خدا و رسول ؐ یا مرکز ملت؟ قرآن کریم کی روشنی میں

ماہنامہ محدث کی جون 1988ء کی اشاعت میں پروفیسر محمد دین قاسمی صاحب کا ایک نہایت علمی اور وقیع مضمون بعنوان۔۔ "خدا و رسول یا مرکزِ ملت(قرآن کریم کی روشنی میں)" شائع ہوا تھا۔ جس میں انہوں نے اخلاق، تہذیب اور شائستگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے، قرآن کریم کی روشنی میں، پرویز صاحب کے اس نظریے پر، کہ قرآن کریم میں وارد الفاظ "اللہ اور رسول" سے مراد "مرکزِ ملت" ہے، بڑی جاندار تنقید کی تھی۔ اس سلسلہ میں پروفیسر صاحب نے جو تردیدی دلائل قائم کئے تھے وہ اس قدر مضبوط تھے کہ ان کا جواب "طلوعِ اسلام" کے بس کی بات ہی نہیں ہے: ﴿وَلَو كانَ بَعضُهُم لِبَعضٍ ظَهيرً‌ا﴾ یہی وجہ ہے کہ مدیر طلوعِ اسلام نے پروفیسر قاسمی کے مضمون کی تردید میں اگست 1988ء

کے شمارہ میں جو مضمون لکھا ہے، اس میں پروفیسر صاحب موصوف کے چار تردیدی دلائل میں سے کسی ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔ بلکہ ان کا ذکر تک نہیں کیا۔ تاکہ طلوعِ اسلام کے قارئین پر پرویز کے موقف کا کھوکھلا پن واضح نہ ہو جائے۔

علاوہ ازیں، مدیرِ طلوعِ اسلام نے جو بازاری زبان اور سوقیانہ اندازِ تحریر اختیار فرمایا ہے، اس پر ہمیں نہ کوئی تعجب ہے اور نہ حیرت۔۔۔بلکہ ہمیں تعجب اور حیرت اس وقت ہوتی، جب وہ شریفانہ زبان اور شائستہ اندازِ بیان اختیار فرماتے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ تہذیب و شائستگی کی میزان میں ان لوگوں کا کیا وزن ہے، اس لیے ان لوگوں سے ہمیں ایسے ہی تعلی آمیز اور گھٹیا طرزِ گفتگو کی توقع تھی۔ چنانچہ خود انہوں نے ایسا خسیس اور دنائت پسند اسلوبِ نگارش اختیار کر کے عملا بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایسے ہی اخلاقی رذائل کو وہ اپنے شایانِ شان سمجھتے ہیں۔

ذیل میں ہم پروفیسر قاسمی صاحب کا جواب الجواب پیش کر رہے ہیں۔ جسے پڑھ کر ہر شخص یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ مدیر طلوعِ اسلام کی اوچھی تحریر کے جواب میں انہوں نے کس قدر سلجھا ہوا اندازِ بیان اختیار فرمایا ہے۔ (ادارہ)

مدیر طلوعِ اسلام نے اپنے جوابی مضمون کی ابتداء میں فرمایا ہے:

"اس سلسلہ میں ان حضرات نے پرویز صاحب کا نقطہ نظر نقل کرنے میں بددیانتی سے کام لیا ہے۔ اس لیے ہم نے طلوعِ اسلام کی اسی اشاعت میں پرویز صاحب کا یہ نقطہ انہی کی زبانی ایک الگ مضمون کی صورت میں پیش کر دیا ہے۔ جس سے ان حضرات کی بددیانتی کا پردہ چاک ہو جائے گا۔" (طلوعِ اسلام، اگست 1988ء، ص 46)

الزامِ بددیانتی کی حقیقت:

یہ "بددیانتی" کیا ہے؟ اسے مدیرِ طلوعِ اسلام نے کھل کر بیان نہیں کیا۔ البتہ اگلی چند سطور پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنے سابقہ مضمون میں سورہ توبہ کی وہ دو آیات (62 اور 74) درج نہیں کی تھیں جو اب مدیر طلوعِ اسلام نے پیش کی ہیں، چنانچہ ان کا حوالہ نہ دینا ہی میری وہ "بددیانتی" ہے جسے میری ذات کی طرف منسوب کرنے کی بجائے انہوں نے جملہ علماء اہل حدیث کی طرف منسوب کر ڈالا ہے۔ حالانکہ وہ مضمون صرف میں نے لکھا تھا۔

تاہم اس سلسلے میں میری گزارش صرف یہ کہ اگر پرویز صاحب نے سورہ توبہ کی یہ دونوں آیات، اپنے مضمون میں درج کی ہوتیں اور پھر میں نے (غیر شعوری طور پر، نادانستگی کی حالت میں نہیں بلکہ) شعوری طور پر، دیدہ دانستہ ان کے مفہوم و مدلول پر کلام نہ کیا ہوتا تو یقینا یہ میری "بددیانتی" ہوتی، لیکن جب پرویز صاحب نے سورہ توبہ کی ان دونوں آیات کو اپنے استدلال میں پیش ہی نہیں کیا تو میں ان پر کیسے کلام کر سکتا تھا؟ چنانچہ خود مدیر طلوعِ اسلام نے میری "بددیانتی" کا پردہ چاک کرمنے کے لیے طلوعِ اسلام، اگست 1988ء مین ص 52 تا ص 58 تک، پرویز صاحب ہی کے الفاظ میں جو مضمون شائع کیا ہے، اس میں بھی سورہ توبہ کی یہ دونوں آیات موجود نہیں ہیں۔۔۔۔نامعلوم مدیر موصوف کے نزدیک، خود الزامِ "بددیانتی" گھڑ کر کسی کی طرف منسوب کر ڈالنا بھی "بددیانتی" ہے یا کہ نہیں؟ ۔۔یا شاید "دیانتداری" کا مفہوم ان کے ہاں یہ ہے کہ میں اپنے مضمون میں پورا قرآن مجید نقل کر دیتا۔

مثال پر اعتراض کی حقیقت:

میں نے اپنے سابقہ مضمون میں "اللہ و رسول" سے مراد "مرکزِ ملت" لینے کی غلطی کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا تھا، کہ جس طرح کوئی شخص ۔۔ زید نے کھانا کھایا۔۔۔اور زید نے آم کھایا۔۔۔یہ دونوں جملے پڑھ کر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ چونکہ پہلے جملے میں فعل "خوردزن" کا مفعول "کھانا" ہے اور دوسرے میں "آم" ہے، لہذا "کھانا" سے مراد ہمیشہ "آم" ہی ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح پرویز صاحب نے ان تمام آیات میں، جہاں "اللہ و رسول" کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد خواہ مخواہ "مرکزِ ملت" لے لیا ہے۔ (قارئین سے درخواست ہے کہ وہ محدث ماہ جون 1988ء میں میری اس تفصیلی مثال کو خود ملاحظہ فرما لیں) ظاہر ہے کہ جس طرح مثال میں دئیے گئے جملوں سے "کھانا" بمعنی "آم" کشید کرنا ایک بے جا تکلف ہے، بالکل اسی طرح قرآنی آیات میں "اللہ اور رسول" سے "مرکزِ ملت" مراد لینا بھی بے جا تکلف ہے۔۔۔اس مثال کا کوئی جواب دینے کی بجائے مدیرِ موصوف یہ کہہ کر آگے سرک گئے ہیں کہ:

"اہل حدیث علماء کی جانب سے اللہ اور رسول اور اسلامی نظام کی وضاحت کے لیے پیش کی جانے والی اس مثال کی رکاکت ملاحظہ ہو کہ جس میں اللہ اور رسول کو کھانے سے اور اسلام نظام کو آم سے تشبیہ دی گئی ہے۔"

مدیر موصوف کے اس ارشاد پر میری گزارش یہ ہے کہ یہ کوئی مستحسن طرزِ عمل نہیں ہے کہ آپ ایک سیدھی سی بات کو خوامخواہ الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔خود آپ کو بھی معلوم ہے کہ میں نے "اللہ اور رسول" اور "اسلامی نظام" کی وضاحت کے لیے یہ مثال پیش نہیں کی تھی، بلکہ پرویز صاحب کے اس موقف کی لغویت واضح کرنے کے لیے پیش کی تھی جس کے تحت وہ "اللہ اور رسول" سے مراد "مرکزِ ملت" لیتے رہے ہیں، اور اس کے غلط ہونے پر چار دلائل بھی پیش کئے تھے جن میں سے آپ کسی ایک کا بھی جواب نہیں دے پائے۔

