داڑھی اور جدید ذہن کے شبہات

(داڑھی رکھنے کے بارے میں آج کل مسلمانوں میں بڑی غفلت پائی جاتی ہے ۔اور اب یہ غفلت اس حد تک بڑھ گئی ہے۔کہ عامۃ المسلمین میں داڑھی رکھنے کو شریعت کا حکم ہی نہیں سمجھا جا تا ۔بلکہ کچھ لوگ تو یہ سمجھتے ہیں گویا یہ صرف علماء یا مولوی حضرات کی ایک عادت یا رواج ہے اور یہ حکم ان لوگوں کے لیےہی ہے جو شریعت کی تبلیغ اور دین پڑھنے پڑھانے کا مشن سنبھالے ہوئے ہیں دوسری طرف مسلمانوں کی اکثریت اس جملہ سے شبہ کھاتے ہوئے کہ داڑھی سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے اس کو صرف ایک مستحب امر سمجھتی ہے اور یہ قطعاًخیال نہیں کرتی کہ داڑھی نہ رکھنے پروہ اللہ کے ہاں پکڑے جائیں گے۔یہیں پر ہی بس نہیں بلکہ داڑھی رکھنے والے مسلمانوں کو اکثرتضحیک کا نشانہ بھی بنایا جا تا ہے علماء اور خطیب حضرات بھی اس مسئلہ میں عوامی رد عمل سے گھبراتے یا ملان کا خطاب ملنے کے ڈرسے اس مسئلے پر روشنی ڈالنے سے ہچکچاتے ہیں نتیجہ یہ کہ روز بروز یہ اسلامی شعار مسلمانوں میں متروک ہو تا جارہا ہے۔ اسی طرح بعض لوگ اپنی بے عملی کے بہانے کے طور پر چند روایتوں کو بھی پیش کر کے شرعی داڑھی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
داڑھی نہ صرف نماز، روزہ، اور حج کی طرح نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک عملی سنت ہے جس کو اپنانے کا شریعت میں واضح حکم دیا گیا ہے بلکہ اس کا تارک اللہ کے ہاں سخت سزا کا مستحق ہو گا۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق داڑھی مردکے لیے باعث زینت اور مو جب و قار ہے لہٰذا رضائے الٰہی کے طالبوں کو اسے بالکل نظر انداز نہیں کردینا چاہئے۔
ذیل میں داڑھی کے مسئلہ پر معروف مفتی اور فقیہ العصر حضرۃالعلام حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ  اللہ علیہ  کی ایک جامع تحریر نذرقارئین ہے جس میں اس مسئلہ کی تصحیح شرعی حیثیت اس موضوع پر ملنے والی تمام احادیث اور صحابہ کرام وتابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے طرز عمل کا دلائل کی روشنی میں بڑا مربوط تجزیہ پیش کیا گیا ہے چند اوراق میں اس قدر وسیع بحث کو ایسی خوبصورتی سے سمیٹنا حضرت حافظ صاحب رحمۃ  اللہ علیہ  کی علوم شرعیہ میں رسوخ مصادر شریعت پر گہری نظر اور علماء سلف کی آراء سے مکمل آگاہی کا ہی مرہون منت ہے چند دہائیاں قبل تحریر کی جانے والی اس بحث کی افادیت آج بھی روز افزوں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعت کا صحیح فہم عطا فرمائے اور شریعت پر عمل کی توفیق بخشےآمین) (حسن مدنی) 
مقدمہ:۔
مسئلہ داڑھی کے متعلق میری متفرق تحریریں جریدہ تنظیم اہلحدیث وغیرہ میں حسب موقع شائع ہوتی رہی ہیں اور ایک مستقل رسالہ بھی شائع ہو چکا ہے جس کا نام فلسفہ داڑھی ہے جس میں چند مسائل اور بھی ہیں ختنہ سر کی مانگ پردہ خواتین وغیرہ میرے علاوہ دیگر علماء بھی ان مسائل پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ اب مزید لکھنے کی کچھ ضرورت تو نہ تھی مگر جوں جوں زمانہ بدلتا ہے دین پر نئے نئے حملے ہوتے رہتے ہیں اگر ان کی مدافعت نہ کیا جائے تو خطرہ ہوتا ہے کہ دین پر پردہ پڑجائے ۔اس لیےہر زمانہ میں علماء کی جدوجہد جاری رہتی ہے اور وہ حالات کا تقاضا پورا کرتے رہتے ہیں۔
ہر مسئلہ کی دوحیثیتیں ہوتی ہیں۔اعتقادی اور عملی ۔ پہلی حیثیت سے اس کا ثبوت پیش کیا جا تا ہے اور دوسری حیثیت سے اس کی ترغیب و ترہیب ہوتی ہے مسئلہ داڑھی دونوں کشمکشوں کے درمیان ہے۔کیونکہ عملی حالت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ کسی چہرے پر داڑھی نظر نہیں آتی الاماشاء اللہ اور اعتقادی لحاظ سے بھی اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جن احادیث میں اس مسئلہ کی اہمیت ہے ان کی تاویلیں کی جارہی ہیں۔اس بنا پر ضرورت ہے کہ اس پر بہت مفصل لکھا جائے مگر میں اپنی مجبوریوں کے تحت اختصار پر اکتفاکرتا ہوں اور تفصیل دوسرے علماء پر چھوڑتا ہوں ۔والله الموفق اللهم اجعل اعمالنا كلها صالحة واجعلها لوجهك خالصة ولاتجعل لاحد فيها شئيا أمين!
ہدایت اور گمراہی کے اسباب:۔
جب تک انسان کے دل میں خوف خدانہ ہو، اس کے لیے ہدایت کادروازہ نہیں کھلتا اور نہ اس کو نیکی کی توفیق ملتی ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ہدایت ڈرنے والوں کے لیے ہے" اور جب تک انسان تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار نہیں کرتا ،اس کا کوئی عمل قبولیت کے مقام کو نہیں پہنچتا اور نہ اس پر کوئی اجر اور ثواب ملتا ہے اس کے متعلق بھی قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِين یعنی اللہ تعالیٰ صرف متقیوں کا عمل قبول کرتے ہیں"
حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیے ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
 (أَوْصَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَإِنَّهُ أَزْيَنُ لأَمْرِكَ كُلِّهِ)(مشکوۃ:باب حفظ اللسان)
"یعنی میں تمھیں تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں ۔ اس سے تمھارے سارے کام بہت اچھے ہو جائیں گے"گویا تقویٰ ایک ایسی بنیادی شے ہے جس سے دنیا اور دین کی اصلاح وابستہ ہے۔ اگر خدا کا ڈر دل میں نہ ہو تو پھر اس کی جگہ دل میں نفس پرستی آجاتی ہے اور انسان گناہ پر دلیر ہو جا تا ہے یہاں تک کہ پھر تو گناہ بھی گناہ معلوم نہیں ہوتا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔
"مؤمن گناہ کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے سر پر پہاڑ ہے ابھی گرے گا اور ہلاک ہو جاؤں گا اور فاسق آدمی گناہ کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے مکھی ناک پر بیٹھی اور اڑ ادی (مشکوۃ : باب الاستغفار)
آج کل آزادی کا زمانہ ہےگناہ مباحات کی طرح ہو گئے ہیں نہ خوف خدا نہ کسی سے شرم و حیا بلکہ بعض گناہ اتنے عام ہوگئے ہیں کہ ان کے خلاف کرنا نفس سے پوری جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ ان میں سے ایک مسئلہ داڑھی بھی ہے۔ داڑھی رکھنا آج کل بیوقوفی کی علامت ہے داڑھی رکھی اور نظروں سے گرا۔یہاں تک کہ اس پر مذاق ہوتا ہے اور پھبتیاں اڑائی جاتی ہیں اس سے متاثر ہو کر بعض مولویوں نے داڑھی کے مسئلہ پر ہی ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا ہے مولانا مودودی رحمۃ  اللہ علیہ  بھی داڑھی کے بارے میں اسی تساہل کا شکار نظر آتے ہیں چنانچہ اپنے رسالہ ترجمان القرآن مئی و جون 1945ء میں بڑی جراءت سے لکھتے ہیں۔
"آپ کا یہ خیال کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  جتنی بڑی داڑھی رکھتے تھے اتنی بڑی داڑھی رکھنا سنت رسول ہے۔یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ عادات رسول کو بعینہ وہ سنت سمجھتے   ہیں جس کے جاری اور قائم کرنے کے لیے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اور دوسرے انبیا علیہ السلام  معبوث کئے جاتے رہے ہیں مگر میرے نزدیک یہی نہیں کہ یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں ہے بلکہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قراردینا اور پھر ان کے اتباع پر اصرار کرنا ایک سخت قسم کی بدعت اور خطرناک تحریف دین ہے"
مودودی صاحب کی اس تحریر کا جو کچھ نتیجہ نکلتا ہے اور جو اس سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان پر تو ہم اپنے رسالہ "مودودیت اور احادیث نبویہ کےص13اور ص19پر مفصل بحث کر چکے ہیں ۔یہاں ہمارا مقصد صرف مسئلہ داڑھی کی حیثیت کو واضح کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ احادیث میں جو ہے:
وَأَعْفُوا اللِّحَى"(داڑھیوں کو چھوڑدو)
یا اس قسم کے اور الفاظ آئے ہیں ان کی تشریح کیا ہے تاکہ طالب رضائے الٰہی اس پر کار بند ہواور سنت کا شائق اور اس کو اپنا مسلک بنا کر شارع  علیہ السلام   کی منشا کو پورا کر سکے۔
وَأَعْفُوا اللِّحَى کی تشریح از مولانا مودودی رحمۃ  اللہ علیہ :۔
"داڑھی کے متعلق نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے صرف یہ ہدایت فرمائی ہے کہ رکھی جائے ۔آپ اگر داڑھی رکھنے میں فاسقین کی وضعوں سے پر ہیز کریں اور اتنی داڑھی رکھ لیں جس پر عرف عام میں داڑھی رکھنے کا اطلاق ہو تا ہو۔جسے دیکھ کر کوئی شخص اس شبہ میں مبتلانہ ہو کہ چند روز سے آپ نے داڑھی نہیں مونڈی ہے۔ تو شارع کا منشا پوراہو جاتا ہے خواہ فقہ کی استنباطی شرائط پر پوری اترے یا نہ اترے ۔"
(رسائل و مسائل ص181،ترجمان القران رمضان شوال 1362ھ ستمبر ،اکتوبر 1943ء)
اس عبارت میں دو مسئلے بیان ہوئے ہیں (1)ایک یہ کہ داڑھی منڈانا بڑا جرم ہے اس سے انسان فاسق  [1] ہو جاتا ہے جس کی شرعاًنہ شہادت معتبر ہے نہ خبر ۔قرآن مجید میں ہے۔
"وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ" 
"ان کی شہادت ہر گز قبول نہ کرواور یہی لوگ فاسق ہیں"
اس آیت میں زنا کی تہمت لگانے والوں پر فاسق کا حکم لگا یا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فسق مانع شہادت ہے قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ہے۔
"إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا "
"اگر فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرو یعنی اس کی خبر پر اعتماد نہ کرو"
2۔دوسرا مسئلہ مولانا مودودی رحمۃ  اللہ علیہ  کی عبارت میں یہ بیان ہوا ہے کہ حدیث میں داڑھی کی کوئی مقدار نہیں آئی ۔پس صرف رکھنے کا حکم ہے سوعرف عام میں جس کو رکھنا کہتے ہیں اتنی ہی کافی ہے اور عرف عام کا ندازہ یہ بتلایا ہے کہ دیکھنے والے کو یہ شبہ نہ پڑے کہ چند دن سے نہیں مونڈ ی ہاں چند دن سے اوپر مونڈنے کا شبہ ہو تو یہ رکھنے کے منافی نہیں۔بلکہ اس کو عرف عام[2] میں رکھنا کہہ سکتے ہیں۔
چند کا اطلاق کس پر؟:۔
یہاں مودودی رحمۃ  اللہ علیہ  صاحب نے چند دن کی تشریح نہیں کی ۔ چند اصل میں فارسی لفظ ہے جو اردو میں بکثرت استعمال ہو تا ہے اس کے اصل معنی گنتی کے ہیں گنتی کی شے چونکہ عموماًتھوڑی ہوتی ہے اس لیے لغت میں اس کے معنی کسی قدر اور قلیل کئے گئے ہیں عربی میں تھوڑی شے کے لیے لفظ بضع یا جمع قلت استعمال ہوتی ہے شاہ ولی اللہ صاحب نے سورہ یوسف اور سورہ روم میں بضع کا فارسی میں ترجمہ چند کیا ہے اور شاہ رفیع الدین نےکئی ایک اور شاہ عبد القادر صاحب نے  کئی۔ اسی طرح دیگر علماء بھی جنہوں نے تراجم لکھے ہیں قریباً یہی معنی کرتے ہیں۔اور مولانا اشرف علی تھانوی نے سورہ یوسف میں بضع کا اردو ترجمہ چند کیا ہے اور سورہ روم میں تین سے نوتک کیا ہے چونکہ عربی میں بضع کا لفظ گنتی محدود (تین سے نوتک ) کے لیے ہے اس لیے تین سے نو تک کہنا بھی صحیح ہے اب لفظ چند کو بھی اگر گنتی محدود پر محمول کریں تو اس کی حد نو ہو گی اور اگر اس سے گنتی محدود مراد نہ ہو تو عام محاورہ کے مطابق ہفتہ عشرہ مراد ہو گا ۔ پس ہفتہ عشرہ میں جتنی مقدار بالوں کی ہو سکتی ہے۔مودودی رحمۃ  اللہ علیہ  صاحب کے نزدیک اتنی داڑھی ضروری ہے سووہ نصف انچ بھی مشکل ہے۔
احادیث میں داڑھی کے متعلق آنیوالےالفاظ :۔
لیکن مولانا مودودی رحمۃ  اللہ علیہ  سے یہاں ایک بنیادی غلطی ہوئی ہے مودودی  رحمۃ  اللہ علیہ  صاحب نے داڑھی رکھنے کا جو محاورہ پیش کیا ہے یہ اردو پنجابی محاورہ ہے احادیث میں کو ئی لفظ ایسا نہیں آیا جو اس محاورہ کے موافق ہو۔احادیث میں داڑھی کے متعلق پانچ لفظ آئے ہیں۔
1...اعفوا         2....اوفوا       3...ارخوا        4 ...ارجوا  5 ...وفروا
اعفوا کا اصل عفوہے جس کے معنی معافی کے ہیں اور داڑھی کو معافی دینا یہی ہے کہ اسے اپنے حال پر چھوڑ دے۔۔۔(2) اوفوا کے معنی پورا کرنے کے ہیں اور داڑھی کو پورا کرنا یہی ہے کہ اس کی کانٹ چھانٹ نہ کرے۔۔۔(3) ارخوا ارخاء عنان سے ہے یعنی باگ ڈور ڈھیلی چھوڑ دینا اور کسی قسم کی رکاوٹ نہ کرنا اور داڑھی ڈھیلی چھوڑنا اور رکاوٹ نہ کرنا یہی ہے کہ اس کو بڑھنے دے جہاں تک بڑھے۔اور ارجوا بھی اسی کے قریب ہے قرآن مجید میں ہے:
تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ یعنی "تو اپنی بیویوں سے جس کو چاہتا ہے پیچھے کردیتا ہے"
یعنی اس سے تعرض نہیں کرتا اور اس کو باری نہیں دیتا اور عرب کہتے ہیں ۔
ارجي الصيد(شکارکو پیچھے کردیا) یعنی اس سےکسی چیز کو نہیں پہنچا اور اس پر حملہ نہیں کیا۔(4) وفروا وفرسے ہےاس کے معنی کثرت اور بہتات کے ہیں ۔قرآن مجید میں ہے:
"جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا" 
شاہ ولی اللہ  رحمۃ  اللہ علیہ  اس کا فارسی ترجمہ یوکرتے ہیں ۔"پس دوزخ سزائے ہمہ شمااست سزائے کامل "اور شاہ رفیع الدین صاحب اس کا اردو ترجمہ یوں کرتے ہیں۔"پس تحقیق دوزخ ہے جزاتمھاری جزاپوری " اور شاہ عبد القادر صاحب لکھتے ہیں۔"سودوزخ ہے تم سب کی سزا پورابدلا " اسی طرح دیگر تراجم والے لکھتے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ یہ پانچ روایتیں ہیں جن کا مطلب قریباً ایک ہی ہے اسی بنا پر نووی شرح صحیح مسلم جلد اول 129میں اور فتح الباری جلد10ص288طبع مصر باب تقلیم الاظفارمیں اور تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی جلد4ص11میں یہ پانچوں روایتیں ذکر کر کے لکھا ہے:
"وَمَعْنَاهَا كُلّهَا : تَرْكُهَا عَلَى حَالهَا "
یعنی "ان سب کا معنی یہی ہے کہ داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دے"
اور فتح الباری جلد 10باب تقلیم الاظفارص288طبع مصر میں ہے۔
قال النووى وكل هذه الروايات بمعنى واحد ،
"یعنی ان سب روایتوں کا ایک ہی معنی ہے"اور وہ وہی ہے جو ابھی بیان ہوا ہے ۔
مودودی رحمۃ  اللہ علیہ  صاحب نے اس موقع پر شریعت کی صحیح راہنمائی دینے میں غلطی کھائی ہے مولانا کفایت اللہ دہلوی رحمۃ  اللہ علیہ  جو حنفی مذہب میں بڑے مفتی گزرے ہیں نے بھی مودودی رحمۃ  اللہ علیہ  صاحب کے بارے میں اسی قسم کے الفاظ تحریر کئے ہیں کہ مولانا کا مطالعہ تو سیع ہے اور مولانا نے زیادہ ترعلم اپنے مطالعہ سے اخذ کیا ہے لیکن شریعت کے بارے میں ان کی بعض آراء قابل اصلاح ہیں۔(رسالہ حقائق مودودیت ازمحمد داؤد مؤمن پورہ بمبئی)
مولانا کفایت اللہ صاحب نے مودودی رحمۃ  اللہ علیہ  صاحب کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے میں ابھی اس کی تائید کرتا ہوں ۔ان کی تحریر یں دیکھنے سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اگر کسی قدر اس کی تفصیل دیکھنی ہو تو ہمارا رسالہ "مودودیت اور احادیث نبویہ" پڑھئے جو شائع شدہ ہے۔
عموم حکم سے بعض صورتوں کی استثناء:۔
اس میں شبہ نہیں کہ جب اللہ اور رسول ایک عام حکم دیں تو وہ حکم عام ہی رہے گا۔جب تک وہ خود اس سے استثناء نہ کریں۔ اور جب وہ کسی صورت کو مستثنیٰ کریں تو وہی مستثنیٰ ہو گی اس پر کسی کو اضافہ کی اجازت  نہ ہو گی۔ کیونکہ اُمتی کا کا م اتباع ہے نہ کہ شریعت میں تصرف مثلاً:
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ "نماز قائم کرو"
 عام حکم ہے اس سے حیض والی عورت مستثنیٰ ہے۔ ایسے ہی سونا اور ریشم مردوں پر حرام ہے لیکن ٹوپی،چوغہ وغیرہ پر زرکشی جائز ہے اور خارش کے وقت ریشمی قمیص پہننے میں کو ئی حرج نہیں اور قربانی میں مسنة(دو دانت) جانور کا حکم ہے مگر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک صحابی کو جذعۃ (غیرمسنة)کی اجازت دے دی اور فرمایا:"تیرے بعد کسی کو جذعہ کی اجازت نہیں" وغیرہ وغیرہ ۔غرض یہ کام اللہ اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ہے ہمیں اس میں کو ئی دخل نہیں۔

داڑھی کے مذکورہ حکم سے کچھ صورتوں کی استثناء


 اس بناپر جب داڑھی کو اپنے حال پر رکھنے کا حکم ہے جو کہ ان پانچ روایتوں سے بھی واضح ہو چکا تو اب کسی کو کو ئی حق نہیں کہ اس میں رخنہ اندازی کرے ۔ ہاں اگر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کوئی صورت مستثنیٰ فرمائی ہو تو وہ بسر و چشم منظور ہےاس کے علاوہ کوئی تصرف کرے تو وہ ناقابل قبول ہے۔ بہت سی تحقیقات کے بعد ہمیں بظاہر چار اور حقیقت تین صورتیں مستثنیٰ ملی ہیں اگر کسی صاحب کے علم میں کوئی اور صورت آئی ہو تو بہتر ورنہ اللہ سے ڈرنا چاہئے اور رسول اللہ کے احکام کے الٹ نہ کرنا چاہئے ہمارے علم میں جو صورتیں مستثنیٰ آئی ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔
پہلی صورت:۔
عن ابى هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه  وسلم لا ياخذ الرجل من طول لحيته ولكن من الصدغين رواه فى الحلية(فصل رابع مشکوۃ : باب الترجل ص239) 
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں ۔مراد اپنی داڑھی لمبائی میں نہ کٹائے لیکن کنپٹیوں سے کٹالے"
داڑھی کی تعریف فتح الباری وغیرہ اور لغت میں یہ لکھی ہے۔
"ما نبت على الخدين والذقن " 
"جو بال رخساروں اور ٹھوڑی پر اُگیں "ٹھوڑی داڑھی کا طول ہے اور رخساراس کا عرض ہیں طول سے لینا تو بالکل منع کردیا اور عرض میں صرف کنپٹیوں کے بالوں کو لینے کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ باقی عرض میں بھی اجازت نہیں۔
نوٹ: کنپٹیوں سے مراد وہ مقامات ہیں جو آنکھوں کے کناروں سے کانوں تک ہیں اور یہ وجه(چہرے) میں داخل ہیں کیونکہ وجه ماتھے سے ٹھوڑی تک اور ایک کان سے دوسرے کان تک ہے جیسے مجمع البحار اور تفسیر مظہری وغیرہ میں ہے ۔ میں نے اپنے جریدہ تنظیم اہلحدیث جلد اول کے شمارہ8میں بھی اس کی خوب تفصیل ذکر کی ہے۔پس جب کنپٹیاں چہرہ میں شامل ہو گئیں تو یہ داڑھی کا حصہ ہوا۔ لیکن شارع نے حکم میں تخفیف کرتے ہوئے ان کے کٹانے کی اجازت دے دی ۔جیسے کہ اس حدیث میں ہے اور ایک تخفیف اور کر دی ہے وہ یہ کہ وضو میں کنپٹیوں کا دھونا ضروری نہیں بلکہ کانوں کی طرح سر کے ساتھ مسح کافی ہے۔ (ملاحظہ ہو منتفی مع نیل الاوطار وغیرہ)
دوسری صورت:۔
"عن جابر رضى الله عنه كنا نعفي السِبَال، إلا فى حج أو عمرة"(ابو داؤد کتاب الترجل)
"جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ ہم داڑھیاں چھوڑ دیتے تھے مگر حج یا عمرہ میں۔"(عون المعبود جلد 4ص136میں ہے )
قال الحافظ في الفتح بعد إيراد هذاص: (199) الحديث نعفي بضم أوله وتشديد الفاء والسبال بكسر المهملة وتخفيف الموحدة جمع سبلة بفتحتين وهي ما طال من شعر اللحية . قال أي نترك السبال وافرا . وقال في مرقاة الصعود : سبال جمع سبلة بالتحريك وهي مقدم اللحية وما أسبل منها على الصدر انتهى . 
