آداب دین و دنیا
شرف و عزت سے محبت کی آفات میں سے ایک، عہدوں کی طلب اور ان لا لالچ بھی ہے۔ یہ ایک پوشیدہ باب ہے جسے صرف اللہ تعالیٰ کی معرفت و محبت سے سرشار لوگ ہی جان سکتے ہیں، اور جس کی مخالفت ایسے جاہل لوگ ہی کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کی معرفت رکھنے والوں کے ہاں حقیر و ذلیل ہیں۔
ان لوگوں کے بارے میں حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
"یہ جہاں خچروں پر سوار ہوں یا گھوڑوں پر، معصیت و نافرمانی کی ذلت اُن کی گردنوں میں ہے۔ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے، اسے اللہ تعالیٰ بھی ذلیل و رسوا کرتے ہیں۔"
لوگوں پر اپنے اوامرونواہی کو نافذ کرنے اور ان کے معاملات کو کنٹرول کرنے کی خاطر عہدہ کی خواہش کرنا تاکہ لوگون پر اپنی برتری اور برائی ظاہر کی جا سکے اور تاکہ یہ جتلایا جا سکے کہ لوگ اپنی ضروریات و حاجات کے سلسلہ میں اس کے محتاج ہیں۔۔۔اور پھر ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں انہیں ذلیل و خوار کرنا، یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت و الوہیت سے مزاحمت ہے۔
بسا اوقات اس قسم کے لوگ جان بوجھ کر عوام کو ایسی مشکلات میں پھنسانے کا سبب بھی بنتے ہیں کہ لوگ ان مشکلات کے حل کی خاطر ان کی طرف رجوع کریں اور یوں انہیں اپنی عظمت و بڑائی ظاہر کرنے کا موقع ملے۔ حالانکہ یہ چیز صرف اللہ تعالیٰ ہی کو لائق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَد أَرسَلنا إِلىٰ أُمَمٍ مِن قَبلِكَ فَأَخَذنـٰهُم بِالبَأساءِ وَالضَّرّاءِ لَعَلَّهُم يَتَضَرَّعونَ ﴿٤٢﴾... سورةالانعام
"آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے، تو ان قوموں کو ہم نے مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اختیار کرتے ہوئے (ہمارے ہی سامنے جھک جائیں)"
نیز فرمایا:
﴿وَما أَرسَلنا فى قَريَةٍ مِن نَبِىٍّ إِلّا أَخَذنا أَهلَها بِالبَأساءِ وَالضَّرّاءِ لَعَلَّهُم يَضَّرَّعونَ ﴿٩٤﴾... سورة الاعراف
"کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا ہو، اور اس بستی کے لوگوں کو ہم نے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو، کہ شاید وہ عاجزی پر اُتر آئیں۔"
احادیث میں آیا ہے:
«ان العبد اذا دعا الله تعالى وهو يحبه قال الله تعالى ياجبريل، لا تعجل بقضاء حاجته فانى احب ان اسمع تضرعه»
کہ "جس بندے سے اللہ تعالیٰ کو محبت ہو، وہ بندہ جب اللہ تعالیٰ سے دعاء کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "جبریل، اس کی ضرورت جلدی پوری نہ کرنا، کہ میں اس کی عاجزی و زاری سننا چاہتا ہوں۔"
الغرض مذکورہ بالا امور (حرصِ اقتدار و جاہ وغیرہ) محض ظلم سے زیادہ شدید اور خطرناک ہیں اور شرک سے بھی زیادہ کڑوے اور دہشت ناک۔۔۔اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شرک تمام ظلموں سے بڑھ کر ہے۔۔چنانچہ "الصحیح" میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے:
«يقول الله تعالي: الكبرياء ردائى- والعظمة ازارى، فمن نازعنى فيهما عذبته»
"اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "بڑائی میرا اوڑھنا اور عظمت میری ازار (چادر) ہے۔جو شخص ان دو صفات کے بارہ میں مجھ سے مقابلہ کرے گا، میں اسے عذاب دوں گا۔"
ایک بزرگ قاضی تھے، انہوں نے خواب میں ایک آدمی کو دیکھا جو انہیں کہہ رہا تھا کہ:
"تم بھی قاضی ہو، اور اللہ تعالیٰ بھی قاضی ہیں۔"
