نظریہ ارتقاء

3۔تیسری آیت یہ ہے:

﴿وَقَد خَلَقَكُم أَطوارً‌ا ﴿١٤﴾... سورة نوح

(1)حالانکہ اس نےتم سب کومختلف حالات میں پیدا کیا ہے( تفسیر ثنائی)

(1) حالانکہ اس نےم طرح طرح کی حالتوں میں پیدا کیا ہے۔(فتح محمد جالندھر)

(3) حالانکہ اس تم طرح کرح سےبنایا ہے(تفہیم القرآن).... اوراس سے مولانامودودی نےوہی تخلیقی مراحل مراد لیے جورحم مادر میں ہتے ہیں۔

پرویز صاحب اس آیت سے ارتقائے زندگی کے مراحل مراد لیتے ہیں۔ لیکن کوئی ایسی وجہ نہیں اس ےس رجم مادر کےمراحل مراد نہ لیے جائیں جبکہ سورۃ علق کی مندرجہ بالاآیت اس کی وضاحت بھی کررہی ہےاو رکوئی ایسا قرینہ بھی موجود نہیں جس سے پرویز صاحب کےنظر یہ کی تائید ہوسکے۔

﴿وَاللَّـهُ أَنبَتَكُم مِنَ الأَر‌ضِ نَباتًا ﴿١٧﴾... سورةنوح

(1) اورخداہی نےہم کوپیدا کیا ہے(فتح محمد)

(2) اللہ نےتم زمین سے پیداکیا(تفسیر ثنائی)

(3) اور اللہ نےتم کو زمین سے عجیب طرح اگایا (تفہیم القرآن)

پرویز صاحب اس کاترجمہ کرتے ہیں ۔ اور ہم نےتمہیں زمین سے اگایا ایک طرح کا اگانا اور اس سے مراد یہ لیتےہیں کہ انسان نباتات اور حیوانا ت کےراستے سےہوتا ہوا وجود میں آیا۔

آیت مندرجہ بالا میں نبت کالفظ لغوی اعتبار سے ہر بڑھتے والی چیز پر بولا جاتا ہے۔ نباتاب حیوانا اورانسان سب اس پر یکساں ہوتا ہے ۔(امام راغب ) اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ جب کوئی چیز خوب پھل پھول رہی ہوتو یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔المنجد نبت ثدی الجاریۃ لڑکی کےپستان ابھر آنا(منتہی الادب) اسی طرح جب ایک بچہ کی اس طرح پرورش ہورہی ہو کہ وہ اپنی اصل عمر سے بڑا اور خوب پلا پوسا معلوم ہوتا ہوتو انبت کالفظ استعمال ہوتا چنانچہ قرآن میں ہے

﴿فَتَقَبَّلَها رَ‌بُّها بِقَبولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَها نَباتًا حَسَنًا...٣٧﴾... سورة آل عمران

تو خدا نےمریم کوپسندیدگی کےقابل قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا۔

اندریں صورت حال یہ آیت نظریہ ارتقاء کی کوئی موثر دلیل پرورش کیا۔

5۔قصہ آدم کےسلسلہ میں پرویز صاحب نےدرج ذیل آیت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہےکہ:

﴿وَلَقَد خَلَقنـٰكُم ثُمَّ صَوَّر‌نـٰكُم ثُمَّ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِـٔادَمَ...﴿١١﴾ سورة الاعراف

اور ہم نے تمہیں پیدا کیا۔پھر تمہاری شکل صورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کوسجدہ کرو۔

اس سےآپ یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کاصیغہ اس بات کی دلیل ہےکہ آدم سے پہلے نبی نوع انسان موجود تھی کیونکہ ملائکہ کےسجدہ کاذکر بعد میں ہوا ہے۔پھر سورہ ااعراف کی آیات 11۔25تک توجہ دلائی ہےجہاں کہیں آدم اور اس کی بیوی کےلیے تثنیہ کاصیغہ آیا ہےلیکن اکثر مقامات پر جمع کاصیغہ ہے۔

