زکوٰۃ کو اجتماعی طور پر جمع کرنا اور اس کی سرمایہ کاری کرکے تقسیم کرنا؟

بعض نمازی حضرات علاقائی سطح پر مساجد میں زکوٰۃ جمع کرنے کی کمیٹیاں بنا لیتے ہیں اور اس کو نادار وفقرا میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسے ہی بعض کاروباری لوگ بھی زکوٰۃ کا ایک مشترکہ نظام تشکیل دیتے ہیں اور اپنی زکوٰۃ کے ثمرات کو وسیع تر کرنے کے لیے اس مال سے سرمایہ کاری کرکے، اس سے نیکی کے بڑے کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس دوسری صورت کے بارے میں ایک سوال نامہ شرعی رہنمائی کے لیے موصول ہوا، جس میں دریافت کیا گیا کہ

'' کاروباری فرد 'زید' نے اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ ایک رفاہی ؍خیراتی ادارہ بھی قائم کیا ہے جس میں وہ اپنے کاروبار کی زکوٰۃ کے علاوہ، اپنے دیگر کاروباری دوستوں کی زکوٰۃ بھی جمع کرتا ہے۔زید اس مشترکہ مالِ زکوٰۃ کو مصارفِ زکوٰۃ کے علاوہ مزید کاروبارمیں بھی لگادیتا ہے تاکہ مالیت بڑھ جانے سے زیادہ سے زیادہ مستحق اس سے فائدہ اُٹھاسکیں، اور زکوٰۃ صرف کرنے کا یہ سلسلہ بلاتعطل جاری رہے۔ زید نے اس رفاہی ادارے کے انتظام وانصرام کے لیے اپنے بیٹے کو بلاکسی مشاہرہ یا مالی منفعت کے مامور کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح زید اور اس کے دوستوں کا فریضہ زکوٰۃ ادا ہوجاتا ہے، اوربالفرض اس مالِ زکوٰۃ سے ہونے والے کاروبار میں اگر کوئی نقصان ہو تو اس سے زکوٰۃ دینے والوں کے ادائیگی فرض میں کوئی کمی تو واقع نہ ہوگی؟''

آغاز میں دو مختلف صورتیں پیش کی گئی ہیں، جن دونوں میں زکوٰۃ کو اجتماعی طور پر جمع کرنا قدرِ مشترک ہے۔ دونوں صورتوں میں کونسی درست اور بہتر ہے اور دوسری صورت میں کیا خامی پائی جاتی ہے۔ سوال نامے میں درج دونوں سوالات کا درست جواب پوچھے گئے نظام زکوٰۃ کی درست شرعی حیثیت پرموقوف ہے ، اس لیے اس سے قبل ہم مذکورہ بالا نظام کا درج ذیل پہلؤوں سے جائزہ لیتے ہیں :

زیر بحث شرعی پہلو

1. انفرادی طور پر زکوٰۃ ادا کرنےکے بجائے اجتماعی طور پر زکوٰۃ کو تقسیم کرنا۔

2. زکوۃ کے مشترکہ مال کو صرف کردینے کی بجائے اس میں اس بنا پر اضافے کی کوشش کرنا کہ اس سے اس مال کی اِفادیت بڑھ جائے۔

3. اس کاروبار کی نگرانی اپنے بیٹے کے سپرد کرنا، جو اس انتظام کا کوئی معاوضہ نہیں لیتا۔

زکوٰۃ کو اجتماعی طور پر جمع کرنا

اسلام ایک اجتماعی دین اور مکمل نظامِ حیات ہے۔ اسلام میں جس طرح نماز کو اجتماعی طور پر ادا کرنے کی تلقین کی گئی اور اس کی بدرجہا فضیلت ہے، حتی کہ بعض احادیث کی رو سے نماز کو اجتماعی طور پر ادا کرنا فرض قرار پاتا 1ہے، اسی طرح زکوٰۃ بھی ایک اجتماعی فریضہ ہی ہے۔

جس طرح فرض نماز جسم اور اعضا وجوارح کا ذاتی حق ہے، اور اہل اسلام پر دیگر نمازیں پڑھنا بھی فرض ہے مثلاً نمازِ عیدین، نمازِ جمعہ، نمازِ جنازہ وغیرہ، اسی طرح اہل اسلام کے 'اَموال کا ذاتی حق'، ان میں زکوٰۃ ادا کرنا ہے جبکہ مسلمانوں کے اموال میں دیگر فرائض بھی ہیں مثلاً صدقہ فطر،مساکین،عزیز واقارب پر صرف کرنا اوراہل خانہ کا نان نفقہ ادا کرنا وغیرہ۔ اس لیے واضح رہنا چاہیے کہ صرف زکوٰۃ ہی مال میں فرض نہیں ہے، بلکہ یہ مال کاذاتی حق ہے، اور اس کے علاوہ حالات وعوارض کی بنا پر پیش آنے والے اور بھی مالی حقوق ہیں 2۔ زکوٰۃ اور دیگر صدقات کے احکام میں بہت سا فرق بھی ہے۔

دورِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں زکوٰۃ سرکاری سطح پر جمع کی جاتی اور اجتماعی طور پر ہی صرف کی جاتی۔ نبی کریمﷺ کو قرآنِ کریم میں یہ حکم دیا گیا کہ

﴿خُذ مِن أَمو‌ٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُ‌هُم وَتُزَكّيهِم بِها ...﴿١٠٣﴾... سورةالتوبة

''آپ ان کے مالوں سے زکوٰۃ وصول کریں جو ان کے مالوں کو پاک کردے اور ان کا تزکیۂنفس کردے۔''

نبی کریمﷺ اسی بنا پر عاملین زکوٰۃ کو مختلف علاقوں میں زکوٰۃ جمع کرنےکے لیے ، ہدایات دے کر بھیجا کرتے۔ اورخلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق نے آغازِ خلافت میں زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے اپنے نمائندے بھیجے۔ جب کچھ لوگوں نے آپ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو آپ نے فرمایا:

وَالله لو منعوني عناقاً - وفي رواية عقالاً - كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ الله ﷺ لَأُقَاتِلَنَّهُمْ عَلَى مَنْعِهِ3

''اللہ کی قسم! اگر یہ مجھے ایک بكری کا بچہ بھی دینے سے انکار کریں، ایک روایت میں رسّی کا تذکرہ ہے، جو یہ رسول اللہﷺ کو ادا کیا کرتے تھے تو میں اس گردن یا رسّی کو وصول کرنے کے لیے ان سے جنگ کروں گا۔''

اور اسی بنا پر پھر سیدنا ابوبکرؓ نے مانعین زکوٰۃ سے جہاد کیا جس کی سیدنا عمر ؓاور تمام صحابہ کرام نے تصدیق کی۔دورِنبوی اور خلافتِ راشدہ میں یہی نظام چلتا رہا ، حتیٰ کہ سیدنا عمر ؓکے آخری اور سیدنا عثمانؓ کے دورِ خلافت میں اموالِ زکوٰۃ کی اس قدر بہتات ہوگئی کہ حکومت کے لیے ان کو تقسیم کرنا مشکل ہونے لگا۔ ان حالات میں دورِ عثمانی میں صحابہ کرام نے یہ اجتہاد کیا کہ اموالِ ظاہرہ میں زکاۃ کی ادائیگی مسلم حکمران کو کی جائے، جبکہ اموالِ باطنہ میں زکوٰۃ کی تقسیم مسلمان خود کرلیا کریں۔'اموالِ ظاہرہ' سے مراد عوام الناس کے ظاہری اموال مثلاً دورِ قدیم میں کھیت، مویشی، کانیں وغیرہ ہیں اور 'اموالِ باطنہ' سے مراد سونا چاندی اور کاروبار وغیرہ ہیں۔

کویت کے فقہی انسائیکلوپیڈیا میں فقہاے اسلام کا موقف یوں بیان کیا گیا ہے:

فَأَمَّا الظَّاهِرَةُ فَيَجِبُ دَفْعُهَا إِلَى الإِْمَامِ، لأَِنَّ أَبَا بَكْرٍ طَالَبَهُمْ بِالزَّكَاةِ وَقَاتَلَهُمْ عَلَيْهَا، وَوَافَقَهُ الصَّحَابَةُ عَلَى هَذَا، فَلَيْسَ لِلْمُزَكِّي إِخْرَاجُهَا بِنَفْسِهِ، حَتَّى لَقَدْ صَرَّحَ الشَّافِعِيَّةُ بِأَنَّهُ لَوْ أَخْرَجَهَا كَذَلِكَ لَمْ تُجْزِئْهُ.3

