دین میں بدعات جاری کرنا حرام ہے

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جہانِ رنگ و بو میں بنی نوع انسان کے لیے راہنما بن کر تشریف لائے۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہر نیک اور اچھے کام کی طرف امتِ مسلمہ کی رہنمائی فرمائی اور ہر برائی سے باز رہنے کی تلقین کی۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبے کے آغاز میں فرماتے: "ان شرالامور محدثاتها" یعنی دین میں نیا کام جاری کرنا بدترین امور میں سے ہے۔ کیونکہ بہ ظاہر یہ نیکی کا کام نظر آتا ہے، لیکن درحقیقت یہ دین کے شجرِ طوبیٰ کو بیخ و بن سے اُکھاڑنے کے مترادف ہے۔ پھر بعض بدعات ایسی ہیں کہ جن کے ارتکاب سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، یا کم از کم اس کا شمار فاسقوں کے گروہ میں ہونے لگتا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر جرائم کے عادی اپنی عادات کو ترک کر سکتے ہیں، لیکن بدعتی کا بدعت کے کام سے ہٹنا محال ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس بُرے کام کو بُرا تصور ہی نہیں کرتا، بلکہ وہ اسے نیکی سمجھ کر انجام دیتا ہے۔ لہذا بدعت کے خلاف سینہ سپر ہونا انتہائی ضروری ہے۔

فضیلۃ الشیخ ابوبکر الجزائری کا زیرِ نظر مقالہ "حرمۃ الابتداع فی الدین" اس سلسلہ میں بڑا وقیع مقالہ ہے۔ اس میں بدعت کی تعریف، اس کی اقسام، اس کے اسباب، نیز بطورِ مثال چند بدعات کا ذکر کر کے ان کی تردید کی گئی ہے۔۔۔عوام کے استفادہ کے پیشِ نظر اس مقالہ کو اردو قالب میں ڈھال کر قارئینِ محدث کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جملہ مسلمانوں کو ہر قسم کی بدعات سے بچنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔۔۔آمین (مترجم)

بدعات کو جاننا، مروجہ بدعات سے واقف ہونا اور عوام کو ان سے آگاہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ بدعت کے رائج ہونے سے دین کا نقصان ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں بدعات کے رواج پانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔۔۔بدعات کے نقصانات معلوم کرنے اور ان کے خطرات سے آگاہ ہونے کے لیے تین امور کا جاننا ضروری ہے:

1۔ عقلِ انسانی مستقل طور پر بذاتِ خود کسی شے کے حسن و قبح سے واقف نہیں ہوتی اور اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی چیز اس کے لیے نقصان دہ ہے اور کون سی چیز نفع بخش۔۔۔کیونکہ انسانی عقل کوتاہ اور اس کا علم محدود ہے، جو ہر شے پر حاوی نہیں ہوتا۔ مزید برآں انسان کی نفسانی خواہشات اسے اندھا بنا دیتی ہیں جس کی بناء پر وہ غلط اور صحیح میں امتیاز نہیں کر سکتا۔ بناء بریں انسان کے لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ کون سی شے اس کے لیے نقصان دہ ہے اور کون سی مفید؟ ۔۔۔کون سی اچھی ہے اور کون سی بری؟ کس امر میں خرابیاں اور نقائص ہیں اور کس میں اصلاح کا پہلو مضمر ہے؟ ۔۔۔ظاہر ہے ان امور کا علم صرف وحی الہی سے ممکن ہے۔ کیونکہ اللہ رب العزت، غفلت و نسیان سے مبرا اور خطا سے پاک ہے۔

عقلِ انسانی کی مثال ایک آنکھ کی ہے، جو روشنی میں دیکھتی ہے۔ اگر روشنی ہو گی تو وہ اشیاء کو اپنی قوت اور استعداد کے مطابق دیکھ سکے گی۔ جبکہ تاریخی میں اشیاء کی حقیقت کو جاننا اس کے لئے دشوار ہوتا ہے۔۔۔یہ تجربہ اور مشاہدہ کی بات ہے۔