"حافظ ابن حجر  رحمۃ  اللہ علیہ فتح الباری  میں فرماتے ہیں کہ سبال سبلۃکی جمع ہے اور سبلۃ داڑھی کے لیے بالوں کو کہتے ہیں۔جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا مطلب یہ ہے کہ داڑھی کے بالوں کو لمبے چھوڑدیتے مگر حج و عمرہ میں اور مرقاۃالصعود میں ہے کہ سبلۃ داڑھی کے سامنے کے بال ہیں جو چھاتی پر پڑیں ۔"
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین داڑھیوں کو ہمیشہ لمبی چھوڑ دیتے صرف حج عمرہ میں کٹواتے اور یہ فعل رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ کا ہے کیونکہ جابراًاپنے زمانہ سے گزشتہ زمانہ کا حال بیان کر رہے ہیں اور وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہی کا زمانہ ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عام طور پر کوئی کام کریں تو وہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے یعنی وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سمجھی جاتی ہے۔ورنہ آپ اس پر انکار کرتے یا اس کے خلاف وحی آجاتی ۔ چنانچہ اصول حدیث میں اس کی تفصیل ہے اور خود جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی بیان کیا ہے کہ "ہماراوحی کے زمانہ کا "فعل شرعی فعل ہے ملاحظہ ہو۔(مشکوۃ باب المباشرہ فصل اول : حدیث 2ص267)
خلاصہ یہ کہ داڑھیوں کا لمبا چھوڑ دینا یہاں تک کہ چھاتیوں پر پڑیں۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد  کے تحت ہے اور حج و عمرہ میں کٹوانا یہ بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد کے تحت ہے۔ البتہ یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ حج و عمرہ میں کتنی کٹواتے سو اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ  اللہ علیہ  نے فتح الباری جلد 10 ص288 میں اشارہ کیا ہے کہ اس کا اندازہ عبد اللہ بن عمر کی حدیث سے ہوتا ہے۔ کیونکہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج عمرہ میں قبضہ سے زائد کٹواتے تھے۔ملاحظہ ہوبخاری  رحمۃ  اللہ علیہ  جلد2 باب تقلیم الاظفار : پارہ 24ص575)
تیسری صورت :۔
یہ ہے کہ داڑھی زیادہ بھاری یا زیادہ لمبی چوڑی ہونے کی وجہ سے شکل بھونڈی(بھدی) معلوم ہویا وضووغیرہ میں تکلیف کا باعث ہو تو اس صورت میں قبضہ سے زائد کو کٹواسکتے ہیں۔اور یہ صورت صرف حج و عمرہ کے ساتھ خاص  نہیں بلکہ ہمیشہ رخصت ہے اور جس حدیث میں کٹوانے سے نہی آئی ہے اور عرض میں صرف کنپٹیوں کی اجازت ہے یہ داڑھی ہلکی ہونے کی صورت پر محمول ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ  اللہ علیہ  فتح الباری جلد 10ص288میں امام طبری رحمۃ  اللہ علیہ  سے نقل کرتے ہیں۔
"وقال فوم اذا زاد على القبضة يوخذ الزائد وساق بسنده الى ابن عمر انه فعل ذلك والى عمر انه فعل ذلك  والى عمرانه فقل ذلك برجل ومن طريق ابى هريرة  انه فعله"
"ایک جماعت کہتی ہے کہ جب داڑھی مٹھی سے زائد ہو جائے تو زائد کٹائی جائے اور دلیل اس کی یہ پیش کی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے یہ کلام کیا اور حضرت  عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی ایک شخص کے ساتھ ایسا کیا اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا"نواب صدیق حسن خان مرحوم اپنی کتاب اتحاف النبلاء کے ص373پر حافظ ابن قیم رحمۃ  اللہ علیہ  کے ترجمہ میں لکھتےہیں۔
"واز فوائد ابن قیم  رحمۃ  اللہ علیہ  ست کہ گفتہ  ابن عمر روي حديث اعفاء اللحية وكان مع ذلك يمسك لحية فما فضل عن القبضة اخذه ورخص فيه  الامام احمد وابراهيم النخعي وروي الليث عن محمد بن عجلان عن ابي صالح السمان انه لما ذكر رسول الله صلي الله عليه وسلم اعفاء اللحية كلمه اصحابه فقال يمسك قبضة فما جاوز ذلك جزه ان شاء فلعل ابن عمر بلغه هذا من حديث رسول الله صلي الله عليه وسلم فذهب اليه والا فالا عفاء يابي ذلك ولكن لما رواه ابن عمر واخذ ما جاوز القبضة مع شدة تحريه وورعه واتباعه للسينة دل علي ان عنده من ذلك عما بالرخصة وممن ذهب الي هذا الشبعي وسفيان الثوري وغيرهما ورخص الامام احمدفي حلق ماتحت اللحية علي الحلق وجوز بعض اصحابه الاخذ من الحاجين اذا طال و قال كان احمد يفعله وكانه لم يرذلك من النص المحرم انما هذا اخذ للحاجة والاذي لطولهما واما المراة فيجوز لها ان تاخذ شاربها وان طلعت لها لحية ان تاخذها جملة اوعنفقة واستهجنه بعض اصحاب الشافعي ومنهم محمد بن جرير الطبري وراي تغييرا لخلق الله انتهي"
(اتحاف10ص373)
"فوائد ابن قیم رحمۃ  اللہ علیہ  سے ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اعفاء اللحية کی حدیث روایت کی ہے (اور داڑھی چھوڑ نے کی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی مروی ہے چنانچہ ارخوا اور ارجواکے الفاظ جو ص7میں گزرے ہیں وہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ہی روایت کئے ہیں ملاحظہ ہو مسلم جلد اول ص129،اور طول میں داڑھی نہ کٹانے کی حدیث جو ص10میں گزری ہے اس کے راوی بھی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں اور باوجود اس کے (ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور) ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مٹھی سے زائد کٹاتے تھے اور امام احمد رحمۃ  اللہ علیہ  اور امام ابراہیم نخعی رحمۃ  اللہ علیہ  (استاد امام ابو حنیفہ)نے بھی اس کی رخصت دی ہے اور لیث نے محمد بن عجلان رحمۃ  اللہ علیہ  سے انھوں نے ابو صالح سمان سے یہ حدیث نقل کی ہے :
کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب اعفاء اللحية اور (وغیرہ)کا امر فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے اس بارے میں گفتگو کی( کہ زیادہ بھاری لمبی داڑھی میں تکلیف ہوتی ہے)تو آپ نے فرمایا : داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر جو زائد بال ہوں ان کےکٹانے کا اختیار  ہے شاید ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو) یہ حدیث پہنچی ہو گی اسی بنا پر وہ مٹھی سے زائد کٹاتے تھے ورنہ اعفاءاللحیۃ (وغیرہ) کی حدیث اس (کٹانے) سے روکتی ہے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد اس کے خلاف کس طرح کر سکتے تھے حالانکہ وہ بڑے محتاط بڑے پرہیز گار اور متبع سنت تھے ۔اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ ان کو مٹھی سے زائد کٹانے کی حدیث کا علم تھا اور امام شعبی تابعی رحمۃ  اللہ علیہ  اور امام سفیان ثوری رحمۃ  اللہ علیہ  تبع تابعی وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے۔
اور امام احمد کے نزدیک گلے کے بال کٹانے جائز ہیں جو داڑھی سے نیچے ہوں۔اور امام احمد رحمۃ  اللہ علیہ  کے بعض اصحاب  رحمۃ  اللہ علیہ  نے ابروؤں کے بال جب لمبے ہو جائے تو ان کے کٹانے کی بھی اجازت دی ہے۔اور امام احمد رحمۃ  اللہ علیہ  بھی کٹاتے تھے اور حدیث میں جو ابروؤں کے بال چننے کی ممانعت آئی ہے یہ کٹوانا اس میں داخل نہیں کیونکہ یہ ضرورت اور تکلیف کی وجہ سے کٹواتے تھے(نہ کہ خوبصورتی کے لیے اور چننا خوبصورتی کے لیے منع ہے) اور اگر عورت کو لبیں اور داڑھی اُگ آئے تو وہ بالکل صاف کراسکتی ہے۔اور بعض اصحاب شافعی رحمۃ  اللہ علیہ  نے اس کو برا سمجھا ہےجس سے ایک امام محمد بن جریر طبری ہیں ان کا خیال ہے یہ پیدائش الٰہی کی تبدیلی ہے جس کی آیت فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ میں ممانعت آئی ہے۔
