آبی سیلاب اور جمہوری سیلاب

﴿ أَلَيسَ مِنكُم رَ‌جُلٌ رَ‌شيدٌ﴾


ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے لئے 16 نومبر سئہ 1988ء کی تاریخ مقرر ہوئی ہے۔۔۔لیلائے اقتدار کے پرستار لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اُتر چکے ہیں اور ایک دوسرے کو نہ صرف دعوتِ مبارزت دے رہے ہیں، بلکہ کہیں کہیں باقاعدہ کشتیوں، ہاتھا پائی، توڑ پھوڑ اورفائرنگ وغیرہ کی خبریں بھی پڑھنے سننے میں آئی ہیں۔۔۔اس صورتِ حالات پر، اور تو اور رہے، خود "نوائے وقت" ایسے پرچارکِ جمہوریت کو بھی کار پردازانِ جمہوریت سے طویل گلہ شکوہ لاحق ہوا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی 14 ستمبر کی اشاعت کے ادارتی کالموں میں "مسلم لیگ آپس میں تو اتحاد کرے" کے عنوان کے تحت، جہاں ملک کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے مابین انتخابی اتحاد کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھا ہے، وہاں مسلم لیگ کے باہمی انتشار کو مضحکہ خیز، افسوناک کاروائی، عام آدمی کے لیے حیران کن اور مسلم لیگ کے رویہ کو اس کی بدقسمتی نیز سیاسی خودکشی کے مترادف قرار دیتے ہوئے اُسے آپس میں اتحاد و اتفاق کی نصیحت بھی فرمائی ہے۔۔۔اور آخر میں یہ لکھا ہے کہ:

"مسلم لیگ کو آج کے حالات کی روشنی میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔ اگر اس کے راہنما اپنی انا کے خول سے باہر رہ کر مشترکہ جدوجہد کریں تو یہ کردار جمہوریت کے استحکام کا باعث ہو گا اور اگر موجودہ خلفشار اور "میں نہ مانوں" کی پالیسی جاری رہی تو یہ کردار جمہوریت کی بحالی میں رکاوٹ ثابت ہو گا"

ہم حیران ہیں کہ جمہوریت تو نام ہی "میں نہ مانوں" اور "باہمی انتشار و خلفشار" کا ہے۔۔۔امتِ مسلمہ اگر سیاسی فرقوں میں بٹے گی، باہم جو تم پیزار ہو گی، تو یہی جمہوریت کی بحالی ہے۔۔۔آپس میں دست و گریباں ہونے والے یہ سیاسی فرقے جس قدر زیادہ ہوں گے، جمہوریت اس قدر مستحکم ہو گی۔ جبکہ اتفاق و اتحاد اور امتِ مسلمہ کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جانا ہی جمہوریت کے لیے ستمِ قاتل ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ علمبرداران جمہوریت کو اتفاق و اتحاد سے چڑ ہے ۔۔۔ وہ نہ صرف ساسی فرقہ بندی کے قائل ہیں، بلکہ اس مقصد کے حصول کی خاطر دینِ اسلام پر بھی لعن طعن سے باز نہیں آتے۔ چنانچہ "مہاجرین و انصار" ایسے تعارفی ناموں سے اسلام میں سیاسی پارٹیوں کے وجود و جواز کی خبر لاتے اور "اسلامی جمہوریت" ایسی مضحکہ خیز اصطلاحات گھڑ کر جمہوریت کو بھی مسلمان بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔۔۔پھر نہ جانے "نوائے وقت" کو یہ کیا سوجھی ہے کہ اُس نے مسلم لیگ کے باہمی انتشار و خلفشار کو جمہوریت کی بحالی میں رکاوٹ اور اس کے اتحاد و اتفاق کو جمہوریت کے استحکام کا باعث قرار دے دیا ہے؟ ۔۔جمہوری نظام کے لیے اگر سیاسی پارٹیوں کا وجود ضروری ہے، تو جمہوریوں کے لیے تو یہ نیک ال، مقامِ شکر اور محلِ تبریک ہونا چاہئے کہ ملک میں دیگر بے شمار سیاسی پارٹیوں کے علاوہ مسلم لیگ ایک ایسی سیاسی پارٹی بھی ہے، جو مزید کئی دھڑوں میں منقسم ہو کر استحکامِ جمہوریت کا باعث بن رہی ہے۔۔پھر اس کا یہ رویہ بحالی جمہوریت میں رکاوٹ کیونکر بنے گا؟

