مؤمن نرم و نازک کھیتی کی مانند ہے ، شرح حدیث
کتابچہ"غاية النفع في شرح حديث تمثيل المؤمن بخامة الزرع"کااردو ترجمہ
عرض مترجم:۔اللہ تعالیٰ ا پنے بندوں کو دنیا میں وقتاً فوقتاً مختلف اندازوں سے آزماتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر اس قسم کے حالات آئیں تو صبر سے کام لینا چاہیے،اسی سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔بے صبری کا مظاہرہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ انسان پر جب کوئی مصیبت،دکھ اور پریشانی آئے تو اس سے انسان کے گناہ معاف اور درجات بلند ہوتے ہیں حتیٰ کہ اگر انسان کو ایک کانٹا چبھے تو یہ بھی انسان کی خطاؤں کی معافی اور بلندی درجات کا سبب بنتاہے۔
امام زین الدین ابو الفرج عبدالرحمان بن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس کتابچہ میں اسی موضوع کو زیر بحث لائے ہیں۔اسے پڑھ کر سبق ملتاہے کہ مصائب وآلام تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں کے لیے رحمت کا ذریعہ ہیں۔بیماری دکھ اور پریشانی وغیرہ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔کوئی بندہ جس قدر اللہ تعالیٰ کا مقرب ہو،اس کی آزمائش بھی اسی قدر ہوتی ہے۔موضوع کی اہمیت کے پیش نظر راقم نے سلیس اردو زبان میں اس کا ترجمہ کیا ہے تاکہ اردو خواں طبقہ بھی اس کے مطالعہ سے مستفید ہوسکے۔دعا ہے کہ اللہ کریم اس تحریر کو برادران اسلام کے لیے مفید ونافع بنائے اور اس کے مصنف اور مترجم کو اپنی رحمت سے نوازے۔آمین!
مصائب وآلام۔۔۔رحمت یا زحمت؟
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بروایت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کیا ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" مَثَلُ المُؤْمِنِ كَمَثَلِ الخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ، مِنْ حَيْثُ أَتَتْهَا الرِّيحُ كَفَأَتْهَا، فَإِذَا اعْتَدَلَتْ تَكَفَّأُ بِالْبَلاَءِ، وَالفَاجِرُ كَالأَرْزَةِ، صَمَّاءَ مُعْتَدِلَةً، حَتَّى يَقْصِمَهَا اللَّهُ إِذَا شَاءَ."(صحیح بخاری)
"مومن کی مثال لہلہاتی ہوئی نرم ونازک کھیتی کی مانندہے،کسی طرف سے بھی آنے والی ہوا اسے جھکا دیتی ہے،جب وہ سیدھی ہوتی ہے تو اسے دوبارہ کسی مشکل اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے برعکس فاجرآدمی کی مثال صنوبر کے سیدھے اور مضبوط درخت کی مانند ہے(جو ہواکے جھونکوں سے سرنگوں نہیں ہوتا بلکہ) اللہ جب چاہے اسے اکھاڑ پھینکتا ہے"
صحیحین ہی میں کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الْخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ، تُفِيئُهَا الرِّيحُ، تَصْرَعُهَا مَرَّةً وَتَعْدِلُهَا أُخْرَى، حَتَّى تَهِيجَ، وَمَثَلُ الْكَافِرِ كَمَثَلِ الْأَرْزَةِ الْمُجْذِيَةِ عَلَى أَصْلِهَا، لَا يُفِيئُهَا شَيْءٌ، حَتَّى يَكُونَ انْجِعَافُهَا مَرَّةً وَاحِدَةً."
"مومن کی مثال نرم ونازک کھیتی کی مانندہے جسے ہوا ادھر اُدھر جھکاتی اور کبھی اسے سیدھا کرتی رہتی ہے اور منافق کی مثال مضبوط تنے والے صنوبر کی مانند ہے جو ایک ہی دفعہ جھک کرگرپڑتا ہے"
اس مفہوم کی حدیث امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بروایت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام بزار رحمۃ اللہ علیہ نے بروایت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کی ہے۔ان احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کے جسمانی طور پر ابتلاء وآزمائش میں مبتلا ہونے کو نرم ونازک کھیتی سے تشبیہ دی ہے جسے ہوا کبھی دائیں اور کبھی بائیں جھکاتی رہتی ہے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کو سخت اور مضبوط تنے و الے درخت سے تشبیہ دی ہے جسے معمولی ہوا ہلا جلا نہیں سکتی البتہ جب ہوا تندوتیز ہو تو اسے یکبارگی اکھاڑ پھینکتی ہے۔
مومن کو اس دنیا میں جسمانی طور پر مختلف عوارض میں مبتلا کئے جانے پر اس حدیث میں فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اس سے اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔اس کے برعکس ایک گناہگار اور منافق شخص جس پر زیادہ آزمائش نہیں آتی وہ اپنے تمام گناہوں اور خطاؤں سمیت اللہ کے ہاں پہنچتا ہے۔اور ان اعمال کی جزا اور بدلہ کاسزاوار ہوتا ہے۔یہ تکالیف اور مصائب اہل ایمان کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں،اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں۔۔۔
1۔چنانچہ صحیحین میں ہے:
"عن عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َقَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ مُصِيبَةٍ تُصِيبُ الْمُسْلِمَ إِلا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا عَنْهُ حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا "
