سرگزشت آدم کے دو پہلو قرآن کریم کی روشنی میں

1۔ شخصیتِ آدم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2۔ نبوتِ آدم

1۔ شخصیتِ آدم:

شخصیتِ ادم کے متعلق دورِ حاضر کے ایک متجدد، اپنی انگریزی تفسیر میں یوں لب کشائی فرماتے ہیں:

"Adam is generally taken to be the proper name for the first man, but neither here nor any where else in the Holy Quran. It is affirmed that adam was the first man of that there was no creation before him. On the other hand, great muslim Theologians have held that there were many adams thousand of adams before the great ancestor of mankind known by this name." (The Holy Quran..Arabic Text, English Translation and Commentary by Muammad Ali) (P.18)

"عام طور پر آدم کو اولین فرد بشر کا اسمِ علم سمجھا جاتا ہے، لیکن نہ یہاں اور نہ ہی کسی دوسرے مقام پر قرآن پاک میں اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ آدم اولین فرد بشر تھا یا یہ کہ اس سے قبل کوئی مخلوق نہ تھی۔ بلکہ اس کے برعکس بہت سے مسلمان علمائے دینیات کی یہ رائے رہی ہے کہ آدم نام کا کوئی ایک شخص ہی نہیں گزرا ہے بلکہ بہت سے آدم، حتیٰ کہ ہزاروں آدم، انسان کے مورثِ اعلیٰ سے قبل ہو گزرے ہیں۔"

اسی طرح کا ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:

"ہمارے ہاں بھی (محرف) تورات کے زیر اثر، عام مشہور یہی ہے کہ قرآن کریم میں بیان کردہ قصہ آدم، ایک جوڑے (آدم و حوا) کی داستان ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ یہ کسی ایک فرد یا ایک جوڑے کی داستان نہیں بلکہ یہ خود "آدمی" کی سرگزشت ہے۔ جسے قرآن نے تمثیلی انداز میں بیان کیا۔ اس داستان کا آغاز، انسان کی اس حالت سے ہوتا ہے جب اس نے قدیم انفرادی زندگی کی جگہ، پہلے پہل تمدنی زندگی شروع کی یعنی قدیم قبائل کی شکل میں، قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آدم سے مراد انسان یا بشر ہے اور قصہ آدم کسی ایک جوڑے کی داستان نہیں، بلکہ یہ خود انسان کی سرگزشت ہے جسے قرآن نے بڑے لطیف اور دلکش محاکاتی (ڈرامائی) انداز سے بیان کیا ہے۔" (تفسیر مطالب الفرقان ج2 ص 61)

پہلا اقتباس مولوی محمد علی صاحب کا ہے، جو مرزا غلام احمد قادیانی کے پروکاروں میں سے اس گروہ کے قائد تھے جو قادیانیت کی لاہوری شاخ کے نام سے معروف ہے، جبکہ دوسرا اقتباس، ادارہ طلوعِ اسلام لاہور کے بانی مسٹر غلام احمد پرویز کا ہے۔۔۔ دونوں کا مفہوم مشترک یہ ہے کہ:

1۔ آدم ، نوعِ انسانی کے اس اولین فرد بشر کا نام نہیں ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے "براہِ راست تخلیق" (Direct Creation) کے عمل سے پیدا فرمایا ہے۔ بلکہ وہ سلسلہ نوعِ انسانی کے اجراء کے بعد کے کوئی فرد ہیں۔

2۔ آدم سے مراد، مطلق انسان یا بشر ہے۔

جہاں تک دوسرے مفہوم کا تعلق ہے، تو اگرچہ یہ ایک جزوی اور ادھوری صداقت پر مشتمل ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ ہر انسان یا بشر کو آدم کیوں کہا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب مسٹر پرویز اور مولوی محمد علی لاہوری میں سے کسی نے بھی نہیں دیا ہے۔۔۔ہاں اول الذکر محض سرسری طور پر شک کے عالم میں یہ کہہ کر آگے گزر گئے ہیں کہ:

"ہو سکتا ہے کہ آدم کسی قبیلہ کے ممتاز فرد کا نام ہو" (تفسیر مطالب الفرقان ج2 ص 64)

