جولائی 1989ء

اپنا بھی جائزہ لیجئے

دوسروں پر نکتہ چینی صرف آسان ہی نہیں ۔انسان کا بڑا ہی دلچسپ اور مرغوب مشغلہ بھی ہے خاص کر کمزوروں کی ،الان والحفیظ اگر وہ شے بے زبان بھی ہو تو اس وقت انسان کی نکتہ چینی اور "تنقید کا طوفان خیز عالم تو اور ہی دیدنی ہو تا ہے کیونکہ بے زبان جواب دے سکتا ہے نہ بول سکتا ہے۔اس کے پاس وکیل ہے نہ کو ئی یارائے دلیل ۔پھر نقاد کو کھٹکا کا ہے کا ۔اس لیے اس کی زبان کترنی کی طرح کترتی چلی جا تی ہے ۔مثلاً کہے گا:

دیکھئے تو اس کا تو کان پھٹا ہوا ہے ۔سینگ ٹوٹا ہوا ہے ،یہ لنگڑا کر چلتا ہے واہ یار !تم نے تو حد کر دی اس میں تو جا ن ہی نہیں ہے،بہت ہی کمزور ہے ناک بہتی ہے اون میلی ہے نظرکمزور ہے ایک آنکھ سرے ہی سے بیکار ہے! وغیرہ وغیرہ ۔

اگر کو ئی پوچھے کہ :جناب اس میں اس بے زبان کا کیا قصور ہے !کان پھٹاہے تو کیا اس نے کسی پیر کی نظر مانی تھی کہ اس کے نا م کا چھید کرا لیا ہے یا چیرا دلوا ڈالا ہے ۔سینگ ٹوٹا ہے تو کیا اس نے عالمی باکسر محمد علی کلے کے ساتھ جاکر دنگل رچایاتھا ،لنگڑا ہے تو کیا عالمی کھیلوں میں جا کر اس نے دوڑ لگائی تھی کمزور ہےتو کیا اس نے کنجوسی سے کام لیا تھا پیسہ جمع کرتا رہا اور اپنے جسم و جان پر خرچ نہیں کیا تھا آنکھ بیکار ہو گئی ہے تو کیا اس نے کہیں جا کر آنکھ مچولی کا ارتکاب کیا تھا آخر اس میں اس کا کیا دوش ہے !سارے لوگ آخر ٹٹوں کر اسے کیوں دیکھتے اور چاروں طرف سے اسے کیوں گھورتے ہیں ۔۔۔؟ہوسکتا ہے کہ اس میں بھی خود آپ کی غفلت اور کوتاہی کا کو ئی دخل ہو ۔پھر ساری دنیا ایک چھتر ے کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے۔؟

صحیح جواب تو یہی ہے کہ: یہ چھترے بکرے کے قصور کی بات نہیں ہے ۔بات خدا کے حضور شایان شان نذرانہ پیش کرنے کی ہے ۔بیداغ ذات ہی نذرانہ کرنا چاہیئے لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔کہ:نذرانہ تو واقعی بے داغ چاہیئے نذرانہ دینے والے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟اس کو بھی بے داغ ہو نا چاہیے یا ع ،تن ،ہم داغ داغ۔۔۔۔۔۔؟

آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ: خدا کے ہاں تو ان بکروں چھتروں کا کچھ بھی مذکورہ نہیں ہے،وہاں جتنا کچھ ہے صرف دینے والے کا ہے اس کا ارشاد ہے کہ گوشت پوست کا میں گاہک نہیں میری نگاہ تو قربانی دینے والے کی دل کی دھڑکنوں پر ہی لگی رہتی ہے ۔

﴿لَن يَنالَ اللَّهَ لُحومُها وَلا دِماؤُها وَلـٰكِن يَنالُهُ التَّقوىٰ مِنكُم...﴿٣٧﴾... سورة الحج

