نفاذِ شریعت آرڈی نینس 1988ء
اہل حدیث مدارس لاہور کے اساتذہ اور طلباء پر مشتمل اجتماع سے مدیر محدث کا خطاب
اسلام کی مثال اس شجرہ طیبہ کی سی ہے کہ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہری، انتہائی مضبوط ہوں اور شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں۔۔۔پھر یہ درخت ہر وقت اور ہر موسم میں ثمربار بھی رہے کہ جس کے پھل کبھی ختم ہونے میں نہ آئیں۔۔۔چنانچہ نخلِ اسلام کی آبیاری حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اپنے خون پسینہ سے کی، تاآنکہ یہ ایک تناور درخت بن گیا اور اقطارِ عالم میں بسنے والے جملہ افرادِ انسانیت نے بلاتفریق، مذہب و ملت اس کے پھل کھائے۔۔۔کسی نہ کسی رنگ میں، چاہنے نہ چاہنے کے باوجود، بہرحال وہ اس سے شاد کام ہوئے۔۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ أَلَم تَرَ كَيفَ ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصلُها ثابِتٌ وَفَرعُها فِى السَّماءِ ﴿٢٤﴾تُؤتى أُكُلَها كُلَّ حينٍ بِإِذنِ رَبِّها وَيَضرِبُ اللَّـهُ الأَمثالَ لِلنّاسِ لَعَلَّهُم يَتَذَكَّرونَ ﴿٢٥﴾... سورة ابراهيم
تاہم مخالفینِ اسلام کو، اسلام کی یہ عظمت ایک آنکھ نہ بھائی اور وہ اس کوشش میں لگ گئے کہ اسلام کے مقابلے میں متعدد ایسے ازموں اور نظاموں سے لوگوں کو متعارف کرایا جائے کہ جو انسانوں کی اپنی ذہنی کوششوں کا نتیجہ تھے۔
لیکن مخلوق کے بنائے ہوئے یہ نظام، خالق کے بنائے ہوئے نظام کے سامنے نہ ٹک سکے، چنانچہ ان کی ناپائیداری کی مثال ایک ایسے درخت سے دی جا سکتی ہے کہ جسے زمین کے اوپر ہی اوپر رکھ دیا گیا ہو اور اس کے قرار و ثبات کی خواہ کتنی بھی کوششیں کی جائیں، وہ ہر آن اپنی ٹہنیوں کے بل زمین پر آ رہتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبيثَةٍ اجتُثَّت مِن فَوقِ الأَرضِ ما لَها مِن قَرارٍ ﴿٢٦﴾... سورة ابراهيم
اسلامیانِ پاکستان کی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ ان کی کوتاہ بین نگاہیں اسلام کے شجرہ طیبہ کی بلندی کا تعاقب نہ کر سکیں، تو مخالفینِ اسلام کے ترتیب شدہ، زمین پر گرے پڑے یہ اشجارِ خبیثہ ہی ان کی توجہ کا مرکز و محور بن گئے۔۔۔ مسلمان ہونے کے ناطے چونکہ شجرِ اسلام کے ثمرات شیریں کا ذائقہ بھی ان کی مجبوری ہے، اس لیے اس کے بعض پھلون کو وہ ان ناپاک درختوں کی ٹہنیوں سے چپکانے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ شائد یہ رنگ لائیں، لیکن یہ درخت ان پھلوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نتیجۃ یہ گل سڑ کر خود شجرِ اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔۔۔ عرصہ چالیس سال سے اسلامیانِ پاکستان اس صریح غلطی کا شکار ہیں اور منزل ان سے دور، مزید دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔۔۔وہ نام اسلام کا لیتے ہیں، لیکن اس کے مرجع و مصدر کتاب و سنت پر اکتفاء انہیں گوارا نہیں، ہاں ان کی زیادہ تر توجہ کا مرکز وہ وضعی نظام ہیں کہ جنہیں اسلام سے کچھ نسبت ہی نہیں۔۔۔ آہ، وہ نہیں جانتے کہ اسلامی اور غیر اسلامی نظریات کا یہ ملغوبہ ہی ان کی محرومیوں کا باعث ہے۔۔۔ کیونکہ اسلام وہ خالص دین ہے کہ جو اپنے ساتھ کسی بھی دیگر وضعی نظام کی شرکت گوارا نہیں کرتا۔۔۔پس "﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً﴾" کے حکمِ قرآنی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اسلام کی اپنی اصلی اور کامل و اکمل صورت میں ہی اسے اپنا لینا، مسلمان کی دنیا و آخرت کی سرفرازیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر اس " ﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ﴾" کی غلط روش اپنالی ہے، تو اس کا نتیجہ "﴿ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الْعَذَابِ﴾" یعنی "دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذابِ الیم" کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔
حالیہ شریعت آرڈیننس بھی اسلامیانِ پاکستان کی انہی مساعی نامشکور کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں۔۔۔تاہم اس میں ہمارے لیے دعوتِ فکر و عمل بھی موجود ہے۔۔۔مدیرِ محدث نے 7 جولائی 1988ء کو ایک اجتماع سے، جو اہل حدیث مدارس (لاہور) کے اساتذہ اور طلباء پر مشتمل تھا، خطاب کرتے ہوئے اسی پس منظر میں شریعت آرڈی نینس پر تبصرہ رمایا ہے، جس کا متن استفادہ کے لیے ہدیہ قارئین ہے۔
تلاوتِ قرآن پاک اور خطبہ مسنونہ کے بعد:
"حالیہ شریعت آرڈیننس، جس کا متن آپ اخبارات میں پڑھ چکے ہیں، کے سلسلہ میں سب سے پہلا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ یہ آرڈی نینس اسلام کے نام پر نافذ کیا گیا ہے۔۔۔اسلام کا تصورِ نفاذ کیا ہے؟ اس کے بارے میں بیشتر مواقع پر، اور بالخصوص اپنے خطباتِ جمعہ میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ اسلام کو آج نئے سرے سے نافذ کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ اسی دن اور اسی وقت سے نافذ ہے جب انسانیت نے روئے زمین پر اپنا پہلا قدم رکھا تھا۔ چنانچہ اس وقت جو تعلیمات ابوالبشر حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو دی گئی تھیں، وہ اسلام ہی کی تعلیمات تھیں۔۔۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ﴿٣٨﴾... سورةالبقرة