پھر مدیرِموصوف کا اس مثال کے متعلق رکاکت کا حکم لگانا بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کہ مشرکینِ مکہ، قرآن کی اُن امثلہ پر، جن میں مکھی، مکڑی اور چیونٹی جیسی حقیر مخلوقات کا ذکر ہے، حقارت اور رکاکت کا اعتراض کیا کرتے تھے۔ یاد رکھئے مثال دیتے وقت زیرِ مثال مخلوق کی حقارت و رکاکت یا اس کی عظمت و جلالت کو پیشِ نظر نہیں رکھا جاتا بلکہ صرف یہ بات پیشِ نظر رکھی جاتی ہے کہ اس کے ذریعہ سے جو بات سمجھانی مقصود ہے وہ اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔ یہ مقصد جس مثال سے بھی پورا ہو سکے وہی مثال مناسب قرار پائے گی، قطع نظر اس سے کہ جو چیز بطورِ مثال پیش کی ہے وہ کسی حقیر و صغیر مخلوق کی ہے یا کبیر و عظیم مخلوق کی۔۔۔میں نے جو مثال پیش کی ہے وہ نہ خدا کے متعلق ہے اور نہ رسول کے متعلق، اور نہ ہی اسلامی نظام کے متعلق ہے۔ وہ مثال تو صرف یہ ظاہر کرتی ہے کہ جس طرح کتبِ لغت "کھانا" بمعنی "آم" سے خالی ہیں، بالکل اسی طرح "اللہ" بمعنی "مرکزِ ملت" یا "رسول" بمعنی "مرکزِ نظامِ امت" یا "اللہ اور رسول"بمعنی "مرکزِ نظامِ اسلامی" کے معانی سے خالی ہیں۔

انوکھا استدلال

مدیرِ موصوف خود غور فرمائیں کہ یہ کس قدر عجیب بات ہے، اگر مجرد "اللہ" کا لفظ بولا جائے تو اس سے خالقِ کائنات کی ذات مراد لی جائے، اور اگر صرف "رسول" کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد وہ مامور من اللہ شخصیت لی جائے جو اہل ایمان کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ لیکن جب "اللہ اور رسول" کے الفاظ (معطوف اور معطوف علیہ کی صورت میں) اکٹھے بولے جائیں تو اب "اللہ" اپنی الوہیت سے اور "رسول" اپنے منصبِ رسالت سے معزول ہو گیا۔ پھر جب اس طرح اللہ کی الوہیت اور نبی کی حیثیت نبوت (معاذاللہ) ختم ہو گئی تو اس عدم سے "مرکزِ ملت" وجود میں آیا۔ گویا یہ الوہیت اور نبوت کے مسائل نہ ہوئے بلکہ سائنس کی لیبارٹری کے مسائل ہوئے کہ آکسیجن اور ہائیڈروجن کو جب ایک خاص ترکیب سے جمع کیا جاتا ہے تو جہاں آکسیجن کی تحریقی خاصیت ختم ہو جاتی ہے، وہاں ہائیڈروجن سے اس کی احتراق پذیری کی صفت منفک ہو جاتی ہے۔ اور پھر "پانی" نام کی اُسی طرح ایک نئی چیز معرضِ وجود میں آ جاتی ہے جس طرح ادارہ طلوعِاسلام کی "قرآنی لیبارٹری" میں "اللہ اور رسول" کے مجموعے سے "مرکزِملت" معرضِ وجود میں آ جاتا ہے۔

سورہ توبہ کی دو آیات پر بحث:

اب آئیے سورہ توبہ کی ان دو آیات کی طرف، جنہیں مدیرِ طلوع اسلام نے پرویز صاحب کے موقف کی تائید میں پیش کیا ہے، ان میں سے ایک آیت کے متعلق وہ لکھتے ہیں:

﴿ يَحلِفونَ بِاللَّهِ لَكُم لِيُر‌ضوكُم وَاللَّهُ وَرَ‌سولُهُ أَحَقُّ أَن يُر‌ضوهُ إِن كانوا مُؤمِنينَ ﴿٦٢﴾... سورةالتوبة

"اس آیت میں اللہ اور رسول، جس کے لیے عربی 1قاعدے کے مطابق ضمیر تثنیہ آنی چاہئے تھی، واحد (يُر‌ضوهُ میں ہُ کی ضمیر) لائی گئی ہے۔ حالانکہ اللہ اور رسول ایک نہیں،اللہ خالق ہے اور رسول مخلوق ہے، پیغام دینے والا اور پیغام پہنچانے والا ایک نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس آیت میں ان دونوں کے لیے ضمیر واحد لاکر، انہیں ایک ٹھہرانے سے صاف ظاہر کیا گیا ہے کہ اس آیت میں "اللہ اور رسول" کے الفاظ، اصطلاح کے طور پر کسی ایسی چیز کے لیے لائے گئے ہیں جو ایک ہیں دو نہیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس ایک چیز سے مراد، اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ وہی نظام ہے جو رسول اللہ کی معرفت اس دنیا میں قائم کیا گیا۔" (طلوعِ اسلام، اگست 1988ء ص 46)

یہ ہے دلائل کی وہ کل کائنات، جو طلوعِ اسلام نے اپنے نرالے موق کی تائید میں پیش کی ہے۔

دو اشیاء کے بعد ضمیر مفرد لانے کی صورتیں:

جب دو اشیاء (یا دو ہستیوں) کے ذکر کے بعد ضمیر مفرد لائی جائے، تو اس کی درج ذیل صورتوں میں سے کوئی ایک صورت ممکن ہوتی ہے:

1۔ کسی دلیل یا قرینہ کی بناء پر مفرد کی یہ ضمیر کسی ایک ہی مرجع کی طرف لوٹتی ہے اور وہ مرجع انہی مذکورین میں سے کوئی ایک ہوتا ہے(نہ کہ ان سے باہر، کہ خارج سے اس کا وجود درآمد کر لیا جائے) یہ مرجع ضمیر کے قریب بھی واقع ہو سکتا ہے اور بعید بھی۔

2۔ صیغہ واحد کی یہ ضمیر، دونوں مذکور چیزوں کی طرف فردافردا لوٹتی ہے، قطع نظر اس سے کہ ان میں سے کوئی مرجع تذکیر و تانیث کے اعتبار سے ضمیر سے مطابقت رکھتا ہے یا کہ نہیں۔

پہلی صورت کی مثالیں:

پہلی صورت کی، جب کہ ضمیر مفرد کسی قرینہ یا دلیل کی بناء پر کسی ایک مرجع کی طرف لوٹتی ہے۔ قرآن مجید میں بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مدیر موصوف کی پیش کردہ آیت (التوبہ: 62) جس کے الفاظ یہ ہیں:

"﴿وَاللَّهُ وَرَ‌سولُهُ أَحَقُّ أَن يُر‌ضوهُ﴾"بھی اس سلسلے کی ایک مثال ہے۔ ﴿يُر‌ضوهُ﴾ میں واحد کی ضمیر مفعول کا مرجع۔۔۔اس قرینہ کی بناء پر کہ ارضاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ارضاءِ خدا میں کوئی تفاوت نہیں ہے، چنانچہ دونوں میں ایسا باہم تلازم پایا جاتا ہے کہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنے کے لیے جداگانہ کوششوں اور طریقوں کے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔کوئی ایک ہو سکتا ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر جلالین:

"توحيد الضمير لتلازم الرضائين"

یعنی ضمیر کا واحد لایا جانا دونوں رضاؤں کے باہمی تلازم کا باعث ہے۔

پھر حاشیہ میں یہ عبارت بھی موجود ہے:

"لما كان الظاهر العطف بالواو يقضى التثنية وقد افرده وجهه بان رضاء الرسول اللهﷺ لا ينفك عن رضاء الله تعالى فتلازمها جعلا كشئ واحد فعاد عليهما الضمير المفرد"

کہ "والله ورسوله" میں) واؤ کے ظاہری عطف کا تقاضا یہ ہے کہ صیغہ تثنیہ لایا جائے، حالانکہ یہاں صیغہ مفرد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاء، اللہ تعالیٰ کی رضا سے منفک اور جداگانہ نہیں ہے۔ ان دونوں رضاؤں کے تلازم نے انہیں گویا ایک ہی شے بنا دیا ہے، اس لیے ضمیر مفرد لائی گئی ہے"

صاحبِ کشاف علامہ زمخشری لکھتے ہیں:

"انما وحد الضمير لانه لا تفاوت بين رضاء الله ورضاء رسولهﷺ فكان فى حكم مرضي واحد"

"ضمیر کو بصیغہ واحد لایا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضاء اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاء میں کوئی فرق و تفاوت نہیں ہے، دونوں گویا ایک ہی کو راضی کرنے کے حکم میں ہیں"

"طلوعِ اسلام"کی بنیادی غلطی:

یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس آیت میں اور اسی صورت کی آگے آنے والی آیات میں مستعمل ضمیر واحد سے استدلال کرنے میں طلوعِ اسلام کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ ضمیر واحد کا مرجع آیت میں مذکور ہستیوں میں سے کسی کو بھی نہیں بناتا، بلکہ خارج سے اس کا مرجع درآمد کرتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ ضمیرِ واحد نہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہوتی ہے اور نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، بلکہ "مرکزِ ملت" کی طرف راجع ہوتی ہے۔ جس کا آیت میں سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔

دوسری آیت:

اس سلسلے کی دوسری آیت یہ ہے:

﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ وَلا تَوَلَّوا عَنهُ وَأَنتُم تَسمَعونَ ﴿٢٠﴾... سورة الانفال

"اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اس سے منہ نہ موڑو بایں حال کہ تم سنتے ہو۔"

یہاں "﴿تَوَلَّوا عَنهُ﴾" میں ضمیر مجرور واحد لائی گئی ہے، حالانکہ اس سے قبل "اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم" دو ہستیوں کا ذکر ہے۔ آیت میں موجود قرینے کی بناء پر، اور دیگر مقامات پر موجود قرآنی دلائل کی بناء پر یہ مفرد ضمیر جس ایک مرجع کی طرف لوٹتی ہے وہ ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

اولا، اس لیے کہ آیت کے آخر میں"﴿وَأَنتُم تَسمَعونَ﴾" کے الفاظ موجود ہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ سامعین نے خدا تعالیٰ کی آواز براہِ راست نہیں سنی، بلکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ سے دعوتِ دین کو سنا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

﴿ رَ‌بَّنا إِنَّنا سَمِعنا مُنادِيًا يُنادى لِلإيمـٰنِ..﴿١٩٣﴾... سورة آل عمران

اے ہمارے پروردگار، ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان کی ندا کرتا ہے"

اس بناء پر آیت کے اس داخلی قرینے کی رو سے "﴿تَوَلَّوا عَنهُ﴾" میں مذکور ضمیر مجرور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹتی ہے۔

ثانیا، اس لیے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ذریعہ ہی ممکن ہے (اور اس کے برعکس ممکن نہیں، الا یہ کہ کوئی شخص خود نبی ہو) جیسا کہ قرآن مجید خود فرماتا ہے:

﴿مَن يُطِعِ الرَّ‌سولَ فَقَد أَطاعَ اللَّه...﴿٨٠﴾... سورةالنساء

کہ "جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی"

لہذا "﴿تَوَلَّوا عَنهُ﴾" کی نہی ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے متعلق ہے۔۔۔اس آیت کے تحت صاحبِ کشاف کے یہ الفاظ قابلِ غور ہیں:

"الضمير فى (عنه) لرسول اللهﷺ لان المعنى اطيعوا رسول الله كقوله والله ورسوله احق ان يرضوه"

کہ "(عنه) میں ضمیر (ہُ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔

کیونکہ معنی یہ ہے کہ اللہ کے رسول عنه کی اطاعت کرو۔ جیسا کہ "﴿وَاللَّهُ وَرَ‌سولُهُ أَحَقُّ أَن يُر‌ضوهُ﴾" میں بھی یہی مراد ہے۔"

تیسری آیت:

اس سلسلے کی تیسری آیت یہ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا استَجيبوا لِلَّهِ وَلِلرَّ‌سولِ إِذا دَعاكُم ...﴿٢٤﴾... سورة الانفال

"اے ایمان والو، اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پکار پرلبیک کہو جب کہ وہ تمہیں بلائے"

اس آیت میں بھی "اللہ" اور "رسول" کے ذکر کے بعد "﴿ دَعاكُم﴾" میں مضمر ضمیر فاعلی بصیغہ مفرد وارد ہوئی ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استجابت اور اللہ تعالیٰ کے لیے استجابت میں کوئی تفاوت نہیں ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں، بالکل اسی طرح "استجاب للہ"، استجابت للرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے "﴿ دَعاكُم﴾" میں ضمیر فاعلی کو مفرد لایا گیا ہے، جس کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ کیونکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر عائد کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿ ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَ‌بِّكَ بِالحِكمَةِ...﴿١٢٥﴾... سورةالنحل

(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، لوگوں کو) اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت سے بلائیے"

اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو "﴿داعياً الى الله﴾" کے خطاب سے نوازا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ خود بھی داعی ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَاللَّهُ يَدعوا إِلَى الجَنَّةِ وَالمَغفِرَ‌ةِ بِإِذنِهِ...﴿٢٢١﴾... سورة البقرة

لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ دعوت بھی لسانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر جاری ہو کر لوگوں تک پہنچتی ہے۔ اس لیے "﴿ دَعاكُم﴾" میں واحد کی ضمیر فاعلی صرف "رسول صلی اللہ علیہ وسلم" ہی کی طرف لوٹتی ہے، نہ کہ "مرکزِ ملت"کی طرف،۔۔۔ جیسا کہ بانی طلوعِ اسلام اور مدیرِ موصوف کا خیال ہے۔۔۔کیونکہ "رسول صلی اللہ علیہ وسلم" نے یہ دعوت مکی دور میں اس وقت بھی دی تھی جب کہ ادارہ طلوعِ اسلام کے نزدیک "مرکزِ ملت" یا "نظامِ اسلامی" کا وجود ہی نہ تھا۔

چوتھی آیت:

سورہ نور کی یہ آیات ملاحظہ ہوں:

﴿وَإِذا دُعوا إِلَى اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ لِيَحكُمَ بَينَهُم إِذا فَر‌يقٌ مِنهُم مُعرِ‌ضونَ ﴿٤٨﴾ وَإِن يَكُن لَهُمُ الحَقُّ يَأتوا إِلَيهِ مُذعِنينَ ﴿٤٩﴾... سورةالنور

"جب ان (منافقین) کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے، تو ایک گروہ ان میں سے اعراض کرتا ہے۔ اور اگر ان کا حق (کسی پر واجب آتا) ہو تو وہ اس کے ہاں سرِ تسلیم خم کئے چلے آتے ہیں۔"

اس آیت میں بھی "اللہ" اور "رسول صلی اللہ علیہ وسلم" کے ذکر کے بعد " ﴿لِيَحكُمَ﴾" میں فاعل کی ضمیر کو مفرد لایا گیا ہے۔ اور یہ صرف ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف راجع ہوتی ہے۔ یاد رکھئے باہمی تراعات میں فیصلے کے لیے بلائی جانے والی تمام آیات میں بطورِ اصول یہ بات قرآن مجید نے طے کر دی ہے کہ اگر "مدعو الیہ" کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی اور ہستی یا چیز بھی مقرون ہو، تو اس کے بعد واحد کی ضمیر کا مرجع صرف ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہو گی۔

ملاحظہ ہو سورہ نساء کی یہ آیت:

﴿ وَإِذا قيلَ لَهُم تَعالَوا إِلىٰ ما أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّ‌سولِ رَ‌أَيتَ المُنـٰفِقينَ يَصُدّونَ عَنكَ صُدودًا ﴿٦١﴾... سورةالنساء

"جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ چیز اور رسول اللہ کی طر آؤ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) منافقین کو دیکھیں گے، وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کنی کترانے لگتے ہیں"

اس آیت میں دو چیزوں کی طرف بلائے جانے کا ذکر ہے۔ ایک وہ جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے ﴿ ما أَنزَلَ اللَّـهُ﴾اور دوسری ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم۔ ان دونوں کے ذکر کے بعد صیغہ غیب کی ضمیر مفرد بھی لائی جا سکتی تھی، جیسا کہ سابقہ آیات میں ہم واضح کر چکے ہیں۔ لیکن یہاں اگرچہ "﴿رَ‌أَيتَ﴾" میں ضمیر فاعلی اور "﴿ عَنكَ﴾" میں ضمیر مجرور واحد ہی ہیں، تاہم اس ضمیر کو صیغہ مخاطب میں پیش کر کے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ فیصلے کرنے والی ذات، ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے۔ جس کی طرف بلایا جاتا ہے اور جس کی طرف آنے سے منافقین گریزاں ہوتے ہیں، الا یہ کہ وہ محسوس کر لیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہو گا۔ پھر وہ بڑے مطیعِ فرمان بن کر عدالتِ نبوی میں حاضر ہوتے ہیں۔ پس جس طرح آیت (النساء: 61) میں "﴿رَ‌أَيتَ﴾" اور "﴿ عَنكَ﴾" سے ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں بالکل اسی طرح سورہ النور کی آیت 48-49 میں ﴿لِيَحكُمَ﴾"کے فاعل کی حیثیت سے اور "﴿اِلَيْهِ﴾" میں ضمیر مجرور کے مرجع کی حیثیت سے ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی مراد ہے نہ کہ کچھ اور۔

پانچویں آیت:

سورہ نور ہی کی ایک اور آیت ہے:

﴿إِنَّما كانَ قَولَ المُؤمِنينَ إِذا دُعوا إِلَى اللَّـهِ وَرَ‌سولِهِ لِيَحكُمَ بَينَهُم أَن يَقولوا سَمِعنا وَأَطَعنا...﴿٥١﴾... سورةالنور

کہ "اہل ایمان کو جب اللہ اوررسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف بلایا جائے تاکہ وہ ان میں فیصلہ کر دے، تو ان کا قول یہی ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کر ڈالی۔"

اس آیت میں بھی بعینہ اسی دلیل کی بناء پر جو اس سے پہلی آیت کے ضمن میں بیان ہو چکی ہے، "﴿لِيَحكُمَ﴾" میں ضمیر فاعلی کا مرجع ذاتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے، نہ کہ کچھ اور۔

