ترجمان القرآن
بعض علماء نے کہا ہے کہ کو ئی چیز ایسی نہیں جس کا قرآن مجید سے اخذا کرناناممکن ہو مگر یہ وہ کر سکتا ہے ۔جسے اللہ نے سمجھ دی یہاں تک کہ بعض اہل علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر (63) برس سورہ منافقین کی اس آیت سے اخذا کی :
﴿وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفسًا إِذا جاءَ أَجَلُها...﴿١١﴾... سورة المنافقون
اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو خدا اس کو ہر گز مہلت نہیں دیتا ۔یہ آیت سورہ63 کی آخری آیت ہے اس کے بعد "تغابن "ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مفقود ہونے پر افسوس ظاہر ہوتا ہے ۔قرآن مجید میں اولین و آخرین کے سب علوم جمع ہیں اور سوائے اللہ تعا لیٰ کے ان علوم کی حقیقت کا احاطہ کو ئی نہیں کر سکتا ۔یارسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی اس علم کو نہیں جا نتے جو اللہ تعا لیٰ کا خاصتہ ہے آپ کے بعد سب سے زیادہ علم قرآن سادات صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین رکھتے تھے جیسے خلفا ء اربعہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ ہم حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا : کہ اونٹ کے پاؤں باندھنے کی اگر ایک رسی بھی گم ہو جا ئے تو میں اسے کتاب اللہ میں پالوں گا ،پھر وہ علم صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے تابعینؒ کی وراثت میں آیا پھر ہمتیں گھٹ گئیں عزمتیں سست پڑ گئیں امنگ جاتی رہی اہل علم کم ہو گئے ان علوم کا بوجھ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین تابعین ؒ نے اٹھا یا تھا وہ نہ اٹھا سکے انہوں نے علم کو کئی قسموں میں تقسیم کردیا ۔ہر گروہ ایک فن کے ساتھ متعلق ہوا کسی نے ضبط لغات ،تحر یر کلمات ،معر فت مخارج حروف شناخت عدد کلمات آیات سور،انصاف وار باع،عدد سجدات تعلیم اشارآیات، حصر کلمات ،متشابہ اور مثماثلہ آیات کی طرف توجہ کی معانی و مطالب سے کو ئی سروکار نہ رکھا اور نہ تدبیر سے کچھ واسطہ ان لوگوں کو قرار کہتے ہیں کسی نے یہ کیا کہ اسماء افعال حروف عاملہ و غیر عاملہ اور معرب و مبنی سے بحث کی اسماء و توابع اسماءمیں خوب دل کھول کر بحث کی۔ اقسام افعال ،لازم و متعدی ،رسوم خط کلمات اور ان کے جملہ متعلقات کو وسعت سے بیان کیا۔ پھر کسی نے ان میں سے مشکل الفاظ پر اعراب لگائے کسی نے ہر ایک کلمے کو معرب کر دکھا یا مفسرین الفاظ کی بحث میں منہمک ہوگئے کو ئی لفظ ایک معنی پر دال ہے کو ئی
لفظ دومعنی پر کو ئی دوسے بھی زیادہ پر پہلے لفظ کو اس کے حکم پر رکھا خضی کے معنی ظاہر کئے محتملات کی ترجیح میں یعنی جس کے دو یا زیادہ معنی تھے ان میں ایک کو راجع دوسرے کو مرجوح بتانے لگے ہر ایک نے اپنی فکر سے کام لیا جدھر نظر گئی اسی کے مطابق کیا اہل اصول وکلام اٹھے تو انہوں نے اولہ عقیلہ ،شواہد ا صیلہ و نظر یہ کے بیان کا ذمہ لیا جیسے آیت :