"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" مومن کو کوئی بھی تکلیف پہنچے خواہ اسے کانٹا ہی چبھے تو اللہ تعالیٰ اس تکلیف کے بدلے میں اس کے گناہوں کابوجھ ہلکا کردیتا ہے"
2۔صحیحین ہی میں بروایت عطاء بن یسار مروی ہے:
فعن أبي سعيد وأبي هريرة -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "ما يصيب المسلم من نَصَب، ولا وَصَب، ولا هم، ولا حزن، ولا أذى، ولا غم، حتى الشوكة يشاكها إلا كفر الله بها من خطاياه"
"ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کو کوئی بھی بیماری،تکلیف،تھکاوٹ،غم،پریشانی یا ایذا وغیرہ لاحق ہوحتیٰ کہ اگر اسے کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالیٰ اس تکلیف کے عوض اس مومن کے گناہ معاف کردیتا ہے"
3۔صحیحین ہی میں روایت ہے:
"عن ابن مسعودرضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال:وما من مسلم يصيبه اذي الا حاتت عنه خطاياه كما تحات ورق الشجرة"
"ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ کسی مسلمان کو کوئی مرض یا دیگر کوئی تکلیف لاحق ہو تو اس کے سبب اور اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس کے گناہ یوں گرادیتا ہے جیسے درخت کے پتے گرتے ہیں"
4۔ "وفي ر واية:يصيبه اذي شوكة فما فوقها الا كفر الله بها سياته كما تحت الشجرة ورقها"
دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ:"مسلمان کو کاٹنا لگے یا کوئی اور عارضہ لاحق ہوتو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ یوں معاف کردیتا ہے جیسےدرخت کے پتے گرتے ہیں"
5۔مسند احمد،سنن نسائی اور جامع ترمذی میں روایت ہے:
"و لايزال البلاء بالعبد حتى يتركه يمشي على الأرض ما عليه خطيئة"
:سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ مومن کو مصائب،تکالیف اور آزمائشیں اس حد تک گھیرے رہتی ہیں تاآنکہ وہ زمین پر چلتاہے تواس کے نامہ اعمال میں ایک گناہ بھی باقی نہیں رہتا۔"
6۔مسند احمد،جامع ترمذی اور صحیح ابن حبان میں ہے:
"مَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي جَسَدِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ"
"ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: کہ کسی مومن مرد ،عورت کو اس کے جسم،ماں یا اولاد کے بارے میں ابتلا و آزمائش اس حد تک آتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں جاکر ملتاہے کہ اس کے نامہ اعمال میں ایک بھی گناہ باقی نہیں ہوتا"
7۔صحیح ابن حبان میں ہے:
"إِنَّ الرَّجُلَ لَيَكُونُ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ الْمَنْزِلَةُ فَمَا يَبْلُغُهَا بِعَمَلٍ ؛ فَمَا يَزَالُ اللَّهُ يَبْتَلِيهِ بِمَا يَكْرَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ إِيَّاهَا " .
"ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بندے کے لیے ایک بلند مرتبہ مقدر ہوتا ہے،مگر وہ بندہ کوئی عمل کرکے اس مرتبہ کوحاصل نہیں کرپاتا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مرضی وپسند کے خلاف اس حد تک آزماتارہتاہے کہ اس کے بدلے وہ بندہ اس مرتبہ کا مستحق ہوجاتا ہے"
8۔المسند میں ہے:
ما يمرض مؤمن ولا مؤمنة ولا مسلم ولا مسلمة إلا حط الله بذلك خطاياه
"جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےر وایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مسلمان مومن،مرد یاعورت بیمار ہوتو اس بیماری کے عوض اللہ تعالیٰ اس بیمار کے گناہ معاف کردیتاہے"
9۔ابن حبان کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
"كما يحط ا لورق عن الشجر"بیماری کے سبب مسلمان کے گناہ یوں جھڑ جاتے ہیں جیسے کسی درخت کے پتے گرتے ہیں"
10۔صحیح ابن حبان ہی میں ہے:
"عن ابي الدرداء عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: ما يزال البلاءالصُّدَاعَ وَالْمَلِيلَةَ لَا تَزَالَانِ بِالْمُؤْمِنِ وَإِنْ كَانَ ذَنْبُهُ مِثْلَ أُحُدٍ حَتَّى لَا تَدَعَا مِنْ ذَنْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ».وإنما يعرف قدر البلاء إذا كشف الغطاء يوم القيامة،"
"ابودرداء سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ مومن سردرد وغیرہ میں مبتلا رہے اور اس کے گناہ کثرت میں اُحد پہاڑ جتنے بھی ہوں۔تو بیماری کے سبب اس کے ذمہ کوئی معمولی گناہ بھی باقی نہیں رہتا اور مومن کو ان بیماریوں اور تکالیف کی قدرومنزلت اور فضیلت کااندازہ قیامت کے دن ہوگاجب پردے ہٹ جائیں گے"
11۔جامع ترمذی میں ہے:
"يَوَدُّ أَهلُ العَافِيَةِ يَومَ القِيَامَةِ حِينَ يُعطَى أَهلُ البَلَاءِ الثَّوَابَ لَو أَنَّ جُلُودَهُم كَانَت قُرِّضَت فِي الدُّنْيَا بِالمَقَارِيضِ"
"جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ دنیا میں آزمائشوں،تکالیف ومصائب میں مبتلا رہنے والوں کو جب قیامت کے دن بے حد وحساب اجر وثواب سے نوازا جائے گا تودنیا میں خوشحالی اور صحت وتندرستی کی زندگی گزارنے والے لوگ خواہش کریں گے کہ اے کاش! دنیا میں ہماری جلد اور جسم کو قینچیوں سے کاٹا جاتا اور ہم بھی آج یہ عظیم القدر ثواب حاصل کرسکتے"
12۔سنن ابی داود میں ہے:
"فجلست إليه فذكر رسول الله صلى الله عليه و سلم الأسقام فقال إن المؤمن إذا أصابه السقم ثم أعفاه الله منه كان كفارة لما مضى من ذنوبه وموعظة له فيما يستقبل وإن المنافق إذا مرض ثم أعفي كان كالبعير عقله أهله ثم أرسلوه فلم يدر لم عقلوه ولم يدر لم أرسلوه فقال رجل ممن حوله يا رسول الله وما الأسقام والله ما مرضت قط قال قم عنا فلست منا"
"عامر کا بیان ہے،میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھا ،بیماریوں کا ذکر ہواتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن جب بیمار ہوکر صحت یاب ہوتو وہ بیماری اسکے سابقہ گناہوں کا کفارہ اورآئندہ کے لیے نصیحت ہوتی ہے۔اس کے برعکس منافق بیماری سے صحت یاب ہوتو اس کا حال اس اونٹ کی مانند ہوتاہے جسے اس کے مالک نے باندھا اور پھر چھوڑدیا ،وہ نہیں جانتا کہ مالک نے مجھے باندھا کس لیے تھا اور چھوڑا کیوں ہے؟ یہ گفتگو سن کرایک شخص نے کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کیاہوتی ہے؟اللہ کی قسم!می تو کبھی بیمار نہیں ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اُٹھ جا! تو ہم میں سے نہیں۔"اسی قسم کا ایک اور واقعہ بھی بچس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے بخار کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا:میں تو بخار کو جانتا تک نہیں(یعنی مجھے کبھی بخار نہیں ہوا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"
"من سره أن ينظر إلى رجل من أهل النار أي فلينظر."
"کہ جو کوئی کسی دوزخی کو دیکھنا چاہے تو وہ اسے دیکھ لے"
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب وآلام میں مبتلا ہونے کو اہل جنت اور اہل جہنم کے مابین علامت فارقہ قرار دیا ہے۔جیسا کہ سابقہ احادیث میں اسی کو مومنین اور منافقین کے درمیان علامت بیان فرمایا ہے۔
13۔المسند میں ہے:
"عن ابي هريرة رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وسلم ذكر اهل النارفقال : كل شديد جعظري، هم الذين لا يألمون رؤوسهم"
"ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جہنم کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:"ہر وہ شخص جو عرشی طبیعت ،بداخلاق ہو اور اسے کبھی سردرد تک نہ ہوا،(وہ سب جہنمی ہیں)"
14۔المسند میں ہے:
"انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی،اس نے اپنی بیٹی کے حسن وجمال کا ذکر کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں رغبت ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضا مندی کا اظہار فرمایا:وہ عورت اس کے بعد ا پنی بیٹی کی مدح کرتی رہی۔دوران گفتگو اس نے یہ بھی ذکر کیا کہ وہ لڑکی اس قدرصحت مند اور تندرست ہے کہ اسے کبھی سردرد نہیں ہوا اور نہ کبھی وہ بیمار ہوئی ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا:"مجھے تیری اس بیٹی کی کوئی ضرورت نہیں "
یہی واقعہ امام ابن ابی الدنیا نے دوسری سند سے مرسلاً روایت کیا ہے ،اس میں ہے:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لا حاجة لنا فى ابنتك تجيئنا تحمل خطاياها لا خير فى مال لايرزأ منه وجسد لا ينال منه "
"مجھے تمہاری بیٹی کی قطعاً ضرورت نہیں،وہ ہمارے ہاں اپنے گناہ ساتھ لے آئے گی،جس مال اور جسم میں کوئی آزمائش نہ آئے،اس مال اور جسم میں کوئی خیر نہیں"
15۔ ابن ابی الدنیا نے قیس بن حازم سے باسند بیان کیا ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابنی بیوی کو طلاق دے دی،بعد ازاں وہ اس کی خوب مدح کیاکرتے تھے۔کسی نے کہا:ابو سلیمان!( اگر وہ اسی قدر مدح وستائش کے قابل تھی) تو آپ نے اسے طلاق کیوں دی؟فرمایا:میں نے اسے اس کے کسی دکھ یا پریشانی کی وجہ سے طلاق نہیں دی ہے بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ جب سے وہ میرے ہاں آئی کبھی بیمار نہیں ہوئی تھی ۔
16۔ابن ابی الدنیا نے باسند بیان کیا ہے کہ عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بیماریوں کا ذکر ہوا تو ایک اعرابی بولا:میں تو کبھی بیمار نہیں ہوا اس کی بات سن کر عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:تم ہم میں سے نہیں ہو،مسلمان کسی بیمار یاتکلیف میں مبتلا ہوتو اس کےگناہ یوں جھڑ جاتے ہیں جیسے خشک درخت کے پتے،البتہ کافر وفاجر بیمار ہوتو اس کا حال اونٹ کی مانند ہے جسے باندھا جائے تو نہیں جانتا کہ اسے باندھے جانے کاسبب کیا ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو وہ نہیں جانتا کہ اسے چھوڑا کیوں گیا ہے؟
