فتاویٰ جات

کیا معتکف مسجد سے باہر نکل کر غسل ٹھنڈک کر سکتا ہے؟

فریضہ حج اور عدتِ وفات جمع ہو جانے کی صورت میں کسے مقدم کیا جائے گا؟

تقسیمِ وراثت کا ایک مسئلہ اور اس کا حل

جناب ثناءاللہ بھٹی، اسلام پورہ لاہور سے لکھتے ہیں:

"کیا فرماتے ہیں علمائے دینِ متین و مفتیان شرع مبین درج ذیل مسائل میں کہ:

1۔ اعتکافِ مسنون میں معتکف کے لیے غسلِ واجب کے لیے مسجد سے خروج جائز ہے یا نہیں؟ ۔۔۔ایسے خروج میں اعتکاف پر کیا اثر پڑتا ہے؟ ۔۔۔آیا سابقہ اعتکاف بھی فاسد ہو جاتا ہے یا محض خروج کے وقت کا؟

2۔ پچاس سالہ ایک عورت حج پر جانا چاہتی ہے۔ قبل از سفرِ حج، قضائے الہی سے اس کا شوہر انتقال کر جاتا ہے۔ اب وہ عدتِ وفات پوری کرے یا حج پر چلی جائے؟

الجواب بعون الوھاب

 

(1)


شرع میں اعتکاف، مخصوص شخص کا، مخصوص صفت کے ساتھ مسجد میں ٹھہرے رہنے کا نام ہے۔ قرآن مجید میں "﴿وَأَنتُم عـٰكِفونَ فِى المَسـٰجِدِ﴾" (ظرفیت) کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا وجود شرط ہے۔ اس بناء پر بلا حاجاتِ ضروریہ (پیشابِ پاخانہ، غسلِ جنابت، وضو وغیرہ) مسجد سے نکلنا ناجائز ہے۔

صحیح بخاری میں ایک باب بایں الفاظ منعقد ہوا ہے:

"باب غسل المعتكف"

فتح الباری میں ہے:

"اَى هٰذَا بَابٌ فِى بَيَانِ غُسْلِ الْمُعْتَكِفِ يَعْنى يَجُوزُ وَلَمْ يَذْكُرِ الْحُكْمِ اِكْتِفَاءً بِمَافِى الْحَدِيْثِ"

یعنی یہ باب اعتکاف بیٹھنے والے کے لیے اعضاء کے دھونے کے جواز کا ہے۔ اور جو کچھ حدیث میں ہے، اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے ترجمہ میں حکم بیان نہیں ہوا۔

عمدۃ القاری میں ہے کہ: "معتکف کے لیے اعضاء کو دھونا جائز ہے۔"

قسطلانی میں برمادی اور کرمانی، دونوں سے نقل کیا گیا ہے کہ "لفظ "غسل" غین کے فتحہ (زبر) کے ساتھ ہے، ضمہ (پیش) کے ساتھ نہیں" ۔۔پھر علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یونینی نسخہ میں ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں رفع (پیش) بھی ثابت ہے۔

مولانا وحید الزماں رحمۃ اللہ علیہ نے تیسیر الباری میں تبویب ہذا کا ترجمہ یوں کیا ہے: "اعتکاف والا سر یا بدن دھو سکتا ہے" ۔۔مصنف نے اس ترجمہ کے تحت جو حدیث نقل کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:

«كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يُبَاشِرُنِي وَأَنَا حَائِضٌ وَكَانَ يَخْرُجُ رَأْسَهُ مِنَ الْمَسْجِدِ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ فَاَغْسِلُهُ وَاَنَا حَائِضٌ»

"(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے جسم کے ساتھ جسم لگاتے اور میں حیض والی ہوتی تھی ۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک اعتکاف کی حالت میں مسجد سے (گھر اور مسجد کے درمیان ایک کھڑکی میں سے) باہر نکالتے تو میں اسے دھوتی اور میں حیض والی ہوتی تھی"

صحیح بخاری کی ایک دوسری تبویب یوں ہے:

"باب الحائض ترجل راس المعتكف"

یعنی حائضہ عورت کے لیے معتکف کے سر میں کنگھی کرنا جائز ہے۔

پھر بسندہ حدیث بیان کرتے ہیں:

«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْغِي إِلَيَّ رَأْسَهُ وَهُوَ مُجَاوِرٌ فِي الْمَسْجِدِ ، فَأُرَجِّلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ»

(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف اپنا سر مبارک جھکاتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کنگھی کرتی، اس حالت میں کہ میں حائضہ ہوتی تھی۔"

حدیث ہذا کے تحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:

"اس حدیث میں کنگھی کے ساتھ درج ذیل امور کا بھی جواز ہے:

صفائی اختیار کرنا، خوشبو لگانا، غسل کرنا، بال منڈانا، زینت اختیار کرنا۔

ایک تیسری تبویب مصنف نے بایں الفاظ قائم کی ہے:

"وَكَانَ لَا يَدْخُلُ البَيْتَ اِلَّا لِحَاجَةٍ"

جب کہ صحیح مسلم میں "حاجة الانسان" کے الفاظ ہیں۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے "حاجة" کی تفسیر "پیشاب" ، "پاخانہ" کے ساتھ کی ہے۔ البتہ دیگر علماء نے بعض اور مستثنیات کا بھی ذکر کیا ہے، اگرچہ وہ مختلف فیہ ہیں۔

المجموع میں ہے:

"جائز ہے کہ معتکف اپنا سر اور پاؤں مسجد سے باہر نکالے یا طبعی حاجات کے لیے مسجد سے نکلے۔ تو اس حدیث کی بناء پر اعتکاف باطل نہیں ہو گا۔ اور اگر بلاعذر کے مسجد سے نکل گیا تو اعتکاف باطل ہے۔ اس لیے کہ اس نے وہ فعل کیا ہے جو اعتکاف کے منافی ہے، وہ ہے مسجد میں ٹھہرے رہنا"

لیکن جہاں تک محض ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کا تعلق ہے تو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آج تک کسی نے غیر واجب غسل کو مسجد سے نکل کر کرنے کے جواز کا فتویٰ دیا ہو یا وہ اس کا قائل ہو، لہذا جواز کی بات ناممکن نظر آتی ہے۔ اگر کوئی ایسا کر گزرے تو اس سلسلہ میں مغنی المحتاج میں تفصیل موجود ہے۔

جس کا ماحصل یہ ہے کہ:

اگر یہ اعتکاف نفلی ہے تو اعتکاف کا پہلا جزء باطل نہیں ہو گا۔ اور اگر یہ واجب ہے جس میں تتابع شرط ہے تو یہ باطل ہے، نئے سرے سے پھر اعتکا کرنا پڑے گا۔ اور اگر وجوب کے باوجود تتابع شرط نہیں تو پہلا اعتکاف باقی ہے۔

واضح رہے کہ مسجد کے اندر رہ کر غسلِ ٹھنڈک میں کوئی حرج نہیں۔

(2)


صورت مسئولہ میں دو واجب جمع ہوئے ہیں:

1۔ عدتِ وفات پوری کرنا۔

2۔ فریضہ حج کی ادائیگی۔

واجبین میں سے عدتِ وفات کا تعلق "واجبِ مضیق" سے ہے، جب کہ حج کا تعلق "واجبِ موسع" سے ہے۔ "واجب مضیق" وہ ہے کہ جس کا وقت محدود ہو اور یہ دوسرے وقت میں کرنا ناممکن ہو۔

اور"واجبِ موسع" وہ ہے کہ جس کے وقت میں وسعت ہو اور اس کی ادائیگی دوسرے وقت میں ممکن ہو۔ عدتِ وفات کا تعلق "واجبِ مضیق" سے ہے، اس لیے کہ کسی دوسرے وقت میں اسے پورا کرنا ناممکن ہے۔ جب کہ حج کا تعلق "واجبِ موسع" سے ہے، جو بعد میں بھی ادا ہو سکتا ہے۔ اندریں صورت، اہل اصول کے ہاں یہ بات مسلم ہے کہ واجبِ مضیق کو واجبِ موسع پر مقدم کیا جاتا ہے۔ لہذا مذکورہ عورت پہلے عدت پوری کرے گی اور پھر حج کی ادائیگی کی سعی کرے گی۔

