ابو البشرحضرت آدم علیہ السلام کی خطاء

ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ قرآن کریم میں کچھ اس طرح بیان ہوا ہے ،سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہوا ہے۔

﴿ وَقُلنا يـٰـٔادَمُ اسكُن أَنتَ وَزَوجُكَ الجَنَّةَ وَكُلا مِنها رَ‌غَدًا حَيثُ شِئتُما وَلا تَقرَ‌با هـٰذِهِ الشَّجَرَ‌ةَ فَتَكونا مِنَ الظّـٰلِمينَ ﴿٣٥﴾ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيطـٰنُ عَنها فَأَخرَ‌جَهُما مِمّا كانا فيهِ وَقُلنَا اهبِطوا بَعضُكُم لِبَعضٍ عَدُوٌّ وَلَكُم فِى الأَر‌ضِ مُستَقَرٌّ‌ وَمَتـٰعٌ إِلىٰ حينٍ ﴿٣٦﴾... سورة البقرة... سورة البقرة

ترجمہ:۔اور کہا ہم نے کہ اے آدمؑ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں سےجوچاہو بفراغت کھاؤ مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ظالموں میں سے شمار ہو گے۔پھر شیطان نےان دونوں سے اس درخت کی وجہ سے لغزش کرادی پس ان کوخارج کروادیا۔اس حالت سے کہ جس میں وہ تھے۔ہم نے حکم دیا کہ نیچے اترو تم میں سے بعضے بعضوں کے دشمن ہوں گے،تمھیں ایک خاص میعاد تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرناہے۔"سورہ اعراف میں یہ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

﴿ وَيـٰـٔادَمُ اسكُن أَنتَ وَزَوجُكَ الجَنَّةَ فَكُلا مِن حَيثُ شِئتُما وَلا تَقرَ‌با هـٰذِهِ الشَّجَرَ‌ةَ فَتَكونا مِنَ الظّـٰلِمينَ ﴿١٩﴾ فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطـٰنُ لِيُبدِىَ لَهُما ما وۥرِ‌ىَ عَنهُما مِن سَوءٰتِهِما وَقالَ ما نَهىٰكُما رَ‌بُّكُما عَن هـٰذِهِ الشَّجَرَ‌ةِ إِلّا أَن تَكونا مَلَكَينِ أَو تَكونا مِنَ الخـٰلِدينَ ﴿٢٠﴾ وَقاسَمَهُما إِنّى لَكُما لَمِنَ النّـٰصِحينَ ﴿٢١﴾ فَدَلّىٰهُما بِغُر‌ورٍ‌ فَلَمّا ذاقَا الشَّجَرَ‌ةَ بَدَت لَهُما سَوءٰتُهُما وَطَفِقا يَخصِفانِ عَلَيهِما مِن وَرَ‌قِ الجَنَّةِ وَنادىٰهُما رَ‌بُّهُما أَلَم أَنهَكُما عَن تِلكُمَا الشَّجَرَ‌ةِ وَأَقُل لَكُما إِنَّ الشَّيطـٰنَ لَكُما عَدُوٌّ مُبينٌ ﴿٢٢... سورةالاعراف

ترجمہ:۔اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدمؑ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو پھر جس جگہ سے تم دونوں چاہو کھاؤ اور اس درخت کے قریب مت جاؤ کہ کبھی ظالمین میں سے ہوجاؤ پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کا پردہ کا بدن جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھا دونوں کے روبرو بے پردہ کردے اورکہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو ا س درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ اور ان دونوں کے رو برو قسم کھائی کہ جانیے میں آپ دونوں کا خیر خواہ ہوں پس ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جو درخت کوچکھا دونوں کے پردے کا بدن ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہوگیا اور د ونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ کر رکھنے لگے۔اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے ممانعت نہ کرچکاتھا اور یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اسی سورہ اعراف میں تھوڑا آگے چل کر مزید ارشاد ہوتاہے۔

﴿ يـٰبَنى ءادَمَ لا يَفتِنَنَّكُمُ الشَّيطـٰنُ كَما أَخرَ‌جَ أَبَوَيكُم مِنَ الجَنَّةِ يَنزِعُ عَنهُما لِباسَهُما لِيُرِ‌يَهُما سَوء‌ٰتِهِما...﴿٢٧﴾... سورةالاعراف

