اپریل 1990ء

روزہ ،پرہیز اور پرہیز گاری

متکلین کے ہاں اس مسئلہ پر کافی بحثیں رہی ہیں کہ گناہ اور معصیت کا مرتکب مومن رہتا ہے یانہ ؟آئمہ اہل السنتہ وا لجماعت کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ مومن ہی رہتا ہے

دراصل یہ خالص علمی کلامی اور فلسفایانہ بحثیں تھیں اور ایک خاص پس منظر میں اٹھیں اور چلتی بنیں معتزلہ اور خوارج وغیرہ ان بحثوں سے مطمئن ہو ئے یا نہ ؟لیکن یہ بات یقینی ہے کہ :اس سے مسلمانوں کے اعمال کردار اور افکار پر غلط اثرات ضرور نمایاں اور مرتب ہو ئے ۔۔۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ: ایک شخص چوری کرتا ہے اسے یہ اندیشہ نہیں رہتا کہ میرے ایمان پر بن جا ئے گی کو ئی جھوٹ بولتا ہے اس کو یہ فکر نہیں ہو تی کہ: میرا ایمان میری جا ن کو روئے گا ملک اور قوم یا کسی فرد سے اگر کسی نے کو ئی فریب کیا ہے تو وہ مطمئن ہو تا ہے کہ اتنی سی بات سے بہر حال وہ کا فر نہیں ہو گیا کسی پر ظلم کیا یا اس کا حق مارا ہے تو وہ اپنے ضمیرکو مختلف حیلوں اور بہانوں سے دلاسے دے دے کر اس کی خلش سے نجات پانے میں کامیاب ہو جا تا ہے ۔مسجد میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کر نے کے بعد اگر وہ کسی نمازی کا جوتا چرا لیتا ہے یا اس کی گھڑی وغیر ہ غائب کر لیتا ہے تو اس کو اپنی نماز کے ضیاع کا خوف نہیں ہو تا ۔حج پر جا کر اگر بھارت یا اسرائیل کی طرف سے برادر مسلم ممالک کی جا سوسی کا خانہ سا ز فریضہ انجام دیتا جا تا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے دل پر بوجھ نہیں آتا ۔

بھنگ چرس افیون جیسی مہلک چیزیں اگر پی لیتا ہے تو ان کے انجام بد سے بھی آنکھیں بند کر لیتا ہے شراب وکباب کا اگر کوئی دور چلا ہے تو سمجھتے ہیں کہ سب خیر ہے صرف یہ نہیں کہ ایمان کا کچھ نہیں بگڑا بلکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اس کی امامت اور قیادت کی آئینی حیثیت میں بھی کبھی کچھ فرق نہیں آیا سوشلزم یا امپیر یلزم سے اگر ان کو کو ئی ناطے جوڑ نے کا خیال آیا ہے تو ایمان سے پوچھنے کی انھوں نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

