عصری مسائل کے لئے شرعی ضوابطکے تحت اجتہاد

(ڈاکٹر یوسف قرضادی ڈین کلیہ شریعہ قطر یونیورسٹی سے گفتگو)


اجتہاد انسانی زندگی میں پیش آمدہ مسائل کے بارے میں الہامی رہنمائی کے لیے اس انتہائی ذہنی کدو کاوش کا نام ہے جس کا مدار تو کتاب وسنت ہی ہوتے ہیں لیکن مجتہد کو اس بارے میں کتاب و سنت کی واضح صریح نصوص نہ ملنے پر کتاب و سنت کی وسعتوں اور گہرائیوں میں اترنا پڑتا ہے ۔اگر غور و فکر کی گیرائی اور گہرائی شریعت کی مہیا کردہ رہنمائی کی تلاش کے لیے نہ ہوتو اسے اجتہاد کی بجائے تدبیرکہتے ہیں پھر اگر چہ نبی کو بھی نت نئے پیش آمدہ بہت سے مسائل میں اللہ کی رضا معلوم کرنے کے لیے ایسی ذہنی تگ و تازسے ضرور واسطہ پڑتا ہے لیکن چونکہ اللہ عاصم اور نبی معصوم ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی کو استصواب کے ذریعے ایسی اجتہادی غلطی پر قائم رہنے سے بھی تحفظ فرمادیا ہے۔ اس لیے اصطلاح شرح میں نبی کا اجتہاد سنت و حدیث ہی کہلاتا ہے جو انسانی کا وش اجتہاد و فقہ کی بجائے شریعت کا حصہ ہے۔
چونکہ غیر نبی کے لیے اجتہاد میں انسانی تگ و تاز کایہ پہلو صحت و خطا کے احتمال سے خالی نہیں ہو سکتا اور بسا اوقات وہ الہامی ہدایت کے بجائے صرف دنیاوی تدبیر کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔اس لیے علمائے دین اس کے بارے میں بڑے محتاط ہیں اور وہ نہ تو ہرایرےغیرے کو اجتہاد کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی اس بارے سابقہ ذخیرہ فقہ سے ناآشنائی کو برادشت کرتے ہیں اسی بنا پر جدید دانشور طبقہ انہیں قدامت پرستی کا طعن دیتا ہے حالانکہ۔ ع۔ ز۔ تقلید عالمان کم نظر اقتداء بررفتگان محفوظ تر، تاہم اس بارے میں اسلامی معاشرے میں موجود تقلید والحاد کے دوانتہائی رویوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔اسی افراط و تفریط کا کا جائزہ اس مکالمہ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔(محدث)
کیا ہر زمانے میں اجتہاد کی گنجائش ہے؟
سوال نمبر1۔[1]اجتہاد دین کا حصہ ہے اور یہ شرعی اصول و ضوابط کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔جن سے آگا ہی حاصل ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اسلام ایک زندہ و تابندہ مذہب ہے اور اس میں پیش آمدہ تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت موجودہ ہے۔ اس ضمن میں بتائیں کہ ارتقاء اجتہاد کے تاریخی مراحل کیا ہیں؟ اور بقول بعض علماء اجتہاد کادروازہ اب بند ہے یا نہیں ؟بصورت اثبات آج کل  اس کی ذمہ داری کون نبھا سکتا ہے؟
جواب: اجتہاد رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وقت سے ہی شروع ہے۔ مثلاً جب نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بنی قریظہ کی طرف بھیجا تھا تو بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے نماز عصر راستے میں ادا کی اور باقی نے بنی قریظہ میں جاکر ادا کی، راستے میں نماز عصر ادا کرنے والوں نے اجتہاد کیا تھا اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کی اطلاع  ملی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خاموشی اختیار کی اور ان کے اس فعل پر ناراضگی کاا ظہار نہیں فرمایا۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو یمن کا قاضی بناتے وقت پوچھا تھا کہ۔
اگر تمھیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتو کس طرح فیصلہ کروگے؟معاذ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں فرمایا  کہ کتا ب اللہ کے ساتھ تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : اگر وہ فیصلہ کتاب اللہ میں موجود نہ ہو تو پھر کیا کرو گے؟
تو معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جواب دیا کہ سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے حل پیش کروں گا۔تو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اگر وہ سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  میں بھی موجود نہ ہو تو پھر کیسے حل کرو گے؟تو معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عرض کیا کہ میں اپنی ذاتی رائے سے اس کو حل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کروں گا۔
حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اس جواب سے خوش ہوئے اور ان کی تعریف کی اور انہیں یہ منصب تفویض کر کے اطمینان کا اظہار کیا۔یہ حدیث عوام میں بڑی مشہور ہے اور متعدد آئمہ کرام مثلاً امام مجدد ابو العباس احمد بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  ،ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  ،امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے اس کو جیسدکہا ۔[2]ہے۔حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے علاوہ بھی متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی اور آپ کی عدم موجود گی میں  اجتہاد کیا تو آپ نے مطلع ہونے پر بعض کے اجتہاد کو برقرار رکھا اور بعض کی غلطی واضح کردی۔اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اجتہاد کرتے رہےاور زندگی میں پیش آمدہ مسائل کواسلام کی نصوص اور اس کے وسیع اصول و ضوابط کے تحت حل کرتے رہے گویا انھوں نے اسلام کے راہنما اصولوں میں ہر بیماری کی دوا اور ہر مشکل کا حل معلوم کر لیا اور واقعاتی زندگی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا اجتہاد اور مسائل زندگی کو حل کرنے میں ان کا فہم و تدبر اسلام کی اس اصلی فقہ کو اجاگرکرتا ہے جو نصوص میں کمی و بیشی کئے بغیر لوگوں کی مشکلات کے حل اور ان کی ضروریات کو پورا اور انہیں مراعات فراہم کرنے میں ممتازہے۔
خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین ابن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کی فقہ پر عبورحاصل کرنے والا شخص اجتہاد کے میدان میں ان کی ذہانت اور تفقہ فی الدین کی ایسی ہی مثالیں پائے گااور اسے یقین ہوجائے گا کہ صحا بہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین اسلام کی روح کو سمجھنے میں سب سے زیادہ فقیہ تھے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے اجتہاد کی بہت سی مثالیں ہیں مثلاًحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ارض عراق کے بارے میں موقف اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ان کے ساتھ موافقت کرنا۔ ارض عراق کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فیصلہ کیا کہ اس کے چار حصے فاتحین اور مجاہدین میں تقسیم نہ کئے جائیں حالانکہ قرآن میں صاف مذکورہے۔
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ (سورہ الانفال)
