فتاویٰ جات

٭حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام؟

٭ ابوطالب کا قبولِ اسلام؟ ۔۔وغیرہ

اسلام آباد سے سید ارشد علی لکھتے ہیں:

"مندرجہ ذیل تین سوالات ارسالِ خدمت ہیں۔ کتاب و سنت کی روشنی میں ان کے جوابات سے مستفیض فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کا اجر آپ کو عطا فرماوے۔ آمین

1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام کیا تھا۔۔۔کیا انہوں نے دینِ ابراہیمی قبول کیا تھا؟

2۔ کیا ابوطالب ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا نے اسلام قبول کیا تھا اور اگر کیا تھا تو کب کیا؟

3۔ کیا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے کوئی نبی پیدا ہوا، سوائے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے؟ ۔۔۔والسلام

جواب:

1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام:

قرآنی نصوص، احادیث مبارکہ کی تصریحات اور معتبر تاریخی کتب کے مطابق خلیل الرحمن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا۔

چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

﴿وَإِذ قالَ إِبر‌ٰ‌هيمُ لِأَبيهِ ءازَرَ‌ أَتَتَّخِذُ أَصنامًا ءالِهَةً إِنّى أَر‌ىٰكَ وَقَومَكَ فى ضَلـٰلٍ مُبينٍ ﴿٧٤﴾... سورة الانعام

"اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا، کیا تو بتوں کو معبود بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔"

اسی طرح حدیث کی معتبر ترین کتاب صحیح بخاری، جسے "اصح الكتب بعد كتاب الله" کا مقام حاصل ہے، میں ہے:

«عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ، فَيَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لاَ تَعْصِنِي فَيَقُولُ أَبُوهُ فَالْيَوْمَ لاَ أَعْصِيكَ‏.‏ فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ يَا رَبِّ، إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لاَ تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ، فَأَىُّ خِزْىٍ أَخْزَى مِنْ أَبِي الأَبْعَدِ فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ، ثُمَّ يُقَالُ يَا إِبْرَاهِيمُ مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ فَيَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ بِذِيخٍ مُلْتَطِخٍ، فَيُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ»(صحيح بخارى، حديث 3350)

"حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ راوی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "قیامت کے روز ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ آزر سے ملیں گے، دراں حالیکہ آزر کے چہرہ پر گرد اور سیاہی چھائی ہو گی، ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے: "کیا میں نے تجھے نہ کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو؟" وہ کہے گا: "آج میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔" اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے: "میرب رب، تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھے قیامت کے دن رسا نہ کرے گا۔ حالانکہ میرے ہلاک ہونے والے باپ سے بڑھ کر میری کونسی رسوائی ہے؟" تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے "میں نے کافروں پر جنت حرام کر رکھی ہے"۔ پھر کہا جائے گا۔" ابراہیم علیہ السلام، آپ کے پاوں کے نیچے کی طرف کیا ہے؟" آپ علیہ السلام نگاہ دوڑائیں گے تو اچانک آپ علیہ السلام کو ایک لتھڑا ہوا بجو نظر آئے گا، جسے ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔"

اس حدیث کی شرح میں شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"هذا موافق لظاهر القرآن فى تسمة والد ابراهيم"(فتح البارى، شرح صحيح البخارى ج8ص499)

کہ "یہ حدیث حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کے نام کے بارے میں قرآن کریم کے ظاہری الفاظ کے عین موافق ہے۔"

اسی طرح امام احمد بن محمد قسطلانی "ارشاد الساری شرح صحیح البخاری" 5/343 پر حدیث مذکور کے الفاظ "فاى خزى اخزى من ابى" کے بعد تشریحی طور پر "ازر" لکھتے ہیں۔

امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ "تاریخِ دمشق" میں لکھتے ہیں:

"ابراهيم بن ازر وهوتارخ بن ناحور"

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

"هوابراهيم بن تارخ"

اسی طرح کتاب مذکور کے صفحہ 140 پر ابن عساکر کے حوالہ سے بھی یہی بات مکرر ذکر کی ہے۔ علاوہ ازیں صفحہ 142 پر قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیتِ کریمہ لکھ کر فرماتے ہیں:

"یہ دلالت کرتی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا۔ جمہور اہل نسب، جن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی ہیں، کے نزدیک ان کے والد کا "تارح" اور اہل کتاب کے نزدیک "تارخ" ہے۔"

یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ جس بت کو پوجتا تھا، اس کا نام آزر تھا، اس کی نسبت سے اس کا لقب بھی آزر پڑ گیا۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "صحیح یہی بات ہے کہ اس کا نام آزر تھا۔ شاید یہ دونوں اس کے نام ہوں، یا ان میں سے ایک لقب ہو اور دوسرا نام۔"

لیکن بت کا نام آزر ہونے کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"وحكى الطبرى من طرق ضعيفة عن مجاهد ان ازراسم الصنم وهو شاذ"

کہ "طبری نے ضعیف سندوں سے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ آزر بت کا نام تھا۔ یہ قول شاذ ہے۔"

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز کتاب "تہذیب الاسماء واللغات" کے صفحہ 1/99 پر ابراہیم علیہ السلام کے تذکرہ میں فرماتے ہیں:

"هو ابواسماعيل ابراهيم بن ازر وهو تارخ قيل ازر اسم وتارخ لقب وقيل عكسه والقولان مشهوران"

کہ" ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام کے والد اور آزر کے بیٹے ہیں، اسی کو تارح بھی کہتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ آزر نام اور تارح لقب ہے، تاہم اس کے برعکس بھی کہا گیا ہے (کہ تارح نام اور آزر لقب ہے) یہ دونوں قول مشہور ہیں۔"

اسی طرح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کتاب مذکور میں صحہ 2/73 پر حضرت لوط علیہ السلام کے تذکرہ میں ثعلبی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ "لوط علیہ السلام نے عراق (ارضِ بابل) سے اپنے چچا ابراہیم علیہ السلام کے ہمراہ ان کا دین اختیار کر کے شام کو ہجرت کی۔ ان کے ہمراہ ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ اور والد آزر بھی تھا، جو دین کے لحاظ سے ان کا مخالف اور کفر پر ڈٹا ہوا تھا۔ تاآنکہ وہ لوگ حران جا پہنچے اور وہین آزر کی وفات ہوئی۔"

قرآن کریم کی نصِ حدیثِ صحیھ کے بیان، شراح حدیث کی توضیحات اور مورخین کی مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ بلا ریب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر ہی تھا۔ جب کہ بعض تجدد پسند، بزعمِ خویش محققین، جو ان نصوص و تصریحات کو رد کرنے کے لیے دور کی کوڑیاں لاتے ہیں، وہ قرآن کریم، احادیثِ مبارکہ اور دیگر مقامات پر واقع لفظ "اَب" کو اس کے حقیقی معنیٰ "باپ" کی بجائے مجازی معنیٰ "چچا" کے معنیٰ میں لیتے ہیں۔ حالانکہ مجاز وہاں مراد لیا جاتا ہے جہاں حقیقی معنیٰ متعذر ہو۔ یہاں عقلی و نقلی کسی طرح بھی "اَب" کا معنیٰ "باپ" کرنا متعذر نہیں تو خواہ مخواہ مجازی معنیٰ مراد لینے کی کیا ضرورت ہے؟ یہی وجہ ہے کہ مولانا محمد حفظ الرحمن سیوہاروی نے بھی قصص القرآن (طبع ندوۃ المصنفین دہلی) کی جلد اول میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تذکرہ میں اس موضوع پر خاصی طویل بحث کے بعد اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

2۔ ابوطالب کا قبولِ اسلام؟

احادیثِ صحیحہ میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب نے اسلام قبول کرنے سے اور کلمہ توحید کے اقرار سے انکار کر دیا۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے۔ وہاں ابوجہل اور عبداللہ بن ابی، امیہ بن مغیرہ بھی موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چچا! کلمہ "لا اله الا اللہ" پڑھ لیجئے تاکہ میں اس اقرار کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔" اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بولے۔ "ابوطالب، کیا تو عبدالمطلب کے دین سے منہ موڑ لے گا؟"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہ بات کہتے اور دہراتے رہے، تاآنکہ ابوطالب نے"لا اله الا اللہ" کہنے سے صاف انکار کر دیا اور آخری بات یہ کہی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہے۔

اس سے آگے دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:

﴿إِنَّكَ لا تَهدى مَن أَحبَبتَ وَلـٰكِنَّ اللَّهَ يَهدى مَن يَشاءُ وَهُوَ أَعلَمُ بِالمُهتَدينَ ﴿٥٦﴾... سورة القصص