نجی اغراض وہ اقتدار ہو یا کوئی کاروبار ان کی راہ میں اگر کو ئی بے راہ ہو جاتا ہے تو ان کو یہ اندیشہ نہیں ہو تا کہ اللہ اور اس کا رسول ناراض ہو جا ئے گا ۔زکوٰۃ دینے والا چونکہ زکوٰۃ بھی دے رہا ہے اس سے اسے اس امرکی فکر نہیں ہو تی کہ یہ کمائی رشوت کی ہے یا جھوٹی تجارت کی ہے۔روزہ رکھتا ہے تو اب اس سے جھوٹ بول ہو جا ئے یا کوئی ناجائز دھندا کسی کا گلہ ہو جا ئے یا بے جازیادتی وہ سمجھتا ہے کہ اتنی سی بات سے کیا فرق پڑتا ہے سب خیر ہے اقتدار ہا تھ لگا ہے یا کو ئی معیاری انسری اب اگر وہ خدا بن کر خلق خدا کا استحصال کرتا ہے تو اس کی بلا سے وہ سمجھتا ہے کہ بڑے خدا کے ہو تے ہوئے ہمارے چھوٹے موٹے خدا بن جا نے سے خدا کا کیا بگڑتا ہے اور ایمان کا کیا جا تا ہے ؟معصیت کے ارتکاب سے گو ایک مسلم کا فر نہیں ہو جا تا لیکن یہ بھی ایک طے شدہ بات ہے کہ جس طرح صغیرہ گنا بار بار کرنے سے صغیر ہ نہیں رہتا اسی طرح کبیرہ گنا ہ بھی یہ اصرار دربہ تکرار کرنے سے "کبیرہ" نہیں رہتا بلکہ یہ ایک ایسی بلا بن جا تا ہے جس سے کفریات کی راہ ہموار ہو تا ہے کفر سے وحشت گھٹ جا تی ہے اور انسان کے مومنانہ خاتمہ کا مستقبل خطرہ میں پڑ جا تا ہے اس لیے صرف اس فارمولے پر نہ پھولے رہیں کہ گناہ گنا ہ ہو تا ہے کفر نہیں ہو تا تو کفر سے سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں رہ جا تا ۔الغوض حسنات کے ساتھ سئیات ،نیکی کے ساتھ بدی خیر کے ساتھ شر ،عبدیت کے ساتھ طغیان ،غلامی کے ساتھ سرکشی ،اور حق کے ساتھ باطل کی آمیزش مفاہمت ٹانکے اور برداشت کی سکت وہ خطر ناک بد پر ہیز ی ہے جس نے روحانی دعاؤں کو نہ صرف بے اثر کے امراض میں عفونت پیدا کردی ہے بلکہ حسنات اور دینی مکارم حیات کی ناکامی کا بلا جواز ڈھنڈورا بھی پیٹا ہے قرآن مجید نے اس جاہلیت اور بھدی ذہنیت کا یوں ذکر کیا ہے قوم شعیب کے ذکر میں فر ما یا :

﴿قالوا يـٰشُعَيبُ أَصَلو‌ٰتُكَ تَأمُرُ‌كَ أَن نَترُ‌كَ ما يَعبُدُ ءاباؤُنا أَو أَن نَفعَلَ فى أَمو‌ٰلِنا ما نَشـٰؤُا۟ إِنَّكَ لَأَنتَ الحَليمُ الرَّ‌شيدُ ﴿٨٧﴾... سورة هود

وہ کہنے لگے کہ: اے شعیب !کیا تمھاری نماز تم سے تقاضا کرتی ہے کہ جن کو ہمارے آباء واجداد پوجتے آئے ہم ان کو چھوڑ بیٹھیں یااپنے مالوں میں جس طرح (کاتصرف کرنا) چاہیں نہ کریں ۔اصل میں وہ اس خیال میں مگن تھے کہ نمازیں بھی پڑھیں اور اپنی مرضی کے کام بھی کریں کھلی چھٹی ہے اس لیے انھیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ: نماز خدا کی سچی غلامی کا مظہر ہے اس کا تقضا ہے کہ :زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی اس کی مرضی کو ملحوظ رکھیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے کچھ لو گ بعض سماجی خدمات اور کچھ دوسرے نیکی کے کام کر کے سمجھ لیتے تھے کہ بس میدان مار کیا اس لیے جو جو حماقتیں کرتے ان کی وجہ سے ان کو تشویش نہیں ہو تی تھی ۔اس پر حق تعا لیٰ نے فر ما یا :

﴿أَجَعَلتُم سِقايَةَ الحاجِّ وَعِمارَ‌ةَ المَسجِدِ الحَر‌امِ كَمَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ وَجـٰهَدَ فى سَبيلِ اللَّهِ لا يَستَوۥنَ عِندَ اللَّهِ ...﴿١٩﴾... سورة التوبة