سنو، اے عقل و خرد اور علم و بصیرت کے دعویدارو، سیاست و حکومت کے رمز آشناؤ۔۔۔کہ اس ملک میں کچھ دیوانے بھی موجود ہیں۔۔جو آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ اگر اُمت کا متفرق ٹکڑوں میں بٹ جانا ہی جمہوری سیاست اور اس "بہترین" نظامِ حکومت کا لازمہ ٹھہرا، تو انتخابات جیتنے کے لیے انتخابی اتحاد قائم کرنے کی کیا تُک ہے؟ ۔۔۔اور اگر یہ انتخابی اتحاد قائم نہ کرنا، بقول آپ ہی کے، عام آدمی کے لیے حیران کن، افسوسناک، بدقسمتی، مضحکہ خیزی اور سیاسی خودکشی ہے، تو سیاسی پارٹیوں کے وجود اور ان کے قیام کی ضرورت کہاں گئی؟بحالی جمہوریت کا وہ مطالبہ و پرچار کیا ہوا؟ اور خود جمہوریت سے بھی کہاں کا انصاف ہے؟

بات اس وقت عقائد و نظریات اور ان کے حق و باطل پر دلائل کی نہیں ہو رہی، حالات و واقعات کی روشنی میں عقل و شعور کو تھوڑی سی زحمت دینے کی ہے، کہ اس ملک کی 41 سالہ تاریخ میں ہم نے کیا دیکھا ہے؟ ۔۔۔ یہی ناکہ ملک میں خدانخواستہ کہیں کوئی حادثہ رونما ہوا، امن و امان کا کوئی مسئلہ اٹھا، بیرونی امداد کا سوال سامنے آیا، یا سرحدوں کے حالات غیر تسلی بخش محسوس ہوئے، تو ہمارے سیاستدانوں، دانشوروں، صحافیوں اور ماہرین، اُمورِ حکومت نے ان تمام مسائل کا ایک ہی حل، ایک ہی علاج تجویز کیا کہ ملک میں جمہوریت بحال کی جائے اور از سرِ نو انتخابات کروا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کیا جائے۔۔۔لیکن انتخابات کا مرحلہ جب بھی آیا، بدامنی، شروفساد، غندہ گردی اور سیاسی دھماچوکڑی کا ایک ایسا سیلاب ہمراہ لایا، جو اپنے ساتھ امن و امان، شرافت و وقار اور انسانی اقدار کے علاوہ متعدد بے گناہوں کو بھی بہا لے گیا۔۔۔پھر یہی سیاستدان چلا اٹھے کہ بے گناہوں کے خون کی یہ ارزانی کب تلک؟ یہی دانشور پکارے کہ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔۔۔یہی صحافی بیک آواز ہوئے کہ امنِ عامہ کی خبر لو۔۔اور یہی جمہوریت پرست ٹسوے بہانے لگے کہ انسانی اقدار و شرافت کی یہ پامالی آخر کس لئے؟