ابو صالح سمان تابعی رحمۃ  اللہ علیہ  ہیں اور تابعی جب صحابی کا نام نہ لے تو اس حدیث کو مرسل کہتے ہیں اور مرسل حدیث کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے مگر اس کو تقویت مل جائے تو پھر وہ حجت ہے چنانچہ کتب اصول (شرح نخبہ تدریب الراوی وغیرہ)میں اس کی تفصیل موجود ہے اور یہاں دو طرح سے اس کو تقویت حاصل ہے ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور تابعین وغیرہ کے عمل سے جیسے ابھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہ کی روایتیں گزری ہیں۔ بلکہ غالب ظن ہے کہ ابو صالح سمان نے حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے سنی ہے کیونکہ وہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے خاص شاگرد ہیں دوسرے مندرجہ ذیل حدیث سے ابو صالح سمان کی حدیث کی تقویت ہوتی ہے کہ امام شعرانی کشف الغمۃجلد اول ص50میں لکھتے ہیں ۔
"وكان ابن عمريقول رأى النبى صلى الله عليه وسلم رجلاً طويل اللحية ، فقال :"لو أخذتم"وأشار بيده إلى نواحى لحيته قال وامر بذلك فى لحية ابي قحافة والد  ابى بكر "
"ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کی لمبی داڑھی دیکھی تو فرمایا کاش !تم کٹاتے اور ہاتھ سے اپنی داڑھی کے گرد نواح کی طرف اشارہ کیا اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے والد ابو قحافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی داڑھی کے متعلق بھی یہی حکم دیا تھا۔"
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا اپنی داڑھی کے گردو نواح کی طرف اشارہ کرنے کا مطلب یہ تھا کہ مٹھی سے زائد بال لے لیے جائیں ۔ چنانچہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (جو اس حدیث کے راوی ہیں) انھوں نے اسی طرح عمل کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور  ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی ایسا ہی کیا۔ چنانچہ یہ سب روایات گزر چکی ہیں ۔اور ابو صالح سمان کی حدیث میں بھی مٹھی سے زائد بال کٹانے کا ذکر ہے۔
اس کی مزید وضاحت:۔
موطا امام مالک : کتاب الحج باب التفصیر ص154میں ہے۔
"عن نافع: أن عبد الله بن عمر كان إذا أفطر من رمضان وهو يريد الحج لم يأخذ من رأسه ولا منلحيته شيئا حتى يحج"
"نافع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب رمضان سے فارغ ہوتے اور ان کا حج کا ارداہ ہو تا تو سراور داڑھی سے کچھ نہ کٹاتے یہاں تک کہ حج کر لیں"
اس روایت سے معلوم ہوا کہ مٹھی کے اندر کٹانے کی اجا زت نہیں کیونکہ حج اور عمرہ میں عبد اللہ بن عمر مٹھی سے زائد کٹاتے تھے۔ تو رمضان سے فارغ ہو کر چھوڑنا اس غرض سے تھا کہ بال مٹھی سے زیادہ ہو جا ئیں اگر مٹھی کے اندر کٹانے کی اجازت ہوتی تو یہ تکلیف کیوں اٹھاتے ؟
اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قبضہ سے زائد کٹانا حج و عمر ہ کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ ہمیشہ کٹاتے ۔اسی لیے حج اور عمرہ کے لیے رمضان سے کٹانا ترک کر دیتے تاکہ حج و عمرہ تک مٹھی سے زائد ہو کر کٹانے کے قابل ہو جا ئے۔
چوتھی صورت :۔
"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده : " أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان يأخذ من لحيته من عرضها و طولها" 
"عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی داڑھی کے طول و عرض سے لیتے ۔"
اس حدیث میں داڑھی کے طول و عرض سے لینے کا ذکر ہے مگر تحدید نہیں کہ کہ کتنی لیتے؟مٹھی سے باہر یا مٹھی سے اندر اور اسی لحاظ سے ہم نے اس حدیث پر چوتھی صورت کا عنوان تو دیا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ چوتھی صورت ثابت نہیں جس کی تین و جہیں ہیں۔
(1)اول:یہ کہ احادیث میں مٹھی سے زائد کی تعیین آگئی ہے۔ بس اس سے مراد یہی مٹھی سے زائد ہی ہو گی ۔چنانچہ دوسری تیسری صورت میں تفصیل گزرچکی ہے پس یہ چوتھی صورت نہ بنی بلکہ دوسری تیسری میں شامل ہو گئی۔ اسی بنا پر مرقاۃ  شرح مشکوۃ جلد 4ص492میں لکھتے ہیں ۔
"وقيد الحديث في شرح الشرعة بقوله : إذا زاد على قدر القبضة "
یعنی" شرح شرعیہ میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  طول و عرض میں اس وقت لیتے جب بال مٹھی سے زائد ہو جا تے "
(2)دوسری وجہ یہ کہ مرقاۃ شرح مشکوۃ میں مذکور عبارت کے بعد لکھتے ہیں۔
الْحَدِيثُ فِي شَرْحِ الشِّرْعَةِ بِقَوْلِهِ: إِذَا زَادَ عَلَى قَدْرِ الْقُبْضَةِ، وَجَعَلَهُ فِي التَّنْوِيرِ مِنْ نَفْسِ الحديث 
یعنی" کتاب تنویر میں لفظ
إِذَا زَادَ عَلَى قَدْرِ الْقُبْضَةِ، 
کو اس حدیث کا ٹکڑا قراردیا ہے " پس جب اسی حدیث ہی میں مٹھی کی شرط آگئی تو بات بالکل ہی صاف ہو گئی۔
(3)تیسری وجہ یہ ہے کہ ترمذی کی یہ حدیث ہی بالکل ضعیف ہے چنانچہ امام ترمذی یہ حدیث ذکر کر کے فرماتے ہیں۔
هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ .و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ : عُمَرُ بْنُ هَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ لَا أَعْرِفُ لَهُ حَدِيثًا لَيْسَ لَهُ أَصْلٌ ، أَوْ قَالَ : يَنْفَرِدُ بِهِ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ هَارُونَ .ا.هـ.  وَرَأَيْتُهُ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي عُمَرَ بْنِ هَارُونَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى : وَسَمِعْتُ قُتَيْبَةَ ،يَقُولُ : عُمَرُ بْنُ هَارُونَ كَانَ صَاحِبَ حَدِيثٍ ، وَكَانَ يَقُولُ : الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ 
"یہ حدیث غریب (ہے کیونکہ اس میں عمر بن ہارون راوی منفرد) ہے اور امام بخاری سے میں نے یہ کتنے سنا کہ عمر بن ہارون کی حدیث کسی قدر اچھی حدیث کے قریب قریب ہوتی ہے۔ میں نے اس کی کوئی حدیث بے اصل یا منکر نہیں پائی سوائے اس حدیث کے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ عمربن ہارون کے سوا کسی نے اس حدیث کو روایت کیا ہوا اور امام بخاری کو میں نے دیکھا کہ وہ عمربن ہارون کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے اور قتیبہ رحمۃ  اللہ علیہ  سے میں نے سنا :وہ فرماتے تھے کہ عمر بن ہارون کے پاس ذخیرہ حدیث کا فی تھا مگر اس کا مذہب تھا کہ ایمان صرف قول اور عمل کا نام ہے۔یعنی ایمان کے لیے اعتقاد کی ضرورت نہیں۔
اور یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ قول اور فعل ایمان میں داخل ہیں جیسے اہل حدیث کا مذہب ہے مگر یہ مراد کمزورہے کیونکہ عربی عبارت میں صرف یہی ہے کہ ایمان قول و عمل ہے۔"
حافظ ابن حجر رحمۃ  اللہ علیہ  نے فتح الباری جلد10ص288میں ترمذی کے حوالہ سے پہلے امام بخاری کایہ قول نقل کیا ہے:
"لا أعلم له حديثا منكرا إلا هذا" 
کہ عمر بن ہارون کی اس حدیث کے سوا کوئی حدیث میں نے منکر نہیں پائی اس کے بعد مزید لکھتے ہیں:
"وقد ضعف عمر بن هارون مطلقأ جماعة "
"(امام بخاری نے تو عمر بن ہارون کی صرف اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے مگر ) ایک جماعت محدثین نے اس کو مطلقاًضعیف کہا ہے" (یعنی اس کی کوئی حدیث بھی صحیح نہیں)
اسی طرح زرقانی شرح مواہب لدنیہ جلد 4ص212میں ہے ۔
"قال الذهبى : ضعفوه"
امام ذہبی  رحمۃ  اللہ علیہ  فرماتے ہیں ۔"عمر بن ہارون کو محدثین نے ضعیف کہا ہے"حافظ ابن حجر رحمۃ  اللہ علیہ  نے اسماء الرجال (راویوں کے حالات )پر ایک بہت بڑی جامع کتاب لکھی ہے۔جس کا نام تہذیب التہذیب ہے۔اس میں ایک ایک راوی کے متعلق جتنے اقوال ہیں سب جمع کر دئیے ہیں اس کے بعد اختصار کر کے دوسری کتاب تقریب التہذیب لکھی۔ اس کے مقدمہ میں فرماتے ہیں کہ میں ہر راوی کے متعلق اعدل قول لکھوں گا یعنی جس راوی کی ثقاہت میں اختلاف ہو اس کے حق میں پوری تحقیق کے بعد ایسا لکھوں گا جو نہایت منصفانہ ہو۔ اب عمر بن ہارون کے متعلق اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے وہ سنئے :
