قرآن و سنت کا باہمی تعلق
قرآن کی روشنی میں باعتبارِ مضمون،احادیث کی قسمیں
امام شافعی نے احادیث وسنن کی باعتبار مضمون قرآن صرف تین قسمیں بیان کی ہیں:
1۔"وہ جو بعینہ قرآن کریم میں مذکور ہیں
2۔وہ جو قرآن کے مجمل احکام کی تشریح کرتی ہیں
3۔وہ جن کا ذکر بظاہر قرآن میں نہ تفصیلا موجود ہے اور نہ اجمالا"(38)
آخر الذکر اس تیسری قسم کے متعلق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے علماءکرام کے چار اقوال نقل کیے ہیں کا تذکرہ ان شاءاللہ آگے ہوگا۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سنے کی تین قسمیں ہی بیان کی ہیں،جو حسب ذیل ہیں:
"1۔وہ سنتِ متواترہ جو ظاہر قرآن کے خلاف نہ ہو بلکہ اس کی مفسر ہو مثلا نمازوں کی تعداد،یا زکوٰۃ کا نصاب یا حج کے ارکان وغیرہ۔اس طرح کے دوسرے احکام سنت ہی سے معلوم ہو سکتے ہیں اور علماءِ اسلام کا ان کے بارے میں اجماع ہے،یہ قرآن کا تتمہ اور تکملہ ہیں۔پس جو ان کی حجیت کا انکار کرتا ہے،وہ علم دین کا انکار کرتا ہے،رکن اسلام کو منہدم کرتا ہے اور اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے اتار پھینکتا ہے۔
2۔ایسی سنت متواترہ جو قرآن کی تفسیر نہیں کرتی،نہ ظاہر قرآن کے خلاف ہو،لیکن ایسے حکم کو بتاتی ہے جو قرآن میں صراحتَہ مذکور نہیں ہے،جیسے زانی کے لیے(جبکہ شادی شدہ ہو)سنگسار کی سزا یا نصابِ سرقہ کی تعیین۔تمام سلف امت اس قسم کی سنت پر بھی عمل ضروری سمجتے ہیں،سوائے خوارج کے۔
3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تواتر سے مروی سنتیں،تلقی بالقبول کی حیثیت سے یایہ کہ ثقات نے ان کو روایت کیا ہے۔ان کے بارے میں بھی اہل علم فقہ وحدیث وتصوف کا اتفاق ہےکہ ایسی حدیثیں قابل قبول ہیں اور ان کی اتباع واجب ہے۔"(39)
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"سنت کا قرآن کے ساتھ تین طرح کا تعلق ہوسکتا ہے۔پہلا تعلق یہ کہ سنت ہر طرح سے قرآن کے موافق ہو،دوسرا تعلق یہ کہ سنت قرآن کی مراد ومنشاءکو بیان کرتی ہو اور تیسرا تعلق یہ کہ سنت ایسے حکم پر دلالت کرتی ہو جس سے قرآن خاموش ہے،۔۔۔۔۔الخ"
جناب امین احسن اصلاحیؔ صاحب کے معتمدِ خصوصی اور داستانِ فراہی کے ترجمان،جناب خالد مسعود صاحب نے"احکام رسول کا قرآن مجید سے استنباط"کے زیرِ عنوان افاداتِ فراہی کو مرتب کرتے ہوئے احکام رسول کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں،چنانچہ لکھتے ہیں:
1۔پہلی قسم،وہ احکام جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحت فرمائی کہ وہ کتاب اللہ سے مستنبط ہیں حالانکہ ظاہر کتاب کی نص میں وہ حکم موجود نہیں،گویا وہ حکم مستنبط ٹھہرے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرض تبیین کے مطابق ہیں۔ان احکام میں اصل وفروع پر غور کرکے ان کے استنباط کا پہلو معلوم کرنا دشوار نہیں ہوتا۔
2۔دوسری قسم،وہ احکام جن کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود صراحت نہیں فرمائی،مگر قرآن سے ان کے استنباط کا پہلو کلام کی دلالتوں کے ایک عارف پر ظاہر ہے۔پس ایک تو یہ حکم قرآن سے ماخوذ ہونے کی بنا پر صحت سے قریب تر ہوتا ہے اور خدا نے نص کتاب کی روشنی میں فیصلہ کرنے کا حکم بھی دیا ہے،دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انسانوں سے زیادہ کتاب اللہ کو سمجھنے والے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے یہ کیسے ممکن تھا کہ جس معاملہ کے بعض پہلوؤں کا اشارہ کتاب اللہ میں موجود ہو اس کا کتاب کی روشنی کے بغیر فیصلہ کریں۔تیسرے عرب قوم کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ کلام کے اشارات کنایات کو خوب سمجھنے والے تھے اور حضعر کو چونکہ نوروہدایت اور بصیرت خدا کی طرف سے حاصل تھی اس لیے آپ اس معاملہ میں سب سے زیادہ ذکی تھے۔
3۔تیسری قسم،وہ احکام جن کے متعلق قرآن میں کوئی نص وارد نہیں،البتہ وہ اس اضافہ کا متحمل ہے۔ایسے احکام میں ہم سنت کو مستقل اصل قراردیں گے،کیونکہ ہمیں اطاعت رسول کا عام حکم دیا گیا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم یکساں طور پر پراز حکمت ہوتاہے،خواہ وہ کتاب اللہ کی بنیاد پر ہویا اس نور وحکمت کے مطابق ہو جس سے خدا نے آپ کا سینہ بھر دیاتھا۔۔۔۔اس اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی تیسری قسم بھی حقیقت میں قرآن سے ماخوذ ہے۔