انہوں نے یہ بات سنی تو گھبرا کر اٹھ بیٹھے، اور عہدہ قضاء چھوڑ کر علیحدہ ہو گئے۔
بہت سے متقی قاضی لوگوں کو منع کیا کرتے تھے کہ انہیں "قاضی القضاۃ" (سب سے بڑا قاضی) نہ کہا جائے۔ کیونکہ یہ لفظ "ملک الملوک" کے مشابہ ہے۔ اور یہ نام رکھنے سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اس لیے کہ:
«لا مالك الا الله»
"اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مالک نہیں"
اسی طرح حاکم الحکام (وغیرہ القاب و نام) اس سے بھی زیادہ مذموم ہیں۔
انہی مذموم افعال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عزت و عہدہ کا مالک شخص اپنے کیے ہوئے کاموں پر لوگوں سے مدح و تعریف کو پسند کرے، اور جو شخص اس کی تعریف نہ کرے یہ اسے دکھ اور تکلیف پہنچائے۔
حالانکہ بسا اوقات اس کے کام، تعریف کی بجائے مذمت کے زیادہ لائق ہوتے ہیں۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جو بہ طاہر اچھا ہو۔ اور اس پر وہ مدح و توصیف کا خواہاں بھی ہوتا ہے۔ لیکن بباطن اس کام سے اس کا ارادہ برائی کا ہوتا ہے، جسے وہ لوگوں میں عام کرنا چاہتا ہے۔۔۔ایسے لوگ اس وعید الہی میں داخل ہیں:
﴿ لا تَحسَبَنَّ الَّذينَ يَفرَحونَ بِما أَتَوا وَيُحِبّونَ أَن يُحمَدوا بِما لَم يَفعَلوا فَلا تَحسَبَنَّهُم بِمَفازَةٍ مِنَ العَذابِ...﴿١٨٨﴾... سورة آل عمران
"جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہوں اور چاہتے ہوں کہ ایسے کاموں کی تعریف انہیں حاصل ہو، جو فی الواقع انہوں نے نہیں کیے ہیں، (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ایسے لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھئے"
یہ آیت ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مخلوق سے اپنی مدح کے طالب ہوتے ہیں، حالانکہ مخلوق سے مدح کا طلب کرنا اور اس کے ترک پر انہیں سزا دینا اللہ وحدہ، لاشریک لہ، کے علاوہ کسی کو جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ ہدی اپنے کیے ہوئے کاموں اور لوگوں پر احسانات کے نتیجہ میں تعریف و مدح سرائی سے لوگوں کو سختی سے منع کر دیا کرتے تھے۔ اور حکم دیا کرتے تھے کہ حمد و تعریف صرف اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہئے، کہ تمام نعمتیں صرف اسی کی طرف سے ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اس کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ امراء حج کے نام ایک تحریر لکھی، جو انہیں پڑھ کر سنائی گئی۔ اس میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے امراء کو، حُجاج کے ساتھ حسنِ سلوک، اور اُن پر کیے گئے مظالم کے ازالہ کا حکم دیا۔
اسی تحریر میں لوگوں کو یہ حکم بھی تھا کہ:
"ان تمام کاموں پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی تعریف نہ کرو۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے حکومت عطا نہ فرماتے تو میں بھی عام لوگوں کی طرح ہوتا۔"
ان کا ایک واقعہ بڑا مشہور ہے، جو ایک عورت کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس عورت نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی چار یتیم بیٹیوں کے لیے وظائف مقرر کرنے کی درخواست کی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دو کے لیے وظیفہ مقرر کیا تو اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر آپ نے تیسری کا وظیفہ مقرر کیا تو اُس نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا شکریہ ادا کیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"تو جب تک اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی رہی، ہم بھی مقرر کرتے رہے۔ اب تو ان تینوں بیٹیوں سے کہہ کہ اس چوتھی بیٹی سے ہمدردی اور تعاون کریں۔"
