لغزشیں اہل صحافت کی!

1. آغاز کرتے ہیں ہم لفظ 'عوام' سے؛ عہدِ شاہ جہانی سے جب ریختہ میں، جو اُردوے معلیٰ (اعلیٰ لشکر) یعنی 'شاہی فوج' میں بولی جانے کے باعث 'اُردو' زبان کہلائی، لفظ 'عوام' جمع مذکر تھا، یعنی ''عوام سمجھتے ہیں۔''، ''عوام یہ کہتے ہیں۔'' جیسے جملے عام تھے۔ یوں ساڑھے تین سو برس لفظ عوام مذکر بولا جاتا رہا۔ ویسے بھی فرمودۂ ربانی ﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ﴾کی رعایت سے اور برصغیر کی آبادی میں 50 فیصد سے زیادہ مرد ہونے کے باعث لفظ 'عوام'مؤنث ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ لیکن بُرا ہو منہ زور چینلوں کے زیراثر نسوانیت آمیزصحافت کا، گزشتہ دو تین دہائیوں کے اندر اچھے بھلے مذکر 'عوام' کو مونث بنادیا گیا ہے۔ یہ کیونکر ہوا...؟

ہوا یوں کہ محترمہ بے نظیر بھُٹو جو سیاست میں بڑے بڑے جغادری مردوں کے کان کاٹتی تھیں، 1988ء میں برسراقتدار آئیں تو میڈیا والے اُن کی زبان سے نکلے ہوئے ہر حرف کو مِن وعَن لکھنے، دکھانے اور سُنوانے لگے۔ اب محترمہ ٹھہریں خالص انگلش میڈم، وہ سوچتی انگریزی میں تھیں اور پھر ذہن میں اس کا ترجمہ کرکے اُردو میں تقریر فرماتی تھیں۔ چونکہ انگریزی لفظ 'پبلک' ہمارے ہاں بطور مؤنث مستعمل ہے، سومحترمہ نے اسی مفہوم میں 'عوام' کو بھی واحد مؤنث بنادیا۔ وہ کہتی تھیں: ''عوام سمجھتی ہے، عوام بولتی ہے۔'' اور میڈیا بالخصوص ٹی وی نے محترمہ کے اس نوع کے جملے اخباری صفحات اور ہوا کے دوش پر اس قدر اُچھالے کہ آج ہر کوئی بے نظیر تانیثی لہجے میں 'عوام' کی درگت بنارہا ہے۔ بیشتر صحافیوں کی مردانہ غیرت جانے کہاں سوگئی۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے بھی 'عوام' کے سلسلے میں نسوانی آہنگ میں بہے چلے جارہے ہیں۔ رہے نوخیز صحافی اور اینکر تو ان کی تو تربیت ہی 'بے نظیر' دور میں ہوئی ہے ۔ ؏ خامہ انگشت بدنداں ہے 'انھیں' کیا لکھیے!

2.  ایک چینل پر کسی محترمہ نے لفظ 'خودکَشی' کہا تو ہمارے کان کھڑے ہوئے کہ لفظوں کی ساخت اور تلفظ کا شعور اب اس قدر مِٹ گیا ہے!'خودکُشی' فارسی مصدر کُشتن (قتل کرنا، مارنا) سے ہے، نہ کہ کشیدن (کھینچنا) سے۔ ذرا ان کی مثالیں دیکھیے:

کُشتن (مارنا) سے: برادرکُشی (بھائی کو قتل کرنا)، خودکُشی (اپنے آپ کو قتل کرنا)، جراثیم کُشی (جراثیم کو مارنا)، نفس کُشی (پرہیزگاری)، ان سے اسم فاعل برادرکُش، خودکُش، جراثیم کُش وغیرہ ہیں۔ یوں چینلوں کے حضرات و خواتین کو'خود کُش دھماکا' کہنا چاہیے ،نہ کہ 'خودکَش دھماکا'۔

کَشیدَن (کھینچنا) سے: دل کشی، نقشہ کشی، سرکشی (بغاوت)، جاروب کشی (جھاڑو دینا)، رسّہ کشی، بُزکشی (بُز: بھیڑ بکری)، وسطی ایشیا کے اس کھیل میں ماہر گھُڑسوار نیزے سے بھیڑ بکری کی لاش اُچک لے جاتے ہیں۔ ان تراکیب کے اسم فاعل دل کش، سرکش، جاروب کش وغیرہ ہیں۔