تاہم ہمارے لئے یہ بات باعثِ صد حیرت و استعجاب ہے کہ نسلِ انسانی میں سے کسی بعد کے قبیلے کے نمایاں فرد کو "آدم" قرار دے کر اس کی اولاد و ذریت کو تو "آدم" کے نام سے موسوم کر دیا جاتا ہے، لیکن اس اولین فردِ بشر کو "آدم" کے نام سے موسوم کرنے میں انقباض محسوس کیا جاتا ہے، جس سے تمام نوعِ بشر کا سلسلہ وجود میں آیا اور جس کی اولاد میں بہرحال اس "ممتاز قبیلے" کا وہ "ممتاز فرد" بھی شامل تھا جسے ہمارے ان متجددین نے "آدم" کا نام دے رکھا ہے۔

سیدھی سی بات یہ ہے کہ جس طرح اموی قبیلے کے کسی فرد کا سلسلہ نسب، امیہ نامی شخص تک منتہی ہوتا ہے اور امیہ کی ذات سے قبل، کسی "اموی" کا وجود تک نہیں پایا جا سکتا، بالکل اسی طرح ہر آدمی کا سجرہ نسب، آدم تک پہنچتا ہے اور آدم کے وجود سے قبل کسی آدمی کا وجود امرِ محال ہے۔۔۔جس طرح امیہ، تمام امویوں کا وہ مورثِ اعلیٰ ہے جو خود کسی اموی کی نسل میں سے نہیں ہے، بلکہ تمام اموی اس کی نسل میں سے ہیں، بالکل اسی طرح آدم، تمام آدمیوں کا وہ مورثِ اعلیٰ ہے جو خود کسی آدمی کی نسل میں سے نہیں ہے بلکہ تمام آدمی خود اس کی نسل میں سے ہیں۔۔اور آم نامی اس مورثِ اعلیٰ کے وجود سے قبل، کسی اور آدمی یا آدم کا وجود امرِ محال ہے۔

رہا مولوی محمد علی لاہوری کا یہ فرمان کہ:

"قرآن نہ یہاں اور نہ کسی اور مقام پر اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ آدم نوعِ انسانی کے اولین فرد تھے اور ان سے پہلے کوئی مخلوق نہیں تھی" (ترجمہ انگریزی تفسیر ص 18)

تو یہ بات خود قرآن حکیم کی روشنی میں غلط ہے۔ چنانچہ قرآن کریم بالفاظِ صریح یہ بیان فرماتا ہے کہ تخلیقِ بشر سے قبل، اللہ تعالیٰ نے جنوں کو پیدا فرما دیا تھا، جن کا مادہ تخلیق آگ تھا۔ دیکھیے آیت 27 سورۃ الحجر، دراصل یہاں جو بات زیرِ بحث ہے وہ یہ نہیں ہے کہ: "نوعِ بشر سے قبل کوئی اور مخلوق وجود پذیر ہوئی تھی یا نہیں؟" بلکہ یہ ہے کہ: " آدم نام کے جس فرد انسانی کا قرآن ذکر کرتا ہے، وہ مخصوص طور پر اولین فردِ بشر تھا یا سلسلہ بشر کے چل نکلنے کے بعد، یا اس کے دوران میں کسی اور شخص کا یہ نام تھا؟"

اگر کوئی شخص "ڈارونزم" (Darwanism) پر پیشگی ایمان نہیں لایا اور قرآن کا مطالعہ، ہر خارجی فکر سے آزاد ہو کر محض تحقیق حق اور طلبِ ہدایت کی نیت سے کرتا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ آدم اس اولین فردِ بشر کا نام ہے جو تمام انسانوں کا مورثِ اعلیٰ ہے۔ کوئی انسان اس کی پیدائش سے پہلے پیدا نہیں ہوا۔ وہ تمام افرادِ بشر کا باپ ہے اور خود اس کا کوئی انسان بھی باپ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے براہِ راست تخلیق (Direct Creation) کے عمل سے پیدا فرمایا تھا۔ اس کا اسمِ علم "آدم" تھا مگر اس کی ذریت کے لیے یہ نام (بطور اسمِ علم کے نہیں بلکہ) اس کی طرف نسبت کی بناء پر (ابن آدم ہونے کے باعث) مستعمل ہوا۔

آدم، اولین فردِ بشر:

قرآن پاک نے تخلیقِ آدم کا جہاں بھی ذکر کیا ہے، اس انداز سے کیا ہے کہ وہ اولین فرد بشر تھے اور ان سے قبل کوئی انسان پیدا نہیں کیا گیا تھا۔ ہاں اس سے قبل جنوں کو پیدا کیا جا چکا تھا۔ سورۃ الحجر میں ہے کہ:

﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ مِن صَلصـٰلٍ مِن حَمَإٍ مَسنونٍ ﴿٢٦﴾ وَالجانَّ خَلَقنـٰهُ مِن قَبلُ مِن نارِ‌ السَّمومِ ﴿٢٧﴾... سورة الحجر

"اور یقینا ہم نے انسان کو کھنکھاتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے اور اس سے بھی پہلے ہم جنوں کو بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کر چکے تھے۔"

یہ آیت اس امر پر نصِ قطعی ہے کہ "الانسان" سے قبل کسی فرد بشر کا وجود تک نہ تھا۔ اس سے قبل صرف جن، آگ کی لپٹ سے وجود پذیر ہو چکے تھے۔ یہی وہ "الانسان" ہے جسے قرآن مجید دیگر مقامات پر، "آدم" کے نام سے موسوم کرتا ہے اور اس سے جو نسل چلی اس کے افراد بھی محض "آدمی" ہونے کے ناطے سے آدم کہلائے کیونکہ یہ اس فردِ اولین کی اولاد تھی جسے قرآن نے آدم کہا ہے۔ قرآن کریم میں سورۃ السجدہ کے یہ الفاظ قابلِ غور ہیں:

﴿الَّذى أَحسَنَ كُلَّ شَىءٍ خَلَقَهُ وَبَدَأَ خَلقَ الإِنسـٰنِ مِن طينٍ ﴿٧﴾ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلـٰلَةٍ مِن ماءٍ مَهينٍ ﴿٨﴾... سورة السجدة

"(اللہ تعالیٰ نے) ہر چیز کو بہت اچھی طرح بنایا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی پھر اس کی نسل خلاصے سے (یعنی) حقیر پانی سے پیدا کی۔"

یہاں قرآن مجید صاف طور پر یہ بیان فرماتا ہے کہ انسان کی ابتداء اور تخلیق براہِ راست مٹی سے کی گئی تھی لیکن پھر اس کی نسل کا سلسلہ تناسل سے جاری کیا گیا۔ قرآن کی اس سادہ سی حقیقت میں۔۔۔یعنی مٹی سے آغازِ تخلیق کے مرحلے اور پورے وجودِ انسانی کی تکمیل کے مرحلے کے مابین منازل میں۔۔۔خواہ مخواہ ڈاروینی تفصیلات کو لا کر رکھ دینا اور پھر یہ نتیجہ نکالنا کہ انسانی وجود کا ارتقاء، غیر انسانی یا نیم انسانی حالتوں میں سے گزر کر ہوا ہے، قرآنی مفاہیم کو ڈاروینیت (Darwanism) کی بھینٹ چڑھا دینے کے مترادف ہے۔

پرویز صاحب کی پہلی دلیل کا جائزہ:

مسٹر پرویز اور مولوی محمد علی لاہوری کو اس پر اصرار ہے کہ قرآن میں جس آدم کا ذکر ہے وہ اولین فرد انسانی نہیں تھا، بلکہ نوعِ بشر کے وجود پذیر ہو جانے کے بعد کسی قبیلے کا کوئی ممتاز فرد تھا۔ اس موقف کے لیے مسٹر پرویز نے جو دلیل پیش کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن نے سجدہ آدم کا ذکر کرتے ہوئے، جب بھی ابلیس کی طرف سے انسانوں کو گمراہ کرنے کی انتقامی کاروائی کا ذکر کیا ہے تو وہاں جمع کے صیغے استعمال کیے ہیں۔ مثلا:

﴿ قالَ رَ‌بِّ بِما أَغوَيتَنى لَأُزَيِّنَنَّ لَهُم فِى الأَر‌ضِ وَلَأُغوِيَنَّهُم أَجمَعينَ ﴿٣٩﴾... سورة الحجر"﴿ لَأَقعُدَنَّ لَهُم...١٦﴾... سورةالاعراف"﴿ ثُمَّ لَءاتِيَنَّهُم مِن بَينِ أَيديهِم وَمِن خَلفِهِم وَعَن أَيمـٰنِهِم وَعَن شَمائِلِهِم وَلا تَجِدُ أَكثَرَ‌هُم شـٰكِر‌ينَ ﴿١٧﴾... سورةالاعراف