''جہاں تک اموالِ ظاہرہ کا تعلق ہے تو مسلمان خلیفہ کو ہی اس کا ادا کرنا واجب ہے۔ کیونکہ سیدنا ابوبکرؓ نے اس کا مطالبہ کیا تھا اور اس کو نہ دینے پر ان سے جہاد فرمایا تھا، صحابہ نے اس پران کے ساتھ اتفاق کیا ۔ چنانچہ زکوٰۃ دینے والے کے لیے جائز نہیں کہ خود ہی زکاۃ صرف کرے حتیٰ کہ شافعی فقہا کا تو یہ بھی موقف ہے کہ اگر کوئی شخص اموالِ ظاہرہ کو خود ہی ادا کرے گا تو اس سے اس کی زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔''

وَأَمَّا زَكَاةُ الأَْمْوَال الْبَاطِنَةِ فَقَال الْحَنَفِيَّةُ: لِلإِْمَامِ طَلَبُهَا، وَحَقُّهُ ثَابِتٌ فِي أَخْذِ الزَّكَاةِ مِنْ كُل مَالٍ تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، لِلآْيَةِ. وَمَا فَعَلَهُ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ فَوَّضَ إِلَى الْمُلاَّكِ زَكَاةَ الْمَال الْبَاطِنِ، فَهُمْ نُوَّابُهُ فِي ذَلِكَ، وَهَذَا لاَ يُسْقِطُ طَلَبَ الإِْمَامِ أَصْلاً، وَلِهَذَا لَوْ عَلِمَ أَنَّ أَهْل بَلْدَةٍ لاَ يُؤَدُّونَ زَكَاتَهُمْ طَالَبَهُمْ بِهَا. فَأَمَّا إِذَا لَمْ يَطْلُبْهَا لَمْ يَجِبِ الدَّفْعُ إِلَيْهِ .5

وَقَال الْمَالِكِيَّةُ وَالشَّافِعِيَّةُ: زَكَاةُ الأَْمْوَال الْبَاطِنَةِ مُفَوَّضَةٌ لأَِرْبَابِهَا، فَلِرَبِّ الْمَال أَنْ يُوصِلَهَا إِلَى الْفُقَرَاءِ وَسَائِرِ الْمُسْتَحِقِّينَ بِنَفْسِهِ6

''اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ کے بارے میں حنفی علما کا موقف ہے کہ امام کو اُنہیں بھی جمع کرنا چاہیے اور مسلم حاکم کو مذکورہ آیت کی بنا پر ہر ایسا مال جمع کرنے کا حق حاصل ہے جس میں زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ جہاں تک سیدنا عثمان کے اموالِ باطنہ کی زکاۃ کو مالکوں کے ذمہ تفویض کردینے کا مسئلہ ہے تو وہ اس میں گویا مسلم حاکم کے نائب کے طور پر یہ فرض پورا کرتے رہے ، اس سے حاکم کا حق ختم نہیں ہوگیا۔ چنانچہ اگر حاکم (امام )کو پتہ چلے کہ بعض لوگ اموالِ باطنہ کی زکاۃ نہیں دے رہے تو حاکم کو ان سے زکاۃ کا مطالبہ کرنا چاہیے۔تاہم اگر وہ مالکِ مال سے اموالِ باطنہ کی زکوٰۃنہیں مانگتا تو اس صورت میں اسے نہ دینےکی گنجائش ہے۔اور مالکیہ وشافعیہ کا موقف ہے کہ باطنی اموال کی زکاۃ ، ان کے مالکان کی ذمہ داری ہے، مال کے مالک کو چاہیے کہ وہ فقرا ومساکین پر صرف کرے۔''(وہ ایسی صورت میں حاکم؍امام کے نائب کے طو رپر مال زکوٰۃ تقسیم کریں گے۔)

پھر شافعی علما کہتے ہیں کہ حاکم کا اموال باطنہ کی زکاۃ خود تقسیم کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ وہ لوگوں کے احوال اور ضروریات کو زیادہ بہتر جانتا ہے، جبکہ حنبلی علما کی رائے ہے کہ مالکان کا خود تقسیم کرنا بہتر ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل سے علم ہوا کہ مال زکوٰۃ کو خود ادا کرنے کی بجائے مسلم حاکم کو دینا چاہیے۔

اب تقسیم زکاۃ کے حوالے سے مسلم حاکم میں بھی تفصیل ہے ۔'امام عادل'سے مراد یہاں ایسا مسلم حکمران ہے جو زکوٰۃ کو شرعی نظام کے مطابق جمع کرتا اور شرعی مصارف کے مطابق مستحقین تک پہنچاتا ہے۔مسلم حکمران کے شرعی فرائض مثلاً شرعی نظام عدل ، نظام تعلیم، نظامِ معیشت وغیرہ قائم کرنے کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ اگر وہ ان فرائض کو پورا نہیں کرتا، زکوٰۃ کو مستحقوں تک نہیں پہنچاتا اور خود بھی شرعی بنیادوں پر قائم نہیں، تو ایسی صورت میں اس کو غیرعادل یعنی ظالم حکمران قرار دیا جائے گا۔غیر عادل حکمران کے بارے فقہا کا موقف ہے:

الإِْمَامَةَ لِحِرَاسَةِ الدِّينِ وَسِيَاسَةِ الدُّنْيَا، وَمَنْعُ الزَّكَاةِ هَدْمٌ لِرُكْنٍ مِنْ أَرْكَانِ الدِّينِ... فَذَهَبَ الْجُمْهُورُ مِنَ الْحَنَفِيَّةِ وَالْمَالِكِيَّةِ إِلَى عَدَمِ جَوَازِ دَفْعِهَا إِلَى الإِْمَامِ الجائر، وَأَنَّهَا لاَ تُجْزِئُ عَنْ دَافِعِهَا.

فَقَال الْحَنَفِيَّةُ: إِذَا أَخَذَ الْخَوَارِجُ وَالسَّلاَطِينُ الْجَائِرُونَ زَكَاةَ الأَْمْوَال الظَّاهِرَةِ كَزَكَاةِ السَّوَائِمِ وَالزُّرُوعِ وَمَا يَأْخُذُهُ الْعَاشِرُ، فَإِنْ صَرَفُوهُ فِي مَصَارِفِهِ الْمَشْرُوعَةِ فَلاَ إِعَادَةَ عَلَى الْمُزَكِّي، وَإِلاَّ فَعَلَى الْمُزَكِّي فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الله تَعَالَى إِعَادَةُ إِخْرَاجِهَا. وَأَمَّا الأَْمْوَال الْبَاطِنَةُ فَلاَ يَصِحُّ دَفْعُهَا إِلَى السُّلْطَانِ الْجَائِرِ7

''مسلم حکمران، حفاظتِ دین اور اُمور دنیا کے مصالح پورا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ زکاۃ کو ادا نہ کرنے پر اس کو بالجبر حاصل کرنا جس طرح اس کا فریضہ ہے، اسی طرح باقی احکام دین کو معاشرے میں لاگو کرنا بھی اس کا فرض ہے۔

حنفی مالکی علما کی اکثریت کا موقف ہے کہ ظالم حکمران کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی دے دے تو اس سے ادائے زکوۃ کا فرض پورا نہیں ہوتا۔البتہ اگر خوارج یا ظالم حکمران ظاہری اموال کی زکاۃ جبراًلے لیں، مثلاً چوپائیوں اور زرعی پیدوار کی زکوۃاور جو عشر جمع کرنے والے لے جاتے ہیں۔ تو حنفیہ کے نزدیک اگر وہ اس کو شرعی مصارف میں خرچ کردیں تب زکوٰۃ ادا ہوگئی اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مالک مال کا فرض ہے کہ اللہ اور اپنے مابین معاملے کی درستی کے لیے مزید زکوٰۃ ادا کرے۔جہاں تک اموال باطنہ ہیں(جن کا ظالم حکمران کو پتہ نہیں چلتا) تو اس کو ظالم سلطان کے حوالے کرنا بالکل جائزنہیں ہے۔

جبکہ حنبلی علما کا موقف ہے کہ اگر اموالِ ظاہرہ کی زکوٰۃ جبراً لے لی جائے اور غلط مصارف میں بھی خرچ کردی جائے تو (حنفیہ کے برعکس ) مالکِ مال کے لیے اس کو دوبارہ ادا کرنا ضروری نہیں، اس کی زکوۃ ادا ہوگئی۔''

مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ

1. زکوٰۃ کا اصل اور شرعی نظام یہی ہے کہ نماز کی طرح اسے بھی اجتماعی طور پر ہی جمع اور تقسیم کیا جائے۔اموالِ ظاہرہ کی زکوٰۃ اپنے طور پر تقسیم کرنا بالاتفاق ناجائز ہے۔

2.  جولوگ اپنے طور پر اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں ، وہ مسلم حاکم کی نیابت اور نمائندگی کرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں۔

3.  اس کو جمع اور صرف کرنا مسلم حکمران (امام)کا فریضہ ہے، جو اس سلسلے میں شرعی ذمہ داریاں (یعنی درست جمع کرنا اور صحیح مصارف پر تقسیم کرنا) اور حاکم کے دیگر شرعی فرائض پورا کرتا ہو۔

