حرمت رضاعت پانچ بار دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے !

(جامعہ عربیہ،بنوری ٹاؤن کے ایک فتویٰ کا علمی وتحقیقی جائزہ)


چند دن قبل راقم الحروف نے ایک سائل کے جواب میں ایک فتویٰ جاری کیاتھا،جس میں واضح کیا تھا کہ ایک مرتبہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔سائل نے اپنے سوال میں پوچھا تھا کہ اس کےبیٹے نے اپنی پھوپھی کا ایک مرتبہ دودھ پیا ہے۔کیا ایک مر تبہ  دودھ پینے سے حرمت ر ضاعت ثابت ہوجائےگی؟اس کے جواب میں،میں نے صحیح وصریح احادیث کے ذریعے واضح کیا  تھا کہ بچہ جب تک پانچ مرتبہ کسی خاتون کا دودھ نہ پی لے تواس وقت تک حرمت ثابت نہیں ہوسکتی۔
لیکن اس فتویٰ پر جامعہ عربیہ ،بنوری ٹاؤن کے مفتی عبدالستار نے تعاقب کرتے ہوئے لکھا:
"واضح رہے کہ ایک مرتبہ دودھ پینے سے بھی حرمت  رضاعت ثابت ہوجاتی ہے ،اس پر قرآن پاک اور کثیر صحیح احادیث شریفہ سے قوی دلائل موجود ہیں۔جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور جمہور اُمت کابھی یہی مسلک ہے"(ص2)
اس مسئلہ پر مفتی صاحب نے قرآن پاک اور احادیث صحیحہ سے جو قوی دلائل بیان کئے ہیں ،ان کا ذکر ہم بارہ صفحات  کے بعد کررہے ہیں جس کے ساتھ ساتھ نکتہ بہ نکتہ ان کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔احادیث صحیحہ سے یہ مسئلہ واضح ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پینے سے ہی حرمت ر ضاعت ثابت ہوتی ہے۔اور پانچ مرتبہ سے کم دودھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔چنانچہ اس سلسلہ کے چند دلائل پیش خدمت ہیں:
 "عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت كان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرمن ثم نسخن بخمس معلومات فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو فيما يقرأ من القرآن "(صحیح مسلم،جلد اول :ص 469 عربی/موطا امام مالک)
"عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بیان کرتی ہیں کہ پہلے قرآن کریم میں دس مرتبہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت کا حکم نازل ہوا تھا۔پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور پانچ بار دودھ پینے سے حرمت  رضاعت کا  حکم نازل ہوگیا اور جس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی تو یہ حکم قرآن حکیم میں تلاوت کیاجارہا تھا "
یہ حدیث اپنے د عویٰ  پر بالکل صریح ہے اور اس واضح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک کوئی بچہ پانچ بار کسی خاتون کا دودھ نہیں پی لے گا تو اس وقت تک حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔اس حدیث سے یہ بھی واضح ہواکہ شروع میں دس  رضعات سے حرمت ثابت ہوا کرتی تھی پھر یہ آیت اور اس کا حکم دونوں منسوخ ہوگئے اور  پھر قرآن کریم  میں پانچ رضعات کاحکم نازل ہوا اور اس آیت کی تلاوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات تک ہوتی رہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات سے پہلے اس آیت کی تلاوت منسوخ ہوگئی،البتہ اس کا حکم باقی رہ گیا۔اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ حکم قرآن کریم کی آیت میں موجودتھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اس کی تلاوت کرتے رہے۔مفتی صاحب اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:
"دامانوی صاحب نے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   صدیقہ کی روایت نقل کی حالانکہ یہ حکم باتفاق جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور جمہور علماء امت منسوخ ہے۔اوراس نسخ کی دلیل یہ ہے کہ قرآن پاک میں کہیں بھی پانچ مرتبہ دودھ پلانے کا ذکر نہیں ہے۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ الفاظ بھی بعد میں منسوخ ہوگئے تھے۔اور ممکن ہے کہ ان الفاظ کا منسوخ ہونا بالکل آخر زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں ہوا ہو۔اس لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو پتہ نہ چلا ہو۔ورنہ اگر یہ الفاظ منسوخ نہ ہوتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ان الفاظ کو مصحف عثمانی میں شامل کرانے کی کوشش نہ کرتیں۔ورنہ رافضیوں شیعوں کا یہ دعویٰ صحیح ہوگا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے قرآن پاک میں  تحریف کردی۔امام نووی رحمۃ  اللہ علیہ  نے مسلم شریف کی شرح میں اس حدیث کایہی جواب دیاہے۔
(ج ص468) اور منسوخ شدہ الفاظ سے استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے۔(ص 4۔5)
مفتی صاحب نے اس حدیث کے منسوخ  ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔لیکن یہ ان کا دعویٰ ہے کہ جس کی کوئی دلیل انہوں نے ذکر نہیں کی۔مفتی صاحب نے لکھا ہے:
"ممکن ہے کہ ان الفاظ کا منسوخ ہونا بالکل آخر زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں ہوا ہو"
یہ مفتی صاحب کا نرااحتمال ہے۔اور صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے ان کے احتمال کو ماننا مشکل ہے۔اصول فقہ کامشہور قاعدہ ہے کہ:
"اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال "
جب احتمال آگیا تو استدلال باطل ہوگیا"جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا فتویٰ اور عمل بھی اسی حدیث کے مطابق تھا۔حافظ ابن عبدالبر رحمۃ  اللہ علیہ  نے امام شافعی رحمۃ  اللہ علیہ  کا قول نقل کیا ہے:
" وهو مذهبها ، وبه كانت تفتي ، وتعمل"
یہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا موقف تھا اور اسی کے مطابق آ پ فتویٰ دیاکرتیں)(فتح المالک بتوبویب التمھید ابن عبدالبر علی موطا الامام مالک:7/411)
منسوخ کا حکم لگانے میں علماء کی احتیاط:۔
بقول مفتی صاحب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا       کو اس حدیث کے منسوخ ہونے کا پتہ تو پوری زندگی نہ چل سکا۔معلوم نہیں مفتی صاحب کو کیسے معلوم ہوگیا کہ یہ حدیث منسوخ ہوچکی ہے۔مفتی محمد یوسف لدھیانوی منکرین حدیث کا رد کرتے ہوئے اور آیت رجم کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اول یہ کہ کسی حکم شرعی کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہو،نسخ کا دعویٰ کرنا بہت ہی سنگین با ہے۔اور اس کے لیے نقل صحیح کی ضرورت ہے،محض قیاس وگمان سے نسخ کادعویٰ کرنا جائز نہیں۔"حافظ سیوطی الاتقان (2۔24) میں لکھتے ہیں:
قال ابن الحصار : إنما يرجع في النسخ إلى نقل صريح عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ، أو عن صحابي يقول : آية كذا نسخت كذاقال : وقد يحكم به عند وجود التعارض المقطوع به من علم التاريخ ، ليعرف المتقدم والمتأخر
قال : ولا يعتمد في النسخ قول عوام المفسرين ، بل ولا اجتهاد المجتهدين من غير نقل صحيح ، ولا معارضة بينة ; لأن النسخ يتضمن رفع حكم وإثبات حكم تقرر في عهده صلى الله عليه وسلم والمعتمد فيه النقل والتاريخ دون الرأي والاجتهاد . 
"ابن حصار  کہتے ہیں کہ نسخ کے باب میں صرف نقل صریح کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے یا کسی صحابی سے منقول ہے کہ فلاں آیت نے  فلاں حکم منسوخ کردیا،اور نسخ کا حکم اس وقت بھی کیا جاسکتا ہے جب کہ دو نصوں میں قطعی تعارض ہو،اور ساتھ ہی  تاریخ بھی معلوم ہوتا کہ مقدم اور متاخر کو معلوم کیاجاسکے اور نسخ کے باب میں عام مفسرین کے قول پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔بلکہ بغیر نقل صحیح اور واضح تعارض کے بغیر مجتہدین کے اجتہاد پر بھی اس باب میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ نسخ کا مطلب ایک ایسے حکم کے اُٹھانا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد میں ثابت تھا اور اس کی جگہ  پر دوسرے حکم کو رکھنا  ہے۔اس بارے میں لائق اعتماد نقل صریح یا قطعی تاریخ ہی ہوسکتی ہے نہ کہ محض رائے اور اجتہاد" آگے لکھتے ہیں:
"سوم:نسخ کی یہ صورت کہ کسی آیت کے الفاظ منسوخ ہوجائیں اور حکم باقی رہے ۔اگر چہ بعض معتزلہ نے اس کا انکار کیا ہے۔لیکن باتفاق اہل حق یہ صحیح ہے اور اس میں کوئی عقلی یا شرعی مانع نہیں،کیونکہ بہت سے احکام ایسے  ہیں جن کو نظم قرآن میں شامل نہیں کیاگیا،لیکن بذریعہ وحی آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم  نے تشریح فرمائی،پس جس طرح یہ جائز ہے کہ ایک حکم ابتداء وحی متلو کی حیثیت  رکھتا ہو لیکن بعد میں اس کی تلاوت اُٹھالی جائے اور حکم باقی رہے۔ان دونوں ہاتھوں میں کوئی بیماری فرق نہیں۔اس لیے جس طرح پہلی صورت جائزہے اور اس پر کوئی عقلی استحالہ لازم نہیں آتا۔اسی طرح یہ بھی جائز ہے"(ماہنامہ بینات،کراچی:جلد39 ،شمارہ 1۔2 جون جولائی 1981ء)
مفتی صاحب نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ اگر اس روایت کو مان لیا جائے توشیعہ اور روافض کا قرآن کریم کے بارے میں یہ دعویٰ صحیح ہوجائےگا کہ قرآن کریم میں تحریف ہوچکی ہے اگر مفتی صاحب کے اس خدشہ کو صحیح مان لیا جائے تو پھر وہ اس طرح کی دوسری روایات کے متعلق کیا طرز عمل اختیار کریں گے؟ اس سلسلہ کی ایک مثال پیش خدمت ہے،چنانچہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک خاص موقع پر ارشاد فرمایا:۔
"إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ ، فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةُ الرَّجْمِ ، فَقَرَأْنَاهَا ، وَعَقَلْنَاهَا ، وَوَعَيْنَاهَا ، رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ : وَاللَّهِ مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ ، وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أُحْصِنَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ ، إِذَا قَامَتْ الْبَيِّنَةُ ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ ، أَوْ الِاعْتِرَافُ  ثُمَّ إِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ فِيمَا نَقْرَأُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ : " أَنْ لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ ، فَإِنَّهُ كُفْرٌ بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ ، أَوْ إِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ " 