اس کے جواب میں اتنا ہی عرض کریں گے کہ آپ اگر آیات 11۔25 کی بجائے(6۔25) پر غور کرنے کو فرمادیتے توتثنیہ کے صیغہ کی حقیقت معلوم ہوجاتی ۔

ابتداء میں حضور اکر م ﷺ کےدور کےتمام موجو انسانوں کومخاطب کیا گیا ہےکہ اپنےپردوگار سے نازل شدہ وحی کی تابعداری کرو۔پھر آگے چل کر آدم اور ان کی اولاد ہےنہ کہ آدم اور ان کےآباء واجد دیا بھائی بند جوآپ کےخیال میں اس جنت میں رہتے تھے جس کےمتعلق خدا فرمایا:

﴿وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ﴾

اے آدم :تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔

اگر جنت میں اس آدم کی سابقہ نسل بھی رہتی تو محض آدم اور اس کی بیوی کوجنت میں رہنےکی ہدایت بالکل بے معنی ہوجاتی ہے۔

اس آیت کادوسرا پہلو جس کی طرف توجہ دلائی جاتی ہےوہ یہ ہےکہ اگر اللہ تعالیٰ نےصرف حضرت آدم کوبطور خصوصی تخلیق پیدا کیاتھاتو آیت بال میں کم کی ضمری جمع کیوں استعمال ہوئی ہے؟

تو ہم عرض کریں گےکہ محاورہ عرب میں موقع ومحل کےلحاظ سےواحد کےلیے جمع استعمال کی اور بھی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں مثلا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذى جاءَ بِالصِّدقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولـٰئِكَ هُمُ المُتَّقونَ ﴿٣٣﴾... سورةالزمر

اور جوشخص سچی بات لے کر آیا اور جس نےاس کی تصدیق کی وہی لوگ متقی ہیں تخلیق آدم سےمتعلق درج ذیل آیت مفہوم میں بالکل صاف ہے۔ارشادبار ی ہے:

﴿هَل أَتىٰ عَلَى الإِنسـٰنِ حينٌ مِنَ الدَّهرِ‌ لَم يَكُن شَيـًٔا مَذكورً‌ا ﴿١﴾... سورة الدهر

بے شک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔

اب دیکھیے دہر سےمراد وہ زمانہ ہےجس کاآغاز ابتدائے آفرینش سے ہوا ہےاورعصر سےمراد وہ زمانہ ہےجس کا آغاز تخلیق آدم سےہوا ہےکیونکہ انسانی افعال واعمال پر اللہ نے عصر کوبطور شہادت پیش کیا ہےدہر کو نہیں ارشاد باری ہےکہ اس دہر میں انسان پر ایسا وقت بھی آیا ہےجبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔اگر وہ نباتات حیوانات یابندر کی اولاد ہوتا تویہ چیزیں توسب قابل ذکر ہیں ۔آخر ان کانام لینے میں کیا حرج تھا؟ ہمارے خیال میں یہی ایک آیت ڈارون کےنظریہ ارتقاء کو کلی طور پر مردود قرادینےکے لیے کافی ہے۔

تخلیق آدم اور قرآن:

اب دیکھیے اللہ تعالیٰ نےانسان کی پیدائش کے جومختلف مراحل بیان فرمائےہیں وہ یہ ہیں

(1)۔تراب بمعنی خشک مٹی(المومن:64)

2۔ارض بمعنی عام مٹی یا زمین

3طین بمعنی گیلی مٹی گارا(الانعام)

4۔طین لازب بمعنی لیسدار اورچیک دار مٹی(الصفت11)

5۔ حما مسنون بمعنی بدبودار کیچڑ(الحجر26)

6۔صلصال بمعنی ٹھیکرا۔حرارت سےپکائی ہوئی مٹی(ایضا)

7۔ صلصال کالفخار ۔بمعنی ٹن سےبچنے والی ٹھیکری۔(الرحمن:14)