یہ تین قسمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی واقعی قسمیں ہوئیں۔
4۔چوتھی قسم،ان احکام پر مبنی ہے،جو کتاب اللہ سے زائد ہیں اور کتاب ان کی متحمل نہیں۔
5۔پانچویں قسم،ان احکام پر مشتمل ہے جو قرآن کے مخالف ہیں۔
یہ آخری دونوں قسمیں فرضی ہیں،جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں کیوں کہ ان سے قرآن کا جلی یا خفی نسخ لازم آتا ہے۔علماءکے درمیان جو اختلاف ہواہے،وہ انہی احکام میں ہوا ہے،لیکن یہ احکام گنے چنے ہیں۔۔۔۔الخ"(40)
مندرجہ بالا افاداتِ فراہی پر تبصرہ کرنے سے قبل ہم قرآنی مطالب کو سامنے رکھتے ہوئے مضمون کے اعتبار سے احادیث کی مندرجہ بالا اقسام کا تذکرہ کریں گے۔ہمارے نزدیک احادیث کی زیادہ سے زیادہ چار قسمیں ہوسکتی ہیں،جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
قرآنی آیات کی موافق یا مترادف احادیث
ایسی احادیث جو قرآنی آیات کے الفاظ اور ان کی مخصوص ترتیب کے اعتبار سے اگرچہ مختلف ہوں مگر معنوی اعتبار سے دونوں میں پوری مطابقت ویکسانیت پائی جاتی ہو۔ایسی احادیث قرآن سے ہم آہنگ ہونے کے باعث اس کی تائید وحمایت کرتی ہیں۔بنیادی عقائد اور اخلاق سے متعلق بہت سی روایات قرآنی آیات سے ملتے جلتے مضامین پر مشتمل ہیں،لہذااحادیث کی اس قسم کے ذیل میں آتی ہیں،مثلا
1۔ارشادالہٰی ہوتا ہے ﴿وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ ... ١٥٣﴾...الأنعام(41)
یعنی"اور یہی میرا سیدھا رستہ ہے پس تم اسی راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔اس کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے"۔
تقریبا یہی مضمون حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں یوں مروی ہے:
(خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: «هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ» ، ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ، وَقَالَ: «هَذِهِ سُبُلٌ عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ» وَقَرَأَ: { «وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ» } [الأنعام: 153] الْآيَةَ)
یعنی"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لیے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا:یہ اللہ کا راستہ ہے پھر اس لکیر کے دائیں بائیں چند لکیریں اور کھینچیں اور فرمایاکہ یہ(غیراللہ کے)راستے ہیں۔ان راستوں میں سے ہر راستہ پر ایک شیطان ہے جو اس کی طرف بلاتا ہے،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:( وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ» } [الأنعام: 153] الْآيَةَ))(42)
تقریبا یہی مضمون ایک اور حدیث میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے:
(«يَا مَعْشَرَ القُرَّاءِ اسْتَقِيمُوا فَقَدْ سَبَقْتُمْ سَبْقًا بَعِيدًا، فَإِنْ أَخَذْتُمْ يَمِينًا وَشِمَالًا، لَقَدْ ضَلَلْتُمْ ضَلاَلًا بَعِيدًا)(43)
2۔قتل اولاد کے سلسلہ میں ارشادِ الہٰی ہے:﴿ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ...٣١﴾... الإسراء)(44)یعنی"اپنی اولاد کو ناداری کے خدشہ سے قتل نہ کرو"
اسی طرح شرک اور زنا کو قرآن میں بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے،پس ارشاد ہوتا ہے:﴿وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ...٦٨﴾... الفرقان)(45)یعنی"اور جس شخص کے(قتل کو)اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہان مگر حق سے اور وہ زنا نہیں کرتے"
اور﴿يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ ...١٢﴾... الممتحنة)(46)
یعنی"آپ سے ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی"
اور﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴿٣٢﴾ ... الإسراء (47)یعنی"اورزنا کے پاس بھی مت پھٹکو،بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی کی بات ہے"۔