"بے شک اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو برحق مبعوث فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر کتاب نازل فرمائی اور اسی کتاب میں اللہ تعالیٰ نے آیت رجم بھی نازل فرمائی۔ہم نے اس آیت کو پڑھا اور اس کا مطلب سمجھا اور اس کویاد رکھا۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے(اس آیت کے مطابق) رجم کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات) کے بعد رجم کیا۔اب میں ڈرتا ہوں ،کہیں ایک مدت  گزر جائے اور کوئی کہنے والا یوں کہے کہ اللہ کی قسم رجم کی آیت تو ہم اللہ کی کتاب میں نہیں پاتے۔اور اللہ کا ایک  فرض جس کو اس نے اُتارا،ترک کرکے گمراہ ہوجائے۔اور رجم اللہ کی کتاب میں حق ہے۔جب شادی شدہ مرد اور عورتیں زنا کریں جب ان پر گواہ قائم ہوجائیں یا حمل موجود ہو یا زنا کا اعتراف کیا جائے (تو انہیں رجم کیا جائے گا) پھر ہم کتاب اللہ میں یہ آیت بھی پڑھتے رہے ہیں۔"تم اپنے باپوں سے نسب منقطع نہ کرو کہ یہ کفر کی بات ہے"(صحیح بخاری)
مفتی محمد یوسف لدھیانوی صاحب آیت رجم نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"یہ بھی من جملہ ان آیات کے ہے جو قرآن کریم میں نازل ہوئی تھی،بعد میں منسوخ ہوگئیں مگر ممانعت کا حکم بھی اب باقی ہے"(ماہنامہ  بینات ص102 ایضاً)
"فتوفى رسولالله صلى الله عليه وسلم وهى فيما يقرأ من القرأن  "کا مفہوم
حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی روایت میں یہ الفاظ کہ"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوگئی اور ان آیات کو قرآن کریم میں تلاوت کیا جارہا تھا"ان الفاظ کا صحیح مفہوم ہم نے امام نووی رحمۃ  اللہ علیہ  سےاگلے صفحہ پر نقل کردیا  ہے۔یہ روایت مالک بن عبدالله بن ابی بکر عن عمرة عن عائشة اور یحییٰ بن سعید عن عمرۃ عن عائشة کی سندوں سے دوحدیثیں ذکر کی ہیں اور وہ احادیث یہ ہیں:
"حدثنا محمد بن خزيمة ثنا حجاج بن منهال ثنا حماد بن سلمة عن عبد الرحمان بن القاسم عن القاسم بن عن عمرة ، أن عائشة رضي الله عنها قالت : كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ سَقَطَ : أَنْ لَا يُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعِ إِلَّا عَشْرُ رَضَعَاتٍ، ثُمَّ نَزَلَ بَعْدُ : أَوْ خَمْسُ رَضَعَاتٍ"
 (مشکل الآثار :ج3۔ص6 طبع دار الحکومت العلمیہ ،بیروت)
"قرآن کریم میں پہلے دس بار دودھ پینے سے حرم رضاعت کا حکم نازل ہوتا تھا پھر یہ حکم ساقط کردیاگیا(یعنی منسوخ ہوگیا) پھر یہی خمس رضعات کا  حکم نازل ہوا"
"حدثنا روح ابن الفرج ثنا يحيي بن عبدالله بن ابي بكر حدثني الليث بن سعد عن يحيي بن سعيد عن عمره أن عائشة رضي الله عنها قالت ( كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ سَقَطَ : أَنْ لَا يُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعِ إِلَّا عَشْرُ رَضَعَاتٍ، ثُمَّ نَزَلَ بَعْدُ : أَوْ خَمْسُ رَضَعَاتٍ"
(مشکل الآثار:ج3 /ص6)
"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بیان کرتی ہیں کہ قرآن ہی میں دس بار دودھ پینے سے حرمت  رضاعت کا حکم نازل ہوا پھر خمس  رضعات کاحکم نازل ہوا"
یحییٰ بن سعید عن عمرۃ عن عائشہ والی روایت صحیح مسلم میں بھی ہے اور امام مسلم نے بھی اس حدیث کے بعد ہی اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ اور اس حدیث سےاوپر والی حدیث کو تقویت بھی پہنچائی ہے اور اس حدیث کے ذریعے اس کا مفہوم بھی واضح کردیا ہے۔امام طحاوی رحمۃ  اللہ علیہ  کا خیال ہے کہ اس حدیث میں یہ الفاظ عبداللہ بن ابی بکر کا وہم ہے اور دوسری  روایات اس کی وضاحت کرتی ہیں۔کیونکہ ان دوراویوں کی روایت میں یہ الفاظ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی جس وقت و فات ہوئی تو یہ حکم قرآن حکیم میں تلاوت کیا جارہا تھا"موجود نہیں ہیں۔خمس رضعات کا  حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بالکل آخری دور میں نازل ہوا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی حکم کے مطابق سہلہ بنت سہیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو حکم دیا تھا:
"أَرْضِعِيهِ خَمْسَ رَضَعَاتٍ"
یعنی"سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو پانچ بار دودھ پلاؤ"(موطا امام مالک) البتہ ان آیات کی تلاوت کا حکم تو منسوخ ہوگیاتھا لیکن ان کا شرعی حکم باقی رہا جیسا کہ اس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔
کیا امام نووی رحمۃ  اللہ علیہ  نے بھی اس حدیث کی یہی تاویل کی ہے؟
مفتی صاحب کے خدشہ کے مطابق آیت رجم اور مندرجہ بالا آیت کی وجہ سے بھی رافضیوں کی اپنا دعویٰ درست کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں؟مفتی صاحب نے پانچ رضعات والی حدیث کی جو تاویل بلکہ  تحریف کی ہے،اس کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ امام نووی رحمۃ  اللہ علیہ  نے اس حدیث کی یہی تاویل کی ہے۔چنانچہ مفتی صاحب کی صداقت کو جانچنے کے لیے ہم امام نووی رحمۃ  اللہ علیہ  کی عبارت نقل کی ہے۔امام نووی رحمۃ  اللہ علیہ   فرماتے ہیں:
وقولها : ( فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهن فيما يقرأ ) هو بضم الياء من ( يقرأ ) ومعناه أن النسخ بخمس رضعات تأخر إنزاله جدا حتى إنه صلى الله عليه وسلم توفي وبعض الناس يقرأ : خمس رضعات ويجعلها قرآنا متلوا لكونه لم يبلغه النسخ لقرب عهده فلما بلغهم النسخ بعد ذلك رجعوا عن ذلك وأجمعوا على أن هذا لا يتلى   ص: 25 ] والنسخ ثلاثة أنواع : أحدها : ما نسخ حكمه وتلاوته كعشر رضعات ، والثاني : ما نسخت تلاوته دون حكمه كخمس رضعات والشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما ، والثالث : ما نسخ حكمه وبقيت تلاوته وهذا هو الأكثر ، ومنه قوله تعالى وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم الآية ، والله أعلم . (شرح نووی:ج1۔ص468)
"اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا قول ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   وفات  پاگئے اور یہ آیات قر آن کریم میں تلاوت کی جارہی تھیں اور یقراء یا کے پیش کے ساتھ ہے(یعنی یقراء صیغہ مجہول ہے) اوران آیات کو کون پڑھتے تھے،اس کے معنی یہ ہیں کہ خمس رضعات کا نسخ بہت ہی دیر میں ہوا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  و فات  پاگئے اور بعض لوگ خمس رضعات کی آیات پڑھتے رہے اور انہیں قرآن متلو سمجھتے رہے۔اس لیے کہ انہیں ان کی تلاوت کے نسخ کے متعلق ز مانے کے قریب ہونے کی بنا پر حکم نہیں پہنچا تھا۔ پھر جب انہیں ان کا نسخ معلوم ہوا تو انہوں نے ان سے رجوع کرلیا۔(یعنی ان کو تلاوت کرناچھوڑ دیا) اور اس پر اجماع ہوگیا کہ ان کی تلاوت نہیں کی جائے گی۔
اور نسخ کی تین قسمیں ہیں: پہلا وہ کہ جس کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوجائیں جیسا کہ عشر  رضعات(دس بار دودھ پینے کا حکم) اور دوسرا وہ کہ جس کی صرف تلاوت منسوخ ہوجائے لیکن اس کا حکم باقی ہو جیسا کہ خمس رضعات(پانچ بار دودھ پلانے کا  حکم) اور(دوسری آیت) جب شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت زنا کریں تو ان دونوں کو سنگسار کردو اور تیسری قسم وہ ہے کہ جس کا حکم منسوخ ہوگیا لیکن اس کی تلاوت باقی رہ گئی اور اس طرح کی آیات بہت سی ہیں جن میں سے یہ آیت بھی ہے:"تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور اپنے  پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں  تو وہ اپنی بیویوں کے لیے وصیت کرجائیں"الایۃ واللہ اعلم
امام نووی رحمۃ  اللہ علیہ  آگے لکھتے ہیں:
منها ان بعضهم ادعي انها منسوخة وهذا باطل لايثبت بمجرد الدعوي
ومنها أن بعضهم زعم أنه موقوف على عائشة ، وهذا خطأ فاحش بل قد ذكره مسلم وغيره من طرق صحاح مرفوعا من رواية عائشة ومن رواية أم الفضل ، ومنها أن بعضهم زعم أنه مضطرب وهذا غلط ظاهر وجسارة على رد السنن بمجرد الهوى ، وتوهين صحيحها لنصرة المذاهب . وقد جاء في اشتراط العدد أحاديث كثيرة مشهورة والصواب اشتراطه ، قال القاضي [ ص: 26 ] عياض : وقد شذ بعض الناس فقال : لا يثبت الرضاع إلا بعشر رضعات وهذا باطل مردود ، والله أعلم . (شرح مسلم)
"اور بعض لوگوں نے اس حدیث کے متعلق دعویٰ کیا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور یہ قول باطل ہے کیونکہ مجرد دعویٰ سے  تو کوئی بات ثابت نہیں ہوتی،اور بعض نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   پر موقوف ہے اور یہ قول صریح غلطی ہے بلکہ امام مسلم وغیرہ نے اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے صحیح سند کے ساتھ مرفوعاً روایت کیا ہے اور اسی طرح ام الفضل سے بھی۔اور بعض نے کہا ہے کہ یہ حدیث مضطرب ہے اور یہ قول کھلی غلطی اور نفسانی خواہشات کی بناء پر سنتوں   کو رد کرنے کی جسارت ہے اور اپنے مذاہب کی نصرت کی خاطر احادیث صحیحہ کی توہین ہے اور(رضاعت کی) تعداد کے بارےمیں احادیث کثیرہ موجود ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ(رضاعت کی )  تعداد(خمس رضعات) ثابت ہے ،قاضی عیاض کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کو یہ شاذ قول بھی ہے کہ دس  رضعات کے بغیر رضاعت ثابت نہیں ہوتی لیکن دس  رضعات والا قول باطل ومردود ہے"واللہ اعلم
اپنے موقف کو  ثابت کرنے کے لیے احادیث میں  تحریف کس نے کی؟
اس وضاحت سے معلوم ہوگیا کہ مفتی صاحب نے یہاں پر علمی خیانت کا ارتکاب کیاہے اور مغالطہ،دھوکا دہی دینے کی کوشش کی ہے۔اسی پر بس نہیں بلکہ"اُلٹا چور کو توال کو ڈانٹے"والی مثال پر عمل کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"جناب دامانوی صاحب نے دھوکادہی اور حق کو چھپانے میں یہود اور عیسائیوں کو بھی مات دے دی کہ صحیح مسلم شریف میں سے صرف چار احادیث اپنے مطلب کو  پورا کرنے کے لیے ذکرکردیں۔جبکہ ان سے  پہلے امام مسلم  رحمۃ  اللہ علیہ  نے جو تقریباً بائیس صحیح احادیث بیان کی ہیں جن میں مطلق رضاعت کو سبب حرمت بیان کیا گیاہے،تھوڑے یا زیادہ کی کوئی قید نہیں ہے اور جو جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  وجمہور امت کے دلائل ہیں،ان کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرگئے۔عموماًیہ حضرات اپنے مزعومہ مسائل میں  بخاری بخاری کی  رٹ لگاتے ہیں تو کیا ان کو اس بارے میں بخاری کی صحیح  روایات نظرنہیں آئیں۔جبکہ صحیح بخاری میں مسئلہ صراحتہ موجودہے لیکن یہ روایات چونکہ ان کے مطلب کے خلاف تھیں ا س لیے بخاری کی  روایات کو چھوڑتے ہوئے مسلم شریف کو  اپنی ڈھال بنانے کی کوشش کی۔نہ معلوم یہاں پر بخاری سے کیا خطا سرزد ہوئی کہ اس کو  پش پشت ڈال دیا اور اپنے مقرر کردہ اصول کہ اول کتاب اللہ،اس کے بعدبخاری کو کیوں ترک کردیا؟"(ص:4)۔۔۔"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے خبر دی تھی کہ تم لوگ بھی اگلی امتوں یعنی یہود ونصاریٰ کے نقش قدم پر چلنے لگو گے"(بخاری ومسلم)