17۔ابن ابی الدنیا نے کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باسند بیا ن کیا ہے ،وہ کہتے ہیں:میں نے تورات میں پڑھا (اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے)
" لولا أن يحزن عبدي المؤمن لعصبت الكافر بعصابه من حديد لا يصدع ابدا"
"اگر میرے مومن بندوں کے رنجیدہ خاطر ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو کفار کو لوہے کا ایک حلقہ پہنادیا جائے اور انہیں کبھی سردرد تک نہ ہو"
18۔حسن رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے:
"جب کسی مسلمان پر ایک سال کسی مالی وجانی نقصان کے بغیر گزر جاتا تو وہ ازراہ حسرت کہتے:کیا بات ہوئی،اللہ تعالیٰ نے ہمیں چھوڑ بھلا ہی دیا ہے؟"
19۔حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"لوگو!تم اس شکار کی مانند ہو جسے روزانہ تیر مارے جاتے ہیں اور ہر دفعہ تیر نشانے پر جالگتا ہے،خطا نہیں ہوتا۔سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں اور غافل غفلت میں مدہوش رہتے ہیں۔یہاں تک کہ اسے آخری تیر ایسا آن لگتاہے جو اس کا کام پورا کردیتا ہے۔"
20۔ صالح بن معمار رحمۃ اللہ علیہ ایک مریض کی عیادت کو تشریف لے گئے تو مریض سے فرمایا:"تمھیں تمہارےرب نے جنجھوڑا ہے،سنبھل جاؤ"
21۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کسی فقیر کو دیکھتے تو فرماتے:
""کہ اپنے رب کے فیصلے پر راضی رہو اور صبر کرو"
یہ بات بسند ضعیف خوات بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے۔
22۔حسن رحمۃ اللہ علیہ بیماری کے دنوں میں کہا کرتے تھے:
"اللہ کی قسم! بیماری کے ایام مومن کے لیے برے نہیں ہوتے،ان دنوں میں یا تو اس کی موت کاوقت قریب آچکا ہوتاہے یا آخرت کے متعلق وہ جو کچھ بھول چکاہوتا ہے،بیماری کے ذریعے اسے وہ بھولا سبق یاد کرایاجاتا ہے۔یا اس بیماری کے سبب اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں اور جب کوئی مریض بیماری سے صحت یاب ہوتا تو یہی حسن رحمۃ اللہ علیہ اس کے پاس جاتے اور فرماتے،بھئی!اللہ تعالیٰ نے تمھیں(بیماری کے بعد)بھولا سبق یاد کرایا ہے ،اسے یاد کرلو،اس نے تمھیں دوبارہ صحت عطا کی ہے،اس کا شکر بجالاؤ،یہ بیماریاں اور تکالیف سابقہ گناہوں کاکفارہ ہیں اور اہل ایمان کے لیے وعظ وتذکیر کا سبب ہیں تاکہ وہ ان سے سبق سیکھیں اور ماضی کی روش ترک کرکے اپنے مستقل کی اصلاح کریں۔"
23۔فضیل رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے:
"ہر بیمار موت سے دوچار نہیں ہوتا بلکہ یہ بیماریاں انسانوں کو سبق سکھانے اور ان کی اصلاح کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔"درج ذیل آیت کریمہ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے:
"أَوَلا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لا يَتُوبُونَ وَلا هُمْ يَذَّكَّرُونَ" (التوبہ:126)
"کیا یہ لوگ نہیں د یکھتے کہ انہیں ہر سال ایک دو مرتبہ آزمایا جاتا ہے پھر بھی یہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں"
ایک بزرگ کا قول ہے:
"تم ہر سال بیمار ہوتے اور کمزور پڑتے ہو مگر سبق نہیں سیکھتے،آخر کب تک؟"
اس حدیث کے نکات:۔
یاد رہے کہ اس حدیث میں مومن کو نرم ونازک لہلہاتی کھیتی سے اور منافق وفاجر کو بڑے بڑے مضبوط درختوں سے تشبیہ وتمثیل دینا،بہت سے نکات پر مشتمل ہے۔ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان میں سے بعض اہم نکات ذکر کرتے ہیں:
1۔یہ کہ بڑا درخت ،طاقتور،مضبوط قوی ہوتا ہے۔وہ گرمی،سردی وغیرہ سےمتاثر نہیں ہوتا جبکہ اس کے برعکس کھیتی کمزور اور نرم ونازک ہوتی ہے،اسی طرح اہل ایمان اور منافقین اور اہل جنت واہل جہنم کے درمیان بھی یہ فرق ہے۔صحیحین میں حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ألا أخبركم بأهل الجنة كل ضعيف متضعف لو أقسم على الله لأبره ألا أخبركم بأهل النار كل عتل جواظ متكبر "
"کیا میں تمھیں جنتی اور دوزخی کی علامات نہ بتاؤں؟جنتی وہ ہے جو کمزور ہو اور لوگ بھی اسے کمزور اور حقیر جانیں مگر اللہ کے ہاں اس کامقام یہ ہے کہ وہ اگراللہ پر کوئی قسم ڈال دے تواللہ اس کی بات کو پورا کردیتاہے اور کیا میں تمھیں جہنمی کی نشانی نہ بتلاؤں؟ہر سخت مزاج،ترش رو،پیٹو اور کنجوس او تکبر کرنے والا جہنمی ہے"
مسند میں ہے:
"ألا أنبئكم بأهل الجنة؟ قالوا: بلى يا رسول الله. قَالَ: الضعفاء المغلوبون، ألا أنبئكم بأهل النار؟ قالوا: بلى يا رسول الله،قَالَ: كل شديد جعظري، هم الذين لا يألمون رؤوسهم".
"ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمھیں اہل جنت کے متعلق نہ بتلاؤں؟صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا،ضرور بتلائیں ،فرمایا:دنیوی طور پر کمزور،حقیر اور مغلوب لوگ(یہ جنتی ہیں) پھرآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمھیں اہل جہنم کے متعلق نہ بتلاؤں؟صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا:ضرور بتلائیں تو فرمایا:ہر وہ شخص جو ترش مزاج،بد اخلاق ہے(اور اس قدر مطمئن اور خوش ہے کہ) اسے کبھی سردرد بھی نہ ہوا۔"
مسند احمد میں اسی مفہوم کی ایک حدیث سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے۔صحیحین میں ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" تَحَاجَّتِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ ، فَقَالَتِ النَّارُ : أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِينَ وَالْمُتَجَبِّرِينَ ، وَقَالَتِ الْجَنَّةُ : فَمَا لِي لَا يَدْخُلُنِي إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ وَغِرَّتُهُمْ ، قَالَ اللَّهُ لِلْجَنَّةِ : إِنَّمَا أَنْتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي ، وَقَالَ لِلنَّارِ : إِنَّمَا أَنْتِ عَذَابِي أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي ، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمَا مِلْؤُهَا ، فَأَمَّا النَّارُ فَلَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى رِجْلَهُ ، تَقُولُ : قَطْ قَطْ قَطْ فَهُنَالِكَ تَمْتَلِئُ وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ ، وَلَا يَظْلِمُ اللَّهُ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا ، وَأَمَّا الْجَنَّةُ فَإِنَّ اللَّهَ يُنْشِئُ لَهَا خَلْقًا "
"جنت اور دوزخ کا آ پس میں مکالمہ ہوا تو جنت نے کہا:میں کیاکروں،میرے اندر تو (دنیوی طور پر) کمزور اور حقیر لوگ داخل ہوں گے،اورجہنم نے کہا:میں کیا کروں میرے اندر ظالم اور متکبر لوگ آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
قرآن کریم میں منافقین کو بظاہر طویل ومضبوط تنوں سے تشبیہ دی گئی ہے ،چنانچہ ارشاد ہے:
وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ (المنافقون :4)
"اور ا گر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جسموں کو دیکھیں تو آپ کو اچھے لگیں اور اگر بات کریں تو آ پ توجہ سے ان کی بات کو سنیں گے گویا وہ دیواروں کے ساتھ کھڑی کی ہوئی لکڑیاں ہیں"
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں منافقین کے متعلق بیان کیا ہے کہ و ہ جسمانی طور پربظاہر انتہائی خوبصورت ومکمل ،پسندیدہ اور اس قدر بہترین گفتگو کرنے والے ہیں کہ دیکھنے والے کو ان کا منظر دلفریب نظر آتا ہے اور ان کی باتیں سننے والا ان کی باتیں سن کرششدر رہ جاتا اور پوری توجہ سے اور انہماک سے ان کی بات کو سنتا ہے۔مگر یہ لوگ باطنی طور پر لڑائی کے شوقین،لڑکے،جھگڑالو ہیں اور ان میں اسقدر عیوب ونقائص ہیں جو ان کے لیے مہلک ہیں۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان چیزوں سے تشبیہ دی ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں۔اور وہ احساس سے خالی ہیں اور ان کے دل اتنے کمزور اور خوفزدہ ہیں کہ آسمان سے اترنے والی ہر تنبیہ(وحی) سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے خلاف نہ نازل ہو،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:یہ منافق مکمل طور پر آپ کے دشمن ہیں،آپ ان سے بچ کررہیں۔اسی طرح ان میں سے بظاہر آپ کے قریب رہنے والا جو کچھ اظہار کرتاہے،اس کے دل میں اس کے برعکس جذبات ہیں اور وہ چھوٹی چھوٹی بات سے ڈرتا رہتا ہے۔
البتہ اہل ایمان کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے۔ظاہری طور پر ان کے جسم کمزور اوران کی گفتگو کا انداز انتہائی دھیما ہوتا ہے۔وہ اپنے جسم کی نشونما کرنے کی بجائے ا پنے قلوب و ارواح کی تربیت کرتے ہیں،ان کا با طن انتہائی پختہ اورمضبوط ہوتا ہے۔اس قوت کی بدولت وہ جہاد،عبادات اور دینی علوم جیسے پر اعمال باآسانی بجا لاتے ہیں جبکہ منافقین ضعیف قلب کی بدولت ایسے امور بجالانے کی قدرت نہیں رکھتے۔نیز اہل ایمان اپنے نفس کے فتنہ کے ڈر سے ا پنے دلی جذبات اور کیفیات کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ان کا باطن ظاہر کی نسبت کہیں بہتر ہوتاہے۔ اور ان کی ظاہری حالت سے ان کی باطنی اور پوشیدہ حالت زیادہ شاندار ہوتی ہے۔