ترجمہ:۔اے بنی آدمؑ ایسا نہ ہو کہ شیطان تمھیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کردے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اتر وادیئے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے"

﴿وَلَقَد عَهِدنا إِلىٰ ءادَمَ مِن قَبلُ فَنَسِىَ وَلَم نَجِد لَهُ عَزمًا ﴿١١٥﴾ وَإِذ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِـٔادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ أَبىٰ ﴿١١٦﴾ فَقُلنا يـٰـٔادَمُ إِنَّ هـٰذا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوجِكَ فَلا يُخرِ‌جَنَّكُما مِنَ الجَنَّةِ فَتَشقىٰ ﴿١١٧﴾ إِنَّ لَكَ أَلّا تَجوعَ فيها وَلا تَعر‌ىٰ ﴿١١٨﴾ وَأَنَّكَ لا تَظمَؤُا۟ فيها وَلا تَضحىٰ ﴿١١٩﴾ فَوَسوَسَ إِلَيهِ الشَّيطـٰنُ قالَ يـٰـٔادَمُ هَل أَدُلُّكَ عَلىٰ شَجَرَ‌ةِ الخُلدِ وَمُلكٍ لا يَبلىٰ ﴿١٢٠﴾ فَأَكَلا مِنها فَبَدَت لَهُما سَوءٰتُهُما وَطَفِقا يَخصِفانِ عَلَيهِما مِن وَرَ‌قِ الجَنَّةِ وَعَصىٰ ءادَمُ رَ‌بَّهُ فَغَوىٰ ﴿١٢١﴾﴾... سورة طه

ترجمہ:۔اور اس سے قبل ہم آدمؑ کو ایک تاکیدی حکم دے چکے تھے۔ سو ان سے غفلت (اور بے احیتاطی) ہوگئی اورہم نے ان میں پختگی نہ پائی،اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے اس نے انکار کیاپھر ہم نے (آدمؑ سے) کہا کہ اے آدمؑ(یاد رکھو)یہ بلا شبہ تمہارا اورتمہاری بیوی کا دشمن ہے۔سو تم دونوں کو کہیں جنت سے نکلوادے۔پھر تم مصیبت میں پڑ جاؤ یہاں جنت میں تو تمہارے لئے یہ (آرام) ہے کہ تم نہ کبھی بھوکے رہوگے نہ کبھی ننگے ہوگے اور نہ یہاں پیاسے ہوگے اور نہ دھوپ میں تپو گے پھر ان کو شیطان نے بہکایا کہنے لگا کہ اے آدمؑ کیا میں تم کو ہمیشگی (کی خاصیت) کا درخت بتلاؤں اور ایسا بادشاہی کی جس میں کبھی ضعف نہ آوے سو(اس کے بہکانے سے) دونوں نے اس درخت سے کھالیا تو د ونوں کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور(اپنا بدن ڈھانپنے کو) دونوں اپنے اوپر جنت کے (درختوں کے) پتے چپکانے لگے اور آدم ؑ سے اپنے رب کاقصور ہوگیا سو غلطی میں پڑ گئے۔ان تمام آیات سے غوروخوض کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جب شیطان نے حضرت آدم ؑ کو ایک مشفق ناصح، اور خیرخواہ کے بھیس میں آکر جادواں زندگی اور سلطنت لازوال کا لالچ دیا تو حضرت آدمؑ کی قوت ارادی چونکہ اتنی مضبوط نہ تھی کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہ،نصیحت وفہمائش کو یاد رکھتے ہوئے شیطان کے دیئے ہوئے لالچ کا ثابت قدمی اور سختی کے ساتھ مقابلہ کرتے ان پر اس شیطانی تحریص کا حربہ کام کرگیا۔یہی وہ "بھول" یا لغزش یا فقدان عزم تھا۔جس کی طرف اوپر آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس لغزش کو گناہ یا نافرمانی کہنے سے عصمت آدمؑ پر حرف آتا ہے کیونکہ آئمہ اربعہ اور جمہورامت کے نزدیک متفقہ طور پر انبیاء علیہم السلام تمام گناہ صغیرہ وکبیرہ سے معصوم ہوتےہیں۔ اور جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے۔البتہ ذاتی اعمال وافعال یا اجتہادی رائے میں ان سے سہو ونسیان کا صدور ممکن ہے مگر ایسے امور جن کا تعلق تبلیغ و تعلیم وتشریح سے ہو ان امور میں سہو ونسیان قطعاً ناممکن ہے۔