چھٹی آیت:

اس سلسلہ کی چھٹی آیت بھی سورہ نور ہی میں واقع ہے:

﴿قُل أَطيعُوا اللَّـهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّما عَلَيهِ ما حُمِّلَ وَعَلَيكُم ما حُمِّلتُم وَإِن تُطيعوهُ تَهتَدوا وَما عَلَى الرَّ‌سولِ إِلَّا البَلـٰغُ المُبينُ ﴿٥٤﴾... سورةالنور

(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرما دیجئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی، پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر وہ ذمہ داری ہے جو اس پر ڈالی گئی اور تم پر وہ کہ جو تم پر ڈال گئی، اور اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت یاب ہو گے، اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر تو یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کھول کر پیغام پہنچا دے"

اس آیت میں اطاعتِ الہی اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے بعد "﴿عَلَيهِ﴾" میں ضمیر مجرور اور "﴿ تُطيعوهُ﴾" میں ضمیر مفعول بصیغہ واحد لائی گئی ہیں۔ ان دونوں کا مرجع بھی ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے۔ یہ دونوں اطاعتیں بظاہر دو ہیں لیکن اصلا اور حقیقتا ایک ہی اطاعت کے حکم میں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے جدا اور متفاوت نہیں ہے۔ ان میں پائے جانے والے تلازم کے باعث یہ دونوں اطاعتیں دراصل ایک ہی اطاعت کے تحت آ گئی ہیں اور وہ ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، جس کے بغیر خدا کی اطاعت ممکن نہیں ہے اس لیے اس ضمیر مفرد کی بناء پر اللہ کو الوہیت اور رسول کو رسالت کے منصب کو گویا معزول کر کے، ان دو ہستیوں کی بجائے کسی نئی اور واحد شخصیت کو "مرکزِ ملت" کے نام سے ان کا قائم مقام قرار دینا، عرفِ عام، شریعتِ اسلامیہ، بغاوتِ عربیہ، محاوراتِ عربیہ اور قواعدِ زبان، ہر لحاظ سے غلط ہے۔

آیت (التوبہ: 74) پر بحث:

سورہ توبہ کی آیت 74 کے تحت مدیر موصو لکھتے ہیں:

﴿أَغْنَاهُمُ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ مِن فَضْلِهِ﴾

یہاں بھی اللہ اور اس کے رسلو کے لیے واحد کی ضمیر (ہُ) لائی گئی ہے، یعنی خالق اور مخلوق کا ذکر کر کے ان کے لیے واحد کی ضمیر لائی گئی ہے تو اس سے اسلامی نظام کے علاوہ اور کیا مراد ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ نظام اللہ تعالیٰ کے پیغام کے ذریعے اس کے پیغمبر نے اس دنیا میں قائم کیا تھا۔" (طلوعِ اسلام اگست 1988ء ص 47)

یہاں صیغہ واحد غیب کی دو ضمیریں موجود ہیں۔ ایک ضمیر مرفوع (ہُ) جو " ﴿وَرَ‌سُولُهُ﴾" میں واقع ہے اور قطعی طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف راجع ہوتی ہے۔ جب کہ مدیر موصوف نے اس ضمیر کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ اسلامی نظام کی طرف راجع ہے جو قطعی غلط ہے۔ اور دوسری ضمیر مجرور «ه» لفظ "﴿فَضْلِهِ﴾" میں موجود ہے اور یہ بھی بلاشک و شبہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف راجع ہوتی ہے۔ اس طرح اس آیت کا معنی یہ بنتا ہے۔۔۔اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (بھی اللہ کے ضل سے) لوگوں کو غنی کر دیا ہے" ۔۔۔جب کہ مدیر طلوع اسلام کے موقف کی بناءپر آیت کا ترجمہ یوں ہو گا، ۔۔۔مرکزِ ملت (کیونکہ ان کے نزدیک اللہ اور رسول سے مراد مرکزِ ملت ہی ہے) نے لوگوں کو اپنے ضل سے (نہ کہ اللہ کے فضل سے) غنی کر دیا ہے" ۔۔۔یہ ترجمہ صریحا غلط ہے۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ "فضل" مرکزِ ملت کے دستِ اختیار میں ہے جب کہ قرآن کریم کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ فضل صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے۔

﴿أَنَّ الفَضلَ بِيَدِ اللَّـهِ يُؤتيهِ مَن يَشاءُ...﴿٢٩﴾... سورةالحديد

اہل کتاب کو یہ دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کے فضل کے اجارہ دار ہیں۔ لیکن قرآن مجید نے واضح فرمایا کہ:

﴿أَلّا يَقدِر‌ونَ عَلىٰ شَىءٍ مِن فَضلِ اللَّـهِ﴾

علاوہ ازیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اعلان کروایا گیا۔

﴿ قُل إِنَّ الفَضلَ بِيَدِ اللَّـهِ يُؤتيهِ مَن يَشاءُ...﴿٧٣﴾... سورةآل عمران

لوگوں کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے فضل کو اللہ تعالیٰ ہی سے طلب کریں

﴿ وَسـَٔلُوا اللَّـهَ مِن فَضلِهِ...﴿٣٢﴾... سورةالنساء

ان وجوہ کی بناء پر آیت زیرِ بحث میں "﴿ فَضلِهِ﴾" میں واقع ضمیر مجرور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف راجع ہوتی ہے نہ کہ کسی مرکزِ ملت کی طرف۔

مزید یہ کہ آیت زیربحث میں آخری ضمیر مجرور کے تنہا اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہونے کی قطعی دلیل یہ ہے کہ ایک دوسرے مقام پر اس ضمیر کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹایا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِن خِفتُم عَيلَةً فَسَوفَ يُغنيكُمُ اللَّـهُ مِن فَضلِهِ...﴿٢٨﴾... سورة التوبة

اس آیت میں یہ ضمیر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف راجع ہے۔ مدیر طلوع اسلام کو غالبا اس وجہ سے یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ آیت (التوبہ: 74) کی ترکیب میں "﴿اَغْنَاهُمُ اللهُ﴾" اور "﴿مِنْ فَضْلِهِ﴾" کے درمیان "﴿وَرَسُولُهُ﴾" نے کچھ فاصلہ حائل کر دیا ہے حالانکہ یہ غلط فہمی سورہ توبہ ہی کی ایک دوسری آیت سے دور ہو جاتی ہے، جس میں" ﴿وَرَسُولُهُ﴾" کے معطوف کو مؤخر کر کے اس فاصلہ کو ختم کر دیا گیا ہے۔"

﴿سَيُؤتينَا اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَرَ‌سولُهُ ...﴿٥٩﴾... سورةالتوبة

ان وجوہ کی بناء پر یہ بات قطعی طور پر طے ہو جاتی ہے کہ "﴿اَغْنَاهُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ ﴾" میں واحد غیب کی یہ ضمیر مضاف الیہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی طرف راجع ہوتی ہے نہ کہ کسی اور طرف۔

ضمیر واحد کے استعمال کی دوسری صورت کی مثالیں:

توحید ضمیر کی دوسری صورت میں یہ ضمیر مفرد دونوں مذکور چیزوں کی طرف فردا فردا لوٹتی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ ان میں سے کوئی مرجع تذکیر و تانیث کے اعتبار سے ضمیر مفرد سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔۔۔کلامِ عرب۔۔۔اور کلام اللہ میں اس کی بھی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔

کلامِ عرب میں سے اس کی نظیر یہ شعر ہے:

ان شرخ الشباب والشعر الاسود
مالم يعاض كان جنوبا


اس شعر میں "لم يعاض" واحد کا صیغہ ہے۔ تثنیہ کے اعتبار سے "لم يعاضيا" ہونا چاہئے، کیونکہ اس سے قبل دو چیزوں، اٹھتی ہوئی جوانی (شرخ الشباب) اور سیاہ بال (الشعر الاسود) کا ذکر ہے۔ "لم يعاض" میں مضمر ضمیر واحد فردا فردا دونوں مذکورہ چیزوں کی طرف راجع ہوتی ہے۔

دوسری مثال:

دوسری مثال میں کلامِ عرب کا درج ذیل شعر ملاحظہ فرمائیے

نحن بما عندنا وانت بما
عندك راض والرّأى مختلف


اس شعر میں "نحن" (ہم) اور "انت" (تُو) دونوں اسماء ضمیر کی خبر کے طور پر صیغہ واحد کا اسم فاعل "راض" لایا گیا ہے جو "نحن" (ہم) اور "انت" (تُو) دونوں سے فردا فردا وابستہ ہوتا ہے۔

تیسری مثال:

تیسری مثال قرآن کریم سے پیش کی جا رہی ہے۔۔۔قرآن کریم میں اگرچہ اس کی بہت سی مثالیں ہیں لیکن ہم صرف دو مثالوں پراکتفاء کریں گے، پہلی مثال سورہ جمعہ کی یہ آیت ہے:

