ترجمان القرآن

مسائل آمین:

سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد آمین کہنا مشروع ومستحب ہے۔آمین کے معنیٰ ہیں"اے اللہ ہم سے قبول کر" اس دعا کو منزل مقصودتک پہنچا۔وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب"ولاالضالین" کہا،تو میں نے سُنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "آمین کہی۔اور آواز لمبی کی۔(احمد ،ابوداؤد ترمذی کے) الفاظ یہ ہیں۔«مدبها صوته» ابو داؤد کے الفاظ۔«رفع بها صوته» "یعنی آمین اُونچی آواز سے کہتے۔"

دوسری روایت میں مرفوعاً یوں آیا ہے:« رب اغفرلى امين »(طبرانی)

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ یہ ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ولاالضالین پڑھتے تو آمین کہتے۔پہلے صف والےاس آمین کو سنتے(ابوداؤد) اسی روایت میں ابن ماجہ ؒ میں یہ الفاظ زائد ہیں۔«فيرتج بها المسجد»"پس مسجد گونج اٹھتی"

دارقطنیؒ نے کہا کہ اس کی سند حَسن ہے۔صحیحین میں ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے۔جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے مطابق ہوگی اُس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔مسلم شریف کے الفاظ یوں ہیں:

"جب تم میں سے کوئی آدمی نماز میں آمین کہتا ہے تو فرشتے آسمان پر آمین کہتے ہیں ،تو جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے مطابق ہوتی ہے،اُس کےپچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔"

مطابقت سے یہاں مراد اجابت یا اخلاص میں ایک جیسی ہو۔

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعا ً کہتے ہیں۔جب امام "ولاالضالین " کہے تو تم آمین کہو۔اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا۔(مسلم)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مرفوعاً آیا ہے یہود نے تم پر کسی دوسری چیز کے سبب اتنا حسد نہیں کیا جتنا تمہارے"سلام" اور "آمین"کہنے پر حسد کرتے ہیں۔(ابن ماجہ)

معلوم ہوا جس کو"آمین" کہنا بُرا لگے۔اُس پر ایک طرح کا شائبہ یہودیتگ کا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہود کا ذکر ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"یہود نے ہم پر اس سے زیادہ حسد نہیں کیا جتنا وہ ہم پر جمعہ کی بابت حسد کرتے ہیں،اللہ نے ہمیں بتادیا کہ وہ اس سے گمراہ ہوئے،قبلہ کی وجہ سے کہ اللہ نےہم کو یہ قبلہ دیا اور انہیں نہ ملا اور امام کے پیچھے آمین بالجہر کہنے پر۔"(مسند احمد)

ابن کثیر ؒ کہتے ہیں،امام اگر اونچی آواز سے آمین کہنا بھول جائے تو مقتدی ایک بار اونچی آواز سے آمین کہے اور اگر امام نے اونچی آواز سے آمین کہی ہے تو مقتدی اونچی آواز سے آمین نہ کہیں۔یہ امام ابو حنیفہؒ کا مذہب ہے۔امام احمد ؒ کا مذہب یہ ہے کہ مقتدی بھی اونچی آواز سے کہیں۔تیسرا یہ قول یہ بھی ہے اگر مسجد چھوٹی ہو تو مقتدی اونچی آواز سے آمین نہ کہیں تاکہ لوگ امام کی تلاوت سنیں،اگر جامع مسجد ہو تو مقتدی اونچی آواز سے آمین کہیں تاکہ مسجد کے چاروں اطراف ان کی آواز پہنچ جائے۔یہ تعلیل کچھ نہیں ہے بلکہ آمین کا اونچی اور آہستہ دونوں طرح سے کہنا ثابت ہے اونچی آواز سے اُس و قت کہے جب بدعت کا زورو شور ہوتو مردہ سنت کا زندہ کرنا ضروری ہے۔لیکن اگر کسی جگہ اونچی آواز سے کہنے سے تنازعہ کامسئلہ پیدا ہو تو آہستہ کہنا مصلحت ہے،سلف صالحین کےنقطہء نظر کے خلاف ہے۔موضع القرآن میں ہے،یہ سورت اللہ نے بندوں کی تربیت کے لئے نازل کی تاکہ وہ اپنے اللہ کو اس طرح پکاریں۔

سورۃ البقرۃ


یہ سورت مدتوں تک مدینہ طیبہ میں نازل ہوتی رہی کہتے ہیں سب سے پہلے مدینہ شریف میں یہی سورت نازل ہوئی لیکن آیت﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْ‌جَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ...﴿٢٨١﴾... سورةالبقرة"سارے قرآن کے نزول کے بعد 10 ذی الحج کو حجۃ الوداع میں میدان"منیٰ" میں نازل ہوئی۔آیات "رِبوا" کو بھی قرآن کے سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیتیں مانا گیا ہے۔

