ترجمان القرآن
صفات منافقین :
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَقولُ ءامَنّا بِاللَّهِ وَبِاليَومِ الءاخِرِ وَما هُم بِمُؤمِنينَ﴿٨﴾... سورةالبقرة
ترجمہ:اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ۔حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے ۔ یہ آیت عبد اللہ بن ابی و معقب بن قشیروجدبن قیس اور ان کے دوستوں کے حق میں اتری ۔یوم آخرت سے مراد وہ وقت ہے جو کبھی ختم نہ ہو بلکہ ہمیشہ رہے سوایسا وقت قیامت کا دن ہے اللہ نے منافقین کے ایمان کی قطعی نفی کردی یہ کسی زمانے میں بھی ایمان نہ لائیں گے۔﴿ يُخـٰدِعونَ اللَّهَ وَالَّذينَ ءامَنوا﴾
ترجمہ: یہ (اپنے پندارمیں ) اللہ کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں ۔
"خداع" کا لغوی معنی فساد ہے مطلب یہ ہوا مفسدوں کا ساکا م کرتے ہیں اگرچہ اللہ پر کسی کا فساد مخفی نہیں رہتا ۔
﴿ وَما يَخدَعونَ إِلّا أَنفُسَهُم وَما يَشعُرونَ ﴿٩﴾... سورةالبقرة
ترجمہ: 1۔مگر(حقیقت میں) اپنے سواکسی کو چکما نہیں دیتے اور اس سے بے خبرہیں ۔
نفاق اس بات کو کہتے ہیں کہ خیر ظاہر کرے اور شر چھپائے اس کے کئی طریقے ہیں ایک نفاق اعتقادی ہے ایسے نفاق والا دوزخی ہے دوسرا نفاق عملی ہے یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ابن جریج ؒ نے کہا منافق وہ ہے جس کا قول اس کے فعل کے خلاف ہو اس کا علی الاعلان عمل اس کے باطن کے خلاف ہو مدخل کچھ ہو خرج کچھ ہو۔منافقوں کا حال مدینہ طیبہ میں اس لیے اترا کہ مکے میں نفاق نہیں تھا وہاں جو شخص اسلام کے خلاف ہو تا وہ مجبوری سے اظہار کفر کرتا اور باطن میں مومن ہوتا ۔جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ ہجرت کر آئے تو یہاں کے انصار بت پرست تھے یہودی اپنے اسلاف کی پیروی کرتے جب غزوہ بدر ہوئی تو عبد اللہ بن ابی بن سلول اور مدینہ طیبہ کے گردنواح کے بدؤں نے نفاق ظاہر کردیا یہ عبد اللہ قبیلہ خزریج سے تھا اللہ تعا لیٰ اہل ایمان کو خبردار کردیا کہ تم ان کے ظاہر پر دھوکہ نہ کھا ؤ کہ یہ باطنی طور پر کافر ہیں اگرچہ ظاہر ی طور پر اسلام کا اظہار کرتے ہیں معلوم ہوا کہ فجار کے بارے میں کبھی نیک گمان نہیں کرنا چاہیے آیت کامطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ یوں خیال کرتے ہیں کہ جس طرح کفر کو چھپا کر اور ایمان کو ظاہر کر کے ہم نے لوگوں کو دھوکہ دیا ہوا ہے اسی طرح اللہ اور اہل ایمان کے ساتھ بھی یہی چکر چل جا ئے گا اللہ تعا لیٰ نے اُن کے مقابلے میں یہ فر ما یا کہ تمہاری چال تمہارے اپنے لیے وبال جان ہے اور تمہیں اس کا شعور نہیں ہے تمھاری ان چالوں سے نہ اللہ کا کچھ بگڑتا ہے اور نہ مومنین کا بلکہ اس کا وبال تمہیں لے ڈوبے گا ۔ابن جریج ؒ نے کہا ان کی دغا بازی یہ تھی کہ زبان سے "لا اله الله"اقرار کرکے اپنا حال اور خون بچالیتے تھے مگر ان کے دلوں میں کچھ اور ہی چھپا تھا قتادہ ؒ نے کہا منافق وہ ہے جو بد خلق ہو زبان سے تصدیق کر ے دل سے انکار کرے اقوال اور عمل میں تضاد ہو صبح اور شام کے اعمال میں فرق ہوکشتی کی مانند جدھر کی ہوا چلی اُدھر چلے گئے "لا حول ولا قوة الا بالله"