﴿ وَإِذا رَ‌أَوا تِجـٰرَ‌ةً أَو لَهوًا انفَضّوا إِلَيها...﴿١١﴾... سورةالجمعة

"جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے"

اس آیت میں "تجارت" اور "کھیل" دو چیزوں کا ذکر ہے۔ لیکن ان دونوں کے بعد ("اِلَيْهَا" میں "ھَا" کی ضمیر) مفرد لائی گئی ہے، جو فردا فردا دونوں مذکور چیزوں کی طرف لوٹتی ہے۔ اس ضمیر کی تانیث میں مرجع بعید کا لحاظ رکھا گیا ہے جو "تجارت" ہے۔

چوتھی مثال:

اس سلسلے کی چوتھی مثال سورہ توبہ کی درج ذیل آیت ہے:

﴿ وَالَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلا يُنفِقونَها فى سَبيلِ اللَّهِ...﴿٣٤﴾... سورةالتوبة

"اور جو لوگ سونے اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔۔۔"

اس آیت میں بھی دو چیزوں کا ذکر ہے "الذَّهَبَ " (سونا) اور "الفِضَّةَ " (چاندی) اس کے بعد " يُنفِقونَها" میں ضمیر مفعول (ھَا) کو مفرد لایا گیا ہے۔ یہ ضمیر بھی فردا فردا دونوں چیزوں (سونا اور چاندی) کی طرف راجع ہوتی ہے۔ اس آیت میں ضمیر کی تانیث میں مرجع قریب "الفِضَّةَ" کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ جب کہ سورہ جمعہ والی آیت میں مرجع بعید کا لحاظ رکھا گیا ہے۔۔ ان دونوں آیات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ضمیر کے دونوں مراجع میں سے ایک مرجع (خواہ وہ قریب ہو یا بعید کا) تذکیر و تانیث کے اعتبار سے اگر ضمیر کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا تو اس میں بھی مضائقہ نہیں ہے۔ اب دیکھیے سورہ جمعہ کی آیت میں "لهو" مذکر ہے جب کہ "اِلَيْهَا" میں ضمیر مجرور مؤنث واقع ہوئی ہے اور یہاں "الذَّهَبَ" اگرچہ مذکور ہے لیکن "يُنْفِقُونَهاَ" میں واقع ضمیر مفعول مؤنث ہے۔

الغرض، بانی طلوع اسلام اور مدیر موصوف کا یہ نظریہ قطعی غلط ہے کہ دو اشیاء (یا دو ہستیوں) کے ذکر کے بعد اگر ضمیر واحد لائی جائے تو اس کا مرجع خارج سے درآمد کر لیا جائے، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ مدیر موصوف ان دونوں آیات (التوبۃ: 24 اور :11) میں اپنی "نکتہ رسی" کی بنیاد پر کون سا خارجی مرجع درآمد کرتے ہیں۔

مدیرِ موصوف جواب دیں:

میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں پرویز صاحب کے موقف کی لغویت واضح کرنے کے لیے مدیر موصوف سے چار سوالات کئے تھے، تاکہ اپنے نقطہ نظر کی روشنی میں ان کا جواب دیں۔ لیکن مدیر موصوف نے ان کا جواب دینا تو درکنار۔ ان کا ذکر تک نہ کیا، کہ کہیں طلوعِ اسلام کے قارئین پر اس نظرئیے کی لغویت واضح نہ ہو جائے، یہ محض چار سوال ہی نہ تھے ان کے نقطہ نظر کی غلطی پر محکم دلائل بھی تھے۔ میں انہیں مدیر موصوف کے سامنے دربارہ پیش کئے دیتا ہوں تاکہ اگر تب نہیں تو اب بھی ان کا سامنا کریں۔

پہلا سوال:

اللہ اور رسول کی اطاعت سے مراد اگر نظامِ اسلامی کے مرکز کی اطاعت مراد لی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نظامِ اسلامی ہ نوز قائم ہی نہ ہو تو اس وقت "اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم" کی اطاعت کا کیا مفہوم تھا؟ مثلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برپا کی ہوئی تحریک کے نتیجہ میں اسلام نظام کا قیام تو پرویز صاحب کے نزدیک مدنی دور میں ہوا تھا۔ وہ خود رقم طراز ہیں:

"فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کی حقیقی حکومت کی بنیاد پڑتی ہے۔" (معارف القرآن ج4 ص 568)

"ہجرت کے بعد اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی گئی وہ آہستہ آہستہ مستحکم بھی ہوتی گی ۔۔۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے ابتدائی آٹھ سال میں صورت یہ تھی کہ اسلامی مملکت قائم تھی۔" (تفسیر مطالب الفرقان ج6 ص 129)

اب سوال یہ ہے کہ اگر "نظامِ اسلامی" یا "اسلامی حکومت" کا قیام، فتح مکہ کے بعد ہوتا ہے یا ہجرت کے فورا بعد ہی ہو جاتا ہے تو آخر مکی دور میں نازل ہونے والی ان آیات کا کیا مفہوم ہو گا جن میں "اللہ اور رسول" کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے؟ کیونکہ اطاعتِ خدا و رسول کا حکم تو مکی دور میں بھی لازم تھا اور مدنی دور میں بھی۔۔۔مدنی دور میں "اللہ اور رسول" سے مراد اگر "نظامِ اسلامی" لیا جائے تو مکی دور میں اس نظام کا موجود نہ ہونا کیا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس وقت "اللہ اور رسول" کا وجود ہی نہ تھا اور لوگوں کو خواہ مخواہ "اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم" کی نافرمانی پر جہنم کی وعید سنائی گئی؟

دوسرا سوال:

عہد نبوی اور خلافتِ راشدہ میں وسیع و عریض دنیا پر پھیلی ہوئی مملکت بہرحال ایک مرکز کے ماتحت تھی۔ آج عالمِ اسلام انتشار کا شکار ہے اور مسلمان سلطنتیں بیسیوں مراکز میں بٹ چکی ہیں۔ اب کیا ہم ہر مسلم سلطنت کے لیے جدا جدا "اللہ اور رسول" تسلیم کریں یا ان سب کے لیے ایک ہی "اللہ اور رسول" کو تسلیم کریں؟ ۔۔۔کیا یہ سب "اللہ اور رسول" اپنی جگہ خود معیارِ حق ہوں گے یا ان سے بالاتر بھی کوئی "اللہ اور رسول" ہو گا، جس کے سامنے بصورتِ نزاع باقی سب "اللہ اور رسول" سرجھکا دیں گے؟ ۔۔۔کیا آپ پوری ملتِ اسلامیہ کو ایک ہی "اللہ اور رسول" کے تابع رکھیں گے یا جملہ ممالک کے لیے متعدد اور متفق "خداؤں اور رسولوں" کا وجود مانیں گے؟ ۔۔اگر آپ ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک ہی "اللہ اور رسول" کی تابعداری میں رکھنا چاہیں گے تو آیا اس مقصد کے لیے آپ تلوار سونت کر میدانِ حرب و قتال میں آئیں گے تاکہ ایک "اللہ اور رسول" کے سوا باقی تمام "اللہ اور رسول" (مرکزِ ملت) "فنا کے گھاٹ اتر جائیں؟ یا آپ الیکشن کے ذریعہ کسی ایک "اللہ اور رسول" کو منتخب کر لیں گے؟ ۔۔۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پرویز صاحب اپنی زندگی میں ہی ان الجھنوں کو حل کر جاتے یا اب ادارہ طلوعِ اسلام ہی اس فریضہ کو انجام دے ڈالے۔

تیسرا سوال:

نظامِ اسلامی کے مرکز کو "اللہ اوررسول" قرار دینے سے ایسی بدترین آمریت پیدا ہو جاتی ہے جس کا تصور تک فرعون، نمرود ، ہلاکو خاں، ہٹلر اور مسولینی کو بھی نہ سوجھا تھا۔ پرویز صاحب ساری عمر عیسائیت اور یہودیت کی مذہبی پیشوائیت کو اسلام کے کھاتے میں ڈال کر یہ تاثر اچھالتے رہے ہیں کہ مسلمانوں میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا اور علمائے امت اپنے فیصلے کو اپنا فیصلہ قرار نہیں دیتے تھے، بلکہ اسے "خدا اور رسول" کا فیصلہ قرار دیتے تھے۔ اس لیے کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس سے سرتابی کر سکے۔ عوام کا بے پناہ ہجوم (خدا اور رسول) کے نام پر مٹنے کے لیے ان کے ساتھ ہونا تھا اس سے ایسی تھیا کریسی وجود میں آ گئی جس کی مثال نہیں ملتی۔ (مخلص از مطالب الفرقان ج4 ص 342)