3.  اخبارات و جرائد میں اب ایک نئے مرکب سے واسطہ پڑرہا ہے اور وہ ہے:'پیشن گوئی' جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں۔ فارسی الفاظ 'پیش' یا 'پیشین' دونوں کے معنی ہیں:'پہلے' یا 'آگے'۔ ان سے درست ترکیب 'پیش گوئی' یا 'پیشین گوئی'ہے، یعنی 'مستقبل کی کوئی بات کہنا' جسے انگریزی میں Prophecyکہا جاتا ہے۔ لیکن یار لوگوں (کمپوزروں سے معذرت کے ساتھ) نے ایک تیسری ترکیب گھڑلی ہے، یعنی پنجابی کے لفظ 'ٹیشن' (Station) کے وزن پر لفظ 'پیشن' ایجاد کرلیا ہے جو لغت میں سراسر 'بدعت' ہے۔ اس سے احتراز کرنا چاہیے!!

4.  چِیں بجبیں ہونا: فارسی میں 'چِین' کا مطلب ہے تیوری اور 'جبیں' ماتھے کو کہتے ہیں۔ گویا 'چیں بجبیں ہونا' کے معنی ہیں: ''ماتھے پر تیوری چڑھانا'' لیکن اخبارات میں ''چیں بجبیں'' کے بجائے ''چیں بچیں'' لکھا جارہا ہے جو کسی طرح درست نہیں۔ ''چیں بجبیں'' کے حوالے سے شاعر نے ''چین ِ جبیں'' (ماتھے کی تیوری) کی ترکیب استعمال کی ہے ؎

جھڑ کی سہی، ادا سہی، چین ِجبیں سہی
لیکن نہیں سہی اگر تو اک 'نہیں' سہی

وصل کے سوال پر محبوب کی 'نہیں' برداشت نہ کرنا تو شاعر کا معاملہ تھا، ہم تو اہل صحافت اور ٹی وی والوں سے صرف یہ کہتے ہیں کہ 'چیں بچیں' کی بے ڈھب ترکیب چھوڑ کر درست ترکیب 'چیں بجبیں' لکھیے اور بولیے۔

5.  شاعر کا ذکر آیا تو فارسی کے عظیم شاعر مصلح الدین سعدی شیرازی کے حوالے سے ایک مصرع دیکھیے: ؏ سعدی کہ گوئے بلاغت ربُود

''سعدی بلاغت کی گیند چھین لے گیا۔''

کاتب نے مصرع کی کتابت کرتے وقت 'بلاغت ربود' کو جوڑ کر'بلاغتر بود' لکھ دیا جس سے مصرع بے معنیٰ اور ناقابل فہم ہوگیا۔ اس سے فارسی کا محاورہ 'غتر بود شُدن' یا کردن اور اُردو محاورہ 'غتر بود ہونا یا کرنا' وجود میں آیا جس کے معنی ہیں :''گڈ مڈ ہونا یا خراب کردینا''

6.  ہمارے ایک بہت مشہور کالم نگار اور اینکر جاوید چودھری ہیں۔ اپنے ایک کالم میں انھوں نے لکھ ڈالا: ''ہم (مسلمان) ایک ہزار سال سے آکسفورڈ اور کیمبرج کے مرہون منّت ہیں۔'' ان کا یہ جملہ مبالغے اور خلافِ حقیقت بات کا امتزاج ہے۔ اوّل تو 1000 سال پہلے آکسفورڈ اور کیمبرج کا وجود ہی نہیں تھا، البتہ اس وقت اسلامی یونیورسٹیاں جامعہ قرویّـین (فاس، مراکش، تاسیس859ء) اور جامعہ ازہر (قاہرہ، 971ء) موجود تھیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی 1167ء میں قائم ہوئی اور کیمبرج 1230ء میں وجود میں آئی۔ گویا 1000 سال پہلے سے مسلمانوں کے آکسفورڈ اور کیمبرج کے مرہونِ منّت ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس زمانے میں تو یورپ سے علم کے متلاشی فاس، قاہرہ اور قرطبہ آکر اسلامی جامعات کے مرہونِ منّت ہوتے تھے۔ مشرق کے مسلمان اگر آکسفورڈ اور کیمبرج کے مرہونِ منّت ہوئے ہیں تو گزشتہ ڈیڑھ دو سو برس میں ہوئے ہیں جب مسلمان اِدبار کی حالت کو پہنچے اور اہل یورپ سائنسی ترقی کی منزلیں طے کرنے لگے تھے۔