اور اس فیصلہ پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دیا کہ تمھارا خیال ہے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے کچھ بھی نہ بچے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کوئی ایسا پرو گرام بنائیں جو موجودہ لوگوں اور بعد میں آنے والوں کو کفایت کر سکے تو اس اجتہاد سے تمام معاشرے کی اجتماعی کفالت واجب قراردے دی گئی۔اسی طرح حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا گمشدہ اونٹ کے بارے میں موقف کیونکہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے زمانے میں گم شدہ اونٹ کو اپنے حال پر چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا اور دریافت کرنے والے کو فرمایا : تجھے اونٹ سے کیا سروکارہے! اس کا تو پانی اور خوراک اس کے ساتھ ہی ہے پانی پر خود پہنچ جائے گا اور درختوں کے پتے کھاتا رہے گا یہاں تک کہ اس کا اصل مالک اسے پالے گا اسی حکم کے تحت عہد ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  میں گم شدہ اونٹ چھوڑ دیے جاتے تھے ،لیکن حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے زمانے میں لوگوں کی طبا ئع بدل گئیں اور لوگ گم شدہ اونٹوں کو پکڑنےلگے اور انہیں اپنے اصل مالکوں کی طرف نہیں لوٹا یا جا تا تھا تو حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اسی میں مصلحت سمجھی کہ ان کو محفوظ کر لیا جائے اور اس مقصد کے لیے ایک نگہبان مقرر کیا جو ان اونٹوں کو جمع کرتا اور انہیں اصل مالکوں کے پاس لوٹا دیتا اور مالک نہ ملنے کی صورت میں انہیں فروخت کر کے رقم محفوظ کرلی جاتی یہاں تک کہ اصل مالک مل جا تا تو رقم اس کے حوالے کردی جاتی
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے دور خلافت میں فیصلہ کیا کہ لوگوں کا جو مال یا سامان کار یگر کے پاس سے ضائع ہوجائے توکار یگرسے اس کی قیمت وصول کر لی جائے۔(صناع )کا ہاتھ دراصل امانت محفوظ کرنے والا ہوتا ہے ۔لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ میرا یہی فیصلہ لوگوں کے لیے درست ہے یہی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اعلیٰ درجہ کی فقاہت تھی اور انھوں نے دین حنیف میں دی جانے والی سہولتوں میں اصولوں کو بھی فراموش نہیں کیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے تلامذہ بھی انہی اصولوں پر چلتے رہے انھوں نے مساجد میں فقہی مدارس قائم کئے جو پیش آمدہ مسائل کا جائزہ لیتے اور ان کے متعلق اپنے فتاویٰ صادر کرتے اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا کرتے تھے انہی مساجد میں قائم شدہ جامعات (یونیورسٹیوں)سے بڑے بڑے مشاہیرآئمہ کرام مثلاً امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ  امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ  اور امام طبری رحمۃ اللہ علیہ  امام داؤد ظاہری  رحمۃ اللہ علیہ  پیدا ہوئے اس طرح خیر القرون میں بھی بے شمار مجتہدین پیدا ہوئے جن کے رجحانات احکام کے استنباط میں مختلف ضرورتھے۔لیکن سب اس بات پر متفق تھے کہ احکام شریعت کی بنیاد اور ان کا مآخذ کتاب و سنت ہی ہیں ۔کتاب اللہ اصل ہے اور سنت رسول اس کی شارح ہے اس کے بعد جمہور علماء اُمت کے نزدیک دواور اصول اجماع اور قیاس ہیں پھر دوسرے مصادر (مثلاً استحصان استصلاح سد ذرائع عرف عام اور شرائع سابقہ وغیرہ) کی باری آتی ہےجن میں کچھ چیزوں کے بارے میں فقہاء متفق ہیں اور بعض کے بارے میں ان باہمی کا اختلاف ہے ان میں سے بعض فقہاء گنجائش دینے کے قائل ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں ۔
مذکورہ بالا بحث سے واضح ہوا کہ علم فقہ نشو ونما پاتا اور پروان چڑھتا رہا جس قدر جدید مسائل پیش آتے گئے۔اسی قدر ان کو حل کرنے کے لیے فقہی کاوشیں رنگ لاتی رہیں اور اس موضوع پر کتابیں مدون ہوتی گئیں ۔مسلمانوں میں کتاب و سنت کی روشنی میں جس قدر استنباط کے طریقے وضع کئےگئے۔سابقہ اُمتوں سے اس کی مثال ملنا محال ہے اور یہی اسلامی فقہ مسلمانوں کا قابل افتخار سر مایہ ہے۔ یہی فقہ اور فتاویٰ فیصلہ جات تمام اسلامی قلمرو میں جاری اور ساری ہوتے رہے یہاں تک کہ سا مراجی اسلامی ممالک میں داخل ہوئے اور انھوں نے ایک محدود دائرہ حیات یعنی احوال شخصیہ (پرسنل لاز) کے علاوہ ہر معاملے کو شریعت کی رہنمائی سے علیحدہ کردیا ۔
یہ بات صحیح نہیں ہےکہ شریعت خلفاء راشدین  رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بعد کلیۃمعطل ہو گئی تھی بلکہ واقعہ یہ ہے کہ بارہ صدیوں تک مسلمانوں کے لیے سوائے شریعت اسلامیہ کے کوئی دستور یا قانون ہی نہیں تھا کہ مسلمان اسے اپنانے کی جراءت  کرتے اور اس کے مطابق اپنے مسائل حل کرتے ۔شریعت کے احکام کو سمجھنے میں غلطی کرنے اور ان کے نفاذ میں کمزوریاں دکھانے کے باوجود مسلمانوں نے اسلامی فقہ کو ہی دستور العمل بنایا۔
اجتہادکے دروازے کی بندش :۔
اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ پہلی دفعہ سلطنت عثمانیہ ہی ایسی لاپرواہ ثابت ہوئی کہ مختلف حالات میں اس کی لغزشوں اور غلطیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا یا جا سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تقلید کا تسلط مذہبی تعصب اور اجتہاد مطلق کے شجر کا مرجھا جانا ایسی وجوہات ہیں جو دولت عثمانیہ کے زوال کا باعث بنیں اور یہی جراثیم دوسری اسلامی حکومتوں میں وقتاً فوقتاً پھیلتے رہے۔ اس کے باوجود کوئی بھی زمانہ مجددین ملت اور مجتہدین امت سے خالی نہیں رہا یہاں تک کہ ہم امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  کو دیکھتے ہیں جنہوں نے اپنے متعلق دعویٰ کیا کہ وہ مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گئے ہیں اور انہیں بجا طور پر خوش فہمی تھی کہ وہ نویں صدی کے مجددہیں اور انھوں نے اس بارے میں ایک کتاب بھی لکھی ہے:
"الرد على من أخلد إلى الآرض وجهل أن الإجتهاد في كل عصر فرض"
 (اس شخص کارد جوہر دور میں فرضیت اجتہاد سے ناواقفیت کی بنا پر پستی میں جاگرا) اور بارہویں صدی میں ہم مجدد کبیر امام احمد عبد الرحیم المعروف شاہ ولی اللہ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  (مصنف حجۃ اللہ البالغہ) کو پاتے ہیں تیرہویں صدی میں مجتہد مطلق امام محمد بن علی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  ظاہر ہوتے ہیں جن کا اجتہادی مرتبہ ان کی کتابوں مثلاً  نيل الاوطار...السيل الجرار...الدرد البهية اور اس کی شرح الدواري المضية ارشاد ا لفحول وغیرہ اصول و فروغ کی کتابوں سے آشکاراہےبلکہ تاریخ اور واقعات کی روشنی میں یہ بات کہنا عدل و انصاف پر مبنی ہے کہ عثمانی حکومت نے اجتہاد کے مقابلہ میں جہاد کا زیادہ اہتمام کیا تھا ۔حالانکہ حکومت اسلامیہ اجتہاد اورجہاد دونوں کی برابر محتاج ہے یعنی ہدایت الٰہی اور معرفت دین کے کے لیے اجتہاد کی جبکہ دین کے حفاظت و حمایت کے لیے جہاد کی!