بعینہ انسانی عقل، کتاب اللہ یا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اشیاء کی حقیقت کو خوب پہچان لے گی۔وہ اشیاء کی مضرت و منافع، ان کی بھلائی اور برائی، ان کے حسن اور قبح کو جانچنے پر قادر ہو گی۔ پھر جب اس کے ساتھ ساتھ ایمانی قوت بھی شامل ہو گی تو اس سے غلطی کا صدور و امکان شاذو نادر ہو گا۔ ورنہ اکثر و بیشتر وہ شاہراہِ حیات پر صحیح سمت اختیار کرے گی۔۔۔بخلاف اس عقل کے جو وحی الہی کے نور سے کلیتا محروم ہے۔ کتاب و سنت پر غور کا اس میں فقدان ہے۔ ایسی عقل عموما غلطیوں کا ارتکاب کرے گی، ٹھوکریں کھائے گی اور صحیح سمت میں راہنمائی اس کے لیے ناممکن ہو گی۔۔پس ایسا انسان جو شریعت کی منشاء کے مطابق نہیں چل سکتا، صراط مستقیم پر کیونکر گامزن ہو سکتا ہے؟

2۔ اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کے لیے دین کی تکمیل کر دی ہے۔ وہ اس کی سعادت اور کمال کا منبع و مرکز ہے۔۔۔اللہ رب العزت نے انسان سے دین میں زیادتی کا مطالبہ ہرگز نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس فرمایا:

﴿اَليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...﴿٣﴾... سورة المائدة

"آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے دینِ اسلام کو پسند فرما لیا ہے"

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحلت سے پیشتر بھلائی کے تمام امور کی امت کے لیے وضاحت فرما دی اور ہر قسم کی برائی سے مطلع کرتے ہوئے اس سے بچنے کی تاکید فرمائی۔۔۔حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اس بات کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ:

"رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (دین و دنیا) کے تمام امور کی تعلیم فرمائی، حتیٰ کہ قضائے حاجت کے آداب اور طریقہ بھی بتلایا۔"

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، جو مدینہ منورہ کے ایک متبحر عالم اور امام دارالہجرۃ ہیں، تاکیدا فرماتے ہیں:

"جو کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مسعود میں دین نہیں تھا، وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتا۔"

نیز فرماتے ہیں:

"جو شخص دین میں کوئی بدعت کا کام جاری کرتا ہے اور اسے نیکی تصور کرتا ہے، گویا وہ یہ سمجھتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کے کام میں (معاذاللہ) خیانت کی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل کر دی، اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور اسلام کو میں نے بطورِ دین تمہارے لیے پسند فرما لیا ہے۔"

3۔ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی اشیاء کے کچھ خواص مقرر فرمائے ہیں۔ مثلا آگ جلاتی ہے، لوہا کاٹتا ہے، کھانا انسان کی بھوک اور پانی اس کی تشنگی کو دور کرتا ہے۔ الغرض جو چیز جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے، اس سے وہی مقصود حاصل ہوتا ہے۔بالکل اسی طرح اللہ رب العزت نے انسانیت کی تکمیل اور سعات کے لیے کچھ قلبی، کچھ قولی اور کچھ فعلی عبادتیں مقرر فرمائی ہیں۔ جب ایک مومن کو ان مقررہ طریقے کے مطابق ادا کرتا ہے تو اس کے نتیجہ میں اس کے نفس کا تزکیہ ہوتا اور اس کے اخلاق سنورتے ہیں۔۔۔روح کی اصلاح ہوتی ہے۔ اس کے برعکس وہ قوانین جو انسان خود وضع کرتا ہے، یا بالفاظِ دیگر انی عبادات کے لیے اگر وہ دین میں کچھ نئے امور جاری کرتا ہے تو ان کے نتائج وہ نہیں نکلتے جو عبادات سے مطلوب و مقصود ہوتے ہیں۔ واقعات شاہد ہیں کہ وضعی قوانین اور دین میں بدعات، انسانی طبائع میں خباثت پیدا کرنے، نفوس میں ظلمت و تاریکی بڑھانے اور اخلاق کو بگاڑنے کے سوا کچھ نہیں کرتیں۔ آپ ان ممالک کا حال دیکھئے، جہاں جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر قوانین وضع کیے گئے، لیکن ان کا نتیجہ یہی نہیں کہ صفر رہا، بلکہ وہاں خونریزی و فسادات میں مسلسل اضافہ وا، عزت و آبرو کا تحفظ نہ ہو سکا اور چوری، لوٹ کھسوٹ کے جرائم عام ہوتے گئے۔ اس کے برعکس وہ ملک، کہ جس میں اللہ کی شریعت نافذ ہے، وہاں جان و مال اور عزت و آبرو کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔۔۔سعودی عرب کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے۔

مذکورہ بالا تین امور کی روشنی میں ہم بدعت اور اس کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔ سب سے پہلے ہم بدعت کی تعریف کرتے ہیں۔

بدعت کی لغوی تعریف:

لغت میں "بدع الشئی" کا معنیٰ ہے، کوئی ایسی چیز ایجاد کرنا جس کی پہلے نظیر یا مثال موجود نہ و۔ "ابتدع" اور "ابدع" کے معنی بھی یہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک مبارک نام "بدیع" بھی ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں، اشیاء اور جہان کو نئے طریقے سے پیدا کرنے والا۔۔۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿بَديعُ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضِ وَإِذا قَضىٰ أَمرً‌ا فَإِنَّما يَقولُ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿١١٧﴾... سورةالبقرة

"(اللہ تعالیٰ) زمین و آسمان کو پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا ہے اور جب وہ کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ے تو اس کے لیے فرماتا ہے، ہو جا ، پس وہ ہو جاتا ہے"

"بدیع" کے معنیٰ یہ بھی ہیں، ایسی ذات کہ جس سے قبل کوئی شے نہ تھی۔ بناء بریں غیراللہ کو "بدیع" نہیں کہ سکتے۔۔۔ اسی طرح "بدع" کے معنی بھی ایسی شے کے ہیں جو سب سے پہلے ہو اور اس سے قبل کوئی شے نہ ہو۔ جیسا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

﴿قُل ما كُنتُ بِدعًا مِنَ الرُّ‌سُلِ...﴿٩﴾... سورة الاحقاف

"آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیجئے، میں سب سے پہلا رسول نہیں ہوں"

بلکہ مجھ سے پیشتر بھی کئی رسول ہو گزرے ہیں، پھر تم میری رسالت کے منکر اور اس پر متعجب کیوں؟

"بدیع" ایک علم کا نام بھی ہے، جس سے کلام کی خوبیاں پہچانی جاتی ہیں۔ یہ علمِ بلاغت کے فنونِ ثلاثہ میں سے ایک ہے۔ بلاغت کے تین فنون مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ علمِ معانی 2۔ علمِ بیان 3۔ علمِ بدیع

اصطلاحی تعریف:

اصطلاحِ شرع میں بدعت سے مراد ہے، دین میں کوئی ایسا کام جاری کرنا جس کا پہلے وجود نہ ہو۔ یہ بدعت حقیقی ہے۔ یا دین میں کوئی ایسا امر ایجاد کرنا جو شریعت کے مشابہ ہو اور اس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب اور عبادت مقصود ہو۔ اس صورت میں بدعت سنت کے متضاد ہو گی۔ کیونکہ سنت سراسر ہدایت ہے، جبکہ بدعت ضلالت اور گمراہی ہے۔۔۔سنت ایک ایسا شرعی طریقہ ہے، جو وحی الہی سے ثابت ہے اور بدعت اپنی طرف سے ایجاد کردہ طریقہ ہے کہ جس کے متعلق کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔

دین میں بدعت جاری کرنے کے متعلق کیا حکم ہے؟

دینِ اسلام میں بدعت جاری کرنا کتاب و سنت اور اجماعِ امت کے اقوال کی روشنی میں حرام ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت و خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ اور جو انسان کے لیے جہنم کا موجب بننے کے لیے کافی ہے۔ بناء بریں بدعت ایک قابلِ نفرت اور مذموم فعل ہے اور اس کا فاعل بھی مذمت کے لائق ے۔ امت کو اس کی برائی سے ڈرایا گیا اور اس کے برے انجام سے خبردار کیا گیا۔ چنانچ اللہ تعالیٰ نے بدعت ایجاد کرنے پر زجر و توبیخ فرمائی ے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿شَرَ‌عوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ وَلَولا كَلِمَةُ الفَصلِ لَقُضِىَ بَينَهُم...﴿٢١﴾... سورةالشورىٰ

"انہوں (مشرکوں) نے دین میں لوگوں کے لیے ایسے کام مشروع قرار دیے جن کا اللہ نے حکم نہیں فرمایا تھا۔ اگر (اللہ رب العزت کا) یہ طے شدہ امر نہ ہوتا (کہ روزِ قیامت انہیں اس کی سزا دی جائے گی) تو (دنیا ہی میں) ان کا فیصلہ کر دیا جاتا (یعنی ان پر عذابِ الی نازل ہو جاتا)"

اس آیت میں بدعت ایجاد کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کی گئی ہے اور آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ شارع نے بدعت کا انکار کیا ہے اور بدعت کے کام کو برا سمجھا ہے۔

صحیح مسلم میں حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک حدیث مذکور ہے جو بدعت کی مذمت اور اس کی حرمت کے لیے کافی ہے۔ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں:

«واياكم ومحدثات الامور فان كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة»

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) دین میں نئے نئے امور ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ دین میں ہر نیا کام جاری کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے"

