بین الاقوامی امام ابو حنیفہ کانفرنس 5 اکتوبرتا 8 اکتوبر 1998ء

تا8اکتوبر1998ءہوٹل ہالیڈے اِن اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی کانفرنس،بنام۔امام ابو حنیفہ احوال وآثار اور خدمات۔۔۔۔منعقد ہوئی۔جس میں پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کے اہل علم وفکر بھی شریک ہوئے۔ہندوستان سے بھی4افرادپرمشتمل اہل علم کا ایک وفد کانفرنس میں شرکت کے لئے آیا،جس میں مولاناسلمان الحسنی الندوی تھے جو ندوۃالعلماءلکھنؤمیں استاذ،انجمن شباب المسلمین لکھنؤکے روح رواں اور مولانا ابو الحسن علی ندوی کے نواسے ہیں۔عالم عرب سے آنے والے مندوبین میں ڈاکٹر وہبہ الزحیلی(شام)تھے،جو عالم اسلام کی بڑی سربرآوردہ شخصیت،نہایت فاضل بزرگ اور متعدد علمی کتابوں کے مصنف ہیں،جن میں الفقہ الاسلامی وادلتہ اور التفسیر الوجیز جیسی فاضلانہ کتابیں شامل ہیں۔اسی طرح اور بھی مختلف ملکوں اور علاقوں کے اہل علم وفکرتشریف لائے۔
کانفرنس کی تین زبانیں تھیں۔(اردو،عربی اور انگریزی)ان تین زبانوں میں سے کسی بھی زبان میں تقریر یا مقالہ پیش کیا جاسکتا تھا،تینوں زبانوں میں بیک وقت ترجمے کی سہولت موجود تھی۔یعنی عربی تقریر یا مقالے کا اردو اور انگریزی ترجمہ اور اسی طرح انگریزی تقریر کا اردو،عربی اور اردو تقریر کا عربی اور انگریزی میں ترجمے کا انتظام تھا۔اس طرح کسی بھی زبان میں تقریر ہوتی،تمام شرکاءاس سے مستفید ہوسکتے تھے۔یوں نمائندگی اور وسیع انتظامات کے اعتبار سے بلاشبہ یہ ایک بین الاقوامی کانفرنس تھی۔
ہالیڈے اِن ہوٹل،جو پہلے اسلام آباد ہوٹل کے نام سے معروف تھا،اپنی نفاست اور خوش ذوقی میں فائیو سٹار ہوٹلوں میں ممتازہے،اسی ہوٹل میں تمام مندوبین کے قیام وطعام اور اجلاسوں کے انعقاد کا انتظام تھا۔اس کا انعقاد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اورادارہ تحقیقات اسلامی کے تمام رفقاء،ڈائریکٹر محترم جناب ظفر اسحاق انصاری صاحب سمیت،پوری سرگرمی اور نہایت کوش اسلوبی سے حصہ لے رہے تھے،ان تمام حضرات نے معزز مہمانوں کی تواضع اور مہمان نوازی کا حق خوب خوب ادا کرنےکے ساتھ ساتھ کانفرنس کے اجلاسوں کا انعقاد بھی بروقت کیا اور ان کی کاروائیوں کو بھی پوری غیرجانبداری اور نہایت سلیقے سے چلایا،جس سے کسی کو شکایت کا موقع ملا،نہ کسی مکتب فکر کے افراد کے جذبات کسی موقع پر مجروح ہوئے۔بلکہ اگر کسی مقرر یامقالہ نگار نے کوئی ایسی ناگوار بات کہی،جس میں حزبی تعصب کااظہار ہوا،تومنتظمین نے فورااس پر گرفت کی اور پورے ادب واحترام سے ایساطرزعمل اختیار کرنے سے انہیں روک دیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اختلافی مسائل بھی زیربحث آئے،ان پر نقدوجرح کا سلسلہ بھی جاری رہا۔لیکن کسی بھی مرحلے پر کسی قسم کی بدمزگی پیدا ہوئی نہ فکرورائے کے اختلاف میں شدت کا اظہار ہوا۔اس طرح منتظمین نے ایک بہترین مثال قائم کر کے اس بات کا ثبوت پیش کیا کہ دل ودماغ اگر تعصّبات سے پاک اور وحدت امت کا جذبہ صحیح طور پر کارفرماہو،توآج بھی،جب کہ فقہی اختلافات اور حزبی تعصّبات نہایت شدت اختیار کرگئے ہیں،تمام مکاتب فکر کوایک اسٹیج پر جمع کیا جاسکتا اور افہام وتفہیم کے ذریعے سے انہیں ایک دوسرے کے قریب لایا جاسکتا ہے۔