"کیا تم لوگوں نے حاجیوں کے پانی پلانے اور (ادبو) حرمت والی مسجد (خانہ کعبہ ) کے آباد رکھنے کو اس شخص (کی خدمات ) جیسا سمجھ لیا جو اللہ اور روزآخرت پر ایمان لانا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اللہ کے نزدیک تو یہ (سب ) برابر نہیں ۔" مطلب یہ کہ تمھاری دوسری حماقتوں کا عوض نہیں ہو سکتیں اور نہ تمھا ری نجات کے لیے یہ کافی ہو سکتی ہیں کیونکہ یہ کار خیر کار بد کی آمیزش سے پاک نہیں ہیں ۔ایک اور مقام پر ان کی اس خوش فہمی کا بھی ذکر کیا ہے کہ" کار بد "کر کے یہ ڈھینگیں بھی مارتے تھے کہ: ہمارے گناہ معاف ہو ہی جا ئیں گے ملاحظہ ہو پارہ 9۔اعراف ع21،

﴿فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ وَرِ‌ثُوا الكِتـٰبَ يَأخُذونَ عَرَ‌ضَ هـٰذَا الأَدنىٰ وَيَقولونَ سَيُغفَرُ‌ لَنا...﴿١٦٩﴾... سورةالاعراف

"پھر ان کے بعد ایسے ناخلف (ان کے ) جانشین ہو ئے کہ وہ کتاب کے وارث بنے (مگربطور رشوت ٰ)اس دنیا ئے دوں کی (کوئی )چیزملے تو)لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ گناہ تو ہمارا معاف ہو ہی جا ئے گا ۔یہ خوش فہمی اس لیے پیدا ہو گئی تھی کہ ان کے نزدیک نیکی کے ساتھ بدی کو ئی گزند نہیں پہنچاتی ۔کیونکہ وہ معاف ہو ہی جا تی ہے ۔۔۔بہر حا ل حق تعا لیٰ کا ارشاد ہے کہ:﴿ وَلا تَلبِسُوا الحَقَّ بِالبـٰطِلِ...﴿٤٢﴾... سورة البقرة

"حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو۔"

دینی احکام پر عمل کرنے کے باوجود نیکی رنگ نہیں لا رہی تواس کی وجہ یہ ہے کہ نیکی بے داغ نہیں رہتی دودھ کے مٹکے میں گندگی تھوڑی سی بھی دودھ کو ناکارہ کردیتی ہے پھر یہ نیکیاں کیسے رنگ لا ئیں ۔جب ان کے ہمراہ بدی کی فرمانروائی بھی جا ری رہے یہ بدپرہیزی روحانی علاج کے راستہ میں حائل ہو رہی ہے ۔دنیا میں ایسا کو ئی بیمار نہیں ہو تا جس کے لیے ڈاکٹر مناسب پر ہیز کی سفارش نہ کریں ۔ایسا بھی کو ئی میریض دیکھنے میں نہیں آیا جس کو بد پر ہیزی نے کو ئی نقصان نہ پہنچایا ہو بالکل یہی کیفیت اسلامی اعمال کی ہے کہ: مسلمان نماز روزہ حج اور زکوٰۃ درود وظائف اور دوسرے کا ر خیر کے ممکن ثمرات اور نتائج حسنہ سے ہمکنار نہیں ہو رہا کیونکہ ان نیکیوں کے ساتھ ساتھ بدیوں سے بھی اس کے ناطے خاصے استوار ہیں بلکہ برائیوں کے سلسلے میں جس انہماک شفف وارفتگی والہیت اور خلوص کا نذرانہ لادینی اعمال اور امور کے بارے میں اس نے پیش کیا ہے اس کے ہزار دیں حصے کا بھی یہاں سراغ اور اتہ پتہ نہیں ملتا ۔ان حالات میں متعلقہ برکات مکارم اور رحمتوں کا ظہور ہو تو کیسے ؟بہر حال دوائی کھانا شکل نہیں جس قدر اس سلسلے کا پر ہیز صبر آزماہوتا ہے اسلام کی نگاہ سے انسان کی یہ کمزوری پوشیدہ نہیں تھی اور نہ ہی اسلام اس کو نظر انداز کر کے اپنے تشخیص کردہ طرز حیات سے مطلوب مومن کی کشیدکے لیے ابن آدم مکلف بنا سکتا تھا ۔اس لیے حق تعالیٰ نے پرہیز کے لیے ایک خاص کورس تجویز فر ما یا ۔اگر ایک انسان صدق دل سے اس کورس کی تکمیل کرلیتا ہے تو یقین کیجیے! اس سے ابن آدم میں اتنی سکت پیدا ہو سکتی ہے کہ اگر وہ بد پر ہیزی سے بچناچاہے تو اس کے لیے ایسا کرنا نہ صرف آسان ہو گا بلکہ اس سے اس کو ایک گو نہ سکون بھی نصیب ہو گا ۔پر ہیز کے لیے وہ خاص کو رس "صوم رمضان " ہے عربی میں صوم کے لغوی معنی :کسی کا م سے رک جا نے اور اس سے باز رہنے کے ہیں امام راغب لکھتے ہیں ۔