اور﴿يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴿١٣﴾...لقمان)(48)یعنی"اے بیٹے!اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا،بے شک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے"
اور﴿وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ شُرَكَاءَ ۚ ...٦٦﴾...لقمان)(49)
یعنی"اور یہ جو کچھ پیچھے پڑے ہیں اللہ کے سوا شریکوں کو پکارنے والے"
اور﴿لَّا تَجْعَلْ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَّخْذُولًا ﴿٢٢﴾... الإسراء (50)
یعنی"اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود نہ بناورنہ تو بدحال بے مددگار ہو کر بیٹھ رہے گا"
اور﴿وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ فَتُلْقَىٰ فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَّدْحُورًا ﴿٣٩﴾... الإسراء)(51)
یعنی"اور اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود نہ بنا ورنہ تو الزام خوردہ اور راندہ ہو کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔"
اور﴿فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ ﴿٢١٣﴾... الشعراء)(52)
یعنی"پس تم اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارنا کہ مبادا تم پڑو عذاب میں"
اور﴿الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ فَأَلْقِيَاهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ ﴿٢٦﴾... ق)(53)
یعنی"جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا معبود تجویز کیا ہو سوایسے شخص کو سخت عذاب میں ڈال دو"
مذکورہ بالا آیات میں جو مضمون مذکور ہے تقریبا وہی مندرجہ ذیل حدیث میں بھی مروی ہے:
(قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الذَّنْبِ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ؟ قَالَ: «أَنْ تَدْعُوَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ»، قَالَ: ثُمَّ أَيْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مَخَافَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ»، قَالَ: ثُمَّ أَيْ؟ قَالَ: «أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ»، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَهَا: {وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ، وَلاَ يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَلاَ يَزْنُونَ ...} [الفرقان: 69] الآيَةَ)(54)
"حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہےکہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک سوال کیا کہ یا رسول اللہ!اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ تم اللہ کے لیے شریک ٹھہراؤحالانکہ وہ تمہارا خالق ہے۔اس شخص نے پوچھا:پھر کون سا گناہ؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرو۔ان ارشادات نبوی کی تائید میں یہ آیت نازل ہوئی:اور جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایاہےالایہ کہ کسی حق کی بنا پر اور نہ وہ زنا کرتے ہیں"
3۔قرآن میں ارشاد ہوتا ہے
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ ...﴿١٨٨﴾...البقرۃ(55)یعنی"آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ"تقریبایہی مضمون ایک حدیث میں یوں وارد ہوا ہے:کسی مسلمان کا مال اس کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے"
4۔قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:( مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ...﴿٨٠﴾...النساء)(56)یعنی"جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی"۔
ٹھیک یہی مضمون حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں یوں مروی ہے:( مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ)(57)
یعنی"جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی،اس نے اللہ کی نافرمانی کی"
اسی طرح حضرت جابر بن عبد اللہ کی ایک طویل حدیث میں بھی مروی ہے:(والداعی محمدﷺ من عطاع محمدا ﷺ فقد اطاع اللہ ومن عصی محمدا ﷺ فقد عصی اللہ)(58)
5۔اسی طرح سورۃالکہف میں حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ صحیح البخاری کی ایک حدیث میں مذکور ہے۔