اے اہل دل دوستوا کہاں ہو؟ سنتے ہو ؟کیا کبھی سوچا کہ تم اپنا وقت کہاں ضائع کر رہے ہو اس پاک منڈی میں لوتھڑے جیسی پونجی کا تو کو ئی بھی گاہک نہیں ہے نہ اس کی وہاں بولی ہوتی ہے نہ وہاں اس کے لیے کو ئی کمیشن ایجنٹ مقرر ہے !پھر تم وہاں یہ چند کباب جوتے اور ٹوپیوں کے لیے یہ گنتی کے چمڑے کمبل اور سوئیٹر کے لیے اون کے یہ چند تولے کھا داور دوسرے حیوانی مسالہ جات کے لیے ہڈیوں کا یہ پشتارہ کس لیے لے چلے ہو ۔عطارے کیوں کہتے ہوکہ گوبر کا سودا کر لو ۔جوہری سے کس لیے کہتے ہو کہ :ہڈیاں لے لو ۔

جناب !وہاں توصرف آپ کی مانگ ہے اگر آپ نہیں ہیں تو وہاں آپ کا نذرانہ کس کا م کا؟دیکھیے!آپ کی زبان پکڑ کر آپ سے کہلوانے کی کو شش کی جا رہی ہے کہ کہیے !الہٰی میری نماز ہو یا قربانی میرا جینا ہو یا مرنا ۔سب کچھ تیرے لیے ہے۔

﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَ‌بِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢﴾... سورة الانعام

آپ سے مطالبہ صرف قربانی کا نہیں ۔آپ کا بھی ہے کہ وہ زندگی اپنے ہمہ پہلوؤں کے ساتھ اس کے حضور پیش ہو نی چاہیے ۔جو تمہیں ہر چیز سے عزیز تر ہے۔اس لیے جہاں بکرے چھترے اور گائے بھینس کو قربانی پیش کرنے سے پہلے آپ ٹھوک بجا کر دیکھ لیتے ہیں وہاں خود اپنا بھی جا ئزہ لے لیجئےاور بالکل اسی طرح جس طرح آپ قربانی کا لیتے ہیں ۔مثلاً:حدیث میں ہے کہ: جانور لنگڑانہ ہو کا نا نہ ہو بیمار نہ ہو اور بے کا ر لاغر نہ ہو :اور سینگ ٹوٹا ہو نہ کان داغدار ہو۔

«نسئل ماذا يتقى من الصحايا فاشاربيده فقال اربعا العوجاء البين ظلعها والعوراء البين عورها والمريضة البين مرضها والعجفاء التى لا تنقى(ابوداؤد وغيره عن البراء بن عازب»

«نهىٰ رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نضحى باعضب القرن والاذن، رواه ابن ماجه»

«امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نستشرف العين والاذن وان الانضحى بمقابلة ولامدابرة ولا شرقاء ولا خرقاء»(ترمذى)

اس کے مقابلے میں آپ سے بھی یہ مطالبہ کیا جا سکتا ہے ۔کہ آپ بھی لنگڑے، لولے ،کانے ،بیمار،لاغر،ٹوٹے ہوئے سینگ اور کان کٹے نہ ہوں ۔

لنگڑاپن۔

اس کے یہ معنی ہوں گے کہ: آپ صراط مستقیم سے پھسلنے نہ پائیں ،ایسا نہ ہو کہ آدھا تیترآدھا بیٹر، بلکہ آپ کی اسلامی زندگی میں نفس وشیطان کا بالکل ساجھانہ ہو ،رفتار بے ڈھبی نہ ہو ،راہ حق کے راہی کج رفتار نہ ہوں ۔