7.  محترمہ نازیہ مصطفیٰ نوائے وقت کی کالم نگار ہیں۔ تاریخ کا اچھا خاصا مطالعہ ہے مگر ان کا علم جغرافیہ ذرا کمزور ہے۔ گزشتہ ماہ اپریل میں چین کے صدر پاکستان تشریف لائے تو محترمہ نے چین پر اپنے کالم میں چین کے دریاؤں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ وہ سب بحراوقیانوس میں گرتے ہیں۔ اب کہاں مغربی سمندر بحراوقیانوس جو یورپ، افریقہ اور امریکہ کے درمیان واقع ہے اور کہاں مشرقی ملک چین، جسے بحیرۂ زرد اور بحیرۂ چین مشرقی کے ساحل لگتے ہیں جو کہ دنیا کے سب سے بڑے سمندر بحرالکاہل کا حصہ ہیں، لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ چین کے دریا بحرالکاہل میں گرتے ہیں (نہ کہ بحراوقیانوس میں)۔

دراصل اُردو صحافیوں کو اکثر دنیا کے دو بڑے سمندروں بحرالکاہل (Pacific Ocean) اور بحراوقیانوس (Atlantic Ocean) میں اشتباہ ہوجاتا ہے کیونکہ ہمارے سکولوں میں جغرافیہ بطورِ مضمون نہیں پڑھایا جاتا اور طلبہ کے ذہنوں میں سکول ہی سے ملکوں اور سمندروں وغیرہ کا محل وقوع راسخ نہیں ہو پاتا۔ ادھر صحافت اور میڈیا پر انگریزی کا غلبہ ہے۔ انگریزی خبروں میں جب Atlantic اور Pacific کے نام آتے ہیں تو کئی مترجم اور قلم کار سمجھ نہیں پاتے کہ ان کے درست اُردو نام کیا ہیں اور وہ بعض اوقات حامد کی ٹوپی محمود کے سر رکھ دیتے ہیں جیسا کہ محترمہ نازیہ مصطفیٰ نے کیا۔ Atlantic (بحراوقیانوس) کے مشرق میں یورپ اور افریقہ ہیں اور مغرب میں براعظم شمالی امریکہ، جزائر غرب الہند (ویسٹ انڈیز) اور براعظم جنوبی امریکہ ہیں جبکہ Pacific (بحرالکاہل) کے مشرق میں براعظم شمالی و جنوبی امریکہ ہیں اور مغرب میں براعظم ایشیا، جزائر شرق الہند (ایسٹ انڈیز یعنی انڈونیشیا، فلپائن وغیرہ) اور آسٹریلیا واقع ہیں۔

بحرالکاہل یا Pacific Oceanکا نام ہی منفرد ہے۔ کاہل (Pacific) یعنی سست کیونکہ اس میں بحراوقیانوس اور بحرہند کی نسبت کم شدّت کے طوفان اُٹھتے ہیں۔ رہا اوقیانوس، تو اسے یہ نام (Okeanus) یونانیوں (بطلیموس وغیرہ) نے دیا تھا جسے عربوں نے معرّب کرکے اوقیانوس بنالیا۔ عربی اور فارسی سے یہ نام اُردو میں آیا۔ اب لطیفہ یہ ہوا کہ 'اوقیانوس' اسم معرفہ تھا مگر یورپ والوں نے اسے نکرہ بناکر Ocean (بڑا سمندر)کے ساتھ معرفہ Atlantic لگا لیا اور عربوں نے اُن کی پیروی اور تعریب کرتے ہوئے اسے المحیط الأطلنطي کہنا شروع کردیا جبکہ ہم بدستور عربوں کے دیے ہوئے 'اوقیانوس' سے چمٹے ہوئے ہیں، گویا ؏ ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا!