اگر قرآنی آیات سے مطابقت رکھنے والی اس نوع کی احادیث تلاش کی جائیں تو حدیث کی امہات الکتب کی(کتاب الایمان،کتاب النفاق اور کتاب الکبائر وغیرہ)میں ایسی روایات کی کافی تعداد بہ آسانی مل جائے گی۔جناب خالد مسعود صاحب کی تقسیم کے مطابق یہ حدیث کی دوسری قسم ہے۔ایسی روایات کے متعلق آں جناب اپنے ایک مضمون:"حدیث وسنت کی تحقیق کا فراہی منہاج"میں جناب حمید الدین فراہی صاحب کا نقطہ نظر یوں بیان کرتے ہیں:
"﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ ۚ ...١٠٥﴾... النساء)کی روشنی میں مولانا فراہی کا نقطہ نظر یہ ہےکہ قرآن مجید میں جس معاملہ میں کوئی حکم موجود ہوتانبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مامور تھے کہ اسی کی روشنی میں فیصلہ فرماتے۔یہ جائز نہ تھا کہ آپ کتاب اللہ کی رہنمائی کے بغیر کوئی فیصلہ کردیں۔چنانچہ احکام کی بہت سے حدیثیں آیاتِ قرآنی سے ماخوذ ومستنبط ہیں۔وہ قرآن پر اضافہ نہیں کرتیں بلکہ کسی ایسے گہرے معاملہ کی تصریح کردیتی ہیں جو اگرچہ قرآن کی آیت میں موجود تھا لیکن تدبر نہ کرنے والے پر مخفی رہ سکتا ہے۔۔۔مولانا پورے اطمینان سے لکھتے ہیں کہ مجھے احکام کی بیشتر احادیث کی بنیاد قرآن میں تلاش کرنے میں کامیابی ہوئی ہے۔اس کی مزید وضاحت وہ یوں کرتے ہیں کہ بسااوقات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اس بات کی تصریح فرما دیا کرتے کہ میرایہ حکم فلاں آیت سے ماخوذ ہے۔جہاں آپ نے اس طرح کی وضاحت نہیں فرمائی وہاں غوروتدبر سے معلوم ہوجاتا ہےکہ آپ نے کن آیات کی روشنی میں کوئی حکم دیا۔۔۔الخ"۔(59)
(2)قرآنی آیات کی شارح احادیث
ایسی احادیث جو قرآنی اجمال کی تفصیل وتشریح،اس کے عموم کی تخصیص،اس کے مطلب ومعنی کی تعیین اور واقعاتی پس منظر کی وضاحت کرتی ہے۔ان احادیث میں قرآنی آیات سے زائد مضمون پایاجاتا ہے،مثلاً
1۔( ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ...١٠٣﴾...النساء (60)یعنی مومنوں پر مقررہ اوقات پر نماز پڑھنا فرض ہے اس آیت میں صرف مقررہ اوقات پر نماز پڑھنے کی فرضیت بیان ہوئی ہے لیکن ان مقررہ اوقات کی تفصیل وکیفیت نامعلوم ہے۔اس لیے لامحالہ ان احادیث کی طرف رجوع کرناپڑے گا جن میں نماز کے اوقات وغیرہ کی تفصیلات مذکور ہیں۔یہ تفصیل قرآن کے احکام سے زائد کوئی چیز نہیں بلکہ اس اجمال کی شرح ہے۔
2۔(﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ... ٤٣﴾...البقرة)(61)یعنی نماز قائم کرو اور زکوۃاداکرو۔۔۔۔قرآن کا یہ حکم بھی مجمل ہے۔نماز قائم کرنے کا طریقہ کیاہے؟رکعات کی تعداد کتنی ہے؟اس کے وظائف وآداب کیا ہیں؟اس کے اوقات کیاہیں؟اور اس کی کیفیت کیا ہو؟اسی طرح زکوۃکس پر فرض ہے؟کس طرح،کس کو اور کتنی اداکی جائے؟ان سب چیزوں کی تفصیل قرآن میں مذکور نہیں ہے۔
3۔﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ ... ١٨٣﴾...البقرۃ)(62)اور﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ ... ١٨٧﴾...البقرۃ (63)میں روزہ اور سحور کے جملہ احکام ومسائل کی تفاصیل مذکور نہیں ہیں۔
4۔﴿وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ ... ٩٧﴾...آل عمران)(64) ﴿فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ ... ١٩٧﴾...البقرۃ (65)اور﴿وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٢٩﴾...الحج)(66)میں حج کے احکام ومسائل کی تفصیل مذکور نہیں ہے۔
5۔﴿انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ...٤١﴾ ...التوبة(67)اور﴿إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ ... ١١١﴾...التوبة (68)میں جہادی جزئیات کی کوئی تفصیل مذکور نہیں ہے۔
اس بارے میں مشہور محدث امام مروزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"میں نے تمام اصول وفرائض مثلا نماز،زکاۃ،روزہ،حج اور جہاد کو پایاہے کہ ان کی تفسیر کا جاننا یاان کو اداکرنایا ان پر عمل کرناناممکن ہے الایہ کہ ان کی تفسیر اور کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ معلوم ہو"(70)