فضیلت:

اس سورت کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں صحاح ستہ اور سنن میں آئی ہیں کچھ ابن کثیر ؒ نے ذکر کی ہیں۔ان میں سے بعض آیت الکرسی کے ساتھ مخصوص ہیں۔اور بعض سورہ بقرۃ کی آخری آیات(خواتیم سورہ بقرہ کے ضمن میں ہیں۔بعض احادیث میں سورہ بقرہ سورہ آل عمران دونوں کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔بعض احادیث میں صرف "سبع طوال"(سات لمبی سورتوں) کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔اس سورت کی دو سو چھیاسی آیات چھ ہزار سو اکیس کلمے اور پچیس ہزار پانچ سو حروف ہیں ۔واللہ اعلم۔

ابن عربی ؒ نے کہا ہے اس میں ایک ہزار امر،ایک ہزار نہی،ایک ہزار حکم اور ایک ہزار خبر ہے۔خالد بن معدان نے اس کا نام فسطاط القرآن(قرآن کا خیمہ) رکھا۔اس سورت کی تلاوت باعث برکت ہے۔اور اس کی تلاوت نہ کرنا مقام حسرت ہے جادو گر اس کو حاصل نہیں کرسکتے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


الم:

محدثین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ حروف مقطعات قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے راز ہیں۔یہ راز اللہ تعالیٰ کی ہرکتاب میں ہوتے ہیں۔یہ وہ متشابہ(آیات) ہیں کہ صرف اللہ ان کا علم رکھتا ہے۔ہمیں اس پر ایمان لانا چاہیے۔اور اس پر کلام کرنے کی ضرورت نہیں۔یہی مذہب صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت مثلاً خلفائے راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ابو حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا نے ہم نے یہ حروف مقطعات صرف سورتوں کےآغاذ میں پائے ہیں۔اور ہم نہیں جانتے کہ ان سے اللہ کی کیا مراد ہے۔دوسرے گروہ نے ان حروف مقطعات کے معنی مختلف متعین کئے ہیں۔امام رازیؒ نے ان اقوال کو نقل کیا ہے سب سے زیادہ باریک بینی(مخشری معتزلی نے اپنی کثاف میں کی ہے۔ جس کی تردید امام شوکانی ؒ نے فتح القدیر میں بڑے زور دار انداز میں کی ہے۔تکلیف کی بات یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان حروف کے کچھ معنی نہیں بتائے اور نہ ان کا کچھ مفہوم واضح کیا ۔زیادہ سے زیادہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بتایا تو یہ بتایا میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے۔بلکہ الف ایک حرف ہے لام دوسرا حرف ہے م تیسرا حرف ہے۔ہر حرف کی تلاوت پر ایک نیکی کا ثواب ہے۔اور ہر ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔" مگر اُمت نے اس معاملہ میں بلاوجہ اس طریقے سے غور وخوض کیا جس کا دین ودنیا میں کوئی فائدہ سوائے وقت ضائع کرنے کے نہیں۔ا س مسئلے کی وضاحت فتح البیان میں موجود ہے۔

ابن کثیر ؒ نے کہا ہے کہ ایک جماعت کا خیال ہے کہ سورتوں کے آغاذ میں ان حروف مقطعات کا بیان اعجاز القرآن کا ثبوت ہے۔تاکہ مخلوق کوقرآن کا مقابلہ کرنے پر اپنی عاجزی کا علم ہو۔ اور وہ جان لیں کہ یہ وہی حروف ہیں جن کے ساتھ وہ باہم خطاب کرتے ہیں مگر ان کو ایسی ترکیب نہیں دے سکتے۔امام رازی ؒ نے لکھا ہے کہ مسبردؒ اور محققین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے قرطبیؒ نے اس بات کو فراءؒ اور قطربؒ سے اس طرح بیان کیا ہے اس کی تائید کثاف میں بھی کی گئی ہے اس بات کو ہمارے شیخ امام ابو العباس ابن تیمیہؒ اور حافظ مجتہد ابولحاج مزیؒ نے بھی بیان کیا ہے۔

﴿ ذ‌ٰلِكَ الكِتـٰبُ لا رَ‌يبَ ۛ فيهِ...﴿٢﴾... سورةالبقرة

ترجمہ:۔یہ کتاب(قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلام اللہ ہے)