﴿لَو كانَ فيهِما ءالِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتا...﴿٢٢﴾... سورةالأنبياء
اگر آسمان اور زمین میں خدا کے سوااور معبود ہوتے تو زمین وآسمان درہم برہم ہو جا تے
اس آیت سے اللہ تعا لیٰ کی وحدانیت وجود و بقاء قدم و قدرت اور علم و تنزیہہ پر بہت سے دلائل بر آمد کئے بہت سی حجتیں قائم کیں ۔اس علم کا نام اصول دین ٹھہرا۔ ایک گروہ نے معانی خطاب میں غور کیا کسی کو مقتضائے عموم اور کسی کو مقتضائے خصوص قرار دیا ۔اس سے حقیقت و مجاز لغات کے احکام نکالے ،تخصیص واضمار نص و ظاہر ،محمبل،محکم ومتشابہ ،امرونہی اور نسخ وغیرہ میں گفتگو کی انواع قیاسات استصحاب حال اور استقرار تمثیل کو حل کیا ۔اس فن کا نام اصول فقہ ہوا ایک گروہ نے اپنے نظر صحیح اور فکر صادق سے کالیا ۔حلال و حرام اور تمام دوسرے احکام میں غور کیا ۔احکام کے اصول و فروع بنا ئے قول مفصل ومبسوط لکھا اس کا نام علم فروع اور فقہ ٹھہرا ۔ایک گروہ نے یہ کیا کہ سارے قصص قرون سابقہ اور امم خالیہ کو چھان ڈالا۔اخبار کو نقل ،آثار کو مدون اور وقائع کو ضبط کیا۔دنیا کے آغاز میں اولین اشیاء کا ذکر نکالا ۔یہ فن علم تاریخ و قصص سے موسوم ہوا ۔ کچھ لو گ اٹھے انہوں نے تمام ایسے حکم وامثال اور مواعظ کو جمع کیا ۔جن سے دل دہل جا ئیں اور پہاڑ پھٹ پڑیں ۔وعدو وعید ،تخدید و تبشیر،ذکر موت، معاد حشر و نشر ،حساب و کتاب ،اعقاب و ثواب اور جنت و ناء کو جمع کیا مواعظ کے نصول اور زد اجر کے اصول مقرر کئے ۔یہ لو گ واعظین و خطبا کہلائے ایک اور قوم اٹھی اس نے تعبیر خواب کے اصول اخذا کئے یوسف کے قصے میں ساتھ موٹی گا ئیوں کا ذکرآیاہے ۔دوقیدیوں نے خواب دیکھا تھا ،چاند ،سورج ،ستاروں نے سجدہ کیا تھا انہوں نے اس قسم کی آیات سے اس فن کو اخذا کر کے اس کا نام تعبیر رؤیا"رکھا ہر خواب کی تفسیر قرآن سے بر آمد کی جہاں قرآن سے نہ ملی وہاں سنت سے اخذا کی کیو نکہ سنت کتاب اللہ کی شارح ہے:
پھر اگر سنت سے بھی تعبیر ہاتھ نہ لگی تو حکم وامثال سے اخذا کی پھر عوام کی بول چال عادات وا طوار اور اصطلاحات پر نظر ڈالی ۔اس سے بھی کچھ لے لیا ۔ایک دوسری قوم آئی جس نے آیت میراث سے ورثاء اور ان کے حصوں کا حساب لگایا اس علم کا نام علم فرائض رکھا نصف2/1 ایک 3/1تہائی ایک 4/1چوتھا ئی اور اس طرح حصے مقرر کئے ۔فرائض کا حساب عول کے مسائل درست کئے اور وصیتوں کے احکام مرتب کئے ایک دوسری جماعت کھڑی ہوئی ۔اس نے یہ کا م کیا کہ اللہ تعا لیٰ کی حکمت روشن پر جتنے دلائل تھے ۔مثلاً رات دن ،چاند سورج، منازل قمر،نجوم و بروج ان سب کو جمع کیا اور اس کا نام علم مواقیت" رکھا شعر اء ادباء آئے انہوں نے اپنی ساری توجہ طرف جزالت ،لفظ ابداع ،نظم وحسن ،سیاق ومبادی،مقا طع،مخالص تلوین خطاب اور اطناب وا یجاز کلام پر صرف کردی ۔معانی بیان اور بدیع کا استنباط کیا ارباباشارات و اصحاب حقیقت نے اپنی نظر الگ دوڑائی ۔کتاب اللہ کے جو معانی و قائق ان پر کھلے انہوں نے ان کو اپنا غلام بنا کر فنا ء و بقاء حضور وخوف ہیبت وانس وحشت اور قبض وبسط جیسی اصطلاحات قائم کیں ۔