4.  جو حکمران شرعی فرائض پورے نہیں کرتا، اس کو زکوٰۃ دینے سے گریزہی بہتر ہے۔ اگر وہ جبراً لےلے تو ظاہری اموال کی حد تک حنفیہ کے نزدیک خود ادا کرنا ضروری ہوگا اور حنابلہ کی رائے میں ، اسکی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، تاہم اموالِ باطنہ میں اس کو ایسے حاکم سے احتراز کرنا چاہیے۔

زکوٰۃ کی جمع وتقسیم کے سلسلے میں مثالی نظام کی نشاندہی تو قرآن وسنت سے کردی گئی ہے، لیکن چونکہ دورِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں ادارۂ سیاست شرعی بنیادوں پر ہی قائم تھا، اسلیے اس کے برعکس صورتحال کا تذکرہ قرآن وسنت اور آثارِ صحابہ میں نہیں ملتا۔ بعد کے علما وفقہا کو ہی ظالمانہ نظامِ سیاست کا تجربہ ہوا، اسلیے اس سلسلے میں فقہا کے اقوال ورجحانات اوپر پیش کردیے گئے ہیں ۔

فی زمانہ صورت حال یہ ہے کہ مسلم ممالک کے موجودہ حکمرانوں میں ایک دوکو چھوڑ کر، اکثر وبیشتر شرعی فرائض کی انجام دہی کی پروا نہیں کرتے، مثلاً اقامتِ صلوۃ اور شرعی نظام عدل کا قیام نہیں کرتے، نہ تو ملتِ اسلامیہ کی حفاظت کرتے اور اس پرغیروں کے حملوں کا دفاع کرتے ہیں اور نہ ہی جہاد کے شرعی فریضے کو کوئی وزن دینے پر آمادہ ہیں۔ مسلم حکمران کے فرائض اور ذمہ داریاں یہ ہیں:

أ) حِفْظُ الدِّينِ عَلَى أُصُولِهِ الثَّابِتَةِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ سَلَفِ الأُْمَّةِ، وَإِقَامَةُ شَعَائِرِ الدِّينِ.

ب) رِعَايَةُ مَصَالِحِ الْـمُسْلِمِينَ بِأَنْوَاعِهَا. كَمَا أَنَّهُمْ - فِي مَعْرِضِ الاِسْتِدْلاَل لِفَرْضِيَّةِ نَصْبِ الإِْمَامِ بِالْحَاجَةِ إِلَيْهِ - يَذْكُرُونَ أُمُورًا لاَ بُدَّ لِلأُْمَّةِ مِمَّنْ يَقُومُ بِهَا، وَهِيَ: تَنْفِيذُ الأَْحْكَامِ، وَإِقَامَةُ الْحُدُودِ، وَسَدُّ الثُّغُورِ، وَتَجْهِيزُ الْجُيُوشِ، وَأَخْذُ الصَّدَقَاتِ، وَقَبُول الشَّهَادَاتِ، وَتَزْوِيجُ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ الَّذِينَ لاَ أَوْلِيَاءَ لَهُمْ، وَقِسْمَةُ الْغَنَائِمِ8. وَعَدَّهَا أَصْحَابُ كُتُبِ الأَْحْكَامِ السُّلْطَانِيَّةِ عَشَرَةً. وَلاَ تَخْرُجُ فِي عُمُومِهَا عَمَّا ذَكَرَهُ الْفُقَهَاءُ فِيمَا مَرَّ، عَلَى أَنَّ ذَلِكَ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ بِحَسَبِ تَجَدُّدِ الْحَاجَاتِ الزَّمَنِيَّةِ وَمَا تَقْضِي الْمَصَالِحُ بِأَنْ لاَ يَتَوَلاَّهُ الأَْفْرَادُ وَالْهَيْئَاتُ، بَل يَتَوَلاَّهُ الإِْمَامُ.9

''ا.کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت شدہ دینی اساسات کی حفاظت کرنا اور شعائر دینیہ کی حفاظت کرنا...ب.مسلمانوں کے مختلف النوع مصالح کی نگہبانی کرنا: جیسا کہ جب امام کے منصب کو قائم کرنے کی بات ہوتی ہے تو فقہا ان اُمور کا تذکرہ کرتے ہیں کہ امت میں ان کو قائم کرنے والا ضرور کوئی ہونا چاہیے۔جویہ ہیں: نفاذ شرعی احکام، حدود کا قیام، سرحدوں کی حفاظت، لشکروں کی تیاری، زکوٰۃ کی وصولی، گواہیوں کو قبول کرنا، ولی سے محروم یتیم لڑکے لڑکیوں کی شادی کرنا،مال غنیمت کی تقسیم کرنا- سیاست شرعیہ پرلکھنے والے علما نے ان کی تعداد 10 تک بیان کی ہے۔اور فقہا کے بیان کردہ فرائض سے یہ مذکورہ بالا اُمور خارج نہیں ، تاہم وقتی حاجات اور بتقاضاے مصلحت ان کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے بایں طور کہ افراد اور ادارے ان کی ذمہ داری پوری کرنے کے مسئول نہیں، بلکہ یہ حکمران ؍ امام کے فرائض ہیں۔''

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ﷫نے بھی مسلم حکمران کے فرائض یوں بیان کیے ہیں:

"هي الرياسة العامة في التصدي لإقامة الدين بإحياء العلوم الدينية واقامة أركان الاسلام والقيام بالجهاد وما يتعلق به من ترتيب الجيوش والفرض للمقاتلة وإعطاءهم من الفيء والقيام بالقضاء وإقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر نيابةً عن النبي ﷺ10

''یہ ایسی عمومی حکومت ہوتی ہے جو نبی مکرم کی نیابت میں نفاذِ دین کے فرض کو پورا کرتی ہے کہ وہ دینی علوم کا احیا کرے، ارکانِ اسلام (توحید ورسالت، نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج) کو قائم کرے، جہاد کو جاری کرے، متعلقہ لشکروں کی تنظیم کرے،وجوبِِ جہاد کا اعلان اور مجاہدین میں مالِ فے وغنیمت تقسیم کرے، شرعی نظامِ عدل کو قائم کرے، حدوود کا نفاذ کرے، مظالم کی بیخ کنی کرے،اور معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو جاری کرے۔''

جبکہ فی زمانہ مسلم حکومتیں اور ان کے حکمران ان شرعی فرائض ،شریعت پر عدل وانصاف ، شرعی نظام مالیات اورامن وامان کے علاوہ شرعی تعلیم اور شرعی نظامِ معاشرت کے فرائض مثلاً امربالمعروف ونہی عن المنکر 11اور اقامتِ دین کے فرائض سے کوسوں دور ہیں۔ اندریں حالات نہ تووہ زکوٰۃ جمع کرنے کے مجاز ہیں اور نہ ہی اس کو درست مصارف میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہونا یہ چاہیے...

اوّل تو اپنے طو رپر زکوۃ ادا کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے، کیونکہ یہ رویہ اسلامی اجتماعیت اور شرعی مصالح کو تباہ کردیتا ہے۔

ایسا نہیں کہ جب مسلم حکمران ان فرائض کی انجام دہی سے غافل ہیں تو مسلم معاشرے ان ذمہ داریوں سے بالکل فارغ ہوگئے ہیں۔ شرعی نظامِ قضا تو نہیں، لیکن دینی مدارس میں نظام افتا اپنے طور پر جاری وساری ہے۔ شرعی نظام تعلیم کے مدارس ، شرعی جہاد کی تنظیمیں، غلبہ دین کی تحریکیں بھی اپنے طور پر سرگرم عمل ہیں۔ ایسے ہی مسلمانوں کی فلاح وبہبودکے سماجی ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔

اندریں حالات ملتِ اسلامیہ کو چاہیے کہ فرقہ وارانہ بنیاد کو ترک کرکے، خالص اسلام کی بنا پر ، مساجد کی سطح پر نظامِ زکوٰۃ کو بھی تشکیل دیا جائے جہاں اسلامی احکام کے مطابق زکوٰۃ کو جمع اور تقسیم کیا جائے اور اس میں شرعی پہلوؤں کی پوری طرح پاسداری کی جائے۔ اس نظام زکوٰۃ میں ایسے نیک افراد کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ زکوٰۃ کو جمع کرکے، اس کو عین شرعی مصار ف کے مطابق خرچ کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں شرعی مصالح کی تکمیل کے لیے مالی اخراجات کی قلت کا مسئلہ ختم ہوجائے گا اورمعاشرے سے غربت کا بھی خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔

اپنے تئیں زکوۃ ادا کرنے والے، اکثر وبیشتر کامل زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ، بہت سی قابل نصاب چیزیں مثلاً تجارتی سامان میں زکوٰۃ، شیئرز ونقدی میں زکوٰۃ، تجارتی مقصد کے لیے پلاٹوں کی خرید وفروخت وغیرہ میں زکوٰۃ دی ہی نہیں جاتی۔ درست زکوۃ ادا کرنے والے ، فرض نماز ادا کرنے والوں سے بھی بہت ہی کم ہیں۔ اور جو زکوۃ ادا کی جاتی ہے، اس کو بھی گھوم گھما کر اپنے ہی مفاد پر صرف کردیا جاتا ہے اور مصارفِ زکوۃ کے اکثر شرعی پہلؤوں کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔

جس طرح ملتِ اسلامیہ کا حکمران محض عوامی؍ سماجی طور پر منتخب ہوکر، صرف مصلحتِ عوام کے لیے کام کرنے والا نہیں ہوتا۔ بلکہ ملتِ اسلامیہ کا حکمران جسے شرعی اصطلاح میں امام ، امیر یا خلیفہ کہتے ہیں، شرعی اصولوں کے تحت متعین ہوکر، خود بھی شرعی فرائض کی پاسداری کرتا اور معاشرے ومدارس کو اسلامی مقاصد کی طرف پیش قدمی کراتا ہے، عامۃ المسلمین کے حقوق اور ان میں ترجیحات کا تعین شریعت کی روشنی میں کرتا ہے، اسی طرح مساجد کی سطح پر ایسی زکوٰۃ کمیٹیوں کو ، جو وقتی طور مسلم حاکم کی نیابت کے طور پر یہ کام کریں گی، اس میں بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ اس میں ایسے ماہرین شریعت علما کو شامل کیا جائے جو ایک طرف زکوٰۃ کی مالیت کا تعین، جمع کرنے کے آداب اور مالکِ مال کے حقوق کی نگہداشت کے علاوہ مصارفِ زکوٰۃ کے اُمور کی ہمہ وقتی شرعی نگرانی کریں۔ تو دوسری طرف فریضہ امامت واسلامی اجتماعیت کی ممکنہ پاسداری کرنے میں بھی اپنی صلاحیتیں صرف کریں، ان کے مقاصد میں مذکورہ بالا فرائض امامت کی کسی درجہ میں تکمیل بھی شامل ہو۔ عقل وقیاس کا تقاضا ہے کہ امامت ِکبریٰ (خلافت) کی نیابت بھی انہی اداروں کوسپرد ہوگی جو اس کے کسی فرض کی تکمیل میں کوشاں ہوں۔

چونکہ یہ سارا نظام شریعت کے ایک اہم تقاضے کی بنا پر، شرعی مصالح کے لیے ہی قائم ہوتا ہے، اس لیے اس میں لمحہ بہ لمحہ ماہرین شریعت کی نگرانی کی ضرورت موجود رہتی ہے۔بصورتِ دیگرایسی کمیٹیوں کی مثال، اس مسلم حکمران ہی کے مشابہ ہوجائے گی، جو شریعت کی رہنمائی اور فرائض سے غافل ہوتے ہیں ۔مزید برآں نظام زکوٰۃ کے ان مشیر ان وایڈوائزر ز،شرعی ماہرین کے لیے یہ لازم کیا جائے کہ اوّل تو وہ اس نظام زکوٰۃ کے ماتحت ملازم نہ ہوں ، بلکہ ان کو کسی مستقل نظام کے تحت اعزازیہ ملے،تاکہ کسی قسم کے دباؤ سے باہر رہ کر ، وہ شرعی رہنمائی کا عظیم فرض انجام دے سکیں۔ ثانیاً، اُن کے فیصلے ان کے اپنے مفادات کو ہی تحفظ نہ پہنچا رہے ہوں۔

الغرض آج مسلمانوں کی اکثریت جو انفرادی طورپر زکوٰۃ ادا کررہی ہے تو اس کی وجہ خلافت کے شرعی سیاسی مرکز کا معدوم ہونا ہے۔ زکوٰۃ کو اجتماعی طور پر ادا کرنا ہی اصل نظام شرعی ہے، تاہم اس کو محض ایک سوشل نظام کے بجائے، شرعی نظم ہونا چا ہیے جس کو شرعی ماہرین کے زیر نگرانی ہونا چاہیے اور اس کو کسی مسجد ، مدرسہ یا شرعی نظم وادارہ سے ہی وابستہ ہونا چاہیے۔

زکوٰۃ کے مال کو تاخیر سے ادا کرنا

مالِ زکوٰۃ کے بارے میں اُصول یہ ہے کہ وہ سال پورا ہونے کے فوری بعد واجب ہوجاتا ہے اور وجوب کے بعد اس کوادا کرنا مالکِ مال کے لیے ضروری ہوجاتا ہے ۔ اگر وہ اس کو بروقت ادا نہیں کرتا تو وہ شرعی فریضہ میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ بالفرض اس دوران وہ فوت ہوجائے یا اس پر کوئی آفت آجائے تو یہ شرعی فریضہ اس کے ذمّے قائم رہتا ہے اور وہ عدم ادائیگی کی وعید کا مستحق بنا رہتا ہے۔قرآن کریم میں ہے : ﴿وَءاتوا حَقَّهُ يَومَ حَصادِهِ...﴿١٤١﴾... سورةالانعام

''فصل کی کٹائی والے دن ہی اس کا حق (یعنی عشر )ادا کردو۔''

یہ آیتِ کریمہ زرعی اجناس وغیرہ کے بارے میں ہے ،اسی پر ہی باقی قابل زکاۃ چیزوں کو قیاس کیا جائے گا۔زکوٰۃ غربا کا حق ہے، اور اس حق کا ان کو بروقت نہ ملنا شرعاً زیادتی ہے۔ اس میں تاخیر کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ تاخیر غیرمتعینہ مدت کے لیے ہوئی، جب ایک طویل مدت تک زکاۃ کی ادائیگی ہی نہ ہوئی تو پھر زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کے لیے وعید کا مفہوم ہی بے معنی ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیات بھی نیکی کے کاموں کو جلد کرنے کی تلقین کرتی ہیں: ﴿فَاستَبِقُوا الخَير‌ٰ‌تِ...﴿١٤٨﴾ ... سورةالبقرة

''مسلمانو! نیکی کے کاموں میں جلدی کرو۔''

﴿وَسارِ‌عوا إِلىٰ مَغفِرَ‌ةٍ مِن رَ‌بِّكُم...﴿١٣٣﴾... سورة آل عمران

''اللہ سے مغفرت کے حصول میں تیزی دکھاؤ...''

نبی کریمﷺ کے پاس بھی صدقہ موجود تھا جب کہ حق دار مسلمان موجود تھے۔ تو آپ نے کیا رویہ اختیار کیا؟ صحیح بخاری میں عقبہ بن حارث سے یہ حدیث مروی ہے :

صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ ﷺ العَصْرَ، فَأَسْرَعَ، ثُمَّ دَخَلَ البَيْتَ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ خَرَجَ، فَقُلْتُ أَوْ قِيلَ لَهُ، فَقَالَ: «كُنْتُ خَلَّفْتُ فِي البَيْتِ تِبْرًا مِنَ الصَّدَقَةِ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُبَيِّتَهُ، فَقَسَمْتُهُ»12

''نبی کریم ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی تو آپ نے اس میں تیزی کی اور پھر گھر میں چلے گئے اورجلد ہی باہر آگئے۔ پوچھا گیا تو فرمایا: میں نے گھر میں مال زکوٰۃ کا سونا چھوڑا تھا، مجھے ناگوار گزرا کہ میں ایک رات بھی اس کو اپنے پاس رکھوں ، سو میں نے اسکو مستحقوں میں بانٹ دیا۔''

اس حدیث کو امام بخاری نےکتاب الزکوٰۃ میں روایت کیا ہے۔ اور شیخ مصطفیٰ البغا نے اپنی شرح بخاری میں 'الصدقہ' کی تشریح'الزکوٰۃ' سے کی ہے اور اس حدیث کی شرح میں شارح بخاری علامہ ابن بطال لکھتے ہیں :

فيه أن الخير ينبغي أن يُبادَر به، فإن الآفات تعرض والموانع تمنع والموت لا يؤمن والتسويف غير محمود

''پتہ چلا کہ نیکی کے کام میں جلدی ہی کرنی چاہیے۔ کیونکہ آفات پیش آجاتی ہیں اوررکاوٹیں راہ میں حائل ہوجاتی ہے۔ اور موت سے کوئی شخص مامون نہیں ہے، چنانچہ نیکی کو اگلے وقت پر ٹالنا قابل تعریف امر نہیں ۔''

امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ کوئی شخص وقفے وقفے سے زکوٰۃ ادا کرتا ہے،آ پ کا اس کے بارے میں کیا فتویٰ ہے؟ تو جواب دیا کہ

لا بل يخرجها كلها إن حال الحول... لا يجري على أقاربه من الزكاة في كل شهر يعني لا يؤخر إخراجها حتى يدفعها إليهم متفرقة في كل شهر شيئًا