یہود ونصاریٰ نےکتاب اللہ میں جگہ جگہ تحریف کردی تھی اور اپنی نفسانی خواہشات کو اس میں داخل کردیاتھا۔مفتی صاحب  ہمیں الزام دے رہے تھے کہ ہم نے دھوکادہی اورحق کو چھپانے میں یہود ونصاریٰ کا کردار ادا کیا لیکن مفتی صاحب کی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث کی تشریح ووضاحت اور امام نووی رحمۃ  اللہ علیہ  کی وضاحت کو سامنے رکھنے سے ہر انصاف  پسند فیصلہ کردے گا کہ اس معاملہ میں یہود ونصاریٰ کاطریقہ کار کس نے اپنایا ہے۔معلوم نہیں حدیث کی روشنی میں مسائل کوحل کرنے والے اہل حدیث ان اہل رائے وقیاس کو کیوں اتنا کھٹکتے ہیں کہ یہ حدیث کا نام دیکھ کر ہی مشتعل ہوجاتے ہیں۔
مفتی صاحب کے سامنے ہم یہاں چند ایک ایسی مثالیں بیان کرتے ہیں کہ جنھیں  پڑھ کر وہ خود ہی فیصلہ  فرمائیں کہ قرآن وحدیث میں تحریف کرنا کس کا وطیرہ  رہاہے اور کون یہود ونصاریٰ کی راہ پر گامزن ہے؟(اصل موضوع کو جاری رکھنے کے لیے 4صفحات کے بعد سے پڑھیں)
1۔شیخ الہند مولوی محمود الحسن دیو بندی مسئلہ مسئلہ تقلید کو   ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم میں ایک آیت کا اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ،ارشاد ہوا:
( فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ وَالي أُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ)
اور ظاہر ہے کہ اولی الامر سے مراد آیت میں سوائے انبیاء علیہ السلام   اور کوئی ہیں ،سودیکھئے اس آیت سےصاف ظاہر ہے کہ حضر ات انبیاء علیہ السلام   وجملہ اولی الامر واجب الاتباع ہیں ۔آپ نے آیت فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تو دیکھ لی اور آ پ کو اب تک معلوم نہ ہواکہ جس قرآن مجید  میں یہ آیت ہے،اسی قرآن میں آیت مذکورہ معروضہ احقر بھی موجود ہے(الایضاح الادلہ،ص8۔7)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کا  حکم دیا ہے اور اس کے بعد امیر کی اطاعت کا بھی حکم دیا لیکن اگر کسی مسئلہ میں نزاع واختلاف واقع ہوجائے ،وہ نزاع چاہے دوسرے لوگوں سے ہو یا خود امیر سے ہوجائے ایسی صورت میں حکم ہے کہ اس اختلافی بات کو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث پر پیش کرکے اس مسئلہ کا حل معلوم کیاجائے۔امیر کی بات بھی اگراللہ تعالیٰ اور اسکے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کے خلاف ہو تو اس کے معاملہ میں اس کی بات ردکر دیا جائے گی۔کیونکہ امیر کی اطاعت کوئی الگ اورمستقل اطاعت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کے ماتحت ہے۔جب امیر کی بات قرآن وحدیث کے مطابق ہوگی تو اس کی اطاعت لازم ہوگی اور جب اس کا حکم قرآن وحدیث سے متصادم ہوگاتو اسے  رد کردیاجائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ:
"لا طاعة في معصية إنما الطاعة في المعروف " (بخاری ومسلم)
"اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ،اطاعت جو کچھ ہے معروف میں ہی ہے"
اسی طرح کی اور بھی بہت سی احادیث اس سلسلہ    میں موجود ہیں۔شیخ الہند صاحب نے اولی الامر کی  اطاعت کو الگ اور مستقل اورواجب اطاعت ثابت کرنے کے لیے قرآن وحدیث سے کوئی دلیل نہ پاکر اپنی طرف سے قرآن کریم میں ایک آیت کا اضافہ کردیا اور اس آیت سے انہوں نے تقلید کے جواز کےلیے دلیل فراہم کردی۔موصوف کی خود ساختہ آیت یہ ہے:
( فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ وَالي أُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ)
(پس اگر تمہارے درمیان کسی مسئلہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اوراولی الامر کی طرف لوٹا دو) اس من گھڑت آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اوررسول  صلی اللہ علیہ وسلم  مستقل مطاع ہیں،اسی طرح اولی الامر بھی مستقل مطاع ہیں،جبکہ قرآن کریم کی اصل آیت یہ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا(النساء 59)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اطاعت کرو اللہ کی اوراطاعت کرورسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔پھر ا گر  تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف  پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو،یہی ایک صحیح طریق کار ہےاور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے"
دین اسلام کااولین ماخذ قرآن کریم ہے اور اس کے ساتھ حدیث رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے ۔قرآن وحدیث حجۃ شرعیہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک ابدی قانون کا اعلان  فرمادیا ہے کہ اختلاف کی صورت میں صرف اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بات حجت ودلیل ہے۔شیخ الہند صاحب نے اس ابدی  اور رائل قانون کومنسوخ کرنے کے لیے ایک آیت اپنی طرف سے گھڑ کرپیش کردی اور انہوں نے پورے جزم اوروثوق کے ساتھ کہا:
"اور آپ کو اب تک معلوم نہ ہوا کہ جس قرآن مجید میں یہ آیت ہے،اسی قرآن میں آیت مذکورہ بالا معروضہ احقر بھی موجود ہے"(الایضاح الادلہ)
بعد والوں نے اگرچہ شیخ الہند کے اس دعویٰ کو ان کی افسوسناک غلطی قرار دیا ۔مولوی سعید احمد پالن پوری صاحب ایک ضروری تنبیہ کاعنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
"ایضاح الادلہ،پہلی مرتبہ 1299ھ میں میرٹھ میں طبع ہوئی تھی،جس کے صفحات 396 ہیں۔
دوسری مرتبہ 1330ھ میں مولانا سید ا صغر حسین صاحب کی تصیح کے ساتھ مطبع قاسمی ،دیوبند سے شائع ہوئی جس کے صفحات 400 ہیں۔(حال ہی میں فاروقی کتب خانہ ملتان سے اس نسخہ کاعکس شائع ہواہے) کتب خانہ فخریہ،امروہی دروازہ ،مراد آباد سے بھی یہ کتاب شائع ہوئی جس پر سن  طباعت درج نہیں لیکن اندازہ یہ ہے کہ یہ ایڈیشن دیوبندی ایڈیشن کے بعدکاہے۔اس کے 412 صفحات ہیں ان سب ایڈیشنوں میں ایک آیت کریمہ کی طباعت میں افسوسناک غلطی ہوئی ہے"(ادلہ کاملہ ص18 ایضاح الادلہ ص 7،8)
شیخ الہند صاحب کی وفات 1921ء/1339ھ میں ہوئی(ادلہ کاملہ:ص12) جس کا مطلب یہ ہوا یہ کتاب شیخ الہند صاحب کے سامنے تین مرتبہ طبع ہوئی،لیکن نہ تو انہیں اور نہ ہی ان کے کسی مقلد کو اس غلطی کا احساس ہوا،اس کی وجہ آخر کیا ہوسکتی ہے؟اصل بات یہ ہے کہ تقلید ان کے رگ وریشہ میں اس قدر  رچ بس گئی تھی کہ انہیں قرآن کریم میں بھی تقلید ہی  تقلید دکھائی د ینے لگی۔جیسا کہ بریلوی حضرات اپنا ہر شرک قرآن کریم کی آیات سے ثابت کرنے کے درپے ہیں،ایسا ہی تقلید کے ان پرستاروں کو بھی قرآن کریم میں تقلید دکھائی د ینے لگی،حالانکہ قرآن کریم تو تقلید کی نفی کرتا ہے مگر افسوس"خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں"
2۔شیخ الہند صاحب نے قرآن کریم کے علاوہ حدیث پر بھی عنایت فرمائی ہےچنانچہ لکھتے ہیں:
"الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي في هذه المسألة. ونحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة"
 (تقریر ترمذی:ص 39 ،طبع فاروقی کتب خانہ ملتان)
"حق اور انصاف کی بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں  ترجیح امام شافعی رحمۃ  اللہ علیہ ( کے موقف) کوحاصل ہے،لیکن چونکہ ہم مقلدین ہیں،لہذا ہم پر ہمارے امام ابوحنیفہ رحمۃ  اللہ علیہ  کی تقلید واجب ہے"
3۔تقلید کولازم قرار دینے کے لیے ایسے خود ساختہ اُصول وضع کئے گئے کہ جن کی راہ میں اگر قرآن وحدیث بھی آجائیں تو انہیں منسوخ  قرار دے دیا جائے گا لیکن تقلید امام الاعظم ابو حنیفہ رحمۃ  اللہ علیہ  بہرحال واجب رہے گی۔۔۔چنانچہ ابوالحسن عبیداللہ الکرخی لکھتے ہیں:
"إن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ أو على الترجيح والأولى أن تحمل على التأويل من جهة التوفيق" 
 (اصول کرخی ،اصول:28)
"ہر وہ آیت جو ہمارے فقہاء کے قول کے خلاف ہوگی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے یا ترجیح پر محمول کیا جائے گا اور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاویل کرکے اسے(فقہاء کے قول کے) موافق کو لیا جائے"
اسی طرح احادیث کے متعلق بھی قانون بنایا گیا:
أن كل خبر يجيء بخلاف قول أصحابنا فإنه يحمل على النسخ أو على أنه معارض بمثله ثم صار إلى دليل آخر أو ترجيح فيه بما يحتج به أصحابنا من وجوه الترجيح أو يحمل على التوفيق 
 (اصول کرخی ،اصول :29)
"بے شک ہر اس حدیث کو جو ہمارے اصحاب(یعنی  فقہاء حنفیہ) کے خلاف ہوگی،منسوخ سمجھا جائے گا یا یہ سمجھا جائےگا کہ یہ حدیث کسی دوسری حدیث کے خلاف ہے۔پھر کسی اور دلیل کا تصور کیا جائے گا۔پھر بعض وجوہ کی بنا پر اس حدیث کو  ترجیح دی جائے گی جو حدیث ہمارے اصحاب کی دلیل ہے یا پھر یہ تصور کیا جائے گا کہ موافقت کی کوئی اور صورت ہوگی(جو ہمیں نہیں معلوم)"
امام بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
"قال وكيع بن الجراح: "من طلب الحديث كما جاء فهو صاحب سنة، ومن طلب الحديث ليقوّي هواه فهو صاحب بدعة"[25]. قال البخاري: "يعني أن الإنسان ينبغي أن يلغي رأيه لحديث النبي صلى الله عليه وسلم حيث ثبت الحديث، ولا يعلل بعلل لا تصح ليقوّي هواه"  وقد ذكر النبي صلي الله عليه وسلم لا يُؤمن أحدكم حتى يكون هواه تبعا لما جئت به "
 (جز رفع الیدین مع جلاء العینین ص 12۔121)
"امام وکیع  رحمۃ  اللہ علیہ   فرماتے ہیں کہ جو شخص حدیث کا مفہوم ایسا ہی لے جیسا کہ وہ ہے تو وہ اہل سنت ہے او جوشخص اپنی خواہش نفسانی کی تقویت کے لیے حدیث کو طلب کرے(اور ا پنی رائے کے مطابق اس حدیث کا مفہوم بیا ن کرے) تو وہ بدعتی ہے یعنی انسان کے لیے مناسب یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث کے مقابلے میں ا پنی رائے کو اس وقت بے معنی تصور کرے جب حدیث ثابت ہوجائے اور یہ بات صحیح نہیں کہ نا درست وجوہات سے حدیث میں سقم   پیدا کرکے اپنے قیاس کو تقویت دے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے منقول ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوگا جب تک کہ وہ اپنی  رائے اور قیاس کو اس (دین) کے ماتحت نہ کرے جیسے میں لے کر آیا ہوں"