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبہ کے آغاز میں فرمایا کرتے تھے:

«ان اصدق الحديث كتاب الله وخير الهدى هدى محمدﷺ وشرالامور محدثاتها وكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة»

"سب سے سچی بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور سب سے بہترین طریقہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، جبکہ سب سے بدترین کام دین میں کوئی نیا کام ایجاد کرنا ہے۔ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے"

بدعت کا انکار:

بدعت کا انکار کرنا ضروری ہے اور اس پر عمل کرنا ہرگز جائز نہیں۔ ہم ذیل میں وہ احادیث اور آثار درج کرتے ہیں جو اس کی مذمت میں وارد ہوئے ہیں:

1۔ صحیح مسلم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مذکور ہے:

«مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ»

"جو شخص ہمارے دین میں کوئی نیا کام ایجاد کرتا ہے، جس کا ہمارے دین میں کوئی ذکر نہیں تو ایسا کام قابلِ قبول نہیں"

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»

"جو شخص ایسا کام کرتا ہے جو ہمارے فعل کے مطابق نہیں تو وہ قابلِ قبول نہیں ہو گا۔"

ان دو حدیثوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بدعت کا کام دین میں مردود اور باطل ہے اور باطل کام کا کوئی ثواب نہیں ملتا۔ نیز ایسا کام جس کا ثواب نہ ملے قابلِ انکار ہے اور اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔

چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تمام امت کو اتباعِ سنت کی نصیحت اور بدعات کی مخالفت کے متعلق یوں ہدایت فرماتے ہیں:

"تم ہمارے آثار کی پیروی کرو اور بدعات مت ایجاد کرو۔ اگر تم نے ایسے کیا تو یہی تمہاری نجات کے لیے کافی ہو گا۔"

نیز فرماتے ہیں:

"سنت کے معاملہ میں درمیانی روش اختیار کرنا، بدعت میں بہت زیادہ مشقت برداشت کرنے سے بہتر ہے۔"

مقصود یہ ہے کہ سنت کے مطابق تھوڑا سا عمل کر لیں تو وہ بدعت کے کام میں بہت زیادہ مشقت اٹھانے سے بہتر ہے، کیونکہ وہ غیر مشروع اور سنت کے خلاف ہے۔ ثواب صرف مشروع کام کرنے سے ملتا ہے۔ پھر ہر نیکی کا دس گنا ثواب ملتا ہے، جبکہ بدعتی کا عمل رد کر دیا جاتا ہے اور اسے اس کا کوئی ثواب نہیں ملتا۔ یہ ایک ایسا غیر صالح عمل ہے جو نفس کا تزکیہ کرتا ہے نہ روح کا۔

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بدعت سے ڈرانے کے لیے ایک عجیب انداز اختیار فرمایا۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں دو پتھر پکڑے، پھر ایک کو دوسرے پر مارا۔ اس سے کچھ روشنی نمودار ہوئی۔ پھر انہوں نے اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر فرمایا "کیا تم ان دونوں پتھروں میں کوئی روشنی دیکھتے ہو" انہوں نے جواب دیا "اے ابوعبداللہ، ان میں ایک دفعہ معمولی سی روشنی نظر آئی ہے اور بس" حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "مجھے اس ذاتِ اقدس کی قسم ہے، جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جبکہ بدعات کا دور دورہ ہو گا اور سنت کا رواج اس قدر قلیل ہو گا جس قدر کہ ان دو پتھروں کے درمیان معمولی روشنی نمودار ہوئی ہے۔ بخدا، بدعات کا اس زمانے میں خوب عروج ہو گا حتیٰ کہ لوگ سنت اور بدعت میں امتیاز نہیں کریں گے، بدعات کو ہی سنت تصور کریں گے۔ اگر کسی نے کسی بدعت کو ترک کر دیا تو لوگ یہ کہیں گے کہ سنت کا تارک ہے۔"

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بدعت اور صاحبِ بدعت سے بہت دور رہنے کی تاکید کیا کرتے اور بدعت سے ڈرایا کرتے تھے۔ آپ لوگوں سے اکثر یہ کہا کرتے تھے:

"بدعتی انسان کے پاس مت بیٹھو کیونکہ اس کے پاس بیٹھنے سے تمہارا قلب مریض ہو جائے گا"