اس کانفرنس کے لئے،جو ایک فقہی مذہب کے بانی کے نام پر ہورہی تھی،سب سے مشکل مسئلہ یہی تھا کہ اسے فقہی اختلافات کی شدت اور حزبی تعصّبات کی گرماگرمی سے محفوظ رکھا جائے جس کا،عنوانِ کانفرنس کی وجہ سے،شدید خطرہ تھا۔لیکن کانفرنس کے ارباب انتظام کی حسن نیت،حسن سلیقہ اور حسن گفتاروکردار نے اس خطرے کو روبہ عمل نہ آنے دیا اور کانفرنس میں تصادم اور کشائش کی بجائے رواداری ومفاہمت کی فجا قائم رہی اور اختلافات کے مقابلے میں وحدت امت کا جذبہ توانا اور برقرار رہا۔
اس فضا اور جذبے کو قائم اور توانا رکھنے میں جلسہ عام کی چار تقریروں نے بھی نہایت مؤثر کردار اداکیا۔کانفرنس کے پروگرام کی ترتیب یہ تھی۔صبح نو بجےتاگیارہ بجے،مقالات کی نشست۔پھر11:30تاایک بجے،دوسری نشست۔اس کے بعد نماز ظہر،طعام اور استراحت کا وقفہ۔پھر4:30سے مغرب تک مقالات کی نشست۔اورنماز مغرب کے بعد9بجے تک جلسہ عام۔جس میں مندوبین کے علاوہ عام لوگوں کو بھی شرکت کی اجازت ہوتی تھی۔اس اجلاس عام میں اسلامی یونیورسٹی کے طلباءاور شہر کے عام افراد بھی شریک ہوتے۔یہ جلسہ عام دوروز منعقد ہوا،5اور6اکتوبر کو پہلے جلسہ عام میں،جو وفاقی وزیر برائے مذہبی امور جناب راجہ ظفر الحق کی زیر صدارت ہوا،ہندوستانی وفد کے معزز رکن مولانا سلمان حسنی ندوی کی تقریر اور راجہ ظفر الحق کا مختصر صدارتی خطاب،دونوں وحدت امت کے جذبے کے بہترین مظہر تھے۔دونوں حضرات نے نہایت اخلاص اور دل سوزی سے امت کے تمام فقہی مذاہب اور مسالک کے مابین رواداری اور مفاہمت پرزور دیا۔دوسرے دن جلسہ عام میں،جو مولانا عبدالستار خان نیازی کی زیر صدارت ہوا،محترم سینیٹر پروفیسر ساجدمیر صاحب(امیر مرکزی جمعیت اہل ھدیث پاکستان)اور مولانا گوہر رحمٰن صاحب کا خطاب ہوا۔یہ دونوں خطاب مفصل،نہایت مؤثر اور بڑے جان دارتھے۔جناب پروفیسر صاحب نے امام ابو حنیفہ کے حوالے سے ان کی بابت جودوانتہا پسندانہ نقطہ نظر پائے جاتے ہیں،ان پر مدلل انداز سے روشنی ڈالی۔یعنی ان کی بابت جو قلت حدیث یا حدیث کو نظر اندازز کرنے کا انتساب کیا جاتا ہے،اس کی زور انداز سے تردید کی اور انہیں متبع حدیث ثابت کیا،اس طرح ان کے ناقدین کو بھی لتاڑا جو امام صاحب کی بابت اس قسم کا تاثر پھیلاتے ہیں۔اس ضمن میں انہوں نے بعض ان اصولوں کی بھی تردید کی جو حدیث کے ردوقبول میں حنفی فقہاءبالعموم استعمال کرتے ہیں اور جنہیں بنیاد بنا کر بعض احادیث کو ردیانظرانداز کردیاجاتا ہے اور بتلایا کہ حضرت امام کا ان اصولوں سے کوئی واسطہ نہیں اسی طرح حسن ظن ہی کے مستحق ہیں حضرت پروفیسر صاحب کا یہ خطاب بڑا مدلل اور نہایت زوردار تھا جس نے ایک طرف امام صاحب کی شخصیت کو نمایاں کیا کہ جس میں امام صاحب سمیت تمام ائمہ وفقہاءکےادب واحترام کو ملحوظ رکھاجاتا ہے،کسی کی توہین وتنقیص کی اس میں اجازت نہیں ہے۔اور جس طرح امام صاحب کی شان میں غلو کرنے والے حنفی صحیح حنفی نہیں،بلکہ ان کی شان گھٹانے والے ہیں،اسی طرح اگر کوئی اہل حدیث امام صاحب کی تنقیص کرتا ہے تو اہلحدیث کی صحیح نمائندگی کرنیوالا نہیں،کیونکہ اہلحدیث کسی کی تنقیص کے قائل نہیں۔