﴿ادخُلوا فِى السِّلمِ كافَّةً...﴿٢٠٨﴾... سورة البقرة

کانا ہونا۔

آپ کا کانا ہونا یہ ہو گا کہ آپ کی آنکھوں میں حیانہ رہے کہ خدا کی شرم رہے نہ بندگان خدا کی کج بینی کا مرض لاحق ہو جا ئے یا حق سے آنکھیں بند کر کے کو ئی دل کے اندھے پن کا روگی ہو جا ئے اور کبھی ادھر دیکھے اور کبھی ادھر حالانکہ اسے حکم ہے کہ یکسوہوکر صرف اسے دیکھے صرف اس کی راہ دیکھے صرف اس کی مرضی اور منشاء دیکھے کیونکہ محبوب رب الٰعلمین کا یہی اسوہ حسنہ ہے۔﴿ما زاغَ البَصَرُ‌ وَما طَغىٰ﴿١٧﴾... سورة النجم

بیماری۔

قربانی دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ روحانی مدقوق نہ ہو کتاب و سنت کی پاکیزہ تعلیمات سے اسے وحشت نہ ہو تی ہو۔ایسا نہ ہو کہ اسوہ حسنہ کے تصور سے اس کے دل کی دنیا پر اوس پڑجاتی ہو ۔دنیا کی ہر بد بلا سے دل باغ باغ ہو جا تا ہو مگر حق کا نام سنتے ہی ٹی بی ہو جا تی ہو۔

﴿رَ‌أَيتَ الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَ‌ضٌ يَنظُر‌ونَ إِلَيكَ نَظَرَ‌ المَغشِىِّ عَلَيهِ مِنَ المَوتِ...﴿٢٠﴾... سورة محمد

ترجمہ ۔جن کے دلوں میں روگ ہے آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کی طرف ایسے (خوف زدہ)دیکھ رہے ہیں ۔جیسے کسی پر موت کی بے ہوشی طاری ہو۔

لاغرنہ ہو۔

اس کے معنی ہوں گے کہ بکرا چھترا دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ:راہ حق پر چلنے سے اس کا سانس نہ پھولے :قرآن و حدیث کی بات آجا ئے تو ذہنی کو فت سے اس کے دل پر انقباض طاری نہ ہو ۔اسلامی سفر حیات میں تھکنے کا نام نہ لے ،چند قدم چل کر دم "نہ لینے لگ جا ئے بلکہ دم بہ دم تازہ دم رہے اور جواں ہمت نکلے کیونکہ جن کو خدا کی معیت کا احساس ہوتا ہے وہ ایسا ہی کرتے ہیں ۔

﴿وَمَن عِندَهُ لا يَستَكبِرونَ عَن عِبادَتِهِ وَلا يَستَحسِرونَ ﴿١٩﴾ يُسَبِّحونَ الَّيلَ وَالنَّهارَ لا يَفتُرونَ ﴿٢٠﴾... سورة الأنبياء

ٹوٹے ہو ئے سینگ۔

آپ کے سینگوں کا ٹوٹا ہوا ہونا یہ ہے کہ دین حق کے سلسلے کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہیں آپ کا وہ دماغ ہی نہ رہے جو دین کو سمجھنے کا احساس کر سکے اور سوچنے میں وہ دم خم نہ رہے کہ: صحیح اور غلط میں امتیاز بھی کر سکیں ۔۔۔آپ اور تو سبھی کچھ اپنے سر لے لیں اگر حوصلہ نہ پڑے تو صرف اسلامی طرز حیات اور ذمہ داریوں کا نہ پڑے ۔اگر فرامین الہٰیہ کی تعمیل کا مرحلہ درپیش ہو تو مرنے ہی لگ جا ئیں ۔

﴿ كَأَنَّما يُساقونَ إِلَى المَوتِ وَهُم يَنظُر‌ونَ ﴿٦﴾... سورة الانفال

گویا ان کو (زبردستی ) موت کی طرف دھکیلا جا تا ہے اور وہ (موت کو آنکھوں )دیکھ رہے ہیں ۔