تھیاکریسی کی اس تصویر کے مطابق بھی، جو پرویز صاحب کے موٹے قلم سے تیار ہوئی ہے بات یوں بنتی ہے کہ ۔۔۔ علماء کرام اپنے فیصلے کو اپنا یصلہ قررا نہیں دیتے تھے، بلکہ اسے خدا و رسول کا فیصلہ کہہ کر صادر کرتے تھے" ۔۔۔ لیکن خود پرویز صاحب نے جس تھیاکریسی کو جنم دیا ہے، اس میں خود مرکزِ ملت ہی "اللہ اور رسول" بن جاتا ہے، اب اگر کوئی شخص "مرکزِ ملت" کی غلطی پر ٹوکتے ہوئے اسے یہ کہے کہ ۔۔ "آپ کا یہ اقدام غلط ہے، خدا اور رسول کا حکم یہ ہے اور آپ یہ کر رہے ہیں۔۔۔ تو "مرکزِ ملت" پلٹ کر جواب دے گا کہ ۔۔۔ "کہ آپ کس خدا و رسول کی بات کر رہے ہیں؟ خدا و رسول کا تو معنی ہوتا ہے مرکزِ نظامِ اسلامی۔ وہ "مرکزِ ملت" ہونے کی بناء پر اپنے زمانے میں "خدا و رسول" تھے تو ہم اپنے زمانے کے "مرکزِ ملت" ہونے کی بناء پر "خدا و رسول" ہیں۔ ہم گزشتہ زمانوں کے "خدا و رسول" کے فیصلوں کے پابند نہیں ہیں" ۔۔۔ اس طرح پرویز صاحب کے مرکز ملت کا یہ تسور، جسے وہ برا معرکۃ الآراء تصور سمجھتے ہوئے پیش کرتے رہے ہیں "خدا و رسول" کے نام کو اپنے لیے مخصوص کرتے ہوئے اور " خدا و رسول" کے منصب پر براجمان ہوتے ہوئے وہ کچھ کرے گا جس کی مژال دنیا کی کسی تھیاکریسی میں نہیں ملتی۔۔۔یقینا وہ شخص بڑا ظالم ہے جو خدا و رسول کا نام لے کر اپنا حکم چلاتا ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر ظالم وہ شخص ہے جو "مرکزِ ملت" کی خود ساختہ اصطلاح کی آڑ میں خود "خدا و رسول" بن بیٹھتا ہے اور اپنا حکم چلاتا ہے۔

چوتھا سوال:

"اللہ اور رسول" سے "مرکزِ ملت" مراد لینے کی غلطی اس امر سے بھی واضح ہے کہ اس معنیٰ میں حکومت کی اطاعت کی طرف تو دعوت دی جا سکتی ہے مگر "مرکزِ ملت" پر ایمان لانے کی دعوت ایک بعید از کار سی بات ہے۔

جب کہ قرآن فرماتا ہے:

﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا ءامِنوا بِاللَّهِ وَرَ‌سولِهِ...﴿١٣٦﴾... سورةالنساء

"اے ایمان والو، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لاؤ۔"

﴿ وَلَو كانوا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِىِّ...﴿٨١﴾... سورةالمائدة

"اگر وہ لوگ اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان رکھتے تو۔۔"

﴿ وَإِذ أَوحَيتُ إِلَى الحَوارِ‌يّـۧنَ أَن ءامِنوا بى وَبِرَ‌سولى...﴿١١١﴾...سورة المائدة

"جب میں نے حواریوں کو وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ"

﴿ فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَ‌سولِهِ النَّبِىِّ...﴿١٥٨﴾... سورةالاعراف

"پس تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔"

﴿ إِنَّمَا المُؤمِنونَ الَّذينَ ءامَنوا بِاللَّهِ وَرَ‌سولِهِ ثُمَّ لَم يَر‌تابوا...﴿١٥﴾... سورةالحجرات

"بے شک اہل ایمان تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لائیں۔"

یہ وہ آیات ہیں کہ جن میں پرویز صاحب اپنی انتہائی کوشش کے باوجود "مرکزِ ملت" کا معنی نہیں کھپا سکتے۔

علاوہ ازیں اگر "اللہ اور رسول" پر ایمان کا معنی "مرکزِ ملت" پر ایمان لانا سمجھا جائے تو ایمانیات کی تعداد چار رہ جاتی ہے: (1) مرکزِ ملت (2) کتاب پر ایمان (3) فرشتوں پر ایمان (4) آخرت پر ایمان۔

اب اگر طلوعِ اسلام یہ کہتا ہے کہ جن آیات میں ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کا ذکر ہے ان میں "اللہ اور رسول" سے مراد "مرکزِ ملت" نہیں ہے بلکہ ہستی باری تعالیٰ اور ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی مراد ہے، لیکن جن آیات میں خدا و رسول کی اطاعت وغیرہ کا ذکر ہے وہاں اس سے مراد "مرکزِ ملت" ہے، تو ہم نہیں جانتے کہ طلوعِ اسلام کے پاس اس ثنویت کی قرآنی دلیل کیا ہے؟

مدیر موصوف کا بے جا اعتراض:

اپنے مضمون میں مدیر طلوع اسلام ایک مقام پر لکھتے ہیں۔

"حیرت کی بات یہ ہے کہ سورۃ النساء کی آیت 59 کے یہ معانی صرف پرویز صاحب نے ہی بیان نہیں کئے2 بلکہ جدید قدیم تمام مفسرین نے بیان کئے ہیں۔ اس سلسلے میں، پرویز صاحب نے اسی آیت کی تفسیر کے حاشیے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کا بھی ایسا ہی مسلک ان الفاظ میں نقل کیا ہے:

'زمین سے مراد یہاں وہ ملک یا علاقہ ہے جس میں امن و امان قائم کرنے کی ذمہ داری اسلامی حکومت نے لے رکھی ہو اور خدا اور رسول سے لڑنے کا مطلب اس نظام صالح کے خلاف جنگ کرنا ہے جو اسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو۔ (تفہیم القرآن ج1 ص 465)

اہل حدیث علماء نے جس آیت کی تفسیر کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسی آیت کے نیچے مودودی صاحب کی تفسیر کا ایہ اقتباس بھی دیا گیا ہے۔۔۔لیکن ان صالح حضرات نے پرویز صاحب پر تو کیچڑ اچھالا ہے لیکن مودودی صاحب کا نام تک نہیں لیا۔ کیا یہ اہل حدیث اخلاقیات کا حصہ ہے۔ (طلوعِ اسلام اگست 1988ء ص 48)

ڈاکٹر عبدالودود، مودودی اور پرویز:

ہاں! یہ بات درست ہے کہ میں نے اپنے سابقہ مضمون میں مودودی صاحب کا نام تک نہ لیا تھا، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مودودی صاحب کی زندگی ہی میں آپ کے ادارہ طلوعِ اسلام سے وابستہ ایک ممتاز فرد جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب نے ان کی (پوری عبارت نقل کرنے کی بجائے) 3ادھوری عبارت پیش کر کے بعینہ یہی استفسار کیا تھا جو آج طلوعِ اسلام کر رہا ہے۔ مودودی صاحب نے اس کا جو جواب دیا تھا اس سے اس مغالطہ کی قلعی کھل جاتی ہے جو طلوعِ اسلام سے وابستہ حضرات، مودودی صاحب کے ادھورے اقتباس کی آڑ میں دیا کرتے ہیں۔ اس لیے ہم ڈاکٹر عبدالودود صاحب کا اعتراض اور پھر مودودی صاحب کا جواب ان کے اپنے قلم سے پیش کئے دیتے ہیں تاکہ قارئین کرام اصل حقیقت سے آگاہ ہو جائیں۔

ڈاکٹر عبدالودود صاحب نے مودودی صاحب کو اپنے آخری خط میں لکھا تھا:

"یہ جو میں نے کہا ہے کہ "خدا و رسول" سے مراد "اسلامی نظام ہے، تو یہ میری اختراع نہیں، اس کے مجرم آپ بھی ہیں۔ آپ نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں سورہ مائدہ کی آیت ۔۔۔"﴿إِنَّما جَز‌ٰؤُا۟ الَّذينَ يُحارِ‌بونَ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ﴾۔۔۔" کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا ۔۔۔ "اللہ اور رسول سے لڑنے کا مطلب اس صالح نظام کے خلاف جنگ کرنا ہے جو اسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو۔ ایسا نظام جب کسی سرزمین میں قائل ہو جاتا ہے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا دراصل خدا اور اس کے رسول کے خلاف جنگ ہے۔۔۔

ذرا غور فرمائیے، اگر میں "خدا و رسول" سے مراد، اسلامی حکومت لوں تو ہدفِ طعن و تشنیع بن جاؤں اور اس سے آپ وہی مراد لیں تو مفسرِ قرآن کہلائیں۔" (بحوالہ ترجمان القرآن، منصبِ رسالت نمبر 171)

اس وقت مودودی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے جواب میں لکھا تھا:

"یہاں پھر ڈاکٹر صاحب نے میری سامنے میری ہی عبارت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اصل عبارت یہ ہے۔۔۔۔