پروفیسر صاحب کے عالمانہ خطاب کے بعد مولانا گوہر رحمٰن صاحب نے بھی خاصی تفصیل سے خطاب کیا اور یہ خطاب بھی مسک الختام کا آئینہ دارتھا۔اس میں بھی اختلاف کے مقابلے میں رواداری اور مفاہمت پر زوردیاگیا اور فقہی اختلافات وحزبی تعصّبات کی بجائے وحدت ویک جہتی کے تصور کو نہایت دردمندانہ انداز سے اجاگر کیا گیا۔فجزاہمااللہ احسن الجزاء۔
یہ حسن اتفاق یا توارد بھی نہایت عجیب ہے کہ صبح کی پہلی مقالات کی نشست میں فقہ حنفی کی تدوین اور احناف کے حدیث کے ردوقبول کے اصول پر بعض مقالات پیش کئے گئے۔ایک مقالے میں ثابت کیا گیا کہ حنفی فقہ کے اصل مدون امام محمد ہیں،کیونکہ انہی کی کتابیں،جن کو ظاہر الروایۃکہا جاتا ہے،فقہ حنفی کی اصل بنیاد ہیں۔یہ مقالہ جامعہ القطر کے استاذ نے عربی میں پیش کیا تھا۔اس کے معابعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی۔(اسلام آباد)کے ایک استاذ نے"امام صاھب کی مجلس تدوین فقہ"کے نام سے اردو میں مقالہ پیش کیا،جس میں اس مشہور دعوے کو دہرایا گیا کہ امام صاحب نے30،40فقہاءکی ایک مجلس بنائی ہوئی تھی جو ہر مسئلے پر خوب غور وفکر کرتی اور پھر متفقہ طور پر ایک رائے لکھ لی جاتی۔اس طرح لاکھ سے متجاوز مسائل متفقہ طور پر مدون ہوئے۔راقم نے ایک سوال کے ذریعے سے ان دونوں مقالوں کے تضاد کو واضح کیا کہ ایک مقالہ نگار کا دعوی ہےکہ فقہ حنفی کے اصل مدون امام محمد ہیں اور یہ بات بظاہر صحیح بھی معلوم ہوتی ہے،کیونکہ امام محمد کی کتابیں موجود ہیں جو اس دعوے کی مضبوط دلیل ہیں۔جب کہ دوسرا دعوی یہ ہےکہ امام صاحب نے فقہاءکی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مل کر فقہ حنفی کی تدوین کی ہے۔لیکن اس دعوی کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے،کیونکہ امام صاحب کی نہ کوئی کتاب موجود ہے جس مین ان کے مونہ مسائل کا تذکرہ ہو اور نہ کسی کتاب میں ان کے مدونہ مسائل کا حوالہ لتا ہے۔فاضل مقالہ نگار اس سوال کا معقول جواب دے کر اس تضاد کو رفع نہیں فرماسکے۔البتہ اس اجلاس کے خاتمے کے بعد ایک اور صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ کے سوال کا مطلب تو یہ ہوا کہ امام صاحب کی مجلس کا کوئی وجود نہیں تھا۔میں نے عرض کیا کہ میں تو یہ نہیں کہتا،تاہم آپ اس کی کوئی دلیل تو پیش فرمائیں۔انہوں نے فرمایا،کیاشاگردعلم وفضل میں استاذ سے بڑھ نہیں سکتا؟ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ امام محمد اپنے استاذ سے علم وفضل میں فائق تھے۔میں نے اثبات میں جواب دیا کہ یہ یو ممکن ہے،لیکن کیا امام محمد نے اپنی کتابوں میں کہیں وضاحت کی ہےکہ میری کتابوں میں استاذمحترم کے مدونہ مسائل ہیں؟اگر یہ وضاحت نہیں اور یقیناً نہیں ہے تو میرا سوال پھر بھی تشنئہ جواب ہی ہے۔