یہ ساتوں مراحل بس جمادات میں پورے ہوجاتے ہیں ۔مٹی میں پانی کی امیزش ضرور ہوئی لیکن پھر وہ وہ پوری طرح خشک کردیاگا۔غور فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ نےتخلیق انسان کےجوسات مراحل بیان فرمائے ہیں وہ سب کےسب ایک ہی نوجمادات سےمتعلق ہیں۔ ان میں کہیں نباتات او رحیوانات کاذکر آیا ہے؟ اگر انسان کی تخلیق نباتات اورحیوانات کےراستے سےہوتی تو ان کابھی توذکر ہوناچاہیے تھا۔

پھر قرآں میں یہ مذکور ہے:

﴿قالَ يـٰإِبليسُ ما مَنَعَكَ أَن تَسجُدَ لِما خَلَقتُ بِيَدَىَّ... ﴿٧٥﴾... سورة ص

(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجده کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا

اب خدا کےہاتھوں سے اس لیے انکار کردیا جائے کہ خدا کےمتعلق تجریدی تصور ہی راہ صواب ہے۔یا ید سےمراد قوت وقدرت ہےاورحدیث اگر آیت کی تائید کرے تواسے ظنی کہہ دیاجائے اور اگر تورات بھی تائید کرے تواس کی ہر ایسی آیت کومحرف قراردیا جائے ۔جوآپ کےقرآنی فکر سےمتصادم ہو۔یہ سب کچھ لینے کےبعد نظریہ ارتقاء جیسے ناقابل اعتماد نظریہ کوصحیح قرآنی فکر قراردیا جائے تو دلائل کی بات رہ کہاں جاتی ہے؟

قصہ آدم وابلیس


جنت شجر ممنوعہ اورہبوط آدم:

اب پرویز صاحب کی زبانی سنیے کہ آدم وابلیس کی تمثیلی داستاں کیا ہے؟ اورجنت ابلیس آدم ملائکہ وغیرہ سےکیامفہوم ہے؟فرماےہیں:

جنت کی زندگی سےمراد نوع انسانی کی زندکی کاوہ ابتدائی دور ہےجس میں رزق کی فروانیاں تھیں((سرسید جنت سےمراد انسان کاعہد قفلی شجر ممنوعہ سےمراد عقل شعور اورہبوط ۂآدم سےمراد عقل شعور کے بعد زندگی لیتے ہیں۔پرویز صاحب اس مسئلہ میں سید صاحب سے پورا پورا اختلاف رکھتے ہیں اوربالکل نئی تاویلات پیش فرماتے ہیں))...... انسان ملکیت کے لفظ سےنامہ آشناتھا جس کا جہاں جی چاہیے سامان زیست لےلیتا ۔ جس کاپہلا دورقبائلی زندگی کاتھا۔یعنی اب نوع انسان مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر الگ الگ ہوگئی۔

عربی زباں میں الگ الگ ہونے کومشاجرت کہتے ہیں۔ اسی کانام وہ شجر ہے جس کے قریب جانے سے انسان کوروکا گیا تھا(ابلیس وآدم ص51۔52)

اب دیکھیےکہ(1) اگر جنت سے مراد رزق کی فروانیاں ہی ہے تو اس سے تو انسان کےسب آباؤ اجداد اوردیگر حیوانات فائدہ اٹھارہے تھے۔آدم وحوا کو جنت میں آباد کرکےخدا نےاس جوڑے پرکونسا احسان فرمایا تھا؟

2۔مشاجرت کےمعنی توواقعی الگ الگ ہونے کےہیں لیکن دیکھنا تویہ ہےکہ آیا مشاجرت اورشجر کےایک ہی معنی ہیں؟ شجر اسم جنس ہےاورشحر ۃ کسی ایک درخت کوکہتے ہیں الگ الگ بننےکو نہیں کہتے ۔جب کبھی یہ لفظ بطور اسم استعمال ہوگا اس کےمعنی درخت ہی ہوں گے۔