قرآن کریم میں اہلِ بدعت اور اہلِ ہوا کی مجلس میں بیٹھنے کی صریحا ممانعت مذکور ہے۔ سورۃ الانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا رَ‌أَيتَ الَّذينَ يَخوضونَ فى ءايـٰتِنا فَأَعرِ‌ض عَنهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِ‌هِ وَإِمّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيطـٰنُ فَلا تَقعُد بَعدَ الذِّكر‌ىٰ مَعَ القَومِ الظّـٰلِمينَ ﴿٦٨﴾... سورةالانعام

"جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ایسے لوگوں کو دیکھیں جو قرآنی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے منہ پھیر لیں اور ان کے پاس مت بیٹھیں تاآنکہ وہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں۔ لیکن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان بھلا دے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بیٹھ جائیں) تو یاد آنے پر ظالم قوم کے پاس مت بیٹھیں"

اللہ کی آیات۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات، اس کی تقدیر اور اس کی شریعت پر مشتمل ہیں۔ جبکہ بدعتی لوگ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا انکار کرتے ہیں۔۔۔ کوئی کلیۃ نفی کرتا ہے، کوئی تعطیل کا قائل ہے، کوئی تشبیہ دیتا ہے اور کوئی تمثیل کا قائل ہے۔ حالانکہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے منکرہیں اور اس کی تکذیب کرتے ہیں، اس کی شریعت کو معطل قرار دیتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں، اللہ کے دین میں زیادتی کرتے اور بدعات ایجاد کرتے ہیں، ایسے تمام لوگ بدترین بدعتی ہیں۔ ان لوگوں کی مجالس میں شامل ہونا حرام ہے اور بلا ضرورت ان سے میل جول رکھنا جائز نہیں۔ تاکہ ان کو معلوم ہو کہ یہ ہم سے ناراض ہیں۔ اور یہ بھی معلوم کرایا جائے کہ وہ ان کے اس فعل کو ناپسندیدہ سمجھتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ایک مومن آدمی کا قلب بدعات کے اثرات سے محفوظ رہتا ہے اور ان کے فتنہ اور باطل امور مین مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے۔

بدعت کی اقسام:

بدعات دو اقسام میں منقسم ہیں، بدعتِ حقیقی اور بدعتِ اضافی۔۔۔تاہم بدعت، بدعت ہی ہے، خواہ وہ اضافی ہو یا حقیقی۔ اس پر عمل کرنا ہر صورت میں باطل اور ممنوع ہے۔ اس کی دعت دینا حرام ہے اور اس کا انکار ضروری ہے۔ کیونکہ ان دونوں صورتوں میں اللہ کے دین میں اضافہ ہوتا ہے اور اس اضافہ میں شریعت کی مشابہت کی جاتی ہے، یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے، خواہ بدعتی کا ارادہ مخالفتِ خدا اور مخالفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ ہو۔ کیونکہ بدعت کا صرف ایجاد کرنا بھی عظیم ترین گناہ ہے۔

بدعتِ حقیقی کی تعریف: بدعتِ حقیقی سے مراد یہ ہے کہ دین میں کوئی ایسا کام جاری کیا جائے جس کا دین کے اصول اور فروع میں کوئی ذکر نہ ہو۔ یعنی اس پر کتاب و سنت یا اجماعِ امت کی کوئی شرعی دلیل وارد نہ ہو۔ مثلا قبروں پر گنبد بنانا، قبروں کو پختہ کرنا، مساجد میں زیبائش و آرائش پر زور دینا، شرعی قانون کے بغیر اپنی طرف سے کوئی قانون وضع کرنا اور اس میں شریعت کی مشابہت اختیار کرنا۔ اس شریعت کی، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کی ہے، جس کی خاطر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا اور جس شریعت کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے وضاحت فرما دی۔ ایسے تمام امور جو اس شریعت کے مشابہ اختیار کیے جائیں، حقیقی بدعت کے زمرہ میں آتے ہیں۔ کیونکہ اس کے متعلق کتاب و سنت اور اجماعِ امت کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ شریعت نے ایسے امور کو حرام قرار دیا اور ان کی ممانعت فرمائی ہے۔ نیز ان پر سخت وعید آئی ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پکی قبر بنانے سے نہ صرف منع فرمایا، بلکہ پکی قبور کو مسمار کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح مسجدوں کی زیبائش و آرائش مقرر فرمائے ہیں، ان کی مثل اپنی طرف سے قانون وضع کر کے اسے شریعت کا درجہ دینے سے منع فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿شَرَ‌عوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ وَلَولا كَلِمَةُ الفَصلِ لَقُضِىَ بَينَهُم...﴿٢١﴾... سورةالشورىٰ