چنانچہ وہ ان آیات سے استشہاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"یہاں ھُم جمع کی ضمیر ہے جس کے معنی تمام انسان ہیں اور پھر لفظِ "اجمعين" نے اس کی مزید وضاحت کر دی ہے کہ یہ ایک فرد (آدم) یا ایک (آدم اور حوا) کا قصہ نہیں، تمام نوعِ انسانی کی داستان ہے۔" (تفسیر مطالب الفرقان ج2 ص 62)

لاریب، یہاں ضمیر جمع ہی کی ہے۔۔۔اور جمع کی ضمیر کا استعمال کیوں اور کس وجہ سے ہوا؟ فی الحال اس بحث کو چھوڑئیے، سوال یہ ہے کہ جمع کی ان ضمیروں کی بنیاد پر، اگر تمام نوع انسانی مراد لی بھی جائے تو اس سے یہ کیسے لازم ہو گیا کہ آدم وہ اولین (ابوالبشر) انسان نہیں ہے جو کسی فرد بشر کی اولاد نہیں تھا، بلکہ ساری نوعِ انسان اسی کی ذریت ہے؟ چنانچہ اصل زیرِ بحث مسئلہ تو یہی ہے کہ آیا آدم وہ پہلا انسان ہے جس سے پہلے کسی فرد بشر کا وجود تک نہ تھا وہ نسلِ انسانی کے آغاز و اجراء کے بعد (دورانِ نسل بشر) کوئی آدمی تھا؟

اب اگر در ضوء القرآن، اس بات کی تحقیق کی جائے کہ شیطان اور ابلیس نے "﴿لَأُغوِيَنَّهُم﴾" اور اسی طرح کی دیگر کاروائیوں میں جمع کا صیغہ کن افراد و اشخاص کے لیے استعمال کیا ہے تو اس سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ آدم، جس ہستی کا اسمِ علم ہے وہ تمام نسلِ انسانی کا مورثِ اعلیٰ اور باپ ہے۔۔۔سورۃ بنی اسرائیل میں قصہ آدم و ابلیس بیان کرتے ہوئے قرآن مجید نے شیطان کی طرف سے اغواء بشر اور اضلالِ انسان کے لیے، اس کا ارادہ، ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

﴿ لَئِن أَخَّر‌تَنِ إِلىٰ يَومِ القِيـٰمَةِ لَأَحتَنِكَنَّ ذُرِّ‌يَّتَهُ إِلّا قَليلًا ﴿٦٢﴾... سورةالإسراء

"اگر (اے اللہ) تو نے مجھے قیامت تک کے لیے مہلت دی تو میں تھوڑے سے شخصوں کے سوا اس (آدم) کی ذریت (اولاد) کی جڑ کاٹنا رہوں گا۔"

اس سے دو باتیں واضح ہیں:

اولا۔۔۔یہ کہ"﴿لَأُغوِيَنَّهُم أَجمَعينَ﴿٣٩﴾...سورةالحجر""﴿لَأَقعُدَنَّ لَهُم...١٦﴾... سورةالاعراف﴾" اور "﴿ثُمَّ لَءاتِيَنَّهُم﴾... سورةالاعراف" میں جہاں بھی جمع کی ضمیر "ھُم" استعمال کی گئی ہے تو اس سے مراد، آدم کی ذریت ہے۔ اور لفظِ ذریت کے جمع یا واحد کے مفہوم میں استعمال ہونے کے متعلق خود مسٹر پرویز کی تحقیق یہ ہے کہ:

"یہ لفظ ہے تو جمع ہی کے لیے، لیکن پھر واحد اور جمع سب کے لیے یکساں آتا ہے" (لغات القرآن ص 696)

لہذا قرآن کریم میں آدم اور حوا کے قصے میں مذکور جمع کی ضمیروں سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ نوعِ انسانی کے اولین جوڑے کی سرگزشت نہیں ہے، قیاس مع الفارق ہے۔

ثانیا۔۔۔ یہ کہ قرآن مجید میں "﴿ذريته﴾" کے الفاظ اس امر کو ہر شک و شبہ سے بالاتر کر دیتے ہیں کہ آدم خود کسی کی ذریت میں شامل نہیں تھا، بلکہ تمام افرادِ انسانی، خود اس کی ذریت میں شامل ہیں۔1

پرویز کی دوسری دلیل اور اس کا جائزہ:

مسٹر پرویز نے اپنے موقف کی تائید میں اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے:

﴿وَلَقَد خَلَقنـٰكُم ثُمَّ صَوَّر‌نـٰكُم ثُمَّ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِءادَمَ...﴿١١﴾... سورةالاعراف

"بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری صورت گری کی اور پھر فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔"

یہاں ان کی بنائے استدلال یہ ہے کہ آدم کے ذکر سے قبل، بنی نوعِ انسان (جن کے لیے یہاں جمع کی ضمیر "كم" استعمال ہوئی ہے) کی تخلیق کا ذکر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خلقِ آدم سے قبل یہ لوگ پیدا ہو چکے تھے، لہذا آدم اول البشر اور ابوالبشر نہیں تھا۔

اس استدلال کے جواب میں گزارش یہ ہے کہ ان الفاظ سے بیش از بیش صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ آدم کا اسم، اولین فردِ انسانی کے علاوہ اس کی پوری ذریت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا کوئی شخص بھی منکر نہیں ہے۔ لیکن مابہ النزاع مسئلہ یہ نہیں ہے کہ لفظِ آدم کا اطلاق بطور اسم علم کے اولین فرد بشر پر ہونے کے علاوہ، اس کی ذریت میں سے بھی کسی فرد پر (اپنے مورثِ اعلیٰ کی طرف منسوب ہونے کی بناء پر) کیا جا سکتا ہے یا نہیں، بلکہ یہ امر کہ، قرآن مجید میں تخلیق نور جن کے بعد، جس مخلوق کو خلافت فی الارض کی خلعت اعزاز دینے کے لیے پیدا کرنے کا ذکر ہے، اس سے قبل کوئی فرد بشر موجود تھا یا نہیں؟ آیا وہ پہلا فرد انسانی تھا جس سے نسلِ انسانی کا آغاز ہوا یا اس سے قبل کوئی اور فرد بشر موجود تھا جس کی ذریت میں وہ انسان بھی شامل تھا جو مسجودِ ملائکہ قرار پانے کے علاوہ "خلیفۃ فی الارض" کے اعزاز سے بھی مشرف ہوا؟ اور اس مسئلہ میں یہ آیت (الاعراف: 11) قطعی ساکت ہے۔۔۔رہا یہ امر کہ آدم کو سجدہ کرنے کے حکم سے قبل "خلقناكم" اور "صورناكم" میں جمع کی ضمیریں کسی مصلحت کی آئینہ دار ہیں؟ تو اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ آیت زیرِ بحث میں اور اس سے پہلی آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان پر کی جانے والی نعموں کا ذکر کیا ہے، پہلی آیت میں یہ فرمایا کہ: "ہم نے تمہیں زمین میں ٹھکانا بخشا اور اس میں تمہاری روزی کا سروسامان رکھ دیا (مگر کثیر نعمتیں پا کر) تم شکر کی روش میں قیصر ہو۔۔۔چنانچہ اس آیت میں مادی نعمتوں کا ذکر ہے جبکہ اس سے اگلی آیت میں معنوی نعمتوں کا ذکر ہے اور جن میں سے سب سے بالاتر نعمت وہ اعزاز ہے جو مسجودِ ملائکہ ہونے کی حیثیت سے انسان کو ملا۔ اگرچہ یہ اعزاز نوعِ انسان کے مورثِ اعلیٰ کو ملا تھا مگر اس عام قاعدے کے مطابق کہ باپ پر ہونے والی نعمت اولاد پر بھی، اور اسلاف پر کیے جانے والے انعامات اخلاف پر بھی متصور ہوتے ہیں، اس اعزاز کو تمام اولادِ آدم کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

"اسلاف" کی جگہ "اخلاف" کو خطاب:

یہ بات سمجھنے کے لیے عقل کی کسی بہت بڑی مقدار کی ضرورت نہیں ہے کہ بسا اوقات کسی امر کو، جس کا تعلق اسلاف سے ہو، اخلاف کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اسلاف اور اخلاف ایک نوعی تسلسل کے رشتہ میں یا اعتقادی اور فکری ہم آہنگی کے رشتہ میں منسلک ہوتے ہیں۔۔۔قرآن کریم میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔۔۔مثلا قرآن کریم اپنے دورِ نزول میں موجود یہودیوں کو یوں خطاب فرماتا ہے:

﴿وَإِذ نَجَّينـٰكُم مِن ءالِ فِر‌عَونَ...﴿٤٩﴾... سورةالبقرة

"جب ہم نے تمہیں آلِ فرعون سے نجات دی۔۔۔"