"عمر بن هارون بن يزيد، الثقفى مولاهم، البلخي ، متروك ، وكان حافظا" 
 (تقریب التہذیب ص388)"بنی ثقیف بلخی کا آزاد کردہ عمر بن ہارون بن یزید متروک (ترک کردیا گیا ) ہے اور ویسے وہ حافظہ والا تھا"
تقریب التہذیب  کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ متروک وہ راوی ہے جس کو کسی محدث نے ثقہ نہ کہا ہو اور اس کے ضعف کی وجہ بھی بیان کردی گئی ہو۔ ایسا راوی محدثین کی نظر سے بالکل گراہوا اور بے اعتبار ہو تا ہے اور اس کی حدیث کسی قابل نہیں ہوتی اور عمر بن ہارون کے متعلق امام بخاری نے جو اچھی رائے کا اظہارکیا ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ اس کو ئی حدیث اس حدیث کے سوا بے اصل نہیں پائی گئی۔ گویا دوسرے محدثین سے امام بخاری رحمۃ  اللہ علیہ  اس کے حق میں کچھ نرم ہیں کیونکہ دوسرے محدثین اس کی ساری حدیثوں کو ضعیف کہتے ہیں اور امام بخاری صرف اس حدیث کو اور وجہ اس کی یہ ہے کہ امام بخاری کو جو اس کی احادیث پہنچی ہیں وہ کسی دوسری سند سے بھی مروی ہیں سوااس حدیث کے دوسرے  محدثین کو اس حدیث کے سوا اس کی کچھ احادیث بھی بے اصل مل گئیں اس لیے یہ بالکل ان کی نظر سے گرگیا بہر صورت یہ حدیث متفقہ طور پر محدثین کے نزدیک ناقابل عمل ہے اور اس سے مٹھی سے چھوٹی داڑھی پر استدلال کرنا بالکل غلط ہے۔ 
بعض تابعین  رحمۃ  اللہ علیہ  کے اقوال:۔
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور دیگر صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا مذہب قریباً معلوم ہوچکا اور ابن قیم رحمۃ  اللہ علیہ  کی عبارت میں بعض تابعین رحمۃ  اللہ علیہ  وغیرہ کا بھی معلوم ہوچکا ہے ۔اب بعض اور تابعین رحمۃ  اللہ علیہ  کا سنئے فتح الباری جلد 10 ص288 میں ہے:
وعن الحسن البصري انه يوخذ من طولها وعرضها مالم يفش وعن عطا ء نحوه
"حسن بصری رحمۃ  اللہ علیہ (تابعی) سے روایت ہے کہ داڑھی کے کاٹنے میں مبالغہ نہ کیاجائے اور اس کےقریب عطا تابعی سے بھی روایت ہے"
مولانا احمد علی سہارنپوری مرحوم بخاری جلد 2 ص875 کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
"وقال عطاء إن الرجل لو ترك لحيته لا يتعرض لها حتى أفحش طولها وعرضها لعرض نفسه لمن يسخر به  وقال نووي والمختار عدم التعرض لها بتقصير ولا غيره كذا في القسطلاني"
"عطا فرماتے ہیں:اگر انسان کی داڑھی ا ُترے اور وہ اس  کو اپنی حالت پر چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کا طول عرض بہت زیادہ ہوکر قبیح شکل اختیار کرے،تو اس شخص نے خود کولوگوں کے سامنے استہزاء اور تمسخر کے لیے پیش کیا اور امام نووی رحمۃ  اللہ علیہ  فرماتے ہیں:مختار یہی ہے کہ داڑھی سے سے کسی قسم کا تعرض نہ کرے نہ کٹانے کے ساتھ نہ کسی اور طرح سے(چڑھانے وغیرہ کے ساتھ) قسطلانی میں اسی طرح ہے۔"
نواب صدیق حسن خان مرحوم نے بھی  عطاءتابعی [3]کا یہ قول نقل کیا ہے،ملاحظہ ہو:عون الباری لحل ادلۃ البخاری ص303 برحاشیہ نیل الاوطار طبع مصر۔عطا تابعی کے اس قول سے واضح ہے کہ وہ داڑھی بہت زیادہ لمبی چوڑی ہونے کے وقت کٹانے کے قائل ہیں اور وہ مٹھی سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ورنہ معاذ اللہ کہنا پڑے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور دیگر صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  وغیرہ نے جو صورت اختیار کی تھی ،وہ عطا تابعی رحمۃ  اللہ علیہ  کے نزدیک قبیح تھی حالانکہ وہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہ کے خاص شاگرد بھی ہیں۔
رہاحسن بصری اور عطا کا قول وج حسن بصری کے موافق ہے تو اس کامطلب حسن بصری کے دوسرے قول سے واضح ہوگا جو آئندہ عبارت میں آتا ہے۔
ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکواۃ جلد 4 ص 492 میں فرماتے ہیں:
وفي الإحياء قد اختلفوا فيما طال من اللحية ، فقيل : إن قبض الرجل على لحيته وأخذ ما تحت القبضة فلا بأس به ، وقد فعله ابن عمر وجماعة من التابعين ، واستحسنه الشعبي ، وابن سيرين ، وكرهه الحسن وقتادة ومن تبعهما .
 وقالوا : تركها عافية أحب لقوله - عليه الصلاة والسلام : ( أعفوا اللحى ) . لكن الظاهر هو القول الأول ، فإن الطول المفرط يشوه الخلقة ، ويطلق ألسنة المغتابين بالنسبة إليه ، فلا بأس للاحتراز عنه على هذه النية . قال النخعي : عجبت لرجل عاقل طويل اللحية كيف لا يأخذ من لحيته فيجعلها بين لحيتين أي طويل وقصير ، فإن التوسط من كل شيء أحسن ، ومنه قيل : خير الأمور أوسطها ، ومن ثم قيل : كلما طالت اللحية نقص العقل اهـ كلام الإمام(مرقاۃ:جلد 4 ص463)
"امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم میں ہے:داڑھی کے جو بال لمبے ہوجائیں،ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ اگر مٹھی سے زائد کاٹ دے تو کوئی حرج نہیں اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ایک جماعت تابعین نے ایسے کیا ہے اور عامر شعبی  تابعی رحمۃ  اللہ علیہ  اور محمد بن سیرین تابعی رحمۃ  اللہ علیہ  نے اس کو اچھا سمجھا ہے۔اور حسن بصری تابعی رحمۃ  اللہ علیہ  اور قتادہ رحمۃ  اللہ علیہ  تابعی رحمۃ  اللہ علیہ  نے اور ان کے متبعین نے اس کومکروہ سمجھا ہے اور کہا کہ داڑھی کو سلامت چھوڑ دینا زیادہ محبوب ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:(  أعفوا اللحى ) لیکن پہلا قول(مٹھی سے زائد کٹانے کا)ظاہر ہے کیونکہ حد سے لمبی داڑھی شکل کو بگاڑ دیتی ہے اور غیبت کرنے والوں کی زبانوں کو کھول دیتی ہے۔بس اس نیت سے لمبی نہ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں۔ابراہیم نخعی تابعی رحمۃ  اللہ علیہ (استاد امام ابو حنیفہ رحمۃ  اللہ علیہ ) فرماتے ہیں۔لمبی داڑھی والے عقل مند انسان پرمجھے تعجب ہوتا ہے کہ وہ ا پنی داڑھی کو درمیانی کیوں نہیں بناتا جو نہ زیادہ لمبی ہو نہ زیادہ چھوٹی۔کیونکہ ہر شے کی درمیان حالت بہت اچھی ہے۔اور اس بنا پر کہا گیا کہ جتنی داڑھی لمبی ہو،اتنی ہی عقل کم ہوتی ہے۔"
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی داڑھیاں لمبی تھیں:۔
یہ آخری فقرہ تو ان صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  پر بڑا طعنہ ہے جو حج عمرہ کے سوا بالکل نہیں کٹاتے تھے جیسے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں گذر چکاہے۔حالانکہ بہت صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  بھاری داڑھی والے تھے۔چنانچہ  تاریخ خلفاء ص118 میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے حلیہ میں لکھا ہے:
" عظيم اللحية جدا،قد ملأت ما بين منكبيه،"
یعنی آپ کی داڑھی نہایت بہت بڑی تھی یہاں تک کہ دونوں کندھوں کے درمیانی جگہ کو بھر دیا تھا۔
اورص 106 میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے حلیہ میں لکھاہےکثیر اللحیۃ یعنی آپ کی داڑھی بہت تھی۔اورص 93 میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے حلیہ میں لکھا ہے:
"وسَبَلَتُه كبيرة، وفي أطرافها صهبة،"
یعنی  آپ کی داڑھی بہت لمبی تھی اور اس کے کنارے سرخ مائل تھے اور شیخ عبدالحکیم  رحمۃ  اللہ علیہ  مکی نے شمس الضحى في إعفاء اللحى   نامی کتاب لکھی ہے جس میں فرماتے ہیں۔
" كان ابو بكر كت اللحية وكان عثمان رقيق اللحية طويلها وكان علي عريض اللحية وقد ملاءت ما بين منكبيه."
"حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بھاری داڑھی والے  تھے اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی داڑھی ہلکی تھی لیکن لمبی تھی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی داڑھی اتنی پھیلی ہوئی تھی کہ کندھوں کا درمیان  بھر دیاتھا۔"
اس عبارت میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی داڑھی ہلکی لکھی ہے مگرمراد سے نسبتاً ہلکی ہے۔یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے لحاظ سے ،ورنہ ابھی تاریخ خلفاء کے حوالہ سے گزرا ہے کہ وہ کثیر للحیۃ تھے۔
کیا لمبی د اڑھی کم عقلی کی دلیل ہے؟
ان کے علاوہ بہت سے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  ہیں جن کی داڑھیاں بہت بھاری تھیں۔اگر بڑی داڑھی مطلقاً کم عقل کی دلیل ہے تومعاذ اللہ یہ سب صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  بے وقوف ہوئے۔خاص طور پر یہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات بابرکات پر زبردست حملہ ہے،کیونکہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم  کا داڑھی کٹانا بالکل ثابت نہیں۔نہ حج عمرہ میں،نہ آگے پیچھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی داڑھی بہت بھاری تھی۔چنانچہ کتاب  الشفاء  ص 39 میں قاضی عیاض آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا حلیہ مبارک بیان کر تے ہوئے  فرماتے ہیں:كث اللحية تملا صدره یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی داڑھی اتنی بھاری تھی۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی چھاتی کو بھرتی تھی پس یہ آخری  فقرہ کہ جتنی داڑھی لممبی ہو،اتنی عقل کم ہوتی ہےیہ کسی کم عقل کا مقولہ ہے۔ہاں اگر اس سے عام داڑھی مراد نہ ہو بلکہ حد سے زیادہ لمبی مراد ہو جو ایسی شاذ وناز صورت ہے جیسے عورت کی داڑھی کا اگنا تو اس معنی سے یہ فقرہ صحیح ہوسکتا ہے۔اور اس لمبائی کااندازہ ملا علی قاری نے شرح شفاء جلد اول ص152 میں یہ لکھا ہے کہ داڑھی ناف پر  پڑے۔
لیکن اس فقرہ میں اس قسم کی حد سے زیادہ لمبائی مراد ہو تو  پھر یہاں اس کا ذکر بے موقع ہے کیونکہ یہاں دو چیزیں ہیں:ایک داڑھی کی ظاہری شکل اور ایک داڑھی والے شخص کی طبیعت کا تقاضا کہ داڑھی حد سے بڑھے۔ان دونوں سے کم عقل کا باعث کو ن سی چیزہے۔اگر ظاہری شکل باعث ہوتواس کے یہ معنی ہوں گے کہ اگر داڑھی چھوڑ دی تو عقل جاتی رہی۔اگر داڑھی کٹائی تو عقل واپس  آگئی حالانکہ عقل کوئی ایسی آنی جانی شے نہیں کہ جب چاہو اس کواندر سے نکال دو اور جب چاہو اس کواندرداخل کردو۔اس سے  صاف معلوم ہواکہ کم عقل کاباعث اگر ہوگا تو وہ طبعیت کاتقاضا ہے جو پیدائشی شے ہے اور ہر وقت ہے ۔خواہ داڑھی کٹائے یا نہ کٹائے اور یہاں بحث کٹانے یانہ کٹانے کی ہے۔تو پھر اس فقرہ کاذکر یہاں کس طرح صحیح ہوگا؟
علاوہ اسکے یہاںمٹھی سے زائد کٹانے کا ذکر ہے۔جوان داڑھیوں کو بھی شامل ہے جو بے حد لمبی نہیں تو پھر اس فقرہ سے یہاں اتنی لمبی داڑھی کی تخصیص کرنا کیا معنی  رکھتاہے؟بہرصورت یہ فقرہ یہاں بے موقع ہے باقی عبارت کا مطلب واضح ہے کہ تابعین دو قسم پر ہیں:بعض قبضہ سے زائد کٹانے کے قائل ہیں اور بعض اس کو مکروہ سمجھتے ہیں۔
حضرت حسن رحمۃ  اللہ علیہ  بصری کی رائے:۔
ان سے ایک حسن بصری رحمۃ  اللہ علیہ  بھی ہیں،پس حسن بصری رحمۃ  اللہ علیہ  کے دو قول ہوگئے۔ایک کٹانے کاایک نہ کٹانے کا یہ دونوں قول آپس میں متعارض ہیں اور تعارض کی صورت میں کوئی بھی پکڑنے کے قابل نہیں کیونکہ جب تعارض آگیا تو دونوں گرگئے" إذا تعارضا تساقطا " اس کے باجود اگر کسی کو لینا ہو ،تو ان دونوں میں سے جو بادلیل ہو،اس کو لینا چاہیے اور وہ دوسرا قول ہی ہے۔کیونکہ اس کی دلیل انہوں نے حدیث اعفواللحی پیش کی ہے ۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے قول میں سے ان کی مراد یہ ہوکہ کٹانے میں مبالغہ نہ کرے۔اس سے مراد مٹھی کے اندر کٹانا ہو یعنی مٹھی کے اندر کٹانا ہی مبالغہ ہے جس سے وہ منع فرمارہے ہیں۔اس صورت میں ان کا قول احادیث مذکورہ بالا کے موافق ہوجائے گا جن میں مٹھی سے زائد کٹانے کی رخصت ہے۔اور ان صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے عمل کے بھی موافق ہوجائے گا جو مٹھی سے زائد کٹانے کے عامل ہیں اور یہ قول ان(حسن بصری رحمۃ  اللہ علیہ ) کا بھاری داڑھی  پر محمول ہوگا اور دوسرا قول ہلکی داڑھی پر یعنی جب ہلکی داڑھی ہوتو بالکل نہ کٹائے اور اعفواللحی  پر عمل کرے اور جب بھاری ہوتو قبضہ سے زائد کٹانے کی اجازت  ہے۔اس طرح سے ان کے دونوں قولوں میں موافقت ہوجائے گی اور تعارض ا ٹھ جائے گا۔والحمدللہ علی ذلک
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ پسندیدہ  تو نہ کٹانا ہے خواہ داڑھی ہلکی ہو یا بھاری۔جیسےامام نووی رحمۃ  اللہ علیہ  وغیرہ فرماتے ہیں اور بھاری د اڑھی کوئی مٹھی سے زائد کٹالے تو اس کو بُرا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مذکورہ احادیث سے اور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے عمل سے اس کی رخصت پائی جاتی ہے۔اور ہلکی داڑھی کامٹھی سے زائد کٹانا یہ خطرناک ہے کیونکہ اس کے متعلق کوئی تسلی بخش دلیل نہیں پائی گئی۔
رہامٹھی سے اندر کٹانا خواہ داڑھی ہلکی ہو یا بھاری یہ منڈانے کے مترادف ہے اور منڈانے کے متعلق جو کچھ وعید ہے وہ شروع میں گزر چکی ہے بلکہ خود مولانامودودی رحمۃ  اللہ علیہ  نے بھی اس پر سخت فتویٰ دے دیا ہے اور مذاہب اربعہ بھی اس پر متفق ہیں:
فتویٰ شافعیہ:۔
فإنه جائز أما اللحية فإنه يكره حلقها والمبالغة في قصها فإذا زادت على القبضة فإن الأمر فيه سهل (فقہ المذاہب)
"داڑھی کا منڈانا اور اس کے کاٹنے میں مبالغہ کرنایہ دونوں مکروہ[4] (تحریمی) ہیں۔جب داڑھی مٹھی سے زائد ہوجائے۔تو اس(کےکٹانے) میں آسانی کردی گئی ہے۔"
فتویٰ حنفیہ:۔
"يحرم حلق لحية الرجل ويسن ألا تزيد في طولها على القبضة فما زاد على القبضة، لا بأس بأخذ أطراف اللحية"
"مرد کاداڑھی منڈانا حرام ہے اور طول میں مٹھی سے نہ بڑھنے دینا مسنون ہے۔پس جو مٹھی سے زائد ہو ،کٹائی جائے اور کناروں(دائیں بائیں جانب) سے لینے کا بھی کوئی حرج نہیں"
فتویٰ مالکیہ:۔
"يحرم حلق اللحية"
ترجمہ:"داڑھی منڈانا حرام ہے"
فتویٰ حنابلہ:۔
ويحرم حلق اللحية ولا بأس بأخذ ما زاد علي القبضة من الشعر
 (حوالہ مذکورہ)
"داڑھی منڈانا حرام ہے اور مٹھی سے زائد لینا کوئی حرج نہیں۔پس  مٹھی سے زائد کٹانا مکروہ نہیں جیسے مٹھی سے زائد چھوڑنا مکروہ نہیں اور گلے سے نیچے(نرخرہ) کے بال لینے بھی مکروہ نہیں"

2۔بودے یا انگریزی بال:۔