قرآن مجید میں ہے:

﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا...﴿٢٣٤﴾... سورة البقرة

"اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جاتے اور بیویوں کو چھوڑ جاتے ہیں تو وہ چار ماہ دس دن انتظار کریں"

فقیہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"ولا تخرج الى الحج فى عدة الوفاة نص عليه احمد"(المغنى جزء 3ص340)

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح کی ہے کہ عورت، عدتِ وفات میں حج کے لیے نہ جائے"

واضح ہو کہ عمر کے اعتبار سے عورت چاہے اوائل میں ہو یا اواخر میں، نفسِ مسئلہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ عدت ہر حالت میں حق العبد اور حق اللہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(3)۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جناب خالد محمود شالا مار ٹاؤن لاہور سے لکھتے ہیں:

"مکرمی جناب مولانا صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مسمی حاجی محمد طفیل مورخہ 26 جولائی 75ء کو وفات پا گئے۔ ان کا کل ترکہ زمین 2 کنال 2 مرلے تھا۔ اس وقت ان کے وارثان مندرجہ ذیل تھے:

1۔ بیوہ حاجی محمد طفیل (مسماۃ اللہ دتی)

2۔ خالد محمود 3۔ ارشد محمود (پسران حاجی محمد طفیل)

4۔ مسماۃ شمیم اختر 5۔ مسماۃ رشیدہ بیگم 6۔ امت الحفیظ 7۔ ممتاز بیگم 8۔ ریاض بیگم 9۔ سرور سلطانہ (دختران حاجی محمد طفیل)

ان میں سے مسمیٰ ارشد محمود مورخہ یکم جون 1983ء کو فوت ہو گئے۔ ان کے وارثان حسبِ ذیل تھے:

1۔ بیوی حاجی محمد طفیل (والدہ)

2۔ مسماۃ اسماء رانی (بیوہ)

3۔ سلیمان محمود (پسر)

4۔ مسماۃ ثناء ارشد (دختر)

جبکہ بیوی حاجی محمد طفیل مورخہ 19 جولائی 86ء کو اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئیں۔ اندریں حالات حاجی محمد طفیل مرحوم کی جائیداد میں سے مندرجہ بالا وارثان کے شرعی حصے کی تفصیل کیا ہو گی؟ نیز کیا ارشد محمود کی اولاد دادی کی وارث ہو گی یا نہیں، جبکہ اس کی حقیقی اولاد موجود ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب سے مطلع فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ والسلام"

دستخط مع تاریخ (23 جون 88ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

الجواب بعون الوھاب


صورتِ مرقومہ میں بیوہ حاجی محمد طفیل مسماۃ اللہ دتی کے لیے کل ترکہ 8/1 حصہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے"﴿فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ﴾" یعنی اگر تمہاری اولاد ہے تو بیویوں کے لیے ترکہ سے آٹھواں حصہ ہے۔

اور باقی جائیداد حاجی صاحب مرحوم کی اولاد میں "﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ﴾ " یعنی "ایک لڑکے کا حصۃ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے" کے اصول کے تحت تقسیم ہو گی۔

بصورتِ نقشہ تفصٰل تقسیمِ ترکہ ملاحظہ فرمائیں:

(نقشہ پی ڈی ایف کے صفحہ 29 پر موجود ہے)

نیز صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ ارشد محمود کی وفات اپنی والدہ سے قبل ہوئی ہے۔ لہذا وہ اپنی والدہ کا وارث نہ ہوا۔ جب وہ بذاتِ خود وارث نہ بن سکا تو اس کی اولاد بھی دادی کی جائیداد سے حصہ دار نہیں ہو گی، جبکہ میت کی صلبی (حقیقی) اولاد لڑکا اور لڑکیاں بھی موجود ہیں۔ علمِ میراث کا مسلمہ اصول ہے: "الاقرب فالاقرب" یعنی "قریبی کی موجودگی میں دُور والا وارث نہیں بنتا۔"

مذکورہ بالا اصول کے تحت بیوہ حاجی محمد طفیل کا کل ترکہ اس کی صلبی (حقیقی) اولاد میں تقسیم ہو گا۔