"ایسا نظام جب کسی سرزمین پر قائم ہو جائے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا، قطع نظر اس کے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر قتل و غارت اور رہزنی و ڈکیتی کی ھد تک ہو یا بڑے پیمانے پر اس صالح نطام کو الٹنے اور اس کی جگہ کوئی فاسد نظام قائم کر دینے کے لیے ہو، دراصل خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلا جنگ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیراتِ ہند میں، ہر اُس شخص کو جو برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے بادشاہ کے خلا لڑائی کا مجرم قرار دیا گیا ہے، چاہے اس کی یہ کاروائی ملک کے کسی دور دراز گوشے میں ایک معمولی سپاہی ہی کے خلاف کیوں نہ ہو اور بادشاہ اس کی دسترس سے کتنا ہی دور ہو۔۔۔

تفہیم القرآن سے خود اپنا اقتباس پیش کرنے کے بعد مودودی صاحب نے لکھا تھا:

"اب ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی خود دیکھ سکتا ہے کہ بادشاہ کی نمائندگی کرنے والے سپاہی کے خلاف جنگ کو بادشاہ کے خلاف جنگ قرار دینے اور سپاہی کو خود بادشاہ قرار دینے میں کتنا بڑا فرق ہے؟ ایسا عظیم فرق ان دو باتوں میں ہے کہ ایک شخص اللہ اور رسول کے نظامِ مطلوب کو چلانے والی حکومت کے خلاف کاروائی کو اللہ اور رسول کے خلاف کاروائی قرار دے اور دوسرا شخص یہ دعویٰ کرے کہ یہ حکومت خود "اللہ اور رسول" ہے۔ اس فرق کی نزاکت پوری طرح سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک آپ ان دونوں کے نتائج پر تھوڑا سا غور نہ کر لیں۔ فرض کیجئے کہ اسلامی حکومت کس وقت ایک غلط حکم دے بیٹھتی ہے جو قرآن و سنت کے خلاف پڑتا ہے۔ اس صورت حال میں میری تعبیر کے مطابق تو عام مسلمانوں کو اٹھ کر یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ۔۔ "آپ اپنا حکم واپس لیجیے کیونکہ آپ نے اللہ اور رسول کے فرمان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اللہ نے قرآن میں یہ فرمایا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ ثابت ہے اور آپ اس سے ہٹ کر یہ حکم دے رہے ہیں لہذا آپ اس معاملہ میں اللہ اور رسول کی صحیح نمائندگی نہیں کرتے"۔۔۔ مگر منکرین حدیث کی تعبیر کے مطابق اسلامی حکومت خود ہی اللہ اور رسول ہے۔ لہذا مسلمان اس کے کسی حکم کے خلاف یہ استدلال لانے کا حق نہیں رکھتے۔ جس وقت وہ یہ استدلال کریں گے اس وقت حکومت یہ کہہ کر ان کا مند بند کر دے گی کہ ۔۔۔ اللہ اور رسول ہم خود ہیں جو کچھ ہم کہیں اور کریں، وہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی" (ترجمان القرآن، منصبِ رسالت نمبر ص 171-172)

یہ ہے وہ بنیادی فرق جو اسلامی نظام کے امیر و امام اور طلوعِ اسلام کے "مرکزِ ملت" میں پایا جاتا ہے اور جسے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے پورے اقتباس اور پھر ان کی اپنی وضاحت نے خوب نمایاں کر دیا ہے۔ اور پھر داد دیجئے پرویز صاحب کو، اور ان کے ادارے سے وابستہ دیگر حضرات کو، جو ستمبر 1961ء میں مودودی صاحب کی طرف سے کی گئی اس وضاحت کے بعد بھی اب تک ان کے ادھورے اقتباس کو توڑ مروڑ کر اپنے باطل موقف کے حق میں استعمال کرتے چلے جا رہے ہیں (یاد رہے کہ پرویز صاحب نے آیت (النساء: 59) کی تفسیر کے تحت حاشیہ میں ادھورا اقتباس نقل کیا ہے، حالانکہ یہ تفسیر (مطالب الفرقان جلد چہارم) پہلی مرتبہ نومبر 1981ء میں شائع ہوئی، یعنی مودودی صاحب کی وضاحت کے اکیس سال دو ماہ بعد۔

طلوع اسلام اور بٹائی کا مسئلہ:

اپنے مضمون کے آخر میں، مدیر طلوعِ اسلام نے فرمایا ہے کہ:

"اگر یہ حضرات، اسلامی علوم کے بارے میں تحقیق کے سلسلہ میں مخلص ہیں اور ہم کئی دفعہ ان کی توجہ ملک و ملت کو درپیش اہم ترین مسئلہ کی طرف دلا چکے ہیں، جن کی وجہ سے کروڑوں اہل وطن کی زندگیاں ان کے لیے عذاب بن چکی ہیں اور وہ ہے غیر حاضر زمینداری یعنی بٹائی کا معاملہ کہ جسے رسول اللہ نے اپنی زبانِ مبارک سے سود قرار دیا تھا، لیکن یہ حضرات ہمارے بار بار توجہ دلانے پر بھی اس سے دانستہ چشم پوشی اس لیے کرتے ہیں کہ (شاید) ان مسائل سے تحقیق کرنے سے ان کے مالی مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ نے زمین کی بٹائی کے جس 4معاملے کو خالص سود قرار دیا تھا، آج جدید معاشیات کی علمی تحقیقی کے ذریعے بھی اس کی سچائی ثابت ہو چکی ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی سچی احادیث کہ، جن سے کروڑوں اہلِ وطن کو فائدہ پہنچتا ہو۔ ان کا بغیر کسی دلیل کے انکار کر دیتے ہیں ۔۔۔ حالانکہ پرویز صاحب بھی بٹائی کے سود ہونے کے بارے میں مذکورہ بالا احادیث کو صحیح تسلیم کرتے تھے، کیونکہ وہ قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔" (طلوعِ اسلام اگست 1988ء ص 51)

پرویز صاحب، بہرحال، ایک ذہین شخص تھے۔ وہ پہلے اپنی طرف سے ایک مفہوم کھڑ کے قرآن کے سر تھوپ دیتے تھے، پھر اس خود ساختہ مفہوم کو معیار مان کر یہ فیصلہ کیا کرتے تھے کہ کون سی حدیث ( مطابق قرآن ہونے کی بناء پر) صحیح ہے اور کون سی غلط ہے؟ پھر چونکہ انسانی خیالات اور بشری افکار وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں، اس لیے پرویز صاحب کی قرآنی تشریحات بھی ساری عمر تغیر و تبدل کا شکار رہی ہیں، پرویز صاحب کے فضائے دماغی میں ایک لہر اٹھی تو بٹائی کا ہی معاملہ جائز قرار پا گیا۔ چنانچہ خود انہوں نے کہا:

"یہودیوں کی درخواست پر زمین ان کے قبضہ میں رہنے دی گئی اور نصف بٹائی پر ان سے معاملہ طے ہوا۔ جب تقسیم پیداوار کا وقت آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحابی کو بھیج دیتے وہ پیداوار کے دو حصے کر کے یہود سے کہتے "جونسا حصہ تم چاہتے ہو لے لو۔" یہود اس عدل پر متحیر ہوتے اور کہتے کہ "زمین و آاسمان اسی عدل سے قائم ہیں۔" (معارف القرآن، پرویز جلد چہارم ص؟)

لیکن جب مارکزم کا جادو ان کے سر پر چڑھ کر بولنے لگا، اور ان کے قلب و ذہن " ﴿صِبغَةَ اللَّهِ﴾" کی بجائے اشتراکیت کے رنگ میں مصبوغ ہوئے، تو ساون کے اندھے کی طرح جسے ہر طرف ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔ انہیں اشتراکیت اور قرآن کا معاشی نظام ایک سا نظر آنے لگا، اور وہ پکار اٹھے کہ:

"جہاں تک کمیونزم کے معاشی نظام کا تعلق ہے، وہ قرآن کریم کے تجویز کردہ معاشی نظام کے مماثل ہے۔" (نظامِ ربوبیت ص 358)

اب ان کے فضائے دماغی میں ایک دوسری لہر اٹھی، جس کے تحت، انہیں خیبر کی بٹائی کے معاملے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا فعل خلافِ قرآن نظر آنے لگا۔ اور وہ احادیث، جن میں ایک مخصوص نوعیت کی بٹائی کو ناجائز قرار دیا گیا تھا، انہیں مطلق بٹائی کے حق میں ناجائز قرار دے کر قبول کر لیا گیا۔ کیونکہ اب یہ احادیث، پرویز صاحب کی قرآنی بصیرت کی روشنی میں قرآن اور جدید معاشی نظریات کے مطابق درست قرار پاگئی ہیں۔