اسی لیے تو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے فر ما یا ہے کہ لا بد  للدين من كتاب هاد وحديد ناصرکہ دین کی معرفت کے لیے کتاب اور اس کی حفاظت و حمایت کے لیے ہتھیارضروری ہے ان کا اشارہ اس آیت کی طرف ہے۔ 
"لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ"(الحدید:25)
"ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ معبوث کیا اور ان کے ساتھ کتاب و میزان کو نازل کیا تاکہ لوگ انصاف قائم کریں اور ہم نے لوہانازل کیا جس میں سختی ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔"
عثمانی سلطنت کا رجحان اجتہادی فکر کی بجائے جہاد کی طرف زیادہ تھا جس کا نتیجہ جدید یورپ سے اس کی شکست کی صورت میں نکلا ۔
تحریک اجتہاد کی نشاۃ ثانیہ کس نے کی؟:۔
سوال نمبر2۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ موجود ہ دور میں تحریک اجتہاد کی ابتدا سید جمال الدین افغانی نے کی تھی۔لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے تلامذہ خصوصاً علامہ رشید رضا مصری ان کی فکر پر ہی انحصار کرتے کرتے خود بھی اسی تقلیدی رجحان کا شکار ہوگئے۔ کیا اب بھی تحریک اجتہاد  کا موزوں حالات میں احیاء کرنا ممکن ہے؟
جواب:معلوم ہو تا ہے کہ یہ بات کہنے والا اجتہاد کے اصول و مبادیات سے نابلد ہے اگر اسے تحریک اجتہاد کے عروج و زوال اور اس کے اصول و ضوابط کا علم ہو تا تو جان لیتا کہ اجتہادی فکر پہلے کی یہ نسبت زیادہ پروان چڑھی ہے نہ کہ تنزل پذیر ہوئی ہے اور یہ اجتہادی فکر عام مسائل اور اجمالی نصوص سے شروع ہوئی اس کے بعد اس کا دائرہ بڑے بڑے  مسائل تک وسیع ہو تا گیا۔ ہماری مراد یہ ہے کہ شیخ محمد عبدہ از ہری ثقافت کے باعث اپنے شیخ سید جمال الدین افغانی سے محکمات شریعت کو زیادہ مضبوطی سے تھامنے والے تھے اور ان کے شاگرد علامہ رشید رضا مصری اپنے استاد محمد عبدہ سے بھی زیادہ محکمات و مسلمات شریعت کو اپنانے والے تھے کیونکہ انہیں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  کے مدرسہ سلفیہ کی فکر اور سنن و آثار کے متعلق بہت زیادہ  واقفیت تھی۔اور علامہ رشید رجا مصری ہی تو وہ عظیم مفکر ہیں جنہوں نے اپنے مجلہ المنار میں تقلید پر ضرب کاری  لگائی اور اصلاحی مقالات اور جدید فتاویٰ لکھے اور ان کے اجتہادات اور جدید فتاوی ثلث صدی تک پورے عالم اسلام میں پھیلتے رہے اور انہیں اپنے شیخ محمد عبدہ کے اجتہادات  کےمقابلے میں زیادہ پذیر ائی حاصل ہوئی مگر ہمیں سید جمال الدین افغانی کے مخصوص طریق اجتہاد کا علم نہیں ہو سکا کیونکہ ان کی نما یاں حیثیت قوم کو خواب غفلت سے جگانے عزم و ہمت بندھا نےاور ضمیرکو بیدار کرنے والے عظیم قومی لیڈر کی تھی نہ کہ ایک فقیہ کی جو مروجہ فقہی رجحانات کی اصلاح کرے ہر شخص کسی ایک حیثیت سے ہی نمایاں ہو تا ہے۔
اگرچہ شیخ محمدعبدہ کی بعض آراوخیالات مثلاًقصہ آدم اور ابابیل وغیرہ پر اعتراضات ومؤاخذات بھی کئے گئے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ عبدہ کے وقت مغربی فکرعروج پہ تھا اور پوری شدت سے ترقی کر رہا تھا اس لیے ان پر یک گونہ قرآن و سنت کو فکر جدیدکے ساتھ موافق کرنے کا عقلی انداز غالب  آگیا تھا۔انصاف کی بات یہ ہے کہ کوئی شخص کسی مفکر کی قوت فکر و عمل کو پرکھنا چاہے تو اسے اس کے تاریخی ماحول میں رکھے (کہ اس وقت گردو پیش کے حالات کیا تھے،جب اس نے یہ رائے پیش کی تھی)کیونکہ بعض مسائل اور آراء جو اس وقت ہمارے ہاں مسلم ہیں اس وقت مسلمہ نہ تھیں اور اللہ اپنے نفس کے ساتھ انصاف کرنے والے شخص پر رحم فرمائے جس نے ہر حقدار کو اس کا حق ادا کیا اور خوف خدا کرتے ہوئے۔سچی شہادت پر قائم رہا
اجتہاد کی دو صورتیں :۔
سوال نمبر3۔شرعی اجتہاد کسی دور میں فرض کفایہ اور کسی وقت میں فرض عین بن جاتا ہے اس کی شروط و حدودکیا ہیں ۔کیا اجتہادی منہاج کی اس طور پر حدبندی کی جاسکتی ہے کہ اجتہادی مسائل غیر اجتہادی مسائل سے خلط ملط نہ ہوں ۔ مجتہد کی کونسی ایسی معیاری اہلیت ہے کہ ناہل انسان اجتہاد کے دروازے میں داخل نہ ہوسکے۔؟
جواب: اجتہاد جدو جہد کرنے اور شرعی احکام کو دلائل اور فکر و نظر کے ساتھ متنبط کرنے میں طاقت و ذہانت استعمال کرنے کا نام ہے اور یہ مجموعی طور پر اُمت پر فرض کفایہ ہے اگر اُمت میں مجتہدین کی ایک معقول تعداد نہ ہو جو اُمت کی ضرورت کو پورا کرے تو امُت گنہگارہوگی۔اور اجتہاد اس شخص پر تو فرض عین ہے جو اپنے آپ کو اس کا اہل سمجھتا ہواور خصوصاًجبکہ مسلمانوں میں دوسرا آدمی اسی مقصد کے لیے موجود بھی نہ ہو۔
اجتہاد دو صورتوں میں کیا جا تا ہے اجتہاد کی ایک صورت وہ ہے جس کے بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہو ئی اور اس باب کو شارع  علیہ السلام   نے جانتے بوجھتے اُمت پر رحم کرتے ہوئے کھلا چھوڑ ا ہے تاکہ اُمت کے مجتہدین اس خلا کو مسلک اجتہاد  و قیاس مصلح مرسلہ استحصان اور استحصاب حال وغیرہ مصادر شریعت سے پر کریں ۔یہاں یہ بات خاص طور پر ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ بعض مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق بکثرت نصوص وارد ہوئی ہیں جیسے نماز اور خاندانی معاملات ۔اس لیے کہ یہ مسائل جگہ یا وقت بدلنے کے ساتھ نہیں بدلتے اور ان کے متعلق ایک ضابطہ مقرر کرنے کی ضرورت تھی تاکہ حتیٰ الواسع اختلاف واقع نہ ہو اور ان کے علاوہ دوسرے مسائل سے متعلق نصوص بہت کم واردہوئی ہیں اور اگر وارد ہوئی ہیں تو مجمل ہیں تاکہ ذاتی طور پر لوگوں کو بنیادی اصول کی روشنی میں اجتہاد کرنے کی آزادی دی جائے اور وہ معاشرے کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے احوال زمانہ کے مطابق اصول وضوابط کی روشنی میں اجتہاد  کریں لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ مطلق نصوص کو مقید کردیں یا ان کا مطلب اُلٹ کردیں جیسا کہ شورائی شعبوں اور حکومتی ضوابط کو بناتے یا ان میں ترمیم کرتے ہوئے اکثر اس کا دھیان نہیں رہتا ۔
دوسری صورت ظنی نصوص کی ہے خواہ وہ نصوص بعض احادیث مبارکہ کی طرح ظنی الثبوت ہوں یا بعض قرآنی نصوص مبارکہ کی طرح ظنی الدلالت ہوں ۔محض نص کا وجود ہی مانع اجتہاد نہیں ہو گا جیسا کہ بعض علماء کا خیال ہے بلکہ نصوص کے دس حصوں میں نو حصے یا ان میں سے اکثر حصے قابل اجتہاد اور متعدد آراء کے حامل ہوں تو ان میں اجتہاد کی گنجائش ہو گی۔ یہاں تک کہ بذات خود قرآن پاک بھی استنباط کے متعدد احتمالات کا متحمل ہے مثلاً سورہ مائدہ ہی کو لیجئے اس میں آیت طہارت اور اس سے استنباط شدہ احکام کے متعلق اقوال کو پڑھئے آپ کو میرے قول کی سچائی نظر آئے گی۔