کانفرنس کی اسی نشست مین بعض مقالے احناف کے نقد حدیث کے اصول وضوابط پر پڑھے گئے۔جن میں ایک اصول یہ بیان کیا گیا کہ غیر فقیہ صحابی کی روایت،قیاس،یاعقل کے خلاف قابل قبول نہیں۔(2)خبرآحاد سے قرآن کے عموم کی تخصیص جائز نہیں،مرسل روایت حجت ہے وغیرہ۔ان اصولوں کی بابت دعویٰ کیا گیا کہ ان میں محدثین کے اصول کے مقابلے میں زیادہ احتیاط ہے،اس لیے یہ زیادہ اہم ہیں۔یوں محدثین کے مسلمہ اصول وضوابط کو بے حیثیت یا کم حیثیت باور کرانے کی مذموم سعی کی گئی۔راقم نے ان مقالات پر بھی مناقشہ کیا اور کہا کہ فقہائے احناف کے اصول خود ساختہ ہیں اور شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز دونوں نے فرمایا ہے کہ ان اصولوں کی بنیاد پر کئی حدیثوں کو ردکردیا گیا ہے۔راقم نے مزید عرض کیا کہ ان اصولوں میں اگر شدت احتیاط کارفرماہے تو کیا وجہ ہےکہ مرسل روایات کو احناف قابل حجت گردانتے ہیں؟اور ضعیف روایات کو صحیح باور کرانے کی سعی کرتےہیں۔اگر مذکورہ اصولوں کی بنیاد احتیاط ہے تو مرسل روایات اور ضعیف روایات کو قبول کرنا کون سی احتیاط ہے؟
علاوہ ازیں ان اصولوں نے شریعت کے بہت سے اہم احکام کو بے وقعت کردیا ہے۔جیسے نماز ہے جسے خشوع وخضوع سے اداکرنے کی تاکید کی گئی ہے۔خود حضور کی نماز بھی نہایت خشوع خضوع پر مبنی ہوتی تھی۔اورآپ کا فرمان ہے(عربی)(صحیح بخاری)"تم ایسے نماز پڑھو،جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے"اس سے معلوم ہوتا ہےکہ تعدیل ارکان ضروری ہے۔لیکن فقہائے احناف نے کہا کہ رکوع کے معنی ہیں الاغناء(جھک جانا9اور سجدے کے معنی ہیں وضع الجبہۃعلی الارض(زمین پر پیشانی کا ٹکادینا)اس لیے اگر کوئی شخص رکوع میں سرجھکاتے ہی،سراٹھا لےگا،اسی طرح زمین پر پیشانی رکھ کر سراٹھالے گا،تورکوع اور سجود کے معنی حاصل ہوجائیں گے جو قرآن کے الفاظ سے ثابت ہیں اس پر ہم خبرآحادسے تعدیل ارکان کا اضافہ نہیں کرسکتے۔یوں نماز جیسے نہایت اہم فریضے کی ساری اہمیت ختم کردی گئی۔راقم نے یہ بھی عرض کیا کہ ان اصولوں نے منکرین حدیث کو حوصلہ بخشا اور سہارا دیا ہے،جیسے اسی بنیاد پر حدرجم کا انکار کیا گیا ہے۔اس اعتبار سے یہ خود ساختہ اصول انکار حدیث کے چور دروازے ہیں،بنابریں ہمیں ان اصولوں کی بجائے محدثین ہی کے اصولوں کو اپنانا چاہیے۔مزید برآں یہ اصول،جب ضرورت پڑتی ہے،تو خود احناف بھی ان کی پروا نہیں کرتے اور ان کو توڑکر خبر آحاد اور غیر فقیہ راوی کی روایت کو بھی قبول کرلیتے ہیں۔اس کے جواب میں مقالہ نگار نے کہا کہ ناقد نے فقہائے احناف کے اصولوں کو خودساختہ کہا ہے،جب کہ محدثین کے اصول بھی تو انسانوں ہی کے بنائے ہوئے ہیں،وہ بھی تو منزل من اللہ نہیں ہیں۔اس کی وضاحت میں راقم نے عرض کیا کہ یہاں خود ساختہ کا مطلب یہ ہےکہ فقہاءنےیہ اصول صرف اپنے مذہب کی حمایت اور اپنے ائمہ کے اقوال وآراءکودرست ثابت کرنے کے لئے بنائے ہیں،جب کہ محدثین نے جو اصول وضوابط وضع کیے،وہ صرف احادیث کی حفاظت وصیانت اور ان کو غلط وغیر صحیح روایات سے پاک کرنے کے لیے تھے،ان کے سامنے ان کے اپنے کوئی ذہنی تحفظات تھے نہ کوئی خاص مذہب تھا۔اس لیے محدثین کے اصول بھی بلاشبہ آسمان سے نازل شدہ نہیں ہیں،تاہم وہ غیرجانبداری سے صرف شریعت کے تحفظ کے لیے ہیں،لہذا وہی حدیث کے ردوقبول کے لیے معیار اور کسوٹی ہوں گے۔