"اطلبوا العلم ولو بالصين، فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم"

اس مشہور روایت کو امام ابوالفرج ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے "حسن بن عطیہ عن ابی عاتکہ عن انس رضی اللہ عنہ" کے طریق سے یوں ذکر فرمایا ہے:

«انبانا محمد بن ناصر قال انبانا محمد بن على بن ميمون قال انبانا محمد بن على العلوى قال انبانا على بن محمد بن بيان قال حدثنا احمد بن خالد المرهبى قال حدثنا محمد بن على بن حبيب قال حدثنا العباس بن اسماعيل قال حدثنا الحسن بن عطية الكوفى عن ابى عاتكة عن انس قال قال رسول اللهﷺ : اطلبوا العلم ولو بالصين»

اور

«انبانا عمر بن ابى الحسن البسطامى قال انبانا ابراهيم بن ابى نصر الاصبهانى قال انبانا منصور بن نصر بن عبدالرحيم السمر قندى قال حدثنا الهيثم بن كليب الشاشى قال حدثنا العباس بن محمد الدورى ح وانبانا محمد بن عبدالملك بن خيرون قال انبانا اسماعيل بن مسعدة قال انبانا حمزة بن يوسف قال انبانا ابواحمد بن عدى قال حدثنا محمد بن الحسن بن قتيبة قال حدثنا عباس بن اسماعيل بن حماد قالا حدثنا الحسن بن عطية قال حدثنا ابوعاتكة عن انس بن مالك قال قال رسول اللهﷺ : اطلبوا العلم ولو بالصين فان طلب العلم فريضة على كل مسلم»

امام الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ اس روایت کو ابونعیم اصبہانی ، ابن عبدالبر ، خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، ضیاء مقدسی رحمۃ اللہ علیہ، ابن علیک نیشا پوری ، ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بھی "حسن بن عطیہ الکوفی ثنا ابو عاتکہ طریف بن سلمان عن انس رضی اللہ عنہ، کے طریق سے مرفوعا روایت کیا ہے۔ بعض روایات میں صرف " اطلبوا العلم ولو بالصين " اور بعض میں " اطلبوا العلم ولو بالصين" کے بعد " فان طلب العلم فريضة على كل مسلم " کے الفاظ کا اضافہ اور بعض میں صرف " طلب العلم فريضة على كل مسلم " کے الفاظ ملتے ہیں۔

اس روایت کے نصف اول یعنی "اطلبوا العلم ولو بالصين" کے متعلق ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "مجھے علم نہیں کہ حسن بن عطیہ کے علاوہ کسی اور نے " ولو بالصين " (خواہ چین میں ہو) کا قول روایت کیا ہو۔"

خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " ولو بالصين" کو حسن بن عطیہ کے علاوہ کوئی دوسرا راوی بیان نہیں کرتا۔" نیز "اس امر کو حاکم نے بھی قبول کیا ہے جیسا کہ ابن المحب نے حاکم سے نقل کیا ہے۔"

امام ابن الجوزی نے بھی حاکم نیشا پوری کی اس تحقیق کو نقل فرمایا ہے: "حاکم ابوعبداللہ نیشا پوری کا قول ہے کہ اس میں حسن بن عطیہ کا تفرد ہے۔"

لیکن حاکم نیشا پوری کی رائے سے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"یہ قول حاکم کی تحریف ہے۔ کیونکہ یہی روایت حسن بن عطیہ کے علاوہ دوسرے طریقِ اسناد کے ساتھ بھی مروی ہے۔"

«انبانا به عبدالوهاب بن المبارك قال انبانا محمد بن المظفر قال انبانا احمد بن محمد العقيلى قال حدثنا يوسف بن الدخيل قال حدثنا محمد بن عمرو العقيلى قال حدثنا جعفر بن محمد الزعفرانى قال حدثنا احمد بن ابى شريح قال حدثنا حماد بن خالد الخياط قال حدثنا طريف بن سليمان ابوعاتكة قال سمعت انس بن مالك عن النبىﷺ قال: اطلبوا العلم ولو بالصين فان طلب العلم فريضة على كل مسلم»

امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کے اس دوسرے طریق کی تخریج یوں بیان فرمائی ہے:

"عن حماد بن خالد الخياط قال حدثنا طريف بن سليمان"

اور ساتھ ہی اس پر یہ حکم لگایا ہے: "ولو بالصين" کے الفاظ ابوعاتکہ کی روایت کے علاوہ کسی اور سے محفوظ نہیں ہیں، جبکہ وہ خود متروک الحدیث ہے۔ نیز "فريضة على كل مسلم" کی روایت میں بھی ضعف کی لچک کا تقرب پایا جاتا ہے۔"

اس روایت کے ہر دو طریق کے مشہور راویوں، یعنی عطیہ الکوفی اور ابوعاتکہ طریف بن سلیمان، کے متعلق امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"حسن بن عطیہ کی ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ نے تضعیف کی ہے اور اب عاتکہ کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے۔"

امام بکاری رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ابوعاتکہ کی تضعیف میں امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے "ليس بثقة" (یعنی ثقہ نہیں ہے)، امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے "متروک الحدیث" اور ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ نے "ذاهب الحديث" ہونے کا حکم لگایا ہے، جیسا کہ ان کے فرزند رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی فرماتے ہیں: "آفت الحدیث ابوعاتکہ وہ شخص ہے جس کی تضعیف پر اتفاق ہے۔"