ان باتوں سے آپ اصحاب مناصب کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ، اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کا حکم دینے کے پابند ہیں۔
واضح رہے کہ اس کے باوجود آپ رحمۃ اللہ علیہ حقوقِ الہی میں کوتاہی اور تقصیر سے خائف رہا کرتے تھے۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں، ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں، اسی کی اطاعت اور عبادت و الوہیت میں اس کو اکیلا جانیں۔
سبحان اللہ، کیا مقام اور درجہ ہے، ایسے شخص کا، جو لوگوں سے جزاء و شکریہ کی امید نہ رکھے اور اپنے عمل کے ثواب کی امید صرف اللہ تعالیٰ سے وابستہ رکھے۔۔۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ما كانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤتِيَهُ اللَّهُ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقولَ لِلنّاسِ كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّهِ وَلـٰكِن كونوا رَبّـٰنِيّـۧنَ بِما كُنتُم تُعَلِّمونَ الكِتـٰبَ وَبِما كُنتُم تَدرُسونَ ﴿٧٩﴾ وَلا يَأمُرَكُم أَن تَتَّخِذُوا المَلـٰئِكَةَ وَالنَّبِيّـۧنَ أَربابًا أَيَأمُرُكُم بِالكُفرِ بَعدَ إِذ أَنتُم مُسلِمونَ ﴿٨٠﴾... سورة آل عمران
"کسی بشر کو یہ لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ تو اسے کتاب، حکم اور نبوت عطا فرمائیں، اور وہ لوگوں سے یہ کہنے لگ جائے کہ اللہ کی بجائے تم میرے بندے بن جاؤ۔ (ہرگز نہیں) بلکہ (وہ تو یہی کہے گا کہ) رب والے بن جاؤ، کیوں کہ یہی بات تم کتابِ (الہی) میں پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو۔ وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنا لو، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ تمہیں کفر کا حکم دے جب کہ تم مسلمان ہو چکے؟"
اور ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
«لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ »
کہ "تم مجھے حد سے نہ بڑھانا، جیسے عیسائیوں نے (حضرت) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو حد سے بڑھایا۔ میں تو (محض) بندہ ہوں، لہذا (مجھے) اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کہا کرو"
اسی طرح ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« لا تقولوا: ما شاء الله وشاء محمد، بل قولوا: ما شاء الله ثم ماشاء محمدﷺ »
"یوں نہ کہا کرو کہ جو اللہ تعالیٰ چاہیں اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہین۔ بلکہ یوں کہا کرو کہ جو اللہ تعالیٰ چاہیں، پھر جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) چاہیں"
چنانچہ ایک شخص نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: "جو اللہ تعالیٰ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اجعلتنى لله ندّا بل ماشاءالله وحده»
"کیا تو نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا ہے؟ بلکہ (صرف یوں کہو کہ) جو اللہ اکیلا چاہے"