علماء دیو بند کا جو طریقہ واردات رہا ہے کہ انہوں نے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو بھی معاف نہیں کیا۔
ابو داود کی حدیث میں انہوں نےعشرین لیلۃ(بیس راتوں) کوعشرین رکعۃ(بیس  رکعات) میں بدل دیا۔۔۔مصنف ابن ابی شیبہ جو کراچی میں طبع ہوئی،وائل بن حجر کی حدیث میں  تحت السرۃ (ناف کے نیچے) کا اضافہ کردیاگیا۔۔۔مسند حمیدی میں جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی رفع الیدین والی مشہور حدیث میں جو سفیان بن عینیہ عن الزہری عن سالم بن عبداللہ،عن عبداللہ بن عمر کی سند سے صحیح مسلم،ابو داود ترمذی،نسائی،ابن ماجہ اور دیگر کتب اور مسند حمیدی میں بھی موجود ہے ،اس روایت میں فلا یرفع(پس وہ نہ اٹھاتے تھے) کا اضافہ کرکے اسے ترک رفع الیدین کی دلیل بنانے کی کوشش کی گئی،اور اسی روایت میں صحیح ابوعوانہ میں سے واو،گرا کر اس روایت کو بھی ترک رفع الیدین کی دلیل بنایا گیاہے۔سلف میں سے کسی محدث اور عالم نے ان روایات کو پیش نہیں کیا کیونکہ اس وقت تک ان روایات میں یہ  تحریف نہ ہوئی تھی۔ان روایات کے دستاویزی ثبوت ہم ا پنے دوسرے مضمون"نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ"میں پیش کریں گے۔نیز مولوی شبلی نعمانی اور ماسٹر امین اکاڑوی صفدر نے بھی قرآن کریم کی آیات میں تحریف کی ہے لیکن طوالت کی خاطر اس بحث کو فی الحال موخر کیاجاتا ہے اور ہم دوبارہ اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔
مفتی صاحب کو شکایت ہے کہ ہم نے صحیح مسلم میں سے صرف چار احادیث ذکر کی ہیں اور صحیح مسلم میں جو بائیس احادیث ہیں جن میں مطلق  رضاعت کو سبب حرمت قرار دیا گیا ہے ان کا ذکر نہیں کیا۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ مفتی صاحب نے ان بائیس احادیث میں سے کوئی ایک حدیث بھی صحیح مسلم کے حوالے سے بیا ن نہیں کی۔اب مفتی صاحب ہی بتلائیں کہ ان کے اس طرز عمل کی وجہ سے ان پر کون سافتویٰ لگا یا جائے؟جن احادیث میں حرمت کا سبب  رضاعت کوقرار دیا گیا ہے ،ان میں کوئی حد بندی بیان نہیں کی گئی اور یہ اُصول ہے کہ جس طرح قرآن کریم کی بعض آیات بعض آیات کی توضیح ووضاحت کرتی ہیں اسی طرح احادیث بھی د وسری احادیث کی توضیح کرتی ہیں۔
اگر کسی حدیث میں ایک بات کا ذکر کیا اصل سبب کا ذکر نہ کیا گیا ہوتو اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے؟اور محدثین کا یہ قاعدہ اور اُصول ہے کہ وہ تمام احادیث کو ذکر کرکے ان تمام احادیث کے مجموعہ سے کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں ،ایسا نہیں ہے کہ ا پنے مطلب کی ایک حدیث تو لے لی جائے اور باقی احادیث سے آنکھیں بند کرلی جائیں اور یا  پھر انہیں حنفی مسلک کے خلاف سمجھ کر رد کردیا جائے۔ایسا تو وہی انسان کرسکتا ہے کہ جس کے دل سے اللہ کا خوف ختم ہوچکا ہو اور جو صرف اپنے مسلک کو بچانے کی خاطر قرآن وحدیث کو  بھی  رد کردیتا ہو۔ایسے تعصب سے اللہ کی پناہ!!

مفتی صاحب کے دلائل کا نکتہ بہ نکتہ جائزہ


مفتی صاحب کی پہلی دلیل :۔
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
"وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ" (النساء :23)
"اور تم پر تمھاری وہ مائیں حرام ہیں جنہوں نے تمھیں دودھ پلا یا اورتمھاری رضاعی بہنیں "
اس آیت شریفہ میں مطلق رضاعت کو سبب حرمت قراردیا گیا ہے قلیل و کثیر کی کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے(ص2)
جائزہ:۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک عام قانون بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ جن ماؤں نے تمھیں دودھ پلایا ہے اور جو تمھاری رضاعی بہنیں ہیں وہ بھی تم پر حرام ہیں ۔اس آیت میں نہ تو دودھ کی مقدار کا کو ئی ذکر ہے اور نہ اس کی کوئی تحدید بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح آیت میں یہ بھی نہیں بیان کیا گیا کہ کس عمر تک دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوگی۔یعنی مدت رضاعت کا بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔یہ آیت چونکہ عام ہے اس لیے اس کی وضاحت کے لیے قرآن کریم کی دوسری آیات یا پھر احادیث کی طرف رجوع کیا جائے گا مدت رضاعت کا ذکر تو قرآن کریم میں دوسرے مقام پر موجود ہے البتہ یہ مسئلہ کہ کتنی مرتبہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوگی؟اس سلسلہ میں احادیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔
(1)حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ پہلے قرآن کریم میں دس مرتبہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت کا حکم نازل ہوا تھا پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور پانچ بار دودھ پینے سے  حرمت رضاعت کا حکم نازل ہو گیا اور جس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی تو یہ حکم قرآن کریم میں تلاوت کیا جارہا تھا۔
(صحیح مسلم: 469/1موطا امام مالک)
یہ حدیث اس مسئلہ میں نص کی حیثیت رکھتی ہے اور اس حدیث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ یہ حکم قرآن کریم میں تلاوت کیا جا رہا ہے البتہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات سے قبل اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی البتہ اس کا حکم باقی رہ گیا۔ جیسا کہ رجم کے متعلق بھی آیت رجم پہلے قرآن میں نازل ہوئی تھی لیکن پھر اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی البتہ اس کا حکم باقی رہ گیا۔گویا قرآن کریم کی اس آیت کی وضاحت قرآن کریم کی دوسری آیت کر رہی ہے کہ جس کی تلاوت تو منسوخ ہو چکی ہے البتہ اس کا حکم باقی ہے۔ جیسا کہ گزشتہ اوراق میں تفصیل سے بیان ہوا۔ مفتی صاحب کا یہ کہنا کہ"اس آیت میں مطلق رضاعت ہی کو سبب حرمت قراردیا گیا ہے "تو اس کی کو ئی دلیل انھوں نے ذکر نہیں کی بلکہ یہ صرف ان کی رائے ہے اور احادیث صحیحہ کے ہوتے ہوئے ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
حنفی عالم علامہ سید امیر علی ملیح آبادی رحمۃ  اللہ علیہ  اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
"اب یہ بیان ہو نا چاہئے کہ رضاعت کب اور کیوں کر ثابت ہوتی ہے تو مفسر نے کہا کہ
" قبل استكمال الحولين خمس رضعات كما بينه الحديث "
یعنی دودھ پلایا تم کو پانچ رضعات دو برس پورے ہونے سے پہلے جیسا کہ حدیث نے اس اجمال رضاعت کو جو آیت میں مذکورہے۔بیان کردیا ہے یعنی آیت میں تو مطلقاً رضاعت مذکور ہے یہ بیان نہیں کہ کس سن میں پلایا ہو اور کم سے کم کس قدر پلایا ہو تو مفسرنے اپنے مذہب کے موافق بیان کیا کہ دودھ پلانے والی اس وقت بچہ کی رضاعی ماں ہو جاتی ہے کہ بچہ کو دو برس کا سن پورے ہونے سے پہلے پلایا ہواور کم سے کم پانچ رضعات ہوں"(مواہب الرحمٰن پ 4ص203)
شیخ ابو بکر جابر جزائری مدرس مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی مختصر اور بے نظیرتفسیر میں اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں :
"ضمن رضاه من امره خمس رضعات وهو في سن الحولين تحرم عليه ويحرم عليه امهاتها وبناتها"
 (ایسرالتفاسیر لکلا م العلی الکبیر 456/1)
"پس جس شخص نے کسی عورت کا پانچ مرتبہ دودھ پی لیا اور وہ دو سال کے دوران ہو تو وہ خاتون اس پر حرام ہو جا ئے گی اور حرام ہو جا ئے گی۔اس پر اس خاتون کی ماں اس کی بیٹیاں ۔۔۔الخ"
المغنی میں ہے:
"مسألة قال أبو القاسم رحمه الله والرضاع الذي لا يشك في تحريمه أن يكون خمس رضعات فصاعدا"
یعنی" ابو القاسم فر ماتے ہیں کہ مسئلہ رضاعت کہ جس کی حرمت میں کو ئی شک نہیں وہ پانچ رضعات اور اس سے زیادہ ہے یعنی پانچ بار اور اس سے زیادہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے"آگے لکھتے ہیں۔
المسألة : الأولى أن الذي يتعلق به التحريم خمس رضعات فصاعدا هذا الصحيح في المذهب وروى هذا عن عائشة , وابن مسعود وابن الزبير وعطاء , وطاوس وهو قول الشافعي
(المغنی ج9ص193)
"حرمت رضاعت پانچ بار اور اس سے زیادہ بار دودھ پینے سے ثابت ہو تی ہے اور یہ صحیح مذہب ہے اور یہ بات روایت کی گئی ہے عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابن زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عطاء  رضی اللہ تعالیٰ عنہ طاوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور یہی قول امام شافعی رحمۃ  اللہ علیہ  کا بھی ہے"(المغنی  ج 9ص193)
(2)خمس رضعات  کی دوسری دلیل سہلہ بنت سہیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث ہے انھوں نے سالم مولیٰ ابو حذیفہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو اپنی اولاد کی طرح پالا تھا اور جب پردہ کی آیات نازل ہوئیں تو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سالم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا آزادنہ اپنے گھر داخل ہو نا ناگوار گزرا ۔چنانچہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا  نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ عرض کیا تو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا تم سالم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو پانچ مرتبہ دودھ پلادو تو وہ تم پر حرام ہو جا ئے گا یعنی (تمھارا رضاعی بیٹا بن جائےگا )سہلہ بنت سہیل  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے عرض کیا کہ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم !"سالم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تو داڑھی والا آدمی ہے۔میں اسے کس طرح دودھ پلاؤں ؟"تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  مسکرائے اور فرمایا کہ مجھے معلوم ہے وہ داڑھی والا ہے تم اسے دودھ پلادو، چنانچہ سہلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو دودھ پلا دیا ۔جس کی وجہ سے حذیفہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے چہرے سے ناراضگی کے آثار ختم ہو گئے۔(ملخص من صحیح مسلم ،موطاامام مالک ابو داؤد ۔229/2مسند احمد 601/6مستدرک 226/3مصنف عبد الرزاق برقم 1334طبرانی کبیر 69/7)