ان دوصورتوں کے درمیان ایک تیسری صورت بھی ہے جس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں اور اس میں داخل ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ یہ شریعت کے متعلق نصوص قطعیہ کاباب ہے مثلاً فرائض یعنی نماز ،روزہ ، حج ،زکوٰۃ کا وجوب اور یقینی محرمات  مثلاً زنا ،شراب نوشی ،سود اور اس کے علاوہ بڑے بڑے مسائل مثلاً احادیث وراثت جن کے متعلق قرآن میں نصوص وارد ہیں اور اس طرح قصاص و حدود کے احکامات اور مطلقات و فوت شدہ خاوندوں والی عورتوں کی عدت وغیرہ اور اسی طرح دوسرے احکام و مسائل جن بارے میں قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت نصوص آچکی ہیں ان میں اجتہاد نہیں کیا جا سکتا ۔
اور یہ صورتیں شریعت کی وہ قسم ہے جس میں اجتہاد بالکل بند ہے کیونکہ یہ حصہ امت کے لیے متعین راہ اور وحدت فکر ہے اور اس میں کسی کو بھی بحث کرنے کی اجازت نہیں۔
سوال نمبر4۔کیا سیاحوں کے لیے شراب ۔۔۔زیادہ پیداوار کے لیے روزہ چھوڑنا۔۔۔اور حج کو تکلیف دہ امور کے باعث  چھوڑنا جائز ہے؟۔۔۔۔اسی طرح کیا زکوۃ کو سر کاری ٹیکس کے باعث چھوڑاجا سکتا ہے۔۔۔یا محرمین پر رحم کرتے ہوئے ہم حدود اور قصاص کو معطل کر سکتےہیں ؟کیونکہ اللہ اپنے بندوں پر بڑا رحم کرنے والا ہے۔قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ 
جواب :یہی وہ مقام ہے جہاں محتاط رہنے کی بڑی ضرورت ہے کہ ہم ایسے مسائل میں اجتہاد کریں جن میں اجتہاد جائز نہیں اور یہ کہ باب اجتہاد میں کوئی ایسا شخص داخل ہو جو اس کا اہل نہیں اور نہ ہی اس میں شروط اجتہاد موجود ہوں۔یہی وہ اسباب ہیں جنہوں نے بعض قدیم علماء کو اجتہاد کے دروازے کو بند کرنے پر اکسایا تھا تاکہ کم علم اور کج فہم لوگوں کے لیے یہ راستہ بند ہی رہے حالانکہ اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے باب اجتہاد کو کھولنے کے بعد کسی کو بند کرنے کا اختیار نہیں اور کسی فرد یا علماء کی جماعت کو مخصوص واقعہ کے پیش آنے پر یہ حق نہیں ہے کہ وہ کہے کہ ہمیں اس میں اجتہاد کا حق نہیں کیونکہ قدیم علماء نے اس بارے میں کچھ نہیں فرمایا جبکہ شریعت مکلف مؤمنین کے تمام افعال کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہے اور ہر واقعہ کے پیش نظر ان کے لیے خاص حکم اور یہ وہ رائے جس میں کوئی وہ آدمی بھی مختلف نہیں۔
مجتہد کی شرائط :۔
سوال نمبر5۔وہ کون سی شروط ہیں جو شرعی اجتہاد کرنے والے کے لیے لازمی ہیں؟ کیا ہر مجتہد میں یہ شرائط لازمی ہیں یا اجتہاد مطلق کرنے اور اجتہاد جزئی کرنے والے کے درمیان فرق ہے؟
جواب: اسلام میں کوئی خاص طبقہ ایسا نہیں ہے جو اکیلا اجتہاد کا اہل مجاز ہو یا وراثۃ اس کا مالک ہو کیونکہ اسلام میں کوئی گدی نشین نہیں بلکہ یہاں تو ایسے عالم کی ضرورت ہے جو اجتہاد کی استعدادرکھتا ہواور اس میں اجتہاد کی پوری شرائط موجود ہوں وہی پیش آمدہ واقعات میں اجتہاد کرے گا اور اس کے متعلق اپنے رائے ظاہر کرے گا خواہ وہ رائے درست ہو یا غلط ۔
مجتہد میں پائی جانے والی شرائط کتب فقہ میں معروف و مفصل موجود ہیں ان میں علمی اور ثقافتی شروط بھی ہیں مثلاً عربی لغت کتاب و سنت اجتہاد کے ضروری مقامات اور اصول فقہ و قیاس اور استنباط و مقاصد شریعت اور اس کے قواعد و کلیات کا علم رکھتا ہو۔ آخری شرط پر تو امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ  نے بڑازوردیا ہے اور اسے اجتہاد کا سبب بتلایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ مجتہد کے پاس ملکہ اجتہاد بھی ہو اور یہ ملکہ فقہ کی مشق اور فقہاءکرام  کے اختلافات اور ان کے خلاصہ کی معرفت سے نشو ونما پا تا ہے اور اسی وجہ سے اسلاف کرام رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ" جو شخص فقہاء کے اختلافات کونہ جانے وہ فقہ کی بوبھی نہیں پا سکتا ۔"
ایک شرط اور بھی ہے جس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  نے توجہ دلائی ہے اور اسے امام ابن قیم نے اعلام الموقعین میں ذکر کیا ہے وہ ہے معاشرے کے حالات سے آگاہی اور یہ اہم شرط ہے۔ اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جو مجتہد لوگوں کو فتویٰ دیتا ہے کسی محل چرچ یا خانقاہ میں الگ تھلگ زندگی گزارتا ہواورلوگوں کو واقعات سے بعید فتاویٰ دیتا ہو یا زمانہ ماضی کے احکام دور جدید کے لوگوں پر منطبق کر رہا ہو اور محققین کے اس قاعدہ کلیہ سے غافل نہ ہوکہ فتویٰ زمان و مکان حالات اور عرف کے تغیر سے بدل جا تا ہے یہ بھی ضروری ہے کہ مجتہد لوگوں کے طور طریقوں سے آگاہ ہو اور اپنے دور کی ثقافت کے عام اصولوں کی شناسائی رکھتا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ مجتہد ایک وادی میں اور لوگ دوسری وادی میں رہتے ہوں اگر مجتہد سے ان مسائل کے متعلق سوال کیا جائے جن کی حقیقت اسباب اور نفسیاتی اور معاشرتی اور فلسفیانہ پس منظر سے وہ ناواقف  ہو تو مسئلہ کو جانچنے اور اس کے متعلق فتوی صادر کرنے میں غلطی سے وہ سلامت نہیں رہے گا۔اس لیے کہ علماء منطق کا اصول یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق حکم لگانا اس کے تصور پر مبنی ہو تا ہے جب تصور ہی غلط ہو تو فتویٰ غلط ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
مجتہد اصلی کا طریق کار:۔
اصلی مجتہد وہ ہو تا ہے جو ایک آنکھ سے نصوص  اور دوسری سے واقعات اور زمانے کے تغیر کو دیکھتا ہو تا کہ پیش آمدہ مسئلہ اور فیصلہ میں موافقت و موزونیت پیدا کر سکے اور ہر واقعہ کے متعلق زمان مکان اور حالات حاضرہ کے موافق فیصلہ صادر کرے۔
علامہ ابن قیم نے ذکر کیا ہے ان کے استاد امام شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  اپنے زمانے میں تاتاریوں کے لشکرکے قریب سے گزرے جو شراب کے نشے سے دھت ہو رہے تھےتو آپ کے ساتھیوں نے انہیں اس فعل بدسے نہ روکنے پر آپ  رحمۃ اللہ علیہ  پر اعتراض کیا تو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا :" انہیں چھوڑو،اللہ نے شراب تو اس لیے حرام کی ہے کہ وہ نماز اور ذکر اللہ سے روکتی ہے لیکن ان کو شراب  فساد فی الالرض اور قتل و غارت سے روکتی ہےلہٰذا اگر یہ شراب کے نشے سے آزاد ہوگئے تو اس سے بڑے جرائم یعنی قتل و غارت اور عزت دری میں مصروف ہو جا ئیں گے۔ آپ کا یہ کہنا ایک متعین اصول اور ضابطے کے عین مطابق ہے اور وہ یہ کہ کسی گناہ پر اس سے بڑے گناہ کے خوف سے خاموش ہو جا نا اور (أهون الشرين أو أخف الضررين. )کو اختیار کرنا یعنی دو مصیبتوں اور تکلیفوں میں نسبتاً آسان مصیبت کو اختیار کرنا۔    
ایک اور شرط :۔