یعنی انہوں نے لوگوں کے لیے ایسی باتوں کو مشروع قرار دیا جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا۔ چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہ ہوتا کہ انہیں اس کا قیامت کو عذاب ہو گا تو ضرور اس دنیا ہی میں ان کا فیصلہ کر دیا جاتا۔

بدعتِ اضافی:

یہ ایسی بدعت کا نام ہے جو کتاب و سنت اور اجماعِ امت کی طرف منسوب کی جاتی ہے، لیکن شریعت نے اس امر کی جو حد مقرر کی ہوتی ہے، یہ اس سے متجاوز ہو جاتی ہے۔ بناء بریں اسے بدعت کے زمرہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ مثلا جماعت کی صورت میں بیک آواز ذکرِ الہی کرنا۔۔۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہئے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اذكُرُ‌وا اللَّـهَ ذِكرً‌ا كَثيرً‌ا ﴿٤١﴾ وَسَبِّحوهُ بُكرَ‌ةً وَأَصيلًا ﴿٤٢﴾... سورةالاحزاب

"اے ایمان والو، اللہ کو بہت یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کیا کرو"

لیکن بیک آواز یہ ذکر کرنا از قبیل بدعات ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مسعود میں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام رحمۃ اللہ علیہم کے زمانہ میں ایسے ذکر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ پس یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ اجتماعی ذکر ممنوع ہے۔ کیونکہ یہ بدعاتِ اضافیہ میں سے ہے۔

بدعتِ اضافی کی پھر دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت ایسی ہے جس میں اسے بدعات کے زمرہ میں شمار نہیں کرتے، جبکہ دوسری صورت میں اس کا شمار بدعات میں سے ہو گا۔ ایسی صورت میں ایسے فعل کو ترک کرنا ضروری ہے اور ایسا کام کرنا جائز نہیں، بدعاتِ اضافیہ بدعاتِ حقیقیہ سے کئی گنا زیادہ ہیں، اگرچہ بدعاتِ حقیقیہ کی تعداد بھی کم نہیں۔ بہرحال یہ بات ذہن نشین کر لینے کے قابل ہے کہ بڑی بڑی بدعات کا ارتکاب کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے یا کم از کم فاسقوں کے گروہ میں اس کا شمار ہونے لگتا ہے۔ العیاذباللہ

بدعاتِ مکفرہ:

یہ وہ بدعات ہیں جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتی ہیں۔ یہ عموما دین سے جہالت، لاعلمی اور خواہشات کی اتباع کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور ان کا ایک سبب اندھی تقلید بھی ہے۔ بدعاتِ مکفرہ کا تعلق زیادہ تر اصولِ دین میں اعتقادات سے ہے۔۔۔مثلا:

تقدیر کا انکار، خالق کی صفات کا انکار۔۔۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی یا ان پر طعن و تشنیع، بالخصوص شیخین حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر زبان درازی کرنا۔۔۔یہ عقیدہ رکھنا کہ اولیاء اللہ اپنی وفات کے بعد امورِ دنیا میں تصرف کرتے اور لوگوں کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ لوگوں کو رزق دینے، روک لینے اور ان کے نفع و نقصان میں ان کا اختیار ہوتا ہے۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ ولی، نبی سے افضل ہوتا ہے اور کچھ اولیاء ایسے ہیں کہ انہیں پکارا جائے تو وہ اس پکار کو سنتے اور دعائیں قبول کرتے ہیں۔ حاجت روائی کرتے، مصیبت کے پنجہ سے رہائی دلواتے اور ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچاتے ہیں۔ جیسا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لوگوں کا اعتقاد ہے کہ وہ سب کچھ کر سکتے اور کرتے ہیں۔۔۔یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن پاک میں تناقض ہے اور بعض آیات، بعض آیات کے متضاد ہیں۔۔۔اسی طرح قبر کے عذاب اور اس کی نعمتوں کا اس بناء پر انکار کرنا کہ عقل ان سے اباء کرتی ہے، وغیرہ ۔۔۔یہ اور اسی قبیل کی دیگر بدعات ایسی ہیں جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتی ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد کے بعد معرضِ وجود میں آئی ہیں۔

ایسی بدعات جن کا ارتکاب فسق ہے:

بعض بدعات ایسی ہیں کہ جن کا مرتکب اگرچہ دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا، تاہم گروہِ فساق میں ضرور اس کا شمار ہونے لگتا ہے۔ ان بدعات کا تعلق عموما فروعاتِ دین سے ہوتا ہے اور ان کی بھی بڑی وجہ جہالت، اندھی تقلید اور خواہشات نفسانی کی اتباع ہے۔۔