"ہم (اللہ رب العزت) نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ، اب میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے گی (تو اس کی اتباع کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی اتباع کی تو انہیں نہ تو کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ ہی وہ غمناک ہوں گے"
اس آیت کریمہ میں ہدایت سے مراد اسلام ہی ہے، جو اول روز سے نافذ ہو گیا تھا اور جس کی تکمیل شریعتِ محمدیہ (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کی صورت میں ہوئی۔۔۔شریعتِ محمدیہ ایک ایسی عالمگیر شریعت ہے جو کسی خاص زمانہ سے مخصوص نہیں، بلکہ یہ ہر زمان و مکان کی قید سے ماوراء ہے اور رہتی دنیا تک امت کے لیے راہنما۔۔۔کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوالیس ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتماع میں یہ اعلان ہوا:
﴿ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند فرما لیا ہے"
پس آج سے چودہ صدیاں قبل دینِ اسلام کی تکمیل اور شریعتِ محمدی کے اتمام کا یہ تقاضا ہے کہ زمان و مکان کی قید سے ماوراء رہتی دنیا تک اس کے اوامر و نواہی ہر دور میں انسانیت کے لیے راہنما ہوں، اس میں نہ تو کسی کمی کی گنجائش موجود ہو اور نہ زیادتی کی۔۔۔شریعتِ محمدیہ نہ تو منسوخ ہو اور نہ ہی کسی تبدیلی کی متحمل ہو سکے۔۔۔ان دعاوی کے مزید ثبوت کے طور پر درج ذیل آیاتِ قرآنی ملاحظہ ہوں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰی شَرِیْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ﴿١٨﴾... سورةالجاثية
"پھر ہم نے (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم)، آپ کو دین کے کھلے رستے پر (قائم) کر دیا، تو اسی رستے پر چلتے رہئے اور بے علم لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیے"
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس شریعت کے اسی طرح پابند تھے، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گی، لہذا ضروری ہے کہ شریعت تاقیامت ہمارے لیے نافذ ہو، جبکہ تاقیامت اس کے نفاذ کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ یہ منسوخ نہ ہو۔
اسی طرح جہاں تک اس شریعت میں کسی کمی و بیشی کا تعلق ہے تو اس کا اختیار بھی کسی کو حاصل نہیں۔ حتیٰ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں۔۔۔چنانچہ بعض لوگوں نے جب یہ مطالبہ کیا کہ شریعت میں تھوڑی بہت تبدیلی ہونی چاہئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت کے فرمان کے بموجب یہ جواب دیا کہ میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا ۔۔۔ درج ذیل آیتِ قرآنی ملاحظہ ہو:
﴿وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ هٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُ ؕ قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ﴿١٥﴾... سورة يونس
"اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں، وہ کہتے ہیں کہ (یا تو) اس کے سوا کوئی اور قرآن (بنا) لاؤ یا اس کو بدل دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیجئے، مجھے اس کا اختیار نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں۔ (کیونکہ) میں تو اسی (علم) کا تابع ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے (سخت) دن کے عذاب سے خوف آتا ہے۔"
ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوا:
﴿وَلَو تَقَوَّلَ عَلَينا بَعضَ الأَقاويلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذنا مِنهُ بِاليَمينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعنا مِنهُ الوَتينَ ﴿٤٦﴾... سورةالحاقة
"اگر یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہماری نسبت کوئی غلط بات بناتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ان کی رگِ جان کاٹ ڈالتے"
مزید فرمایا:
﴿ما كانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤتِيَهُ اللَّهُ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقولَ لِلنّاسِ كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّهِ وَلـٰكِن كونوا رَبّـٰنِيّـۧنَ بِما كُنتُم تُعَلِّمونَ الكِتـٰبَ وَبِما كُنتُم تَدرُسونَ ﴿٧٩﴾... سورة آل عمران
"کسی بشر کو یہ لائق نہیں کہ اللہ رب العزت تو اسے کتاب، حکومت اور نبوت عطا فرمائیں، پھر وہ لوگوں سے یہ کہنے لگ جائے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، کیونکہ تم کتاب الہی پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو"
سورہ نجم کے شروع میں ارشاد ہوا:
﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ﴿٤﴾... سورةالنجم
"(یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم) خواہشِ نفس کے زیرِ اثر منہ سے بات نہیں نکالتے، بلکہ یہ تو وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے"
یہ تمام آیاتِ قرآنی اس امر پر شاہد ہیں کہ شریعتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام) میں کوئی کمی بیشی ممکن نہیں۔ اور جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ یہ پہلے سے نافذ ہو۔ چنانچہ آج نئے سرے سے اس کو نافذ کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ البقرۃ کی ابتداء میں یہ ارشاد ہوا:
﴿ذٰلِكَ الكِتـٰبُ لا رَيبَ فيهِ هُدًى لِلمُتَّقينَ ﴿٢﴾... سورة البقرة
"یہ کتاب، اس میں کچھ شک نہیں۔۔۔"
لفظِ "کتاب" قابلِ غور ہے ۔۔۔ اردو محاورہ میں اگرچہ کتاب اس چیز کو کہتے ہیں جو لکھی ہوئی، مجلد صورت میں موجود ہو۔ لیکن قرآنِ مجید کی اصطلاح میں لفظِ کتاب کا مفہوم سمجھنے کا نزول نہ تو ابھی مکمل ہوا تھا اور نہ ہی یہ کتابی صورت میں موجود تھا۔بلکہ اس کی چھیاسی سورتیں کھجور کی چھال، شانے کی ہڈیوں وغیرہ پر متفرق اجزاء کی شکل میں موجود تھیں۔۔۔اسے سب سے پہلے جمع کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ ان متفرق اشیاء پر تحریر تو ہو رہا تھا، لیکن جمع نہیں ہوا تھا۔۔بایں ہمہ اگر اسے "الکتاب" کہہ کر پکارا گیا تو یہ ایک قانونی اصطلاح ہے، جس کے معنیٰ "شریعت" اور اس کی "فرضیت و نفاذ" کے ہیں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، جو نبی اور رسول ہونے کے ساتھ ساتھ حکمران بھی تھے، یہی قرآن مجید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا۔
واضح رہے کہ "قرآن" ایک وصفی نام ہے جو اس کی تلاوت کیے جانے کی مناسبت سے ہے۔ جبکہ لفظِ "کتاب" قرآن مجید کے نفاذ پر دلالت کرتا ہے۔ مثلا قرآن مجید ہی میں درج ذیل الفاظ وارد ہوئے ہیں:
﴿كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ...﴿١٨٣﴾... سورة البقرة
"تم پر روزہ رکھنا فرض قرار دیا گیا (یا روزے کا نفاذ ہو گیا)"
﴿كُتِبَ عَلَيكُمُ القِصاصُ...﴿١٧٨﴾... سورة البقرة
"تم پر قصاص فرض کر دیا گیا"
﴿كُتِبَ عَلَيكُم إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوتُ إِن تَرَكَ خَيرًا الوَصِيَّةُ...﴿١٨٠﴾... سورة البقرة
"تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے تو وصیت کرے"
مؤخر الذکر آیت کی تلاوت کے جاری رہنے، لیکن حکم کے اعتبار سے اس کے باقی رہنے یا منسوخ ہونے سے قطع نظر، کہنے کا مقصود یہ ہے کہ عبادات، معاملات، حدود وغیرہ کا نفاذ ہو چکا۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ہم نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور دیگر عبادات کے ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح نکلاح و طلاق وغیرہ مسائل کے پابند۔۔۔ اگر شریعت پہلے سے نافذ نہ ہو تو اس ذمہ داری اور پابندی کے کوئی معنی ہی نہیں۔ چنانچہ حدودِ الہی کا معاملہ بھی انہی عبادات و معاملات کا سا ہے۔۔۔آج اگر ان پر عمل نہیں ہو رہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حدود و تعزیرات پہلے سے نافذ نہیں ہیں، بلکہ اصل مسئلہ ان پر عملدرآمد کا ہے۔۔۔ الغرض نفاذِ اسلام ہو چکا، اب مقصود صرف شریعت کی عملداری ہے جو ایک اسلامی حکومت کا فرضِ اولیں ہے۔۔۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَرضِ أَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ...﴿٤١﴾... سورةالحج
جبکہ اس سے قبل یہ الفاظ بھی موجود ہیں۔
﴿وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ...﴿٤٠﴾... سورة الحج
ترجمہ یہ کہ "جو شخص اللہ (کے دین) کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد فرماتے ہیں، یعنی ان لوگوں کی کہ جنہیں ہم (اللہ رب العزت) تمکن فی الارض عطا فرمائیں تو وہ نماز قائم کرتے، زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے، نیکی کا حکم کرتے اور برائی سے منع کرتے ہیں"
پس ایک مسلمان، خواہ وہ حاکم ہو یا محکوم، جب کلمہ توحید پڑھ کر اللہ کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کر کے اس کا اعلان کرتا ہے تو شریعت کا نفاذ اسی وقت، خود بخود اس پر ہو جاتا ہے۔ اب یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ساری الجھنیں دور کر کے، تمام بندشیں توڑ کر، جملہ رکاوٹیں عبور کر کے اور ہر قسم کے اص و اغلال (بندشیں اور بیڑیاں) اتار کر اس مشن کو اپنا مشن سمجھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔۔لیکن آج ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے کہ مروجہ تصورِ قانون کے مطابق پہلے شریعت بنائی جاتی ہے، پھر اس کا نفاذ ہوتا ہے۔۔۔یہ تصور، بناوٹی قانون کا تصور ہے، شرعی تصور نہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ آج یہی بناوٹی قانون کا تصور ہمارے لیے اصر و اغلال کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، جسے شریعت کی رو سے اتارنا ضروری ہے، نہ کہ اسے اپنے گلے کا ہار بنا لینا، جو کہ یہود و نصاریٰ کا شیوہ تھا۔
اسی سلسلہ کا ایک دوسرا پہلو بھی قابلِ غور ہے۔ اور وہ یہ کہ جب شریعت مکمل بھی ہے اور اس کا نفاذ بھی ہو چکا، تو پھر یہ نہیں ہو گا کہ اس کی بعض چیزیں لے لی جائیں اور بعض کو چھوڑ دیا جائے۔ جیسا کہ آج کل شریعت کے بتدریج نفاذ کی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ حالانکہ یہ بھی یہودیانہ طرزِ عمل کا خاصہ ہے، اور اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اس پر سرزنش بھی فرمائی ہے:
﴿أَفَتُؤمِنونَ بِبَعضِ الكِتـٰبِ وَتَكفُرونَ بِبَعضٍ فَما جَزاءُ مَن يَفعَلُ ذٰلِكَ مِنكُم إِلّا خِزىٌ فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا وَيَومَ القِيـٰمَةِ يُرَدّونَ إِلىٰ أَشَدِّ العَذابِ... ﴿٨٥﴾... سورةالبقرة