''اگر سال گزر چکا ہو تو اسےمکمل زکوٰۃ اکٹھی ادا کرنی چاہیے۔ ایک اور بار فرمایا: اپنے عزیز واقارب کو ہرماہ زکاۃ سے ادائیگی کرنا درست نہیں۔ یعنی اس طرح زکوٰۃ کی تاخیر درست نہیں کہ ہرماہ ، اس کا کچھ حصہ وہ دے دیا کرے۔''

كویت کے فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے :

ذَهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ (الشَّافِعِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ وَهُوَ الْمُفْتَى بِهِ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ) إِلَى أَنَّ الزَّكَاةَ مَتَى وَجَبَتْ، وَجَبَتِ الْمُبَادَرَةُ بِإِخْرَاجِهَا عَلَى الْفَوْرِ، مَعَ الْقُدْرَةِ عَلَى ذَلِكَ وَعَدَمِ الْخَشْيَةِ مِنْ ضَرَرٍ.13

''جمہورعلما(شافعیہ، حنابلہ اور حنفیہ کا فتویٰ شدہ قول) یہ ہے کہ جب زکاۃ واجب ہوگئی تو اسے فوری طور پر ادا کرنا ہی ضروری ہے۔ بشرطے کہ اس کی ادائیگی پر قادر ہو اور ایسا کرنے سے صاحبِ نصاب کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔''

اس کے قدرت ہونے اور نقصان نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مالکِ زکاۃ کا خیال ہو کہ سال پورا ہونے اگر وہ زکوٰۃ نکال دے گا، جب کہ تحصیل دار ابھی نہیں پہنچا تو دوبارہ اس کو ادا کرنا ہوگی، اور حساب زکوٰۃ میں خلل واقع ہوگا۔ ایسے ہی مصارفِ زکوٰۃ میں سے زیادہ مستحق کو مال پہنچانے کا خیال ہو، تو اس وقت تاخیر کرنا جائز ہے جب تاخیر بہت معمولی ہو۔اگر تاخیر زیادہ ہو اور دیگر مستحقین موجود ہوں تو پھر ترجیح کے تعین کی بھی گنجائش نہیں ہے، جیساکہ امام احمد بن حنبل نے اس کی وضاحت کی ہے۔نقصان یا ضرر پہنچنے کی صورت یہ بھی ہے کہ اس کا مال کسی اور معاملے میں اُلجھا ہو، اگر وہاں سے نکالے تو اس کا کافی نقصان ہورہا ہو، چونکہ ایسی صورت میں قرض ادا کرنے میں بھی تاخیر کی گنجائش ہے ، چنانچہ اس الٰہی قرض کوبھی اس انسانی قرض پر قیاس کیا جائے گا۔شرعی عذروں میں سے یہ بھی ہے کہ انسان کا مال کسی دینی مصلحت میں لگا ہو، اس مصلحت کی بنا پر اس کے لیے فوری اداکرنا ممکن نہ ہو۔سو جتنا مال موجود ہو، اس کو ادا کردے اور باقی ماندہ مال جیسے ہی دستیاب ہو، اس کو بھی فوری اداکرے۔

فقہ حنفی کی مشہور کتاب 'الدرالمختار' میں زکوٰۃ کی فوری ادائیگی کے حوالے سے لکھا ہے:

(وَقِيلَ فَوْرِيٌّ) أَيْ وَاجِبٌ عَلَى الْفَوْرِ (وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى) كَمَا فِي شَرْحِ الْوَهْبَانِيَّةِ

(فَيَأْثَمُ بِتَأْخِيرِهَا) بِلَا عُذْرٍ (وَتُرَدُّ شَهَادَتُهُ) لِأَنَّ الْأَمْرَ بِالصَّرْفِ إلَى الْفَقِيرِ مَعَهُ قَرِينَةُ الْفَوْرِ وَهِيَ أَنَّهُ لِدَفْعِ حَاجَتِهِ وَهِيَ مُعَجَّلَةٌ، فَمَتَى لَمْ تَجِبْ عَلَى الْفَوْرِ لَمْ يَحْصُلْ الْمَقْصُودُ مِنْ الْإِيجَابِ عَلَى وَجْهِ التَّمَام14

''کہا گیا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی فوری کرنا واجب ہے اور یہی مفتیٰ بہ قول ہے جیسا کہ شرح وہبانیہ میں ہے۔ بلاعذر زکوٰۃ کی ادائیگی کو مؤخر کرنے والا گناہ گار ہوگا اور اس کی گواہی نامقبول ہوگی کیونکہ زکوٰۃ کو محتاج وفقیر تک پہنچانے کے حکم میں فوریّت کا قرینہ موجود ہے اور وہ یہ کہ اس کی حاجت ختم کی جائے جو کہ فوری ہوتی ہے۔ جب فوری ادائیگی واجب نہ ہوگی تو اس کو واجب کرنے کا مقصد بھی بصورتِ کامل ختم ہوجائے گا۔''

مذکورہ عبارت کی تشریح کرتے ہوئے قاضی ابن عابدین اپنی شرح 'ردّالمحتار' میں لکھتے ہیں:

فَتَكُونُ الزَّكَاةُ فَرِيضَةً وَفَوْرِيَّتُهَا وَاجِبَةٌ فَيَلْزَمُ بِتَأْخِيرِهِ مِنْ غَيْرِ ضَرُورَةٍ الْإِثْمُ كَمَا صَرَّحَ بِهِ الْكَرْخِيُّ وَالْحَاكِمُ الشَّهِيدُ فِي الْمُنْتَقَى؛ وَهُوَ عَيْنُ مَا ذَكَرَهُ الْإِمَامُ أَبُو جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ يُكْرَهُ... وَقَدْ ثَبَتَ عَنْ أَئِمَّتِنَا الثَّلَاثَةِ وُجُوبُ فَوْرِيَّتُهَا...15

''زکوٰۃ ایک فریضہ ہے، اور اس کو فوری اداکرنا واجب ہے، بلاضرورت اس کو مؤخر کرنے سے گناہ لازم آتا ہے، جیسا کہ کرخی، حاکم شہید نے منتقیٰ میں اس کی صراحت کی ہے۔یہ بعینہٖ وہی بات ہے جس کو امام ابو جعفر نے امام ابو حنیفہ سے ذکر کیا ہے۔اور ہمارے تین ائمہ سے زکوٰۃ کا فوری واجب الادا ہونا ثابت ہے۔''

یہاں حنفی علما کا ایک مشہور قول بھی ہے ( جب کہ ان کا فتویٰ شدہ موقف پیچھےگزر چکا ہے) اور وہ یہ کہ زکوۃ کی فرضیت عمر بھر کے لیے ہے۔ انسان اپنی موت سے پہلے پہل جب بھی ادا کردے، اس کے لیے گنجائش ہے۔اگر موت سے قبل اس نے ادا نہیں کی تو وہ گناہ گار ہے۔ حنفیہ کے اس قول کا عجیب پہلو یہ بھی ہے کہ

وَذَهَبَ أَبُو حَنِيفَةَ وَالثَّوْرِيُّ وَالنَّخَعِيُّ وَالشَّعْبِيُّ إِلَى أَنَّ الزَّكَاةَ تَسْقُطُ بِالْمَوْتِ بِمَعْنَى أَنَّهَا لاَ يَجِبُ إِخْرَاجُهَا مِنْ تَرِكَتِهِ، فَإِنْ كَانَ قَدْ أَوْصَى بِهَا فَهِيَ وَصِيَّةٌ تُزَاحِمُ سَائِرَ الْوَصَايَا فِي الثُّلُثِ، وَإِنْ لَمْ يُوصِ بِهَا سَقَطَتْ، لأَِنَّهَا عِبَادَةٌ مِنْ شَرْطِهَا النِّيَّةُ، فَسَقَطَتْ بِمَوْتِ مَنْ هِيَ عَلَيْهِ كَالصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ، فَإِنْ أَخْرَجَهَا الْوَرَثَةُ فَهِيَ صَدَقَةُ تَطَوُّعٍ مِنْهُمْ16

''امام ابو حنیفہ، ثوری، نخعی اورشعبی﷭ کا موقف ہے کہ زکاۃ موت کے ساتھ ہی ساقط ہوجائے گی۔ یعنی اس کو میت کے ترکہ سے ادا کرنا ضروری نہیں۔ اگر میت نے اس کی وصیت کی تو پھر اس میں ایک تہائی تک وصیت کے اجرا کی شرط کا لحاظ کیا جائے گا۔ اگر میت نے وصیت نہ کی تو یہ ادائیگی ساقط ہوجائے گی کیونکہ عبادت میں نیت کرنا شرط ہے(اور وہ گناہ گار ہی اللہ کے پاس پیش ہوگا) ۔ اب یہ فرض نماز وروزہ کی طرح ناقص ہی رہے گا، اگر ورثا نے اپنے طورادا کربھی دی تو یہ نفلی صدقہ ہوگا، زکوٰۃ نہیں۔''

