پاکستانی این جی اوز کی آئین سے محبت....

پاکستانی این جی اوز کے راہنماؤں پر اچانک یہ حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ موجودہ حکومت غیر آئینی وغیر قانونی ہے پاکستان این جی اوز فورم کے مرکزی راہنماؤں نے ،سنگی فاؤنڈیشن کے راہنماؤں کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این جی اوز میں کام کرنے والے افراد جو وزیر بن گئے ہیں ان کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا کیونکہ ملک کی تین ہزار نمائندہ این جی اوزاس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ حکومت غیر آئینی ہے جسے عوام کا کوئی ،مینڈیٹ ،حاصل نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے این جی اوز کے خلاف دباؤ بہت بڑھ گیاہے۔(روز نامہ نوائے وقت : یکم ستمبر 2000ء)
جنرل پرویز مشرف کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان میں این جی اوز کی اچھل کود اور آؤ بھگت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ۔فوجی حکومت نے آتے ہی وفاقی اور صوبائی کابینہ میں این جی اوز کے متحرک افراد کو وزارتیں دے دیں عمر اصغر خان عطیہ عنایت اللہ جاوید جبار زبیدہ جلال شاہین عتیق الرحمٰن اور چند دیگرخواتین و حضرات دیکھتے ہی دیکھتے فوجی حکومت کے نفس ہائے ناطقہ بن گئے حکومت کے دیگر روشن خیال وزراء کی رفاقت سے این جی اوزبرانڈ  وزراکو مزید روحانی تقویت ملی۔
جنرل پرویز مشرف نے مصطفیٰ کمال اتاترک کو جب اپنا آئیڈیل کہا تو این جی اوزکی ان کے متعلق خوش اعتقادی کا گراف آسمان کو چھونے لگا۔ انھوں نے پاکستان میں کمال ازم کے عملی نفاذ کے لیے درجہ بہ درجہ منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا۔ کئی ماہ تک این جی اوزکے انگریزی گپ باز دانش بازوں نے چیف ایگزیکٹیو کے گرد اپنا روشن خیال حلقہ قائم کئے رکھا حکومت کو یقین دلایا گیا کہ این جی اوز   دیگر سیاسی جماعتوں کے متبدل کے طور پر خدمات انجام دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ لہٰذا حکومت کو نہ تو کرپٹ سیاست دانوں سے بات کر نے کی ضرورت ہے اور نہ رجعت پسند مولویوں کو منہ لگانے کا فائدہ ہے اس ملک کی ترقی اور خوش حالی کا اگر کوئی ترقی پسندانہ ماڈل ہے تو اس کو عملی جامہ صرف اور صرف این جی اوز   کے روشن دماغ ہی پہنا سکتے ہیں اصلاحات کے نام پر تہذیب مغرب کے غیر محسوساًنہ نفاذ کے پھندے تیار کئے جانے لگے۔ عوامی سطح پر اختیارات کی تقسیم کا ایک دل فریب نقشہ پیش کیا گیا چیف ایگز یکٹیو کو بریف کیا گیا کہ رجعت پسند مذہبی طبقہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے جب تک اس کا اثر ورسوخ کم نہیں کیا جا تا ،نتائج کا حصول ممکن نہیں ہے ۔قانون توہین رسالت (295سی)کے خاتمے کے لیے نئے سرے سے مہم شروع کی گئی حکومت پردباؤ ڈالا گیا کہ یہ قانون اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کرتا ہے اور یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے( نعوذ باللہ ) حکومت کی طرف سے جلد ہی اعلان کردیا گیا کہ قانون توہین رسالت کے تحت مقدمات کے اندراج سے پہلے متعلقہ ڈپٹی کمشز کی اجازت لینا ضروری ہو گا ۔ اسلامی و دینی جماعتیں جو میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے پر قدرے سکھ کا سانس لے رہی تھیں اورجو جنرل پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی سے مطمئن تھیں انھیں این جی اوز کی خطرناک پیش قدمی کا اس وقت احساس ہوا جب ناموس رسالت کا تحفظ غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہوگیا جلد ہی دینی جماعتیں ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے میدان میں نکل آئیں ۔ بالآخر چیف ایگز یکٹیو کو 16/ مئی کو اعلان کرنا پڑا کہ حکومت نے دینی جماعتوں کی رائے کے احترام میں 295۔سی کے تحت مقدمات کے اندراج کے سابقہ طریقہ کار کوبحال  کردیا ہے۔ اسلام، دشمن این جی اوز   کے عزائم خاک میں مل گئے غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور پاکستان کے انگریزی پریس نے چیف ایگزیکٹیوکو اس ،پسپائی، پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام تراشی کی کہ وہ ملاؤں کو خوش کرنے کے لیے انسانی حقوق کے ایجنڈے سے رو گردانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