یہاں ایک اور شرط ہے وہ یہ کہ مجتہد عادل نیک سیرت اور فیصلہ کرنے میں اللہ کا خوف رکھتا ہوں اور جا نتا ہو کہ اس معاملہ میں وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نیابت کر رہا ہے نہ وہ خواہش کی پیروی کرتا ہو اور نہ ہی دین کو دنیا کے بدلے میں فروخت کرتا اور جو آدمی اپنے دین کو اپنی ذاتی دنیا کے لیے فروخت نہیں کرے گا۔ وہ دوسرے کی دنیا کے بدلے دین فروخت کرنے کی جسارت بھی نہیں کرے گا۔
جب اللہ نے عوام الناس کے معاملے میں گواہ کے لیے عادل ہونے کو شرط قرار دیا ہے تو اس شخص کے متعلق کیا خیال ہے جو اللہ کے دین کے متعلق گواہی دے کہ اللہ نے فلاں چیز کو حلال اور فلاں کو حرام ٹھہرایا ہے اور فلاں چیز کو واجب اور فلاں معاملہ میں رخصت دی ہے۔۔۔یہ علمی شرائط جو ہم نے بیان کی ہیں ان کا ہر مجتہد مطلق میں جو فقہ کے تمام مسائل وابواب میں اجتہاد کرتا ہو ،پایا جانا ضروری ہے۔ 
لیکن جزئی مجتہد کو اپنے شعبے کی حد تک علم ہو نا چا ہیے اور اس کے پاس علمی سندات ہونی چا ہئیں کیونکہ اکثر علماء کے نزدیک اجتہاد کے حصے بھی ہیں ۔چنانچہ اقتصاد یات کے پروفیسر عالم کو اجازت ہے کہ وہ اپنے شعبے تک اجتہاد کرے جبکہ وہ اس بارے میں واردشدہ نصوص اور ان کے متعلق اجتہادات کا وسیع علم رکھتا ہو اور اس کے پاس اصول استدلال و تعارض کے قواعداور ترجیح کا علم بھی ہو۔
اجتہاد کے چند ضوابط:۔
سوال نمبر6۔ پچھلے چند سالوں میں مسئلہ اجتہاد کے متعلق چند ایسے تصورات رواج پاگئےہیں۔جنہوں نے اجتہاد کو اس کے اصل رخ سے ہٹا دیا ہے۔ اگر معاملہ اسی طرح جاری رہا تو لازماً اجتہاد شرعی کے لیے ضوابط بنانے پڑیں گے جس سے مسلمانوں کو اصلی اجتہاد کا پہچاننا ممکن ہو؟
جواب: دور حاضر میں اجتہاد کے متعلق میں چند ضوابط بیان کرتا ہوں جن کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
1۔قطعی احکامات میں اجتہاد سے بچنا:۔
کیونکہ اجتہاد کی گنجائش انہی احکام میں ہے جن کے دلائل ظنی ہیں اور یہ بات ہمیں زیب بھی نہیں دیتی کہ ہم احکام شریعت سے کھیلنے والوں کے ساتھ چلیں جن کا کام ہی یہی ہو کہ قطعی کو ظنی اور محکم کو متشابہ ثابت کریں کیونکہ اس صورت میں تو ہمارے لیے کوئی معیار ہی نہ رہے گا جس پر ہم اعتماد کریں۔
2۔ظنی کو قطعی بنانا:۔
جس طرح قطعی دلائل کو ظنی بنانا جا ئز نہیں اس طرح ظنی دلائل کو قطعی بنانا بھی درست نہیں اور جن مسائل میں اختلاف ہو چکا ہو۔ نہ ہی اسے اجماع کہیں اور یہ بھی لائق نہیں کہ ہم ہر مجتہد کے سر پر اجماع کی تلوار لٹکائیں جس طرح امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کے معاصرین نے ان کے اجتہادات و اختیارات کے متعلق ایسا ہی رویہ اختیار کیا تھا حالانکہ امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  فرماگئے ہیں۔
"ما يدعي فيه الرجل الإجماع فهو كذب ، من ادعى الإجماع فهو كاذب ، لعل الناس اختلفوا ، ما يدريه" 
"جس نے اجماع کا دعوی کیا اس نے جھوٹ کہا۔ اسے کیا علم شائد کسی عالم نے اختلاف کیا ہو جسے یہ جانتا نہ ہو۔
مجھے جدید تمدن کے مقابلے میں مسلمانوں کی نفسیانی شکست اور موجودہ معاشروں کے اپنائے ہوئے قوانین کے سامنے جھکنے کا بہت خطرہ ہے کیونکہ یہ قوانین نہ مسلمانوں نے بنائے اور نہ اسلام نے ان کی اجازت دی بلکہ یہ قوانین سامراجیوں نے ہم پر مسلمانوں کی غفلت اور اپنی قوت و فریب سے مسلط کئے ہیں اور اہل حق کی غفلت کے باعث یہ باطل قوانین آج بھی مسلمانوں کے ہاں جاری و ساری ہیں اس لیے وہ اجتہادات جو حکمرانوں کی خوشامد کے لیے کئے گئے ہیں انہیں مسترد کردینا چاہئے اور ان اجتہادات میں وہ اجتہادبھی شامل ہے جو کفار سے متاثر ہو کر کیا گیا ہو، مثلاًطلاق کو منع قرار دینا تعدد ازواج اور انفرادی ملکیت کا امتناع اور سودی کاروبار کا جواز وغیرہ۔
3۔مجتہد کی آزادی :۔
مجتہد کو ہر قسم کے خوف سے آزاد ہو نا چاہئے خواہ یہ ان حکام کا خوف ہوجو حکومت پرقابض ہیں اور چاہتے ہیں کہ شریعت ہمارے لیے موم کی ناک بنے اور فتوی ہماری خواہش کے مطابق تیار ہو یا ان جامد مقلدین علماء کا خوف جو ہر نئے اجتہاد کا سر ے سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کو جیل پہنچانے میں ایسے ہی لوگوں کی کارستانیاں کار فرماتھیں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کو بادشاہوں سے نہیں بلکہ اسی قماش کے لوگوں سے تکلیفیں اٹھانا پڑیں مجتہد کو علماء جمہوراور مقلد ین کی جانب سے پھیلائے ہوئے عوامی دباؤ سے بھی آزاد ہونا چاہئے کیونکہ وہ اپنے مخالف کوعوام میں بدنام کرتے ہیں اور لوگوں کو اس کے خلاف اکساتے ہیں۔
4۔وسیع ظرفی:۔
 من جملہ دیگر واجبات کے ایک اور بات بھی ہم پر واجب ہے کہ ہم اجتہاد کے لیے تنگ ظرفی کے بجائے وسیع ظرف ہوں گووہ ہماری رائے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ۔ مجتہد سے خطاکا امکان بھی ضروری ہے کیونکہ وہ بھی ہماری طرح ایک بشر ہے معصوم ہرگز نہیں اور بسااوقات وہ موقف جسے ہم غلط تصور کرتے ہیں وہ درست ہوتا ہے اور بعض دفعہ رائے جیسے لوگوں کی اکثریت مسترد کر دیتی ہے وہ رائے آئندہ زمانہ میں معقول و پسندیدہ بن جاتی ہے اور اسلام میں اللہ و رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ اور کوئی اتھارٹی نہیں ہے جو یہ فرمان جاری کرے کہ فلاں رائے درست ہے تو وہ بعینہ درست بن جائے اور وہ بقائے دوام کی مستحق ہو اور فلاں موقف غلط ہے اسے صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔
موجودہ دورمیں اجتہاد کی نئی قسمیں :۔
سوال نمبر7۔ عصر حاضرمیں ایسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے مسلمان جدید فقہ کے محتاج ہو گئے ہیں ان مسائل کی اہمیت کیا ہے ؟اور اجتہادی عمل کے تحت آپ کی ان میں رائے کیا ہے؟
جواب : ہم گذشتہ زمانوں پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں زمانہ ماضی کے شعبہ ہائے زندگی میں تغیر اور دور جدید کے افکار رفتار اور نت نئی ایجادات کی حیرت انگیزترقی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ ہمارا دور پہلے دور کی بنسبت اجتہاد کا زیادہ محتاج ہے۔ کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کے انقلاب نے دنیا میں عجیب و غریب مسائل  پیدا کردئیےہیں جس کا مشاہدہ شب و روز ہو رہا ہے مثلاً جڑواں بچے ٹسیٹ ٹیوب کے ذریعے انتقال جنین انشورنش جنین کی متعلق قیاس آرائی اعضا کی پیوندی کاری انتقال خون اور حکومتوں کا آپس میں مالی و اقتصادی طریق کار جس کو مقتدمین جانتے بھی نہ تھے، اگر کچھ علم تھا تو وہ صرف سطحی سا علم تھا اس نوعیت کے جدید مسائل اجتہاد کا تقاضا کرتے ہیں اور ان چیزوں پر اجتہاد کا نام اجتہاد انشائی ہو گا یعنی وہ واقعہ جس میں مجتہدین جدید حکم لگائیں اگر چہ ہمارے قدیم فقہاء نے اس بارے میں کوئی رائے نہ دی ہو اور نہ ہی اس بارے میں کوئی حتمی بات فرمائی ہو۔ مثلاً کوٹھیوں پلاٹوں کار خانوں ڈگریوں اور گریڈوں پر زکوۃ سونے کو کرنسی کی بنیاد قرار دینا ٹھیکے والی زمین میں مالک اور مزارع دونوں  پر زکوۃ واجب ٹھہرانا جبکہ نصاب پا یا جائے مثلاً مالک زمین کی پیداوار کی قیمت اور اجرت کی زکوۃ دے اور مستاجر ٹھیکے کی رقم وضع کر کے کھیت یا پھلوں کی زکوۃ ادا کرے۔ 
