اَمن كی ضرورت و اہمیت اور شرعی رہنمائی

كسی بھی کامیاب ملك یا علاقے كی دو خصوصیات ہوتی ہیں:

1 ۔امن 2 ۔ خوش حالی

دنیا نے ترقی و عروج كی جس قدر بلندیوں كو چھوا تو بالآخر انہی دو چیزوں كو بنیاد تسلیم كیا، اور ترتیب بھی یہی ركھی كہ پہلے امن، پھر خوش حالی۔ خوش حالی اوروسائل كی بہتات ہو مگر لوگ لڑ لڑ كر مرتے رہیں تو وہ آسودہ حالی بھی كسی كام نہیں آتی۔ كسی بھی معاشرے اور ملك میں امن اوّلین ترجیح ركھتا ہے۔ اس لیے تو سیّدنا ابراہیم نے اپنی اہلیہ اور لختِ جگر كو بے آب و گیاہ علاقے میں آباد كرتے ہوئے جو دعا مانگی تھی ،اس میں یہ بھی تھا كہ ﴿رَ‌بِّ اجعَل هـٰذا بَلَدًا ءامِنًا وَار‌زُق أَهلَهُ مِنَ الثَّمَر‌ٰ‌تِ...﴿١٢٦﴾... سورةالبقرة

''اے اللہ! اس شہر كو امن كا گہوارہ بنا دے اور یہاں كے باسیوں كو پھلوں سے رزق عطا فرما۔''

یہ كلمات اللہ كے حضور دعا كی حیثیت ركھتے تھے مگر بعد والوں كے لیے تربیتی پہلو سے یہ ایك اور اساس فراہم كر رہے تھے، اور وہ یہ تھی كہ امن ہوگا تو شہر آباد ہوگا اور خوش حالی آئے گی۔

امن كی طرف نبیﷺ نے خصوصی توجہ فرمائی۔ آپﷺ نے ظلم و زیادتی سے جس قدر روكا، حقوق كی پاسداری كی جو بھی اہمیت دلائی، فتنوں كے متعلق جو كچھ ارشاد فرمایا اور اسلحے كے حوالے سے جو بھی راہ نمائیاں فرمائیں، مسلمان بھائی كو ہاتھ سے كیا، زبان سے بھی محفوظ ركھنے كی سخت تلقین فرمائی، اسی طرح اقلیتوں كے قتل پر جنت كی خوشبو تك نہ سونگھنے كی وعید سنائی، جبكہ آج کے بگڑے معاشروں میں كئی لوگ اُنہیں قتل كر كے اور فساد بپا كر كے اپنے آپ كو جنتی سمجھے بیٹھے ہیں۔ بہرحال یہ سب نبوی تعلیمات فروغِ امن ہی كے لیے ہیں۔

آپﷺ كی خواہش ہوتی كہ ہر مہینہ پُر امن گزرے، اسی لیے آپﷺ نیا چاند دیكھ كر امن و سلامتی كی دعا فرماتے: «اللهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِیمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ»1

''اے اللہ! اس چاند كو ہم پر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام كے ساتھ طلوع فرما۔''

ان اقدامات سے نبیﷺ كے ہاں امن كی اہمیت كا اندازہ ہوتا ہے۔

اللہ كی صفاتِ عالیہ میں سے 'السلام' اور 'المؤمن' بھی ہیں، یعنی سلامتی والا اور امن دینے والا۔2

ان صفاتِ الٰہی كو خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے كہ لوگ امن كی اپنی كاوشوں كے ساتھ ساتھ امن كے سرچشمے كو كہیں بھول نہ جائیں۔یعنی اس سے امن طلب کریں ۔

قرآن مجید میں لوگوں سے یہ سوال كیا گیا ہے: ﴿أَم أَمِنتُم مَن فِى السَّماءِ...﴿١٧﴾... سورةالملك

''كیا تم اس سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمانوں میں ہے؟''

یہ اور اسی قسم كے دیگر سوالات یہ بتاتے ہیں كہ اگر اللہ كا خوف ہو تو پھر ہی حقیقی امن آسکتا ہے ۔ كیونكہ وہی ذات خوف سے چھٹكارا دے كر امن دلاتی ہے:

﴿وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ﴾ ''اور اسی نے خوف سے امن بخشا۔''

لیكن امن بخشنے كے لیے بھی اس نے قاعدے مقرر فرمائے ہیں، ارشادِباری تعالیٰ ہے:

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا مِنكُم وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ لَيَستَخلِفَنَّهُم فِى الأَر‌ضِ كَمَا استَخلَفَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُم دينَهُمُ الَّذِى ار‌تَضىٰ لَهُم وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِن بَعدِ خَوفِهِم أَمنًا...﴿٥٥﴾... سورةالنور

''اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان اور عمل صالح كرنے والوں سے وعدہ كیا ہے كہ وہ اُنہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے ان سے پہلے اس نے خلافت دی تھی اور انہیں اس دین كا استحكام دے گا جو اس نے ان كے لیے پسند كیا ہے اور ضرور ان كے خوف كو امن میں بدل دے گا۔''

حسب ذیل ایک اور آیت میں بھی دنیا اور آخرت میں حصول امن کا ایک ضابطہ بتادیا گیا ہے :

﴿الَّذينَ ءامَنوا وَلَم يَلبِسوا إيمـٰنَهُم بِظُلمٍ أُولـٰئِكَ لَهُمُ الأَمنُ وَهُم مُهتَدونَ ﴿٨٢﴾... سورةالانعام