داغدار کا ن ۔

داغدار کان کے معنی ہو گے کہ آپ کا ن کے ایسے کچے اور خام نہ ہوں کہ: کسی کی چکنی چپڑی باتیں سن کر قرآن اور رسول سے آپ کا دل ہی اکھڑنے لگ جا ئے ۔سوشلسٹ کے پاس دودن بیٹھے تو ان کے ہو لیے ۔عجمی دانشوروں کے دوبول سنے تو قرآن و حدیث ہی پھیکے نظر آنے لگے بد قسمتی سے بے خدا حکمرانوں کے حضورشرف بار یابی نصیب ہو گئی تو خدا کا دربار ہی بھول جا ئے ۔اور باطل کے بول سننے کے لیے ایسے رسیا ہو جا ئیں کہ کلام اللہ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سن کر ان کے دل بھنچنےلگ جائیں ۔

﴿وَإِذا ذُكِرَ‌ اللَّهُ وَحدَهُ اشمَأَزَّت قُلوبُ الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِالءاخِرَ‌ةِ وَإِذا ذُكِرَ‌ الَّذينَ مِن دونِهِ إِذا هُم يَستَبشِر‌ونَ ﴿٤٥﴾... سورة الزمر

اور جب اکیلے خدا کا ذکر کیا جا تا ہے تو جو لوگ آخرت کا یقین نہیں رکھتے ۔ان کے دل بھنچنے لگتے ہیں ۔اور جب خدا کے سوا (دوسروں )کا ذکر کیا جا تا ہے تو بس یہ لو گ خوش ہو جا تے ہیں ۔

حدیث میں آتا ہے کہ:

حضور نے جو دنبے قربانی دیے تھے وہ سینگ دار ابلق اور خصی تھے۔

«ذبح النبى صلى الله عليه وسلم يوم الذبح كبتين اقرنين املحين موجوئين»(ابوداؤد وترمذى وغيره)

اس کے مقابلے میں آپ سے یہ توقع کی جا سکے گی کہ:

دین کے معاملے میں آپ کمزور نہ ہوں جنا رکھتے ہوں اور ہمت اور وسائل کے باوجود خلاف شریعت کا م کرنے کی آپ کے دل میں تحریک پیدا نہ ہو ۔

دین کے معا ملے میں خدا کا یہی مطالبہ رہا ہے ۔حضرت موسیٰ ؑسے کہا کہ اپنی قوم سے کہہ دیجیے !کہ پوری ہمت سے کتاب الہٰی کا دامن تھا م کر چلو!

﴿خُذوا ما ءاتَينـٰكُم بِقُوَّةٍ...﴿٦٣﴾... سورة البقرة

(یہ جو ہم نے تمہیں دی ہے اسے ہمت سے پکڑے رہو۔

دسویں ذی الحجہ کے دن قربانی کے گلے پر چھری پھیر کر خون بہانا ،خدا کے ہاں سب سے محبوب بات ہے۔

«ما عمل ابن ادم عمل يوم النحراحب الى الله من اهراق الدم»(ترمذى)

خون بکرے چھترے کا بہے اور حسن عمل کا آپ کا شمار ہو آخر اس میں کیا تک ہے ؟سوچ سوچ کر اگر اس کا کو ئی جواب بن پڑتا ہے تو یہی کہ الہٰی !یہ مال کی قربانی ہے تیری راہ میں جان کی بھی ضرورت پڑی تواسی طرح اپنے خون کا بھی ہدیہ پیش کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم قر با نی پر چھری چلاتے تو اسے قبلہ روکرکے۔ ﴿إِنّى وَجَّهتُ وَجهِىَ لِلَّذى فَطَرَ‌ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ...﴿٧٩﴾... سورةالانعام

الہٰی میں نے اپنا رخ تیری طرف کر لیا سب طرف سے منہ موڑ کر تیرا ہی ہو کر رہ گیا میرا جینا مرنا سب تیرے لیے ہے یہی آپ کو ثابت کرنا ہے۔

وگر نہ حقیقتہً آپ اللہ کے حضور یکسو نہیں ہیں ۔نفس و طاغوت سے منہ موڑ کر بالکلیہ اللہ کے نہیں ہو سکے ۔آپ کا مرنا اور جینا اللہ کےلیے نہیں رہا اس کے بعد خود غور فرمائیں کہ :اس قربانی کا انجا م کیا ہو گا ؟

