امام ابن جریرؒ اور تفسیر جامع البیان

نام ونسب:

امام ابن جریرؒ کا مکمل نام ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید ابن کثیر غالب طبری ہے۔

جائے پیدائش:

آپ 224ہجری کو آئل طبرستان میں پیدا ہوئے۔ بارہ سال کی عمر میں علوم وفنون کے حصول کی خاطر مختلف ممالک اور اقالیم کے اکناف واطراف میں گھوم پھر کر مصر،شام اور عراق وغیرہ میں وقت ک اساطین عم اورکبار شیوخ کی مجالس سے بھر پور استفادہ کیا۔بعد میں مستقل طور پر بغداد میں رہائش پزیر ہوئے۔حتیٰ کہ 310ہجری میں دار فانی سے عالم جادوانی کو سدھارے۔

علمی مقام:

امام ابن جریر ؒ کاشمار ائمہ اعلام میں سے ہوتا ہے۔علم ونقل میں رسوخ اور شہرہ کی بناء پر اُن کی آراء اور اقوال کو قابل اعتماد سمجھاجاتا ہے۔تھوڑی ہی مدت میں اتنے کثیر علوم جمع کرلئے کہ ہم عصروں میں سے کوئی بھی اُن کا ہم پلہ نہ تھا۔کتاب اللہ کے حافظ وماہر،قرآن مجید میں بصیرت رکھنےوالے ،معانی سے واقف ،احکام قرآن میں فقیہ ،سنن کے طرق اور صحیح وسقیم اور ناسخ ومنسوخ کے عالم صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین ،تابعینؒ،اور اُن کے بعد والے لوگوں کے مختلف اقوال سے واقف، حلال اور حرام کے مسائل سے آگاہی،وقائع وحوادث ے بارے میں کامل معلومات رکھنے والے تھے۔

ابن سُریج کا بیان ہے:

"ابن جریر ؒ فقہیہ اور بہت سے علوم مثلاً علم القرائت تفسیر،حدیث،تاریخ وغیرہ میں کامل دسترس رکھتے تھے۔بہترین قسم کی تصانیف بھی چھوڑیں جو رہتی دنیا تک اُمت مسلمہ کے لیے جہالت کی تاریکیوں میں روشنی کا مینار ثابت ہوں گی۔ان میں سے زیادہ معروف تصنیفات درج ذیل ہیں:

مصنفات:

1۔جامع البیان، 2۔کتاب التاریخ المعروف "بتاریخ الامم' یہ کتاب امہات المراجع میں سے ہے۔ 3۔کتاب القرائت والعدد والتنزیل۔4۔کتاب اختلاف العلماء۔5۔تاریخ الرجال من الصحابۃ والتابعین۔6۔کتاب الاحکام شرائع الاسلام۔7۔کتاب التبصر فی اصول الدین۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی تصانیف ہیں۔جن سے ان کی علمی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔اس وقت ان کی صرف پہلی د و کتابیں متد اول ہیں۔

اما طبری ؒ کو تفسیر اورتاریخ کے ابوا ب میں باپ کی حیثیت حاصل ہے۔

مشہور مورخ اب خلکان کا بیان ہے:

"وہ ائمہ مجتہدین میں سے تھے۔اور کسی کے مقلد نہ تھے،ان کا مستقل مذہب تھا۔اُن کے پیروکاروں کو جریری کہاجاتا تھا۔لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ پیروکاروں میں کمی آتی گئی ،اور مذہب ختم ہوکررہ گیا۔

تفسیر ابن جریرؒ:

تفسیر ابن جریرؒ کا شمار معتبر اور مشہور ترین تفاسیر میں ہوتا ہے۔جن علماء نے تفسیر ماثور کا اہتمام والتزام کیا ہے،اُن کے لئے یہ کتاب اساسی خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے،اور ساتھ ہی عقلی تفسیر کو بھی خاصی اہمیت دی ہے استنباط اقوال کی توجیہ وترجیح اور آزادانہ بحث کا تعلق عقلی ونقلی تفسیر سے ہے۔

تفسیر ( ابن جریرؒ) کی مدح وثناء کے بارے مشرق ومغرب کے علماء کے اقوال کا احاطہ کریں۔تو بحث وتمحیص کے بعد یہ بات متفقہ طور پر سامنے آتی ہے کہ تفسیر ہذا ایک اہم مرجع ہے جس سے کوئی طالب تفسیر مستغنی نہیں ہوسکتا۔علامہ سیوطی ؒ کا بیان ہے:

(تفسیر ابن جریری۔"اجل التفاسير واعظمها فانه يتعرض لتوجيه الاقوال و ترجيح بعضها على بعض والاعراب والاستنباط ويفوق بذلك على تفاسير الاقدمين"(الاتقان)

امام نووی ؒ فرماتے ہیں:

"پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ابن جریر ؒ جیسی تفسیر آج تک معرض وجود میں نہیں آئی۔"

ابو حامد الاسفرا مینی کا کہنا ہے۔اگر کوئی شخص تفسیر ابن جریر ؒ کے حصول کے لئے چین کا سفر اختیار کرے تو یہ بھی کم ہے۔"(معجم الادباء ج18 ص42)

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ رقمطراز ہیں:

"بہرحال وہ تفاسیر جولوگوں میں متد اول میں ان میں سے صحیح ترین تفسیر محمد بن جریر طبری ؒ کی ہے۔اس میں ان کا انداز یہ ہے کہ سلف ؒ کے اقوال ثابت شدہ سندوں سے نقل کرتے ہیں، اور اس میں بدعت کا بھی شائبہ تک نہیں "متهم بالكذب" جیسے مقاتل اور کلبی وغیرہ سے کوئی شئی نقل نہیں کرتے۔"(فتاویٰ ابن تیمیہؒ جلد 2 ص192)