خیر کوئی بات نہیں، میاں شہباز شریف کی پہلی جماعت سے انگلش میڈیم مسلط کرنے کی پالیسی کے تحت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب یہاں بھی بچہ بچہ 'اوقیانوس' کے بجائے 'اٹلانٹک' پکارے گا۔ (اللّٰہ کرے وہ وقت نہ آئے کہ پھر انگریزی کے ساتھ موسیٰ، اسحٰق، یعقوب اور یوسف کے بجائے موسز، آئزک، جیکب اور جوزف جیسے نام بھی چلے آئیں گے۔)

اب ذرا اُردو، عربی اور انگریزی کے متبادل بعض جغرافیائی نام دیکھیے:

اردو عربی انگریزی

بحرالکاہل المحیط الهادي Pacific Ocean

بحراوقیانوس المحیط الأطلنطي Atlantic Ocean

بحر(بڑا سمندر) محیط Ocean

بُحیرہ(چھوٹا سمندر) بحر Sea

جھیل بُحیرة Lake

دریا نهر، وادي River

نہر قناة، ترعة Canal

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم جسے 'دریا' کہتے ہیں، فارسی میں اسے 'رُود' کہا جاتا ہے جبکہ فارسی بان (فارسی والے)سمندر کو 'دریا' کہتے ہیں، مثلاً 'دریاے ہند' یعنی 'بحرہند'۔ ہم نے یہ بحرہند (Indian Ocean) بھی عربوں کے البحر الهندي سے لیا تھا مگر اب عرب اسے المحیط الهندي کہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی لیے 'محیط ِبیکراں' کی اصطلاح استعمال کی ہے۔

ستم یہ ہے کہ ہم نے بحر، بحیرہ اور نہر کے الفاظ عربوں سے لیے مگر عربوں نے اب اُن کے معنی ہی بدل ڈالے ہیں۔ ادھر ہمارے ٹی وی چینلوں پر بُحیرة کو غلط طور پر بَحیرةپڑھا جاتا ہے جبکہ قرآنی لفظ بَحیرة کے معنی ہیں ''کسی بُت کے نام وقف کی گئی اونٹنی۔''

8.  قارئین کے لیے جغرافیہ ذرا گاڑھا ہوگیا ہے، اس لیے پھر ہم تاریخ کی بات کرتے ہیں۔ عثمانی سلطنت و خلافت (1299ء تا1924ء) تاریخ اسلام کی طویل ترین اور عظیم ترین سلطنت تھی۔ اس کے آخری خلیفہ کا نام اکثر قلم کار سلطان عبدالحمید ثانی لکھ دیتے ہیں جبکہ آخری خلیفہ اور سلطان دراصل عبدالمجید ثانی تھے۔ آخری چار عثمانی خلفا کے ادوار کی تحدید سے بات واضح ہوجائے گی:

خلیفہ عبدالحمید ثانی: 1876ء سے 1909ء تک

خلیفہ محمد خامس: 1909ء سے 1918ء تک

خلیفہ محمد سادس: 1918ء سے 1922ء تک

خلیفہ عبدالمجید ثانی: 1922ء سے 1924ء تک

خلیفہ عبدالحمید ثانی نے یہودی لیڈروں کی یہ پیشکش مسترد کردی تھی کہ اگر فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنادیا جائے تو وہ سلطنتِ عثمانیہ کے تمام قرضے ادا کردیں گے۔ اس انکار کی پاداش میں یہودیوں کے آلۂ کار 'ینگ ٹرکس' (نوجواں ترکوں) نے خلیفہ عبدالحمید ثانی کو خلافت سے دستبرداری پر مجبور کردیا تھا۔ رہے آخری عثمانی خلیفہ عبدالمجید ثانی تو وہ تو فوجی آمر مصطفیٰ کمال پاشا (اتاترک) کے دست نگر تھے جس نے سلطنت اور خلافت ختم کرکے خلیفہ کو جلاوطن کردیا اور ننانوے فیصد مسلم اکثریت کے ملک میں سیکولرزم کا جھنڈا گاڑدیاجسےاب جناب رجب طیب اُردوان اُتار نے میں کوشاں ہیں۔

9.  ایسا ہی معاملہ بغداد کے آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللّٰہ (1237 ء تا 1258ء) کا ہے جسے بالعموم 'معتصم باللّٰہ' لکھ دیا جاتا ہے۔ معتصم باللّٰہ (833 ءتا 842ء) جو خلیفہ ہارون الرشید کا چھوٹا بیٹا تھا اور اپنے بھائی مامون الرشید کے بعد تختِ خلافت پر بیٹھا، اس نے محمد بن قاسم کی طرح ایک مسلمان خاتون کی فریاد "وا معتصما" (یعنی اے معتصم! تم کہاں ہو؟) پریلغار کی اور اسے رومیوں کی قید سے رہائی دلا کر قیصر کے شہر عموریہ (ترکی) کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ لیکن صحافی حضرات وخواتین 4 صدیوں کا زمانی بُعد بیک جنبش قلم ختم کرکے بغداد کی تباہی (1258ء) کے وقت عباسی تختِ خلافت پر معتصم باللّٰہ کو بٹھادیتے ہیں، حالانکہ حملۂ ہلاکو خان کے وقت خلیفہ مستعصم باللّٰہ تھا جس کی خلافت کا مرثیہ سعدی شیرازی نے یوں پڑھا ؎