امام ابوالفرج ابن الجوزی التیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو اپنی مشہور کتاب "الموضوعات" میں درج کیا ہے۔ پس یہ قابلِ التفات نہیں ہے، کیونکہ امام ابن الجوزی کی اصطلاح میں موضوع وہ حدیث ہے جس کے بطلان پر دلیل قائم جائے۔ اگرچہ اہل علم حضرات کی ایک جماعت نے ان کی موضوع ٹھہرائی ہوئی بعض احادیث سے اختلاف کیا ہے، لیکن بقول علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ : "حق یہ ہے کہ موضوعات کے باب میں ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے بالتفاق علماء بیشتر صحیح ہے۔" چنانچہ اس روایت کو "موضوعات" میں درج کرنے کے بعد امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنا صحیح نہیں ہے۔"

علامہ ابن قدامہ الدوری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل فرماتے ہیں کہ: "انہوں نے یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ سے ابوعاتکہ کی اس روایت کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار فرمایا۔" اور امام مروزی سے روایت ہے کہ: "ابوعبداللہ یعنی امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بیان کر کے اس کا شدید انکار فرمایا۔" ابن حبان کا قول ہے: "وهذا الحديث باطل لا اصل له" یعنی یہ حدیث باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں۔ علامہ شمس الدین سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قول کو "المقاصد الحسنہ فی بیان کثیر من الاحادیث المشتہرۃ علی الالسنۃ" میں ترجیحا نقل کیا ہے۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی بھی اس حدیث پر "باطل" ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔ لیکن جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے "الالی المصنوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ" میں امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کے ابن حبان سے نقل کردہ قول پر تعقب کیا ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ:

"یہ روایت، دوسرے دو طریق سے وارد ہوئی ہے: "(1) یعقوب بن اسحاق ابراہیم عسقلانی کی مرفوع روایت بسند من زہری عن انس رضی اللہ عنہ، جسے حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور (2) احمد بن عبداللہ الجویباری کی مرفوع روایت بسند، عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، جس میں روایت کا صرف نصف اول یعنی "اطلبوا العلم ولو بالصين" مروی ہے۔

اس تعقب کی چند چیزیں محلِ نظر ہیں۔ مثلا اول الذکر طریقِ اسناد میں، یعقوب، نامی راوی موجود ہے۔ جو بقول امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ "کذاب" ہے۔ یعقوب کی تکذیب کے بعد امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی روایت کی ہوئی بعض دوسری باطل روایات کا تذکرہ بھی کیا ہے جو اس نے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کی ہے۔ مثلا "من حفظ على امتى اربعين حديثا" وغیرہ۔ اور آخر الذکر طریقِ اسناد میں ایک راوی احمد بن عبداللہ نیشا پوری الجویباری ہے جس کے متعلق امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ "موضوعات" میں " انه من كبار الوضاعين" یعنی وہ کبار وضاعین میں سے ہے، لکھا ہے۔ نیز اس راوی کے متعلق علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں: "والجويبارى وضاع" یعنی جویباری وضاع ہے۔ چنانچہ واضح ہوا کہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ تعقب کچھ حقیقت و وقعت کا حامل نہیں ہے۔

صاحب "التعقبات علی الموضوعات" فرماتے ہیں: "اس روایت کی تخریج ابوعاتکہ کے طریق سے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے "شعب الایمان میں کی ہے اور اس پر حکم لگایا ہے: "متن مشهور وسناد ضعيف" یعنی متن مشہور اور اسناد ضعیف ہیں۔ ابوعاتکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے رجال میں سے ایک ہے، جس پر انہوں نےکذاب یا تہمت کی کوئی جرح نہیں کی ہے۔ ابوعاتکہ کی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت میں متابعت موجود ہے (حافظ) ابویعلیٰ الموصلی اور (حافظ) ابن عبدالبر رحمہما اللہ نے، جامع بیان العلم، میں کثیر بن شنظیر عن ابن سیرین عن انس رضی اللہ عنہ، کے طریق سے بھی اس روایت کی تخریج کی ہے۔ (حافظ) ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور طریق یعنی "عبید بن محمد الفریابی عن سفیان بن عیینہ عن الزہری عن انس رضی اللہ عنہ" سے بھی اس روایت کی تخریج کی ہے۔ روایت کے نصف ثانی کی امام ابن ماجہ نے بھی تخریج کی ہے۔ جس کے بہت کثیر طریقِ اسناد حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں۔ حافظ مزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ان روایات کا مجموعہ مرتبہ حسن تک پہنچتا ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے شعب الایمان، میں، عن انس رضی اللہ عنہ، اس کو چار طرق سے اور، عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، کی حدیث سے روایت کیا ہے۔"

اس تعقب کی بھی بہت سی چیزیں محلِ نظر ہیں، جن کا علمی جائزہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

1۔ امام بیہقی کا قول شعب الایمان، کے حوالے سے جو اوپر نقل کیا گیا ہے۔ یعنی "متنه مشهور واسناد ضعيف وقد روى من اوجه كلها ضعيفة" تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول روایت کے نصف ثانی سے متعلق ہے، نصف اول کے متعلق آں رحمہ اللہ نے قطعا یہ نہیں فرمایا ہے۔