ف: یہ ان فنون کا بیان ہے جن کو ملت اسلامیہ نے قرآن پاک سے اخذا کیا ہے ان فنون کے علاوہ اور بھی بہت سے علوم ہیں جن پر قرآن عظیم مشتمل ہے ۔جیسے علم طب ،ہئیت ہندسہ ،مناظرہ جبر و مقابلہ اور علم نجوم وغیرہ ۔طب کا دارومدار حفظ نظام صحت اور استحکام قوت پر ہے ۔یہ امور عتدال مزاج سے متضاد کیفیات کے عمل سے حاصل ہو تے ہیں ۔
کتاب اللہ کی ایک آیت ان سب کو جامع ہے ۔جیسے اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا :
﴿وَكانَ بَينَ ذٰلِكَ قَوامًا ﴿٦٧﴾... سورة الفرقان
بلکہ اعتدالکے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم ،
پھر یہ بات جاننی چاہیے کہ بیماری کے بعد بدن میں صحت اور شفا ء کا اعادہ کس چیز سے ہوتا ہے ۔یہ بات اس آیت سے معلوم ہوئی۔
﴿ شَرابٌ مُختَلِفٌ أَلوٰنُهُ فيهِ شِفاءٌ لِلنّاسِ...﴿٦٩﴾... سورة النحل
(جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لو گوں (کے کئی امراض ) کی شفاء ہے
پھر جسمانی طب پر طب قلبی کا اضافہ کردیا ۔فر ما یا :
﴿وَشِفاءٌ لِما فِى الصُّدورِ...﴿٥٧﴾... سورة يونس
(اوردلوں کی بیماریوں کی شفا ہے ۔)
ہئیت کا علم ان آیات میں بیان کیا گیا ہے جس میں ملکوت و سماوات ولارض کا بیان ہے اور مخلوقات کے عالم علوی و سفلی میں پھیلانے کا ذکر ہے۔ہندسہ کا قاعدہ آیت کریمہ :
﴿انطَلِقوا إِلىٰ ظِلٍّ ذى ثَلـٰثِ شُعَبٍ ﴿٣٠﴾ لا ظَليلٍ وَلا يُغنى مِنَ اللَّهَبِ ﴿٣١﴾... سورة المرسلات
(یعنی) اس سائے کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں نہ ٹھنڈی چھاؤں اور نہ لپٹ سے بچاؤ ۔)
اس میں قاعدہ ہندسہ کی وضاحت یہ کہ شکل مثلت کے لیے سایہ نہیں ہوتا علاوہ اس کے مناظرہ کے براہین ودلائل ،مقامات و نتا ئج وغیرہ اشیاء پر کتاب اللہ کی بہت سی آیات مشتمل ہیں اس میں حضرت ابراہیمؑ کا مناظرہ بہت بڑی اور قدیم بنیاد ہے جبر و مقابلہ کی یہ صورت ہے کہ شروع سورتوں میں گزشتہ امتوں کی تاریخ کا ذکر آیاہے ان کے عروج و زوال کے اسباب بیان کئے گئے ہیں ۔اس میں بقائے ملت اسلامیہ اور دنیا کی مدت کتنی گزری اور کتنی موجود ہے،کا ذکر بھی ہے ۔ یہ سارے حالات بعض کو بعض سے ضرب دینے سے معلوم ہوسکتے ہیں علم نجوم اس قول میں ہے:
﴿أَو أَثـٰرَةٍ مِن عِلمٍ...﴿٤﴾... سورة الاحقاف
(یا علم (انبیاؑء میں ) سے کچھ (منقول ) چلا آتا ہو ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کی اسی طرح تفسیر کی ہے بعض نے کہا :اس سے مراد اسناد علم حدیث ہے ۔اس آیت کو اگر دونوں علوم کی دلیل اور بنیاد ٹھہرا لیا جائے ۔تو کو ئی مانع نہیں قرآن مجید سے اتباع سنت اور ردتقلید کاحکم جگہ جگہ سے نکلتا ہے اس آیت سے سلسلہ اسناد کا علم ہونا بھی ثابت ہوا ۔
"ولله الحمد"