آسماں را حق بود گر خوں ببارد برزمیں برزوالِ مُلکِ مستعصم امیر المؤمنیں

''آسمان اگر امیرالمؤمنین مستعصم باللّٰہ کی بادشاہی کے زوال پر زمین پر خون برسائے تو اس کے لیے عین حق ہے۔''

ویسے مستعصم باللّٰہ آخری عباسی خلیفہ نہیں تھا۔ 1261ء میں مصروشام اور حجاز کے مملوک حکمران رکن الدین الظاہر بیبرس نے قاہرہ میں ایک عباسی شہزادے احمد مستنصرباللّٰہ کو تختِ خلافت پر بٹھادیا تھا۔ قاہرہ کی یہ عباسی خلافت 1517ء تک چلی حتیٰ کہ عثمانی ترک سلطان سلیم اوّل کے ہاتھوں فتح مصر کے بعد خلافت قسطنطنیہ میں عثمانیوں کو منتقل ہوگئی۔ متوکل علی اللّٰہ قاہرہ میں آخری عباسی خلیفہ تھا۔

10.  مقتدامنصور 'ایکسپریس' میں 'صداے جرس' کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں، وہ فکری طور پر سیکولر اور سوشلسٹ ہیں۔ 4 مئی 2015 ءکے کالم میں وہ لکھتے ہیں:

''آج پاکستان جس آگ میں جھلس رہا ہے، اس میں پہلی چنگاری ملک کے پہلے سیکرٹری جنرل چودھری محمدعلی نے سلگائی تھی جب اُنھوں نے ایک طرف علامہ شبیر احمد عثمانی کو قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنے پر اکسایا تاکہ ملک میں تھیو کریسی کی راہ ہموار کی جاسکے۔''

گویا موصوف کو ساری خرابیاں قرارداد مقاصد (مارچ 1949ء) کی منظوری میں نظر آتی ہیں جس میں نفاذِ اسلام کے نام پر بنے ہوئے اس ملک میں اسلامی اُصولوں کے مطابق نظامِ حکومت قائم کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ منصور صاحب کو پرویز مشرف نظر نہیں آتا جس نے امریکہ کی صلیبی جنگ میں حصّہ بٹا کر ملک کو امریکیوں کی چراگاہ بنادیا اور وطن عزیز اس پرویزی پالیسی کے منحوس اثرات سے ابھی تک باہر نہیں آسکا۔ انھیں غصّہ ہے تو اس بات پر کہ ملک میں چند سطحی قسم کے نفاذِ اسلام کے اقدامات بھی کیوں کیے گئے ہیں، مثلاً امتناع شراب، قانون تحفظِ ناموس رسالت، قانون نفاذحدود اور قانون تحفظ ِختم نبوت جس کی رو سے قادیانی غیرمسلم قرار پائے۔ وہ ان اقدامات کو تھیوکریسی (ملاؤں کی حکومت) کی راہ ہموار کرنا قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ خود بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بارہا ملک میں اسلامی اُصولوں اور قرآنی نظام کے نفاذ کی بات کی تھی۔

اس کے باوجود سیکولر اور اشتراکی (کمیونسٹ) لابی کے پیٹ میں قراردادِ مقاصد کی مخالفت کے مروڑ اُٹھتے رہتے ہیں۔ اس گروہ نے 1951ء میں پاکستان میں کمیونسٹ انقلاب برپا کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ بعد میں یہ لوگ فوجی آمریتوں میں پھولتے پھلتے رہے۔ شروع میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں بھی اشتراکی عناصر پوری طرح دخیل تھے مگر بھٹو صاحب جلد ان کے دام سے نکل گئے اور انھی کے عہد میں 'تحفظ ختم نبوت بل' پاس ہوا۔

مقتدامنصور نے یہ لکھ کر دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں کہ ''بھٹو کے دور میں ریاست کو ان معاملات میں اُلجھا دیا گیا جس سے عموماً اس کا سروکار نہیں ہوتا۔'' گویا وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بھٹو حکومت کو تحفظِ ختم نبوت اور امتناعِ شراب جیسے اقدامات نہیں کرنے چاہیئں تھے اور یہاں سوشلزم کے نفاذ ہی پر کاربند رہنا چاہیے تھا۔