اس حدیث سے کئی مسائل کا علم ہوا۔
1۔اس حدیث سے واضح ہوا کہ پانچ بار دودھ پینے ہی سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے اور پانچ بارے سے کم میں حرمت ثابت نہیں ہو تی۔
اسلام میں حیا کا بہت بڑا مقام ہے اور حیا کو شرط الایمان (آدھا ایمان قراردیا گیا ہے اگر پانچ بار سے کم میں رضاعت کا مسئلہ حل ہو سکتا تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس خاتون سے فرما دیتے کہ اسے ایک ہی باردودھ پلا دے حرمت رضاعت ثابت ہو جا ئے گی لیکن نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اس کے باوجود اس خاتون کو تاکید کرنا جبکہ اس خاتون نے واضح بھی کیا کہ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  وہ جوان اور داڑھی والا آدمی ہے میں کیونکر اسے دودھ پلا سکتی ہوں؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس خاتون کی اس بات پر ہنس بھی پڑے لیکن خمس رضعات میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کو ئی کمی نہ فرمائی ۔یہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ اگر اس سلسلہ میں کچھ ذرہ برابر بھی گنجائش ہوتی تو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ضرور اس خاتون کو یہ گنجائش عطا فرمادیتے لیکن نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  خمس رضعات کے سلسلے میں اسے کوئی گنجائش عطاء نہیں فر مائی۔
3۔اس حدیث سے یہ بھی واضح ہو تا ہے کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سالم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دودھ پلانے کا حکم دیا۔ اگر پستان سے دودھ نکال کر پلایا جا نا درست ہو تا اور اس نکالے ہوئے دودھ سے حرمت رضاعت ثابت ہو سکتی تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس خاتون کو اس کا حکم دیتے لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا سہلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو دودھ پلانے کا حکم دینا بالکل واضح کرتا ہے کہ بچہ پستان ہی سے دودھ پئے گا ورنہ حرمت ثابت نہ ہو گی۔۔کیونکہ جب جوان مرد کے لیے اس کی رخصت نہیں تو چھوٹے بچے کے لیے کس طرح رخصت ثابت ہو جا ئے گی؟ 
4۔اس حدیث کی وجہ سے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   رضاعت  کبیر کی قائل تھیں اور جس شخص کو بھی وہ اپنا رشتہ دار بنانا چاہتیں اسے کسی رشتہ دار خاتون کا دودھ پلادیتیں۔ چنا نچہ سالم بن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے لیے انھوں نے اُم کلثوم  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو حکم دیا کہ وہ اسے دودھ پلا دے سالم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ اُم کلثوم نے مجھے تین دفعہ دودھ پلا یا اور پھر اُم کلثوم بیمار ہو گئیں اور مجھے بقیہ دودھ نہ پلا سکیں تو میں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پاس داخل نہ ہو سکا (موطا امام مالک )
دوسری ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے رضاعت کبیر کے بارے میں اختلاف کیا اور کہا کہ یہ حکم سالم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے لیے خاص تھا۔چنانچہ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے رضاعت کبیر کے متعلق تو اختلاف کیا لیکن انھوں نے خمس رضعات کے متعلق کوئی اختلاف نہیں کیا جس سے واضح ہو تا ہے کہ خمس رضعات کا مسئلہ ان کے درمیان اتفاقی تھا۔
مفتی صاحب اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں ۔
"اور اگر غیر مقلدین اس حدیث کو منسوخ نہیں مانتے تو کیا اب بھی یہ حضرات کسی جوان کو۔۔۔بیوی کا پانچ مرتبہ پیٹ بھر کر دودھ پلا کر رضاعی بیٹا بنانا پسند کریں گے؟ (ص5)
مفتی صاحب کا یہ اعتراض اور تمسخرنبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات پر وارد ہو تا ہے کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہی نے سہلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو اس بات کا حکم دیا تھا ۔اب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  پر اعتراض کرنے والے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا تمسخر کرنے والے کے متعلق مفتیان دیوبند کیا فتوی دیں گے؟یہ ان کی ذمہ داری ہے اور کیا ایسا شخص مسند فتویٰ پر اجمان ہونے کے بھی لائق ہے؟نبی کرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فر ما ن ہے۔
"اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے دلوں سے نکال دے بلکہ علم کو اس طرح اٹھائے گا۔ کہ علماء کو اٹھالے گا ۔ چنانچہ جب کوئی عالم مفتی باقی نہیں رہے گا۔ تو لوگ جاہل (مفتیوں) کو اپنا بڑا بنالیں گے اور وہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے ۔ خود بھی گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (بخاری و مسلم)
(5)عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
لا تحرم المصة والمصتان .(صحیح مسلم : ج1ص469)
"ایک مرتبہ دودھ چوسنے سے یا دومرتبہ دودھ چوسنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔اُم الفضل  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا:
"لا تحرم الرضعة ولا الرضعتان أو المصة والمصتان" 
 (صحیح مسلم ،ج1ص469)
"ایک مرتبہ دودھ پینے سے یادوبار دودھ پینے سے یا ایک مرتبہ دودھ چوسنے سے یادوبار دودھ چوسنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی"
اس حدیث میں بالکل واضح ہے کہ ایک مرتبہ یا دو مرتبہ دودھ پینے یا ایک بار یا دو بار دودھ چوسنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ایک مرتبہ یا دو مرتبہ دودھ پینے کا مطلب بعض علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر تین مرتبہ دودھ پی لیا جا ئے تو حرمت رضاعت ثابت ہو جا ئے گی۔ لیکن اس حدیث کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ تیسری بار دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جا ئے گی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اور سہلہ بنت سہیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کی روایات میں بالکل واضح ہے کہ پانچ مرتبہ سے کم دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہو گی۔ اس کی مثال بالکل اس طرح ہے کہ جیسے ایک حدیث میں ہے۔
"لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ , وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِنَ الإِبِلِ صَدَقَةٌ , وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ صَدَقَةٌ "
"کھجوروں میں پانچ وسق (بیس من) سے کم میں زکوۃ نہیں ہے اور چاندی میں پانچ اوقیہ (ساڑھے باون تولہ) سے کم میں زکوۃ نہیں اور اونٹوں میں پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ نہیں"
اس حدیث کے مطابق اگر کوئی کہے کہ ایک یا دووسق کھجوروں میں زکوۃ نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ تین وسق کھجوروں میں زکوۃ ہو گی کیونکہ زکوۃ کی مقدار پانچ وسق کھجوروں میں مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح حدیث میں جو آیا ہے کہ ایک مرتبہ یا دو مرتبہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پینے ہی سے حرمت رضاعت ثابت ہو گی جیسا کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اور سہلہ بنت سہیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی روایات میں خمس رضاعت کی تحدید موجود ہے اسی طرح پانچ اوقیہ چاندی اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ فرض قرارنہیں دی گئی بلکہ پانچ اوقیہ چاندی اور پانچ اونٹوں اور ان سے زیادہ تعداد پر زکوۃ فرض ہو گی۔ دراصل ایک موضوع پر آنے والی تمام آیات اور احادیث کو سامنے رکھ کر ہی کوئی شرعی مسئلہ بتا یا جا سکتا ہے ایسا نہیں ہو نا چا ہئے کہ ایک یادوالفاظ کو لے کر باقی احادیث کو ترک کردیا جائے۔
رضعۃ کا مطلب ہے ایک مرتبہ دودھ پینا جیسے ضربۃ کا مطلب ہے ایک مرتبہ مارنا اور جلسۃ کا مطلب ہے ایک مرتبہ بیٹھنا اور اکللۃکا مطلب ہے ایک مرتبہ کھانا کھانا اور مصۃکا مطلب ہے ایک بار دودھ چوسنا ۔اسی طرح الاملا جۃ کا مطلب بھی ایک مرتبہ دودھ چوسنے کے ہیں ۔بچہ بھوک کے وقت ماں کے پستان کو منہ میں لے کر دودھ پینا شروع کردے اور بھوک کے ختم ہونے تک دودھ پیتا رہے درمیان میں سانس لینے کے لیے اگر بچہ پستان کو چھوڑ کر دوبارہ دودھ پینے لگے تو یہ سارا عمل رضعۃ کہلائے گا یعنی ایک بار دودھ پینا البتہ المصۃ اور الا ملاجۃ میں بچہ بالکل تھوڑی دیرکے لیے پستان منہ میں لے کر دودھ چوس کر اسےچھوڑ دیتا ہے (ملخصاًفتح المالک بتویب التمہید لابن عبدالبرعلی موطا لامام مالک : ج7ص411نیل الاوطار : ج6ص310تفسیر احسن البیان ص760)
اُم الفضل  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بیان کرتی ہیں کہ ایک دیہاتی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  میرے گھرپر تھے اس نے عرض کیا۔اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  میری ایک بیوی تھی اور میں نے ایک دوسری خاتون سے نکاح کیا ہے پس میری پہلی بیوی نے کہا میں نے اس عورت کو ایک بار یا دوبار دودھ پلا یا ہے؟ پس نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اشاد فرما یا :
لا تحرم إلا ملاجة وإلا ملاجتان(صحیح مسلم: ج1ص469)
"ایک بار دوبار دودھ چوسنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی"
اُم الفضل  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہی سے دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ! هل تُحرِّم الرضعة الواحدة؟ قال لاکیا ایک مرتبہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے؟ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اشاد فرمایا :نہیں ۔
(صحیح مسلم، ج1ص469)