لہذاتفاصیل کی حامل ایسی تمام احادیث کو آیت﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ... ٤٤﴾...النحل)کے تحت"قرآنی آیات کی شارح احادیث"کی قسم کے تحت ہی شمار کیاجائے گا۔یہ احادیث ان احکام قرآن کی کیوں کرشارح ہیں،اس کی تفصیل اوپر گزرچکی ہے۔
علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
"آیت:( وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ)الخ۔اس بات پر دلالت کرتی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجملات قرآن کے مبین اور اس کی مشکلات کے مفسر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان اور آپ کی تفسیر صرف احادیث کی صورت ہی میں موجود ہے،لہذا ہر حدیث جو نماز کے بارے میں واردہے وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ)کی تفسیر ہے،اسی طرح ہر حدیث جو زکوٰۃکےبارے میں واردہےوہ ارشادِ الہٰی(وَآتُوا الزَّكَاةَ)کا بیان اور اس کی تفسیر ہے،اسی طرح ہر حدیث جو روزے کے بارے میں وارد ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ ... ١٨٧﴾..البقرۃ)کا بیان وتفسیر ہے،اور ہروہ حدیث جو حج کے ابرے میں واردہےوہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ... ١٩٦﴾...البقرۃ)کا بیان وتفسیر ہے۔۔۔۔پس معلوم ہواکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجملات قرآن کا بیان اور اس کی مشکلات کی تفسیر کو قبول کرنا اور اس کے مقتضی کے بموجبِ عمل کرنا ہم پر واجب ہے۔پس احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واجب الاخذ والعمل قراپائیں کیونکہ وہ تمام کی تمام کتاب اللہ کا بیان وتفسیر ہی تو ہیں"(71)
ذیل میں قرآنی آیات کی شارح بعض احادیث کی مثالیں پیش خدمت ہیں:
1۔قران کریم میں حکم ہے: ﴿ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ ... ٦﴾... المائدة (72)یعنی"جب تم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتو اپنے چہرےاورہاتھ کہنیوں تک دھولو"اس آیت میں وضوکا حکم مذکو ہے لیکن آیت کے الفاظ عام ہیں اور اس بات کی قطعی صراحت نہیں کرتے کہ نماز پڑھنے سے قبل ہر نمازی وضو کرے خواہ وہ پہلے سے باوضو ہی ہو یاصرف بے وضو شخص ہی وضو کرے لیکن اس بارے میں واردحدیث اس مجمل قرآنی حکم کی یوں شرح کرتی ہے کہ باوضو شخص کے لیے تجدیدوضو ضروری نہیں،لیکن کرلینااضافی اجر کاسبب ہے۔اس آیت کے متعلق قاضی ابوبکر الجصاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:
"( ظَاهِرُ الْآيَةِ يَقْتَضِي وُجُوبَ الطَّهَارَةِ بَعْدَ الْقِيَامِ إلَى الصَّلَاةِ ۔۔۔۔الخ"(73)
یعنی"اس آیت کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہےکہ جب نماز کے لیے اٹھے تو وضو کرے۔"
لیکن یہ عمومی حکم اس بارے میں واردخبر واحد کی بنا پر خاص ہو گیا کہ اگر سوکر اٹھے،یابے وضو ہو اور نماز کا ارادہ رکھتا ہو تو ایسی حالتوں میں وضو کرے۔اگر پہلے سے وضو کیا ہوتو دوبارہ وضو کرنا باتفاق ائمہ اربعۃضروری نہیں ہے۔قاضی ابوبکر رحمۃ اللہ علیہ نہایت صراحت کے ساتھ مزید فرماتے ہیں:
"أنه بمنزلة المجمل المفتقر الى البيان لا يصح الإحتجاج بعوممه۔۔۔۔الخ"(74)
یعنی"یہ آیت بمنزلہ مجمل ہے جو محتاج بیان ہے،اسکے عموم سے استدلال صحیح نہیں"
2۔ارشاد ہوتا ہے:( فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ...﴿٢٣٠﴾...البقرۃ)(75)یعنی"پس اگر طلاق دے دوتووہ عورت دوبارہ اس کے لیےاس وقت تک حلال نہیں ہوتی جب تک کہ ایک اور خاوند سے نکاح نہ کرلے"اس آیت میں طلاق کے بعد عورت کے دوبارہ اسی مرد کے لیے حلال ہونے کی شرط تو مذکور ہے لیکن اس امر کی کوئی تفصیل مذکور نہیں کہ محض ایجاب وقبول سے ہی اس نکاح کی شرط پوری ہوجاتی ہے یانہیں؟مگر اس بارے میں جو حدیث وارد ہو وہ اس امر کی تعیین کرتی ہےکہ اس نکاح سے مراد زوجین کا آپس میں جنسی تعلق بھی قائم کرنا ہے چنانچہ اس قسم کے ایک واقعہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتھا:(حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول)(76)