منصور میاں تاریخی گمراہیاں پھیلانے والے ڈاکٹر مبارک علی کی پرزور حمایت کرتے ہوئے ان کے الفاظ لکھتے ہیں: ''جو معاشرے فکری کثرتیت کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں، وہ تنزل کا شکار ہوکر بدترین تباہی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔'' اس 'تنزل' کی مثال میں اُنھوں نے سبین محمود کا ذکر کیا ہے جس نے انکے بقول ''ایک ادارہ T2F قائم کرکے خرد افروزی اور عقلیت پسندی کو پروان چڑھانے کی کوشش کی تھی۔'' ظاہر ہے 'فکری کثرتیت' سے اُنکی مراد یہ ہے کہ سیکولرزم، ڈارونزم، سوشلزم، کمیونزم جیسے گمراہ کن مغربی نظریات کی جگالی کرنا تو عین مطلوب ہے مگر کوئی یہاں اسلامی نظام کے نفاذ کی بات نہ کرے۔ بھلا یہ 'خرد افروزی' اور 'عقلیت پسندی' کس چڑیا کا نام ہے؟ یہ تو وہی اہل مغرب کے پروردہ پرویزی ٹولے کی مزعومہ روشن خیالی Enlightenment اور عقل پرستی Rationalism کی فکری گمراہیاں ہیں۔ سوے اتفاق سے اس گمراہ ٹولے کے دونوں امام پرویز (غلام احمد پرویز اور پرویز مشرف) ہیں۔ انھی غیراسلامی نظریات کو اپنانے والے اربابِ اختیار ہی نے تو ملک کو تباہی کے راستے پر ڈالا ہے مگر بایں ہمہ اکیسویں صدی کا 'منصور' بڑی ڈھٹائی سے اسلامی نظریات اور اسلامی نظام کو تنزل اور تباہی سے منسلک کرکے ڈنکے کی چوٹ اس مسلم معاشرے میں ذہنی گمراہی پھیلارہا ہے۔

اسے ''اس خطے کی صدیوں پر محیط صوفی روایات کو نئی نسل میں متعارف کرانے کی کوشش'' کرنے والی این جی او کی سربراہ سبین محمود کے قتل کا تو بہت دُکھ ہے (ایسے قتل کا ہمیں بھی دُکھ ہے) مگر وہ جو امریکی ڈرون حملوں میں اب تک ہزاروں افراد شہید کیے گئے ہیں یا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ میں جرم بے گناہی کی 86 سال قید میں رکھا گیا ہے، اس پر اس نام نہاد منصور کو کوئی قلق نہیں، اس لیے کہ کمیونسٹوں کے امام سوویت روس کی موت کے بعد اشتراکیوں نے بظاہر سیکولر مگر دراصل کٹرصلیبی امریکہ و یورپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے۔

11.  ایاز امیر صاحب کو مے خواری سے شغف ہے اور وہ اپنے کالم میں اس کابرملا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ اس بُری عادت کے فخریہ اظہار کے باعث ہی وہ 2013 ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑسکے۔ اپنا ایک کالم (روزنامہ 'جنگ' 6 مئی) اُنھوں نے سلطنتِ مغلیہ کے بانی بابر کی شراب نوشی پر سیاہ کیا ہے جس نے جنگ کنواہہ (1528ء) میں ہندو رانا سانگا کو شکست دینے سے پہلے مے نوشی سے توبہ کرلی تھی، مگر ایازِ چکوال نے اس کا ذکر ہی نہیں کیا۔ اسی کالم میں اُنھوں نے قرارداد مقاصد کی نفی کرنے کا یہ انداز اپنایا ہے کہ ''کیا خاندانِ غلاماں یا تیموری بادشاہوں نے بھی کوئی قراردادِپاکستان منظور کی تھی۔'' محترم عبداللّٰہ طارق سہیل کے الفاظ میں 'باٹلی کالم نویس' کو تکلیف اس بات کی ہے کہ اگر قراردادِ مقاصد کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تمام اسلامی احکامات صحیح معنوں میں نافذ ہوگئے تو پھر ان کے یہ جام و مینا کے بے ہودہ شغل کیسے چلیں گے۔