"تم کتابِ (الہی) کے بعض احکام تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کیے دیتے ہو، تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں، ان کی سزا اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور روزِ قیامت سخت عذاب میں ڈال دیے جائیں"
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں اکتالیس سال سے نفاذِ شریعت کا نعرہ لگ رہا ہے۔ اور گزشتہ گیارہ سال سے تو یہ نعرہ زوروں پر ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟ رسوائی اور صرف رسوائی۔۔۔کیوں نہ ہو، یہ اللہ رب العزت کا فیصلہ ہے کہ شریعت پر اگر صحیح معنوں میں عمل پیرا نہ ہوا جائے گا تو اس کا یہی نتیجہ نکلے گا۔۔۔چنانچہ ملک میں جب بھی نفاذ شریعت کی بات ہوئی، ہم نے پہلی غلطی تو یہ کی کہ احکامِ اسلام کے نام پر شریعت بنانی شروع کر دی۔ اور جس کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے کہ جو پھلوں کے حصول کے لیے کیس ثمربار درخت کی طرف رجوع کرنے یا بیج ڈال کر کسی درخت کو پھلنے پھولنے کا موقع دینے کی بجائے۔ مختلف پھلوں کو کسی درخت کی ٹہنیوں کے ساتھ چپکانا شروع کر دے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی درخت ان پھلوں کو قبول نہیں کرے گا۔۔۔نہ تو کوئی درخت یوں ثمربار ہوتا ہے اور نہ ہی یہ پھل گلنے سڑنے سے محفوظ رہ سکیں گے 1۔۔۔اور دوسری غلطی ہم یہ کرتے ہیں کہ شریعت سازی کا "مقدس فریضہ" انجام دینے کے بعد ہم اس تیار شدہ شریعت کا نفاذ بھی وضعی احکام کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔آج جتنے بھی ذیلی قوانین اور آرڈی نینس وغیرہ آ رہے ہیں، ان سب کی یہی حیثیت ہے۔۔۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شریعت کو پہلے سے نافذ مان کر، اس کے منای جتنے بھی وضعی قوانین تھے، انہیں باطل قرار دے دیا جاتا، لیکن الٹا جب انہی کے ذریعے ہم نے شریعت کو نافذ کرنا چاہا تو یہی قوانین شریعت کی عملداری میں بری طرح حائل ہو کر اس پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کرنے لگے، جس کی بناء پر عملا شریعت معطل ہو کر رہ گئی ہے۔
آپ کو یاد ہو گا، سئہ 1980ء میں صدرِ مملکت نے زکوٰۃ کے نام پر ایک قانون کا نفاذ کیا، تو اس کے بالمقابل شیعوں نے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ ہم اس قانون کو نہیں مانتے، جس کے نتیجہ میں دوبارہ یہ اعلان ہوا کہ زکوٰہ کا یہ قانون میں نے نافذ کیا تھا، یہ کوئی خدائی حکم نہیں تھا۔ چنانچہ اب میں ہی ان لوگوں کو، جن کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کسی حاکم کو زکوٰۃ نہیں دیں گے، اس قانون سے مستثنیٰ کرتا ہوں۔ غور فرمائیے، کیا اسی نام نفاذِ شریعت ہے، اور کیا یہی اللہ کی حاکمیت ہے؟
افسوس کہ، اور تو اور رہے، وہ لوگ بھی جو کتاب و سنت کا نام لیتے نہیں تھکتے، آج یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ 1973ء کے دستور کو نافذ کیا جائے، کہ یہ امت کا اجماعی مسئلہ ہے۔ حالانکہ سارا بگاڑ تو یہیں پر ہے۔ مسلمان کا دستور صرف اور صرف کتاب و سنت ہے۔۔۔رہا 73ء کا دستور، تو اس میں اتنا بڑا فساد موجود ہے کہ اگر انہیں اس کا ادراک ہو جائے تو اس کا نام بھی نہ لیں۔۔۔اس کا بنیادی طور پر سیکولر ہونا تو ایک طرف رہا، اس میں جو دفعات مذہبی ہیں، ان میں ایک دفعہ 227 بھی ہے، اور جو اسلام کے نفاذ کا ایک پہلو کہی جاتی ہے۔ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی قانون اسلام کے منافی نہیں بنایا جائے گا۔۔۔گویا اس چھوٹے سے فقرے میں پہلی بات تو یہ غلط ہے کہ شریعت سازی کا اختیار اللہ رب العزت کے بجائے انسانوں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔ تاہم اگر اس بنیادی غلط تصور سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بظاہر اس کو اسلامی دفعہ مان بھی لیا جائے، تو ایک دوسری مصیبت یہ سامنے آتی ہے کہ جب شیعہ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو دستور کے اندر ترمیم کی گئی۔۔۔دفعہ 227 میں "قرآن و سنت کے احکام" کے الفاظ موجود تھے، اب اس دفعہ کی پہلی وضاحتی شق میں یہ کہا گیا کہ اس دفعہ میں قرآن و سنت کے محاورہ سے مراد قرآن و سنت کا وہ مفہوم ہو گا یا وہ تعبیر ہو گی جو ہر فرقہ کا اپنا اپنا مفہوم اور اپنی اپنی تعبیر ہو۔ یعنی قرآن و سنت کی تعریف، ہر فرقے کی اپنی اپنی فقہ ہے۔ گویا پہلا ساد اس وضاحتی شق میں یہ ہے کہ قرآن و سنت سے مراد وحی نہیں بلکہ قرآن و سنت کا مفہوم ہے2 اور دوسرا فساد یہ کہ یہ تعبیر بھی متفقہ نہیں، بلکہ ہر فرقے کی اپنی اپنی تعبیر قرآن و سنت کہلائے گی۔ اور دستور میں جہاں کہیں بھی قرآن و سنت کا نام آئے گا، اس سے مراد خود قرآن و سنت نہیں ہوں گے۔ جو بالکل غلط ہے۔۔۔اس کے باوجود یہ اسلامی دستور ہے، امت کا اجماعی مسئلہ ہے۔ اور حیرت ہے کہ اہل حدیث بھی اس کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ فیا للعجب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تک ہم نے شریعت آرڈی نینس پر عمومی تبصرہ اس کے تصورِ نفاذ کی حیثیت سے کیا ہے، اب ہم براہِ راست اس پر گفتگو کرتے ہیں۔
1۔ اس آرڈینینس میں یہ کہا گیا ہے کہ قرآن و سنت سے مراد ہر فرقے کی اپنی اپنی فقہ ہو گی۔۔۔اصل الفاظ سنیے:
"تشریح: جیسا کہ دستور کے آرٹیکل 227 میں مرقوم ہے، کسی مسلم فرقہ کے کسی شخص قانون کے ضمن میں شریعت کی تشریح اور تعبیر میں "قرآن و سنت کی اصطلاح سے مراد اس مسلم فرقہ کے مطابق قرآن پاک اور سنت کی تشریح و تعبیر ہو گی۔"
۔۔۔قرآن و سنت کی مذکورہ تشریح قطعا غلط ہے اور چونکہ یہ تشریح دستور کی دفعہ 227 کا حوالہ دے کر کی گئی ہے،لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اس آرڈینینس نے شریعت کی تعریف بدلنے کے علاوہ 73ء کے دستور کے فساد کو مزید پختہ کر دیا ہے۔۔۔یوں قرآن و سنت کو ایک کھیل بنا دیا گیا ہے، کہ اب ہر شخص یہ کہہ سکتا ہے، میری فقہ قرآن و سنت ہے۔ کیونکہ قرآن و سنت کی یہ تشریح دستور کے علاوہ اس آرڈینینس کا بھی حصہ ہے۔
شریعت کی اس تشریح کے فساد کا اگر کچھ ازالہ مقصود ہوتا، تو کم از کم اس کے بعد شریعت کی تعری ہی ذرا واضح کر دی جاتی۔۔۔لیکن یہ تعریف یوں کی گئی ہے کہ:
"شریعت سے مراد وہ احکامِ اسلام ہیں جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہوں گے"
یعنی قرآن و سنت سے صرف ماخوذ۔۔۔جبکہ آخذ کون؟ عدالتیں، پارلیمنٹ، حکمران اور قانون دان۔۔۔گویا جو کچھ عدالت کہہ دے وہ شریعت ہو گی، پارلیمنٹ جو قانون بنائے وہ شریعت ہو گی۔۔۔حکمران اور قانون دان جو کچھ کہہ دیں وہ شریعت ہو گی۔۔کیا شریعت کی یہی تعریف ہے؟
شریعت بذریعہ وحی ملتی ہے، جبکہ وحی صرف اور صرف کتاب و سنت ہیں۔ چنانچہ شریعت کی یہی تعریف اس متفقہ ترمیمی شریعتِ بل میں کی گئی تھی جس پر تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے دستخط کیے تھے۔۔یعنی:
"شریعت سے مراد قرآن و سنت ہیں"
جبکہ اس سے قبل وہ شریعت بل، جو قاضی عبداللطیف اور مولانا سمیع الحق نے سینٹ میں پیش کیا تھا، اس میں اجتہاد، قیاس اور اجماع کو بھی شریعت کہا گیا تھا۔ جس پر ہم نے کئی مقالے لکھے اور جن میں سے ایک کا عنوان "فقہ کو شریعت قرار دینے کی جسارت" تھا۔۔۔الحمدللہ، کہ ہمارے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے جملہ مکاتبِ فکر، شریعت کی مذکورہ بالا تعریف پر متفق ہوئے اور جس کی بناء پر "متفقہ ترمیمی شریعت بل" تیار ہوا۔۔۔ہمیں بہت زیادہ گلہ ان لوگوں سے ہے جو "متحدہ شریعت محاذ" میں شامل ہوئے اور "متفقہ ترمیمی شریعت بل" پر ہمارے ساتھ دستخط کرنے کے باوجود نہ صرف اس عہد پر قائم نہ رہے، بلکہ آج یہی لوگ اس شریعت آرڈی نینس پر بھی دستخط کرنے والے ہیں جس میں شریعت کی تعریف کو چوں چوں کا مربہ بنا دیا گیا ہے۔۔۔اور شاید ان کی اسی "شریعت" کا یہ حکم تھا کہ انہوں نے متفقہ ترمیمی شریعت بل ہیں، شریعت کی تعریف "شریعت سے مراد قرآن و سنت ہیں" تسلیم کرنے کے باوجود، اس پر دستخط کرنے اور جامعہ نعیمیہ لاہور میں اس کے اعلانات، وعدے وعید، قراردادیں پاس کرنے اور پختہ عزائم کے اظہارِ حتیٰ کہ اس الٹی میٹم کے باوجود کہ "اگر متفقہ ترمیمی شریعت بل" منظور نہ کیا گیا تو تحریک چلائی جائے گی۔" یہ سب کچھ نہ صرف فراموش کر دیا بلکہ سینٹ میں نفاذِ شریعت بل پر ترامیم پیش کرتے وقت "متفقہ ترمیمی شریعت بل" میں موجود لفظ "راہنمائی" اڑا دیا۔۔۔واضح رہے کہ "متفقہ ترمیمی شریعت بل" میں شریعت کو صرف اور صرف قرآن و سنت میں منحصر کر کے، مجتہدین کے اجتہادات وغیرہ کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ شریعت کی تعبیر میں ان سے راہنمائی لی جائے گی۔ یعنی یہ اجتہادات خود شریعت نہیں ہیں۔ لیکن بعد میں اس طے شدہ مسئلہ سے انحراف کرتے ہوئے انہوں نے لفظ "راہنمائی" گول کر دیا۔ چنانچہ ترمیم یوں پیش کی کہ:
"قرآن و سنت کی تعبیر درج ذیل ماخذ سے حاصل کی جائے گی۔"
حالانکہ ہمارا شروع سے موقف یہ تھا۔۔اور جو "متفقہ ترمیمی شریعت بل" کی بنیاد بھی بنا۔۔۔کہ ائمہ سلف کے اقوال، ان کی آراء اور مجتہدین کے اجتہادات سے راہنمائی تو لی جا سکتی ہے، ان کی پابندی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ شریعت نہیں ہیں، شریعت صرف کتاب و سنت ہیں۔۔۔دلیل یہ کہ فقہیں متعدد ہیں اور شریعت صرف ایک۔۔۔ان فقہوں کو اگر شریعت باور کر لیا جائے تو متعدد فقہوں کی بناء پر متعدد شریعتوں کا تسلیم کرنا لازم آئے گا۔ اور جو ایک جاہلانہ تصور ہے۔
لہذا پابندی صرف اور صرف شریعت (کتاب و سنت) کی ہو گی۔۔۔جبکہ یہ حضرات پہلے تو ہمیں اس پابندی کا پابند بنانے کی کوشش کرتے رہے، لیکن جب ہمارے دلائل کا توڑ پیش نہ کر سکے تو ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے انہوں نے لفظ "راہنمائی" قبول کر لیا۔ تاہم اس پر قائم نہ رہتے ہوئے دوبارہ "پابندی" کی راگنی الاپنی شروع کر دی۔۔یہی وہ فرق ہے کہ جس نے ہمیں "متحدہ شریعت محاذ' سے اپنی دلچسپیاں ختم کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔چنانچہ یہ فرق آج تک قائم ہے اور اب شریعت آرڈی نینس میں "شریعت سے مراد ہر فرقے کی اپنی اپنی فقہ" پر دستخط کر کے انہوں نے اس فرق کو ناقابلِ عبور خلیج میں بدل دیا ہے، الا یہ کہ یہ لوگ صرف اور صرف کتاب و سنت کو شریعت تسلیم کر لیں۔