خود قرآن کریم نے سورہ بقرہ میں اسے ایک معمولی سی "لغزش" کہا ہے۔

﴿فَأَزَلَّهُمَا الشَّيطـٰنُ﴾

ترجمہ:۔شیطان نے ان دونوں سے لغزش کرادی۔

عربی لغت میں ذلت کے معنی لغزش کے ہیں۔"ازلال" کسی کو لغزش دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی مرحوم نے﴿فَأَزَلَّهُمَا الشَّيطـٰنُ﴾ کا ترجمہ اسطرح فرمایا ہے۔شیطان نے ان دونوں کو (اس درخت کی ترغیب دے کر) ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا۔ سورہ اعراف اور سورہ طہٰ میں اسے شیطانی وسوسہ اور شیطانی فنتہ سے تعبیر کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے:

﴿فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطـٰنُ﴾

ترجمہ:۔شیطان نے ان کو پھسلادیا یا بہکادیا۔

اور﴿فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطـٰنُ﴾پھر آگے چل کر سورہ طہٰ میں یہ وضاحت بھی فرمادی گئی ہے کہ حضرت آدم ؑ نے بالقصد وارادہ کوئی گناہ یاسرکشی وسرتابی یانافرمانی نہیں کی تھی۔بلکہ فقدان عزم ونسیان کے باعث نیز تلبیس ابلیس کے زیر اثر ان سے یہ لغزش سر زد ہوگئی تھی۔آیت

﴿وَلَقَد عَهِدنا إِلىٰ ءادَمَ مِن قَبلُ فَنَسِىَ وَلَم نَجِد لَهُ عَزمًا ﴿١١٥﴾... سورة طه

ترجمہ:۔بلا شبہ ہم نے آدم ؑ سے ایک اقرار لیا تھا پس وہ اس کو بھول گیا اور ہم نے اس کو پختہ ارادہ کا نہیں پایا۔

حضرت آدمؑ کو ہر قسم کے ارادی اور عمدی گناہ سے پاک وصاف ظاہر کرکے ان کی عصمت کے مسئلہ کوزیادہ محکم اور مضبوط بناتی ہے کہ اس آیت میں ﴿ عَهِدنا ﴾ کے معنی عربی لغت "امرنا"اور" وصينا " کے ہیں جیسا کہ بحر المیحط اور تفسیر جلالین وغیرہ میں مذکور ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اقرار لیا تھا یا وصیت کی تھی یا تاکید کی حکم دیا تھا۔

تصریحات بالا کی روشنی میں بعض مفسرین کے نزدیک سورہ طہٰ کی آیت ﴿وَعَصىٰ ءادَمُ رَ‌بَّهُ فَغَوىٰ ﴿١٢١﴾... سورةطه" کے لفظی معنی۔اورآدمؑ نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گیا۔"نہ لے کر اگر یہ معنی لئے جائیں۔اور حضرت آدمؑ سے اپنے رب کا قصور ہوگیا اور وہ خسارہ میں پڑگئے۔توشاید غلط نہ ہوگا کیونکہ ایک طرف تو ایسا کرنے سے برگزیدہ نبی حضرت آدمؑ کی عصمت مجروح ہونے سے بچ جاتی ہے اور دوسری طرف عصیان اور غوایت کے یہ معنی لغوی اعتبار سے تاویل بعید یا دور ازکار توجہیات کے زمرہ میں بھی نہیں آتے عربی لغت کی مشہور کتب میں سے لسان العرب،اور اقرب الموارد وغیرہ میں مذکورہ ہے کہ "المعصية-مصدروقد تطلق على الزلة مجازا" یعنی معصیت مصدر ہے اور کبھی اس کا اطلاق مجازاً لغزش پر ہوتا ہے)اسی طرح "غوى" کا اطلاق ضل (یعنی گمراہ ہوگیا یا بہک گیا) اور خاب (یعنی نقصان میں پڑ گیا) پر بھی ہوتا ہے۔ائمہ تفسیر میں سے قرطبی اور قشیری نے "غویٰ" کے معنی نقصان میں پڑنا زندگی تلخ ہونا اورعیش خراب ہونا لئے ہیں مراد یہ ہے کہ حضرت آدمؑ کو جو عیش جو جنت میں حاصل تھا وہ نہ رہا اور زندگی تلخ ہوگئی۔

