظہ ہو فتح الباری شرح صحیح البخاری للحا فظ ابن حجرؒص12جلد 9)

یعنی ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو اس لیے جمع نہ کیا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیات کی تلاوت یا احکام میں کسی بھی وقت نسخ کے منتظر رہتے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے یہ کا م پایہ تکمیل کو پہنچا تو اللہ تعا لیٰ نے قرآن کی حفاظت کا جو وعدہ فر ما یا تھا خلفا ء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کے اہتمام کا الہام کر کے اسے پو را کیا اور اس کا ر عظیم کا آغا ز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک پر ہوا ۔

جمع قرآن عہد صدیق رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ میں

قرآن مجید کو صحف میں جمع کر نے کا عمل حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں ہوا ۔چنانچہ انہوں نے کچھ تردد کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اشارہ پر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصاری کو اس کے جمع کرنے کا حکم دیا ۔

یہ صحیفے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحویل میں چلے گئے اس کے بعد حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شکایت پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 25ھ میں قرآن مجید کو یک جا کر کرنے کا فیصلہ کیا۔

حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے جمع میں فرق

امام ابن التین فر ما تے ہیں :

(عربی)

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قرآن کو جمع کرنا اس خوف سے تھا کہ کہیں حاملین قرآن کے دنیا سے اٹھ جا نے کی وجہ سے اس کا کو ئی حضہ ضا ئع نہ ہو جائےاس لیےکہ پہلے سے قرآن ایک جگہ جمع نہیں تھا انہوں نے اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلا ئے ہو ئے طریقہ کے مطا بق آیات کی تر تیب کے ساتھ صحیفوں میں جمع کر دیا ۔اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جمع کرنا اس وقت تھا جب وجوہ قرات میں زبانوں کی وسعت سے بہت سارا اختلاف پیدا ہوا اس بناء پر بعض لو گ بعض کو غلطی پر قرار دینے لگے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خوف لا حق ہو اکہ کہیں معاملہ بڑھ نہ جا ئے بنا بریں انہوں نے قرآن مجید کو متعدد صحف کی بجا ئے سورتوں کی ترتیب کے ساتھ ایک صحف میں جمع کر دیا ۔ اور سب زبانوں کی بجا ئے صرف لغت قریش کو کا فی سمجھا کیو نکہ قرآن کا نزول اسی زبان میں ہوا تھا اگر چہ ابتدا ء میں (آسانی کے لیے ) اور تنگی و مشقت کے رفع بنا ء پر دیگر زبانوں میں قرات کو رواں رکھا گیا تھا جب انہوں نے یقین کر لیا کہ اب چونکہ ضرورت پوری ہو چکی ہے اور سب سے اچھی زبان لغت قریش ہی ہے لہٰذا اسی پر ہی اکتفاء کر لیا

صحف اورمصحف میں فرق

(عربی)

صحف خالی اور اق کا نام ہے جن میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں قرآن جمع کیا گیا تھا ۔یہ صرف آیات کی باہمی ترتیب کے ساتھ علیحدہ علیحدہ سورتیں تھیں لیکن سورتوں کی آگے پیچھے (موجودہ) تر تیب نہ تھی جب ان کو نقل کر کے (موجودہ صورت میں ) ترتیب دیا گیا تو وہ مصحف بن گیا ۔چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن زبیر قریشی سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد الر حمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حارث بن ہشام کو اس منصوبہ کی تکمیل پر مامور فر ما یا اور ساتھ یہ بھی ہدا یت کر دی کہ اگر تمہارے اور زید ہے درمیان رسم اسخط میں اختلاف پیدا ہو جا ئے تو لغت قریش کو اختیار کیا جا ئے اسی اثناء میں ایک مرتبہ لفظ "ا لتابوت"کی تا" کے بارے میں باہم اختلاف پیدا ہوا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لہجہ قریش کے مطا بق تائے مطولہ لکھنے کا حکم دیا ۔

(عربی)

الغرض حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن پاک کے کئی ایک نسخے تحریر کروائے اور انہیں مختلف شہروں میں بھیجنے کا اہتمام کیا اور ایک نسخہ خاص طور پر اپنے لیے بھی مخصوص ر کھ لیا ۔