3۔جس کسی آدمی کو اللہ نے اس شجر یا مشاجرت سے منع کیاتھا(یعنی الگ الگ تکڑوں میں بٹ جانا وہ توپہلے ہی واقع ہوچکی تھی۔ایک چیو کے ہوجانے کےبعد یہ کہنا کہ ایسا نہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

ابلیس اورملائکہ:

انفرادی عقل کایہتقاضا کہ دنیا میں سب کچھ میرے ہی لیے ہوناچہیے ابلیس کہلاتا ہے ملائکہ یعنی کائنات کی قوتیں جن سے رزق پیدا ہوتا ہےانسان کے تابع فرمان ہیں ... وہ سب اس کےسامنے سجدہ ریز ہیں(ص52ایضا،)

وہ جذبہ جس کےمتعلق قرآن نے کہا ہے کہ ابلیس نےآدم کے کان میں افسوں پھونک دیا وہ اسے حیات جاوید عطا کرے گا اور اس کاذریعہ بتلایا اور اس کاذریعہ بتلایا اولاد ۔یہ ہے مفہوم اس تمثیلی بیان کاجس میں کہا گیا ہےکہاس حیات جاوید کےحصول کی تمنا میں انسان کےجنسی ترغیبات ابھر کرسامنے آگئے(ابلیس وآدم ص53)

1۔اب دیکھیے ابلیس کی کئی تعبیریں یہ لوگ کرتے ہیں۔کہیں اس سے مراد عقل بیباک ہوتی ہےجووحی کےتابع نہ ہو۔کہیں ابلیس سےسرکشی اوربغاوت مفہوم لیا جاتا ہے۔کہیں اسے ذاتی مفاد سےتعبیر کیاجارہا ہے ۔یہ لفظ بس موم کی ناک ہےجدھر چاہیں موڑ لیں۔البتہ ان سب معانی میں ایک بات بطور قدر مشترک ضرور پائی جاتی ہے اوروہ یہ ہے کہ ابلیس کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابلیس نےخدا کے سامنے جگھڑا ہی یہ کھڑا کیا تھا کہ میں آدم سے افضل ہوں۔اگر انسان کےعلاوہ ابلیس کاتصور ممکن نہیں تو یہ جگھڑا آخر کس نے کیا اور کس سے کیا؟

2۔یہی حال ملائکہ کاہے لیکن اس سے مراد انسان کےاندر نیکی کی قوتیں سمجھاجاتا ہےکبھی اسے ملکہ فطری سےتعبیر کیاجاتا ہےکبھی کائنات کی خارجی قوتوں سے۔اس مقام پر ان قوتوں کورزق سے محدود کردیا گیا ہے ۔ ان سب تعبیروں میں قدر مشتر ک یہ یہی ہےکہ ملائکہ اپناخارجی وجود یا تشخص نہیں رکھتے جبکہ قرآن مجید سے یہ بات ثابت ہےکہ ان کاخارجی وجود ہے اور ان پر ایمان لانا ایمان بالغیب کاایک حصہ ہے۔

3۔ابلیس کے قریب سے آدم اوراس کی بیوی نےدرخت کاپھل چکھ لیا تھا۔پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ وہ پھل جنسی ترغیبات تھیں جس کےذریعہ اولاد پیدا ہوتی ہےاورانسان بزعم خود حیات جاوید حاصل کرلیتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ (اس نظریہ کےمطابق) جنسی ترغیبات تو انسان سے بہت پہلے بند رمیں بھی اوراس سے پہلے دیگر حیوانات میں موجود تھیں۔اور اس سے بہت عرصہ بعد انسان غیر انسانی اورنیم انسانی حالتیں طے کرتا ہوا انسان بنا ہے۔تو الد تناسل ترغیبات کی یہ کیا پٹی پڑھائی تھی؟

نظریہ ارتقاء اور اسلامی تعلیمات کاتقابل


1۔قرآن انسان سےمتعلق اشرف المخلوقات کاتصور پیش کرتا ہےجبکہ نظریہ ارتقاء اسے بندر کی اولاد قرادے کر اسے پست مقام پر لے آتا ہے ۔بندر انسان کےبمقابلہ حقیر تر اورذلیل ترمخلوق ہے جس کا اعتراف سرسید نےبھی کیا﴿كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ﴾ کی تفسیر کےتحت کیا ہے۔