'کتاب " سے اس جگہ مرادقرآن مجید ہے اس کے علاوہ دس اقوال اور بھی ہیں مگر سب سے زیادہ قوی یہی قول ہے۔اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ کتاب اللہ کے پاس آئی ہے سراپاحق وصداقت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿الم ﴿١﴾ تَنزيلُ الكِتـٰبِ لا رَ‌يبَ فيهِ مِن رَ‌بِّ العـٰلَمينَ ﴿٢﴾... سورةالسجدة

ترجمہ:۔الم۔اس میں کچھ شک نہیں کہ اس کتاب کا نازل کیا جانا تمام جہان کے پروردیگار کی طرف سے ہے۔

"ریب " کے معنی شک ہیں،ابن ابی حاتمؒ نے کہا مجھے اس معنی میں کوئی اختلاف نظر نہیں آیا۔مراد یہ ہے کہ اس قرآن میں کسی طرح کا شک وشبہ نہ کرو۔"ریب" کے ایک معنی"تہمت " کے بھی کہے گئے ہیں۔حدیث میں آیا ہے شک ریبت ہے صدق طمانیت ہے۔

قرطبیؒ نے کہا کہ نقی عام کا معنیٰ یہ ہے کہ یہ کتاب کسی طرح بھی کسی اعتبار سے شک وشبہ اور تہمت وبدگمانی کی نہیں ہے۔یہ کتاب اس بات کی متقاضی ہے کہ کسی قسم کا کوئی شک اس میں راہ نہ پائے۔

﴿ هُدًى لِلمُتَّقينَ ﴿٢﴾... سورةالبقرة

ترجمہ۔(اللہ سے) ڈرنے والوں کو رہنما ہے۔

اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگرچہ یہ کتاب سرتاپا باعث ہدایت ہے۔لیکن اس کا فائدہ صرف اہل ایمان کو ہی ہوتاہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں! اور جو لوگ اللہ سے نہیں ڈرتے ہیں ان کو کتاب ھذا سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا،قرآن مجید میں ہے۔

﴿ وَنُنَزِّلُ مِنَ القُر‌ءانِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَ‌حمَةٌ لِلمُؤمِنينَ ۙ وَلا يَزيدُ الظّـٰلِمينَ إِلّا خَسارً‌ا ﴿٨٢﴾... سورة الإسراء

ترجمہ۔اور قرآن(کے ذریعے9 سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے باعث شفا اوررحمت ہے اور ظالموں کے حق میں تو اس نقصان ہی بڑھتا ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:۔

﴿قُل هُوَ لِلَّذينَ ءامَنوا هُدًى وَشِفاءٌ ۖ وَالَّذينَ لا يُؤمِنونَ فى ءاذانِهِم وَقرٌ‌ وَهُوَ عَلَيهِم عَمًى ۚ أُولـٰئِكَ يُنادَونَ مِن مَكانٍ بَعيدٍ ﴿٤٤﴾... سورةفصلت

ترجمہ:۔کہہ دو کہ جو ایمان لاتے ہیں اُن کے لئے (یہ ) ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں گرانی(بہراپن) ہے اور یہ ان کے حق میں (موجب) نابینائی ہے۔گرانی کے سبب اُن کو(گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے۔

﴿ يـٰأَيُّهَا النّاسُ قَد جاءَتكُم مَوعِظَةٌ مِن رَ‌بِّكُم وَشِفاءٌ لِما فِى الصُّدورِ‌ وَهُدًى وَرَ‌حمَةٌ لِلمُؤمِنينَ ﴿٥٧﴾... سورة يونس

ترجمہ:۔لوگو تمہارے پاس تمہارے پروردیگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفاء اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت آپہنچی ہے۔

معلوم ہوا جو لوگ قرآن پاک کو شفاء ،ہدایت،رحمت،اورموعظت نہیں سمجھتے وہ ایمان سے محروم ہیں۔جب ایمان نہ ہوا تو متقی بھی نہ ہوئے۔صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ یہ کتاب اہل تقویٰ کے لئے نور ہے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے۔ متقی وہ مومن ہیں۔جو شرک سے بچتے ہیں۔اطاعت پر عمل کرتے ہیں۔ دوسری جگہ الفاظ اس طرح ہیں کہ حقیقت میں متقی وہ لوگ ہیں جو ترک ہدایت پر اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔قرآن مجید کی تصدیق پر رحمت کیامید رکھتے ہیں۔کلبی ؒ نے کہا متقی وہ آدمی ہیں جو کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں۔اعمشؒ نے اس کی تصدیق کی ہے۔بعض نے کہا متقی وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اس کے بعد آیا ہے۔کہ غیب پر ایمان لاتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں۔الایۃ