حنفی علما کا یہ مشہور موقف وفتویٰ خاصا عجیب ہے کہ اوّل تو اس کو زندگی بھر تک وسیع کردیا اور اگر میّت وصیت نہ کرسکی تو پھر اس کی ادائیگی کا امکان بھی ختم اور وہ اللہ کے حضور اس کو ادا نہ کرنے کی سنگین ترین وعیدوں کی مستحق ہوگی۔ اب کون جانے کس وقت اس کی موت لکھی ہے؟ جس کو اچانک موت آگئی جو اکثر وبیشتر اچانک ہی آتی ہے، تو وہ گناہ گار ہی گیا۔الغرض حنفیہ کے اس سارے موقف کی منطق ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔پہلا ہی قول جو جمہور کا ہے،شرعی مفادات کا زیادہ لحاظ کرتا ہے جس میں حنفیہ کا ایک مفتیٰ بہ قول بھی شامل ہے کہ زکاۃ کو سال گزرنے کے بعد فوری ادا کردیا جائے اور اس میں کوئی تاخیر نہ کی جائے۔

اس تفصیل سے علم ہوا کہ مالِ زکوٰۃ کی مثال امانت کی سی ہے، جب بھی اس کا مالک؍طلبگار مانگے کیونکہ وہ اس کا حق ہے ، تو اسے فوری ادا کرنا ہوگا۔ اسی طرح مال زکوٰۃ غربا ومساکین کا حق ہے، اور اس میں تاخیر کرنا ان کے حق کو ضرورت پیش آنے کے باوجودمؤخر کرنا ہے جو شرعی طور پر درست نہیں۔معروف سعودی مفتی شیخ ابن عثیمین ﷫ لکھتے ہیں:

''زکاۃ کے واجب ہونے کے بعد اس کی ادائیگی میں تاخیر کرنا جائز نہیں،بعض لوگوں پر زکاۃ شعبان میں واجب ہوجاتی ہے لیکن وہ اسے رمضان تک مؤخر کردیتے ہیں، اس گمان 17سے کہ یہ افضل ہے،یہ فقرا کے حق کی ادائیگی میں تاخیر اور ان پر ظلم ہے، ربّ العزت کی نافرمانی اور اس کی حدود سے تجاوز ہے۔''18

سعودی عرب کی دائمی فتویٰ کونسل جس میں مستند ترین علما بڑی ذمہ داری سے ہر پیش آمدہ مسئلہ پر فتویٰ دیتے ہیں، ان سے ہمارے پیش نظر سوال کی مختلف صورتوں کے بارے میں سوالات کئے گئے ہیں، ذیل میں اُن کے جواب ملاحظہ کریں:

زكاۃ میں تاخیر اور زکاۃ کی رقم سے سرمايہ كارى كرنے كا حكم

سوال نمبر1:ميرے مال كى سالانہ زكاۃ معقول رقم بنتى ہےمثلاً دس ہزار پونڈ اورمیں چاہتا ہوں کہ زكاۃ كا يہ مال تین يا چار برس كے ليے كسى مستقل اسلامی بینك اكاؤنٹ میں ركھوں جس پر سالانہ آمدن ہو۔ايسا كرنے كا مقصد يہ ہے كہ ايك مناسب رقم جمع ہو جائے جس سے عصری ضروریات سے ہم آہنگ ایک جدید ریسرچ سنٹر قائم كيا جائے جس كا ہدف منافع کی بجائے دعوت و تبلیغ ہو اور اس میں تحقیق كے ليے جدید ترین وسائل استعمال كيے جائیں۔آئندہ میرى سالانہ زكاۃ بھى اسى مركز کی سرگرمیوں میں صرف ہو، اس كے ساتھ ساتھ دیگر مسلمانوں سے بھى تعاون حاصل کیا جاتا رہے، تو كیا شرعى طور پر ایسا كرنا جائز ہے ؟

جواب:ہم آپ كے دینى جذبے كے قدردان ہیں، لیكن آپ جو كچھ كرنا چاہتے ہیں وہ شریعتِ مطہرہ كے مطابق نہیں۔ كیونكہ جب سال مكمل ہونے پر زكاۃ واجب ہو چكى ہو تو اسے فورى نكالنا واجب ہو جاتا ہے، اور ادائیگى كا امكان ہوتے ہوئے اس میں تاخیر كرنا جائز نہیں ہے۔

زكاۃ ایك اہم عبادت ہے جسے ادا كرنے كے لیے مسلمان فرد كو اس كى مقدار، وقت اور جنس میں زكاۃ كے احكام کی پابندی كرنا لازم ہے، اور جب زكاۃ كى ادائیگى كا وقت آ چكا ہو تو اس میں تاخیر جائز نہیں، تاہم اگر اس كى تاخیر كا كوئى قابلِ قبول شرعی عذر ہو تو پھر تاخیر جائز ہے۔

جس دعوتى اوررفاہی منصوبوں كو آپ قائم کرنا چاہتے ہیں، اس میں مسلمانوں کو قائل کریں اور زكاۃ كے علاوہ کسی اور مد سے رقم حاصل كر كے اس منصوبہ كى تكمیل كریں۔اللہ تعالىٰ ہمیں اپنے محبوب اور پسندیدہ كام كرنے كى توفیق عطا فرمائے۔واللہ اعلم19

سوال نمبر2:سعودی عرب کی دائمی فتوى كمیٹى كے علماءكرام سے یہ سوال دریافت كیا گیا کہ جب زكاۃ كى ادائیگى كا وقت جمادى الاولیٰ ہو تو كیا ہم اسے بغیر كسى عذر كے رمضان المبارك تك مؤخر كر سكتے ہیں ؟

كمیٹى كے علماےكرام كا جواب تھا کہ سال پورا ہو جانے كے بعد بغیر كسى شرعى عذر كے زكاۃ نكالنے میں تاخیر كرنى جائز نہیں، مثلاً: اگر سال پورا ہونے كے وقت فقرا نہ ہوں، یا اُن تك پہنچانے كى طاقت واستطاعت نہ ہو، اور یا پھر مال موجود نہ ہو وغیرہ،تو ان اسباب كى بنا پر زكاۃ میں تاخیر كرنا جائز ہے۔لیكن رمضان المبارك كى بنا پر زكاۃ میں تاخیر كرنا جائز نہیں۔ لیكن اگر قلیل سى مدت ہو تو پھر جائز ہے، مثلاً نصف شعبان گزر جانے كے بعد سال پورا ہو رہا ہے تو پھر اس میں رمضان المبارك تك تاخیر كرنے میں كوئى حرج نہیں۔20

سوال نمبر3: جس شخص پر زكاۃ واجب ہو چكى ہے، یا وہ ادارے اور تنظیمیں جو فقرا و مساكین تك زکوٰۃ پہنچانے كى ذمہ دار ہیں، ان كے لیے زكاۃ كے اموال میں تجارت جائزہے؟ ان پر مستحق افراد تک اس كى ادائیگى کب واجب ہے، اور اگر سرمایہ كارى کرنا ہی ہو تو زكاۃ سے کی جاسکتی ہے؟

دائمی فتوى كمیٹى كے علماے كرام سے ایسى رفاہی تنظیم كے متعلق دریافت كیا گیا جو اپنے اموال سے سرمایہ كارى كرنا چاہتى ہے۔تو كمیٹى كے علما نے جواب دیا:

اگر سوال میں مذكورمال زكاۃ كا ہو تو جیسے ہى تنظیم كے پاس مال آئے، اُسے فوراً زكاۃ كے شرعى مصارف میں خرچ كرنا واجب ہے، لیكن اگر وہ مال زكاۃ كا نہیں تو پھر تنظیم كى مصلحت كى خاطر اس سےسرمایہ کاری كرنے میں كوئى حرج نہیں، كیونكہ ایسا كرنے سے تنظیم اور اس کے معاونین كو اپنے اہداف پورے كرنے كے لیے زیادہ نفع حاصل ہو گا۔21

سوال نمبر4:كمیٹى كے علما سے یہ بھى دریافت كیا گیا کہ كیا عالمى رفاہی ادارے كے لیے زكاۃ كے ان اَموال میں سرمایہ كارى كرنا ممكن ہے جو بعض اوقات بینکوں میں اس وقت تک رکھے جاتے ہیں جب تک ان کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر اُنہیں نکلوا کر خرچ کیا جاتا ہے، اور سرمایہ کاری کی وجہ سے مصارفِ زکاۃ پر خرچ کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ بھی نہیں ہوگی،کیونکہ یہ سرمایہ كارى ایسی جگہوں پرہوگی جہاں سے ضرورت كے وقت حاصل كرنا ممكن ہو، اور یہ جگہیں مکمل طور پر قابلِ اعتماد اور تحقیق شدہ ہیں۔ تا ہم یقینى طور پر اس كى ضمانت نہیں دے سكتے كہ کہیں اس میں حرمت یا سودکاشبہ نہ آجائے، اس بنیاد پر كہ یہ رفاہی ادارہ بذاتہٖ كوئى ایك یا كئى ایك اشخاص پر مشتمل نہیں، بلكہ یہ ادارہ ایك فرضی شخصیت ہے جو کہ مستقل طور پر قائم ہے، چنانچہ اس کے ملازمین اسلام اور مسلمانوں كى خیر و بھلائى كے لیے اپنى رائے اور خیالات کے مطابق كوشش اور جد و جہد كرتے ہیں ؟