جسے" الامام "کہا جا تا ہے مگر اب تک جو جدو جہد ہوئی تھی وہ قرآن کی صحت کی ضامن نہ تھی کیونکہ عجم کے اختلاط کی وجہ سے اس میں لحن پیدا ہو گیا تھا اس لیے ضرورت تھی کہ قرآن کو لحن تصحف اور تحریف سے محفوظ کر نے کے لیے مزید اقدامات کیے جا ئیں ،چنانچہ زیاد بن ابیہ نے ابو اسودؤلی کو قرآن پر اعراب لگانے کا حکم دیا ۔۔۔تو انہوں نے انتہائی اہتمام سے اعراب کی تصیح کی۔ ان کے بعد حجاج بن یوسف ثقفی نے قرآن پر نقط لگانے کی خدمت نصر بن عاصم کے سپرد کی جو اپنے وقت کے بہت بڑے سخوی اور قادری تھے مگر اعراب اور نقط میں فرق کرنا مشکل تھا کیونکہ اس وقت اعراب نقطوں کی صورت پر دئیے جا تے تھے ۔اس لیے اعراب کو سرخ سیاہی کے ساتھ ممتاز کیا گیا پھر بعد ازاں خلیل بن احمر اہلیلی نے اعراب اور نقط کو موجود ہ شکل میں ترتیب دیا جس کے بعد سرخ سیاہی کے ذریعہ امتیاز کی ضرورت باقی نہ رہی ۔نیز حفاظت قرآن کا یہ سارا کا م حکومت کے ذریعے انجام پایا ارباب حکومت نے علما ئے وقت کو اس کی دعوت دی تو انہوں نے بخوشی اس کا م کو سر انجام دیا ۔مگر علماء نے صرف اس پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ بعد میں بھی حفاظت قرآن کے کا م کو جاری وساری رکھا ۔کلمات کی تصحیح کے لیے قواعد مرتب کئے فقہی احکامات کا استنباط کیا اور مخارج حروف متعین کئے جن علماء نے استنباط احکام پر زور دیا اور اس کے لیے کا م انہیں فقہاء کے لفظ سے پکار اگیا ۔اور جنہوں نے اعراب کی تصحیح کا اہتمام کیا انہیں سخوی کہا گیا اور جن علماء نے الفاظ کی تصحیح کا ذمہ لیا انہیں قراء کہا گیا ۔

چونکہ باری تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی اور قرآن کو آخری کتاب کے شرف سے نوازا ۔اس لیے حکمت و مصلحت کا تقاضا تھا کہ قرآن کریم تا قیامت محفوظ و مامون رہے انسانی ہاتھ اس میں کسی قسم کی تغییر و تحریف پر جرات نہ کر سکیں ۔اسی بناء پر اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی حفاظت و صیا نت خود اپنے ذمے لے لی ہے ۔ارشاد ہے :

(عربی)

بیشک یہ (کتاب )نصیحت ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

خدا تعا لیٰ کی اعانت اور اس کے فضل و کرم سے اس میں روز قیامت تک زبر ،زیر کا بھی فرق واقع نہیں ہو سکتا :

(عربی)

اس (کتاب ) پر جھوٹ کا دخل نہ آگے سے ہو سکتا ہے نہ پیچھے سے (اور) دانا(اور ) خوبیوں والے (خدا) کی اتاری ہو ئی ہے ۔

مقدمہ تفسیر ابن کثیر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:

(عربی)

یعنی اللہ کی قسم جس کے سوا کو ئی معبودبرحق نہیں میں ہر آیت کے بارے میں بخوبی جا نتا ہوں کہاں نازل ہوئی اور کس بارے میں نازل ہو ئی اگر مجھے معلوم ہو کہ کتاب اللہ مجھ سے بڑا کو ئی جا ننے والا ہے تو میں رخت سفر باندھ کر اس کے پاس جا نے کے لیے تیارہوں ۔امام ابو عبد الر حمٰن السلمی کا بیان ہے:

(عربی)

ہم سے ان لو گو ں نے بیان کیا جو ہمیں قرآن پڑھاتے رہے ہیں مثل عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اور ان جیسے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب قرآن کی دس آیتیں سیکھ لیتے تو ساتھ ہی علم و عمل کی تعلیم بھی حاصل کر لیتے کہتے ہیں کہ :اس طرح ہم نے قرآن اور علم و عمل سب کچھ ایک ساتھ سیکھ لیا۔