آج پھر انتخابات کا اعلان ہوا ہے، تو ان کے دل کی مرجھائی کلیاں کھل اٹھی ہیں لیکن ابھی تو ریہرسل ہو رہی ہے کہ یہ "مشترکہ جدوجہد" اور "اتحاد و اتفاق" کا وعظ کہنے لگے ہیں۔۔پھر جب اصل کھیل شروع ہو گا، تو نہ جانے ان کے تاثرات کیا ہوں گے؟ ۔۔۔ہاں ایک بات بہرحال طے ہے کہ یہ جمہوریت کے نام کی مالا جپنا کبھی نہیں چھوڑیں گے، اس کے قصیدے پڑھتے ہی چلے جائیں گے، جس کے سبب بیمار ہو، اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے رہیں گے۔۔۔تاہم اُس نظامِ خداوندی کی طرف مُڑ کر بھی نہیں دیکھیں گے کہ جس کا نام "اسلام" ہے، جو دنیا میں بھی سلامتی ہے، آخرت میں بھی سلامتی ہے اور جس کا معنیٰ و مطلب بھی "سلامتی" ہے۔

اس لئے کہ:

﴿ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيطـٰنُ أَعمـٰلَهُم فَصَدَّهُم عَنِ السَّبيلِ فَهُم لا يَهتَدونَ ﴿٢٤﴾... سورة النمل

"شیطان نے اُن کے اعمال ان کے لئے آراستہ کر دکھلائے ہیں، انہیں راہِ (حق یعنی اسلام) سے روک رکھا ہے۔ لہذا وہ (سیدھے) راستے پر آنے والے نہیں۔" فانا لله وانا اليه راجعون

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس وقت ملک کا ایک صوبہ پنجاب تقریبا پورے کا پورا سیلاب کی زد میں ہے۔۔۔اربوں روپے کی املاک اور فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔۔۔سینکڑوں بستیاں ویران ہو چکی، صفحہ ہستی سے مِٹ گئی ہیں۔۔جبکہ ہزاروں مکان پانی میں ڈوبے طوفانِ نوح کا منظر پیش کر رہے ہیں۔۔۔ہزاروں افراد لاپتہ ہیں، کہ اس سائنسی اور ترقی یافتہ دور کی جدید ایجادات و ذرائع بھی یہ تک معلوم کرنے سے قاصر ہیں کہ وہ کہاں ہیں؟ زندہ ہیں یا خدانخواستہ سیلاب کی نذر ہو گئے؟ ۔۔۔لاکھوں افراد ایسے ہیں کہ جو اپنے مکانوں کی چھتوں پر یا درختوں پر بسیرا کئے، بھوکے پیاسے، ہاتھ پھیلائے امداد کے لئے فریادی ہیں۔۔۔ان میں سے بیشتر ایسے ہیں کہ لاکھوں میں کھیلتے تھے اور دنیا کی ہر نعمت انہیں حاصل تھی، لیکن آج اُن کے لئے سر چھپانے کی جگہ نہیں، نانِ جویں کے بھی محتاج ہیں۔۔۔انسانی بے بسی اور بے کسی کا یہ عالم ہے کہ ایک جمِ غفیر کی موجودگی میں کوئی انسان غوطے کھا رہا ہے، ڈوب رہا ہے، زندگی بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے، مدد کے لئے چلا رہا ہے، لیکن چاہنے کے باوجود کوئی بھی اسے بچا لینے پر قادر نہیں۔۔۔رابطے یوں منقطع ہیں کہ اکثر کو اپنے عزیزوں اور لواحقین کی کچھ خبر نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟ ۔۔۔آلاتِ رسل و رسال ناکام ہو گئے، ذرائع آمدورفت بیکار ہو چکے، کمپیوٹر تک فیل ہو گئے ہیں۔۔۔یہ وہ تمام شواہد ہیں جو ہستی باری تعالیٰ، اُسی کی حاکمیت، اُسی کی الوہیت، وصمدیت اور اُسی کے قادرِ مطلق و ملجا و ماویٰ ہونے پر دلالت کناں ہیں۔۔۔ایک مسلمان کو اگرچہ یہ سب کچھ بتلانے کی ضرورت نہیں، تاہم کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جنہیں آج بھی، اس نازک ترین صورتِ حال کے باوجود، خدا یاد آ رہا ہے؟۔۔۔آج بھی جو لوگ سیلاب کی نظروں سے اوجھل ہیں، اُن کی عیاشیوں میں رائی برابر فرق نہیں آیا۔ جبکہ اس کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں میں، اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کرنے والوں کے ساتھ ساتھ، ایسے تماش بینوں کی موجودگی کی اطلاعات بھی ملی ہیں، جو آفت زدگان کے سازوسامان لوٹنے اور ان کی خوراک کے لئے پہنچائی جانے والی دیگیں خود اڑانے میں مصروف ہیں۔۔۔گویا ان کی مظلومیت پر آنسو بہانے اور ان کی حالت زار دیکھ کر عبرت پکڑنے کی بجائے، انہیں سامانِ تفریح سمجھے قہقہے لگا رہے ہوں۔۔۔حالانکہ قرآن مجید نے بتلایا ہے:

﴿ وَلَنُذيقَنَّهُم مِنَ العَذابِ الأَدنىٰ دونَ العَذابِ الأَكبَرِ‌ لَعَلَّهُم يَر‌جِعونَ ﴿٢١﴾... سورةالسجدة

یعنی "قیامت کے بڑے عذاب کے سوا ہم انہیں عذابِ دنیا کا مزہ بھی چھکائیں گے، کہ شاید (اس عذاب کو دیکھ کر ہی ہماری طرف) لوٹ آئیں"

لیکن یہ قوم ان حدود کو بھی پھلانگ گئی ہے۔۔۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ تباہی و بربادی اس کا مقدر بن چکی اور یہ واقعی اب عذاب اکبر کی انتظار میں ہے؟۔۔ایسا کہنے کو اگرچہ جی نہیں چاہتا، لیکن حالات سے صرف نظر کون کرے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ آبی سیلاب اس قوم کے گناہوں کے سیلاب کی پاداش میں ہے؟ جبکہ ہمارے غرقِ عصیاں ہونے کی بڑی وجہ کتاب و سنت کی تعلیمات سے اغماض اور نظامِ اسلام کو اپنا لائحہ عمل بنانے سے انکار ہے، کہ عوام و خواص سبھی اس جرم کے مرتکب ہیں، الا ماشاءاللہ۔۔۔اقتدار کی دیوی کا سوئمبر رچائے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، تو ہر کوئی امیداوار ہے۔ چنانچہ یہ ہوسِ اقتدار ہی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں، خواہ وہ دینی جماعتیں ہیں یا لادین، آج بھی ان کی سوچ صرف اور صرف بحالی جمہوریت ہے اور اسلام کسی کو بھی یاد نہیں، اس کا نام ہی کوئی نہیں لیتا۔۔۔لادین جماعتوں سے ہمیں کوئی گلہ نہیں کہ وہ تو ویسے ہی لادین ہیں، ہمیں شکوہ دینی جماعتوں سے ہے، کہ ان میں کوئی جمیعۃ اہل حدیث ہے، کوئی جمیعۃ علمائے اسلام ہے، کوئی جمیعۃ علمائے پاکستان ہے۔۔لیکن افسوس کہ ان سب کو حدیث، اسلام اور علم سے ہی کوئی واسطہ نہیں، اور ان سب سے بے نیاز یہ جمہوریت کا کلمہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔۔۔ان حالات میں ایک درد مند ذہن یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس ملک میں اسلام کا مستقبل کیا ہو گا؟ بلکہ خود اس ملک اور اس کے رہنے والوں کا بھی مستقبل کیا ہو گا؟ ۔۔۔اسلام اس ملک کی بنیاد ہے اور بنیادیں منہدم ہو جانے کے بعد کوئی احمق ہی عمارت کی سلامتی کا تصور کر سکتا ہے۔۔۔علمائے امت اس قافلہ اسلام کے راہنما ہیں، لیکن جب بیشتر راہنما ہی راہزن بن جائیں تو قافلوں کا لٹ جانا یقینی ہو جایا کرتا ہے۔۔۔چنانچہ یہ راہنمائی نہیں، راہ مارنے والی بات ہی تو ہے کہ ان دینی جماعتوں کے سربراہوں نے اسلام کے ان نام لیواؤں اور ان علمائے دین نے نظامِ اسلام سے منہ موڑ کر نظامِ جمہوریت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔۔۔کیا قرآن مجید کا یہ انتباہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے کہ:

﴿أَلَم تَرَ‌ إِلَى الَّذينَ بَدَّلوا نِعمَتَ اللَّهِ كُفرً‌ا وَأَحَلّوا قَومَهُم دارَ‌ البَوارِ‌ ﴿٢٨﴾ جَهَنَّمَ يَصلَونَها وَبِئسَ القَر‌ارُ‌ ﴿٢٩﴾... سورةابراهيم

"کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جنہوں نے اللہ کی نعمت (اسلام) کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں جا اتارا (یعنی) جہنم میں، (کہ ایسے سب ناشکرے) اس میں داخل ہوں گے اور وہ (بہت ہی) برا ٹھکانہ ہے۔"

چنانچہ وقت کا نقیب ان تمام راہنمایانِ اسلام سے ایک ہی سوال کرتا ہے کہ:

﴿ أَلَيسَ مِنكُم رَ‌جُلٌ رَ‌شيدٌ ﴿٧٨﴾... سورةهود

"کیا تم میں ایک بھی (حق آگاہ) مردِ رشید باقی نہیں رہا"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ملکِ عزیز اس وقت نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے۔۔۔ایک طرف اگر آبی سیلاب عذابِ الہی بن کر نازل ہوا ہے، تو دوسری طرف سیاسی افق پر تباہی و بربادی کے بادل اُمڈتے نظر آتے ہیں۔۔۔انتخابات کے استقبال میں منعقد ہونے والے سیاسی دنگل ہی کیا کم تھے، کہ اب ہائی کورٹ نے اسمبلیاں توڑے جانے کے فیصلے کو غیرآئینی قرار دے دیا ہے تو حکومت اور ارکانِ اسمبلی کے درمیان لڑائی کا ایک نیا محاذ کھل گیا ہے۔۔ایک طرف سپیکر صاحب قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لئے پرتول رہے ہیں، تو دوسری طرف حکومت کی طرف سے فضلِ حق صاحب نے یہ اعلان کیا ہے کہ "اسمبلیوں کی بحالی کے متعلق سوچنے والے احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔" خدا نہ کرے، اگر باہم ٹھن گئی اور اس جھگڑے نے طول کھینچا، جس کے آثار واضح طور پر نظر آ رہے ہیں، تو آبی سیلاب سے تباہی و بربادی کی رہی سہی کسر یہ جمہوری سیلاب پوری کر دے گا۔۔۔ان حالات میں علمائے امت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے منصب کو پہچانیں، اٹھیں، متحد ہوں، کتاب و سنت کو اپنا لائحہ عمل بنائیں اور امت کی راہنمائی کا کماحقہ، فریضہ سر انجام دیں، کہ یہی واحد راہ، سلامتی کی راہ ہے۔۔۔ورنہ صرف یہی نہیں کہ مستقبل کا مؤرخ انہیں معاف نہیں کرے گا، بلکہ ارحم الراحمین بھی ان پر رحم نہیں فرمائے گا۔۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ فَإِن يَتوبوا يَكُ خَيرً‌ا لَهُم وَإِن يَتَوَلَّوا يُعَذِّبهُمُ اللَّهُ عَذابًا أَليمًا فِى الدُّنيا وَالءاخِرَ‌ةِ وَما لَهُم فِى الأَر‌ضِ مِن وَلِىٍّ وَلا نَصيرٍ‌ ﴿٧٤﴾... سورةالتوبة

"اگر یہ توبہ کر لیں، تو ان کے حق میں بہتر ہو گا اور اگر منہ پھیر لیں، تو اللہ انہیں دنیا و آخرت میں دُکھ دینے والا عذاب دے گا۔ پھر زمین میں کوئی بھی ان کا دوست اور مددگار نہ ہو گا۔"۔۔۔۔ العیاذ باللہ