ف:قرآن پاکمیں جس طرح جملہ علوم وفنون کے اصول موجود ہیں ۔اسی طرح ضائع اور اسمائے آلات کے اصول بھی جن کی ضرورت ہوتی ہے مذکور ہیں ان ضائع میں سے ایک درزی کا کام ہے دلیل یہ آیت ہے:
﴿وَطَفِقا يَخصِفانِ عَلَيهِما مِن وَرَقِ الجَنَّةِ... ﴿٢٢﴾... سورة الاعراف
(اور وہ بہشت کے درختوں کے )پتے (توڑ کر )اپنے اور چپکانے اور (ستر چھپانے)لگے
اس آیت سے جوتے گانٹھنے کا فن بھی نکلتا ہے عربی میں جوتے گانٹھنے کو "خصف" کہتے ہیں ۔آہن گری یعنی لوہے کا فن اس آیت سے ماخوذ ہے:
﴿ءاتونى زُبَرَ الحَديدِ... ﴿٩٦﴾... سورة الكهف
(تو تم لوہے کے (بڑے بڑے ) تختے لاؤ
﴿والنا له الحديد ﴿١٠﴾... سورة سبا
(اور ہم نے ان کے لیے لو ہے کو نر م کر دیا ۔(سباء:10)
معمار کے کام سے متعلق بھی بہت سی آیتیں ہیں مثلاً:
﴿والسماء بنينها بايد﴾
(اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنا یا ۔(الذریٰت:47)
لکڑی کے کام کا ذکر اس آیت میں ہے :
﴿ان اصنع الفلك﴾
(کہ ہمارے حکم سے کشتی بناؤ "(المو منون :27)
سوت کا تنے نے کا ذکر اس آیت میں ہے ۔﴿نقضت غزلها﴾
(جس نے محنت سے سوت کاتا ۔(النحل :92)
"نسج "یعنی جولا ہے کے فن کا ذکر اس آیت میں ہے۔﴿كمثل العنكبوت اتخذت بيتا﴾ العنكبوت:41
ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک (طرح کا) گھر بناتی ہے )
کھیتی باڑی کا ذکر:﴿افرايتم ما تحرثون﴾
(بھلا دیکھو تو کہ جو کچھ تم بوتے ہو ۔(الوقعہ:63)
اس آیت کے علاوہ اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے شکار کھیلنے کا ذکر بھی کئی آیتوں میں آتا ہے ۔
غوطہ مارنے کاذکر: ﴿﴾ کی آیت میں ہے ۔
(یہ سب عمارتیں بنانے والے اور غوطہ مارنے والے تھے ۔(1)اور اس سے زیور( موتی وغیرہ ) نکالو جسے تم پہننے ہو ۔(النحل14)
سنارے کا کام آیت : (عربی)
(اور قوم موسیٰ ؑ نے موسیٰ ؑ کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنا لیا (وہ) ایک جسم (تھا)جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی ۔(الاعراف :148)
میں موجود ہے۔
شیشہ سازی اور آلات شیشہ کا ذکر آیت: (عربی)
(یہ ایسا محل ہے جس کے (نیچے بھی)شیشے جڑے ہوئے ہیں ۔(النمل: 44)
(اور آیت : (عربی)
(چراغ ایک قندیل میں ہے ۔(النور35) میں موجود ہے۔
خشت سازی کا ذکر آیت :
(عربی)
(اے ہامان میرے لیے گار ے کو آگ لگا کر (انیٹیں پکا )17القصص38)
میں موجود ہے: ملاحی و تیرا کی کا ذکر آیت:
(عربی)
(کہ وہ جو)کشتی تھی غریب لو گو ں کی تھی جو دریا میں محنت کر کے یعنی کشتیاں چلا کر گزارہ )کرتے تھے ۔(الکہف: 79) میں ہے کتابت کا ذکر:
(عربی)
(قلم کے ذریعے سے علم سکھا یا ۔(العلق:4) کے علاوہ اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے ۔روٹی پکانا اور آٹا گوندھنے کا ذکر:
(عربی)
(کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھا ئے ہوئے ہوں ۔(یوسف:36) میں ہے باورچی کے فن کا ذکر آیت :
(عربی)