پھر ان سے بھی زیادہ گلہ ہمیں ان لوگوں سے ہے جو اہل ھدیث کہلاتے ہیں، لیکن بلا سوچے سمجھے اور بغیر شریعت آرڈی نینس کے مندرجات پر غور کیے اس کی تائید کر رہے اور اس پر داد تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔۔۔اس کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر رہے ہیں۔۔۔ان کے برعکس اہل حدیث ہی کا ایک دوسرا گروپ اس کی مخالفت میں محض اس لیے پیش پیش ہے کہ اسے 73ء کا دستور زیادہ عزیز ہے، تاہم وہ شریعت بل سے اسے بہتر خیال کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک اس میں شریعت کی جو تعریف کی گئی ہے وہ نہ صرف درست ہے، بلکہ اس کے خیال کے مطابق اس آرڈی نینس میں کتاب و سنت ہی کو شریعت بھی مان لیا گیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے اس پر غور ہی نہیں کیا، اس میں تو شریعت کی تعریف ہی غلط ہے اور شریعت کی وحی کی حیثیت کا انکار کر دیا گیا ہے۔۔نہ صرف اس آرڈی نینس میں، بلکہ 73ء کے دستور میں بھی۔ چنانچہ صدارتی حکم نمبر 14 سئہ 1980ء کی رُو سے اس کی تعریف میں اس کا وحی ہونا ختم کر دیا گیا ہے۔۔۔بہرحال یہ کسی گروپ کے سیاسی رجحانات کی بات نہیں، بلکہ یہ عقیدہ سلفیہ کا مسئلہ ہے۔ ہم شریعت کی تو تائید کرتے ہیں، لیکن شریعت کے نام پر کسی کو اپنی من مانی خواہشات رائج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔۔۔ہاں دکھ اور قلق اس بات کا ہے، آج اہل حدیث کو بھی یہ بات سمجھانے کی ضرورت پیش آ رہی ہے کہ سیاسی رجحانات یا ذاتی خواہشات کی اتباع، شریعت کی اتباع نہیں ہوتی۔۔۔قرآن مجید کے جن جن مقامات پر شریعت کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے، وہاں ساتھ ہی ساتھ یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ اس مسئلہ میں کسی کی ذاتی خواہشات کی پیروی نہیں ہو گی۔۔مثلا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَنِ احكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم وَاحذَرهُم أَن يَفتِنوكَ عَن بَعضِ ما أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيكَ... ﴿٤٩﴾... سورة المائدة
"(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کے مطابق ان میں فیصلے کریں اور ان کی خواہشات کی اتباع نہ کریں۔ اور ان سے محتاط رہیے کہ کسی حکم سے، جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہکا نہ دیں۔"
واضح رہے کہ "﴿مَا اَنْزَلَ اللهُ﴾" میں کتاب و سنت دونوں شامل ہیں، کہ قرآنِ مجید متن ہے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بیان، خواہ اس کا تعلق فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی سے۔۔۔اسی لیے انحرافِ سنت پر سخت ترین وعید سنائی گئی:
﴿فَليَحذَرِ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِهِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦٣﴾... سورة النور
"جو لوگ ان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں ڈر جانا چاہئے کہ کہیں کوئی فتنہ (اس دنیا میں) انہیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لے یا (آخرت میں) ان کو عذاب الیم پہنچے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔ اس شریعت آرڈی نینس کے اندر دراصل بنیادی دفعات صرف دو (2) ہیں۔ دفعپ نمبر 2 اور دفعہ نمبر 3۔ دفعہ نمبر 2 میں شریعت کی تعریف ہے اور دفعہ نمبر 3 میں ایک اعتبار سے شریعت کی بالا دستی کا ذکر ہے۔ تاہم چونکہ دفعہ نمبر 2 میں شریعت کی تعریف سے عدالتیں قانونی طور پر فائدہ اٹھا سکتی تھیں، اس لیے دفعہ نمبر 3 کا ایک اور حصہ بھی ہے۔ اور وہ حسہ یہ کہ: شریعت پر عمل کرنے کے لیے وہ طریقہ کار اختیار کیا جائے گا جو اگلی دفعات میں ہے۔۔۔اس آرڈی نینس کی 15 دفعات ہیں۔۔۔دفعہ نمبر 4 سے لے کر دفعہ نمبر 15 تک ساری کی ساری اس طریق کار سے متعلق ہیں۔۔۔جبکہ اس طریق کار میں انتہائی مہارت سے اس بات کا بالخصوص التزام کیا گیا ہے کہ کوئی شخص بھی شریعت سے آزادانہ استفادہ نہ کر سکے۔ چناچنہ دفعہ نمبر 3 میں شریعت کی دیگر قوانین پر بالا دستی کا دعویٰ تسلیم کرنے کے باوجود الفاظ یوں ہیں کہ: شریعت اعلیٰ ترین ماخذِ قانون ہو گی یا سرچشمہ قانون ہو گی؟ ۔۔۔گویا اس میں دو فساد ہیں۔ اولا یہ کہ قرآن و سنت کو سامنے رکھ کر ہم جو فقہ تیار کریں گے (مثلا الحادی فقہ یا جدید فقہ) وہ ہمارے لیے شریعت ہو گی۔ ثانیا یہ کہ "اعلیٰ ترین ماخذِ قانون" کے الفاظ درج کر کے گویا یہ گنجائش باقی رکھی گئی ہے کہ ماخذ صرف قرآن و سنت نہین، بلکہ کچھ اور بھی ہوں گے۔ مثلا فرانسیسی قانون، برطانوی قانون، امریکی قانون، اپنی من مانی خواہشات کے قانون وغیرہ وغیرہ۔۔۔ظاہر ہے، اس کے نتیجے میں عملا قرآن و سنت کی بالادستی نہیں ہو گی بلکہ خواہشات کی بالادستی ہو گی، تعبیر کے نام سے یا قانون سازی کے نام سے۔
3۔ کسی آرڈی نینس کا قانونی تصور یہ ہے کہ کوئی آرڈی نینس دستور کے منافی نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ آئین کے تابع ہوتا ہے۔ اس لیے آرڈی نینس کے ذریعے صرف ایک کام کیا جا سکتا ہے کہ آئین میں موجود عموم کی تخصیص کر دی جائے۔ مثلا جب قراردادِ مقاصد کو دستور میں شامل کیا گیا تو اس کی رُو سے سندھ ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ نے سودی معاملات میں بعض ایسے فیصلے کیے کہ جن کی بناء پر حکومت کی آمدنی کا مؤثر ذریعہ، سود، متاثر ہو سکتا تھا۔ لہذا اس آرڈی نینس کی دفعہ نمبر 14 لا کر ان عدالتوں پر آئندہ سے یہپابندی لگا دی گئی کہ وہ سود و ٹیکس بننے کا جو فائدہ ہوا تھا، وہ ختم کر دیا گیا۔ اسی طرح اسی قراردادِ مقاصد کی رُو سے چونکہ عدالتیں دستوری معاملات میں بھی غوروفکرکر سکتی تھیں،اس پر بھی قدغنیں عائد کر دی گئیں۔ یعنی من مانی خواہشات کے لیے حالیہ شریعت آرڈی نینس کو استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کی رو سے عدالتوں کا یہ اختیار واپس لے لیا گیا ہےکہ وہ دستور کی کسی دفعہ کے بارے میں، اس کے قرآن و سنت کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی مقدمہ سن سکیں، خواہ یہ ہائیکورٹ ہو یا خواہ شرعی عدالت۔