2۔ جہاں تک ابوعاتکہ کے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے رجال میں سے ہونے اور اس پر کذب یا کسی دوسری تہمت کی جرح نہ کیے جانے کا تعلق ہے، کسی دوسری تہمت کی جرح نہ کیے جانے کا تعلق ہے، تو وہ بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ابوعاتکہ کی تضعیف میں کبار محدثین اور مشہور ائمہ رجال، مثلا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ، امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے بہت سے اقوال منقول ہیں۔ جن میں سے چند پہلے ہی نقل کیے جا چکے ہیں۔

3۔ کثیر بن شنظیر کی روایت، جو "جامع بیان العلم " میں "عن ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ عن انس رضی اللہ عنہ" کے طریق سے اوپر بیان کی گئی ہے۔ اس کو سہمی نے تاریخ جرجان میں اور ذہبی نے اپنی اپنی اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔ لیکن ان تمام کتب میں ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کی طرح فقط روایت کا نصف ثانی موجود ہے، نصفِ اول تلاشِ بسیار کے باوجود کہیں نہیں مل سکا۔

4۔ حافظ ابویعلیٰ الموصلی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں بھی روایت کا نصف اول انتہائی تلاش کے باوجود نہ مل سکا اور بقول علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کہ: "اگر موجود ہوتا تو اسے علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے "المجمع الزوائد" میں ضرور جمع کیا ہوتا جو کہ نہیں ہے۔" نیز کثیر بن شنظیر کے متعلق علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: "یحییٰ کا قول ہے: "ليس بشئ" لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "صدوق يخطئ" ۔ کثیر بن شنظیر کے علاوہ اس طریقِ اسناد میں اور بھی کئی مجروح رواۃ ہیں، جن کا ذکر ان شاءاللہ تفصیل کے ساتھ آگے کیا جائے گا۔ پس واضح ہوا کہ فنِ اسماء الرجال کی کسوٹی پر یہ طریق بھی کھرا ثابت نہ ہو سکا۔

5۔ حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ کی "زہری عن انس رضی اللہ عنہ" والی روایت دو طریق سے وارد ہوئی ہے، جس کے پہلے طریق میں ایک راوی اسماعیل بن عیاش ہے، جسے امام ذہبی نے "ضعفاء" میں شمار کیا ہے اور امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے "ضعیف" بتایا ہے۔ ابن عیاش کے متعلق مشہور ہے کہ ایسی روایات، جو وہ غیر شامیوں سے روایت کرتا ہے، اُن میں (یقینا) ضعف پایا جاتا ہے۔ اور چونکہ زیرِ نظر روایت میں بھی وہ ایک غیر شامی (یونس بن یزید، جو اہل مصر میں سے تھے) سے روایت کرتا ہے، اس لیے اس میں بھی ضعف ہے۔ اسماعیل بن عیاش کے علاوہ اس طریقِ اسناد میں ایسے اور کئی رواۃ موجود ہیں جو عندالمحدثین مجروح قرار پائے ہیں۔

"زہری عن انس رضی اللہ عنہ" کی دوسری روایت میں عبید بن محمد الفریابی راوی "مجہول" ہے۔ اس کی "جہالت" کی طرف علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتداء سند نقل کرتے ہوئے خود اشارہ فرمایا ہے۔ پس اس طریق کو صحیح و سالم تصور کرنا محض واہمہ ہے۔

6۔ صاحب التعقبات علی الموضوعات، کا یہ قول کہ: "اس روایت کے بہت کثیر طرقِ اسناد ہیں۔۔۔" تو اس سے مراد محض روایت کا نصف ثانی ہے۔ جیسا کہ کتبِ احادیث کے مطالعہ اور خود صاھب "التعقبات" کے کلام سے ظاہر ہے۔ یہاں البتہ علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ یہ سمجھنے میں غلطی فہمی کا شکار ہوئے ہیں کہ اس سے مراد پوری روایت ہے۔ چنانچہ اپنی شرح میں ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کے اس روایت کے "ابطال" اور امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کے "موضوع" ہونے کے احکام نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"اب ہم علامہ مزی رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کرتے ہیں: اس روایت کے کئی طرق ہیں، جن کا مجموعہ درجہ حسن تک پہنچتا ہے۔ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا قول "تلخیص الواہیات" میں اس طرح درج ہے کہ: متعدد واہیات طرق سے یہ روایت وارد ہوئی ہے لیکن اس کے بعض طرق صالح ہیں۔"

علامہ محمد ناصر الدین الالبانی علامہ منادی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ مزی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا اقوال کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

"حق بات یہ ہے کہ علامہ منادی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ محض وہم و گمان ہے کیونکہ علامہ مزی کی مراد روایت کے فقط نصف ثانی سے ہے، جیسا کہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے سابقہ کلام سے ظاہر ہے۔ اور اسی روایت کے نصف ثانی کو علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے "تلخیص الواہیات" میں بھی مراد لیا ہے (جس کا علامہ منادی رحمۃ اللہ علیہ نے حوالہ نقل کیا ہے) جس کی صحت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔"