3۔اسی طرح قرآن کی آیت﴿عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ﴿١﴾ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ﴿٢﴾...عبس)(77)یعنی"پیشانی پر بل ڈالا اور رخ پھیر لیا،اس بناءپر کہ اس کے پاس نابینا آیاتھا"۔۔۔۔میں یہ صراحت موجود نہیں ہےکہ کس نے پیشانی پربل ڈالا اور رخ پھیر لیا؟اور آنے والا نابینا شخص کون تھا؟حالانکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان چیزوں کی پوری تفصیل موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نابینا صحابی(حضرت عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ)کی مداخلت پر اس ناگواری کا اظہار فرمایا تھا۔
4۔قرآن کی آیت﴿وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا ... ١١٨﴾...التوبة)(78)یعنی"اور ان تینوں شخصوں کے معاملہ پر بھی توجہ کی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ رکھاتھا"۔۔۔۔۔میں اس بات کی صراحت نہیں ملتی کہ وہ تین اشخاص کون تھے؟کس باعث ان کا معاملہ چھوڑ رکھاتھا؟اور کس نے ان پر توجہ کی؟وغیرہ۔۔۔۔لیکن ان تمام چیزوں کے واقعاتی پس منظر ہمیں حدیث میں مل جاتے ہیں۔
5۔قرآن میں ارشاد ہوتاہے﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ ...التوبة(79)یعنی"اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے آپ ان کو دردناک عذاب کی خبر سنادیجئے۔۔۔۔اس آیت میں لغوی اعتبار سے کوئی تخصیص نہیں پائی جاتی کہ وہ مقدار تھوڑی ہے یازیادہ،لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سوال نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا،توآپ نے فرمایا: ’’مابلغ ان تؤدي الزكاته فليس بکنز‘‘ (80)یعنی"جس مال کی زکوٰۃاداکر دی جائے وہ کنز شمارنہیں ہوگا"ایک اور حدیث میں یہ بات یوں مروی ہے’’أن الله لم يفرض الزكاة الا ليطيب بها ما بقى من اموالكم‘‘)(81)یعنی"اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃصرف اس لیے ہی فرض کی ہے کہ اس کے ذریعہ تمہارے باقی اموال کو پاک کردے"
6۔ارشادہوتاہے﴿ وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّـهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ ﴿٧﴾...الأنفال (82)
یعنی"اور تم لوگ اس وقت کو یادکرو جب اللہ تعالیٰ نے ان دو جماعتوں میں سے ایک کاوعدہ کیا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت تمھارے ہاتھ آئے اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا ہونا ثابت کردے اور ان کافروں کی بنیادوں کو کاٹ ڈالے"۔۔۔۔آیت میں غزوہ بدر کی طرف اشارہ ہے لیکن اس بارے میں مفصل معلومات حدیث ہی میں مذکور ہیں۔
7۔﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ... ١١﴾...النساء)(83)یعنی"اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہےتمھاری اولاد کے بارے میں،لڑکے کو حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے"لیکن حدیث میں احکام وراثت کے بارے میں یہ مزید وضاحت ملتی ہےکہ اختلاف مذہب اور قتل موانع ارث ہیں چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(لا يرث المسلم الكافر ولا الكافر المسلم)(84)یعنی"مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا"اسی طرح باپ کا قاتل بھی میراث کا حقدار نہیں ہے"۔۔۔۔(لا میراث القاتل)
8۔﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ۗ ... ٣٨﴾...المائدۃ)(85)
یعنی جو مرد اور عورت چوری کرے ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دالو،ان کے کردار کے عوض میں بطور سزا کے اللہ کی طرف سے۔۔۔۔اس آیت میں قطع ید کا حکم عام ہے لیکن یوں تخصیص وتحدید کردی ہے:( تُقْطَعُ يَدُ السَّارِقِ فِي رُبْعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا)(86)یعنی"چور کا ہاتھ ربع دینار یا اس سے زیادہ مالیت کی چوری پر کاٹاجائے"اسی طرح حقیقی مفسر قرآن آں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مطلق ہاتھ کو دائیں ہاتھ کے ساتھ مقید فرمایا ہے۔علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ"ید"کے معنی اور مال مسروق کی مقدار وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
(فذلك هو المعنى المراد من الأيةلا ان نقول أن السنة أثبتت هذه الأحکام دون الکتاب)