ابن سیرین ؒ کہتے ہیں اس سے زیادہ خوفناک آیت قرآن میں نہیں ہے ۔
﴿ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا...﴿١٠﴾... سورة القرة
ترجمہ ۔ان کے دلوں میں (کفرکا) مرض تھا اللہ نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔
مرض نفاق :
مرض اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کی صحت اور تندرستی کی نفی کرے ۔جیسے کو ئی مرض یانفاق یا کسی معاملے میں خطاء بعض نے کہا مرض نام ہے ہر دور کا اس حیثیت سے یہ لفظ عقیدے کے فسادکے لیے استعارۃً استعمال ہوا ۔خوا شک ہو یانفاق انکار ہو یا تکذیب اللہ تعا لیٰ کی جس قدر دینی اور دنیوی نعمتیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ ہو تی تھیں اتنا ہی ان کا نفاق کا مرض زیادہ ہو تا تھا یہ جملہ منافقین کے لیے بدوعا ہے کہ تم اسی طرح کے شک حسرت یاس اور نفاق میں پڑے رہو ۔ابن زیدؒ نے کہا مرض سے مراد دین کا مرض ہے بدن کا نہیں عکرمہؒ اور طاؤس ؒ نے کہا یہاں مرض سے مراد "ریاء " ہے کسی نے کہا یہ مرض اسلام میں شک کرنے کا تھا ۔اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا ۔
﴿فَأَمَّا الَّذينَ ءامَنوا فَزادَتهُم إيمـٰنًا وَهُم يَستَبشِرونَ ﴿١٢٤﴾ وَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ فَزادَتهُم رِجسًا إِلىٰ رِجسِهِم ...﴿١٢٥﴾... سورةالتوبة
ترجمہ :سوجو ایمان والے ہیں ان کا تو ایمان زیادہ کیا اور وہ خوش ہو تے ہیں اور جن کے دلوں میں مرض ہے ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔یعنی شر پر شر اور گمراہی پر گمراہی بڑھتی جا تی ہے گویا یہ جزاان کے عمل کی نسبت سے ہے کہ جیسا کیا ویسا پایا ان کے مقابلے میں دوسری آیت ۔
﴿ وَالَّذينَ اهتَدَوا زادَهُم هُدًى وَءاتىٰهُم تَقوىٰهُم ﴿١٧﴾... سورة محمد
ترجمہ: اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ان کو وہ مزید ہدایت بخشتا ہے اور پر ہیز گاری عنایت کرتا ہے ۔موضح القرآن میں فر ما یا ایک مرض یہ تھا کہ جس دین کو دل نہیں مانتا تھا اس کو نا چار قبول کرنا پڑا اور دوسرا آزاریہ ہواکہ جہاد کا حکم ہوا جن کے خیر خواہ تھے ان کے خلاف لڑنا پڑا ۔
﴿ وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ بِما كانوا يَكذِبونَ ﴿١٠﴾... سورةالبقرة
ترجمہ: اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا ۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا قرآن میں جہاں بھی لفظ "الیم "کا آیا ہے اس سے مراد درد ناک عذاب (موجع ) ہے جس کا دکھ دل کے اندر جا گھستا ہے جھوٹ یہ ہو تا ہے کہ کسی چیز کا حال اس کی ماہیت کے خلاف ظاہر کریں یہ حرام ہے کیونکہ اس پر عذاب کا استحقا ق بیان کیا ہے ان کا جھوٹ یہ تھا کہ مومن نہ تھے مگر اپنے آپ کو مومن کہتے تھے ابو السعود ؒ نے کہا تبد یل اور تحریف کیا کرتے تھے ۔