یہی وجہ ہے رسل اللہ کے خلفاء اور ان کے متبعین میں سے منصف حکمران اور قاضی حضرات لوگوں کو اپنی تعظیم کی دعوت ہرگز نہ دیتے تھے۔ بلکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس اکیلے کی الوہیت و عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے۔۔۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو مناصب کو صرف اس لیے قبول کر لیتے تھے کہ اس ذریعہ سے انہیں اللہ وحدہ لا شریک کی طرف دعوت دینے میں مدد مل سکے۔ چنانچہ بعض صالحین جب عہدہ قضاء کو قبول کر لیتے تو فرماتے:
"میں یہ عہدہ صرف اس لیے قبول کر رہا ہوں کہ اس کے ذریعہ "امر بالمعروف" اور "نہی عن المنکر" کے فریضہ کی ادائیگی میں مدد لے سکوں"
یہی وجہ ہے کہ حضرات رُسُل اللہ (علیہم السلام) اور ان کے متبعین (دعوت الی اللہ) احکامِ الہی کی تبلیغ اور ان پر عمل کرنے میں لوگوں کی ایذائیں اور حد درجہ مشقتیں صبر و رضا کے ساتھ برداشت کر لیتے تھے۔ کیوں کہ محب کو محبوب کی رضا میں جو تکالیف پیش آئیں ان میں اسے لذت محسوس ہوتی ہے۔
عبدالملک بن عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد کو ان کے دورِ خلافت میں کہا کرتے تھے:
"اباجان، حق کی تنفیذ اور عدل و انصاف کے قائم کرنے کی خاطر مجھے یہ بھی پسند ہے کہ میرے اور آپ کے جسموں سے ہنڈیاں اُبلیں"
صالحین میں سے کسی نے کہا ہے:
"مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرا جسم قینچیوں سے کاٹ ڈالا جائے اور اس کے عوض تمام لوگ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے لگیں۔"
یہ قول متقدمین میں سے کسی کے سامنے ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
"کہنے والے نے اگر مخلوق کی خیرخواہی کا ارادہ کیا تو خوب، ورنہ میں نہیں جانتا" ۔۔۔(پھر بات پوری نہ کر سکے) اور ان پر غشی طاری ہو گئی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قائل نے لوگوں کی خیرخواہی کا خیال کیا، اور ان پر اللہ کے عذاب سے ڈر کر اس بات کو پسند کیا کہ اپنے آپ کو ایذاء و مشقت میں ڈال کر بھی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا لے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال، اکرام اور کماحقہ اس کی اطاعت و محبت کا خیال کرتے ہوئے یہ پسند کیا ہو کہ لوگ یہ امور بہرحال بجا لائیں، خواہ اس کے بدلے خود اسے کتنی ہی تکالیف اٹھانی پڑیں۔
یہ ان خاص لوگوں کا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے اور اس کے ادب و مقام سے کماحقہ واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس جاننے والے پر (یہ بات سن کر) غشی طاری ہو گئی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں بیان فرمایا ہے کہ اس سے محبت کرنے والے لوگ اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔ اسی بات کو، ان میں سے کسی نے یوں بیان کیا ہے:
"تیری محبت کے سبب (اے اللہ) مجھے ملامت بھی بذری لذیذ ہے۔ کیونکہ میں تیری یاد کو محبوب رکھتا ہوں۔ پس ملامت کرنے والا (جتنی چاہے) ملامت کرے۔"
دوسری قسم:
لوگوں پر فوقیت و سرداری۔۔۔علومِ دینیہ، علم و عمل اور زہد و تقویٰ وغیرہ کے ذریعہ طلب کرنا۔۔۔یہ پہلی قسم سے بھی زیادہ بُری، قبیح اور خطرہ اور فساد کے لحاظ سے زیادہ شدید ہے۔ کیوں کہ علم، عمل اور زہد ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجات، دائمی نعمتیں، اللہ تعالیٰ سے ثواب اور اس کا قرب طلب کرنا چاہئے۔
امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:
"علم کو باقی تمام اشیاء پر صرف اس لیے فضیلت حاصل ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ ورنہ علم بھی عام چیزوں کی مانند ہوتا۔"