اس احادیث سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ ایک مرتبہ دودھ پینے یا دوبار دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی بلکہ حرمت رضاعت کے لیے پانچ بار دودھ پینا ضروری ہے جیسا کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی خمس رضعات والی روایت اس مسئلہ پر نص صریح ہے اور امام مسلم رحمۃ  اللہ علیہ  نے ان احادیث کے بعد عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رضعات والی روایت کو دو سندوں سے پیش کر کے اس مسئلہ پرمہرثبت فرمادی ہے اس حدیث کے بعد امام مسلم رحمۃ  اللہ علیہ  نے سہلہ بنت سہیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث کو بھی چار سندوں سے پیش کر کے ثابت کردیا کہ خمس رضعات والا مسئلہ دلائل کے لحاظ سے انتہائی مضبوط ہے ۔البتہ صحیح مسلم میں سہلہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   والی روایت میں خمس رضعات کے الفاظ موجود نہیں ہیں لیکن دوسری روایات میں یہ الفاظ ثابت ہیں۔
مفتی صاحب کو شکایت تھی کہ ہم نے صحیح مسلم کی بائیس احادیث میں سے صرف چار احادیث کو ذکر کیا ہے اب مفتی صاحب ان چار احادیث میں ان مزید احادیث کو بھی شامل فرمالیں اور کچھ احادیث آگے آرہی ہیں ان کی بھی گنتی کر کے بائیس کے عدد کو پورا کریں۔
مفتی صاحب کی دوسری دلیل:۔
مفتی صاحب لکھتے ہیں۔"جناب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے۔
"يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب"
"حرام ہو جاتا رضاعت سے( وہ رشتہ )جو حرام ہو جا تا ہے نسب سے"(سنن نسائی)اس حدیث شریف میں مطلق رضاعت کو سبب حرمت قرار دیا گیا ہے قلیل و کثیر کی کو ئی تحدید نہیں کی گئی "(ص2)
جائزہ:۔
اس حدیث میں ایک عام قانون بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس طرح نسبت اور ولادت سے رشتوں کی حرمت ثابت ہوتی ہے اسی طرح رضاعت کی وجہ سے بھی حرمت ثابت ہوتی ہے۔گویا رضاعت کو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نسب سے تشبیہ دی ہے ۔اس حدیث میں چونکہ دودھ کی مقدارکا کو ئی ذکر موجود نہیں ہے لہٰذا مفتی صاحب کا اس حدیث کو خواہ مخواہ اپنی دلیل کہنا غلط ہے۔مفتی صاحب کا دعویٰ خاص ہے لہٰذا انہیں چاہئے کہ وہ اس پر اپنی دلیل بھی بالکل واضح اور خاص پیش کریں ۔ مفتی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس حدیث کی راویہ بھی حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں جو خمس رضعات کی راویہ بھی ہیں اور جن کا مذہب بھی خمس رضعات کا ہےلہٰذا مفتی صاحب  کا حدیث نقل کر کے بغیر دلیل کے اس سے اپنا خود ساختہ مطلب ثابت کرنا درست نہیں ہے۔اس حدیث کا شان وُرود یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا رضاعی چچا ان سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کررہا تھا اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے گھر تشریف فرماتھے ۔نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس موقع پر عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے ارشاد فر ما یا : "الرَّضاعة تحرِّم ما تحرِّم الولادة”
"بے شک رضاعت سے ویسی ہی حرمت ثابت ہوتی ہے جیسے ولادت سے"
(صحیح بخاری : 64/2صحیح مسلم : ج1ص464)
امام مسلم رحمۃ  اللہ علیہ  نے امام بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  کی طرح رضاعت کے سلسلہ میں سب سے پہلے اس حدیث کو بیان کیا ہے اور اس حدیث کے بعد عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے دوسری روایت بھی ان الفاظ سے بیان کی ہے:
يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة(مسلم)
 اس حدیث کے بعد امام مسلم رحمۃ  اللہ علیہ  نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا     کی ایک اور حدیث چھ سندوں سے یعنی چھ احادیث ذکر کی ہیں جن میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ افلح بن ابی قیس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کا رضاعی چچا تھا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے ان کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے لگا لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ۔اتنے میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لے آئے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے فرمایا۔کہ ان کو اندر آنے کی اجازت دو کیونکہ وہ تمھارے رضاعی چچا ہیں اسی وجہ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرمایا کرتی تھیں۔
"حَرِّمُوا مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا تُحَرِّمُونَ مِنَ النَّسَبِ "
"حرام جانور رضاعت سے جسے تم نسب سے حرام جانتے ہو۔"
(صحیح مسلم ج1ص467)
امام مسلم  رحمۃ  اللہ علیہ  نے اس حدیث کے بعد جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جناب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث بیان کی ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا گیا کہ آپ حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیٹی سے شادی کر لیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:وہ میری رضاعی بھتیجی ہیں۔ ويحرممن الرضاعة ما يحرم من الرحم  (مسلم ج1ص467)
مفتی صاحب کی تیسری دلیل :۔
مفتی صاحب لکھتے ہیں :"حضرت علی شیر خدا  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مرفوع روایت ہے:
 "يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ ، قَلِيلُهُ وَكَثِيرُهُ"
  (جامع المسانید خوارزمی:ج2 ص97)
"حرام ہو جا تے ہیں دودھ سے وہ رشتے جو حرام ہو جا تے ہیں نسب سے دودھ خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ"یہ روایت احناف کے مسلک پر صریح دلیل ہے"(ص3،2)
یہ حدیث اس مسئلہ پر واقعی نص صریح کی حیثیت رکھتی کیونکہ اس روایت میں بالکل واضح الفاظ موجود ہیں لیکن کاش یہ روایت صحیح ہوتی!!۔۔۔افسوس کہ یہ روایت ضعیف ہی نہیں بلکہ موضوع اور صریح جھوٹ ہے افسوس کہ مفتی صاحب نے علمی خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے اس روایت کی سند تک نقل نہیں کی لہذا پہلے اس روایت کی سند ملاحظہ ہو۔
 " ابو حنيفة عن الحكم بن عتيبة عن القاسم بن مخيمرة عن شريح بن هانيوعلي بن أبي طالب عن النبي صلي الله عليه وسلم  يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ ، قَلِيلُهُ وَكَثِيرُهُ " اخرجه ابو محمد البخاري عن المنذر بن سعيد الهروي عن ا حمد بن عبد الله الكندي عن ابراهيم بن الجراح عن ابي يوسف عن ابي حنيفة"
 (جامع مسانید الامام الاعظم ازخوارزمی : ج2، ص97طبع حیدر آباد دکن)
جامع مسانید الامام الاعظم محمد بن محمود خوارزمی (متوفی 665ھ)کی جمع کردہ ہے خوارزمی کی عدالت و ثقاہت نامعلوم ہے۔ اس نے یہ ابو محمد بخاری سے روایت کی ہے ۔
ابو محمد عبد اللہ بن محمد یعقوب حارثی بخاری کا تعارف :۔
علامہ ابو طاہر زبیر علی زئی محمدی لکھتے ہیں۔
"یہ شخص وضع حدیث  کے ساتھ متہم ہے ملاحظہ فرمائیں:
"الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث المؤلف: برهان الدين الحلبي "
ابو احمد الحافظ اور امام حاکم نے بتا یا کہ وہ حدیثیں بنا تا تھا (کتاب القراۃ از بیہقی ص154)
ابو سعید رواس  رحمۃ  اللہ علیہ  نے کہا: "اس پر وضع حدیث کا الزام ہے"
احمد سلیمانی رحمۃ  اللہ علیہ  کی بات کا خلاصہ یہ ہے وہ سند اور متن دونوں گھڑتا تھا ابو زرعہ احمد بن الحسین الرازی رحمۃ  اللہ علیہ  نے کہا:ضعیف ہے خلیلی رحمۃ  اللہ علیہ  نے اسے کمزور اور مدلس قراردیا ہے۔ خطیب نے بھی جرح کی ہے (دیکھئے لسان المیزان 348،349/3)
کسی نے بھی اس شخص کی توثیق نہیں کی لہٰذا ایسے شخص کی تمام روایات موضوعات اور مردود ہیں۔حافظ ذہبی رحمۃ  اللہ علیہ  دیوان الضعفاء والمتروکین میں ابو محمد الحارثی کو ذکر کر کے لکھتے ہیں :
"يأتي بعجائب واهية"
خلاصہ یہ کہ یہ روایت موضوع ہے۔
اس روایت کی سند میں اور بھی عجائبات موجود ہیں لیکن ہم صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
نوٹ : میری تحقیق کے مطابق جامع المسانید میں الخوارزمی سے امام ابو حنیفہ تک ایک روایت بھی بسند صحیح یا  حسن ثابت نہیں ہے جسے اس بات سے اختلاف ہے وہ صرف ایک سند ہی پیش کردے۔جو جمہور کے نزدیک صحیح یا حسن ہو۔
 (نور العينين في مسئلة الرفع اليدين ص26...24)
مفتی صاحب کی چوتھی دلیل :۔
 مفتی صاحب لکھتے ہیں عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  میں مروی ہے:
 كان يقولان  يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ ، قَلِيلُهُ وَكَثِيرُهُ(ص83،ج2ص3)
تیسری دلیل کے بعد مفتی صاحب کے پاس مرفوع روایات کا ذخیرہ ختم ہو گیا لہٰذا اب انھوں نے آثار صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو دلیل کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ہے اور جو اثر موصوف نے نقل کیا ہے وہ بھی نامکمل نقل کیا ہے تاکہ لوگوں کو حقیقت حال کا پتہ نہ چل جائے۔ اس روایت میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں ۔انھوں  نے یہ بھی لکھا :( یعنی تشریح قاضی رحمۃ  اللہ علیہ  نے ابراہیم نخعی رحمۃ  اللہ علیہ  کو یہ بھی لکھا ) کہ ابو شعثاء المحاربی نے مجھ سے بیان کیا اور ان سے عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  نے بیان کیا کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :"
"لا تُحَرَّمُ الْخَطْفَةُ وَالْخَطْفَتَانِ "
یعنی "ایک بار یادو بار دودھ اُچک لینا (پی لینا ) حرمت رضاعت ثابت نہیں کرتا "(سنن نسائی ج،2ص2)
اس حدیث میں موصوف کے نقل کردہ اثر کا جواب مرفوع حدیث کے ساتھ موجود تھا جناب عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا خیال تھا کہ قلیل و کثیر دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جا تی ہے لیکن قاضی شریح نے اس اثر کے بعد عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مرفوع روایت نقل کر کے ثابت کردیا کہ قلیل دودھ سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہو سکتی ۔ مفتی صاحب نے اس اثر میں مايحرم من النسبکے الفاظ بھی بڑھا دئیے ہیں جبکہ حدیث میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔
مفتی صاحب کی پانچویں دلیل:۔
مفتی صاحب  لکھتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے سامنے کسی نے ذکر کیا کہ ایک یا دو مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہو تی تو آپ نے فر ما یا :یہ پہلے تھا اب ایک مرتبہ سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہو جا ئے گی۔
(احکام القرآن از جصا ص۔ ص120ج2)
جائزہ:۔
مو صوف نے واقعی بہت زبردست دلیل تلاش کر کے پیش کی ہے ۔کاش موصوف اس روایت کی سند بھی نقل کر دیتے تو اصل بات کھل جاتی لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ لہٰذاپہلے اس روایت کی سند ملاحظہ فر مائیں۔