295۔سی کے خاتمے کے تعلق مایوسی کے بعد دینی مدارس پرجارحانہ یلغار کی گئی ۔امریکی وزرات خارجہ جو این جی اوز کے عالمی نیٹ ورک کے لیے ایجنڈ اور پروگرام مرتب کرتی ہے کے سینئر عہد یداروں کی طرف سے حکومت پاکستان پر دباؤڈالا گیا کہ وہ دینی مدارس پر پابندی عائد کریں کیونکہ یہ دہشت گردی کے اڈے ہیں سی این این ،بی بی سیاور دیگر ذرائع ابلاغ نے جہاد کو دہشت گردی کا نام دے کر پراپیگنڈے کا طوفان کھڑا کر دیا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹر پامیلا کانسٹیبل نیوریارک ٹائمز کے نمائندہ اور دیگر مغربی صحافیوں کے ایک گروہ پاکستان میں وارد ہوا۔ ان صحافیوں نے مختلف دینی مدارس مثلاً دالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے دورے کئے اور وہاں مذہبی راہنماؤں (مثلاً  مولانا سمیع الحق ) کے انٹرویو کئے ۔ واپس پہنچنے پر تہلکہ خیز اور شر انگیزمضامین شائع کئے، پاکستان کےانگریزی پریس نے ان کے خیالات کو خوب ہوادی۔ نیویارک ٹائمز کے نمائندے نے 11جون 2000ء کو پاکستان کے وزیرداخلہ جناب معین حیدر کا انٹرویو بھی شائع کیا جس میں ان سے من جملہ دیگر باتوں کے یہ بیان بھی منسوب کیا گیا کہ پاکستانی حکومت عنقریب دہشت گردی پھیلانے والے دینی مدارس پر پابندی عائد کرنے کا قانون لائے گی۔ پاکستانی این جی اوز   کی بیگمات نے بھی دینی مدارس کے خلاف توہین آمیز پراپیگنڈہ شروع کردیا ۔ مگراب چیف ایگز یکٹیو کی آنکھیں کھل چکی تھیں حکومتی ایجنسیوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات  کے بعد حکومت کو اعلان کرنا پڑا کہ پاکستان کے دینی مدارس کی 99،99فیصد تعداد کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں ہے جنرل پرویز مشرف نے بھی واضح طور پر بیان دیا کہ جہاد دہشت گردی میں فرق ہے یہی بات انھوں نے پاکستان میں کلنٹن سے گفتگو کے دوران بھی کہی۔

اسی دوران میں عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں این جی اوز کی بیگمات کا یک وفد بھارت روانہ ہو گیا ۔ قیام امن کے پردے میں ان بے حیا عورتوں نے وہاں جو گل کھلائے  پاکستان کے محب وطن پریس نے اس کا خوب نوٹس لیا۔ این جی اوز   کی یہ بیگمات جب کککلی ڈالتے اور امن کے گیت گاتے پاکستان واپس پہنچیں تو پاکستانی پریس میں اپنے متعلق خبروں کی اشاعت دیکھ کر حواس باختہ ہو گئیں۔اسی دوران میں مذہبی جماعتوں کے سر کردہ راہنماؤں کی جانب سے این جی اوز کی اسلام دشمن سرگرمیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا مولانا فضل الرحمٰن نے این جی اوز   کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے اپنے بیانات میں حکومت سے متواتر یہ مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچانے والی این جی اوز پر پابندی عائد کرے۔جمعیت علمائے پاکستان کے سر براہ نے بھی این جی اوز  کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا مولاناسمیع الحق ڈاکٹر اسرار احمد مولانا اعظم طارق پرو فیسر ساجد میراور دیگر مذہبی راہنماؤں نے این جی اوز   کی خطرناک سر گرمیوں پر سخت تنقیدی بیانات جاری کئے دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان میں این جی اوز   کے خلاف فضا قائم ہو گئی ۔ این جی اوز   جو دینی مدارس کے خلاف محاذ بر پا کئے ہوئے تھیں۔انہیں ایک لخت دفاعی پوزیشن سنبھالنا پڑی،جون کے آخری ہفتہ میں اسلام آباد میں 2500، این جی اوز   کے نمائندوں کا اکٹھ ہوا۔ این جی اوز   کے عاقبت نااندیش ہر کار ے جو پاکستان میں کسی اتاترک کے ہاتھوں مذہبی راہنماؤں کی ننگی۔پیٹھ پر کوڑے پڑنے اور دینی مدارس پر پابندی لگنے کے خواب دیکھ رہے تھے اسلام آبادمیں حکومت سے التجا کرتے ہوئے پائے گئے کہ وہ مذہبی دہشت گردوں کے مقابلے میں انہیں تحفظ فراہم کرے۔ اسی اجلاس میں این جی اوز   فورم قائم کیا گیا ۔