انسان چونکہ طبعاً آزاد ہے اور آزادی کو پسندکرتا ہے۔اس لیے اگر اس کو خواہش نفس کے مطابق کوئی شے مل جائے تو اس کو غنیمت سمجھتاہے اور بہت جلد اس کی طرف جھک جاتا ہے۔حالانکہ عقل سلیم کاتقاضا یہ ہے کہ  طبیعت پر کنٹرول کرے اور اپنا نقصان سوچے،فائدے والی جانب کو ترجیح دے اور نقصان سے بچے۔مگر ایسے بہت کم لوگ ہیں جو خواہش کو دبا کر عقل سلیم کا  تقاضا پورا کرتے ہیں حالانکہ باوقار زندگی یہی ہے اور اسی خاطر خدا تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے اور چار کتابیں اور بے شمار صحیفے اُتارے  تاکہ نفس سے  پوری جنگ ہو اور عقل سلیم کا تقاضا  پورا ہو۔کاش! من چاہے مطلب نکالنے والے مولوی درمیان میں حائل نہ ہوتے تو کسی حد تک  راستہ صاف ہوجاتا اور چلنے  والوں کو رکاوٹ نہ ہوتی۔مگر انہیں مولویوں نے جو چیز اصلاح کے لیے آئی تھی،اس کی ایسی شکل بگاڑ کر لوگوں کے سامنے  پیش کی بجائے اصلاح کے گمراہی کاباعث بن گئی۔قرآن وحدیث سے بڑھ کر کون مصلح ہوسکتا ہے مگر جب ان کے معانی اپنی رائے سے کئے جائیں تواتنی گمراہی پھیلتی ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔یہیں سے مرزائی گمراہ ہوئے اور اسی سے چکڑالویوں کو انکار حدیث کاموقعہ ملا اور اسی سے تمام اہل بدعت پھلے پھولے۔اگر قرآن وحدیث کے وہی معانی لیے جاتے جو ان بزرگوں نے سمجھے جن کی معرفت ہمیں قرآن وحدیث پہنچے ہیں توحق   پر پردہ نہ پڑتا اور مسلک اعتدال پر چلنے والوں کے لیے راستہ بالکل صاف ہوتا لیکن جب گمراہی کا نام مسلک اعتدال رکھ لیا جائے۔اور قرآن وحدیث کو موڑ تروڑ کر اس پر چسپاں کیا جائے تو ایسے موقعہ پر اپنے دین کا خدا ہی حافظ ہے۔
مولانا مودودی کے لٹریچر میں بھی اس قسم کی باتیں ملتی ہیں کہ اپنی رائے سے قرآن وحدیث کا مطلب بیان کردیتے ہیں اور جو کچھ سمجھ میں آتا ہے،لکھ دیتے ہیں اور اس پر زیادہ غور نہیں کرتے کہ پہلے بزرگوں نے کیا سمجھا اور اس پر کس طرح عمل کیا؟بلکہ کسی دوسری آیت وحدیث کے خلاف ہوجائے تو بھی  گزارہ چلا لیتے ہیں۔ایسے موقعوں پر بے جا اجتہاد سے بھی نہیں گھبراتے۔چنانچہ داڑھی کے مسئلہ کے متعلق تو قارئین کرام ان کی  رائے معلوم کرچکے ہیں کہ ذرا سانشان کافی ہے جس پر رکھنے کا لفظ بولا جاسکے۔حالانکہ یہ تشریح نہ کسی محدث ،نہ کسی فقیہ نے کی بلکہ مذکورہ بالا احادیث کے بھی خلاف ہے اور مذاہب اربعہ اور سلف کے بھی خلاف ہے۔مگر مودودی صاحب نے سب کو نظر انداز کرتے ہوئے داڑھی کو ذرا سا  نشان بنادیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔اب انگریزی قسم کے بالوں کے متعلق ان کافتویٰ سنیے:
فتویٰ مودودی صاحب:۔
"سر کے بالوں کے متعلق صرف یہ ہدایت ہے کہ کچھ مونڈنا اور کچھ رکھنا ممنوع ہے۔موجودہ زمانے میں جس قسم کے بالوں کو پنجاب میں بودے کہتے ہیں اور  جنھیں یو۔پی میں انگریزی بال کہا جاتا ہے۔ان کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل مجھے نہیں ملی۔لیکن اگر غیر مسلم کی ایجاد کردہ وضع کو سرچڑھانے میں کراہت کاپہلو ضرور ہے۔اور اسی لیے میں نے اس وضع کو بدل دیا ہے"
(رسائل ومسائل ص181۔ترجمان القرآن۔رمضان شوال 1362ھ  ستمبر اکتوبر 1943ء)
اس میں شبہ نہیں کہ کسی قوم کی خصوصی چیز لینے میں کشش ضرور ہوتی ہے۔کیونکہ پہلے انسان اس چیز کو  پسند کرتاہے،پھر لیتا ہے اور جب اس قوم کا دین ومذہب الگ ہوتا ہے  تو  پھر آہستہ آہستہ یہ چیز اس انسان کے دین ومذہب پر بُرا اثر ڈالتی ہے اورخطرہ [5]ہوتاہے۔کہ انہی میں جذب ہوجائے۔یاکم سے کم مداہن اور سست ہوجائے۔اسی بنا ء پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ  "
یعنی جوشخص کسی قوم سے مشابہت کرے ،وہ انہی سے ہے"اس کے دو معنےٰ ہیں:ایک یہ اپنے مذہب میں سست ہوتے ہوتے آخر انہی کے مذہب پر خاتمہ ہوجائے گا۔دوسرا یہ کہ قیامت کےدن حشر ان کےساتھ ہوگا۔خواہ آخر کار کسی وقت نجات ہوجائے،بہرصورت کسی قوم سے مشابہت بڑی خطرناک چیزہے۔جس میں سوء خاتمہ کا ڈر ہے یا مجرموں کے ساتھ حشر ہے۔معاذ اللہ۔
مودودی رحمۃ  اللہ علیہ  صاحب کا یہ کہنا کہ بودوں کے ناجائز  ہونے کی مجھے کوئی دلیل نہیں ملی۔یہ دوہری غلطی ہے۔ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ  سے بڑھ کر اور کون سی دلیل ہوگی؟بلکہ اس قسم کی وعید تو سخت  ممنوع ہونے کی دلیل ہے۔چنانچہ حدیث میں ہے:
من لم يأخذ من شاربه فليس منا.(مشکوٰۃ)
"جومونچھیں نہ کاٹے،وہ ہم میں سے نہیں"
من غشنا فليس منا (مشکوٰۃ)
"جو دھوکہ دے ،وہ ہم سے نہیں"
قرآن مجید میں یہودونصاریٰ کی دوستی سے منع  فرما کر یہی سنائی گئی ہے چنانچہ ارشادہے:
"وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ"
"یعنی جو اُن سےدوستی رکھے،وہ ان سے ہی ہے"
اگر اس قسم کی وعید سے ممانعت میں سختی نہ سمجھی جاتی تو پھر دوستی سے ممانعت کے بعد اس وعید کی ضرورت  نہ تھی۔اس سے صاف معلوم ہواکہ حدیث میں مَنْ تَشَبَّهَ بودوں کے ممنوع  ہونے کی زبردست دلیل ہے۔مودودی صاحب اس کامفہوم نہیں سمجھے!!علاوہ ازیں یہ تو مودودی صاحب کو بھی تسلیم ہے کہ بعض سر کا مونڈنا اور بعض سرکا چھوڑ دینا ممنوع ہے۔اور  فتح الباری جلد 10 ص300  طبع مصر میں اس حدیث پر(جس میں بعض سر مونڈنے اور بعض سر رکھنے کی ممانعت ہے) لکھاہے:
"واختلف في علة النهي فقيل : لكونه يشوه الخلقة ، وقيل لأنه زي الشيطان ،وقيل لأنه زي اليهود ، وقد جاء هذا في رواية لأبي داود"
"ممانعت کی وجہ میں مختلف قول ہیں:ایک یہ کہ یہ شکل کو بگاڑتاہے،ایک یہ کہ اس میں شیطان سے مشابہت ہے ،ایک یہ کہ اس میں یہود سے مشابہت ہے۔۔۔اور یہ تیسری وجہ ابوداود کی ایک حدیث میں بھی آئی ہے۔"
جب تیسری وجہ حدیث میں آگئی تو اس کو ترجیح ہوئی اور یہی وجہ بودوں میں بھی موجود ہے۔پس مودودی صاحب کا بعض سر مونڈنے کو ممنوع کہنا اور بودوں کے متعلق  یہ کہناکہ مجھے ان کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ملی۔عجیب قسم کی تنگ نظری ہے ،خدا اس سے بچائے!!

3۔وضع لباس


مودودی صاحب نے وضع لباس کے متعلق بھی عجیب رویہ اختیار کیاہے،فرماتے ہیں:
"لباس کے متعلق اسلام نے جس پالیسی کا تعین فرمادیاہے ،وہ یہ ہے کہ آپ ایسی وضع میں رہیں جس میں آ پ کودیکھ کر ہر شخص معلوم کرسکے کہ آپ مسلمان ہیں،بحیثیت مجموعی آپ کی وضع قطع کفار سے مشابہ نہ ہونی چاہیے۔"(مذکورہ)
بحیثیت مجموعی کامطلب یہ ہے کہ سارا لباس کفار کانہ ہو اگر ایک آدھ ہوتو اس کا کوئی حرج نہیں۔مثلا صرف  پتلون ہو یاصرف ہیٹ ہو یا اس قسم کا کوئی اور ہو تو یہ منع نہیں حالانکہ یہ بعض سرمونڈنے کی حدیث کے بالکل خلاف ہے۔کیونکہ اس میں ایک شے کو یہود کی مشابہت کی وجہ سے ممنوع قرار دیاہے۔
قارئین کرام! آپ اچھی طرح یاد رکھیں کہ مجموعی حیثیت کا کسی حدیث میں نام ونشان نہیں ۔یہ محض مودودی صاحب کا اضافہ ہے۔حدیث مَنْ تَشَبَّهَ مطلق ہے۔خواہ ایک بات میں مشابہت ہو یا زیادہ میں ،سب کو شامل ہے۔
پھر یہ بھی مودودی صاحب کا عجب اجتہاد ہے جو  فرماتے ہیں کہ آپ ایسی وضع میں رہیں کہ  آپ کو دیکھ کر ہر شخص معلوم کرسکے کہ آ پ مسلمان ہیں۔گویاکفار سے مشابہت اس لیے منع نہیں کہ اس میں سوء خاتمہ  کاخطرہ ہے یا قیامت کے دن کفارکے ساتھ حشر کا ڈر ہے بلکہ صرف اس لیے منع ہے کہ مسلمان کاکفار سے امتیاز ہوسکے۔اگر مشابہت ہوگی تو پھر دیکھنے والا امیتاز نہیں کرسکے گا۔اس بناء پر حدیث میں مشابہت کامعنی یہ ہوا کہ جو مجموعی حیثیت سے کفار سے مشابہت رکھے یعنی ان کی  پوری وضع قطع اختیار کرے ،وہ ان سے ہے یعنی دیکھنے و الا یہی سمجھے گا  کہ یہ کفار سے ہے۔
اس معنی کی رو سے یہ حدیث بالکل بیکار سی ہوکر رہ جاتی ہے کیونکہ یہ تو ہر شخص جانتاہے کہ جب کسی کی پوری وضع اختیار کی جائے تو امتیاز مشکل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کے بیان کرنے ک کیا ضرورت تھی؟بلکہ آپ کامقصد توڈرانا ہے کہ آہستہ آہستہ کہیں خاتمہ خراب نہ ہوجائے یا قیامت کے دن کفار کے ساتھ حشر نہ ہوجائے ،اور یہ خطرہ بعض باتوں  میں مشابہت میں بھی ہے اور مجموعہ میں بھی چنانچہ اوپر تفصیل ہوچکی ہے لیکن مودودی صاحب کی جدت طبع نے حدیث کو بیکار کرکے رکھ دیاہے۔اللہ انھیں صحیح راستے کی طرف راہنمائی  فرمائے۔آمین!