ف:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر چہ بعض منافقین کو جانتے تھے مگر انہیں قتل نہ کیا کہ عرب کہیں یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں قتل تو کفر پر لازم آتا ہے چونکہ بدو منافقین کو بظاہر مسلمان سمجھتے تھے اس لیے انہیں اس حکمت کا علم نہ تھا مفت میں بد نام کرتے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بد اعتقادی کو جاننے کے باوجود ان کی تالیف قلب کرتے ان کو کچھ نہ کچھ دیتے رہتے ۔
﴿ وَإِذا قيلَ لَهُم لا تُفسِدوا فِى الأَرضِ قالوا إِنَّما نَحنُ مُصلِحونَ ﴿١١﴾... سورة البقرة
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جا تا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔
فساد سے مراد :
صحابہ کرام رضوان ا للہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ فساد سے یہاں مراد کفر اور گناہ ہے جس نے زمین میں اللہ کی نافر مانی کی یاکسی معصیت کا حکم دیا تو اس نے زمین میں فساد کیا کیونکہ مملکت کی اصلاح اور زمین و آسمان کی درستی اطاعت سے ہے سلیمانؒ نے کہا :ابھی اسی آیت والے لوگ پیدا نہیں ہو ئے ابن جریرؒ نے کہا مطلب یہ ہے کہ ایسی صفت والے لوگ ان لوگوں سے آگے ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے یہ مطلب نہیں کہ ایسی صفت کا کو ئی آدمی اس وقت موجود نہ تھا زمین میں سب سے بڑے فسادی یہی منافق ہیں گناہ کرتے ہیں افرائض بجا نہیں لا تے دین میں شک کرتے ہیں مومنوں کے دعوے کو جھٹلاتے ہیں اہل تکذیب کے مدد گار ہیں اس کے بوجود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زمین کی اصلاح کرتے ہیں فساد کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اہل ایمان کفار کے یاردوست بن جا ئیں جیسے اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا :
﴿ وَالَّذينَ كَفَروا بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ إِلّا تَفعَلوهُ تَكُن فِتنَةٌ فِى الأَرضِ وَفَسادٌ كَبيرٌ ﴿٧٣﴾... سورة الانفال
ترجمہ: اورجو لوگ کافر ہیں وہ بھی ایک دوسرے کے رفیق ہیں تو اے مومنو! اگر یہ کا م نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ برپا ہو جا ئے گا اور بڑا فساد مچے گا :اس آیت میں اللہ تعا لیٰ نے مومن کا کافر سے دوستی کا رشتہ ختم کردیا ۔ دوسری جگہ فر ما یا :
﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا الكـٰفِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ...﴿١٤٤﴾... سورةالنساء
ترجمہ :اے اہل ایمان مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ! کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کا صریح الزام ۔
اس میں صریح ممانعت اس بات کی کہ مسلمان کسی کا فر سے دوستی یاری نہ کرے "نہی "کا فائدہ "تحریم "ہوتا ہے معلوم ہوا جو مسلمان کسی کافر کا دوست ہے اور دل سے اس کی دوستی کا انکار نہیں رکھتا وہ حرام کا مرتکب ہے وہ مخلص مسلمان نہیں ہے بلکہ خالص منافق ہے ایسی دوستی زمین کو ئی نہ کو ئی فتنہ و فساد ضرور کھڑا کرے گی ۔چنانچہ اس دوستی کا نتیجہ آج کل سب اہل تجربہ پر عیاں ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا کہ جب ان سے کہا جا ئے کہ تم فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو مومنین اور اہل کتاب دونوں کے درمیان صلح کراتے ہیں اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا جسے یہ اصلاح سمجھتے ہیں وہی تو مین فساد ہے ۔