حافظ ابن حجر ؒ لسان المیزان میں فرماتے ہیں:

"ابن خذیمہ ؒ نے اب خالویہؒ سے تفسیر ابن جریر مستعار لی کئی سال بعد واپس کی تو فرمایا۔

"نظرت فيه من اوله الى آخره فما اعلم على اديم الارض اعلم من ابن جرير"

میں نے اس کتاب کو اول سے آخر تک پڑھا ہے مجھے معلوم نہیں کہ روئے زمین پر ابن جریرؒ سے بڑا کوئ عالم ہوا ہو۔"

حقیقت میں یہ تفسیر کافی ضحیم تھی،موجودہ کتاب اصل کا اختصار ہے۔

ابن سبکی ؒ فرماتے ہیں؛

"امام ابو جعفر ؒ نے اپنے شاگردوں سے کہا کیا تم قرآنی تفسیر کے لئے تیار ہو؟انھوں نے دریافت کیا اس کا کتنا اندازہ ہوگا۔کہا تیس ہزار ورقہ۔انھوں نے کہا اس کی تکمیل سے قبل تو ہماری عمریں ختم ہوسکتی ہیں۔تو انھوں نے اس کا تین ہزار اوراق میں اختصار کردیا پھر کہا کیا تم تاریخ کے لئے تیار ہو جس کا آغاز آدمؑ سے اور انتہاء موجودہ دور پر ہو۔انھوں نے کہا اس کا کتنا اندازہ ہوگاآپ نے اسی طرح بیان کیا جس طرح تفسیر کے بارے میں اظہار کیاتھا۔تو انھوں نے بھی آگے سے اسی مثل جواب دیا،تو شیخؒ نے ہمتوں کے ٹوٹ جانے۔(اورعزائم کی پستگی) پر انا اللہ پڑھا۔اور تاریخ کو بھی اسی طرح مختصر کردیا جس طرح تفسیر کو کیا۔"(الطبقات الکبریٰ جلد 2 ص147)

انداز تفسیر:

قرآن مجید سے جب کسی آیت کریمہ کی تفسیر کرنی چاہتے ہیں تو کہتے ہیں:

"القول فى تاويل قوله كذا وكذا"۔پھر آیت کی تفسیرکرتے ہیں۔اور اسکے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور تابعین ؒ عظام سے اسانید کے ساتھ تفسیر بالماثور لاتے ہیں۔جب کسی آیت میں دو یا زیادہ اقوال ہوں۔ تو اُن کو تشریح کرتے ہیں۔نیز ہرقول پر بطور استشہاد مرویات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین ؒ بیان کرتے ہیں۔پھر مجرد روایت پر اکتفاء نہیں کرتے۔بلکہ اقوال کی توجیہہ وترجیح بیان کرتے ہیں۔اور آیت سے ممکنہ حد تک احکام کا استنباط کرتے ہیں۔

تفسیر بالرائے کا انکار:

امام ابن جریرؒ اصحاب الرائے سے سخت اختلاف کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین ؒ سے منقول علم دوسروں کی طرف منتقل کیاجائے۔اُن کے نزدیک صحیح تفسیر کی یہی ایک علامت ہے محض لغت سے بھی تفسیر کو ناجائز تصور کرتے ہیں۔

متنوع مسائل:

امام ابن جریر ؒ روایات مع اسانید پورے اہتمام کے ساتھ لاتے ہیں ،اور عموماً اُن کی صحت وسقم کے بارے خاموشی اختیا ر کرتے ہیں۔اس اعتبار سے ان کا وہی نظریہ ہے جو کہ اہل فن کے ہاں مشہور ومعروف ہے کہ:

"من اسندلك فقد حملك للبحث عن رجال السند"

جس نے سند بیان کردی اُس نے راویوں کے بارے میں تجھے بحث کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

اس اصول کے پیش نظر اسرائیلی روایات کثرت سے بیان کرتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود بسا اوقات غیر صحیح روایت کو جرح وتعدیل کی بناء پر رد کردیتے ہیں۔

امام ابن جریرؒ نے اجماع کو خاصی اہمیت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔

اسی طرح منقولات کے ساتھ شک وشبہ اور ترجیح اقوال کی صورت میں لغوی استعمالات پر بھی اعتماد کرتے ہیں۔ قدیم شعر کی طرف بھی حجرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اتباع میں وسیع پہمانے پر رجوع کرتے ہیں۔نیز کوفیوں اور بصریوں کے صرفی ونحوی اقوال بھی وارد کرتے ہیں کبھی بصری مذہب کو قبول کرتے ہیں۔اور کبھی کوفیوں کے مذہب کو ترجیح دیتے ہیں۔ فقہی احکام پر علماء وفقہاء کے اقوال کو راحج اقوال کے ساتھ احاطہ تحریر میں لاتے ہیں جبکہ کلامی مسائل میں اہل سنت کے عقائد کو اختیار کیا ہے اور مخالفین کی خوب خبر لی ہے۔بے فائدہ امور سے اعراض وانصراف کرتے ہیں۔بخلاف دیگر مفسرین کی روش کہ وہ ہر قسم کا رطب ویابس جمع کردیتے ہیں۔

المختصر یہ ایک جلیل امام کی عظیم قرآنی تفسیر کا مختصر سا خاکہ بطور تعارف عامۃ الناس کے استفادہ کے لئے پیش کیا ہے۔جس کے ساتھ لگاؤ اور شغف ہر مسلمان اور طالب علم کا دینی تقاضا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں دین کی سمجھ عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