اگر واقعہ سے متعلق تمام نصوص قر آن کو جوحضرت آدم ؑ کی جلالت قدر وعظیم الشان،مرتبت،صفوت، وبرگزیدگی اور تقرب دربار گاہ الٰہی نیز اللہ تعالیٰ سے براہ راست ہمکلام ہونے کا شرف حاصل ہونا وغیر ہ ظاہرکرتی ہے۔ کو یکجا کرکے جمع کرکے مطالعہ کیاجائے تو حضرت آدم ؑ کی عصمت کا مسئلہ ایک ناقابل انکار حقیقت کے بن کر سامنے آتا ہے اور اس امر میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ آں علیہ السلام کی وہ لغزش اور بھول اگرچہ قبل از نبوت اورغیر اختیاری ہونے کے سبب گناہ نہ تھی۔ مگر پھر بھی چونکہ ان کے مرتبہ سے کمتر اور غیر مناسب تھی لہذا ان کو متنبہ کرنے کے لئے﴿ عَصىٰ﴾ اور﴿غَوىٰ﴾ جیسے زیادہ قابل گرفت اور سخت الفاظ سے یاد کیا گیا ہے۔

قاضی ابو بکر ابن عربی ؒ نے سورہ طہٰ میں وارد شدہ لفظ ﴿ عَصىٰ﴾ کے بارے میں ایک اہم بات فرمائی ہے جو انہیں کےالفاظ میں پیش خدمت ہے:

"وَلَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنَّا أَنْ يُخْبِرَ بِذَلِكَ عَنْ آدَمَ، إلَّا إذَا ذَكَرْنَاهُ فِي أَثْنَاءِ قَوْلِ اللَّهِ عَنْهُ، أَوْ قَوْلِ نَبِيِّهِ. وَأَمَّا أَنْ نَبْتَدِئَ فِي ذَلِكَ مِنْ قِبَلِ أَنْفُسِنَا فَلَيْسَ بِجَائِزٍ لَنَا فِي آبَائِنَا الْأَدْنَيْنَ إلَيْنَا، الْمُمَاثِلَيْنِ لَنَا، فَكَيْفَ بِأَبِينَا الْأَقْدَمِ الْأَعْظَمِ، النَّبِيِّ الْمُقَدَّمِ، الَّذِي عَذَرَهُ اللَّهُ، وَتَابَ عَلَيْهِ، وَغَفَرَ لَهُ."

ترجمہ:۔ ہم میں سے کسی کے لئے آج یہ جائز نہیں ہے کہ آدم ؑ کی طرف یہ لفظ عصیان منسوب کرے بجز اس کے کہ قرآن کی اس آیت کے یا کسی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں آیا ہو وہ بیان کرے لیکن یہ کہ اپنی طرف سے یہ لفظ ان کی طرف منسوب کرنا ہمارے اپنے قریبی آباؤاجداد کے لئے بھی جائز نہیں پھر ہمارے سب سے پہلے باپ جو ہر حیثیت سے ہمارے آباء سے مقدم اور اعظم واکرم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے معزز پیغمبر ہیں جن کا عذ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور معافی کا علان کردیا ان کےلئے تو کسی حال میں جائز نہیں ہے۔"

علامہ قرطبی ؒ اور ابو نصر قشیریؒ وغیرہ فرماتے ہیں کہ:

"اس لفظ کی وجہ سے حضرت آدم ؑ کو عاصی اور غاوی کہنا جائز نہیں ہے اور قرآن کریم میں جہاں کہیں کسی نبی یا رسول کے بارے میں ایسے الفاظ آئے ہیں تو یا وہ خلاف اولیٰ امر ہیں یانبوت سے قبل کے ہیں۔اس لئے بضمن آیات قرآن وروایات حدیث تو ان کا تذکرہ درست ہے لیکن اپنی طرف سے ان کی شان میں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔(قرطبی)

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ حضرت آدمؑ وحوا علہیما السلام کو جنت کے اس مخصوس درخت سے دور رہنے کی جو تاکید وہدایت کی گئی تھی وہ محض اس لئے تھی۔کہ اس سے حضرت آدم علیہ السلام کا امتحان واختیار مقصود تھا۔ اور وہ اس امتحان میں پختہ اردہ وعزم کے حامل ثابت نہ ہوئے۔