﴿ وَإِذا قيلَ لَهُم ءامِنوا كَما ءامَنَ النّاسُ قالوا أَنُؤمِنُ كَما ءامَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُم هُمُ السُّفَهاءُ وَلـٰكِن لا يَعلَمونَ ﴿١٣﴾... سورة البقرة
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جا تا ہے کہ جس طرح اور لو گ ایمان لا ئے تم بھی ایمان لاؤ تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بے وقوف ایمان لا ئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں ۔
پہلی آیت میں منافقوں کو فساد سے منعکیا تھا اس آیت میں انہیں ایمان لانے کا حکم دیا اس جگہ لوگوں سے مراد صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں خواہ مہاجرین ہوں یا نصار یا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی ۔
ف۔اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ زندیق کی تو بہ بھی قبول ہوتی ہے ۔زبان سے اقرار کرنا بھی ایمان میں شامل ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح سب لوگ اللہ تعا لیٰ ملائکہ آسمانی کتب رسل اور مرنے کے بعد زندہ ہو نے اور جنت اور دوزخ پر یقین لا ئے ہیں اسی طرح تم بھی یقین لاؤ تو منافقین اس کے جواب میں کہتے ہیں کیا ہم ان احمقوں کی طرح ایمان لا ئیں "لعفیہہ "لغت میں ایسے جاہل اور ضعیف رائے کو کہتے ہیں جو نفع اور نقصان کو نہیں پہچانتا اسی لیے اللہ تعا لیٰ نے عورتوں اور بچوں کو سہفاء"فر مایا ۔
﴿ وَلا تُؤتُوا السُّفَهاءَ أَموٰلَكُمُ الَّتى جَعَلَ اللَّهُ لَكُم قِيـٰمًا...﴿٥﴾... سورةالنساء
ترجمہ: اور بے عقلوں کو ان کا مال جسے اللہ نے تمھارے لیے معیشت کا سبببنایا ہے مت دو۔
عام علماء نے "سفہاء "کی تفسیر یہی کی ہے کہ اس جگہ مراد عورتیں اور بچے ہیں اللہ تعا لیٰ نے جواب دیا کہ یہ خود ہی احمق ہیں اور اس سے بڑی ان کی حماقت کیا ہو گی کہ اپنی ضلالت و جہالت سے باخبر نہیں ۔
﴿ وَإِذا لَقُوا الَّذينَ ءامَنوا قالوا ءامَنّا وَإِذا خَلَوا إِلىٰ شَيـٰطينِهِم قالوا إِنّا مَعَكُم إِنَّما نَحنُ مُستَهزِءونَ ﴿١٤﴾ اللَّـهُ يَستَهزِئُ بِهِم وَيَمُدُّهُم فى طُغيـٰنِهِم يَعمَهونَ ﴿١٥﴾... سورة البقرة
ترجمہ: اور یہ لوگ جب مومنین سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں اور (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں سے) تو ہم ہنسی مذاق کیا کرتے ہیں ۔دراصل اللہ تعا لیٰ منافقین کے مذاق کا توڑ کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جا تا ہے کہ شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔شیطانین سے مراد اُن کے بڑے بڑے سردار رئیس ،یہود اور مشرکین ہیں وہ یہود کے علماء اور کافروں کے روساء کے پاس جا کر اپنے دلی اتحاد کا اظہار کرتے ہیں کہتے ہیں ہم تم ایک ہیں ہم تو ان مسلمانوں کو محض نشانہ تضحیک بناتے ہیں ہم سچ مچ ایمان نہیں لا ئے اللہ تعا لیٰ نے انہیں تُرکی بہ تُرکی جواب دیا اور کہا تم مسلمانوں سے ہنسی مذاق کیا کرو گے اللہ تمھارے مذاق کا خود توڑ کرتا ہے ۔تمھاری گمراہی بڑھتی جاتی ہے اور مذاق کانتیجہ تمھیں قیامت کے دن معلوم ہو گا ۔اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا :
﴿ يَومَ يَقولُ المُنـٰفِقونَ وَالمُنـٰفِقـٰتُ لِلَّذينَ ءامَنُوا انظُرونا نَقتَبِس مِن نورِكُم قيلَ ارجِعوا وَراءَكُم فَالتَمِسوا نورًا فَضُرِبَ بَينَهُم بِسورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فيهِ الرَّحمَةُ وَظـٰهِرُهُ مِن قِبَلِهِ العَذابُ ﴿١٣﴾... سورةالحديد
ترجمہ:اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنین سے کہیں گے کہ ہماری طرف نظر شفقت کیجئے کہ ہم بھی تمھارے نورسے روشنی حاصل کریں تو اُن سے کہا جائے گا ۔کہ پیچھے لوٹ جا ؤ اور وہاں نور تلاش کرو پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جا ئے گی اُس میں ایک دروازہ ہو گا جس کے اندرونی جانب رحمت ہے اور بیرونی جانب عذاب ۔دوسری جگہ فر مایا :
﴿ وَلا يَحسَبَنَّ الَّذينَ كَفَروا أَنَّما نُملى لَهُم خَيرٌ لِأَنفُسِهِم إِنَّما نُملى لَهُم لِيَزدادوا إِثمًا...﴿١٧٨﴾... سورةآل عمران
ترجمہ: اور کفاریہ خیال نہ کریں کہ ہم جو انھیں مہلت دئیے جا تے ہیں تو یہ ان کے حق میں اچھا ہے نہیں بلکہ ہم اُن کو اس لیے مہلت دیتے ہیں کہ وہ اور گناہ کر لیں ۔سواس قسم کی آیتیں اللہ تعا لیٰ کی طرف سے منافقین اور مشرکین کے مکروفریب اور ہنسی مذاق کا توڑ ہے بعض نے کہا ان کے ساتھ اللہ کا استہزء یہ ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے ان کی ملامت کی ہے انہیں کفر وعصیان پر وعید سنائی ہے بعض نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اس استہزاء کی سزا جزادیں ۔اول ظلم تھا دوسرا عدل ہے بعض نے کہا جس طرح وہ اپنے سرداروں سے مل کر کہتے ہیں ۔۔۔کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب میں تمھارے ساتھ ہیں اسی طرح اللہ نے دنیا میں ان کے جان و مال کو محفوظ رکھا لیکن آخرت میں اُن پر شدید عذاب ہو گا ۔تو یہی اللہ کا استہزاء ہے ۔
ابن جریرؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے اس لیے کہ مکرفریب ہنسی مذاق اور استہزاء کو اللہ کی طرف منسوب کرنا غلط ہے مگر عدل کے ناطے سے ان کے انتقام کے لیے منع نہیں ہے بعض نے کہا کہ جب یہ لوگ گناہ کرتے ہیں تو اللہ تعا لیٰ انہیں ایک نئی نعمت عطا کرتا ہے تو وہ نعمت دراصل راحت نہیں عذاب اور نقمت ہے اللہ نے فر مایا ۔
﴿ فَلَمّا نَسوا ما ذُكِّروا بِهِ فَتَحنا عَلَيهِم أَبوٰبَ كُلِّ شَىءٍ حَتّىٰ إِذا فَرِحوا بِما أوتوا أَخَذنـٰهُم بَغتَةً فَإِذا هُم مُبلِسونَ ﴿٤٤﴾فَقُطِعَ دابِرُ القَومِ الَّذينَ ظَلَموا وَالحَمدُ لِلَّـهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿٤٥﴾... سورةالانعام