محترم علامہ محمد ناصر الدین الالبانی مزید یہ فرماتے ہیں کہ: "روایت زیرِ نظر کے نصف اول کے متعلق ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے جو حکم لگایا وہ برحق ہے۔ کیونکہ ایسا کوئی صالح طریقِ اسناد موجود نہین ہے جو اس کی صحت کو تقویت دے سکتا ہو۔ لیکن روایت کے نصف ثانی کا بقول علامہ مزی رحمۃ اللہ علیہ درجہ حسن تک پہنچنے کا احتمال ہے، کیونکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی اس کے بہت سے طرق وارد ہوئے ہیں۔" جن میں سے آں محترم کو صرف آٹھ طرق مل سکے ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت، جن میں ابن عمر، ابوسعید، ابن عباس، ابن مسعود اور علی رضی اللہ عنہم ہیں، نے بھی اس نصف ثانی کو روایت کیا ہے۔ علامہ محترم کو بقیہ طرقِ اسناد کی تلاش ہے تاکہ ان پر تحقیق کر کے صحت یا تحسین یا تضعیف کا حکم لگا سکیں۔

اوپر علامہ محترم محمد ناصر الدین الالبانی صاحب نے علامہ منادی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ مزی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال پر اعتماد کرتے ہوئے اس نصف ثانی روایت کے بعض طرق کے صالح ہونے یا ان کے مجموعہ کے درجہ حسن تک پہنچنے کی تائید یا کم از کم ان کے درجہ حسن تک پہنچنے کے احتمال کا جو اظہار فرمایا ہے، وہ قطعا حقیقت و انصاف کے منافی ہے۔ جس کا تفصیلی جائزہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے، وباللہ التوفیق۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اس روایت (نصف ثانی) کے سولہ طرق وارد ہوئے ہیں، جو اس طرح ہیں:

طریق اول:

«نا على بن عبيدالله ومحمد بن عبدالباقى قالا اخبرنا الصريفينى قال اخبرنا الكتانى قال نا ابوعلى اسماعيل بن محمد الصفار قال حدثنا العباس بن عبدالله التَّرْقُفِيُّ، نا رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ عَبْدِ الْقُدُّوسِ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: لَمْ أَسْمَعْ مِنْ أَنَسٍ إِلَّا حَدِيثًاعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ »

یہ حدیث قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ کیونکہ اس طریقِ اسناد میں ایک راوی عبدالقدوس ابن حبیب دمشقی ہے جو کذاب ہے۔ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے عبدالقدوس کو "متروک" قرار دیا ہے، ابن حبان نے تصریح کی ہے کہ "انه كان يضع الحديث" یعنی وہ حدیثین گھڑا کرتا تھا، عبدالرزاق کا قول ہے کہ "میں نے ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کو عبدالقدوس کے علاوہ کسی اور کو "کذاب" کہتے نہیں سنا۔" اس طریق میں عبدالقدوس راوی کا تابع ابراہیم بن سلام بھی بزار رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک "مجہول" ہے۔"

طریق دوم:

"انا عبدالله بن محمد الخطيبى.. حين قدم علينا قال نا عبدالرزاق بن عمر بن شمة قال نا ابوبكر محمد بن ابراهيم المقرئ قال نا ابويعلى الموصلى قال نا هزيل بن ابراهيم الجمانى قال حدثنا عثمان بن عبدالرحمن الزهرى قال نا حماد بن ابى سليمان عن شقيق عن ابن مسعود قال المقرئ: ونا محمد بن نصير قال انا اسماعيل بن عمر والبجلى قال حفص بن سليمان عن كثير بن شنظير عن ابن سيرين عن انس قال قال رسول اللهﷺ : طلب العلم..... الخ(ذكره ابن عبدالبر والسهمى والذهبى وابن الجوزي"

یہ طریقِ اسناد بھی نہایت کمزور ہے، کیونکہ اس طریق کے بعض رواۃ کے متعلق امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "راوی عثمان بن عبدالرحمن الزہری کے متعلق یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "كان يكذب" اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "كا يروى عن الثقات الموضوعات" یعنی ثقہ راویوں سے موضوعات روایت کرتا ہے، راوی کثیر بن شنظیر کے متعلق یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "ليس بشئ" حفص بن سلیمان کے متعلق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "هو متروك الحديث" یعنی وہ متروک الحدیث ہے۔ اس طریق کا ایک اور راوی اسماعیل بن عمرو البجلی ہے۔ جو ضعیف ہے۔" علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کثیر بن شنظیر کے متعلق "صدوق يخطئ" کا قول اختیار کیا ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے زیادہ قوی اور راجح ہے۔

طریقِ سوم:

«انا على بن عبيد الله و محمد بن عبدالباقى قال انا ابومحمد لصريفينى قال اخبرنا ابو حفص الكتانى قال نا احمد بن نصر البغلانى قال انا ابراهيم يعنى ابن راشد قال نا حجاج بن نصر قال نا المثنى بن دينار الجهضمى عن انس بن مالك قال قال رسول اللهﷺ: طلب العلم..........الخ»(ذكره ابن الجوزى)

اس طریق میں ابوحفص الکتانی کا نام عمر بن ابراہیم بغدادی ہے۔ یہ روایت بھی قوی الاسناد نہیں ہے، کیونکہ امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہاس طریق کے ایک راوی مثنیٰ بن دینار کے متعلق امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ: "فى حديثه نظر"