مغربی مفکرین کی یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ انہوں نےجب بھی انسان سے متعلق اپنے نظریات پیش کیے ہیں تواسے حیوانی سطح سے اوپر نہیں اٹھنےدیتے۔ارسطو نےانسان کوحیوان ناطق کہاڈارون نے اس بندر کی اولاد قراد دیا ۔سگمنڈ فرائڈ نےاسے جنسی حیوان کہا اورمارکس ولینن نے انسان کومعاشی حیوان کیاجبکہ قرآن انسان کوتمام مخلوقات سےبلند مقام پر فائز کرتا ہے-ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَلَقَد كَرَّ‌منا بَنى ءادَمَ وَحَمَلنـٰهُم فِى البَرِّ‌ وَالبَحرِ‌ وَرَ‌زَقنـٰهُم مِنَ الطَّيِّبـٰتِ وَفَضَّلنـٰهُم عَلىٰ كَثيرٍ‌ مِمَّن خَلَقنا تَفضيلًا ﴿٧٠﴾... سورة الإسراء

''یقیناً ہم نے اوﻻد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزه چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی''

2۔نظریہ ارتقاء وحدت حیات کاتصور پیش کرتا ہےجبکہ قرآن مجید '' كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً''کہ کر وحدت امت کاتصور پیش کرتا ہے۔ وحدت امت سے مراد یہ ہے کہ جو حقوق اللہ نےانسان کودیے ہیں دوسری کسی مخلوق کونہیں دیے۔مثلا انسان حلال جانور وں کوذبح کرکے کھاسکتا ہےاور ان سے اور بھی کئی طرح سےاستفادہ کرسکتا ہےلیکن نظریہ وحدت حیات انسان کو اسیے حقوق عطا نہیں کرتا اسی بناء ر ہندوٗں کےہاں اہناسار کااصول کارفرماہے اور وحدت انسان کوایسے حقوق عطا نہیں کرتا۔اسی بناء پر ہندوؤں کاہاں ا اہنسا کااصول کار فرما ہے اوروحدت الوجود کے قائلین جانور وں کو بھی بالکل اپنے ہم مرتبہ تصور کرتے ہیں۔

3۔اسلامی تعلیمات کاانحصار ایمان بالغیب پر ہے ۔ایمان بالغیب کے اجزاء یہ ہیں:

خدا پر ایمان فرشتوں کےخارجی وجود پر ایمان نبیوں بر ایمان الہامی کتابوں اوریوم آخرت پر ایمان جبکہ نظریہ ارتقاء ایمان بالغیب کےاکثر اجزاء کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔جیساکہ اس کتاب میں متفرق مقامات پر ذکر آیا ہے!

4۔نظریہ ارتقاء الحاد کی راہوں پر ڈال دیتا ہے ۔اس کاسب سے پہلے اثر اس نظریہ کےبانی ڈارون پر ہوا۔اشترا کی دہر یت پسند اس نظریہ کا پرچار صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ نظریہ مذہب سےدور لے جاتا ہےحالانکہ اشتراکی فلسفہ کی بنیاد نظریہ اضداد یاجدلی نظریہ پر ہے جونظریہ ارتقاء کےمخالف ہے۔تاہم یہ لوگ نظریہ ارتقاء کابر چار محض اس لیے کرتے ہیں کہ اس مذہب سے تنفراور اشتراکیت کے لیے راستہ ہموار ہوسکے جواس بات کی واضح دلیل ہے کہ نظریہ ارتقاء اسلام کی بنیادی عقائد سے براہ راست متصادم ہے۔

نظریہ ارتقاء کامستقبل:

نظریہ ارتقاء کامطالعہ کرنے سے ازخود یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہےکہ انسان جوارتقائی منازل طے کرتاہواا حیوانیت سے گزر کر درجہ انسانیت تک پہنچا ہے تواب اس کی گلی منزل کیاہوگی ؟ یہ نظریہ اگلی منزل کی کوئی نشاندہی نہیں کرتا۔البتہ مغربی مفکرین یہ بات ضرور کہتے ہیں کہ اب انسان کی اگلی منزل طبعی نہیں بلکہ ذہنی ہوگی ۔برویز صاحب اس سوال کےجواب میں پروفیسر جوڈ کاااقتباس نقل کرتے ہیں:

انسانیت کے ارتقاء کی اگلی منزل طبعی نہیں بلکہ ذہنی اورنفسی ہوگی۔پہلے پہل انسان ارتقاء کی منزلیں طے کرکے حیوانیت سے انسانیت کےدرجہ پر آیا ۔پھر اس نے صنعت وحرفت کی مدد سے اپنے آپ کوآلات واسبات سے آراستہ کیا۔ہمارے اس دور میں انسان نےصنعت وحرفت پر پورا کمال حاصل کر لیا ہے۔اب اس کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اس منزل سے آگے بڑھے اور جس طبیعی ارتقاء نے اسے مجبور کردیا تھا کہ وہ حیوان سے ترقی کرکےانسان کے درجے میں قدم رکھے پھر اس کی جبلی ضرورتوں نےاورزار آلات بنوائے اوروہ مشین اوراسٹیم کاخالق بنا۔اسی طرح وہ آج مجبور ہے کہ اپنا قدم آگے بڑھائے اور اس کایہ قدم مادی نہیں بلکہ ذہنی اورنفسی ترقی طر ہوگا۔

(قرآنی فیصلے ص:340)

مندرجہ بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ:

1۔ انسان کے اس فجائی ارتقاء نےجس سےاسے قوقت اختیار وارادہ حاصل ہواتھا اس کےمادی ارتقاء کوختم کردیا ہے۔الفاظ دیگر ڈارون کےنظریہ ارتقاء کی آخری منزل بس انسان ہی ہے۔

2۔طبیعی ارتقاء ہی حیوانی زندگی مجبور کیا تھا کہ وہ انسان زندگی میں قدم رکھے توحیوان زندگی ارتقاء ہی نےحیوان زندگی کو مجبور کیا تھا کہوہ انسان زندگی میں قدم رکھے توحیوان زندگی تو آج بھی موجود ہے لیکن کیا طبیعی ارتقاء نے کسی حیوان کومجبور کیا ہےکہ وہ انسانی زندگی میں قدم رکھے؟ اگر ایسا نہیں اور یقینا ایسا نہیں تویہ نظریہ ازخود غلط قرار پاتا ہے۔

3۔ذہنی ترقی توواضح ہے کبھی پتھر کازمانہ تھا پھر دھات کازمانہ آیا پھر صنعت وحرفت کا۔آج ایٹمی دور ہےلیکن اس میں ترقی کی کیا یات ہوئی ؟

صراط مستقیم کیا ہے؟

پرویز صاحب کانظریہ ارتقاء سے متعلق ایک مضمون پڑھنے کےبعد کسی نےسوال کیا کہ:

''آپ نےلکھا کہ انسان سلسلہ ارتقاء کی اوپر کی کڑی ہے تواس سے ظاہر ہے کہ انسان میں مادی تغیرات سے زیادہ اورکچھ نہیں مادہ پرست بھی یہی کہتےہیں۔یہ کس طرح درست ہوسکتا ہے اگر یہ ارتقاء مادی ہےتو انسان کامزیدار ارتقاء بھی مادی ہوناچاہیے کیاصراط مستقیم پر چلنے کے معنی یہی ہیں؟ یعنی جس خط پر اس وقت تک ارتقاء ہوتا چلاآیا ہےاسی پر آگے ارتقاء ہوا(قرآنی فیصلے ص335)