یہ تھی قر آن کریم کی روشنی میں حضرت آدمؑ کی خطاء کی تفصیل اب اس خطاء کی مغفرت کے متعلق ایک مشہور حدیث اور اس کا علمی تجزیہ پیش خدمت ہے۔اس حدیث کو مولانا زکریا صاحب کاندھلوی مرحوم(سابق شیخ الحدیث مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور ۔یوپی) نے تصوف کے طریق پر ترتیب دی جانے والی اپنی مشہور زمانہ تالیف"تبلیغی نصاب" کے حصہ فضائل ذکر میں اس طرح بیان کیا ہے:

«عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: " لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَهُ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ: أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ إِلَّا غَفَرْتَ لِي , فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ: وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: تَبَارَكَ اسْمُكَ , لَمَّا خَلَقْتَنِي رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَى عَرْشِكَ وَإِذَا فِيهِ مَكْتُوبٌ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَعْظَمَ قَدْرًا عِنْدَكَ مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِكَ , فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ: يَا آدَمُ , وَعِزَّتِي وَجَلَالِي , إِنَّهُ لَآخِرُ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ , وَلَوْلَاهُ مَا خَلَقْتُكَ»

"ترجمہ :۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے جب گناہ صادر ہوگیا (جس کی وجہ سے جنت سے دنیا میں بھیج دئے گئے توہروقت روتے تھے اور دعا واستغفار کرتے رہتے تھے۔ایک طرف آسمان کی طرف منہ کیا اور عرض کیا یا اللہ(محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے وسیلہ سے تجھ سے مغفرت چاہتاہوں وحی نازل ہوئی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں(جن کے واسطے سے تم نے استغفار کی)عرض کیا کہ آپ نے جب مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تھا لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) سے اونچی ہستی کوئی نہیں ہے جن کا نام تم نے اپنے نام کے ساتھ رکھا وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں اور تمہاری اولاد میں سے ہیں لیکن وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کئے جاتے۔"

علم حدیث کا ادنیٰ سا طالب علم بھی بخوبی اس حقیقت سے واقف ہے کہ مولانا زکریا مرحوم نے اپنی کتاب میں سینکڑوں عجائب وغرائب ،منکر وضعیف ،باطل اور موضوع ر وایات کو جگہ دی ہے۔اور انہی روایات میں سے ایک مشہور حدیث یہ بھی ہے جس میں آدم علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق اور وسیلہ سے مغفرت طلب فرماتے ہیں۔

اس حدیث کے مقام ومرتبہ پر بحث کرنے سے قبل ا س حدیث کے اردو ترجمہ میں ان مقامات کی نشاندہی کردینا نا مناسب نہ ہوگا جو قابل اعتراض ہیں،مثلاً اس ترجمہ میں جس کی وجہ سے جنت سےدنیا میں بھیج دئیے گئے تو ہر وقت روتے اور استغفار کرتے رہتے تھےالخ"نہ معلوم کس عربی عبارت کا ترجمہ ہے۔"جس کی وجہ سے جنت سے دنیا میں بھیج دیئے گئے۔کے ورد کا سبب شاید گناہ آدم کی نسبت سے یا اس کی وضاحت کے لئے ہو لیکن"تو ہر وقت روتے اور دعا واستغفار کرتے رہتے تھے"کے ورود کا سبب سمجھ میں نہ آسکا۔نیز یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے اُتر جانے کا جو حکم دیا گیا تھا وہ کسی گناہ کی سزا کے طور پر نہ تھا جیسا کہ مولانا زکریا صاحب مرحوم کے ترجمہ کی عبارت جس کی وجہ سے سے مترشح ہوتا ہے بلکہ اس حکم الٰہی سے تو اس اعلیٰ مقصد ومنشاء کی تکمیل مقصود تھی۔جس کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا تھا۔قرآن کریم میں اشاد ہوتا ہے۔

﴿وَإِذ قالَ رَ‌بُّكَ لِلمَلـٰئِكَةِ إِنّى جاعِلٌ فِى الأَر‌ضِ خَليفَةً قالوا أَتَجعَلُ فيها مَن يُفسِدُ فيها وَيَسفِكُ الدِّماءَ وَنَحنُ نُسَبِّحُ بِحَمدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قالَ إِنّى أَعلَمُ ما لا تَعلَمونَ ﴿٣٠﴾... سورةالبقرة