4۔ٹخنوں کے نیچے شلوار وغیرہ


یہ مسئلہ بھی اکثر زیر بحث رہتا ہے۔کہ ٹخنوں کے نیچے تہ بند وغیرہ کا کیاحکم ہے۔نیل الاوطار ،جلد اول طبع مصر ص 410 میں بحوالہ مسلم ،ابو داود،ترمذی ،نسائی،ابن ماجہ ایک حدیث ذکر کی ہے۔جس کے  راوی ابو ذر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں،اس کے الفاظ یہ ہیں:
"عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال ثلاثة لا يكلمهم الله ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم قلت من هم يا رسول الله قد خابوا وخسروا فأعادها ثلاثا قلت من هم يا رسول الله خابوا وخسروا فقال المسبل والمنان والمنفق سلعته بالحلف الكاذب أو الفاجر"
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں :تین شخص ہیں،قیامت کے دن خدا اُن سے نہ کلام کرےگا ،نہ ان کی طرف نظرکرے گا،نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں،میں نے کہا:یارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  وہ کون ہیں؟وہ تو بہت نامراد اور خسارے والے ہیں۔آپ نے تین بار اپنی بات کو دہرایا،میں نے پھر پوچھا وہ کون ہیں؟فرمایا:(1) کپڑا لٹکانے والا،(2) احسان کرکے احسان جتانے والا،(3) جھوٹی قسم یا فسق وفجور قسم کھا کر اپنی شے فروخت کرنے والا،
بعض احادیث میں یہ الفاظ آئے ہیں:
"عن ابى هريرة ان رسول الله صلي الله عليه وسلم لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَى الَّذِي يَجُرُّ إِزَارَهُ بَطَرًا"(مشکوۃ وغیرہ)
"جو تکبر سے تہ بند لٹکائے،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر عنایت نہیں کریں گے"
اس سے آزادخیال یہ سمجھتے ہیں کہ تکبر نہ ہو تو پھرٹخنوں سے نیچے تہ بند وغیرہ کا کوئی حرج نہیں۔اور بعض لوگ صرف نماز کے وقت کپڑا اونچا کرلیتے ہیں،نماز سے باہر نیچے رکھتے ہیں۔گویاان کے نزدیک صرف نماز میں ممانعت ہے،آگے  پیچھے نہیں۔حالانکہ یہ دونوں خیال غلط ہیں۔ممانعت نہ تکبر کے ساتھ خاص ہے۔نہ نماز کے ساتھ۔تکبر کا ذکر حدیث میں صرف زیادہ برائی ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ورنہ ویسے بغیر تکبر کے) بھی احادیث میں ممانعت آئی ہے۔چنانچہ نیل الاوطار ،جلد اول ،ص 409،میں اور عون الباری ص294میں  بحوالہ طبرانی ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ذکر کی گئی ہے کہ:
"عمرو بن زراہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کاتہہ بند ٹخنوں سے نیچے تھا،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے  پاس معذرت کی :میری پنڈلیاں باریک ہیں،اس لیے میں  ٹخنوں سے نیچے تہہ بند رکھتا ہوں تاکہ بُری معلوم نہ ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"يا عمرو إن الله قد أحسن كل شيء خلقه، يا عمرو إن الله لا يحب المسبل"
"اے عمرو!خدا نے جو پیدا کیا اچھا کیا،اےعمرو! خداتہ بندلٹکانے والے کو دوست نہیں  رکھتا"
اس سےمعلوم ہوا کہ تکبر کے بغیر بھی ٹخنوں سے نیچے تہہ بند لٹکانا جائز نہیں۔
مشکواۃ کتاب اللباس،ص266 میں ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں:
" إزرة المؤمن[6] إلى أنصاف ساقيه لا جناح عليه فيما بينه وبين الكعبين ما أسفل من ذلك ففي النار ما أسفل من ذلك ففي النار لا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر إزاره بطرا"
"مومن کاتہہ بند نصف پنڈلی تک ہے اور ٹخنوں تک بھی مومن پر کوئی گناہ نہیں جو ٹخنوں سے نیچے ہے وہ آگ میں ہے اور خدا قیامت کے دن اس شخص کی طرف نہیں دیکھے  گا جو تہہ بند  تکبر سے لٹکائے"
اس حدیث میں دو وعیدیں ہیں:ایک یہ کہ ٹخنوں سے نیچے تہہ بندآگ کاسبب ہے،دوسرا یہ کہ جو تکبر سے تہہ بند لٹکائے،اس پر خدا اتنا ناراض ہے کہ اس کو د یکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔
پہلی وعید ہلکی ہے کیونکہ ہر گناہ(صغیرہ /کبیرہ) آگ کا باعث ہے۔آگے خواہ کسی وجہ سے معاف ہوجائے یا نہیں۔جبکہ دوسری وعید بڑی سخت ہے۔قرآن مجید میں یہ وعیدان کے حق میں آئی ہے جو کتاب اللہ چھاتے ہیں،جھوٹے مسائل پھیلاتے ہیں،غداریاں کرتے ہیں اور دنیاوی مفاد کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں،چنانچہ پارہ 2 رکوع 4 اور پارہ 3 ر کوع 16 میں اسی کابیان ہے۔اسی طرح تکبر سے تہہ بند لٹکانا بھی ایسی ہی چیزہے جس پر خدا کا غضب جوش میں آجاتا ہے۔
مشکواۃ کے اسی باب میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ہے کہ:
"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں کہ ایک شخص تکبر سے تہہ بندلٹکائے جارہاتھا۔خدا نے اس کو زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ دھنستے چلا جاریا ہے۔"(بخاری)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا ہر صورت میں منع  ہے۔خواہ تکبر ہو یا نہ۔صرف فرق اتنا ہے کہ تکبر کی صورت میں وعید سخت ہے۔
اورابو داود نسائی میں ایک حدیث ہے جس کے یہ الفاظ ہیں:
"وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الإِزَارِ ،فَإِنَّهُ مِنَ الْمَخِيلَةِ ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ ،"
"تہہ بند لٹکانے سے خود کو بچا کیونکہ یہ تکبر سے ہے اور تکبر کو خدا پسند نہیں رکھتا"
اس حدیث میں لٹکانے کانام تکبر رکھا ہے۔اس بنا پر ہر قسم کا لٹکانا تکبر ہوا۔مگر ایک اور حدیث سے(جو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے) معلوم ہوتاہے کہ دیدہ دانستہ لٹکائے تو تکبر ہے۔بےخیالی یا غفلت سے ہوجائے تو یہ تکبر نہیں۔چنانچہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جو تکبر سے تہہ بند لٹکائے،خدا قیامت کے دن اس کی طرف نظر نہیں کرے گا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا:
"يا رسول الله صلي الله عليه وسلم  إزاري يسترخي إلا أن أتعاهده فقال ( إنك لست ممن يفعله خيلاء"
(رواہ البخاری،مشکوۃ کتاب للباس فصل 3 ص368)
"یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ! میراتہہ بند ڈھیلا ہوکر لٹک جاتاہے مگر یہ کہ ہر وقت اس کا  خیال رکھوں اور نگرانی کروں۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا کہ تو ان لوگوں سے نہیں جو تکبر سے کرتے ہیں"(یعنی تیرا یہ فعل متکبرانہ نہیں کیونکہ تودیدہ دانست نہیں کرتا)
امام شوکانی رحمۃ  اللہ علیہ  نیل الاوطار میں اور نواب صدیق حسن خاں مرحوم عون الباری میں لکھتے ہیں کہ:
"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان:" فَإِنَّهُ مِنَ الْمَخِيلَةِ  "یعنی یہ لٹکانا تکبر ہے"
یہ اکثر کے لحاظ سے ہے ورنہ بعض دفعہ ایک شخص تہہ بند لٹکاتا ہے ۔اور اس کے دل میں تکبر کاخیال تک نہیں ہوتا۔ توایسے شخص کے حق میں متکبر والی وعید نہیں،مگر اس کے بُر ا ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ دل میں اگرچہ تکبر نہ ہو لیکن فعل تو متکبرانہ ہے۔اسی بناء پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمرو بن زراہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو ٹخنوں سے نیچے تہہ بند لٹکانے سے منع فرمایا۔حالانکہ وہ تکبر سےنہیں کرتے تھے بلکہ پنڈلیوں کوڈھکنے کے لیے کرتےتھے"
بہرصورت لٹکانا خطرہ سے خالی نہیں جولوگ اس میں بے پروائی کرتے ہیں،ان کو خدا سے ڈرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہدایت دے،آمین! آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین(تحریری شدہ:مئی 1957ء)


[1] ۔اگر کہا جا ئے کہ داڑھی کو سنت کہا جا تا ہے تو اس کا منڈانا فسق کس طرح ہوا۔اس کا جواب یہ ہے کہ سنت کے کئی معنی ہیں ایک (اصول فقہ کی اصطلاح کے طور پر) فرض واجب کے مقابلہ میں جہاں سنت سے امر مستحب مراد لیاجا تا ہے اور ایک وہ طریقہ رسول جو فرض واجب کو شامل ہے یعنی اس کا مقصد صرف نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک عمل بتانا ہو تا ہے یہاں دوسرامعنی مراد ہے۔
[2] ۔مولانا کی یہ رائے اصل میں حدیث رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو حتمی اہمیت نہ دینے کے رجحان کا شاخسانہ ہے کیونکہ اس موضوع پر بھی وہ احادیث رسول سے داڑھی کی صفت طے کرنے کی بجائے عام محاورے اور استعمال سے دارھی کی مقدار کا یقین فرما رہے ہیں جبکہ کسی شرعی مسئلہ کی وضاحت اگر نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبانی موجود ہو تو سب سے زیادہ وہ وضاحت نبوی اس امر کی حقدار ہے کہ اس کی بنیادپر مسئلہ کی نوعیت سمجھی جائے نہ کہ لغوی استعمالات یا رواجی مفہومات جیسا کہ زیر نظر مسئلہ میں بھی اس بارے میں حدیث میں پانچ واضح قسم کے الفاظ ملتے ہیں جدید تعلیم یا فتہ طبقے میں حدیث نبوی کے بارے میں یہی رجحان قابل اصلاح ہے ۔مسلمان کی ذاتی سوجھ بوجھ معاشرتی رواجاتاور لغوی امکانات حدیث نبوی  سے بر تر ہونے کی بجائے اس کے تابع ہونے چاہئیں ۔(حسن مدنی)
[3] ۔عطاء تابعی کی طرف سے اس قول کی نسبت میں کچھ تردد ہے جو  فتح الباری جلد 10،ص 288 سطر 17 تا سطر 27 کی عبارت دیکھنے سے واضح ہوتا ہے۔
[4] ۔جب مطلق مکروہ آئے تو  حرام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔جیسے قرآن مجید میں:  كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيِّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا 
[5] ۔ہاں جو چیز رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہنی ہو جیسے رومی اچکن یا آ پ نے پسند کی ہو جیسے  پاجامہ تو اس میں یہ خطرہ نہیں کیونکہ اس کو مسلمان  بحیثیت اتباع نبوی اختیار کرے گا جو اُن سے محبت کی علامت ہے جو عین منشا اسلام ہے اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ رومی اچکن سارے عرب کا ملکی لباس بن گیا ہو جیسے یمنی حلہ اور اسی بنا پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہنی تو اس صورت  میں بھی کوئی خطرہ نہیں۔اور یہ بھی      ہوسکتا ہے  کہ رومی اچکن سے مراد اس کے بنانے والاہو یا اسکا کپڑا رومی ہو جیسے حدیث میں آیاہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی انگوٹھی کا نگینہ حبشی تھا۔بہت سے شارحین نے اس کا معنی یہ کیا ہے کہ اس نگینہ کا پتھر یا اس کے بنانے والا یانقش تیار کرنے والا حبشی تھا۔اس صورت میں بھی  رومی کہنے سے کفار کا وہ خصوصی لباس ثابت نہیں ہوتا جس پر مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ  کی ذد پڑتی ہو۔(محدث روپڑی رحمۃ  اللہ علیہ )
[6] ۔ایک روایت میں ازرۃ المسلم بھی ہے۔