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم جسے چاہیں ہدایت عطا نہیں کر سکتے، ہاں اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں سے خوب واقف ہے۔"

(صحیح مسلم، باب الدلیل علی صحۃ الاسلام من حضرہ الموت۔ الخ)

اس حدیث کی شرح میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی۔"

هذا ما عندى والله اعلم بالصواب

3۔ اس قسم کی کوئی بحث میری نظر سے نہیں گزری۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

(2)


بعض ورثاء کو ہبہ کرنا اور بعض کو محروم رکھنا؟

جناب بہادر جنگ صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور سے لکھتے ہیں:

"ایک شخص فوت ہو جاتا ہے۔ اس کی اولاد میں ایک لڑکا اور چار لڑکیاں ہیں۔ متوفیٰ صاحبِ جائیداد تھا۔ وفات سے چند سال قبل اس نے:

1۔ چھ کنال کی کوٹھی میں سے چار کنال لڑکے کے نام ہبہ کر دی اور ایک کنال بیوی کے نام، لیکن لڑکیوں کو محروم رکھا۔

2۔ زرعی اراضی میں سے دو ڈھائی مربع لڑکے کے نام ہبہ کر دی، لیکن لڑکیوں کو محروم رکھا۔

3۔ قصبہ میں، جہاں رہائش تھی، ایک مارکیٹ بنائی۔ جو تمام کی تمام لڑکے کے نام ہبہ کر دی، لڑکیوں کو اس سے بھی محروم رکھا ہے۔

پیش آمدہ صورتِ حال میں درج ذیل سوالات کا جواب مطلوب ہے کہ:

1۔ جو شخص وراثت میں حصہ دار ہے، اس کے نام ہبہ ہو سکتا ہے؟

2۔ صورتِ مسئولہ میں کیا لڑکیوں کی حق تلفی نہیں ہو گی؟

3۔ اگر حق تلفی ہوئی ہے تو اس کا کیا سدِباب ہونا چاہئے؟

والسلام

الجواب بعون الله الوهاب

صورتِ مسئولہ میں واضح ہو کہ اپنے بعض ورثاء کو کوئی چیز ہبہ کرنا اور بعض کو محروم رکھنا شرعا جائز نہیں۔

ایک صحیح حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک صحابی حضرت بشیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک غلام ہبہ کر دیا اور اسے لے کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر گواہ بن جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا "کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اتنی ہی چیز عطا کی ہے؟" انہوں نے کہا، "نہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "اسے واپس لے لو"

دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیں:

«فَاتَّقُوا للهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ اَوْلَادِكُمْ»

"اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنی اولادوں کے درمیان (ہبہ وغیرہ میں) عدل و انصاف سے کام لو۔"

راوی فرماتے ہیں، اس پر انہوں نے اپنا عطیہ (ہبہ) واپس لے لیا۔ ایک اور روایت میں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لَا اَشْهَدُ عَلٰى جَورٍ»

"میں اس ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔" (متفق علیہ، مشکوٰۃ ص 260)

لہذا کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ بعض ورثاء کو ہبہ کرے اور بعض کو محروم رکھے۔ نیز معلوم ہوا کہ اولاد کے درمیان عدل نہ کرنا ظلم اور زیادتی ہے۔ جیسے لڑکا اس کی شفقت کا مستحق ہے، اسی طرح لڑکیاں بھی اس کی اولاد ہیں اور شفقت کی مستحق ہیں۔

2۔ نیز معلوم ہوا کہ بعض ورثاء کو ہبہ سے محروم رکھنے میں ان پر زیادتی ہوتی ہے۔

3۔ اس حق تلفی کے سدِباب کے لیے ایسے عمل کے مرتکب کو اللہ کا خوف اور آخرت کی جوابدہی کا احساس دلانا چاہئے۔

4۔ جائیداد کسی بھی قسم کی ہو، شریعت کے مطابق اور عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کے ہبہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔

5۔ پیش آمدہ اور مسئولہ صورت مین چونکہ لڑکا اکیلا وارث نہیں بلکہ لڑکیاں بھی ہیں، اس لیے لڑکیوں کو محروم کر کے صرف لڑکے کے نام ہبہ کرنا جائز نہیں۔