ان کے مقابلے میں بنائے گئے اصول خود ساختہ اور ناقابل قبول ہی قرار پائیں گے،(جیسے ہمارے اس دور میں بھی بعض علمی پندار رکھنے والے جدید منکرین حدیث نے حدیث کو ردوقبول کے لیے نئے اصول وضع کیے ہیں،جیسے"مبادی تدبر حدیث"میں یہ وضعی اصول بیان کئے گئے ہیں)یہ اصول محدثین کے مسلمہ اصول کے مقابلے میں خود ساختہ ہی کہلائیں گے۔مقالہ نگار ان اعتراضات کے جواب میں کوئی معقول بات نہیں کہہ سکے۔فللہ الحمد
اسی روز شام کی نشست میں مولانا گوہر رحمان صاحب(مردان)نے"امام ابو حنیفہ کے فقہی اصول"کےعنوان سے اپنا فاضلانہ مقالہ پیش کیا ہے،اس میں انہوں نے اس موضوع پر داد تحقیق دینے والے دیگر تمام مقالہ نگاروں کے برعکس یہ موقف پیش کیا کہ امام صاحب علیہ الرحمۃقرآن کے بعد حدیث رسول کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے،چاہے وہ غیر فقیہ صحابی سے مروی ہو،خبر آحادہو،قیاس کے خلاف ہو،اگر وہ صحیح اور متصل السند ہے تو وہ بہر حال حجت ہے۔اسی طرح خبر آحاد سے قرآن کے عموم کی تخصیص بھی جائز ہے۔انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ امام صاحب کی طرف جن اصولوں کی نسبت کی جاتی ہے،وہ بعد کے فقہاءکی ایجاد ہیں،امام صاحب سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔امام صاحب نے تو مطلقا حدیث کی حجیت کو تسلیم کیا ہے،انہوں نے اپنے کسی قول میں وہ شرطیں نہیں لگائیں جو بعد میں حنفی فقہاءنےعائد کی ہیں۔جیسا کہ پہلے تفصیل گزری۔
راقم کو مولانا گوہر رحمٰن صاحب کے مقالے اور خیالات سے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔حیرت اس بات پر ہوئی کہ یہ پہلا اتفاق تھا کہ ایک حنفی فاضل ہی ان حنفی اصولوں کی تغلیط کررہا تھا جس کی آڑ میں صحیح حدیثوں کو ردکرنا احناف کے ہاں معمول ہے اور حنفی علماءان اصولوں کی حمایت میں اپنا پورا زور صرف کرتے ہیں۔اور خوشی اس بات پر ہوئی کہ اسی کانفرنس مین اسی روش صبح کی نشست میں راقم نے اپنے مناقشے میں جن باتون کو اجاگر کیا تھا،مولانا گوہر رحمٰن نے ان سب باتوں کی تصدیق کرکے راقم کی توثیق کردی۔اور پھر رات کے جلسہ عام میں پروفیسر ساجد میر صاحب نے بھی راقم کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے حنفی فقہاءکے بیان کردہ اصولوں کی تردید کی۔یہ وہ حسن اتفاق یاحسن توارد تھا جو اس کانفرنس میں پیش آیا۔
جمعرات کو آخری دن صبح کی نشست میں راقم نے اپنا مقالہ پیش کیا۔اس میں بھی امام صاحب اور ان کے ارشد تلامذہ امام ابو یوسف اور امام محمد کے طرز عمل سے ثابت کیاکہ وہ حدیث کو سب سے زیادہ اہمیت دیتےتھے،اس لیے فقہی جمودہرگزحضرت الامام اور ان کے تلامذہ کا مسلک نہیں ہے،بلکہ توسع اور نص کا احترام وتقدس ان کا مسلک ہے اور آج پاکستان میں بالخصوص اسی فقہی توسع اور نص کے احترام کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔فقہی جمود نفاذشریعت کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے جس نے بدنیت حکمرانوں کو حصار عافیت مہیا کررکھا ہے اور وہ اس کی آڑ میں نفاذ شریعت کے مطالبےکوپس پشت ڈالتے چلے آرہے ہیں۔اگر علماءچاہتے ہیں کہ پاکستان میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہوتوانہیں فقہی تعصّبات سے پاک ہوکر اسی طرح قرآن وحدیث کی بالادستی کوتسلیم کرنا چاہیے جیساکہ حضرت امام صاحب اور صاحبین نے تسلیم کیاتھا۔(یہ مقالہ"محدث"کے اسی شمارے میں شامل ہے)