اور خدا کے ہاں اس جھوٹ کی سزا آپ کو کیا ملے گی؟

قربانی دراصل "ماسوء اللہ کے ہر شائیہ سے بے تعلقی کا اعلان کرنا ہے یہاں تک کہ یہ قربانی جو خدا کے حضور پیش کی جا رہی ہے اس کے بارے میں بھی یہ اعلان کرنا پڑ جا تا ہے کہ الہٰی ! یہ بھی تیری عطا ہے اور تیری عطا ہی تیرے حضور پیش کررہا ہوں ۔قبول فرما۔

«اللهم منك والك»(ابوداؤد وغيره)

بہر حال جن امور کی تلاش ایک بے زبان غیر مکلف اور بے خبر جا نور میں کی جا سکتی ہے بعینہ ان کی تلاش ان میں کیوں نہ کی جا ئے ۔جوزبان بھی رکھتے ہیں مکلف اور جواب دہ بھی ہیں اور باہوش اور باخبر بھی؟

اگر آپ دنیا کو اپنی زندگی کے مختلف شئون اور احوال و ظروف میں ان اقدار کے چراغ جلاکر نہیں دکھا ئیں گے تو کہنے والے یہ کہہ سکیں گے بلکہ کہہ رہے ہیں اور بحالات موجود ہ ان کو یہ کہنے کا حق بھی ہے کہ:

جانوروں کی اتنی بڑی کھیپ کا یہ بہت بڑا ضیاع ہے اور محض کا م و دہن کا چسکاپورا کرنے کے لیے مگر فی سبیل اللہ کے تصور کا فریبدے کر ۔ان کا کہنا ہے کہ :حج کے دن ایک بے بس اور بے زبان مخلوق پر اتنا بڑا اجتماعی ظلم پہلے آسمان نے کبھی نہیں دیکھا گو ان بے دانش دانشوروں کی یہ باتیں بھی فریب نفس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں تا ہم اگر ہم صرف جانوروں کا خون بہانا ہی ٹھہرا ہے جس کے خون سے خون بہانے والے کی اپنی زندگی رنگین نہیں ہوسکی تو اسے بے زبان جا نوروں کے ضیاع سے کو ئی تعبیر کرے تو ان کی اس پھبتی کا کو ئی کیا جواب دے ؟ بلکہ اگر کو ئی یہ اندیشہ بھی پیش کردے تو اس کا جھٹلانا آسان نہیں رہے گا کہ:

جن لو گو ں نے اپنی زندگی میں تقویٰ پیدا کر کے اسے رنگین بنا ئے بغیر محض جانوروں کے گلے پر چھری پھیری ہے ہوسکتا ہے کہ قیامت میں یہ قربانیاں ان پر کیس کردیں کہ انھوں نے ناحق ہمارا خون کیا تھا۔

بہر حال یہ قربانیاں "حنیفیت کی راہ کے سنگ میل ہیں جو اس سفر میں قربانی پیش کرنے والے کے انگ انگ میں نمایاں ہونی چاہیے !اگر بندہ حنیف میں "حنیفیت کروٹ نہ لے وقت کے جبایرہ آپ کے نعرہ مستانہ کے سامنے بے بس نہیں ہو گئے ،نفس و طاغوت کے صنم خانے مسمار نہیں ہو سکے وقت کے آذروں نے اگر بت تراشی کا پھل نہیں پالیا حق و باطل کی اس رزمگاہ میں نما ردہ اور فراعنہ کی بھڑ کا ئی ہو ئی آگ گلزار نہیں ہو سکی تو پھر سوچ لیجئے!کہ آپ کیا ہیں اور آپ کی قربانیاں کیسی ہیں ؟قربانیاں بہر حال آپ کو دعوت مطالعہ دیتی ہیں ۔