ترجمہ پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی فراموش کردیا تو ہم نے اُن پر ہرچیز کے دروازے کھول دیئے حتیٰ کہ جو چیز یں انہیں دی گئی تھیں اُن سے اچھی طرح خوش ہو گئے تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ مایوس ہو کر رہ گئے غرض ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور سب تعریف اللہ رب العٰلمین کو ہی سزا وارہے ۔
صحابہ کرام رضوان ا للہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ بڑھانے سے مراد مہلت دینا ہے اور یہ مہلت ان کے لیے باعث ہلاکت ہے اللہ تعالیٰ نے فر مایا :
﴿ أَيَحسَبونَ أَنَّما نُمِدُّهُم بِهِ مِن مالٍ وَبَنينَ ﴿٥٥﴾ نُسارِعُ لَهُم فِى الخَيرٰتِ بَل لا يَشعُرونَ ﴿٥٦﴾... سورة المؤمنون
ترجمہ:کیا یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو دنیامیں ان کو مل اور بٹیوں سے مدد دیتے ہیں (تواس سے) ان کی بھلائی میں جلدی کر رہے ہیں !(نہیں)
بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں ۔ اور اللہ تعا لیٰ نے فر مایا:
﴿ سَنَستَدرِجُهُم مِن حَيثُ لا يَعلَمونَ ﴿١٨٢﴾ وَأُملى لَهُم إِنَّ كَيدى مَتينٌ ﴿١٨٣﴾﴾... سورة الاعراف
ترجمہ: ان کو بتدریج اس طریق سے پکڑیں گے کہ انہیں معلوم ہی نہ ہو گا اور میں ان کو مہلت دیئے جا تا ہوں میری تدبیر بڑی مضبوط ہے ۔
ابن جریرؒنے کہا صحیح بات یہ ہے کہ ہم انہیں مہلت دے کر ان کی سرکشی اور تمرد کو بڑھاتے ہیں ۔جس طرح فر مایا۔
﴿ وَنُقَلِّبُ أَفـِٔدَتَهُم وَأَبصـٰرَهُم كَما لَم يُؤمِنوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُم فى طُغيـٰنِهِم يَعمَهونَ ﴿١١٠﴾... سورةالانعام
ترجمہ: اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے تو جیسے یہ اس قرآن پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے تو ویسے پھر نہ لا ئیں گے اور ان کو چھوڑ دیں گے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں ۔
طغیان کسی کام میں حد سے تجاوز کرنا ہے ۔جس طرح فر مایا ۔
﴿ إِنّا لَمّا طَغَا الماءُ حَمَلنـٰكُم فِى الجارِيَةِ ﴿١١﴾... سورةالحاقة
ترجمہ :جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کر لیا ۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضوان ا للہ عنھم اجمعین نے فر ما یا کہ یہاں طغیان سے مراد کفر ہے ابن زیدؒ نے کہا مراد ضلالت و گمراہی ہے بعض نے کہا آنکھ اور دل کے کورے گو دونوں کو "عمی"کہاجاتا ہے جیسے :
﴿ فَإِنَّها لا تَعمَى الأَبصـٰرُ وَلـٰكِن تَعمَى القُلوبُ الَّتى فِى الصُّدورِ ﴿٤٦﴾... سورة الحج
ترجمہ: بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہو تے ہیں ۔مطلب یہ ہے دل کے اندھے ہیں بصیرت سے بے بہرہ ہیں یہاں تک کہ اپنا نقصان تک نہیں پہچانتے اپنی چالاکی اور عیاری کو عقل سمجھ رکھا ہے یہ ساری عقل انہیں ایک دن جہنم کی سیر کرائے گی ۔(جاری ہے)ترجمہ: یہ (اپنے پندارمیں ) اللہ کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں ۔
"خداع" کا لغوی معنی فساد ہے مطلب یہ ہوا مفسدوں کا ساکا م کرتے ہیں اگرچہ اللہ پر کسی کا فساد مخفی نہیں رہتا ۔
﴿ وَما يَخدَعونَ إِلّا أَنفُسَهُم وَما يَشعُرونَ ﴿٩﴾... سورةالبقرة