اب وہ اپنی ہر پریس کانفرنس میں رعب ڈالنے کے لیے 3000 این جی اوز   کے اعداد کا ذکرضرور کرتے ہیں ۔نفسیاتی طور پر حواس باختہ این جی اوز   کے افراد کو شاید یہ علم نہیں ہے کہ 3000 این جی اوز ایک سو مجاہدین کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں وہ جس طرح متصادم اور محاذ آرائی کوبڑھا رہے ہیں اس سے امن  عامہ کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

قارئین کرام:! این جی اوز   کے راہنماؤں نے اگر فوجی حکومت پر ایک طویل عرصہ کے بعد "غیر آئینی "ہونے کا فتویٰ صادر کیا ہے تو اس کا اصل پس منظر وہی ہے جو مذکورہ بالا سطور میں بیان کیا گیا ہے اصل بات یہ نہیں ہے کہ چونکہ فوجی حکومت کو عوامی مینڈمیٹ حاصل نہیں ہے اسی لیے این جی اوز کے نزدیک یہ غیر آئینی وغیر قانونی ہے۔ اگر یہی بات اس حکومت کے غیر آئینی ہونے کااصل سبب ہوتی تو گزشتہ گیارہ ماہ میں یہ فتویٰ صادرکیوں نہیں کیا گیا ؟جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے 295۔سی کا پرانا طریقہ بحال کردیا اور دینی مدراس پر پابندی عائد کرنے سے معذرت کردی ،۔مذہبی راہنماؤں سے ملاقاتیں شروع کردیں یہ اعلان کردیا کہ پاکستان سیکولر ریاست نہیں ہےاور جب یہ وضاحت کردی کہ جہاد اور دہشت گردی میں فرق ہے تو اچانک این جی اوز   کے مفاد پرستوں اور یہود و ہنود کے ایجنٹوں کو یہ خیال آیا کہ موجودہ حکومت غیر آئینی ہے جنرل پرویز مشرف صاحب کانجانے این جی اوز   کے تازہ  ترین فتویٰ پر کیا ردعمل ہو گا۔ شاید وہ پکاراٹھیں ۔ع۔جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے!

اور این جی اوز   کے راہنماؤں پر تویہ مصر عہ کیا ہی خوب صادق آتا ہے ۔

ہائے اس زود پشماں ہونا!!

 این جی اوزکے راہنماؤں کے بیان کا مضحکہ خیز حصہ وہ ہے جس میں انھوں نے این جی اوز برانڈ وزراء سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے حیرت یہ ہے کہ اس پریس کانفرنس میں سنگی فاؤنڈیشن کے نمائندے بھی موجود تھے سنگی فاؤنڈیشن عمر اصغر خان کی این جی اوزہے عمر اصغر خان نے زمانے کو دکھانے کے لیے سنگی فاؤنڈیشن سے اس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب انھوں نے وزرات کاقلمدان سنبھالا۔ مگر کوئی احمق ہی اس بات پر یقین کرے گا۔ کہ وہ سنگی فاؤنڈیشن سے بالکل لاتعلق ہو گئے ہیں ۔ سنگی فاؤنڈیشن عمر اصغر خان کے بغیر کچھ ہے اور نہ ہی عمراصغر خان کی سنگی فاؤنڈیشن کے علاوہ کوئی اور شناخت ہے واقفان حال کو اچھی طرح معلوم ہے کہ سنگی فاؤنڈیشن کے کاغذات میں چیئرمین نہ ہونے کے باوجود اصلی چیئرمین عمر اصغر خان ہی ہیں وزراء میں متحرک ترین وزیرعمر اصغر خان ہیں وہ نہ صرف این جی اوزکی مسلسل سر پرستی کر رہے ہیں بلکہ حکومتی ایوانوں میں این جی اوز کی جنگ بھی لڑرہے ہیں واقفان حال کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کا سر کاری دفتر این جی اوز کے کارکنان کے قبضہ قدرت میں ہے عمراصغر خان کی طرف سے اخبارات میں این جی اوز کی حمایت میں کثرت سے بیانات شائع ہوتے رہتے ہیں 28مئی کو اسلام آباد میں پاکستان دشمن این جی اوز کی بیگمات نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف جب جلوس نکالا تو اس میں عمراصغر خان کی قادیانی بیگم صاحبہ بھی شریک تھیں لاہور سے این جی اوز کے متحرک راہنما تحسین اور عرفان مفتی جن کا تعلق ساؤتھ ایشین یا رٹنرشپ سے ہے کے عمراصغر خان سے قریبی رابطے ہیں۔عمراصغرخان این جی اوز کی اس مجلس عاملہ کے اہم رکن رہے ہیں جسے عاصمہ جہانگیرنے اسلام آبادمیں قائم کر رکھا ہے اسی طرح جاوید جبار صاحب کا بھی این جی اوز سے قریبی رابطہ ہے۔