﴿وَإِذ أَخَذنا ميثـٰقَكُم وَرَ‌فَعنا فَوقَكُمُ الطّورَ‌...﴿٦٣﴾... سورةالبقرة

"جب ہم نے تم سے پختہ وعدہ لیا اور طور کو تم پر بلند کیا"

﴿وَإِذ قَتَلتُم نَفسًا...﴿٧٢﴾... سورة البقرة

"جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا۔۔"

﴿وَإِذ قُلتُم يـٰموسىٰ لَن نُؤمِنَ لَكَ حَتّىٰ نَرَ‌ى اللَّهَ جَهرَ‌ةً...﴿٥٥﴾... سورةالبقرة

"جب تم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہم تمہاری بات نہیں مانیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہ لیں۔۔۔"

ان تمام آیات میں "كم" کی ضمیر سے مراد حقیقتا وہ یہود نہیں ہیں جو دورِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم میں زندہ موجود تھے، بلکہ ان کے وہ اسلاف مراد ہیں جن کے یہ اخلاف تھے اور جو ان سے قبل مر چکے تھے۔ پس جس طرح ان آیات میں مخاطب تو "اخلاف" کو کیا گیا ہے، لیکن مراد اسلاف ہیں، بالکل اسی طرح "﴿وَلَقَد خَلَقنـٰكُم ثُمَّ صَوَّر‌نـٰكُم...﴿١١﴾... سورةالاعراف" میں اگرچہ خطاب عام انسانوں کو ہے، مگر مراد آدم علیہ السلام ہیں۔ جو تمام انسانوں کی اصل تھے، پوری نوعِ انسانی کے باپ اور جملہ نسلِ بشر کے مورثِ اعلیٰ تھے۔ چنانچہ ان کی خلق اور تصویر کو تمام انسانوں کی طرف بالکل اسی طرح منسوب کیا گیا ہے جس طرح یہود کے اسلاف کے اعمال کو ان اخلاف کی طرف نسبت دی گئی ہے جو دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں زندہ موجود تھے۔ لہذا اس سے وہ نتیجہ نکالنا جو مسٹر پرویز نے نکالا ہے، ڈارون ازم (Darwanism) سے انتہائی ذہنی مرعوبیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ایک ناقابل توجہ بات:

قرآن کریم کی سورۃ الاعراف آیت 10 میں ہے:

﴿وَلَقَد مَكَّنّـٰكُم فِى الأَر‌ضِ وَجَعَلنا لَكُم فيها مَعـٰيِشَ قَليلًا ما تَشكُر‌ونَ ﴿١٠﴾... سورةالاعراف

کہ "ہم نے تمہیں زمین میں جگہ دی اور اس میں تمہارے لیے سامانِ معیشت پیدا کیے (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو"

اس کے بعد آیت 11 میں فرمایا کہ:

﴿وَلَقَد خَلَقنـٰكُم ثُمَّ صَوَّر‌نـٰكُم ثُمَّ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِءادَمَ...﴿١١﴾... سورةالاعراف

"ہم ہی نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہاری شکل صورت بنائی اور پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو۔۔۔"

۔۔۔ تو کیا ان آیات سے یہ استدلال درست ہو گا کہ بنی نوعِ انسان کی تصویر، بلکہ ان کی تخلیق سے بھی قبل انہیں زمین میں ٹھکانہ بخش دیا گیا تھا۔۔۔اور اگر نہیں، کہ یہ بات ہدایتا باطل اور محال ہے کہ لوگوں کی پیدائش سے قبل ہی انہیں زمین میں متمکن کر دیا جائے۔ تو آیت زیرِ بحث: "﴿وَلَقَد خَلَقنـٰكُم ثُمَّ صَوَّر‌نـٰكُم ثُمَّ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِءادَمَ﴾" سے تخلیقِ آدم علیہ السلام سے قبل نوعِ بشر کی تخلیق پر استدلال کیونکر کیا جا سکتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ہمارا جدید طبقہ، جس کی سربراہی کا فریضہ بحینِ حیات مسٹر پرویز انجام دیتے رہے ہیں، ڈارونزم کا بری طرح شکار ہے۔ ان کی فکری اسیری، ذہنی غلامی اور دماغی مغلوبیت کا یہ حال ہے کہ خود ڈارون نے تو اپنے موقف کو محض نظرئیے (Theory) کے طور پر پیش کیا تھا مگر ان غلام فطرت لوگوں نے اسے ایک ثابت شدہ سائنسی حقیقت (Proven Fact @ Law of Science) سمجھ کر اختیار کر لیا ہے، اور اب قرآن کو چھیل چھال کر اس "حقیقتِ ثابتہ" کے مطابق گھڑا جا رہا ہے۔ تاکہ خدا کی کتاب پر "تاریکِ دور" کی کتاب ہونے کا الزام نہ لگ سکے۔۔فانا لله