ترجمہ:۔اور(یادکرو) جس وقت ارشاد فرمایا آپ کے رب نے فرشتوں سے کہ میں بلاشبہ زمین میں (انسان کو) خلیفہ بنانے والا ہوں،فرشتے کہنے لگے کیا آپ پیدا کریں گے زمین میں ایسے لوگوں کو جو فساد اور خونریزیاں کریں گے۔اور ہم برابر تسبیح کرتے رہتے ہیں تیری حمد کی اور تقدیس کرتے رہتے ہیں تیری۔حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں(اس بات کو) جس کو تم نہیں جانتے،

یہ تھا حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کا منشاء ومقصد ۔قرآن وحدیث میں ایسی کوئی نص موجود نہیں ہے جو بتاتی ہو کہ عالم ارضی حضر ت آدم ؑ کے لئے دارالعزاب تھا نیز قرآن نیز قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اس امر کی تصریح بھی کردی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول کرکے ان کی لغزش کو معاف فرمادیاتھا اور انہیں دوبارہ اپنی رحمت وتوجہ وتقرب کا مستحق بنا کر نبوت و رسالت کامقام بلند عطا فرمایا تھا،چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے۔

﴿ثُمَّ اجتَبـٰهُ رَ‌بُّهُ فَتابَ عَلَيهِ وَهَدىٰ ﴿١٢٢﴾... سورة طه

"پھر اس کے رب نے اسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کرلی اور اسے ہدایت بخشی۔"

مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی مرحوم سورہ بقرہ کی آیت ﴿قُلنَا اهبِطوا مِنها جَميعًا﴾

(یعنی ہم نے کہا تم سب یہاں سےاتر جاؤ) کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں۔

"اس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے ۔اوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم ؑ نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کرلی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آدم ؑ اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے گناہ گاری کا جو داغ کے ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالاگیا۔نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا نہ ان کی نسل کے دامن پر۔۔۔اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دہرایا گیا تو اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قبول توبہ کا یہ متقضیٰ نہ تھا کہ آدمؑ کو جنت میں ہی رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اتاراجاتا۔زمین ان کے لئے دارالعذاب نہ تھی۔وہ یہاں سزا کے طور پر نہیں اتارے گئے بلکہ انہیں زمین کی خلافت ہی کے لئے پیدا کیا گیا تھا۔جنت ان کی اصل جائے قیام نہ تھی۔وہاں سے نکلنے کا حکم ان کی سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا ۔اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اتارنے کی تھی،البتہ اس سے پہلے ان کو اس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا۔الخ اور سورۃ الاعراف کی آیت ﴿قالَ اهبِطوا بَعضُكُم لِبَعضٍ عَدُوٌّ...﴿٢٤﴾... سورةالاعراف" (یعنی فرمایا اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو) کی شرح میں مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی مرحوم فرماتے ہیں۔

"یہ شبہ نہ کیاجائے کہ حضرت آدم ؑ وحوا ؑ کو جنت سے اتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیاتھا۔قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور انھیں معاف کردیا لہذا اس حکم میں سزا کا پہلو نہیں ہے۔بلکہ اس منشاء کی تکمیل ہے جس کے لئے انسان کو پیدا کیاگیا تھا۔" اسی بات کی وضاحت کے لئے پاکستان کے سابق مفتی اعظم مولانا محمد شفیع صاحب مرحوم نے بھی "معارف القرآن" میں سورہ بقرہ کی تفسیر فرماتے ہوئے ایک عنوان اس طرح مقرر کیا ہے۔" آدم ؑ کا زمین پراترنا سزا کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقصد کی تکمیل کے لئے تھا۔"

جہاں تک حدیث میں مذکورہ لفظ "ذنب"یعنی گناہ" کا تعلق ہے تو اس سے حضرت آدم علیہ السلام کی "لغزش" یا خطاء مراد لینا زیادہ مناسب ہے ۔قرآن میں اسے لغزش ہی بتایا گیا ہے اور حاکم کی روایت میں واضح طور پر ذنب کی جگہ خطاء کا لفظ استعمال ہواہے۔

