قومی اسمبلی میں شریعت بل کی منظوری اب سینٹ بھی اپنا کردار ادا کرے
10اکتوبر1998ءکو قومی اسمبلی نے آئین میں 15ویں ترمیم کا بل،دو تہائی اکثریت سے منظور کر دیا ہے۔یہ وہی شریعت بل ہے جو28اگست کو اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور جس پر اب تک بحث ونظر اور نقد واعتراض کا سلسلہ جاری ہے۔اس بل میں آئین کی239ویں شق میں ترمیم کرنا بھی شامل تھا،جس پر سب سے زیادہ یہ اعتراض کیا جا رہا تھا کہ اس سے سینٹ کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔حکومت نے اس بل سے اس ترمیم کو حذف کردیا ہے۔اس اعتبار سے سیاسی جماعتوں کا جو سب سے بڑا اعتراض تھا،اسے ختم کردیا گیا ہے،حکومت کا یہ اقدام قابل ستائش ہےکہ اس نے اپنی بات پر اصرار نہیں کیا،حالانکہ وہ اپنے اس موقف پر بہت زور دے رہی تھی،لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے موقف سے ہٹ کر معترضین کا ایک بڑا اعتراض دور کردیا ہے۔
لیکن دینی واسلامی جماعتوں کی طرف سے ایک بات یہ کہی جا رہی تھی کہ اس بل میں ایسے الفاظ کا اضافہ ضرور کیا جائے،جس سے قرآن وسنت کی بالادستی یقینی ہو جائے اور ہمارے آئین کا وہ تضاد دور ہو جائے،جو اسلامی نظام کے نفاذ سے بچنے کے لیے عمداًاس میں رکھا گیا ہے تاکہ حکمران آئین کی بعض خوش نماشقوں سے عوام کو بھی بہلاتے رہیں اور دوسری شقوں کی رو سے وہ نفاذ اسلام کے لیے عملی اقدامات سے پہلو تہی بھی کرتے رہیں۔ہمیں شدید خطرہ ہےکہ جب تک آئین کے اس تضاد کو دور نہیں کیا جائے گا،موجودہ شریعت بل کے پاس کر لینے سے بھی کچھ نہیں ہوگااور حکومت بدستور نفاذ شریعت سے گریزاں رہے گی،جیسا کہ وہ اب تک ہے۔حالانکہ یہ حکومت اگر واقعی چاہتی ہے کہ وہ ملک میں شریعت کا نفاذ کرے تو وہ اس بل کے بغیر بھی یہ کام کر سکتی ہے۔پندرھویں ترمیم کے بغیر بھی حکومت سودی نظام کا خاتمہ کرسکتی ہے،ریڈیو،ٹیلویژن اور اخبارات سے فحاشی کی اشاعت وفروغ کو روک سکتی ہے،نصاب تعلیم کی اصلاح کرکے اسے مشرف بہ اسلام کرسکتی ہے،ظلم واستحصال اور رشوت وبدعنوانی کے خلاف مؤثر قدم اٹھا سکتی ہے،جرائم کی بیخ کنی کے لیے سخت سزائیں نافذ کرسکتی ہے،ملاوٹ اور گرانی کے سدباب کے لیے بہت کچھ کر سکتی ہی۔یہ اور اس قسم کے بہت سے مسائل ہیں جو بالکل واضح ہیں اور جن کی وجہ سے ملک وملت سخت خطرات ومشکلات سے دوچار ہیں اگر حکمران ان مسائل ومشکلات کے حل کے لیے،جو ان کی منصبی ذمے داری بھی ہے،مؤثر اقدامات کرنا چاہیں،تو ہمارا آئین ان کا ہاتھ نہیں پکڑتا،بلکہ ان کو حوصلہ اور ترغیب دیتا اور آمادہ عمل کرتا ہے۔
لیکن حکومت پونے دو سال کے عرصے میں ایک قدم بھی اصلاح احوال کے لیے نہیں اٹھا سکی۔جب صورت حال اتنی مایوس کن اور حکمرانوں کی ملک وملت کو مسائل سے بے اعتنائی اتنی واضح ہو،تو وہاں محض شریعت بل کے پاس کر لینے سے خیر اور بھلائی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟اس لیے شریعت بل میں جب تک ایسے الفاظ شامل نہیں کیے جاتے،جن سے نفاذ شریعت کے وہ چور دروازے بند نہیں ہو جاتے جو ہمارے شاطر سیاست دانوں اور ان کی آلہ کار سیکولر بیوروکریسی نے آئین میں رکھے ہوئے ہیں،اس وقت تک کسی بھلائی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پندرہویں ترمیم میں شریعت کی بالادستی کے لیے درج ذیل الفاظ کی شمولیت ضروری ہے جو اس سے ماقبل بھی ہم نے شائے کیے تھے۔اور وہ یہ ہیں۔یعنی ترمیم بایں الفاظ ہو۔
"قرآن وسنت پاکستان کے قانون اعلیٰ ہوں گے۔کوئی قانون دستوری قانون یا کوئی رسم ورواج،جس کی قانونی حیثیت ہو،اگر وہ قرآن وسنت کے متضاد ہو،تو وہ اس تضاد کی حد تک کالعدم ہوگا۔"
ضروری نہیں کہ بعینہ یہی الفاظ اس میں شامل کیے جائیں،اصل مقصد آئین میں موجود تضاد کو ختم کرنا ہے۔اس مقصد کے لیے حکومت کو طریق کار کی وضاحت یا مناسب الفاظ کا اضافہ کرنا چاہیے۔
ہم سینٹ کے ارکان سے عرض کریں گے کہ وہ قومی اسمبلی سے پاس شدہ بل کو مسترد نہ کریں،کہ یہ ایک بہت بڑا جرم ہوگا،بلکہ اس کی مندرضہ بالا الفاظ میں اصلاح کرکے اس کو پاس کردیں،تاکہ حکومت کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ (عربی)
(حافظ صلاح الدین یوسف)