اس اعتبار سے کانفرنس کے جلسہ عام کی مذکورہ چار تقریریں اور مولانا گوہر رحمٰن کا اور راقم کا مقالہ دونوں وقت کی ضرورت اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھے۔یعنی پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے جس طرزعمل کی ضرورت ہے،ان تقاریر ومقالات میں اسی کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے اور اسی جذبے اور فضا کو عام کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔بنابریں مذکورہ چاروں تقریروں اور محولہ بالا دونوں مقالے اس لائق ہیں کہ انہیں یکجا کرکے شائع اور عام کیا جائے۔
آخری سیشن میں مندوبین اور شرکائے کانفرنس نے آئندہ کے لیے مختلف آراءوتجاویز پیش کیں۔جن میں سب سے اہم تجویز یہ تھی کہ جدید مسائل پر علمی وتحقیقی سیمینار منعقد کیے جائیں،جیسا کہ چند سالوں سے ہندوستان میں نہایت نامساعد حالات کے باوجود،یہ سلسلہ جاری ہے اور متعدد موضوعات پر اہل علم وتحقیق کی مفید آراءاورعلمی تحقیق یکجاہوگئی ہے۔یہ تجویز واقعی نہایت مفید اور وقت کی ضرورت ہے،جس کی ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر اور صدر اجلاس جناب ظفر اسحاق انصاری صاحب نے بھی تائید کی،اسی طرح مولانا حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحب نے بھی اسے سراہا اور اس کے ساتھ یہ تجویز بھی دی کہ اس قسم کی علمی مجالس میں مناقشے اور علمی مباحثے کے لیے معقول وقت دیا جائے،تاکہ زیر بحث موضوع کے مختلف گوشے واضح ہوسکیں۔جب کہ اس کانفرنس مین مناقشہ ومباحثہ کے لیے زیادہ وقت نہیں دیا گیا۔صدر اجلاس نے اس کی بھی تائید کی۔
شام کو کانفرنس کا آخری اجلاس،جلسہ عام کی صورت میں ہوا،جس میں وزیراعظم میاں نوازشریف صاحب کی شرکت متوقع تھی،لیکن وہ تشریف نہیں لاسکے اور انہوں نے اپنی جگہ وفاقی وزیر تعلیم جناب سید غوث علی شاہ کو بھیج دیا۔اس اجلاس میں ڈاکٹر وہبہ الزحیلی(شام)کا خطاب ہوا۔ڈاکٹر صاحب موصوف کا کانفرنس کے پہلے روز بھی جلسہ عام میں مفصل خطاب ہوا تھا۔ڈاکٹر صاحب نہایت بلند پایہ عالم ومصنف ہونے کے ساتھ ساتھ،فقہی تعصّبات اور جدلیات سے پاک ہیں ان کی تقاریر اور مناقشات میں یہی پہلو غالب رہا۔کسی موقع پر بھی انہوں نے شافع المسلک ہونے کے باوجود۔۔۔۔امام ابو حنیفہ یادیگر فقہائےاحناف کے بارے میں کسی ذہنی تحفظ کا مظاہرہ نہیں کیا۔بلکہ ہر موقع پر عدل وانصاف اور حق واعتدال کا دامن تھامے رکھااور اپنی ہر گفتگو میں اعتدال وتوازن کا بہترین نمونہ پیش کیا۔جزاہ اللہ احسن الجزاء۔
بہرحال اس آخری اجلاس میں درجہ بدرجہ تشکر وامتنان کے اظہار کے ساتھ،کانفرنس کی قراردادیں،انگریزی میں پیش کی گئیں اور اس کے ساتھ ہی کانفرنس خیر وخوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