طریقِ چہارم:

«نا عبيدبن محمد الفريابى عن سفيان بن عيينة عن الزهرى عن انس قال قال رسول اللهﷺ: طلب العلم..... الخ»(ذكره ابن عبدالبر)

اس طریق میں عبید بن محمد الفریابی راوی "مجہول" ہے۔ اس راوی کی "جہالت" کے متعلق علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے پوری سند نقل کرتے ہوئے ابتداء خود اشارہ فرمایا ہے۔

طریقِ پنجم:

«اخبرنا محمد بن عبدالملك بن خيرون قال اخبرنا اسماعيل بن مسعدة قال نا ابوعمرو الفارسى قال نا ابن عدى قال نا بابويه بن خالد قال نا الحسن بن عرفة قال نا عبدالله بن خراش عن العوام بن حوشب عن ابراهيم التيمى عن انس بن مالك قال قال النبىﷺ: طلب العلم......... الخ»(ذكره ابن الجوزى)

یہ روایت بھی صحیح ثابت نہیں ہے، کیونکہ اس طریق کا ایک راوی عبداللہ بن خراش ہے۔ جسے ابن حبان نے "ضعیف" درج کیا ہے۔ امام ابن الجوزی عبداللہ بن خراش کے متعلق ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل فرماتے ہیں "ليس بشئ"۔ اس طریقِ روایت میں ایک راوی ابراہیم التیمی بھی ہے، جس کے متعلق اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ وہ عند البزار "مجہول" ہے۔

طریقِ ششم:

«انا ابو منصور القزاز قال نا ابو بكر احمد بن على بن ثابت قال حدثنا عبدالعزيز بن على بن الوراق قال نا على بن عمر بن محمد بن الحسن السكرى قال نا ابوحامد احمد بن دلويه قال نا ابورميح الترمذى محمد بن رميح قال نا محمدبن صوران قال حدثنا ميمون بن زيد ابوابراهيم قال نا زياد بن ميمون عن انس بن مالك قال قال رسول اللهﷺ: طلب العلم.........الخ»(ذكره الخطيب وابن عبدالبر وابونعيم عن طريق زياد واورده الذهبى وابن الجوزى)

یہ طریق بھی مجروح راوی سے پاک نہیں ہے۔ چنانچہ زیاد بن میمون کے لیے مروی ہے: "وكان يكذب عن انس" اور زیاد بن میمون رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "یزید بن ہارون کا قول ہے: "كان كذابا" اور یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "لا يساوى قليلا ولا كثيرا"۔

طریقِ ہفتم:

«قال المقرئ: ونا ابوعمران الخولانى نا هشام بن عبدالملك ابوالتقى قال نا المعافى بن عمران قال نا اسماعيل بن عياش عن يونس بن يزيد الايلى عن الزهرى عن انس قال قال رسول اللهﷺ: طلب العلم.......... الخ»(ذكره ابن عبدالبر وابن الجوزى)

یہ روایت بھی غیر صحیح ہے، کیونکہ اس طریق میں اسماعیل بن عیاش راوی "ضعیف" ہے۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "ضعفاء" میں شمار کیا ہے۔ امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "هو ضعيف" نیز ابن عیاش کے متعلق مشہور ہے کہ اس کی ان روایات میں جو وہ غیر شامیوں سے روایت کرتا ہے، (یقینا) ضعف پایا جاتا ہے۔ چونکہ اس کی یہ روایت بھی غیر شامی یعنی یونس بن یزید، جو اہل مصر میں سے تھے، سے مروی ہے اس لیے ضعیف ہے۔

طریقِ ہشتم:

«اخبرنا القزاز قال اخبرنا احمد بن على واخبرنا ابن ناصر قال اخبرنا نصربن احمد قال انا محمد بن احمد بن رزق قال انا ابو احمد الحسن بن على بن عبيد الخلال قال نا محمد بن حاضربن حيان قال نا عمران بن عبدالله قال نا محمد بن حفص عن ميسرة بن عبدالله عن موسى بن جابان عن انس بن مالك قال قال رسول اللهﷺ: طلب العلم......... الخ»(ذكره الخطيب وابن الجوزى)

اس طریق میں راوی میسرہ بن عبداللہ غالبا میسرہ بن عبد ربہ ہے، جس نے موسیٰ بن جابان سے روایت کی ہے اور جیسا کہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ میسرہ بن عبد ربہ "مشہور کذاب ہے"۔ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں 'میسرہ بن عبدربہ "متروک" ہے۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی فرماتے ہیں: "هو متهم لا بورك فيه" اس طریق کے دوسرے راوی عمران بن عبداللہ کے متعلق امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "عمران کو ضعیف بتایا گیا ہے۔ پس واضح ہوا کہ یہ روایت بھی ناقابلِ اعتماد ہے۔

طریقِ نہم:

«نا ابوسعيد الزوزنى قال نا ابوعلى بن وشاح قال نا ابن شاهين قال نا عبدالله بن سليمان الاشعث قال نا حعفر بن مسافر قال نا يحي بن حسان عن سليمان بن قدم عن ثابت البنانى عن انس قال قال رسول اللهﷺ: طلب العلم....... الخ»(ذكره ابن عبدالبر والجوزى)