سلیمان تیمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:میں نے خواب میں دیکھا،کوئی شخص میرے پاس آیا،اس نے کہا:اسے سلیمان! مومن کی اصل قوت اس کے دل میں ہوتی ہے۔وہ اپنے جسم کی نشونما کرنے کی بجائے اپنے دل کی آبادی میں مگن رہتاہے۔اسی لیے اس کابدن نحیف وکمزور ہوتا ہے اور اسی لیے اسے بسا اوقات بہت سے مصائب وآلام سے دو چار بھی ہونا پڑتا ہے۔اگر لوگوں کو اس کی عظمت اور اس کی قلبی قوت کا اندازہ ہوتو وہ اسے ایذائیں نہ دیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا:تم لوگوں میں شہد کی مکھی کی مانند بن کررہو،لوگ اسے کمزور اور حقیر تصور کرتے ہیں۔اگر انہیں یہ اندازہ ہوکہ اسکے پیٹ میں کیا ہے تو و ہ اسے کبھی حقیر نہ سمجھیں،اسی طرح مومن کے دل میں قوت ایمان اور استقامت جاگزیں ہوتی ہے۔
قلب مومن میں ایمان کی مثال اسی پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں مضبوط اور شاخیں انتہائی بلند ہیں۔وہ ایمان کی حالت میں زندگی گزارتا ہے۔اسے موت بھی ایمان کی حالت میں آتی ہے۔ اور اسے قیامت کے روز ایمان کی حالت میں ہی اٹھایا جائے گا۔دنیوی تکالیف،مصائب اور آلام مومن کو دائیں بائیں اُلٹتے پلٹتے رہتے ہیں مگر وہ مومن کے دل پر اثر انداز نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ ایمانی قوت کے ساتھ محفوظ ہوتاہے۔اس کے برعکس،کافر،منافق،اور فاجر کاجسم قوی ہوتا ہے،حوادث اسے اُلٹ پلٹ نہیں سکتے مگر اس کا دل انتہائی ضعیف اور کمزور ہوتاہے۔مختلف خواہشات اور تمنائیں اس کے دل میں انگڑائیاں لیتی اور اسے ادھراُدھر لے جاتی ہیں۔اس کےدل کی مثال اس بے کار پودے کی مانند ہے جو زمین کے اوپر ہی ٹھہراہوا ہو اور اس کو کوئی مضبوطی حاصل نہ ہو۔جیساکہ حنظل(تمہ) وغیرہ کا پودا ہوتاہے۔جس کی جڑیں زمین میں مضبوط نہیں ہوتیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:وہ لوگ احمق ہیں جوہر پکارنے والے کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور ہر ہوا کے ساتھ جھک جھک جاتے ہیں۔انہیں علم کی روشنی حاصل نہیں ہوتی اور نہ ان کاکوئی مضبوط سہارا ہوتا ہے۔
اس تفصیل سے پیش نظر حدیث میں مومن کو نرم ونازک لہلہاتی کھیتی سے اور فاجر کو سخت تنے والے صنوبر کے درخت سے تشبیہ وتمثیل خوب واضح ہوجاتی ہے۔نیز اس سے اس حدیث کی بھی خوب وضاحت ہوجاتی ہے جس میں مومن کو کھجور کے درخت سے تمثیل دی گئی ہے۔اور جس حدیث میں مومن کونرم ونازک لہلہاتی کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے۔اس میں مومن سےمراد اس کاجسم ہے جس پر مختلف مصائب وآلام آتے رہتے ہیں اور جس حدیث میں مومن کو کھجور کے درخت سے تشبیہ دی گئی ہے اس سے اس کا ایمان،عمل اور قول مراد ہیں۔اس کی مزید وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
"أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (24) تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا" (ابراہیم:24،25)
"تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے کس طرح پاکیزہ کلمہ کو عمدہ اور پاکیزہ درخت سے تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہیں اوراس کی شاخیں آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں اور وہ اللہ کے حکم سے ہر موسم میں ثمر آور ہوتا ہے"
اللہ تعالیٰ نے مومن کے دل میں موجود اسلام کی بنیاد کلمہ شہادت کو کھجور کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین میں انتہائی مضبوط ہوتی ہیں نیز اللہ تعالیٰ نے مومن کے ان اعمال کو جو آسمان کی طرف جاتے ہیں،کھجور کی بلندی سے تشبیہ دی ہے۔نیز لحظہ بہ لحظہ مون سے صادر ہونے والے صالح اعمال کو اللہ تعالیٰ نے کھجور کے اس موسم میں پھلدار اورثمر آور ہونے سے تشبیہ دی ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:"ضعیف مومن کادل نرم ونازک،لہلہاتی کھیتی کی مانند اورقوی مومن کادل کھجور کے درخت کی مانند ہے۔"(مسند بزار وغیرہ)