انسان و حیوان میں اساسی فروق و امتیازات:

الغرض یہ تمام تر ذہنی اپج ڈارون کے نظریہ ارتقاء پر ایمان لے آنے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ جو شخص قرآن پاک کا مطالعہ خارجی افکار و نظریات سے بالاتر ہو کر اس نیت سے کرے گا کہ قرآن پاک سے ہدایت کا طلبگار ہو گا۔۔۔نہ کہ الٹا قرآن مجید کو ہدایت دے گا۔۔۔تو وہ اس نتیجہ پرپہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے براہِ راست تخلیق (Direct Crealtion) کے ذریعہ اپنے دستِ مبارک سے پیدا فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قالَ يـٰإِبليسُ ما مَنَعَكَ أَن تَسجُدَ لِما خَلَقتُ بِيَدَىَّ...﴿٧٥﴾... سورة ص

"(اللہ رب العزت نے) فرمایا، اے ابلیس، جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا"

حضرت آدم علیہ السلام جو اصل البشر اور اول البشر تھے، کسی مرحلے اور کسی منزل میں بھی، کسی غیر انسانی (نباتاتی یا حیوانی) یا نیم انسانی حالت میں سے نہیں گزرے، جیسا کہ مسٹر پرویز ایسے متجددین کا خیال ہے۔۔۔یہ تو ممکن ہے کہ کسی وقت حضرت آدم علیہ السلام، اکیلے، تنہا اور واحد فرد ہوں جو بیوی سے مجرد ہو کر زندگی کا کچھ حصہ گزر چکے ہوں، مگر یہ کہ وہ انسانی حالت سے ہی باہر ہوں، قرآن مجید سے یہ قطعا اور ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔ وجود آدم سے اس کی بیوی کا وجود مشتق ہوا۔۔اور یہ جیسے اور جس طرح بھی ہوا، آدم اور اس کی بییو کی زندگی بہرحال روز اول ہی سے مکمل انسانی حالت میں بسر ہوئی اور اسی حالت میں ان دونوں سے نسلِ انسانی کا سلسلہ آغاز پذیر ہوا۔ ورنہ انسان کی انسانی زندگی میں اور حیوان کی حیوانی زندگی میں جو اساسی فروق و امتیازات واقع ہوئے ہیں وہ کسی سٹیج پر تو ضرور ہی ختم ہو جاتے۔ لیکن اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی اور حیوانی زندگی کے یہ امتیازات، انسان کی پست ترین انسانی حالت، اور حیوانات کی انتہائی ترقی یافتہ شکل میں بھی واضح تغائر و تبائن کے ساتھ ہمیشہ برقرار رہے ہیں۔ مثلا انسان خواہ کتنا ہی وحسشی، پسماندہ اور غیر متمدن ہو، ہر دور میں اس کے اندر شرم و حیا کا وہ مادہ موجود رہا ہے جس کی بناء پر وہ اپنے اعضاء جنسی کو مستور رکھنے اور فعلِ مجامعت کو خلوت میں انجام دینے کا اہتمام کرتا رہا ہے۔ جبکہ حیوانات کی کسی انتہائی ترقی یافتہ قسم میں بھی ایسا جذبہ حیات آج تک نہیں پایا گیا۔۔کسی نصب العین کے تحت زندگی بسر کرنے کا داعیہ (جسے آپ مذہبی داعیہ بھی کہہ سکتے ہیں) ہمیشہ اور ہر جگہ غیر متشقف اور غیر متمدن، انتہائی پست سطح کے انسانون تک میں پایا گیا ہے، جبکہ حیوانات میں (خواہ وہ کتنے ہی ارتقاء یافتہ ہوں) ایسے داعیے کا وجود تک کبھی اور کسی جگہ بھی دیکھنے میں نہیں آیا اسی طرح انسان خواہ کتنا ہی پسماندہ اور وحشت زدہ ہو، اس کے ارادی اور غیر ارادی افعال میں ہمیشہ فرق کیا گیا ہے اور اسی بناء پر اس کا اخلاقی نظام استوار رہا ہے، لیکن حیوانات کی دنیا میں ارادی اور غیر ارادی افعال کی یہ تقسیم کبھی نہیں کی گئی اور اس بناء پر حیوانات کے لیے کسی اخلاقی نظام کے وجود کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔علاوہ ازیں انسان کی ادنیٰ ترین معاشرتی اور تمدنی زندگی میں بھی، اس کی وہ قوتِ ایجاد و اختراع اس میں موجود اور برقرار رہی ہے، جو تمدنی ذرائع و وسائل میں عروج و ارتقاء کا سبب بنتی رہی ہے، لیکن حیوانات کی کسی اعلیٰ و بالاترین نوع میں بھی اس کے آثار و علائم نظر نہیں آتے۔۔۔پھر انسان و حیوان کی زندگی میں ایک بڑا بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ انسان خواہ کتنے ہی پسماندہ اور جاہل ترین دور میں سے گزرا ہو، وہ اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے، الفاظ اور اسلوبِ گفتگو میں ایک ایسا نکھرا ہوا انداز اختیار کرتا رہا ہے جس کو حیوانات (خواہ ارتقاء و عروج کی کتنی ہی اعلیٰ منازل میں ہوں) کی صوت و پکار سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔

ان تمام امور پر غور وتدبر کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان، اپنی تاریخ کے کسی دور میں بھی حیوانی اور غیر انسانی سطح پر نہیں رہا،بلکہ دونوں کے درمیان (کم از کم) ان متذکرہ امور کی حد تک ہمیشہ فرق و امتیاز پایا جاتا رہا ہے۔

ایک سوال:

مقامِ غور و تدبر ہے کہ انسان کا سلسلہ حسب و نسب، حیوانات سے جوڑنے والے لوگ، بہرحال اس بات کے تو قائل ہیں ہی کہ حیوانات میں سے اولین حیوان، اللہ رب العزت کے براہِ راست عملِ تخلیق (Direct Creation) کا نتیجہ ہے، لہذا قرآنی حقائق کو "عقل و دانش" کی میزان میں تول کر پیش کرنے والے ان "دانشوروں" سے ہمارا استفسار یہ ہے کہ آیا نوعِ انسان کے اولین فرد کی پیدائش کو براہِ راست تخلیق کا نتیجہ قرار دے کر اس سے تناسل کا سلسلہ جاری کر دینا زیادہ قرینِ عقل و دانش (Rational) معلوم ہوتا ہے، یا صاحبِ وقار و تکریم حضرتِ انسان کو تمام مخلوقاتِ حیوانیہ و نباتیہ کے ساتھ، ایک جانور کی نسل قرار دینا؟ ۔۔(جاری ہے)


حاشیہ

1. مسٹر پرویز نے "خلقناكم" اور "صورناكم"قلنا" کے الفاظ کے درمیان واقع "ثم" (پھر) کے لفظ کو ترتیبِ بیان پر محمول کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ آدم کے مسجودِ ملائکہ قرار پانے سے قبل، اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں انسانوں کی خلق و تصویر واقع ہو چکی تھی۔ یہ نتیجہ بجائے خود بھی غلط ہے اور جس بنیاد پر یہ استنتاج کیا گیا ہے (یعنی یہ کہ "ثم" ترتیبِ بیان کے لیے ہی ہوتا ہے) وہ بھی صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ "ثم" کا لفظ ضروری نہیں کہ ترتیبِ بیان ہی کے لیے ہو، خود پرویز نے ایک مقام پر یہ لکھا ہے کہ:

" ثم" حرف ہے اور عام طور پر اس مقام پر آتا ہے جہاں کوئی ترتیب بیان کرنا مقصود ہو۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ "پہلے اس نے کھانا کھایا پھر پانی پیا۔"لیکن ضروری نہیں کہ یہ ہر جگہ ترتیب (پھر) کے معنوں ہی میں استعمال ہو۔" (تفسیر مطالب الفرقان ج1 ص 353)

2. تفسیر کشاف میں ہے:﴿وَلَقَد خَلَقنـٰكُم ثُمَّ صَوَّر‌نـٰكُم یعنی خلقنا ایاکم ادم طینا غیر مصور ثم صورنا ہ بعد ذلک"(الکشاف للامام محمود بن عمر الزمخشری)