یعنی"سنت کی یہ تشریح درحقیقت آیت کا مفہوم ومدعاہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ سنت نے یہ احکام قرآن کے علاوہ دئیے ہیں"۔
9۔﴿ فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٠﴾ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ ۩ ﴿٢١﴾ ... الإنشقاق (87)یعنی"پس انہیں کیا ہوگیا ہےکہ وہ ایمان نہیں لاتے،جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے"بظاہر یہ آیت اس امر کی متقاضی ہےکہ جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو سننے والا خواہ جنبی ہو یابےوضو،حمام میں ہو یامسجد میں یاکہ بازارمیں،بہرحال سجدہ کرے،مگر بالاتفاق اس آیت کا یہ عمومی حکم احادیث کی بنا پر خاص ہے۔قاضی ابوبکر الجصاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(ظَاهِرُهُ يَقْتَضِي إيجَابَ السُّجُودِ عِنْدَ سَمَاعِ سَائِرِ الْقُرْآنِ إلَّا أَنَّا خَصَصْنَا مِنْهُ مَا عَدَا مَوَاضِعَ السُّجُودِ)(88)
یعنی"اس آیت کا ظاہر سارے قرآن کو سننے کے وقت سجدہ کو واجب قرار دیتا ہے لیکن ہم اس سے مواضع سجود کو خاص کرتے ہیں"
اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں(قال هَذِهِ الْآيَةَ تَأْمُرُ بِالسُّجُودِ إذَا قُرِئَ عَلَيْهِ هِيَ أَوْ غَيْرُهَا)(89)یعنی"یہ آیت سجدہ کا حکم دیتی ہے کہ جب یہ آیت پڑھی جائے یااس کے علاوہ اور کوئی آیت پڑھی جائے"
پس حکم سجدہ کی اس آیت میں خبر واحد سے عمومی حکم کی تخصیص معلوم ہوئی۔
10۔﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّـهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّـهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ ... ٣٦﴾...التوبة)(90)یعنی"یقیناً مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ(قمری)مہینے ہیں جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کیے تھے(اسی روز سے)ان میں سے چار ماہ حرمت والے ہیں"۔۔۔۔بظاہر اس آیت میں ان چار ماہ کا ذکر اجمالا آیا ہے،جن میں لڑائی جھگڑا کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔قرآن کریم میں نہ تو تمام مہینوں کے نام مذکور ہیں اور نہ ہی ان"حرام"چار ماہ کی تفصیل موجود ہے،البتہ اس کی تفصیل احادیث میں ضرور ملتی ہے،لہذا وہ حدیث اس آیت کی شارح ہوئی۔
جناب خالد مسعود صاحب کی تقسیم کے مطابق غالباًحدیث کی یہ تیسری قسم ہے،لیکن ہم آں موصوف بلکہ حلقہ فراہی کے جملہ وابستگان سے یہ ضرور پوچھیں گے کہ حدیث کی اس تیسری قسم کہ جن کے متعلق قرآن میں کوئی صریح نص وارد نہیں ہوئی ہے،کے متعلق یہ کس طرح فیصلہ کیا جائے گا کہ اس قسم کے احکام کی تفصیلات یاشرح اور اضافوں کا قرآن"متحمل ہے"بھی یانہیں؟کیا محض ظن ویقین اور مقتضائے عقل وطبائع(بالفاظ دیگر اٹکل وقیاس)کی بنیاد پر یہ طے کیا جائے گا؟یااس کے لئے ان حضرات کے پاس کوئی ٹھوس دلیل اور اصول وضوابط بھی موجود ہیں؟
(3)۔قرآن سے زائد احکام ومضامین والی احادیث
ایسی احادیث جو مستقل ہیں اور سکی قرآنی آیت کی شرح وتفسیر یاتائید وحمایت میں وارد نہیں ہوئی ہیں۔یہ احادیث قرآن سے زائد مضمون اور احکام پر مشتمل ہیں اور بظاہر قرآن ان سے خاموش ہے۔سنت سے ثابت شدہ ان احکام کے بارے میں یہ کہنا بجااور قطعی طور پر درست ہےکہ ان کی کوئی نہ کوئی اصل قرآن کریم میں ضرور موجود ہےخواہ ہم اپنی کم علمی کی بنا پر اس پر مطلع نہ ہوسکیں۔
علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ ایک مقام پر فرماتےہیں:
"سنت معنوی اعتبار سے کتاب اللہ کی طرف ہی راجع ہے۔دراصل یہ"الکتاب"کے اجمال کی تفصیل،اس کی مشکلات کا بیان اور اس کے اختصار کا بسط ہے۔چونکہ سنت قرآن کی شرح وتفسیرہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول دلالت کرتا ہے: ﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ... ٤٤﴾...النحل)لہذاسنت میں ایسی کوئی چیز نہ ملے گی جس کے معنی پر قرآن اجمالاً یا مفصلاً دلالت نہ کرتا ہو"(91)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بصراحت فرماتے ہیں:
(ما سنَّ رسول الله فيما ليس فيه نص كتاب فمنهم من قال: جعل الله له، بما افترض من طاعته، وسبق في علمه من توفيقه لرضاه، أن يَسُنَّ فيما ليس فيه نص كتاب.