ابن جریرؒ نے کہا آیت ان سب اقسام کا احاطہ کرتی ہے حدیث عطیہ سعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں مرفوعاً آیا ہے بندہ اس وقت تک حقیقتاً مومن نہیں بنتا۔جب کہ بے ڈر کی چیز سے بچنے کے لئے ڈر والی چیز کو ترک نہ کردے۔ترمذی،ابن ماجہ،امام شوکانیؒ نے کہا ہے شرعی تقویٰ کے یہی معنی ہیں جو اس حدیث میں آئے ہیں۔اور اس معنی کی طرف جانا واجب ہے۔اس حدیث کو احمدؒ،عبد بن حمیدؒ اور بخاریؒ نے تاریخ میں اور ابن ابی حاتم ؒ اور بیہقیؒ وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ترمذی ؒ نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔اس حدیث کی موجودگی میں تقویٰ کی اس تعریف کی کچھ حاجت نہیں ہے جو یار دوستوں نے اپنی عبارتوں میں کی ہے خواہ اس میں کچھ برائی نہ بھی ہو لیکن آفتاب کے سامنے مشعل اورچراغ بیکار ہوتے ہیں۔ہدایت سے کبھی ایمان بھی مراد لیتے ہیں سو اللہ کے علاوہ دل میں کوئی ایمان پیدا نہیں کرسکتا۔قرآن میں آیا ہے۔

﴿ إِنَّكَ لا تَهدى مَن أَحبَبتَ...﴿٥٦﴾... سورةالقصص

ترجمہ:۔(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کرسکتے۔پھرفرمایا:۔

﴿ لَيسَ عَلَيكَ هُدىٰهُم...﴿٢٧٢﴾... سورة البقرة

ترجمہ:۔(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ان لوگوں کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں ہو۔پھر فرمایا:

﴿ مَن يُضلِلِ اللَّهُ فَلا هادِىَ لَهُ...﴿١٨٦﴾... سورةالاعراف

ترجمہ:۔جس شخص کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔پھرفرمایا:

﴿ مَن يَهدِ اللَّهُ فَهُوَ المُهتَدِ وَمَن يُضلِل فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُر‌شِدًا ﴿١٧﴾... سورةالكهف

ترجمہ:۔جس کو اللہ ہدایت دے وہ ہدایت یاب ہے اور جس کو گمراہ کرے تو تم اس کے لئے کوئی دوست راہ بتانے والا نہ پاؤ گے۔

کبھی ہدایت سے مرادحق کو بیا ن کرنا اور اس کی طرف رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ إِنَّكَ لَتَهدى إِلىٰ صِر‌ٰ‌طٍ مُستَقيمٍ ﴿٥٢﴾... سورةالشورٰى

اور بے شک (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ سیدھا رستہ دکھاتے ہو۔

﴿ إِنَّما أَنتَ مُنذِرٌ‌ وَلِكُلِّ قَومٍ هادٍ ﴿٧﴾... سورة الرعد

ترجمہ:۔سو(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ تو صرف ہدایت کرنے و الے ہو اور ہر ایک قوم کے لئے رہنما ہوا کرتا ہے۔پھر فرمایا:

﴿ وَأَمّا ثَمودُ فَهَدَينـٰهُم فَاستَحَبُّوا العَمىٰ عَلَى الهُدىٰ ...﴿١٧﴾... سورةفصلت

ترجمہ؛۔اور جوثمود تھے ان کو ہم نے سیدھا رستہ دیکھا دیا تھا مگر انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں اندھا رہنا پسند کیا۔پھر فرمایا؛

﴿ وَهَدَينـٰهُ النَّجدَينِ ﴿١٠﴾... سورة البلد

ترجمہ:۔ اور اس کو (خیر وشر کے)د ونوں رستے بھی دیکھا دیئے۔

اس جگہ "نجدین" سے مراد ترجیحاً خیر وشر ہے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تقویٰ کسے کہتے ہیں؟انہوں نے فرمایا:اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تم کبھی کسی خادردار راستے پر چلے ہو؟حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں۔ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کیسے سفر کیا؟حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

اپنا دامن سمیٹ کر بچتے بچاتے خارداری سے گزرا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہی تقویٰ ہے۔حدیث ابی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے کہ اللہ کے خوف کے بعد کسی آدمی نے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز حاصل نہ کی کہ جب وہ اسے دیکھتا ہے تو وہ اسے خوش کرتی ہے جب اسے حکم دیتا ہے بجا لاتی ہے جب قسم کھائے تو اس کو سچ کردکھاتی ہے اوراگر ا س کے پاس سے کہیں دور چلا جائے تو اپنی جان سے اُس کے مال میں خیر خواہی کرتی ہے۔(ابن ماجہ) (جاری ہے)