اجتہاد انتقائی:۔
یہاں اجتہاد کی ایک قسم اور بھی ہے اور اس کا نام اجتہاد انتقائی ہو گا یعنی ہمارے فقہی سر مایہ سے ایسے راجح قول کو اختیار کرنا جو مقاصد شریعت اور لوگوں کی ضروریات اور زمانہ حاضر کے بہت قریب ہو۔ بعض دفعہ انتقاء مذاہب اربعہ میں بھی داخل ہوتا ہے جیسے زمین کی ہر پیداوارپر زکوۃ کے مسئلہ پر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے مذہب کی ترجیح اور محتاج کو مدت العمر روزینہ دینے کے بارے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کے مذہب کی ترجیح اور بعض دفعہ ترجیح کا معاملہ مذاہب اربعہ میں بھی پیش آتا ہے کیونکہ فقہاء اربعہ اپنی جلالت علمی کے باوجود اکیلے ہی فقیہ نہیں تھے بلکہ وہاں ان کے ہم پلہ معاصرین بھی تھے جن کی ان پر بعض امور میں برتری بھی ممکن ہے اسی طرح اس زمانے میں فقہاء کرام کے اساتذہ بھی تھے جن میں صحابہ کرام و تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین  بھی شامل ہیں اور وہ یقیناً ان فقہاء سے افضل تھے ۔شرعی اعتبارات کے مطابق اگر کسی ایک فقہاء کا راجح مذہب اختیار کر لیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے مثلاً حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کتابیہ عورت سے شادی کرنے پر پابندی عائد کردی تھی کہ اس میں مسلمان عورتوں اور بچوں کے حقوق ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور ان عورتوں کے محصن ہونے کی شرط نہ پائے جانے کا خطرہ تھا حالانکہ قرآن میں ان کتابیہ عورتوں سے شادی کی اجازت ہے بشرطیکہ وہ پاک دامن ہوں:
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ (المائدہ:5)
یا مطلقہ  عورت کے متعہ (نان و نفقہ) کو واجب ٹھہرانے میں امام عطا کا قول اختیار کرنا یا طلاق ثلاثہ بیک لفظ یا بیک مجلس کو بعض اسلاف مثلاً امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  وابن قیم جوزی رحمۃ اللہ علیہ  کے مذہب کے مطابق ایک شمار کرنا یا شدیدغصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق کے عدم وقوع میں بعض اسلاف کا مذہب اختیار کرنا کہ:
" لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ" 
وارد ہے یا طلاق بدعی کے عدم و قوع کو لینا وہ طلاق جو حالت حیض میں دی جائے وہ کالعدم قراردی اور اس طرح اس طلاق کا معاملہ جو شخص کسی بات یا کام سے روکنے یا کسی کام کے کرنے کی وجہ سے واقع ہو۔ اس طلاق کو قسم کا مقام دے کر کفارہ ادا کرنا اور اس طرح بعض سلف کے مطابق قریبی رشتہ داروں میں سے جو وارث نہ ہوں ان کے متعلق وصیت کو واجب ٹھہرانا اسی قول کو بنیاد بنا کر حکومت مصر نے ایک قانون الوصیۃ الراجبۃ بنایا ہے کہ جب پوتے کا والد وارث ہونے سے پہلے وفات پا جا ئے تو پوتے کو دادا کی وراثت سے اتنا حصہ دیا جائے گا جتنا کہ اس کے والد کے حیات ہونے کی صورت میں اسے مل سکتا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ شرط یہ ہے کہ یہ حصہ ثلث (کل مال کے تیسرے حصے) سے زائد نہ ہو۔ ان ترجیحات میں سے ایک وہ ترجیح ہے جسے دوحہ قطرکی شرعی عدالت کے چیف جسٹس علامہ عبداللہ بن زید آل محمود نے عطا ء اور طاء دس جیسے تابعین  کی پیروی میں اختیار کیا ہے وہ یہ کہ حج کے دوران زوال سے پہلے بھی جمرات کو کنکریوں مارنا جائز ہے تاکہ اس طرح لوگوں پر آسانی ہوا اور ان خوفناک تکالیف سے نجات ملے جو حجاج کرام کی بھیڑ کی وجہ سے پیش آتی ہیں اور لوگ قدموں تلے آکر ہلاک بھی ہو جا تے ہیں۔
اجتہاد جماعی :
ایک اور اجتہاد جس کے ہم آج کل بہت محتاج ہیں وہ ہے اجتہاد جماعی جوکہ ایک عالمی فقہی کمیٹی کی صورت میں قائم ہوا وروہ مجلس بحث و تمحیص کے بعد کامل آزادی اور دلیری سے حکومتوں اور عوامی دباؤ سے بے پرواہ ہو کر اپنے فیصلہ جات صادر کرے ۔اس کے باوجود میں تاکید سے عرض کرتا ہوں کہ شخصی(انفرادی ) اجتہاد کے بغیر بھی چارہ نہیں جو کہ جماعی اجتہاد کے راستے کو بہترین مقالات اور عمدہ خیالات سے روشن کرتا ہے۔
اجتہاد کے حوالے سے موجودہ رجحانات:۔
سوال نمبر8۔اسلام کے داعیوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ جمود تشدد کے حامی اور ہر جدید خیال کے دشمن ہیں ۔کیا یہ بات واقعہ کے مطابق ہے یا اس کے درپردہ کوئی دوسرا مقصد پوشیدہ ہے اور کیا ہم پر واجب نہیں کہ ہم مسئلہ تجدید کے صحیح موقف سے اسلام کے داعیوں کو آگاہ کریں؟
1۔تجدید کے دشمن:۔
ان حضرات کی کوشش یہ ہے کہ ہر قدیم مسئلہ کو اسی قدامت پر ہی برقرار رکھا جائے اس بنیاد پر کہ پہلے لوگوں نے بعد والوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑا ۔ان کی بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ کہتے ۔ہم اپنے بزرگوں سے علمی میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتے ۔یہ حضرات اسی جمود کی بنا پر جدید مسائل کے حل کے بالمقابل سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں خواہ اس مسئلہ کا تعلق علم سے ہو یا فکر سے آداب سے ہو یا معاشرتی زندگی سے۔ جب ہر شعبہ میں ہی ان کا یہی حال ہے تو دین کے معاملے میں آپ ان کی اس روش پر چنداں تعجب نہ کریں وہ فقط لفظ تجدید کو ہوائی خیال کرتے ہیں دین و شریعت کے بارے میں درج ذیل دو جماعتوں کو میں خوب پر کھ چکا ہوں کہ اسلام میں جمود کے سلسلے میں دونوں کا نقطہ نظر ایک ہی ہے اور میں اس کے متعلق مجلہ الامۃکے شماروں میں پندرھویں صدی کی نسبت سے اظہارخیال کر چکا ہوں۔
1۔گروہ مقلدین : ان دونوں جماعتوں میں ایک تو متعصب مقلدین کا فرقہ ہے جو ہر نئی چیز کا انکار کرتے ہیں اور کسی جماعت یا فرد کے لیے اجتہاد کے حق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
2۔گروہ ظاہری : دوسرے گروہ کا نام ظاہری ہے۔ اس نام سے میری مرادوہ حرفیین ہیں ۔جو ظاہری نصوص پر جمود اختیار کرتے ہیں اور مقاصد پر گہری نظر نہیں ڈالتے اور نہ ہی کلیات کی روشنی میں جزئیات کو پہچانتے ہیں اور یہ بات چنداں تعجب خیز نہیں کہ وہ شریعت کے فروغی مسائل میں جنگ و جدال برپا کرتے ہیں۔۔۔تاہم یہ دونوں گروہ اسلام کے لیے مخلص ہیں لیکن ان کا اخلاص  اس ماں جیسا ہے جو اپنے لخت جگر کو ہوا اور دھوپ کے خوف سے کمرے میں بند کردے جس سے بچے کی موت واقع ہو جائے۔