البتہ ہائیکورٹ کے اختیارات کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ اسے صرف دو معاملات میں اختیار ہے، ایک مالیاتی قوانین کے بارے میں اور دوسرے پرسنل لاز یعنی نکاح و طلاق وغیرہ مسائل میں۔جبکہ وفاقی شرعی عدالت کو درج ذیل چار چیزوں کے علاوہ باقی چیزوں کا اختیار دیا گیا ہے:
1۔ عائلی قوانین (پرسنل لاز)
2۔ مالیاتی قوانین
3۔ دستور
4۔ ضابطہ جاتی قوانین، جنہیں پروسیجرل لاز (Procedural Laws) کہتے ہیں۔
گویا دستور اور پروسیجرل لاز، دو ایسی چیزیں رہ گئی ہیں، جن کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کے بارے میں نہ تو ہائیکورٹ غور کر سکتی ہے اور نہ وفاقی شرعی عدالت۔۔۔اب آپ یہ دیکھیے کہ پروسیجرل لاء، جو دراصل قانون پر عملدرآمد کا طریقہ کار ہوتا ہے، اگر اس کا اختیار کسی بھی عدالت کو نہیں، تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہاں لادین نظام عملا بہرحال رائج رہے گا، کیونکہ اس ملک میں اصل فساد قانون کا استعمال ہی ہے، اور جسے دستور کے علاوہ، عدالتوں کے اختیارِ سماعت سے خارج کر کے تحفظ دے دیا گیا ہے۔۔۔یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شریعت آرڈی نینس میں شریعت کا نام تو ضرور لیا گیا ہے، لیکن شریعت کے طریقہ کار پر اس میں پابندی عائد کر دی گئی ہے، اس پر پہرے بٹھا دئے گئے ہیں۔
4۔ علاوہ ازیں شریعت آرڈی نینس کا یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اس کی رو سے اعلیٰ عدالتوں میں مفتی مقرر کیے جائیں گے اور ان کا مقام ڈپٹی اٹارنی جنرل کے برابر ہو گا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ آج تک ہمارے علماء یہ کہتے آئے ہیں کہ فتوے کے پیسے لینے حرام ہیں۔ اندریں صورت سوال یہ ہے کہ کیا ان مفتیانِ کرام کی تنخواہ جائز ہو گی؟
پھر ان مفتیانِ کرام کی حیثیت پر بھی غور فرمائیے، آرڈی نینس میں صاف لکھا ہے کہ ان کی ملازمت صدر جب چاہے ختم کر سکتا ہے، اسے کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ اس ملک میں ایک چپراسی کی ملازمت کو تو تحفظ حاصل ہے، لیکن یہ مفتیانِ کرام صرف اور صرف صدر صاحب کے رحم و کرم پر ہوں گے کہ جب تک وہ چاہیں گے یہ مفتی رہیں گے اور جب چاہیں گے، ان کی چھٹی کرادی جائے گی۔۔۔گویا یہ سرکاری مولوی ہوں گے اور سرکاری فتوے ہی دیا کریں گے۔
الغرض، یہ وہ نقائص ہیں، جن کی طرف میں نے اشارہ کر دیا ہے۔۔۔واضح رہے کہ اس کے کئی دیگر پہلوؤں پر بھی بہت طویل گفتگو کی گنجائش ہے، لیکن اولا تو ایک مجلس میں اس قدر تفصیلی گفتگو ممکن نہیں، ثانیا میں نے صرف ان مسائل کو پیشِ نظر رکھا ہے جو براہِ راست ہمارے دین و شریعت سے متعلق ہیں اور جن پر اخبارات میں تبصرے وغیرہ شائع نہیں ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان نقائص کی موجودگی میں، اس آرڈی نینس کے بارے ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے/ ۔۔۔اسے بیک جنبشِ لب ٹھکرا دینا، اسے بسروچشم قبول کر لینا، یا اس کے بین بین، یعنی اعتدال کی کوئی راہ ہمیں اپنانا ہو گی؟
اس رویہ کا تعین کرنے کے لیے ہمیں شریعت کی عمومی مصلحتوں کو پیش نظر رکھنا ہو گا اور جس کی خاطر آج کے سیاسی ھالات پر ایک نگاہ ڈال لینا ضروری ہے۔
جب سے یہ آرڈی نینس سامنے آیا ہے، ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ دو دھڑے واضح طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔۔۔ ایک دھڑا وہ کہ جو پوری قوت سے اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ اور اس میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ، خواہ وہ مذہبی ہوں یا لادینی جماعتیں، صحافت پیشہ اور قانون دان طبقہ (جیوڈیشری کے علاوہ) بھی شامل ہے۔۔۔وہ لادین عورتیں بھی شامل ہیں جو یہاں مغربی تہذیب کو بحال رکھے ہوئے اور پاکستان میں اس کے بقاء کی ضمانت ہیں۔ پھر وہ طبقہ بھی اس دھڑے میں شامل ہے جو شریعت کے نام سے ہی بدکتا ہے، بالخصوص جبکہ اس آرڈی نینس کی رو سے بعض قوانین پر شریعت کی روشنی میں غوروفکر کی اجازت دے دی گئی ہے۔ گویا ملک کا 90 فیصد سیاسی طبقہ اس کا مخالف ہے، ہاں اس کے مقابلے میں صرف وہ دھڑا اس کی حمایت کر رہا ہے جسے صدر صاحب کی مشینری کہا جا سکتا ہے، جبکہ شریعت کا محافظ طبقہ بالکل خاموش ہے اور یہ خاموشی بڑی ہی پریشان کن ہے۔۔۔سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں نفاذِ شریعت کی کوئی بھی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو گی؟