پرویز صاحب، اپنی عمر بھر کی قرآنی تحقیق کا ذکر اپنی تصانیف میں اکثر کیا کرتے تھے، اس قرآنی تحقیق کا خلاصہ اور لبِ لباب یہ ہے کہ وہ ساری عمر قرآن کریم کو اپنی بدلتی ہوئی آراء کا تختہ مشق بناتے رہے ہیں۔ اور جس طرح زمانہ سال بہ سال، ٹکے کی جنتری کو بدل کر بلکہ بیکار کر کے آگے بڑھ جاتا ہے، بالکل اسی طرح پرویز صاحب مختلف سن و سال میں اپنے سابقہ قرآنی مفاہیم کو بدل کر آگے بڑھتے رہے ہیں۔ اس کی پوری تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب "ایک خواب کئی تعبیریں " جس میں اُن صد ہا آیات کو جمع کر دیا گیا ہے۔ جن کے مختلف سن و سال میں پرویز صاحب نے کئی بدلتے ہوئے مفاہیم پیش کئے ہیں۔

مدیر موصوف توجہ فرمائیں:

اپنے مضمون کو ختم کرنے سے قبل، میں مدیر موصوف کی توجہ دو باتوں کی طرف مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں۔

1۔ کسی کے نقطہ نظر سے دلیل و حجت کے ساتھ اختلاف کرنا، اس پر کیچڑ اچھالنے کا ہم معنیٰ نہیں ہوتا۔ آپ نے جگہ جگہ یہ ذکر کیا ہے کہ میں نے پرویز صاحب پر کیچڑ اُچھالا ہے۔ آپ کی یہ بات صرف اس صورت میں مبنی پر صداقت قرار پا سکتی ہے جب کہ میں نے پرویز صاحب کے ذاتی عیوب و نقائص اور شخصی خامیوں اور برائیوں پر بحث کی ہوتی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ میرا قلم بفضلہ تعالیٰ اس سے آلودہ نہیں ہوا، جب کہ آپ نے جو اندازِ بیان اختیار فرمایا ہے، اسے ممکن ہے کہ آپ واقعی اپنے شایان سمجھتے ہوں، لیکن کم از کم میں ان لوگوں کو جو بزعمِخویش قرآنی تعلیمات کو عام کرنے اور قرآنی اخلاق و آداب کی حکمرانی قائم کرنے کے دعویدار بن کر اٹھے ہوں، ایسے دنائیت پسند اسلوب گفتگو سے بالاتر سمجھتا تھا۔ آپ کےایسے ہی اندازِ نگارش کے متعلق ایک مرتبہ مولانا مودودی نے لکھا تھا:

"یہ منکرین حدیث جہل مرکب میں مبتلا ہیں۔ جس چیز کو نہیں جانتے اسے جاننے والوں سے پوچھنے کی بجائے عالم بن کر فیصلے صادر کرتے ہیں اور پھر انہیں شائع کر کے عوام کو گمراہ شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی گمراہ کن تحریریں اکثر ہماری نظر سے گزرتی رہتی ہیں اور ان کا کوئی اعتراض ایسا نہیں ہے جس کو دلائل سے رد نہ کیا جا سکتا ہو۔ لیکن جس وجہ سے مجبورا خاموشی اختیار کرتی پڑتی ہے، وہ دراصل یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی بحث میں بالعموم بازاری غنڈوں کا سا طرز اختیار کرتے ہیں۔ ان کے مضامین پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی شخص ایک غلاظت بھری جھاڑ ولئے کھڑا ہو اور زبان کھولنے کے ساتھ ہی مخاطب کے منہ پر اس جھاڑو کا ایک ہاتھ رسید کر دے ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کے منہ لگنا کسی شریف آدمی کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ اس قماش کے لوگ اس لائق سمجھے جا سکتے ہیں کہ ان سے کوئی علمی بحث کی جائے۔" (رسائل و مسائل جلد دوم ص 54)

اب اگر مدیر طلوعِ اسلام اور اس ادارے سے وابستہ دیگر افراد اپنے بارے میں مولانا مودودی کے ان تاثرات ہی کو صحیح ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو انہیں ان کی یہ روش مبارک ہو۔ میری طرف سے ان شاءاللہ ان کے اوچھے انداز گفتگو کے جواب میں ہمیشہ اچھا اندازِ تحریر ہی اختیار کیا جائے گا، میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ مدیر طلوع اسلام کی بدزبانی کے رد عمل میں، میں خود اپنے اخلاقی مقام سے گر کر ان کی سطح پر آ جاؤں یا محض اس وریدہ دینی سے خائف ہو کر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کی روش ترک کر دوں۔

2۔ مدیر طلوعِ اسلام سے میری دوسری گزارش یہ ہے کہ آپ کم از کم اتنی کشادہ، قلبی، وسعت نظری، اور فراخدلی کا تو مظاہرہ فرما دیں جس قدر مدیرِ محدث نے فرمایا ہے، کہ آپ کے فکری سے وابستہ ایک شخص مسمی سید محمد رضا شاہ ( 44 راوی بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور) نے "۔۔۔نابالغ لڑکے اور لڑکی کا نکاح" ۔۔۔کے زیرِ عنوان، ایک تفصیلی مضمون بصورتِ خط اس درخواست کے ساتھ ادارہ محدث کو بھیجا کہ وہ شائع کر کے اس کا جواب بھی مرحمت فرما دیں۔ چنانچہ مدیرِ محدث نے فراخدلی سے اس کو ماہنامہ محدث (جلد 17 عدد 6) میں شائع بھی کیا اور ساتھ ہی مولانا عبدالرحمان کیلانی (جزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء) کے قلم سے لکھا ہوا جواب بھی شائع کیا۔ کیا آپ بھی اسی قدر عالی ظرفی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ فرماتے ہوئے میرا یہ مضمون طلوع اسلام میں شائع فرما دیں گے؟ ۔۔۔ یہ ملک اہل علم سے خالی نہیں ہے۔ آپ کے قارئین خود میرا، آپ کا، اور پرویز صاحب کے قلم سے لکھا ہو پورا مضمون پڑھ کر خود اندازہ لگا لیں گے کہ کس کا مؤقف قوی ہے اور کس کا موقف کمزور ہے؟ نیز یہ کہ عبارتوں کو پیش کرنے میں کون بددیانت واقع ہوا ہے اور کون دیانتدار؟ نیز یہ بھی کہ کس کا اسلوبِ نگارش اوچھا ہے اور کس کا اچھا ہے؟


حاشیہ

1. مدیرِ موصوف کو شاید علم نہیں کہ یہ عربی قاعدہ جس کا وہ ذکر فرما رہے ہیں، ہر جگہ اور ہر صورت کے لیے نہیں ہے۔ بعض اوقات دو چیزوں کے لیے واحد کی ضمیر یا مفرد کا صیغہ بھی آجاتا ہے۔ مثالیں آگے آ رہی ہیں۔

 پھر نہ معلوم آپ نے۔۔۔خالق ± مخلوق۔۔۔مخلوق۔۔۔اور۔۔۔پیغام دینے والا± پیغام پہنچانے والا۔۔۔مرکزِملت کی مساوات کیسے برآمد کر لی؟ حالانکہ خالق اور مخلوق ایک نہیں ہو سکتے۔

2. سورہ نساء، آیت 59 کے یہ معنی قدیم و جدید مفسرین میں سے کسی ایک نے بھی بیان نہیں کئے ہیں۔ یہ ایک قطعی خلاف حقیقت بات ہے۔ خود طلوعِ اسلام نے مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ ، امام رازی، سیوطی رحمۃ اللہ علیہ، بغوی اور بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جو عبارتیں درج کی ہیں ان میں سے ایک بھی عبارت سورہ نساء آیت 59 سے متعلق نہیں ہے۔ پھر ان عبارتوں کو بھی اصل سیاق و سباق سے کاٹ کر (ایک غلط موقع و محل میں) توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، جیسا کہ آگے چل کر مودودی صاحب کی عبارت کے سلسلہ میں واضح کیا گیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایسا کرتے وقت، خوفِ خدا اور آخرت میں جواب دہی کا احساس مدیر طلوعِ اسلام کے قریب بھی نہیں پھٹکا ہو گا۔

3. یاد رہے کہ جس طرح ڈاکٹر عبدالودود صاحب نے اس وقت ادھوری عبارت نقل کی تھی، اسی طرح آج مدیرِ طلوع اسلام نے بھی "تفقہیم القرآن" سے ادھورا اقتباس پیش کیا۔ اور "مفکرینِ قرآن" صاحب نے بھی خوفِ خدا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سورہ نساء آیت 59 کی تفسیر میں ادھوری عبارت ہی درج کی ہے۔۔۔دوسروں کو "بددیانتی" کا الزام دینے والوں کے نزدیک شاید دیانتداری کا یہی مفہوم ہے۔

4. "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کی بٹائی کے جس معاملے کو خالص سود قرار دیا تھا"۔۔مدیر موصوف کے بہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ زمین کی بٹائی کا وہ ایک خاص معمالہ تھا، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود قرار دیا تھا۔ اور یہی حقیقت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق بٹائی کو نہیں، بلکہ اس کی ایک مخصوص صورت کو ناجائز بلکہ سود تک قرار دیا تھا۔

یہ کتاب زیرِ طبع ہے، عنقریب منظرِ عام پر آ رہی ہے۔ ان شاءاللہ