پھر اس کتاب مطہر کو صرف کا غذوں کا محتاج نہیں رکھا بلکہ اس کو لو گوں کے دلوں میں استقرار بخشا جو کسی بھی الہامی کتاب کو نصیب نہ ہو سکا ۔

ارشاد باری تعا لیٰ ہے: (عربی)

قرآن مجید کی کل آیات (قطع نظر ازا اختلاف روایات ) 6236

کل الفاظ : 76440 اور کل حروف : 323671 ہیں ۔

جبکہ دوسری طرف علمائے یہود ونصاری اپنی اصلی کتب کی نشاندہی سے بھی عاجز اور بے بس ہیں بلکہ اہل کتاب خود بھی اس بات کے معترف ہیں کہ اصل کتابیں نا پید ہیں ۔مذکورہ بالا بحث میں تین مشہور ومعروف الہامی کتابوں کا مفصل ذکر ہو چکا ہے اب میں چاہوں گا کہ:اختصار کے ساتھ زبور کا کچھ تذکرہ ہو جا ئے کیونکہ قرآن پاک میں زبور کا ذکر صراحت کے ساتھ متعدد مقامات پر موجود ہے ۔ارشاد باری تعا لیٰ ہے ۔

(عربی)

پھر یہ چار معروف آسمانی کتابوں میں سے ایک ہے ۔

زبور:

زبور وہ آسمانی کتاب ہے جو اللہ کے پیغمبر حضرت داؤد ؑپر نازل ہوئی تھی۔

لفظ "زبور"زبُر سے ہے جس کے معنی لکھنے کے ہیں ۔اور(عربی) کے کے وزن پر آتا ہے جو مفعول کے معنی میں ہے یعنی ۔(عربی)"نیز یہ مفرد ہے اس کی جمع (عربی)ہے جسے (عربی) کی جمع رُسُل ہے۔

امام بغویٰ فر ما تے ہیں زبور وہ کتا ب ہے جس کو اللہ تعا لیٰ نے حضرت داؤد ؑ کو تعلیم فرمایا تھا یہ ایک سو پچاس 150سورتوں پر مشتمل ہے جو تمام تر دعاءو تحمید و تمجید اور حق تعا لیٰ کی ثناء میں ہیں ۔ان میں حلال و حرام اور فرا ئض حدودمذکور نہیں ہیں ۔(تفسیر معالم التنزل :ج 3ص196طبع بمبی 1276ھ)

واضح رہے کہ موجودہ زبور کے بھی ایک سو پچاس ہی حصے ہیں جن کو اہل کتاب کی اصطلاح میں ۔(عربی)کہا جا تا ہے مگر یہ وہ اصلی زبور نہیں ہے جو حضرت داؤد ؑ پر نازل ہوئی تھی بلکہ محرمین اہل کتاب نے اس کو بہت بدل ڈالا ہے چنانچہ موجودہ زبور خود اس امر کی زندہ شہادت ہے کہ یہ سب (عربی)حضرت داؤدؑ کے نہیں ہیں کیونکہ ان میں اگر بعض پر حضرت داؤدؑ کا نام مذکور ہے تو بعض پر قورح کا جو نغمہ سراؤں کا استاد تھا اور بعض پر شوشینم کے سروں پر آصف کا اور بعض پر گیتت کا اور بعض پر کسی کا نام نہیں ہے نیز بعض مزبوروں میں ایسے واقعات کا تذکرہ ہے جو حضرت داؤدؑ کے صدیوں بعد پیش آئے ،(لغات القرآن)

امام ابن تیمیہ ؒ اللہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف "الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح "میں رقم طراز ہیں :

(عربی)

یعنی میں نے زبور کے چند نسخے دیکھے ہیں جن میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نا م کے ساتھ نبوت کی تصریح موجود ہے اور زبور کا دوسرانسخہ بھی دیکھا ہے جس میں یہ شیئ موجود نہیں تو ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات حمیدہکا تذکرہ بعض نسخوں میں ہو اور بعض دوسرے نسخے اس سے خالی ہوں ۔