یہ روایت بھی صحیح ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس طریق میں ایک راوی سلیمان بن قرم ہے، جس کے متعلق یحییٰ کا قول ہے: "ليس بشئ"۔ امام ابن الجوزی نے بھی یحییٰ کے اس قول کو اختیار کیا ہے۔

طریقِ دہم:

«انا هبة الله بن احمد الحريزى قال نا محمد بن على ابن الفتح وانا يحىى بن الحسن بن البناء قال اخبرنا ابو الحسين ابن اللابنوسى قال حدثنا ابوالحسين ابن شمعون واخبرنا ابوسعيد احمد بن محمد الزوزنى قال اخبرنا ابوعلى محمد بن وشاح قال اخبرنا عمر بن شاهين قالا انا ابوعلى محمد بن محمد بن ابى حذيفة الدمشقى قال نا احمد بن عبدالله بن ابى الحناجر قال نا موسى بن داؤد قال نا حماد بن سلمة عن قتادة عن انس قال قال النبى ﷺ : طلب العلم.... الخ»(ذكره ابن الجوزى)

یہ طریقِ اسناد بھی صالح و سالم نہیں ہے۔ اگرچہ اس طریق کو ذکر کرنے کے بعد علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "رجاله ثقات" یعنی اس کے رجال ثقہ ہیں، لیکن امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اس طریق کے ایک راوی موسیٰ بن داؤد کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ "مجہول" ہے۔

طریقِ یازدہم:

«انا لقزاز قال انا ابوبكر احمد بن على قال ناابو اسحاق احمد بن محمد المروزى قال نا ابو عبدالله محمد بن عبدالله الحافظ. واخبرنا القزاز قال اخبرنا احمد بن على قال نا القاضى ابو العلاء قال نا ابوعثمان سعيد بن ابى سعيد النيسابورى قال نا ابو اسحاق ابراهيم بن محمد بن عمرويه الواعظ قال حدثنا ابو العباس احمد بن الصلت بن المغلس الجمانى قال حدثنا بشر بن الوليد قال نا ابو يوسف قال نا ابوحنيفة قال سمعت انس بن مالك قال قال رسول اللهﷺ: طلب العلم...... الخ»(ذكره الخطيب وابن الجوزى)

یہ روایت بھی ساقط الاعتبار ہے۔ کیونکہ اس طریق کے متعلق امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس میں احمد بن الصلت راوی ہے، جس کے متعلق امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "كان يضع الحديث" نیز امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھنا یا ان سے سماع یا کسی بھی ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے ملاقات بیان کرنا صحیح نہیں ہے۔" خطیب بغدادی نے بھی اپنی اسناد کے ساتھ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت انس رضی اللہ عنہ کو نہ دیکھنا، نہ ان سے سماع کرنا اور نہ ہی امام صاحب کا کسی اور صحابی سے ملاقات کرنا عن حمزة السهمى عن دار قطنى" بیان کیا ہے۔ لیکن علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں علامہ خطیب بغدادی کی خطاء کا تذکرہ اس طرح کیا ہے: "امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کسی صحابی سے ملاقات نہیں ہوئی ہے، مگر حضرت انس رضی اللہ عنہ کو امام موصوف نے بچشمِ خود دیکھا ہے۔ اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ ان رضی اللہ عنہ سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا سماع نہیں ہے۔"

طریقِ دوازدہم:

«انا اسماعيل بن احمد قال اخبرنا اسماعيل بن مسعدة قال نا حمزة بن يوسف قال نا ابواحمد ابن عدى قال حدثنا احمد بن عمر ابن البلدى قال حدثنا عبدالله بن يزيد الاعمىٰ قال نا محمد بن سليمان بن ابى داؤد قال نا معان بن رفاعة قال نا عبدالوهاب بن بخت عن انس قال قال رسول اللهﷺ: طلب العلم.......»(ذكره ابن الجوزى)

یہ روایت بھی ناقابلِ اعتبار ہے۔ کیونکہ اس طریق کے ایک راوی معانِ ابن رفاعہ کو یحییٰ نے "ضعیف" بتلایا ہے اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "يستحق الترك" یعنی چھوڑ دیے جانے کا مستحق ہے۔ اس طریق کا ایک اور راوی محمد بن سلیمان ہے جس کے متعلق امام ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "هو منكرالحديث" یعنی وہ منکر الحدیث ہے۔ لیکن محمد بن سلیمان کو ابوعوانہ اور مسلمہ رحمۃ اللہ علیہ نے "صدوق" کہہ کر اس کی توثیق کی ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں: "لا باس به" یعنی اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن امام ابن الجوزی نے معانِ ابن رفاعہ کے متعلق یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال اور محمد بن سلیمان کے متعلق ابوحاتم رازی کے قول کو اختیار کیا ہے۔

طریقِ سیزدہم:

«انبانا اسماعيل قال نا ابن مسعدة قال اخبرنا حمزة قال اخبرنا ابن عدى قال نا احمد بن محمد بن عنبسة قال نا سليمان بن سلمة هو الخبائرى قال حدثنا بقية قال نا الاوزاعى عن اسحاق بن عبدالله عن انس قال قال رسول اللهﷺ: طلب العلم.... الخ»(ذكره ابن الجوزى)