"وهو ما حديث ابو الحسن الكرخي قال حدثنا الحضرمي قال حدثنا عبد الله بن سعيد قال حدثنا ابو خالد عن حجاج عن حبيب بن ابي ثابت عن طاوس من ابن عباس"
(ج2ص125،طبع سہیل اکیڈمی لاہور)
اس روایت کی سند میں ایک راوی حجاج بن ارطاۃ نخعی ابو ارطاۃ کوفی ہے جو صدوق کثیر الخطا والتدلیس ہے (تقریب )
علامہ ذہبی رحمۃ  اللہ علیہ  فر ماتے ہیں :
احد الاعلام على لين فيه.(الكاشف) وقال أبو حاتم: صدوق يدلس عن الضعفاء، يكتب حديثه فإذا قال حدثنا، فهو صالح .(الكاشف)
بہر حال حجاج کثیر الخطا اور لین دین ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی ہے اور اس روایت میں ان کی تدلیس بالکل واضح ہے لہٰذا عدم سماع کی وجہ سے اور تدلیس کی بنا پر یہ روایت ناقابل احتجاج ہے۔
اس حدیث کے دوسرے راوی حبیب بن ابی ثابت کوفی ہیں۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ  اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
"ثقة فقيه جليل وكان كثير الإرسال والتدليس،"
 (تقریب 183/1حدیث کے ضعیف ہونے کے لیے حجاج بن ارطاۃ کی تدلیس ہی کا فی تھی لیکن ان کے استاد حبیب بن ابی ثابت کوفی بھی مدلس نکلے ۔لہٰذا مدلس روایت میں جب تک راوی حدیث سے سماع کی صراحت ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک وہ روایت ضعیف ہوتی ہے اور اس روایت میں دوراویوں کی تدلیس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔اور باقی راویوں پر ابھی تحقیق باقی ہے یہ روایت بھی دور کی کوڑی ہے جو موصوف کو حدیث کی کسی کتاب سے نہیں بلکہ (احکام القرآن للجصاص سے ملی ہے۔
مفتی صاحب نے یہ ایک زبردست معیار بنایا ہے کہ انھوں نے صحیح احادیث کو ایک ضعیف اثر کی بناپر منسوخ قراردے ڈالا ہے۔ بہر حال موصوف کا دعویٰ بھی بلادلیل ہے۔
مفتی صاحب  کی چھٹی دلیل :۔
مفتی صاحب لکھتے ہیں۔"حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :تھوڑا سا دودھ بھی موجب حرمت ہے جب ان سے کہا گیا کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تو فرماتے ہیں کہ ایک یا دومرتبہ سے حرمت ثابت نہیں ہوتی تو آپ نے فر ما یا کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بہتر ہیں اور پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائیں۔
"وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ"
 (تمھاری مائیں تو وہ ہیں جنہوں نے تمھیں دودھ پلایا ہے)
جائزہ:۔
 مفتی صاحب  نے اس روایت کا کوئی حوالہ نقل نہیں کیا ۔ جناب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جو مسئلہ بیان کیا تو اس کی دلیل بھی ان کے پاس موجود تھی چنانچہ دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ حدیث بیان کی
"لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ  من الرضاعة وَلَا الْمَصَّتَانِ"
  (مصنف عبدالرزاق ج7ص469)
"حرمت رضاعت ایک مرتبہ دودھ چوسنے اور دو مرتبہ دودھ چوسنے سے ثابت نہیں ہوتی"جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس موقع پر آیت کے عموم سے استدلال کیاہے اور اس آیت کے متعلق تفصیل گزر چکی ہے۔
مفتی صاحب  کی ساتویں دلیل:۔
مفتی صاحب  لکھتے ہیں۔"اسی طرح کی روایت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے بارے میں بھی ہے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فر ما یا کہ: اللہ تعالیٰ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے بہتر ہے"(مصنف عبدالرزاق : ص466ج7)
جائزہ:۔
اس روایت کی سند میں ایک راوی ابن جریج ہیں ثقہ ہونے کے باوجود سخت  قسم کےمدلس بھی ہیں لہٰذا جب تک وہ کسی حدیث میں سماع کی تصریح نہیں فرماتے اس وقت تک ان کی روایت ضعیف اور ناقابل حجت ہے دیوبندی حضرات  نے اس ثقہ امام پر بڑی سخت جرح کر رکھی ہے۔ مثلاًمولوی حبیب اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب نوار الصباح کے مقدمہ ص242،18پر ملاحظہ فر مائیں۔
مفتی صاحب  کی آٹھویں دلیل :۔
مفتی صاحب لکھتے ہیں۔"حضرت امام بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  کے نزدیک بھی تھوڑے سے دودھ سے رضاعت  ثابت ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ امام بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  نے جمہورامت کے دلائل ذکر کئے اور قلیل یا کثیر کو ذکر نہیں فرمایا بلکہ سکوت فر مایا جس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  کے نزدیک تھوڑا دودھ بھی محرم یعنی سبب حرمت ہے۔(بخاری: ج2ص764)
جائزہ:۔
مفتی صاحب کے نزدیک امام بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  کا قول بھی حجت اور دلیل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اہلحدیث حضرات کو دوش دیتے ہوئے موصوف نے لکھا ہے۔
"نہ معلوم یہاں پر امام بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  سے کیا خطا سر زد ہوئی کہ اس کو پس پشت ڈال دیا اور اپنے مقرر کردہ اصول کہ اول کتاب اللہ بعد بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  کیوں ترک کردیا(ص4)
مفتی صاحب کو معلوم ہو نا چاہئے کہ ہمارے نزدیک حجت و دلیل دو ہی چیزیں ہیں۔
(1)قرآن کریم اور (2)حدیث نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  
کسی امام کے قول کو چاہیے وہ کتنا بڑا امام کیوں نہ ہو ہم نے کبھی بھی بطور حجت و دلیل کے نہیں مانا ہے اور نہ کبھی اسے پیش کیا ہے البتہ قرآن و حدیث کی تائید میں ہم اماموں کےا قوال پیش کردیتے ہیں اور صحیح بخاری کو ہم اصح الکتاب اللہ اس لیے مانتے ہیں کہ اس میں صحیح و مرفوع احادیث پر ہی ہم عمل پیرا ہونے کی کو شش کرتے ہیں ہم کسی امام کے قول کے مقابلے میں صحیح حدیث کو ترک نہیں کرتے بلکہ صحیح حدیث آجائے تو امام کے قول کو رد کردیتے ہیں ۔مفتی صاحب کو چاہئے کہ پہلے وہ ہمارے اصول کو سمجھیں کہ ہم نے کبھی بھی امام بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  کی رائے کو دین نہیں سمجھا۔ کسی امام کی رائے کا نام دین نہیں ہے بلکہ دین تو قرآن و حدیث کا نام ہے اور جہاں تک صحیح بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  کے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہونے کا تعلق ہے تو اس اصولی بات کو علماء حنفیہ بھی تسلیم کرتے ہیں ۔مثلاً مولوی سلیم اللہ خان صاحب شیخ الحدیث و مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی صحیح بخاری کی شرح کشف الباری میں عنوان قائم کرتے ہیں۔ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  (ص185جلد اول )
مفتی صاحب کی نویں دلیل:۔
مفتی صاحب لکھتے ہیں ۔
"بخاری شریف میں حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت ہے جس میں ایک عورت کے یہ کہنے سے کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر مایا دعها عنكاپنے سے اپنی بیوی کو جدا کردو"یہاں بھی آپ نے یہ سوال نہیں کیا کہ دودھ کتنی مرتبہ پلایا۔(ج2ص760)
جائزہ:۔
اس روایت میں بھی دودھ پینے کی تحدید نہیں ہے بلکہ ظاہر روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ اس خاتون نے ان کو پانچ مرتبہ سے زیادہ بار ہی دودھ پلا یا تھا عرب معاشرہ میں یہ قاعدہ تھا کہ دائیاں ہی بچوں کو مدت رضاعت میں دودھ پلایا کرتی تھیں اور دودھ کی مدت عموماً دو سال تک ہوتی تھی۔یہ نہیں ہو تا تھا کہ دائی ایک قطرہ دودھ پلا کر بچے سے جدا ہو جائے ۔حقیقت  میں دیکھا جا ئے تو یہ روایت بھی خمس رضعات کی زبردست دلیل ہے۔
مفتی صاحب کی دسویں دلیل:۔
مفتی صاحب لکھتے ہیں ۔
"بخاری شریف میں ہے کہ اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا :
"الرَّضاعة تحرِّم ما تحرِّم الولادة"
"دودھ پلانا ان رشتوں کو حرام کردیتا ہے جنہیں پیدائش حرام کرتی ہے" (ج2ص464)
یہاں بھی آپ نے تھوڑے اور زیادہ کی کوئی تفریق نہیں فرمائی۔ الحاصل قلیل دودھ خواہ ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو، اس سے بھی رضاعت ثابت ہو جا تی ہے"(ص4)
جائزہ :
 اس روایت پر مفصل گفتگو گزر چکی ہے مفتی صاحب نے خانہ پری اور دس دلیلیں پوری کرنے کے لیے اس روایت کو ذکر کر دیا ہے ورنہ اس روایت میں ان کے دعوےکا دور دور تک کہیں سراغ نہیں ملتا ۔موصوف کا دعویٰ خاص ہے اور دلائل سارے کے سارے انھوں نے عام پیش کئے ہیں اور جن روایات میں وضاحت ہے وہ من گھڑت جھوٹی اور ضعیف روایات ہیں۔موصوف کے دعویٰ کے مطابق یہ ان کے پیش کردہ کثیر صحیح احادیث شریفہ اور قوی دلائل ہیں جن کی حقیقت آپ نے ملاحظہ فرمالی۔
حرمت رضاعت کے چند اصول
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت ایک شخص میرے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔آپ کو اس شخص کا آنا ناگوار گزرا اور میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرے مبارک پر غصے کے آثار دیکھے ۔ میں نے عرض کیا ۔اے اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  !یہ میرا
دودھ شریک بھائی ہے۔ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فر ما یا :
"انظرن من إخوانكن، فإنما الرضاعة من المجاعة"
 (صحیح بخاری و مسلم)
"غورکروکہ تمھارے دودھ شریک بھائی کون ہوسکتے ہیں؟رضاعت وہی معتبر ہے کہ جو بھوک کے وقت ہو۔ یعنی جس رضاعت سے بچے کی بھوک دور ہو جا ئے ،وہ رضاعت حرمت ہے"
یہ روایت مفتی صاحب کے قلیل دودھ والے مسلک کی حقیقت بتانے کے لیے نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ ایک گھونٹ سے بھوک دور نہیں ہو سکتی۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ  اللہ علیہ  اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں۔
"أي الرضاعة الّتي تثبت بها الحرمة، وتحلّ بها الخلوة هي حيث يكون الرضيع طفلاً لسدّ اللبن جوعته، لأنّ معدته ضعيفة يكفيها اللبن وينبت بذلك لحمه فيصير كجزء من المرضعة فيشترك في الحرمة مع أولادها، فكأنّه قال: لا رضاعة معتبرة إلاّ المغنية عن المجاعة أو المطعمة من المجاعة، كقوله تعالى: ( أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوع ) . ومن شواهده حديث ابن مسعود: «لا رضاع إلاّ ما شدّ العظم وأنبت اللحم». أخرجه أبو داود مرفوعاً وموقوفاً، وحديث أُمّ سلمة: «لا يحرّم من الرضاع إلاّ ما فتق الأمعاء وكان قبل الفطام». أخرجه الترمذي وصحّحه .