2۔تجدید کے دلدادہ: ۔ان کے مقابلے میں دوسرا گروہ غالی متجد دین کا ہے ۔ یہ گروہ ہر قدیم چیز کو مٹانے کا ارادہ رکھتا ہے اگرچہ وہ معاشرے میں بنیادی حیثیت کی حامل ہواوراس کا وجود خیر و برکت کا باعث اور اسلامی معاشرے کی بقا کا راز ہو۔ ان کا ارادہ قریب قریب یہ ہے کہ لغت سے لفظ ماضی کو اڑا دیں اور علم تاریخ کو ختم کر دیں۔
ان کی تجدید بعینہ مغربیت ہے اور یورپ کی ہر قدیم چیز ان کے لیے نئی ہے یہ لوگ ہر وقت یورپ کی بیٹھی یا کڑوی چیز اچھائی یا برائی کے حصول کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں،جب رافعی کا سامنا ان لوگوں سے ہوا تو انھوں نے طنزکرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ دین و شریعت تو کجا شمس و قمر ہوا مٹی کو بھی جدید بنانا چاہتے ہیں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ کعبہ کو یورپی پتھروں سے جدید نہیں بنا یا جا سکتا اور امیر الشعراء احمد شوقی نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
ولو استطاعوا في المجامع أنكروا
من مات من آبائهم أو عمّرا
من كل ساعٍ في القديم وهدمه
وإذا تقدم للبناية قصّرا
"کہ اگر نہیں کچھ شرم و حیا مانع نہ ہو تا تو کھلی مجلسوں میں اپنے اسلاف و آباؤ اجداد کا بھی انکارکردیتے جب وہ جدید محل بنانا چاہتے ہیں تو پرانے کو گرانے کے درپے ہو جا تے ہیں۔"
ان دونوں گروہوں کے متعلق امیر شکیب ارسلان نے شکوہ کرتے ہوئے فرمایا  کہ دین جامد ین اور جامدین میں کھوگیا ہے۔۔۔پہلا گروہ جمود سے لوگوں کو متنفراور دورسراگروہ جحود (انکار) سے لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔
3۔اعتدال پسند گروہ :
ان دوقسموں کے درمیان ایک تیسرا گروہ ہے جو درمیانی راہ اختیار کرتا ہے جو قدامت پسندوں کے جموداور جدت پسندوں کے جحود کو ترک کئے ہوئے ہے۔ یہ گروہ حکمت کا متلاشی ہے جہاں کہیں بھی انہیں وہ مل جائے وہیں سے حاصل کر لیتا ہے۔یہ لوگ اسلام کی چھتری میں جدت کو بھی قبول کرتے  ہیں اور قبول کرنے کی دعوت بھی دیتے ہیں اور جائز و ناجائز کے حصول میں فرق کرتے ہیں اور اچھائی اور برائی میں تمیز کرتے ہیں یہ طبقہ یا گروہ ملت اسلامیہ کی محتاجی کے پیش نظر مادی اور فنی علوم کے حصول کی حتیٰ الوسیع دعوت دیتا ہے اور محض خریداربننے اور خود ناواقف رہنے کی بجائے جدیدٹیکنالوجی کے ماہر اور موجد بننے کو شرط قرار دیتا ہے ان حقیقی داعیان اسلام کا موقف قدیم نافع اور جدید اچھی چیزوں کو جمع کرنا اقوام عالم کے مسائل کو سلجھناہے۔ مسائل پر ثابت قدمی دکھانا وسائل میں شدت کا اہتمام کرنا اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونا اور فروعات میں نرمی برتنا ان کا شعار ہے۔
اجتہاد اور تجدید کا باہمی ربط:۔
سوال نمبر9۔ اجتہاد اور تجدید میں ایک طرح کا دوہراربط ہے جب اسلام قرآنی احکام اور تفہیم سنت کے معاملہ میں اجتہاد کو تسلیم کرتا ہے تو کیا اس طرح تجدید کو بھی قبول کرتا ہے؟ یا یہ تجدید نظام حیات عقائد و تفہیم احکام جیسے مسائل کو احسن طریق سے سلجھانے والے مذہب کے منافی ہے؟یا کیا ہر دونوں کے کام کرنے کے راستے الگ الگ ہیں؟
جواب: تجدید دین کے مسئلہ پر بعض صحافیوں کے سوال پر ایک فاضل صاحب علم کے جواب نے مجھے حیرت میں ڈال دیا کہ دین ثابت الاصل ہے اس میں تجدید و ارتقا کی گنجائش نہیں ہے میرے خیال میں اس انکار کا سبب یہ ہے کہ مبادالوگ لفظ تجدید کو مطلقاً دین میں کمی و زیادتی سمجھیں گے۔تو انھوں نے مناسب سمجھا کہ مطلق تجدید کو ہی بند کیا جا ئے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس مسئلہ میں دوٹوک فیصلہ فرما دیا ہے۔
"إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا"
"اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر صدی میں ایک ایسے آدمی کو بھیجےگا جو اس کے لیے دین کی تجدید کرے گا"
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس فرمان اور حکم کے بعد کسی امتی کا قول یا حکم  معتبر نہیں ۔ دراصل بعض مخلص علماء صحیح اور ثابت الاصل مسائل کا لوگوں کے برے استعمال کی وجہ سے سرے سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور غلطی کا علاج غلطی سے کرتے ہیں اس معاملہ میں سیدھا راستہ یہ ہے کہ ثابت الاصل ثابت رہنے دیا جائے اور صحیح تفسیر کے ساتھ باطل تاویلات اور مغالطوں کا رد کیا جائے۔
تجدید دین تو نص سے ثابت ہے لیکن یہ بعینہ اجتہاد نہیں بلکہ اجتہاد تو تجدید کی ایک شاخ ہے اور تجدید کے رنگوں میں سے ایک رنگ ہے اجتہاد فکری علمی پہلو کی تجدید ہے اور تجدید فکری روحانی اور عملی شعبوں پر مشتمل ہے اور جن شعبوں کو اسلام اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے وہ ہیں علم ایمان اور عمل اُمت محمد یہ اس وقت ایمان و فضائل اور اپنے اصلی و شخصی فضائل کی تازگی کے لیے کسی مجدد کی شدید محتاج ہے جو آج کل کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی طرح مسلم معاشرے کی نشاۃ ثانیہ و ترقی کے لیے خدمات سر انجام دے۔ اور اس اجتہاد کو چند مخلص و حق پرست لوگوں مثلاًجناب سعید نورسی رحمۃ اللہ علیہ  امام حسین رحمۃ اللہ علیہ  الیبنا اور سید ابو الاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ  نے شروع کر رکھا تھا ان میں سے بعض لوگ اپنی زندگی پوری کر گئے ہیں اور بعض منتظر ہیں اب بعد میں آنے والوں پر فرض عائد ہو تا ہے کہ وہ مشن کو مکمل کریں اور اس کی خامیوں و نقائص کی تصحیح کریں تاکہ اللہ اپنے اس نور کو مکمل کر دے ۔
سوال نمبر۔ تجدید دین کے مسئلہ میں آمدہ حدیث مبارکہ
"إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا"
"بڑی اہمیت رکھتی ہے اس حدیث میں لفظ من سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟
کیا مسلمانوں کی نگرانی اور راہنمائی کا عمل صدی کے وسط یا آخرمیں ایک جماعت کے ماتحت ہو گا یا فرد کے زیر سایہ ہو گا ؟۔۔۔اسلامی شعور کے تحت اس حدیث کا مفہوم معاشرے کی اصلاح کے لیے ہر شخص کو جماعتی نظم و نسق میں شامل رہ کر تجدید دین کے لیے ابھارتا ہے؟
جواب: یہ حدیث جسے ابو داؤد نے سنن حاکم نے مستدرک ،بیہقی نے معرفۃ السنن و الآثار اور طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے اس نے اُمت کو امید کی کرن بہم پہنچائی ہے اور یاس و ناامیدی کو دور کرتی ہے اور اس امرکی روح پیدا کرتی ہے کہ اللہ اس اُمت کو عرصہ دراز تک چبایا جا نے والا لقمہ نہیں بنائے گا ۔اور نہ ہی گلا گھوٹنے کے لیے بے حرارت دھوئیں کے سپرد کرے گا اور نہ اس اُمت کو اختلاف کے ہاتھوں میں ایسے چھوڑے گاکہ وہ اسے ختم کردے گا بلکہ اللہ ایسے شخص کو ضرورپیدا کرے گاجو صدی کے اخیر یا وسط میں امت کو تفریق سے تنظیم موت سے زندگی اور غفلت سے بیداری میں لائے گا ۔۔۔یہ ہیں تجدید کے بعض معانی!!