قابل اعتماد ذرائع کے مطابق چند ہفتے قبل اسلام آباد میں اصغر خان اور جاوید جبار کی موجود گی میں این جی اوز اور فورم کے نمائندوں کا ہم اجلاس ہوا جس میں مذکورہ وزرانے یقین دلایا کہ وہ ہر صورت میں این جی اوز کے مفادات کا تحفظ کریں گے ورنہ اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔ ان حالات میں این جی اوز کے راہنماؤں کی طرف سے وزرا سے لاتعلقی کا اظہارایک پر فریب حکمت عملی سے زیادہ نہیں ہے شاید یہ پالیسی لائن انہیں وزرا کی طرف سے دی گئی ہے تاکہ وہ یہ ڈھونگ رچا سکیں کہ این جی اوز سے ان کا کو ئی تعلق نہیں ہے۔

پاکستانی این جی اوز کی آئین پاکستان سے وابستگی اور محبت کی حقیقت بیان کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہےآئین پاکستان کے آٹیکل 2کی روسے اسلام پاکستان کا سر کاری مذہب ہے مگر ان نام نہاد غیر سر کاری تنظیموں کا غیر سر کاری مذہب اسلام دشمنی ہے۔ پاکستانی این جی اوز کے راہنماؤں کو آئین پاکستان کے صرف دو تین آرٹیکل یاد ہیں مثلاً آرٹیکل نمبر4،آرٹیکل نمبر8اور آرٹیکل نمبر25،جن میں مساوی حقوق اور عورتوں کے حقوق کا ذکر ملتا ہے وہ ایسے  تمام آرٹیکل پر یقین نہیں رکھتے جن میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اسلام یا اسلامی قوانین کی بالا دستی کا ذکر ملتا ہے آرٹیکل 227جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے تمام مروجہ قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالا جا ئے گا کو یہ سخت ناپسند کرتے ہیں عاصمہ جہانگیر اپنے بیانات میں آرٹیکل 62،63،کا بارہا مذاق اڑا چکی ہے کیونکہ اس میں عوامی نمائندوں کے لیے اسلامی معیارات کی بات کی گئی ہے۔ این جی اوز پاکستانی آئین میں سے وفاقی شرعی عدالت کے باب کو نکالنے کا مطالبہ کرتی ہیں یہ این جی اوز آرٹیکل 6کے نفاذ کو بھی بھول جاتی ہیں اگر پاکستان کے آئیں کی روشنی میں این جی اوز کی سر گرمیوں کا جا ئزہ لیا جا ئے تو یہ یقیناً غیر آئینی قرارپائیں گی کیونکہ آئین میں نظر یہ پاکستان کے منافی سر گرمیوں کی گنجائش نہیں  ہے۔این جی اوز انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادیوں کے علاوہ جمہوری اقدار کے فروغ کا بہت واویلا کرتی ہیں جمہوری آزادیوں کے تحفظ کے لیے ماضی میں آئے دن این جی اوز جلوس نکالتی رہتی تھیں مگر موجودہ حکومت کے دور میں این جی اوز نے جمہوریت کی بحالی کے لیے کوئی جلوس نہیں نکالا ۔عاصمہ جہانگیر کا انسانی حقوق کمیشن بھی اس معاملہ میں خاموش ہے!!

مذہبی جماعتوں کو این جی اوز پر اپنا دباؤ مزید بڑھانا چاہئے تاکہ انہیں اسلام دشمن سر گرمیاں جاری رکھنے کے آزادانہ مواقع میسر نہ آسکیں ۔ چیف ایگزیکٹیوجنرل پرویز مشرف صاحب کو بھی ان مفاد پرست قوتوں کا اصل چہرہ اب نظر آگیا ہو گا انہیں چاہئے کہ وہ این جی اوز کے نمائندوں کو حکومتی عہدوں سے فارغ کر کے صحیح معنوں میں عوام کے حقیقی نمائندوں اور محب وطن افراد کو شریک اقتدار کریں۔(محمد عطاء اللہ صدیقی )