چنانچہ علم و عمل اور زہد میں سے کسی ایک کے ذریعہ بھی اگر فانی، دنیوی منفعت طلب کی جائے، تو اس کی دو قسمیں ہیں:
1۔ ایک یہ کہ اس کے ذریعہ مال طلب کیا جائے۔ تو یہ مال کی حرص اور اسے حرام ذرائع سے حاصل کرنے کی قسم ہے۔ اور اس بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کرامی ہے:
«مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللهِ، لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ »
کہ "وہ علم، جس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مطلوب ہونی چاہئے، اگر کوئی شخص اسے دنیوی مفاد کی کاطر سیکھتا ہے تو وہ روزِ قیامت جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔"
اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ، ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اپنی کتبِ حدیث میں بروایت حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے۔
وجہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے حاصل کیا جانے والا علم اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت، اُنس، اللہ تعالیٰ کی محبت کا شوق، اس کا ڈر اور تقویٰ نیز اس کی اطاعت وغیرہ نعمتوں کی طرف اپنے طالب کی راہنمائی کرتا ہے۔ اور یہ چیزیں گویا دنیا ہی میں جلد ملنے والی جنت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ یہ شخص آخرت میں بھی جنت میں داخل ہو گا۔ لیکن جو شخص اپنے علم کی بدولت دنیا میں ان نعمتوں سے محروم رہتا ہے، وہ آخرت میں بھی جنت کی خوشبو تک نہ پا سکے گا۔ واللہ اعلم
یہی نہیں، بلکہ آخرت میں سب سے زیادہ اور سخت عذاب اس عالم کو ہو گا جس نے دنیا میں اپنے علم سے فائدہ نہ اُٹھایا (یعنی اس پر عمل نہ کیا) ۔۔۔ ایسا شخص آخرت میں سب سے زیادہ حسرت کناں ہو گا، کہ اس کے پاس اعلیٰ درجات اور بلند مقامات حاصل کرنے کا بہترین سبب اور ذریعہ موجود تھا، لیکن ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کی بجائے وہ اپنے علم سے گھٹیا، حقیر اور ادنیٰ امور کا طالب ہوا۔
اس کی مثال یوں ہے کہ کسی کے پاس قیمتی جواہرات موجود ہوں اور وہ انہیں کوڑیوں کے عوض بیچ ڈالے، کہ جن سے اسے کچھ بھی فائدہ حاصل نہ ہو۔ یہ ہی حالت علم کے بدلے دنیا طلب کرنے والے کی ہے۔
اور اس سے بھی بُرا وہ شخص ہے جو کہ دنیا کا طلب گار ہو، مگر لوگوں کے سامنے دنیا سے استغناء کا اظہار کرے۔۔۔یہ دھوکہ بہت ہی بُرا ہے۔
ابوسلیمان الدارانی اس آدمی پر طنز کیا کرتے تھے جو بزرگوں کا سا لباس پہنے، لیکن اس کا دل ایسی دنیوی خواہشات اور شہوات سے پُر ہو کہ اس کی ایک ایک خواہش اس بزرگی والے لباس سے بھی زیادہ قیمتی ہو۔
اس سے ان کا اشارہ اس طرف ہے کہ دینی لباس کے ذریعہ دنیا سے استغناء کا اظہار اس کے لیے مناسب ہے جس کا دل دنیا کی محبت سے مکمل طور پر خالی ہو۔ یہاں تک کہ جو ظاہری لباس اس نے زیب تن کر رکھا ہے، اس سے زیادہ اس کا تعلق دنیا سے نہ ہو۔ اور دنیا سے لاتعلقی میں اس کا ظاہر و باطن برابر ہو۔
ایک عارف باللہ سے پوچھا گیا: "صوفی کون ہوتا ہے؟"
فرمایا:
«الصوفى من لبس الصوف على الصفا وسلك طريق المصطفى وذاق الهوٰى بعد الجفا وكانت الدنيا منه خلف القضا»
کہ "صوفی وہ ہوتا ہے جو دل کی خوب صفائی کر کے صُوف (اُون) پہنے، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر چلے، مصائب برداشت کرنے کے بعد محبتِ الہی کا مزہ چکھے، اور دنیا کو اپنے پیچھے چھوڑ جائے۔" (جاری ہے)