ا س حدیث کو نقل کرنے کے بعد مولانا مرحوم فرماتے ہیں۔

"اخرجه الطبرانى فى الصغير والحاكم وابونعيم والبيهقى كلاهما فى الدلائل وابن عساكر فى الدروفى مجمع الزوائد رواه الطبرانى فى الاوسط والصغير وفيه من لم اعرفهم قلت ويؤيد الاخر الحديث المشهور لولاك كما خلقت الافلاك قال القارى فى الموضوعات الكبير موضوع لكن معناه صحيح وفى التشريف معناه ثابت ويؤيد الاول ما ورد فى غير رواية من انه مكتوب على العرش واوراق الجنة لااله الا الله محمد رسول الله كما بسط طرقه السيوطى فى مناقب اللآلى فى غير موضع وبسط له شواهد ايضا فى تفسيره فى سورة "الم نشرح"

لیکن مولانا مرحوم نے اس عربی عبارت کا اردو ترجمہ شاید کسی خاص مصلحت کی بناء پر تحریر نہیں فرمایا ہے تھوڑا آگے چل کر مولانا مرحوم مزید تحریر فرماتے ہیں۔

"اس لئے جو روایات میں ذکر کیا گیا ان سب کے مجموعہ میں کوئی اشکال نہیں منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اختیار فرمایا دوسرا مضمون عرش پر لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہونا یہ اور بھی بہت سی مختلف روایتوں میں آیا ہے۔الخ"

تمام علمائے حق نے دعا واستغفار کے لئے کسی کا"وسیلہ "وواسطہ اختیار کرنا ازروئے شریعت قطعاً ناجائز قرار دیا ہے۔پھر کیونکہ ایک برگزیدہ نبی کے متعلق یہ بدگمانی کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے اپنی مغفرت کے لئے کسی اور کا وسیلہ وواسطہ اختیار کیا ہوگا وسیلہ کے اثبات کے لئے جتنی بھی روایات وارد ہیں وہ سب یا تو سنداً ومتناً باطل اور موضوع ہیں یا پھر اس قدر ضعیف کہ ان سے احتجاج درست نہیں ہے چنانچہ علامہ حافظ ابن تیمیہؒ "وسیلہ کے متعلق موضوع احادیث" کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں۔

"اس باب میں جتنی حدیثیں بھی روایت کی گئی ہیں سب کی سب ضعیف بالکل بے بنیاد بلکہ موضوع ہیں ائمہ اسلام میں سے کسی ایک نے ان سے حجت نہیں پکڑی اور نہ انہیں قابل اعتماد کہا ہےالخ۔"

جن لوگوں نے "وسیلہ" کو جائز کہا ہے تو ان کا یہ قول محض لا علمی وجہالت کی دلیل ہے چونکہ وسیلہ ایک الگ اور مستقل موضو ع ہے۔اور الحمدللہ اس موضوع پر کبار علمائے سلف و خلف کی متعدد معرکۃ الآراء تصانیف موجود ہیں۔اس لئے اس پہلو پر بخوف طوالت گفتگو سے گریز کیا جاتاہے۔جو شائقین اس مسئلہ کی حقیقت جاننا چاہیں وہ مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ القاعدہ الجلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ لابن تیمیہؒ اور کتاب التوسل۔انواعہ واحکامہ لشیخ محمد ناصر الدین البانی وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔

جہاں تک مولانا مرحوم کے جنت کے اوراق یا عرش وغیرہ پر کلمہ کے لکھے ہوئے ہونے والی روایات ذکر کرنے کا تعلق ہے تو وہ بھی انتہائی ضعیف ہیں جن سے استشہاد یا دوسری ضعیف وموضوع احادیث کے لئے تائید تلاش کرنا فعل عبث ہے۔مولانا مرحوم نے "تبلیغی نصاب' کے بعض مقامات پر کسی ہندوستانی شجر کے پھل کے اندر سبز پتہ پر کلمہ لکھے ہونے یا ایلہ کی کسی مچھلی کے ایک کان پر لا الہٰ الا اللہ اور دوسرے کان پر محمد رسول اللہ لکھے ہونے والے جو قصص بیان کئے ہیں۔ان کی حقیقت الف لیلا وی ہفوات سے چنداں مختلف نہیں ہے، جن پر یقین وایمان لانا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

اب اس روایت کے طرق کوائف رواۃ اور عندالمحدثین اس کے مقام ومرتبہ پر تحقیق پیش کی جاتی ہے۔

اس حدیث کو طبرانی نے المعجم الصغیر میں بطریق محمد بن داؤد بن اسلم الصد فی المصری ثنااحمد بن سعید المدنی الفہری ثنا عبداللہ بن اسماعیل المدنی عن عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم روایت کیا ہے۔