ومنهم من قال: لم يسن سنة قط إلا ولها أصل في الكتاب، كما كانت سُنَّته لتبيين عدد الصلاة وعملها، على أصل جملة فرض الصلاة، وكذلك ما سنَّ من البُيُوع وغيرها من الشرائع، لأن الله قال: " لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (29) " [النساء] ، وقال: " وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (275) [البقرة] ، فما أحلَّ وحرَّم فإنما بيَّن فيه عن الله، كما بَيَّن الصلاة ومنهم من قال: بل جاءته به رسالةُ الله، فأثبتتْ سنَّتَ.[ص:93] ومنهم من قال: أُلْقِيَ في رُوعه كلُّ ما سَنَّ، وسنَّتُه الحكمةُ: الذي أُلقي في رُوعه عن الله، فكان ما ألقي في روعه سنتَه.)(92)
آں رحمہ اللہ اس سے ذرا پہلے فرماچکے ہیں:
(’’ وما سن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما ليس فيه حكم فحكم الله سنة وكذلك اخبرنا الله فى قوله﴿ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٥٢﴾ صِرَاطِ اللَّـهِ... ٥٣﴾...الشوریٰ وقد سن رسول الله صلى الله عليه وسلم مع كتاب الله وسن فيماليس فيه بعینه نص كتاب وكل ما سن فقد الزمنا الله اتباعه وجعل فى اتباعه وجعل فى اتباع طاعته وفى العنود عن اتباعها معصية التى لم يعذربها خلقا ولم يجعل له من اتباع سنن رسوله مخرجا لما وصف وما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبرنا سفيان عن سالم ابوالنصر مولى عمر بن عبيدالله سمع غبيد الله بن ارفع يحدث عن ابيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا ألفين أحدكم متكئا على أريكته يأتيه الا من امرى فما أمرت به او نهيت فيقول لا أدرى ما وجدنا فى كتاب الله اتبعناه –‘‘ (93)
آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر مزید فرماتے ہیں:
’’کل ما سن رسول اللہ صلے اللہ علیه وسلم مع كتاب الله من سنة نهى موافقته كتاب الله فى النص بمثله وفى الجملة بالتبيين عن الله والتبيين يكون أكثر تفسيرا من الجملة وما سن مما ليس فيه نص كتاب الله فيفرض الله طاعته عامة فى امره تبعناه ‘‘)(94)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے اس موقف کو حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ(95)نے بہت تفصیل کے ساتھ توقیرانقل کیا ہے۔کچھ مزید تفصیل اعلام الموقعین(96)لابن قیم رحمۃ اللہ علیہ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
(باقی آئندہ شمارہ میں)
حواشی وحوالہ جات
(38)الشافعی ص28،29(39)حیات ابن تیمیہ مؤلفہ شیخ ابو زھرہ مصر بحوالہ الرسائل المسائل لابن تیمیہ ج7ص20مع تعلیقات الشیخ عطاءاللہ حنیف بھو جیانی ص674(40)رسالۃ"تدبر قرآن"لاہورعددشمار13ص13،15مجریہ فروری سئہ1985ءملخصاً(41)الانعام153(42)السنۃللمروزی ص5،تخفۃالشراف لمعرفۃالاطراف للمزی ج7ص25،49(43)صحیح البخاری مع فتح الباری ج13ص250(44)الاسرآء31ء(45)الفرقان68(46)الممتحنۃ12(47)الاسرآء32(48)لقمان13(49)یونس66(50)الاسرآء22(51)39(52)الشعرآء213(53)ق26(54)متفق علیہ(55)النسآء29(56)النسآء80(57)صحیح البخاری مع فتح الباری ج13ص111(58)نفس مصدرج13ص249(59)رسالۃتدبر لاہور عدد37ص36مجریہ ماہ نومبر سئہ1991ء(60)النسآء104(61)البقرۃ43،83،110(62)البقرۃ183(63)البقرۃ187(64)آل عمران97(65)البقرۃ197(66)الحج29(67)التوبۃ41(68)التوبۃ111(69)کتاب السنۃللمروزی ص31ملخصا(70)النحل44(71)مقدمۃتخفتہ الاحوذی للمبار کفوری ص22(72)المائدۃ6(73)احکام القرآن للجصاص ج2ص402(74)نفس مصدر ج2ص405(75)البقرۃ231(76)صحیح البخاری مع فتح الباری ج9ص362(77)عبس1،2(78)التوبۃ118(79)التوبۃ34(80)سنن ابو داؤدمع عون المعبودج2ص4(81)نفس مصدرج2ص50،المستدرک للحکام ج4ص333وصححہ الذہبی(82)الانفال7(83)النساء11(84)صحیح البخاری مع فتح الباری ج12ص50(85)المائدۃ38(86)صحیح البخاری مع فتح الباری ج12ص96،سنن ابوداؤدمع عون المعبودج3ص84،جامع الترمذی مع تخفۃالاحوذی ج12ص330،الکفایۃ فی علم الرولیۃص14وغیرہ(87)الانشقاق21(88)احکام القرآن للجصاص ج3ص580(89)مجموعۃالفتاویٰ لشیخ الاسلام ج23ص154(90)التوبۃ36(91)الموافقات للشاطبّی ج4ص9(92)الرسالۃللامام الشافعی ص91(93)نفس مصدر ص88(94)نفس مصدرص212(95)بغیۃ الفحول بشرح مختصر الاصول ص83(96)اعلام الموقعین لابن القیم ج1ص41