یہ تشبیہ اس لحاظ سے ہے کہ نرم کھیتی کا پھل بالیاں ہوتی ہیں جو کہ حددرجہ ضعیف ہوتی ہیں،نیز چونکہ وہ زیادہ دور اور بلندی میں نہیں ہوتیں،اس لیے ہر ایک اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ہر شخص اسے کھانے ،چوری کرنے ،جانور اسے چرنے اور پرندے بھی اسے کھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔کمزور مومن کا بھی یہی حال ہوتاہے،اکثر لوگ اس سے عداوت رکھتے ہیں،کیونکہ شروع شروع میں اسلام بھی لوگوں کی نظر میں غریب اور اجنبی تھا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ایک دور آئے گا کہ یہ دوبارہ لوگوں کی نظر میں غریب اور اجنبی ہوجائے گا پس جن اہل ایمان کو لوگ اجنبی ،غیر اور غریب سمجھیں ان کے لیے بشارت اور مبارک ہے کہ لوگ بالعموم ایسے اہل ایمان کو کمزور،غریب اور حقیر سمجھتے ہیں اور پھر انہیں دکھ دیتے ہیں۔
ان کے برعکس کافر،منافق اور فاجر جوصنوبر کی مانند سخت جسم ہوتا ہے،اسے کوئی منہ نہیں لگاتا،نہ کوئی اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔نہ ہوائیں اسے ہلاتی جلاتی ہیں۔ا س کے مشکل الحصول ہونے کے سبب کوئی اسکے پھل کی خواہش یاتمنا بھی نہیں کرتا،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی ،کتاب الذہد،میں عصام بن یحییٰ مصری سے منقول ہے ،وہ کہتے ہیں کہ حواریین(عیسی علیہ السلام کے صحابہ) نے عیسیٰ علیہ السلام سے شکایت کی کہ لوگ ہم سے نفرت کرتے اور ہمیں کھا جانا چاہتے ہیں(اس کی کیا وجہ ہے؟) تو عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:"اہل ایمان ایسے ہوتے ہیں لوگ ان سے نفرت کیاکرتے ہیں۔ان کی مثال دانہ وگندم کی سی ہے،اس کا ذائقہ کیا خوب ہے اور لوگ کس رغبت سے اسے کھالیتے ہیں۔"
کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ تورات میں ہے:"کسی قوم میں اگر کوئی صاحب حلم حوصلہ شکنی ہو تو لوگ اس پرزیادتیاں اوراس سے حسد کرتے ہیں"۔۔۔خیثمہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کامفہوم ہے کہ:
"بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کوفائدہ پہنچانے اور مجھے ایذاء دینے میں کوشاں رہتے ہیں۔یقیناً کوئی منافق کسی مومن کو کبھی پسند نہیں کرتا۔"
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن اورمصائب وآلام کو چولی دامن کاساتھ ہے۔تکالیف اسے دائیں بائیں اُلٹتی پلٹتی رہتی ہیں وہ اسے جدھر لے چلیں یہ اُدھر کو جھک جاتا ہے۔انجام کار وہ ان تمام تکالیف اور مصائب وآلام سے چھٹکارا حاصل کرکے بری موت سے بچ جاتاہے،اور اس کی زندگی کاخاتمہ اچھائی پر ہوتا ہے۔ اوراس کی مثال اس بالی کی طرح ہوتی ہے جسے تیز ہوائیں دائیں بائیں اُلٹاتی ہیں اور وہ ادھر کو جھک جاتی ہے۔چنانچہ تیز ہوائیں اس کا کچھ بگاڑ نہیں ہوسکتیں۔
عربوں کے ہاں ایک کہاوت ہے کہ"جب تم ہوا کی تندی کو دیکھو تو مقابلہ کرنے کی بجائے جھک جاؤ یعنی جب تم کسی کو غالب آتے دیکھو تو عاجز بن جاؤ۔"
داناؤں کا کہنا ہے کہ کسی دشمن یا طاقتور کو عاجز کئے بغیر روکا نہیں جاسکتا۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ نرم کھیتی ا پنی نرمی کے سبب تیز جھونکوں کی شدت اور نقصان سے محفوظ ر ہتی ہے۔جبکہ بڑے بڑے سخت قسم کے تناور درخت جب ہواکے مقابل آتے ہیں تو ٹوٹ ٹوٹ کر گر جاتے ہیں۔
پس فاجر اپنی قوت اور بڑائی کے سبب نقصان اٹھاتاہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کے متعلق فرمایا:
"فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ "(حم السجدۃ:15)
"اور قوم عاد نے زمین میں ناحق تکبر کیا"
تو جوشخص اللہ تعالیٰ کی عظمت کے آگے جھک جائے،اس کی آزمائش پر صبر کرے ،اس کاانجام جنت ہے،وہ دنیا وآخرت میں محفوظ ہوتا ہے اور اس کے بہتر انجام کی توقع ہے۔مگر فاجر جو اللہ کے مقابلے میں بڑائی اور اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے،اللہ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔اور اس پر مختلف امتحان اور آزمائشیں آتی ہیں جو اسے تباہ کردیتی ہیں اور وہ کسی بھی صورت ان آزمائشوں سے نہیں بچ سکتا۔کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
إن الرياح إذا عصفن فإنما
تولي الأذية شامخ الأغصان.
"جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو بلند وبالا درختوں کو گرادیتی ہیں"
ایک اورشاعر نے کہا ہے :
من أخمل النفس أحياها وروحها
ولم يبت طاويًا منها عَلَى ضجر
إِنَّ الرياح إذا اشتدت عواصفها
فليس ترمي سوى العالي من الشجر.