یہ روایت بھی بھروسہ کے قابل نہیں ہے۔ کیونکہ اس طریق کے راوی سلیمان بن سلمہ الخبائری کے متعلق ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے درج کیا ہے: "انه متروك" ابن جنید رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "كا يكذب" ابن حبان نے اس راوی کا ذکر "ضعفاء" میں کیا ہے۔ اور خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: "والخبائرى مشهور بالضعف" اور امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، خبائری کے متعلق امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ وہ "متروک الحدیث" ہے۔"

طریقِ چہاردہم:

«اخبرنا اسماعيل بن احمد قال نا اسماعيل بن مسعدة قال اخبرنا حمزة بن يوسف قال اخبرنا ابن عدى قال نا خالد بن النصر قال حدثنا محمد ابن موسى الجرشي قال نا حسان بن سياره قال نا ثابت عن انس قال قال رسول اللهﷺ:طلب العلم.... الخ»(ذكره ابن عبدالبر وابن الجوزى)

یہ طریق بھی ضعیف راوی سے پاک نہیں ہے، چنانچہ امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: "اس میں حسان بن سیاہ راوی ہے جس کی "تضعیف" امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے۔"

طریق پانژدہم:

«انبابا اسماعيل بن احمد قال نا اسماعيل بن مسعدة قال نا حمزة بن يوسف قال نا ابواحمد ابن عدى قال نا عمر بن سنان قال نا عبدالوهاب بن الضحاك قال نا ابن عياش عن ابى سهل عن مسلم الملائى عن انس قال قال رسول اللهﷺ: طلب العلم... الخ»(ذكره ابن الجوزى)

یہ روایت بھی عندالمحدثین ناقابلِ اعتماد ہے، کیونکہ اس طریق کے راوی مسلم الملائی کے متعلق فلاس کا قول ہے: "منكر الحديث جدا" یعنی بہت زیادہ منکر الحدیث ہے اور یحییٰ کا قول ہے: "لا شئ" اس طریق کا ایک دوسرا راوی ابوسہل، جس کا نام بقول علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ حسام بن مصک ہے، کے متعلق یحییٰ کا قول ہے: "ليس حديثه بشئ" یعنی "اس کی حدیث کچھ بھی نہیں ہے" ۔۔اس طریق کا تیسرا راوی عبدالوہاب بن الضحاک ہے، جس کے متعلق ابوحاتم رازی فرماتے ہیں:"كا يكذب" اس طریق کا ایک چوتھا راوی بھی مجروح ہے۔ اس کا نام ابن عیاش ہے جو امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک "ضعیف" ہے۔ اسماعیل بن عیاش پر نقد و جرح اس سے قبل "طریق ہفتم" میں بالتفصیل پیش کی جا چکی ہے۔

اس روایت کے مندرجہ بالا مجروح رواۃ کی تضعیف میں ائمہ جرح و تعدیل کے مذکورہ اقوال سے امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اتفاق درج کیا ہے۔

طریق شانزدہم:

«اخبرنا عبدالوهاب بن المبارك قال اخبرنا احمد ابن الحسن الباقلانى قال اخبرنا احمد بن عبدالله المحاملى قال انا ابوبكر الشافعى قال نا محمد بن يونس قال سليمان بن كران وانا ابن ناصر قال اخبرنا نصر ابن احمد قال اخبرنا ابن رزقويه قال انا احمد بن محمد بن زياد قال نا الحسن بن مكرم قال نا ابو النضر قال نا مسلم بن سعيد الثقفى قال نا نافع قال نا ابوعمار عن انس قال قال رسول اللهﷺ: طلب العلم.... الخ»(ذكره ابن الجوزى)

یہ روایت بھی اعتماد کے قابل نہیں ہے، کیونکہ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے راوی سلیمان بن کران پر شدید قدح و جرح فرمائی ہے۔ اور ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی "تضعیف" کی ہے۔ اس طریق کا ایک راوی مسلم بن سعید الثقفی ہے، جس کا ترجمہ تلاش کے باوجود نہیں مل سکا ہے۔ ایک اور راوی ابوالنضر، جس کا نام ہاشم بن قاسم ہے اور جس سے حسن بن مکرم نے روایت کی ہے، خطیب کے نزدیک "ثقہ" ہے۔ لیکن امام ابن الجوزی سلیمان بن کران پر ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ و ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح سے اتفاق کرتے ہوئے ابوالنضر کو "مجہول" بتلاتے ہیں۔ (جاری ہے)


حوالہ جات

1. "علم حاصل کرو خواہ چین میں ہو، کیونکہ علم حاصل کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔"

2. موضوعات" لامام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ، کتاب العلم ج1 ص 215 طبع المکتبۃ السلفیہ بالمدینۃ المنورۃ 1386ھ

3. ایضا

4. "الاخبار الاصبہان" لابی نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 106 طبع لیدن 1934ء

5. "جامع بیان العلم" لابن عبدالبر ج1 ص 7،8 طبع مکتبۃ العلمیہ بالمدینۃ المنورۃ

6. "تاریخ" للخطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ج9 ص 364 طبع بیروت و "کتاب الرحلۃ" للخطیب رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 2

7. منتقیٰ من مسموعاتہ بمرو" للحافظ ضیاء مقدسی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 28