''درحقیقت تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔''

اس آیتِ کریمہ میں ظلم سے مراد شرک ہے اور شرک بھی امن کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ بلادِ اسلامیہ كے باسی اگر امن چاہتے ہیں تو قرآن كی روشنی میں اس كی بنیاد ایمان اور عمل صالح ہے۔ اسی سے ہمیں اللہ كی طرف سے امن كی منزل مل سكتی ہے۔ امن وسكون كی یہی وہ نعمت تھی جو عہد نبوت اور اس كے بعد خلافتِ راشدہ كے عہد میں دیكھی گئی، اور وہ پیش گوئیاں پوری ہوئیں جو آپﷺ نے امن و امان كی صورت حال كے متعلق دی تھیں۔ نبیﷺ نے فرمایا تھا:

«وَاللهِ لَیُتِمَّنَّ هٰذَا الأَمْرَ حَتّٰی یَسِیْرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ اِلٰى حَضْرَ مَوْتَ لَا یَخَافُ إِلَّا اللهَ»3

''واللہ! البتہ وہ ضرور اس معاملے كو انجام تك پہنچائے گا حتیٰ كہ ایك سوار صنعا سے حضر موت تك كا سفر كرے گا، اسے اللہ كے سوا كسی كا بھی كوئی خوف نہیں ہوگا۔''

اسی طرح آپﷺ سے جب ایك شخص نے فاقہ كشی اور ایك شخص نے ڈاكہ زنی كی وارداتوں كی شكایت كی تو آپﷺ نے فرمایا:

«فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَیَاةٌ لَتَرَیَنَّ الظَّعِیْنَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الحِیْرَةِ حَتّٰی تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللهَ»4

''تو اگر (اے عدی) تمہاری عمر لمبی ہوئی تو تم ایك ایسی عورت كو ضرور دیكھو گے جو حیرہ سے اكیلی بیت اللہ كے طواف كے لیے جائے گی۔ اسے اللہ كے سوا كسی كا ڈر اور خوف نہیں ہوگا۔''

سیّدنا عدی كہتے ہیں: میں نے دل میں كہا كہ پھر قبیلہ طَے كے ڈاكو كہاں جائیں گے؟ حدیث بیان كرنے كے بعد سیّدنا عدی كہتے ہیں كہ پھر میں نے اپنی آنكھوں سے حیرہ سے كعبہ كا سفر كرنے والی خاتون دیكھی جسے اللہ كے سوا كسی كا كوئی خوف نہیں تھا۔

دراصل یہ كمالِ امن كی نشانی ہے كہ ایك عورت، جو معاشرے میں رہتے ہوئے بھی مامون نہیں ہے، اس كے امن كا یہ عالم ہوگا كہ اتنے لمبے اور پر خطر راستے پر بلا خوف و خطر سفر كر پائے گی۔ یہ كسی بھی علاقے كی امن كی بہترین صورتِ حال كی ایك عملی دلیل ہے۔ امن كی اس منزل كے لیے ایمان وعمل سے سرشار اور خوفِ الٰہی سے بھر پور معاشرہ دركار ہے۔ اس كے لیے اصول و ضوابط مقرر فرما دیے گئے، اب معاشرے كو مثالی بنانا لوگوں كا كام ہے اور امن نصیب كرنااللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔

امن كی ایسی مثالی صورتِ حال كے لیے كسی ملك كے قانون اور ضابطے وہ كردار ادا نہیں كر سكتے جو خوفِ الٰہ سے ہو سكتا ہے۔ اس لیے امن حاصل كرنے كے لیے اللہ كا خوف قوم كے ہاں ہونا چاہیے۔ یہ وہ ضابطہ ہے جس سے عمومی طور پر لوگ كنارہ كش رہتے ہیں اور امن كے لیے اپنی سے كوششیں كرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب كی صورتوں میں ایك یہ صورت بھی بیان فرمائی ہے:

﴿اَوْ يَاْخُذَهُمْ عَلٰى تَخَوُّفٍ ﴾ ''یا اُنہیں خوف میں مبتلا كر كے پكڑ لے؟''

یعنی كسی قوم پر خوف مسلط ہو جائے تو یہ بھی عذاب ہی كی ایك صورت ہے۔ ہمارے ملك پر خوف كے جو سائے مسلط ہیں اوردہشت كی جس قدر زد میں ہیں، یہ بھی عذاب ہی كی ایك صورت محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے امن كے حصول كے لیےاللہ كی طرف رجوع كی بھی ضرورت ہے۔

اللہ سے خوف ہو تو پھر قانون سازی كرتے ہوئے بے انصافیاں نہیں ہوتیں۔ كسی كےحق میں نرمی اور كسی كے گرد قانون كا شكنجہ كسا نہیں جاتا بلكہ ایسی صورت میں ہر ایك سے ایك ہی طرح كا برتاؤ كیا جاتا ہے۔ الغرض! خوف كےسائے دور كرنے كے لیے اللہ تعالیٰ كا خوف ہونا ضروری ہے تب امن كی منزل حاصل ہو۔


حوالہ جات

1. ظلال الجنۃ فی تخریج السنہ از شیخ ناصر الدین البانی:رقم 376

2. سورۃ الحشر: 23

3.صحیح بخاری: 3612

4. صحیح بخاری: 3595