(کہ ابراہیمؑ )ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے ۔ ہود :69)میں وارد ہوا ہے دھوبی کے فن کا ذکر :
(عربی)
(اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔( المدثر:4) اور
(عربی)
(حواری بولے۔( آل عمران:52) میں ہے یہ حواری دھوبی تھے قصاب کے کا م کا ذکر :
(عربی)
مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے )ذبح کر لو (المائدۃ:3) میں ہے تجارت کا ذکر قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں ہے رنگ ریزی کا ذکر آیت:
(عربی)
(کہ دو کہ ہم نے )خدا کا رنگ (اختیار کر لیا ہے) (البقرۃ:138)
(عربی)
(اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں ۔(فاطر:27) میں ہے سنگ تراشی کا ذکر :
(عربی)
(اور پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے ہو ۔(الاعراف: 74) میں ہے اوزان اور میزان کا کا م بہت سی آیتوں میں ہے فن تیرا اندازی کا ذکر :
(عربی)
(اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم )جس وقت تونے کنکریاں پھینکیں تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکیں تھیں ۔(انفال:17)
(عربی)
(اور جہاں تک ہو سکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے مستعد رہو :( انفال 60) حدیث میں ہے قوۃ کی تفسیر گو تیرا اندازی آئی ہے مگر لفظ عام ہے ،ہر طرح کے فن سپاہ گری کو بھی شامل ہے جیسے کہ غلیلہ مارنا ،بندوق چلانا توپ داغنا اس میں تیرا اندازی بھی بطریق اولیٰ شامل رہے گی ۔اسی طرح اسمائے آلات ضروب ماکو لا ت مشروبا ت منکو حات اور کا ئنا ت کے تمام وقاتع جو قرآن مجید میں مذکور ہیں اس آیت کے معنی کو ثابت کرتے ہیں :
(عربی)
(ہم نے کتاب (یعنی لوح محفوظ ) میں کسی چیز (کے لکھنے ) میں کو تا ہی نہیں کی ۔(الانعام :38)
امام سیوطیؒ نے کہا : مر یسی کا کلام یہاں ختم ہوا ۔ اس کلام میں ذکر کفش دوزی (جوتے بنانے )اور علم اسناد حدیث کا کلام ا مام سیو طیؒ پر بھی بڑھا دیا گیا ہے اسی طرح آیت کریمہ :
(عربی)اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا کر لاتا رہ ۔ (الاسراء64)
سے اقسام لشکر اور ان کے انتظام کا فن ثابت ہوتا ہے اور آیۃ کریمہ :
(عربی)
(اور وہ ( اور چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جن کی تم کو خبر نہیں ۔النمل: 8)
میں سارے جدید ضائع داخل ہیں جو قیامت تک دنیا میں ظہور پذیر ہوں گے غرضیکہ جو شخص قرآن مجید میں جب اور جس قدر غور کرتا ہے تو اتنا ہی اس بات کو جان لیتا ہے کہ اللہ پاک کی کتاب ہر شے پر مشتمل ہے ۔خواہ وہ قطعی نص میں ہوں یا نص میں اس کے اشارات ہوں ۔باقی رہی علوم کے مختلف اقسام کی بات ۔سو کو ئی باب اور مسئلہ کسی علم کا ایسا نہیں جس کی کچھ اصل قرآن شریف میں موجود نہ ہو قرآن مجید میں ہر باتاور ہر مسئلے پر کوئی نہ کو ئی دلیل موجود ہوتی ہے اگر ہم نے اس کو نہیں پایا تو یہ ہمارے علم و فہم کا قصور ہے نہ کہ کتاب اللہ کا فتور۔ (جاری ہے)
تفسیری مباحث کے سلسلے میں (آخری قسط)