"الصوم فى الاصل الاماك عن الفعل"(مفردات)

شرع میں اس کے معنی صبح سے شام تک کھانے پینے ،جنسی و ظائف اور نامناسب کا موں سے رک جا نے کے ہیں ۔"وفى الشرع امساك المكلف بالنية عن تناول المطعم والمشوب والاستفسار والااستقاء من الفجر الى المغرب"(مفردات)

حضور کا ارشاد ہے:« مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ اَلزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ, وَالْجَهْلَ, فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ» رواه البخارى عن ابى هريرة

ذُود سے مراد ہر وہ چیز ہے جو حق سے مختلف ہو جھوٹ باطل اور بے سود بات سب کو زُور کہتے ہیں مقصد یہ ہے جو شخص حق کا حامل ہے باطل سے اس کے یارانے اس کے لیے سخت مہلک ہیں !ایسے شخص کی ساری کمائی ضائع ہو جا تی ہے محنت رائیگاں جا تی ہے اور اس کے متقبل کو مزید بوجھل بنا کر رکھ دیتی ہے کغت اور حدیث کی ان تصریحات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ماہ رمضان کے روزے بد پر ہیزی "جیسی خوُئے بد سے ناطے تو ڑنے کے لیے اسلامی کو رس ہے اس پر ہیز کےتین درجے مقرر کیے گئے ہیں امام محمدبن عثمان للنجی ؒ نے عین العلم میں اس کی تفصیل بیان فر ما ئی ہے جس کا خلا صہ یہ ہے کہ : ادنی درجہ اور کم ازکم مرتبہ پرہیز کا یہ ہے کہ (دن بھر ) وہ کھاتے پیتے اور جنسی عمل سے باز رہے ۔

"وادنى رتبته الكف عن الشهوتين وهو مناط الجواز"

سب سے اعلیٰ اور اونچا مرتبہ یہ ہے کہ انسان نفس کو ماسوی اللہ (کی غلامی) سے بھی روک دے اور باز رکھے اور بالکل امیدو بیم کے عالم میں رہے

"ثم كف النفس عما سواه تعال............ وحقه ان يخاف الرد ويرجوا لقبول"(عين العلم ص126-127)

روزے کا یہ وہ اونچا مقام ہے کہ جو خوش قسمت صلحاء اس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں ان کے روزہ رکھنے اور چھوڑنے کے انداز بھی بدل جا تے ہیں وہ اب اگر ماسوی اللہ پر توجہ مرکوز اور اس میں دلچسپی کا ارتکاب کرے گا تو وہ اسے اپنے حق میں یہ تصور کرے گا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے ملا علی قاری ؒ عین العلم کے مندرجہ بلا مقام کی تشریح کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔

"توضيعه ان يصوم قلبه.......... عن الهم الانيئة والافكار الدنيوية ويكف عمن سوى الله تعالى الكلية ويحصل الفطر فى هذا الصوم بالفكر فى غيرصفات الله تعالى واياته ومصنوعاته واليوم الاخر ومقاماته وبالفكر فى الدنيا وشهواته وفهواته الادنيا ترد للدين ضرورياته فان ذلك زاد الاخرةومقدماته حتى قال ادباب القلوب من تحركت همته بالتصوف فى نهاره بتدبيرما يستعمل فى افطار كبت عليه خطيئته من اوناره فان ذلك من قلة الوثوف بفضل الله كرمه وقلة اليقين برزقه ووعده "(شرح عين العلم للملاء على قاري)