امام حاکم ؒ(م405ھ) نے اس حدیث کو معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ یوں روایت فرمایا ہے۔

«قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ قَالَ: يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي، فَقَالَ اللَّهُ: يَا آدَمُ، وَكَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ؟ قَالَ: يَا رَبِّ، لِأَنَّكَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِكَ وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِكَ رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَىَ قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَعَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْكَ، فَقَالَ اللَّهُ: صَدَقْتَ يَا آدَمُ، إِنَّهُ لَأُحِبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ ادْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ»

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حضرت آدمؑ نے خطاء کا ا رتکاب کیا تو کہا اے رب میں بحق محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے بخش دے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے آدم ؑ تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پہچانا اور میں نے اس کو پیدا نہیں کیا ہے؟کہا اے رب جب آپ نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا اور میرے اندر اپنی روح پھونکی میں نے اپنا سر اوپراٹھایا تو عرش کے قوائم پر لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھادیکھا۔میں نے جان لیا کہ آپ نے اسے اپنے نام کے ساتھ جو ملایا ہے تو سب مخلوق میں آپ کو محبوب ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:آدم تو سچ کہتا ہے واقعی یہ مخلوق میں سب سے زیادہ مجھے محبوب ہے ۔اس کے حق سے دعا کر میں نے تجھے بخش دیا۔اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔"

حاکم کی اس روایت کا طریق اسناد یہ ہے:

«قال حدثنا أبو سعيد عمرو بن محمد منصور العدل ثنا أبوالحسن بن محمد بن اسحاق بن ابراهيم الحنظلى ثنا أبو الحارث عبدالله بن مسلم الفهرى ثنا اسماعيل بن مسلمة أنبا عبدالرحمان بن زيد بن أسلم عن أبيه عن جده عن عمر بن الخطاب رضى الله عنه»

ابو بکر الاجریؒ ،امام بیہقی، ؒ اور ابن عساکر ؒ نے بھی اس حدیث کی تخریج ابو الحارث عبداللہ بن مسلم الفہری کے مذکورہ بالا طریق سے مرفوعاً کی ہے۔علامہ ابو بکر الاجریؒ نے ا پنی کتاب "الشریعہ میں اس حدیث کی تخریج جس طریق اسناد کے ساتھ کی ہے وہ حسب ذیل ہے۔" قال حدثنا أبوبكر بن أبى داؤد قال حدثنا أبو الحارث الفهرى أخبرنى سعيد بن عمرو قال حدثنا أبو عبدالرحمان بن عبدالله بن اسماعيل بنت ابى مريم قال حدثنى عبدالرحمان بن زيدبن اسلم عن ابيه عن جده عن عمربن الخطاب رضى الله عنه"

(جاری ہے)


حوالہ جات

1۔تفہیم القرآن للمودودی تفسیر سوہ بقرہ ج1۔

2۔احکام القرآن وکذافی التفسیر للقرطبی والبحر المحیط۔

3۔تفسیر ابن کثیر ج1 ص54۔

4۔تبلیغی نصاب (فضائل ذکر عکسی ص95۔96 طبع دہلی وص112 طبع ملتان)

5۔اس موضوع پر راقم کا مفصل مضمون بعنوان "کیا انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے؟"مطالعہ فرمائیں۔

6۔تفہیم القرآن للمودودی ج1ص68۔69۔حاشیہ نمبر 53۔

7۔تفہیم القرآن للمودودی ج2 ص18 حاشیہ 14۔

8۔معارف القرآن مصنفہ مفتی محمد شفیع مرحوم ج1 ص142۔

9۔تبلغی نصاب (فضائل وزکر عکسی ص95۔96) ۔

10۔ایضاً ص96۔97۔

11۔القاعدۃ الجلیلہ فی التوسل والوسیلۃ لابن تیمیہؒ ص89۔

12۔تبلیغی نصاب (فضائل ذکر ص114 طبع ملتان۔

13۔ایضاً۔

14۔العجم الصغیر للطبرانی ص207۔

15۔مستدرک حاکم ج 2 ص615۔طبع مکتب المطبوعات علب۔

16۔کتاب الشریعۃ الاجری ص427۔

17۔دلائل النبوۃ للبیقی " باب ماجاء فيما تحدث به ﷺ بنعمة ربه"

18۔ج2ق2 ص310۔