چنانچہ وہ صلح اُمت کو دین سے ترو تازگی عطا کرے گا اور دین اس مصلح سے ترو تازہ ہوگا حدیث کے شارحین نے من سے مراد فرد واحد لیا ہے جسے اللہ علمی عملی اور اخلاقی خوبیوں سے نوازے گا اور ان خوبیوں کے ذریعہ دین کو اس کے شباب وجوبن پر لائے گا یا نافع علم و عمل کے ذریعےاس دین کو قوت و زندگی بخشے گا یا وہ بہت بڑا جہاد کرے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ہر صدی میں کسی ایک شخص کی تجدید دین کے سلسلے میں مختلف الخیال ہو تے ہیں  بعض دفعہ ایک شخص کے مجدد ہونے میں اتفاق کرتے ہیں اور بعض دفعہ مجدد کے تعین پر اختلاف کرتے ہیں مثلاً انھوں نے درج ذیل شخصیتوں کے مجدد ہونے پر اتفاق کیا ہے پہلی صدی ہجری میں بن عبدالعزیز دوسری میں محمد بن ادریس شافعی پانچویں میں ابو حامد غزالی چھٹی میں ابن دقیق العید جبکہ باقی شخصیتوں کے مجدد  ہونے پر امت میں اختلاف ہے۔
میرے نزدیک حدیث میں الفاظ من لغت عرب میں جمع پر ایسے ہی دلالت کرتا ہے جیسے واحد پر اور یہ لفظ یہاں جمع پر دلالت کر رہا ہے یہ کوئی ضروری نہیں کہ فردواحد ہی دین کا مجدد ہو گا بلکہ ایک جماعت بھی ہو سکتی ہے اور چند علماء یا چند حکام جرنیل اور صاحب ثروت بھی ہو سکتے ہیں کبھی ایک ملک سے اور کبھی مختلف ملکوں سے بھی مجدد ہو سکتے ہیں کبھی ان میں ہر ایک اپنے شعبہ یا دائرہ میں تجدید کرتا ہے کبھی وہ جمعیت یا رابطہ کی شکل میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں کبھی ان بعض دعوت و ثقافت میں تجدید کرتے ہیں اور دوسرے فقہ میں اور باقی تہذیب و تربیت میں تجدید کرتی ہیں اور بعض اصلاح معاشرہ میں دوسرے اقتصادی میدان میں اور باقی جماعتیں سیاسی میدان میں تجدید کرتی ہیں۔ ان مجددین کے عمل و تجدید کے مختلف رنگوں اور متعدد راستوں کے تسلیم کرنے میں کو ئی امر مانع نہیں صرف تنوع اور خصائص کا اختلاف ہے ان میں تضادو تناقص بھی نہیں (یعنی ان تحریکوں میں مختلف شعبوں میں خدمت سر انجام دینے کے لیے مکمل ہم آہنگی اور تعاون کا جذبہ ہو اور بعض بعض کے لیے عمارت کی اینٹوں کی طرح مضبوطی کا باعث ہوں۔ایک دوسرے کی تنقیص ہو۔ نہ تنقید اور نہ ہی بعض تحریکیں دوسری  اسلامی تحریکوں کے ساتھ الجھا ؤ پیدا کریں کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے اندر کمزوری داخل ہو گی اوردشمنوں کی قوت میں اضافہ ہو گا ۔تجدید دین کو معین شخص کے ساتھ خاص کردینا لوگوں کو اس کے ظہور کی امید پر وقت ضائع کرنے والا بنا دیتا ہے اور یہ انتظار اس بات تک پہنچا دیتا ہے کہ زمین پھٹے اور وہ مجددتجدید دین کا فریضہ سر انجام دے ۔یہی وہ راز ہے جس نے جمہور علماء کو مہدی منتظرکے نظریہ سے متعلق کر دیا ہے اور میں جس بات کو مناسب خیال کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تجدید دین کو جماعت مدرسہ اور تحریک سے منسلک قرار دیا جائے اور ہر غیور مسلمان اس میں حصہ لے اور یہ سوال نہ رہے کہ مجدد کب ظاہرہوگا بلکہ یہ ہو کہ میں تجدید دین کے سلسلے میں کیا کروں؟        
سوال:۔خود ساختہ علمیت کے غرور میں اندھے اور بہرے مجدد دین ،آج کل الحاد خفی کو عالم اسلام کی رگوں میں اتارنے کے لیے میدان میں داخل ہوچکے ہیں تاکہ مسلمانوں کو ان کے دین کی حقیقت اور اصلیت سے بے خبر کردیں تو کیا ان کی ایسی کاوشیں واقعتاً تجدید سے  تعلق رکھتی ہیں اور کیا اس قماش کے لوگ واقعی مجدد ہیں؟
جواب:۔ان لوگوں کو مجدد کہنا ہی غلط ہے۔یہ مبددین(دین کو ملیا میٹ کرنے والے) ہیں،مجددین نہیں ہیں،حقیقی تجدید ان کی بساط میں نہیں ہے۔کسی چیز کی تجدید تو یہ ہے کہ اسے اس کی اصلی اور پہلی شکل پر لوٹایا جائے، اس کے اصل اور خصائص ممیزہ کو برقرار رکھتے ہوئے مرورزمانہ سے پیدا شدہ خلل کے پیش نظر اس میں ترمیم کرلی جائے۔اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم کسی چیز کی تجدید کرنا چاہیں گے تو یہ نہیں سوچیں گے کہ اب اس چیز کی شکل وصورت اورجوہر ہی متغیر ہوگیاہے،اس لیے یہاں کوئی اور جدید چیز لا کر رکھ دی جائے بلکہ اسی چیز کو ہی پوری حرص کے ساتھ پہلے دور کی طرف لوٹائیں گے،ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ پہلی عمارت کو گراکر اس جگہ دوسری عمارت تعمیر  کریں۔کیونکہ ایسا کرنے کے عمل کو تجدید سے دور کابھی واسطہ نہیں اور جن لوگوں کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو جامع مسجد کو ڈھا کر اس کی جگہ کنیسہ تعمیر کرکے اس پر لفظ جامع لکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ان لوگوں کو مجدد کہنے والے درحقیقت مستشرقین کے شاگرد اور ان کے کارندے ہیں،حالانکہ ان کا اصل نام غلامان فکر یورپ صحیح ہے۔
یہ لوگ مغربی فکر کے شاگرد بننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کیونکہ شاگرد تو بعض دفعہ ا ُستاد سے دلائل طلب کرتا ہے اور استاد سے اختلاف بھی کرلیتا ہے۔اور کبھی اس کی علمی  تردید بھی کرتا ہے۔جبکہ ان غلامان یورپ کا فکر مغرب کے متعلق طرتز عمل آمنا وصدقنا ہے۔آپ دیکھیں گے کہ ہر وہ چیز جس پر یورپین لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کے نزدیک حق۔۔۔جو کچھ کہیں،وہ سچ اور جوکچھ بھی وہ کریں،ان کے نزدیک وہ صحیح ہے۔اس معاملے میں دائیں اور بائیں طرف کے غلام برابرکے شریک ہیں ایسے لوگ اصل ومنبع ایک ہی ہے۔یہ سب لوگ اس شجرہ معلونہ کی پیداوارہیں جس کا ذکر قرآن ،تورات اور انجیل میں موجود ہے۔مادیت کا شجرہ خبیثہ وہ ہے جو انسان کو روح اور حیات کو ایمان سے خالی اور معاشرے کو صراط مستقیم سے ہٹا دیتا ہے۔ان خود ساختہ مجددین کے مکروفریب کا پردہ ڈاکٹر محمد البہی نے اپنی کتاب فکر السلامی الحدیث وصلة بالا استعمار الغربی میں چاک کیا ہے۔حقیقی مجدد تو وہ ہوتا ہے جو دین کی  تجدید،دین کے لیے ،دین کے ساتھ کرے۔لیکن جو شخص مشرق یا مغرب والوں کے مفادات کے لیے ،دین کی تجدید،مستشرقین یا ملحدین کے افکار ونظریات سےکرے اسے حقیقی تجدید سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ 


[1] ۔ماخوذاز عربی مجلہ الامیہ روحہ قطر
[2] ۔یہ روایت اجمالی معنیٰ کے لحاظ سے جید ہے کیونکہ بہت سی دیگرمعتبر روایات اس کے مفہوم کی مؤیدہیں۔ اگرچہ بہ سند خاص روایت حدیث کی روسے ضعیف ہے۔