گو یہ بہت بڑا اونچا مقام ہے جس پر صرف صلحائے اُمت اور انبیاؑء الصلوٰۃ والسلام ہی پورے اتر سکتے ہیں ۔تاہم یہ بھی پر ہیز کی ایک اونچی سٹیج ہے جو شخص اتنی اونچی پرواز کی سکت اور تو فیق پاتا ہے اس کو اس میں کو تا ہی نہیں کرنی چاہیے ۔

حدیث میں آیا ہے :

«فانه لى وانا اجزى به»(بخارى ومسلم عن ابى هريرة

"کیو نکہ وہ (روزہ ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ۔"میرے لیے ہے " کے جملے میں یہی " سر اور راز"پو شیدہ ہے کہ اس نے محض خدا جوئی خدا یابی اور رضا کے لیے " ماسوی اللہ " کی ہر اس چیز سے ایک حد تک ناطے تو ڑ لیے جو کسی بھی درجہ میں "سیرالی اللہ " جیسے پاکیزہ سفرکو بوجھل بنا سکتی ہے ظاہر ہے یہ اس پر ہیز کی وہ معراج بریں ہے جس پر انسا ن فائز ہو کر ملائکہ سے بھی بڑھ جا تا ہے اس لیے فر ما یا کہ جہاں روزے محض میرے لیے ان تمام حجابات "کو پھاڑ ڈالا تھا جو میرے راستہ میں حایل ہو سکتے تھے تو اب میں ان کو بلا واسطہ کیوں نہ نوازوں ؟

قرآن حکیم نے بھی ماہ رمضان کے روزے کی غایت یہی پر ہیز بتائی ہے ۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾... سورة البقرة

مسلمانو! جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کیے گئے تھے تم پر بھی فرض کر دیے گئے ہیں تاکہ تم پر ہیز گا ری کرو۔

شاہ عبد القادر محدث دہلوی ؒ اس پر لکھتے ہیں یعنی روزے سے سلیقہ آجا وے جی روکنے کا تو ہر جگہ روک سکو ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرہیز اور" رکھتے "کے کچھ نمونے بھی ذکر فر ما ئے ہیں جن میں تقریباً تقریباً اصولی باتیں سب آجاتی ہیں ۔

سب سے پہلے آپ نے روزے کی اہمیت اور حقیقت بیان فر ما ئی کہ:

روزہ صر ف کھانے پینے سے باز رہنے کا نام نہیں بلکہ صحیح روزہ "لغواور رفث "ہے رکنے کا نام ہے ۔

" ليس الصيام من الاكل والشرب انما الصيام من اللغو والرفث"(مراء زالظمان ص225)

لغو سے مراد ہر وہ بات ہے جو دینی مال کے اعتبار سے فائدہ اور لا حاصل ہو۔رفث سے مراد بازاری گفتگو اور بات چیت ہے ۔

فرمایا: جس دن تم میں سے کو ئی روزے سے ہو تو اسے بازاری گفتگو کلام اور چلانے اور شور سے پر ہیز کرنا چا ہیے ۔اگر کو ئی شخص تم سے گالی گلوچ اور لڑا ئی جھگڑے پر اتر آئے تو تم جواب میں صرف اتنا کہو کہ: بھئی !میں روزے سے ہوں !حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔

«فإِذا كان يومُ صومِ أحدِكم فَلاَ يرفُثْ ولا يصْخَبْ فإِنْ سابَّهُ أَحدٌ أو قَاتله فَليقُلْ إِني صائِمٌ»

مسلم شریف میں ولا یصخب کے بجا ئے «ولا يصْخَبْ»بھی آیا ہے یعنی "جہالت نہ کرے " جہل سے مراد ایسی حرکت ہے جو سنجیدگی آدمیت ہوش اور منا سب رویے کے خلا ف ہو۔

« إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُكُمْ يَوْمًا صَائِمًا ، فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَجْهَلْ »

امام نووی فر ماتے ہیں :

"والجهل قريب من الوفث وهو خلاف الحكمةو خلاف الصواب من القول والفعل"(شرح مسلم ج1ص363)

آپ نے فر ما یا :روزہ اس وقت تک ڈھال کا کا م دیتا ہے جب تک کو ئی اس کی دھجیاں نہ بکھیر دے یعنی گلہ اور جھوٹ نہ بکے ۔

«الصيام جنة مالم يخرقها»(رواه النسائى ص253، قال الدارمى: يعنى بالغيبة (دارمى 15) ورواه الطبرانى فى الاوسط من حديث ابى هريرة وزاد: قيل وبم يخوقها قال بكذب او بغيبة) الترغيب الترهيب للمنذرى ص219 طبع هند)

دوخواتین روزہ رکھ کر مرنے والی ہو گئیں حضور کو بتا یا گیا تو آپ نے ان کو بلوابھیجا اور ایک ایک سے فر ما یا کہ قے کہ چنانچہ ان کی قے میں پیپ خون گوشت اور خون ملی ہو ئی پیپ نکلی آپ نے فر ما یا : کہ انھوں نے حلال چیز سے روزہ رکھ لیا تھا مگر حرام چیز سے کھول لیا تھا یعنی لوگوں کے گلے کیے تھے ۔

"فقات قيح ودم وصديك ولحم عبيط وغيره حتى ملأت القدح ثم قال ان ماتين صامتا عما اجل الله لهما وافطرتا على ماحرم الله عليهما جلست احديهما الى الاخرى فجعلناتا كلان من لحم الناس رواه احمد، الترغيب والترهيب ص219)"

الغرض : ماہ رمضان کے روزے سے جہاں اور بے شمار فوائد حاصل ہو تے ہیں وہاں اصولی طور پران سے غرض مناسب "پر ہیز " کی سکت پیدا کرنا ہے تا کہ انسان کتاب و سنت کے احکام اور شرائع کو اختیار کرکے بوجہ "بدی پرہیزی " جیتی ہو ئی بازی ہار نہ دے ۔کیونکہ بد پر ہیزی کی موود گی میں دوا کا م نہیں دیتی ۔۔۔بسا اوقات اس کو تا ہی کی وجہ سے مرض اور خطرناک لائنوں پر پڑ جا تا ہے ۔اور قوت بخش اور پاکیزہ غذا گندگی کے کے چند چھینٹوں کی وجہ سے نہ بیکار ہو جا تی ہے بعض اوقات متعضن بھی ہو جا تی ہے ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ کتاب و سنت کے اعمال اور مسنون طرز حیات رنگ لا ئیں اور یہ اکسیریں مٹی کی حقیر ڈھیری بن کر حسرت و حرماں کی موجب نہ بنیں تو پھر ضروری ہے کہ آپ بد پر ہیزی ترک کردیں نیکی کے ساتھ بدی کا ارتکاب نہ کریں ماہ رمضان کے روزے اس "ضوہر" کی تخلیق کے لیے اپنی خدمات آپ کو پیش کرنے لگے ہیں اس کو غنیمت تصور کریں "رُکنا باز رہنا اور پرہیز کرنا" روزے کی سوغات ہیں اس میدان میں راسخ ہو کر نکلیں ماسوی اللہ کے غلط چرکوں سے اپنے دین و ایمان کو محفوظ کر لیں ۔

انسان کو جو چیز بدی کی طرف زیادہ مائل کرتی ہے وہ نفس امارہ کا فتنہ ہے مگر یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بھوک و پیاس اور قدم قدم پر اس کو لگام دینے سے اس کی مزاحمت کم ہو جا تی ہے زور گھٹ جا تا ہے سر کشی میں فرق پڑ جا تا ہے اس لیے اب اگر انسان کامیاب پرہیز کی توفیق سے ہم کنار ہوتا چاہتا ہے تو روزں کا دامن تھام لے ۔اللہ آپ کا حامی ناصر ہو!