ذیل میں ہم ان بدعات میں سے چند کی نشاندہی کرتے ہیں:

1۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض صحیح احادیث کا اس بناء پر انکار کرنا کہ وہ ان منکرین کی خواہشات اور مرضی کے مطابق نہیں ہوتیں،چنانچہ بعض لوگوں نے صحیح بخاری کی اس حدیث کا انکار کیا ہے:

«إذا وقع الذباب في إناء أحدكم فليغمسه ثم لينزعه، فإن في أحد جناحيه داء وفي الآخر شفاء وإنه يتقي بجناحه الذي فيه الداء»

"(حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گر جائے تو اسے پانی (وغیرہ) مین ڈبو دے، پھر باہر پھینک دے۔ کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفاء۔ وہ اس پر کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتی ہے جس میں بیماری ہے"

ان لوگوں کا اس حدیث کے بارے میں یہ خیالِ خام ہے کہ یہ حدیث گندگی کی دعوت دیتی ہے۔ لہذا اسے صحیح تسلیم نہیں کیا جا سکتا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظافت اور صفائی کی تعلیمات بالخصوص دی ہیں اور اس کی تاکید فرمائی ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم فرمایا ہے تو صاحبِ وحی کی اس حکمت پر عقل کو ترجیح نہ دینی چاہئے، بلکہ عقل پر اسے حاکم بنانا چاہئے۔

2۔ قرآن کریم کی بعض آیات کی اس بناء پر غلط تفسیر کرنا کہ ان کی صحیح تفسیر ان کے خلاف پڑتی اور ان کے اغراض و مقاصد و خواہشات کے برعکس ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ان کی ایسی تفسیر کرتے ہیں اور ایسے معانی بیان کرتے ہیں جو ان کی اپنی عادات اور ذاتی اغراض و خواہشات کے مطابق ہوں۔ مثلا سورۃ المائدہ کی درج ذیل آیات سے بعض لوگوں نے شراب پینے کی اباحت کشید کر لی ہے:

﴿لَيسَ عَلَى الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ جُناحٌ فيما طَعِموا...﴿٩٣﴾... سورةالمائدة

"ایمان لانے والوں اور اعمالِ صالحہ کمانے والوں پر، (زمانہ ماضی میں) جو وہ شراب (وغیرہ) پی چکے، کوئی گناہ نہیں ہے"

حالانکہ آیتِ کریمہ اس زمانہ کی شراب نوشی کے گناہ نہ ہونے کی ترجمان ہے جب ابھی شراب حرام نہ ہوئی تھی۔۔۔جب شراب حرام ہو گئی تو ایمان والوں نے فورا اس سے ہاتھ اٹھا لیا۔ چنانچہ آیتِ کریمہ میں انہیں ان کے اس سابقہ گناہ کی معافی کی خوشخبری دی گئی ہے۔

اسی طرح بعض غالی صوفی سورۃ الانعام کی درج ذیل آیت سے اللہ کا مرد ذکر جائز قرار دیتے ہیں:

﴿ثُمَّ ذَر‌هُم فى خَوضِهِم يَلعَبونَ ﴿٩١﴾... سورةالانعام

حالانکہ یہ درست نہیں، چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین رحمۃ اللہ علیہم، تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم میں سے کسی مفسر نے بھی اس آیت کے یہ معانی بیان نہیں کئے، چہ جائیکہ کوئی صحیح حدیث اس سے متعلق اُس ہستی سے مذکور ہو، جس پر قرآن مجید نازل ہوا اور پھر اسے لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا گیا۔

اسی طرح بعض لوگوں نے سورہ نور کی آیت:

﴿أَو صَديقِكُم لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَأكُلوا جَميعًا أَو أَشتاتًا... ﴿٦١﴾... سورة النور

سے اسقاطِ حجاب کا مسئلہ نکالا ہے۔ کہ یہ طریقہ احباب میں دوستی و محبت کا باعث بنتا ہے اور اس سے بھائی چارہ قائم ہوتا ہے۔ چنانچہ حجاب کو ساقط کرتے ہوئے وہ ایکدوسرے کی عورتوں کو نہ صرف دیکھتے بلکہ غیر محرم مرد و عورت اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں اور اپنے اس فعل پر آیتِ مذکور سے دلیل لاتے ہیں۔ حالانکہ یہ تفسیر اور تاویل باطل ہے۔ کیونکہ کتاب و سنت اور اجماعِ امت اس کی تردید کرتے ہیں۔