8. "فوائد" لابن علیک نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 241

9. ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 207

10. "اربعین لابی القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 151

11. ابن عدی ج2 ص 207

12. تاریخ للخطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ج9 ص 364

13. حاشیہ بفوائد

14. موضوعات لابن الجوزی ج1 ص 215

15.ایضا

16. ایضا

17. کتاب الضعفاء للعقیلی ص196

18. ایضا

19. موضوعات لابن الجوزی ج1 ص 216

20. ج1، 2 ص 494

21. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی ج1 ص 414 طبع المکتب الاسلامی 1398ھ

22. موضوعات لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 215، 216

23. اردو ترجمہ الوسیلہ للشیخ الاسلام ابن تیمیہ ص 139 طبع لاہور 1976ء

24. موضوعات لابن الجوزی ج1 ص 216

25. منتخب لابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 10، 199

26. موضوعات لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 216

27. المقاصد الحسنہ للسخاوی رحمۃ اللہ علیہ ص 63 طبع المکتبۃ الکانجی بمصر 1375ھ

28. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی ج1 ص 413

29. اللالی للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 193 (مختصرا) طبع المکتبۃ التجاریۃ بمصر

30. میزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ: ترجمہ یعقوب بن اسحاق طبع دار احیاء الکتب العربیۃ 1383ھ

31. موضوعات لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 47

32. تعقبات علی الموضوعات ص4

33. کذا فی المقاصد الحسنہ للسخاوی رحمۃ اللہ علیہ ص 275

34. جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 9

35. تاریخ جرجان للسہمی رحمۃ اللہ علیہ ص 375 طبع حیدرآباد دکن

36. میزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج3 ص 406

37. العلل المتناہیہ فی الاحادیث الواہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 64 طبع لاہور

38. تقریب التہذیب لابن حجر عسقلانی طبع لکھنؤ

39. العلل المتناہیہ فی الاحادیث الواہیہ لابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 64

40. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للشیخ محمد ناصر الدین الالبانی ج1 ص 440 و ج2 ص 102،131،261

41. اللالی للسیوطی

42. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعہ لناصر الدین الالبانی ج1 ص 416

43. ایضا

44. جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 8 و شعب الایمان للبیہقی رحمۃ اللہ علیہ والمقاصد الحسنہ للسخاوی رحمۃ اللہ علیہ ص 276 والعلل المتناہیہ فی الاحادیث الواہیہ لابن الجوزی ج1 ص 57، 58

45. کذا فی سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ لناصرالدین الالبانی ج1 ص 306

46. میزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 36

47. جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 9 و تاریخ جرجان للسہمی رحمۃ اللہ علیہ ص 275 والذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج3 ص 406 والعلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 59

48. ایضا ج1 ص 64

49. تقریب التہذیب لابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ کثیر بن شنظیر

50. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 57

51. تاریخ بغداد ج11 ص 269 والعبر فی خبرمن غبر للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج3 ص 46 طبع دائرۃ المطبوعات والنشر الکویت 1960ء

52. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 64 ومیزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج3 ص 435

53. جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 9

54. اللالی للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ

55. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 58

56. کتاب المجروحین لابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 283

57. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 64

58. میزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 36

59. جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 8 واخبار الاصبہان لابی نعیم الاصبہانی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 52 ومیزان الاعتدال للذہبی رحمۃ اللہ علیہ ج2 ص 95 وذکرہ الخطیب رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 56 والعلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 60

60. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی ج1 ص 88

61. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 65

62. جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص9 والعلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 59

63. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 64

64. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ لناصرالدین الالبانی ج1 ص 440 و ج2 ص 102، 131، 261

65. ساقہ الخطیب رحمۃ اللہ علیہ ج6 ص 386 والعلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 60، 61

66. تاریخ بغداد للخطیب ج13 ص 222

67. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی ج1 ص 256

68. تاریخ بغداد للخطیب ج13 ص222

69. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعہ للالبانی ج2 ص 90

70. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 65

71. جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص7 والعلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 59

72. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ص 64 ج1

73. ایضا ج1 ص 58

74. المقاصد الحسنہ للسخاوی رحمۃ اللہ علیہ ص 275

75. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 64

76. ساقہ الخطیب رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 207 و ج9 ص 111 والعلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 60

77. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 65

78. ذکرہ الخطیب رحمۃ اللہ علیہ ج4 ص 208

79. تبلییض الصحیفہ للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ ص 5 والتنکیل بمافی تانیب الکوثری من الاباطیل ج1 ص 180-181، الطبقہ الاولیٰ 1386ھ

80. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 61

81. تہذیب لابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ج9 ص 200 طبع حیدرآباد دکن 1325ھ

82. العلل المتناہیہ لابن الجوزی، ج1، ص 65

83. ایضا ج1 ص 62

84. مجمع الزوائد للہیثمی ج8 ص 183 و ج1 ص 120

85. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ لناصرالدین الالبانی ج2 ص 55

86. ایضا ج2 ص 59

87. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 65

88. جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 7 والعلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 59

89. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 65

90. ایضا ج1 ص 61-62

91. ایضا ج1 ص 62

92. ایضا ج1 ص 65

93. ایضا ج1 ص 61

94. تاریخ بغداد للخطیب رحمۃ اللہ علیہ ج14 ص 65

95. العلل المتناہیہ لابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ج1 ص 65