اس سوال کا جواب، جو واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیں اس شریعت آرڈی نینس کی بالکلیہ مخالفت کر کے اپنا وزن، شریعت مخالف عناصر کے پلڑے میں بہرحال نہیں ڈالنا چاہئے۔ اس لیے کہ ہم شریعت کے حامی ہیں اور ہمارا ووٹ شریعت ہی کے حق میں جائے گا۔۔۔لیکن چونکہ شریعت آرڈی نینس میں فساد اور بگاڑ بھی بہت حد تک موجود ہے، اس لیے ہم اس کی غیر مشروط حمایت کے لیے بھی قطعا تیار نہیں ہیں۔ گویا ایک ہی راہ، راہِ اعتدال باقی رہ جاتی ہے کہ ہماری یہ حمایت مشروط ہو، یعنی پہلے اس آرڈی نینس کی خامیوں کی اصلاح ہونی چاہئے اور پھر اس کے نفاذ کے لیے سرگرمِ عمل بھی ہوا جائے۔۔۔یہ کام اگرچہ آسان نہیں اور اس کی راہ کی مشکلات کا ہمیں بخوبی احساس بھی ہے، لیکن اہل حدیثوں کو بالخصوص اس سلسلہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے اور اسوہ ابراہیمی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس راہ میں اپنی پوری توانائیاں صرف کر دینا وقت کی پکار کے ساتھ ساتھ ان کے مسلک کا بھی تقاضا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَذِّن فِى النّاسِ بِالحَجِّ يَأتوكَ رِجالًا وَعَلىٰ كُلِّ ضامِرٍ يَأتينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَميقٍ ﴿٢٧﴾... سورةالحج
"اے ابراہیم علیہ السلام، لوگوں میں حج کے لیے ندا کر دیجئے، لوگ آپ کی طرف پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر، جو دور دراز راستوں سے چلے آتے ہوں، (سوار ہو کر) چلے آئیں گے"
پس ہمارا کام کوشش کرنا ہے، انتہائی نامساعد حالات کے باوجود اس راہ میں نکل کھڑے ہونا چاہئے، کہ ہمارا شیوہ آج تک تو یہی رہا ہے۔۔۔رہی کامیابی، تو وہ اللہ رب العزت کے اختیار میں ہے۔
حاشیہ
1. احکامِ اسلام اور شریعت کا ایک فرق تو وہ ہے جو فقہ اور شریعت کا ہے۔ کیونکہ احکامِ اسلام سے مراد فقہ ہوتی ہے اور فقہیں متعدد ہیں۔ جیسے فقہ حنفی، جعفری وغیرہ۔۔۔جبکہ شریعت صرف ایک ہے۔
دوسرا اہم فرق احکامِ اسلام اور شریعت میں یہ ہے کہ احکامِ اسلام، الگ الگ فقہی مسائل کا نام ہے۔ جبکہ شریعت اللہ تعالیٰ کی مکمل و مرتب ہدایت ہوتی ہے۔ یعنی اس میں احکامِ الہی کے ساتھ ساتھ ان کا باہمی ربط (جسے دورِ حاضر کی اصطلاح میں "نظام" کے لفظ سے بیان کیا جاتا ہے) بھی شامل ہوتا ہے اور جس سے شریعت ایک وحدت بنتی ہے۔
1973ء کے دستور اور اس آرڈی نینس میں بھی قوانین اور شریعت کی تعریف کے سلسلے میں "قرآن و سنت" کی بجائے "اسلامی احکام جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہوں' کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام بہ حیثیتِ کُل جاری و ساری ہونے کی بجائے الگ الگ جزئیات کی صورت میں نافذ ہو گا۔ اس خود ساختہ اسلام کی مثال اس درخت کی مثال ہے کہ جس کے ساتھ مختلف پھل آویزاں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو اور جسے ثبات و قرار بھی حاصل نہ ہو۔۔۔جبکہ اس کے برعکس حقیقی اسلام کی مثال اس شجرہ طیبہ کی سی ہے کہ جس کی جڑیں زمین میں مضبوط ہوں، شاخیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہوں اور جو ہر وقت اور ہر موسم میں پھل دیتا رہے۔۔۔اسلام کی یہی مثال قرآن مجید کی سورہ ابراہیم، آیت 24۔۔۔25 میں ذکر ہوئی ہے۔
2. ہم اس فکر کا فساد سمجھانے کے لئے ادارہ تحقیقاتِ اسلامیہ، اسلام آباد کے بدنام ڈائریکٹر، ڈاکٹر فضل الرحمٰن کا حوالہ دینا چاہتے ہیں، جس نے وحی کو باطنی چیز قرار دے کر قرآن و سنت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیر سے معنون کیا تھا۔ بالکل اسی طرح، جس طرح افرنگی قانون میں شریعتِ محمدیہ کو "محمڈن لاء" سے بیان کیا جاتا ہے، اور جس سے ان کا مقصود یہ ہے کہ شریعت ربانی نہ رہے، بلکہ انسان کی خودساختہ بن جائے۔۔مقامِ غور ہے کہ اس کے باوجود وہ کم از کم اس کی نسبت تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ماننے کے لیے تیار ہیں، جبکہ قرآن و سنت سے مراد، قرآن و سنت کی وہ تعبیر لینا جو ہر فرقے کی اپنی اپنی ہو، مستشرقین کے مذکورہ بگاڑ سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور جو دستور 73ء کی پیروی میں اس آرڈی نینس کے اندر اختیار کی گئی ہے۔
ان الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا ہے کہ شاید اس دفعہ کا وہی مفہوم ہے جو اکتیس (31) علماء کے بائیس نکات کی دفعہ 9 کا ہے۔ حالانکہ یہ دفعہ (نمبر 9) شخصی معمالات (نکاح، طلاق وغیرہ) کے بارے میں مختلف فرقوں کی فقہ کا لحاظ رکھنے کے بارے میں ہے۔ اگرچہ اسلام کے اندر گنجائش تو فرقہ بندی کی بھی نہیں ہے، لیکن مصلحتا مختلف فرقوں کو اکٹھا رکھنے کے لیے اسے بائیس نکات میں شامل کر لیا گیا تھا، جبکہ اس آرڈی نینس کی دفعہ 2 میں شریعت کی تعریف کی وضاحت میں جو الفاظ ہیں، وہ فقہ کا لحاظ رکھنے کے بارے میں نہیں، بلکہ وہ قرآن و سنت کی اصطلاح متعین کرنے سے متعلق ہیں۔۔۔فقہ کا لحاظ رکھنا اور بات ہے، اور قرآن و سنت کی تعریف، ہر ایک فرقہ کی الگ الگ قرار دینا، اور بات۔ جس سے یہ لازم آئے گا کہ ہر ایک کا قرآن و سنت بھی الگ الگ ہو۔ جیسے شیعہ کا قرآن الگ اور سنیوں کا الگ۔۔۔شیعہ اگرچہ تقیہ کے طور پر موجودہ قرآن مجید کا انکار نہیں کر سکتے تھے، لیکن 73ء کے دستور کی دفعہ 227 کی توضیح نمبر1، اور موجودہ آرڈی نینس کی دفعہ 2 میں شریعت کی تعریف کی وضاحت میں مذکور الفاظ نے ان کا باطل نظریہ دستور و قانون کے اندر شامل کر دیا ہے۔