"وہ اچھا آدمی ہے جو ا پنے آپ کو مشکل اور آسانی کا عادی بنائے رکھے اور بیش آمدہ حالات پر خاموش ہوکر بیٹھا نہ رہے بلکہ سخت اور مشکل حالات کامقابلہ کرے کیونکہ تیز اور سخت ہوائیں بھی صرف بلند وبالا اشجار کو نشانہ بناتی ہیں"
اس حدیث سے مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ کھیتی کی ہرشاخ اگرچہ کمزور ہوتی ہے،مگر وہ ا پنے ثمر،اپنے ساتھ اگنے والے پودوں وغیرہ سے تقویت پاتی ہے۔اس کے برعکس بڑے بڑے درخت ایک دوسرے کے کام نہیں آتے۔اسی حقیقت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو کھیتی سے تشبیہ دی ہے ،چنانچہ ارشاد ہے:
"مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآَزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ"
"انجیل میں انہیں اس کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنی نرم ونازک کونپلیں نکالتی ہے پھر کچھ مضبوط ہونے کے بعد موٹی ہوکر ا پنے تنوں پرسیدھی کھڑی ہوجاتی ہے۔"(سورۃ الفتح)
قرآن مجید کی اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے جو اکیلی اکیلی اگتی ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ذ ریعے نبی کی مدد فرمائی۔ گویا کہ صحابہ کھیتی کی کونپلوں کی مانند ہیں۔بعدازاں کھیتی کی ہر شاخ اپنے پتوں،کونپلوں اور شاخوں سے قوت پا کر موٹی اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔
انجیل میں ہے:" عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو کھتی کی مانند بڑھے گی"
اللہ تعالیٰ کاارشاد بھی ہے:۔
"وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ"
"مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کےخیر خواہ ہوتے ہیں"(التوبہ:71)
توگویا اہل ایمان کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ظاہری طور پر اور دلی طور پر محبت ہوتی ہے۔اسی لیے فرمایا:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات:10)
"تمام اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں"
کیونکہ سب اہل ایمان کے دل ایمان کی بنیاد پر ایک ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس منافقین کے دل ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ (الحشر:14)
"آپ انھیں متحد سمجھتے ہیں،حالانکہ ان کے دل ایک دوسرے سے جداجدا ہیں"
ان کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں،دلی طور پر ان میں ایک دوسرے کی محبت نہیں ہوتی اور وہ صرف کفر ونفاق کی بنیاد پر ایک جیسے ہوتے ہیں۔صحیحین میں ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا وشبك بين أصابعه"
"کہ ایک مومن کا دوسرے مومن سے یوں تعلق ہوتاہے جیسے دیوار ہو،اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ وتقویت پہنچاتا ہے۔یہ بات ارشاد فرماتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمایا"
ایک اور حدیث میں ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد إذا اشتكى شيئا تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى"
"اہل ایمان کی آپس میں الفت،محبت اورشفقت کی مثال ایک جسم کی مانند ہے،جب جسم کا کوئی ایک عضو مریض ہوتو بخار اور بیداری میں سارا جسم اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔"
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھیتی س جہاں کھیتی کاٹنے والے مستفید ہوتے ہیں ،اس کے ساتھ غرباء مساکین اور پرندے بھی فیض یاب ہوتے ہیں کیونکہ کٹائی کے وقت کچھ بالیاں اور دانے زمین پر گرجاتے ہیں جن سے یہ چیزیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔بسا اوقات کھیتی کا کچھ تنا یامڈھ زمین میں رہنے دیاجاتاہے۔ اور اس سے دوبارہ فائدہ اٹھایاجاتاہے۔بعض غلے ایک دفعہ بوئے جائیں تو وہ کئی کئی مرتبہ اگتے ہیں۔یہی حال مومن کا ہے کہ جب وہ فوت ہوجاتاہے۔تو اس کے بعد اس کا چھوڑا ہوا نفع بخش علم،صدقہ جاریہ یا نیک اولاد ہوتی ہے جن سے لوگ اور وہ خود مستفید ہوتا رہتاہے۔لیکن فاجر جب زمین سے رخصت ہوتاہے تو اس کا کوئی نفع ،فائدہ یا اثر باقی نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات وہ برے اثرات چھوڑ کر مرتاہے تو وہ اس سخت تنے والے درخت کی مانندہے ۔جس کا سوائے ایندھن کے کوئی مصر ف نہیں۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھیتی کا اُٹھانا ایک بابرکت عمل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ ایک ایک دانے سے سات سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی سو سودانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔اور اللہ جسے چاہے ا س سے بھی زیادہ کردیتاہے۔جبکہ بڑے درختوں کی یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ان کے بیج بوئے جائیں تو ایک بیج سے ایک ہی پودا اگتا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھیتی سے حاصل ہونے والے دانے انسانوں کی ضرورت پوری کرتے،ان کی غذا بنتے اور ان کی زندگی کاسبب ہیں۔اسی طرح ایمان دلوں کی خوراک ،روح کی غذا اور اجسام کی زندگی کا سبب ہے۔ایمان سے محروم دل کی موت ہے اور دل کی موت دنیا وآخرت کی ہلاکت ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
لَيْسَ مَنْ ماتَ فاسْتَرَاحَ بِمَيْتٍ
إنَّمَا المَيْتُ مَيِّتُ الأَحْيَاءِ
"جوشخص مرکر دنیوی مصائب وآلام سے چھٹکارا پاگیا وہ مردہ نہیں،درحقیقت مردہ وہ ہے جو زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہو"
اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کو نرم ونازک لہلہاتی کھیتی سے تشبیہ دی ہے کہ کھیتی سے اجسام کی زندگی ہے جبکہ ایمان سے ارواح کی زندگی ہے۔بعض بڑے بڑے درخت صنوبر وغیرہ کے پھل کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کے نہ ہونے کا کوئی نقصان بھی نہیں۔اس درخت اور اس کے پھل کے غیر مفید یا قلیل الفائدہ ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاجر ومنافق شخص کو اس درخت سے تشبیہ دی ہے۔واللہ اعلم