ويمكن أن يستدل به على أن الرضعة الواحدة لا تحرم لأنها لا تغني من جوع ، وإذا كان يحتاج إلى تقدير فأولى ما يؤخذ بهما قدرته الشريعة وهو خمس رضعات" 
(فتح البااری شرح الصحیح البخاری ج9 ص 148 کتاب النکاح باب من قال لا رضاع بعد حولین)
  "من المجاعة" وہ رضاعت جس کے ذریعے حرمت ثابت ہوتی اور کسی شخص کے ساتھ خلوت جائز ہوتی ہے ایسی رضاعت ہے کہ جس میں دودھ پینے والا بچہ ہو اور دودھ کو بھوک کے وقت پئے۔اس لیے کہ اس کا معدہ کمزور ہو تا ہے اس حالت میں اسے دودھ ہی کفایت کرتا ہے اور اس دودھ سے اس کا گوشت پیدا ہو تا ہے ۔پس وہ دودھ پلانے والی کا گویا جز بن جاتا ہے اور وہ حرمت میں اس خاتون کی اولاد کے ساتھ شریک ہو جا تا ہے گویا کہ فرمایا:"رضاعت وہی معتبر ہے جوبھوک کے وقت کفایت کرتی ہو یا بھوک کے وقت کی خوراک جیسے اللہ تعالیٰ کا رارشاد ہے:
 الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ  "جس نے انہیں بھوک میں کھلایا"
اور اس حدیث کے شواہد میں سے جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ہے کہ"رضاعت وہی قابل اعتبار ہے جس کے ذریعے ہڈیاں سخت (مضبوط ) ہون اور گوشت پیدا کرے"اس حدیث کو امام ابو داؤد نے مرفوع و موقوف (دونوں طریقوں سے بیان کیا ہے) اور اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث میں ہے۔ رضاعت وہی معتبر ہے کہ جس میں آنتیں دودھ سے بھر جانے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو جا ئیں " (اس حدیث میں آگے یہ الفاظ ہیں:
"وَكَانَ قَبْلَ الْفِطَامِ " .
اور یہ دودھ پلانے کی مدت (دوسال ) کے اندر ہو(ابو جابر ) امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کر کے اسے صحیح قراردیا ہے،اور یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ:
الرضعة الواحدة(ایک بار دودھ پینا)
حرمت رضاعت ثابت نہیں کرتا اس لیے کہ وہ بھوک کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ اور جب انھوں نے دودھ پینے کی تعداد کے لیے اس حدیث سے دلیل لی ہے تو پھر اولیٰ ہے کہ وہ اندازہ اختیار کیا جائے جو شریعت نے مقرر کیا ہے اور وہ خمس رضعات (پانچ بار دودھ پینا) ہے"(فتح الباری)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حرمت رضاعت اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتی جب تک کہ مندرجہ ذیل شرائط اس میں موجود نہ ہوں۔
1۔بھوک کے وقت بچہ کی خوراک دودھ ہی ہواور یہ عرصہ بچے کی پیدائش سے لے کر دوسال تک ہوتا ہے ۔
2۔رضاعت وہی معتبر ہے کہ جس میں دودھ پینے سے بچے کی ہڈیاں مضبوط ہوں اور اس دودھ سے بچے کے جسم میں گوشت پیدا ہو۔
3۔بچہ دودھ اس قدر پئے کہ دودھ سے اس کی آنتیں بھر جائیں اور بھرنے کے بعد پھول کر ایک دوسرے سے جدا ہو جا ئیں اور ظاہر ہے کہ یہ صورت ایک یا دو قطرہ دودھ پینے سے یا ایک مرتبہ اور دومرتبہ دودھ چوسنے سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح دودھ پینے کا یہ عمل مدت رضاعت (جودو سال تک ہے) کے اندر اندر ہو۔
ان تمام احادیث کے مجموعے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آجاتی ہے کہ ایک یادوقطرہ دودھ سے یا ایک باریا دوبار دودھ چوسنے سے نہ تو بچے میں گوشت پیدا ہو سکتا ہے نہ اس کی ہڈیوں کا مضبوط ہونا اور اس میں گوشت کا پیدا ہونا اسی وقت ممکن ہے کہ جب بچہ مسلسل دودھ پیتا ہے اور دودھ اس کی خوراک ہواور یہ بات ایک یا دومرتبہ دودھ چوسنے سے پیدا نہیں ہو سکتی اور شریعت نے اس کی کم ازکم مقدار خمس رضعات (پانچ مرتبہ دودھ پینا) مقررکی ہے اس سے واضح ہو تا ہے کہ خمس رضعات والا مسلک ہی درست ہے۔ کیونکہ یہ صحیح احادیث پر مبنی ہے اور یہی محققین کا مسلک ہے۔
مدت رضاعت دوسال ہے!:۔
مفتی صاحب نے دودھ پینے کی قلیل مقدار سے حرمت رضاعت پر بہت زور دیا ہے اور چونکہ اس مسئلہ میں جمہور (اکثریت)ان کے ہم نواہےاس لیے انھوں نے بار بار جمہور کا ذکر کیا ہے موصوف کو یہ بھی معلوم ہے کہ مدت رضاعت دوسال ہے۔اور اس پر قرآن کریم احادیث صحیحہ آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور جمہور علماء امت سب متفق ہیں لیکن امام ابو حنیفہ  رحمۃ  اللہ علیہ  کے نزدیک مدت رضاعت ڈھائی سال ہے اور امام موصوف اس مسئلہ میں بالکل منفرد ہیں کیونکہ ان کے شاگرد امام ابو یوسف رحمۃ  اللہ علیہ  امام محمد  رحمۃ  اللہ علیہ  بھی اس مسئلہ میں ان کے ہم نوانہیں ہیں۔ لیکن مفتی صاحب کو جمہور کی یہ بات پسند نہیں آئے گی کیونکہ تقلید امام ابو حنیفہ رحمۃ  اللہ علیہ  ان کا مسلک ہے اور مفتی صاحب قرآن و حدیث اور جمہور کو تو چھوڑ سکتے ہیں لیکن امام صاحب کی تقلید کو نہیں چھوڑ سکتے ۔مفتی صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ قرآن و حدیث کے دلائل سے اوراق سیاہ کرنے کے بجائے اتناہی لکھ دیتے کہ ہم امام حنیفہ  رحمۃ  اللہ علیہ  کے مقلد ہیں:
"ونحن مقلدونيجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة "
(ہم تو مقلد ہیں اور ہم پر ہمارے امام ابو حنیفہ رحمۃ  اللہ علیہ  کی تقلید کرنا واجب ہے) اور عام فتوؤں میں تو وہ کتب فقہ حنفی مثلاً ہدایہ شامی فتاویٰ عالمگیری وغیرہ کے حوالہ جات نقل کرتے ہیں اور لوگوں سے بھی کہتے ہیں کہ ہم سے قرآن و حدیث کی دلیل طلب نہ کرو لیکن خلاف معمول مفتی صاحب نے حرمت  رضاعت کے سلسلہ میں احادیث کے دلائل پیش کرنے کی زحمت کر ڈالی ہے۔
مدت رضاعت کے سلسلہ میں چند دلائل ملاحظہ فر مائیں۔
"وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ "
"اور مائیں اپنے بچوں کو کامل دوسال تک دودھ پلائیں اگر ان کا ارادہ مدت رضاعت پوری کرنا ہے"(البقرۃ233)
اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ مدت رضاعت دو سال ہے۔
2۔دوسرے مقام پر ارشاد ہے اور یہ آیت بھی بالکل واضح ہے۔
وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ(لقمان :14)
"اور دوسال اس (بچہ) کو دودھ چھوٹنے میں لگے"
3۔ایک اور مقام پر ارشاد ہے۔
 وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْراً (الاحقاف:15)
"اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھوٹنا تیس مہینوں میں ہوا"
مولوی شبیر احمد عثمانی صاحب اس آیت کے تحت لکھتے ہیں۔
"شاید بطور عادت اکثر یہ کے فرمایا ہو۔حضرت شاہ صاحب  لکھتے ہیں کہ"لڑکا اگر قوی ہو تو اکیس مہینہ میں دودھ چھوڑتا ہے اور نو مہینے ہیں حمل کے" یایوں کہو کہ کم ازکم مدت حمل چھ مہینے ہیں اور دو برس میں عموماً بچوں کا دودھ چھڑادیا جا تا ہے اس طرح کل مدت تیس مہینے ہوئے مدت رضاع کا اس سے زائد ہو نا قلیل و نادر ہے"(تفسیر عثمانی : ص669طبع مدینہ منورہ )
4۔جناب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فر ما یا :
"لا يحرم من الرضاعة إلا ما كان دون الحولين" 
"رضاعت وہ ہے جو دو برس کے اندر ہو"(سنن دارقطنی بحوالہ تفسیر ابن کثیر : ج 1ص283)
5۔اور دوسری روایت میں ہے۔
"وما كان بعد الحولين فليس بشيء " (ابن کثیر ایضاً)
"اور جو دو سال کے بعد ہے وہ کچھ نہیں"یعنی دو برس کے بعد رضاعت نہیں ہے۔
6۔حافظ ابن کثیر رحمۃ  اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔
"اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ مائیں اپنی اولاد کو مکمل مدت دودھ پلائیں اور یہ مدت دوسال ہے اور دوسال کے بعد رضاعت کا کوئی اعتبار نہیں اسی لیے ارشاد فرمایا کہ یہ اس کے لیے ہے کہ جس کا ارادہ مدت رضاعت پوری کرنا ہے اور اکثر آئمہ کرام اس طرف گئے ہیں کہ رضاعت دوبرس کے اندراندرہے اور جب بچے کی عمر دوسال سے زائد ہو جا ئے تو حرمت رضاعت ثابت نہیں ہو گی"
7۔امام ترمذی فرماتے ہیں:
"عنوان رضاعت وہی معتبر ہے جو چھوٹی عمر میں دوسال کے اندر اندرہو۔۔۔اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :
"رضاعت وہی معتبر ہے کہ جس میں آنتیں دودھ سے بھر جانے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو جا ئیں اور یہ دودھ پلانا دودھ پلانے کی مدت (دوسال) کے اندراندرہو۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم اصحاب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  وغیرہ کا اس حدیث  پر عمل ہے(اور ان کا کہنا ہے کہ ) رضاعت وہی معتبر ہے کہ جو دوسال کے اندر اندرہو اور جو رضاعت دو کامل برس گزر جانے کے بعد ہوتو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔(تفسیر ابن کثیر،ج1ص283)