تو كمیٹى كے علماے كرام كا جواب تھا:

''تنظیم کا نمائندہ زكاۃ كے مال كو سرمایہ كارى میں استعمال نہیں کرسکتا، کیونکہ زکاۃ کی رقم کو شرعی نصوص کے مطابق مستحقین پر تقسیم کرنا واجب ہے؛ كیونكہ زكاۃ كا مقصد فقرا اور ضرورت مند افراد كى حاجت اور مقروض افراد كے قرض كى ادائیگى ہے؛ اور اس کی وجہ یہ بھی ہے كہ زكاة كے مال كى سرمایہ كارى كرنے سے ہو سكتا ہے مذکورہ مصلحتیں پوری نہ ہوں، یا پھر مستحق افراد كى ضروریات پوری کرنے میں تاخیر ہوجائے۔''22

آغاز میں قرآن وسنت کے دلائل کے بعد فقہاے کرام اور سعودی عرب کے مختلف مفتیان کا موقف بیان ہوچکا ہے، یہاں ہم برصغیر کے حنفی علما کا موقف تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔دار العلوم ندوۃ العلما، لکھنؤ کے اُستاذِ فقہ مولانا عتیق احمد بستوی لکھتے ہیں:

''اموال زکوٰۃ کو اس کے مصارف میں ہی خرچ کرنا ضروری ہے۔اموال زکوٰۃ سے کارخانے ، فیکٹریاں وغیرہ قائم کرنے میں اس بات کا پورا اندیشہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کلی یا جزوی طور پر مصارف زکوٰۃ میں صرف ہی نہ ہوسکے۔ یہ امکان بھی باقی ہے کہ فیکٹری خسارے میں چلی جائے یا ڈوب جائے۔اس طرح زکوٰۃ دینے والوں کی پوری زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اور مستحقین زکوٰۃ کی حاجات کا نقصان ہوا۔ بہت سے طالع آزما کاروبار کے نام پر زکوٰۃ کی بڑی بڑی رقمیں جمع کرکے مختلف تجربات میں برباد کردیا کریں گے۔

ثانیا: زکوٰۃ کا سال بہ سال کا نظام دراصل ضرورت مندوں کی فوری ضرورت پوری کرنے کے لیے ہے، اس کا مقصد مستقل روزگار کی فراہمی نہیں ہے۔(ضرورت مندوں کے لیے ہرسال زکوٰۃ کو فرض کیا گیا ہے) خیر کے مزید کاموں کے لیے شریعت اسلامیہ نے وقف اور دیگر صدقات کا باب کشادہ رکھا ہے جس سے دیگر خیر کے کام ہوسکتے ہیں۔

ثالثاً: زکوٰۃ کا مال دراصل فوری اور اہم ضروریات کے لیے ہے، کچھ فقرا کو تو رہائشی مکان یا دوکان کا بندوبست کردیا جائے اور ان سے زیادہ نادار، نان شبینہ کے محتاج فقرا بالکل ہی نظر انداز ہوجائیں، یہ مناسب نہیں ہے۔فریضہ زکوٰۃ کے ذریعے اسلام نے فقروفاقہ کا علاج کیا ہے۔ فقر وافلاس انسان کوایسی منزل تک پہنچا دیتے ہیں کہ وہ اپنی عزت وآبرو اور دین وایمان ہرچیز کوخیر باد کہہ دیتا ہے۔ عصر حاضر کی سائنسی اورابلاغی ومواصلاتی ترقی کے باوجود دنیا کے کئی مسلم ممالک میں فقروافلاس ایک سنگین مسئلہ بناہوا ہے۔ افریقہ کے مسلم ممالک غذائی بحران اور قحط سالی سے دوچار ہیں۔فقر وافلاس کی اس سنگین صورتحال نے عیسائی مشنریوں کو یہ سنہرا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ غریب ومحتاج مسلمانوں کے دین وایمان سے کھلواڑ کریں۔ ان حالات میں فریضہ زکوٰۃ اور اس کے درست صرف سے ان مسائل کا علاج ہوسکتا ہے۔

رابعاً: اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ مال زکوٰۃ سے انویسٹمنٹ یا مزید کاروبار کیا گیا ہو۔بلکہ محمد بن یوسف نے حضرت طاؤس کو مخلاف کا عامل بناکربھیجا، جب واپس ہوئے تو ان سے حساب طلب کیا، کہنے لگے: میرے پاس کوئی مال نہیں بچا، میں توامرا سے وصول کرکے غربا میں تقسیم کرتا رہا ہوں۔''23 ملخصاً

حنفی علما زکوٰۃ میں مسئلہ تملیک کو بطورِ خاص اہمیت دیتے ہیں،یعنی غریب کو مالِ زکوٰۃ کا مالک بنادینا، یعنی مال زکوٰۃ کو ادا کردینے کی بعد اس پر صاحبِ مال کا تصرف باقی نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے غریب کی ملکیت میں منتقل ہوجانا چاہیے۔مزید برآں فقیر کو مال منتقل ہونا چاہیے ، نہ کہ اس کی صرف منفعت۔ قرآن کریم میں ایتائے زکوۃ کا جو حکم ہے اور احادیث میں فقرا ء پر لوٹانے کی تلقین ہے، اس سے وہ تملیک کا استدلال کرتے ہیں۔ اس بنا پر فقراکو رہائشی مکانات میں رہنے کی اجازت دینا ،علاج معالجہ کی سہولت دینا،کھانا کھلا دینا، غربا کو ملازمت دے کر روزگار فراہم کردینا یا کاروبار کے لیے دکان فراہم کردینے میں تملیک کا پہلو مفقود نظر آتا ہے۔چنانچہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں:

''زکوٰۃ کی رقم کو براہ راست کارخانہ یا فیکٹری کے قیام میں صرف کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، نیز فقرا کو اس میں ملازمت دینا اور اس کا نفع مستحقین میں تقسیم کرنا زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ زکوٰۃ بطور حق مالکانہ ، فقرا کو ادا کرنا ضروری ہے۔ نیز زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے قرآن وحدیث میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان سب میں تملیک کا معنی پایا جاتا ہے، چنانچہ ائمہ اربعہ کے درمیان یہ بات متفق علیہ ہے کہ زکٰوۃ بغیر تملیک کے ادا نہیں ہوسکتی اور مساجد کی تعمیریا کفن میت پر زکوٰۃ صرف نہ کرنے پر بھی فقہا کے مابین اتفاق ہے۔الغرض مال زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کی مذکورہ صورت میں تملیک نہیں پائی جاتی۔''24

بیٹے کی زیر نگرانی مالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کرنا

اوپر بیان کردہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری کرنا ، درست نہیں اور بعض مخصوص حالات میں ہی زکوٰۃ میں معمولی تاخیر کی محدود گنجائش ہے یعنی کسی شرعی عذریا مصلحت وغیرہ کے موقع پر ۔ اندریں حالات اس نوعیت کے سارے کاروبار کی حیثیت بھی مشکوک ہی رہتی ہے۔شرعی مقاصد کے فروغ کے لیے کیے جانے والے کاروبار کو مالِ زکوٰۃ کے علاوہ دیگر وقف وصدقہ کے اَموال سے پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔اس اعتبار سے بنیادی سوال ، بیٹے کی بلاتنخواہ نگرانی یا اس میں نفع ونقصان کے احتمال کا نہیں ہے بلکہ اس میں ادائیگی کی تاخیرکا ہے۔ مزید برآں زکوٰۃ ادا کر دینے کے بعد اس پر مالکِ مال کا تصرف ختم ہو جانا چاہیے اور اس مال کو مصرفِ شرعی میں منتقل ہو جانا چاہیے، جب کہ پیش نظر صورتحال میں ایسا نہیں ہے۔

یہاں تک تو بات بڑی واضح ہے کہ مالکِ مال یا صاحبِ نصاب مسلمان کے لیے زکوٰۃ کو دیگر فرائض کی طرح سال پورا ہونے پر فوری طور پر ادا کردینا چاہیے، تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔تاہم کیا اسلامی حکومت یابیت المال بھی اس امر کا پابند ہے کہ وہ زکوٰۃ ملنے کے فوری بعد، چند دنوں میں سارا مالِ زکوٰۃ صرف کردے یا اس کو مسلمانوں کے حالات اور ان کے مصالح کی دیکھ بھال کے لیے اس مال زکوٰۃ کی کچھ تنظیم کا اختیا رہے۔