یہ چند نمونے بدعت مکفرہ اور بدعت مفسقہ کے ہیں.......... کچھ بدعات ایسی ہیں کہ جن کے ارتکاب سے انسان نہ تو دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے اور نہ ہی فاسق ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ بدعات حقیقی نہیں بلکہ اضافی ہیں۔ نیز یہ اصول دین میں سے نہیں بلکہ فروعی مسائل سے ان کا تعلق ہے ۔ علاوہ ازیں یہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں بتاتے..... مثلاً

صرف ''اللہ'' کا لفظ پکارنے سے اللہ کا ذکر کرنا ، پانچوں نمازوں کے بعد دعاء کو نماز کاحصہ تصورکرتےہوئے اس کے بغیر نماز کو نامکمل سمجھنا، اذان سے قبل' الصلاة والسلام عليك يارسول الله"پڑھنا، اذان کے کلمات میں اضافہ کرنا، جمعہ کی نماز میں زیادتی کرنا............ یعنی جمعہ کے بعد ظہر کی نماز احتیاطی پڑھنا، اس نظریہ سے کہ شاید جمعہ کی نماز نہ ہوئی ہو.........جماعت کی صورت میں بیک آواز قرآن پاک کی تلاوت کرنا، چنانچھ بعض ممالک میں یہ ایک وظیفہ تصور کیاجاتا ہے اور ان کے ہاں بہت مشہور ہے..................... باجماعت نماز کے بعد اپنے دائیں بائیں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا۔ وغیرہ !........... یہ سب اضافی بدعات ہیں۔

قاری یا سامع کو یہ بات ذہن میں ہرگز نہیں لانی چاہیے کہ ایسی بدعات جن کے کرنے سے انسان نہ تو دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے اور نہ اس پر فاسق ہونے کا فتویٰ لگایا جاسکتا ہے ، کے ارتکاب میں کوئی مضائقہ نہیں یاکرنےوالے کو ثواب ہوگا، جبکہ اس کا فاعل اسے حسن نیت اور نیک ارادہ سے کرے۔ نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہیں! کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے ، خواہ وہ کوئی ہو...... حقیقی ہویا اضافی، مکفرہ ہو یا مفسقہ ، غیر مکفرہ ہو یا غیر مفسقہ۔ کیونکہ بدعت کا کام شارع علیہ السلام پر بہتان ہے ۔یہ شریعت کا کام نہیں۔ اگرچہ یہ شریعت کے مشابہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گویا شارع علیہ السلام نے شریعت کے بیان میں کوتاہی کی اور اس کے بعض امور ہم سے چھپا لیے۔ بناءبریں بدعت کا یہ کام حرام اور ممنوع ہے، اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدعت پر عمل کرنے سے سنت ترک ہو جاتی ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت پر ضلالت کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

«اياكم ومحدثات الامور فان كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة»

"دین میں نئے امور ایجاد کرنے سے احتراز کرو۔ کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت کا کام گمراہی ہے۔"

چونکہ قرب و بعد کے لحاظ سے گمراہی کے کئی درجات ہیں۔ اس لیے بعض بدعات کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کو صغائر میں شمار کیا جاتا ہے۔ کچھ بدعات ایسی ہیں جو انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہیں۔ جبکہ کچھ ایسی ہیں جن کے کرنے سے انسان فاسق ہو جاتا ہے۔ اور بعض ایسی ہیں کہ جن کے کرنے سے انسان کافر ہوتا ہے نہ فاسق، یہ چھوٹی چھوٹی بدعات ہیں۔

بدعات صغیرہ کے متعلق علماء نے کچھ شرائط بیان کی ہیں۔ اگر ان شرائط کےمطابق ہوں گی تو وہ خواہ کتنی بھی ہوں، بدعات صغیرہ کے زمرہ میں شمار ہوں گی اور ان کے فاعل کو کافر یا فاسق نہیں کہا جائے گا۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں:

1۔ کسی بدعت کا مرتکب اس پر دوام نہ کرے۔ 2۔ کسی اور کو بدعت کے کرنے کی دعوت نہ دے۔ 3۔ وہ اس بدعت کو ایسے مقام پر نہ کرے جہاں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہو اور نہ ایسا مقام ہو جہاں لوگ کوئی سنت کا کام کرتے ہوں ۔4۔ بدعت کا کام کرنے والا اس بدعت کو معمولی اور حقیر تصور نہ کرے۔ بلکہ ان شرائط کو ملحوظِ خاطر رکھے جن کو ملحوظِ خاطر رکھنے سے چھوٹی چھوٹی بدعات، کبائر میں شمار نہیں ہوتیں۔ جاری