ہمارے پیش نظر سوال کے دو پہلو ہیں۔ایک پہلو تو صاحبِ نصاب لوگوں کا زکاۃ ادا کرنا ہے اور دوسرا پہلو ایک شرعی مرکزِجمع وتقسیم بنا کر، اس مرکز کا مال میں اضافہ کرنے کی تدبیر کرنا ہے۔اوّلین پہلو کی رو سے تو کسی صاحبِ نصاب کے لیے تو جائز نہیں کہ وہ مال کو سال گزرنے کے بعد اپنے پاس روکے رکھےاور اس کی تفصیل گزر چکی ہے،ایسا کرنے والا گناہ گار ہوگا۔تاہم اگر وہ صاحبِ نصاب اسے ایک مرکز میں جمع کرادیتا ہے اور وہ مرکز اس میں شرعی مصارف اور مصالح کو پیش نظر رکھتا ہے تو آیا یہ بیت المال غربا کی فلاح وبہبود یا بعض دیگر مصارف زکوٰۃ کی تکمیل کے لیے سال بھر کے اخراجات کی تنظیم وترتیب کرسکتا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ بیت المال میں ساری زکوٰۃ فی الفور خرچ نہیں ہوجاتی، اور دینی مساجد ومدارس جمع زکوٰۃ کے فوراً بعد اسے مکمل طور پر تقسیم نہیں کر دیتے ، تو ان کے لیے ایک سال تک مصارفِ زکوٰۃ کی منصوبہ بندی (بجٹنگ) کرنا درست ہے، تاہم یہ درست نہیں کہ مال زکوٰۃ سے بڑی بھاری رقوم کئی سالوں کے لیے جمع رکھی جائیں اور مستحقین، محتاجی کا ہی شکار رہیں۔ ہر سال زکوٰۃ کی فرضیت سے یہی رجحان واضح ہوتا ہے کہ اموال زکوٰۃ کو سال بہ سال خرچ ہوجانا چاہیے۔واللہ تعالیٰ اعلم ...

الغرض صورتِ مسئولہ میں درج ذیل خرابیاں موجود ہیں:

1.  مجوزہ مرکز جمع وتقسیم کسی شرعی رہنمائی میں کام نہیں کررہا۔زکوٰۃ کے احکام عام صدقات سے مختلف ہیں، مثلاً زکوٰۃ غیرمسلم پر صرف نہیں کی جاسکتی، ہر نیکی کے کام مثلاً تعلیم و صحت(سکولوں یا ہسپتالوں) یا سٹرکوں، پلوں وغیرہ میں اسے صرف کرنا جائز نہیں۔ناجائز مصارف مثلاً شادی کے اسرافات اور جہیز، بارات خرچ میں اسے نہیں لگایا جاسکتا۔ مسجد کی تعمیر، میت کی تجہیز وتکفین، فریضہ حج اور ادائیگی قرض میں اس کو صرف نہیں کرسکتے۔ پھر اس کے بعض مصارف شخصی ہیں اور بعض ادارہ جاتی۔یہ کن اَموال میں واجب ہوتی ہے، اور کن میں نہیں؟ اور اس کی ادائیگی میں کیا احتیاطیں ملحوظ رکھنی چاہئیں؟ یہ تمام اُمور شرعی رہنمائی اور بصیرت کے محتاج ہیں۔

2.  زکوٰۃ کو جمع وتقسیم کرنے کے علاوہ ، یہ مرکزکوئی اورشرعی اجتماعی فریضہ پورا نہیں کرتا۔جیسے دیگر مراکز تعلیم دین، اقامتِ تبلیغ و جہاد، فروغِ شعائر اسلامیہ وغیرہ ایسے فرائض پورے کرتے ہیں جو مسلم حکومت کے فرائض ہیں۔ زکوٰۃ محض کوئی سماجی فنڈ نہیں جو سماجی مصلحت پر صرف ہوتا ہے، بلکہ یہ دینی فریضہ ہے، جو دینی فرائض پورے کرنے والے، شرعی احکام کو مد نظر رکھتے ہوئے دینی مصالح ومصارف پر ہی صرف کرسکتے ہیں۔ ایسا کام مساجد کمیٹی یا مدارس کر سکتے ہیں کیونکہ وہاں عالم دین کی رہنمائی بھی موجود ہوتی ہے اور وہ مسلم معاشرے کے دینی فرائض میں سے کسی کی تکمیل پر بھی متوجہ ہیں۔

3.  مالِ زکوٰۃ کی سرمایہ کاری بھی شرعا ً ناجائز ہے، کیونکہ اس طرح مستحق لوگوں تک ان کا حق پہنچنے میں تاخیر ہوتی ہے۔جو مال زکوٰۃ ادائیگی سے قبل کاروبار میں لگ گیا،اور اس میں نقصان بھی ہوگیا تو مالک مال کو زکوٰۃ کو دوبارہ ادا کرنا ہوگا، ان کا فریضہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوا۔واللہ اعلم بالصواب


حوالہ جات

1. صحيح مسلم: باب یجب اتیان المساجد علی من سمع النداء: رقم ، 653، حدیثِ ابو ہریرہ جس میں نابینا کا ذکر ہے۔

2. علامہ ابو طیب سندی 'شرح ترمذی'میں فرماتے ہیں: هذا يقتضي أنه ليس عليه واجب مالي غير الزكاة، وباقي الصدقات كلها تطوع. وهو يشكل بصدقة الفطر والنفقات الواجبة إلا أن يقال الكلام في حقوق المال، وليس شيء من هذه الأشياء من حقوق المال، بمعنى أنه يوجبه المال، بل يوجبه أسباب أخر كالفطر والقرابة والزوجية وغير ذلك. فالحقوق التي يوجبها المال فقط، تقتضي بالزكاة بحوالہ مرعاۃ المفاتیح از مولانا عبید اللہ مبارکپوری:6؍348

3. صحیح بخاری، باب الاقتداء بسنن رسول الله:رقم 7284، 7285 میں "لو منعوني عقالا" کے الفاظ آئے ہیں ۔

4. الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ: ج23؍ص304

5. المغنی:2؍641تا643، وفتح القدير والعنايۃ: 1؍487، 488، والدسوقی: 1؍503

6. الدسوقی:1؍432، والأحكام السلطانيۃ از ماوردی: ص 113 القاہرة، مطبع مصطفى الحلبی، 1327ھ

7. فتح القدير:1؍512، وحاشيۃ ابن عابدين: 2؍24، والفتاوى الہنديۃ: 1؍190

8. حاشية ابن عابدين 1 ؍ 368، 3 ؍ 310، ومغنی المحتاج 4 ؍ 129، وشرح روض الطالب 4؍ 108

9. الموسوعة الفقهية الكويتية 6؍230

10. ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء از شاہ ولی اللہ دہلوی: 1؍5

11. مسلم حاکم کے بنیادی فرائض اس آیتِ کریمہ میں بیان ہوئے ہیں: ﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَر‌ضِ أَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ وَأَمَر‌وا بِالمَعر‌وفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ‌ وَلِلَّهِ عـٰقِبَةُ الأُمورِ‌ ﴿٤١﴾... سورةالحج

12. صحیح بخاری، باب من أحب تعجيل الصدقة من يومها: 1430

13. الموسوعۃالفقہيۃالكويتيۃ:23؍ 295

14. الدر المختار از حصکفی :2؍272

15. ردّالمحتار از قاضی ابن عابدین: 2؍272

16. حاشیہ ابن عابدين:2؍28، 54 و5؍415 القاہرۃ، مطبع بولاق

17. عوام میں مشہور ہے کہ رمضان میں نیکی کا اجر سات سو گنا تک بڑھ جاتا ہے، اسی لیے وہ رمضان میں زکوٰۃ وغیرہ دینے کا اہتمام کرتے ہیں، حالانکہ فرمانِ نبوی میں رمضان کی قید کے بغیر، خلوصِ نیت سے کی جانے والی کوئی بھی نیکی 700 گنا تک بڑھ سکتی ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «إِنَّ رَبَّكُمْ يَقُولُ: كُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ» (جامع ترمذی: 764) صحیح

18. مجموع فتاویٰ ورسائل ابن عثیمین:18؍295

19. ویب سائٹ:'اسلام سوال وجواب' زیر نگرانی: شیخ محمد صالح المنجد،فتویٰ نمبر67578

 http://islamqa.info/ur/67578 بروز17 ؍اکتوبر2014ء

20. فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء: 9؍398

21. فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء: 9؍403،404

22. فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء: 9؍454،455

23. 'اموالِ زکاۃ کی سرمایہ کاری '، اسلامی فقہ اکیڈمی، نئی دہلی، ص52،61

24. ایضاً، ص46