اس خط سےیہ معلوم ہوتا ہےکہ صراط مستقیم سے مراد پرویز صاحب کےنزدیک وہ لائن ہےجس پر زندگی سفر کرتی ہوئی پہلے جرثومہ حیات سے انسان تک پہنچی ہے اور اس صراط مستقیم کی اتنی منازل انسان طے کرچکاہے اب یہ صراط مستقیم آگے کہاں تک جاتا ہے۔اس کی تفصیل بھی پرویز صاحب کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:

''آپ نےصراط مستقیم سے جومفہوم اخذ کیا ہے وہ حقیقت پر مبنی نہیں۔قرٖآن کی یہ جامع اصطلاح بڑے اہم نکات کی حامل ہے۔جیساکہ میں اوپر لکھ چکا ہوں قرآن سےپہلے ذہن انسان کی دوری حرکت کاقائل تھاجس میں آگے بڑھنےکاتصور نہ تھا۔قرآن نےزندگی کاحرکیاتی(DYNDMIC)تصور پیش کرکے بتایا کہ حیات کسی چکر میں گردش نہیں کررہی بلکہ اپنے ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔لہذا اس کی حرکت آگے بڑھنے والی ہے۔ صراط مستقیم سے اس غلط فلسفہ حیات (یعنی زندگی کےچکر میں گردش کرنے)کا ابطال ہوگیا اور اس صحیح مقصود حیات (یعنی زندگی کےآگے بڑھنے) کااثبات ہوگیا) پھرچونکہ مستقیم میں توازن قائم رکھنے کاپہلو بھی مضمر ہے ۔اس لیے یہ حقیقت بھی سامنے آگئی کہ زندگی توازن قائم رکھنے کاپہلو بھی مضمر ہے۔اس لیے یہ حقیقت بھی سامنے آگئی کہ زندگی مختلف قوتوں میں توازن قائم رکھتے ہوئےآگے بڑھنے کانام ہے۔اس کےساتھ ہی قرآن نے یہ بتایا کہ صراط مستقیم پر چلنے سے مرادیہ نہیں کہ زندگی اپنی موجود سطح پر چلتی رہےگی۔زندگی کی راہ سید ھی بھی ہےاوربلندیوں کی طرف جانے والی بھی ۔یعنی ایسا خط جو کسی نچلے نقطے سے اووپر کےنقطے کی طرف جائےلترکبن طبقا عن طبقا''تاکہ تم طبقاطبقا اوپر چڑہتے چلے جاؤ گے۔اس سے زیادہ واضح الفاظ میں بتادیا کہ صراط مستقیم تمہارے اس نشونمادینے والے رب کی راہ قانون ہے جوذی معارج () ہے یعنی سیڑھیون والاخدا۔سیڑھی سیدھی بھی ہوتی ہے اوراوپر لےجانےکاذریعہ بھی۔گھسٹتے ہوئے اوپر جانے کاذریعہ نہیں بلکہ ابھر تےہوئے(jump)کرتے ہوئے اورپر چڑھنےکاذریعہ یہ وہ ذریعہ ہےجس سے انسان اقطار السموت والارض یعنی موجود زمان ومکان کی حدود سے آگے بھی نکل سکتا ہے۔

(ایضا ص342)

سویہ ہےوہ صراط مستقیم جس پر آئندہ زندگی کاارتقاء ہوگا۔گویا آپ کےخیال میں قرآن صرف نظریہ ارتقاء کی یہ پیچیدگی حل کرنے کےلیے نازل ہواتھا کہ آئندہ زندگی کاسفر کس لائن پر ہوگا اور وہ کیسی ہوگی؟ غور فرمائیے کہ انسان کے اولین مخاطب جو انپڑھ تھے انہوں نےاس فلسفیانہ پچیدگیوں کوسمجھ لیا ہوگا؟ بہرحال آپ نے سیاق وسباق سے قطع نظر کرتے ہوئے کوئی آیت کہیں سے لی اورکوئی کہیں سے اور یہ ثابت کردیا کہ زندگی کی صراط مستقیم جو انسانی زندگی تک زمین ہی پر تھی۔اب وہ اوپر کی طرف چڑھےگی۔مگر سوال یہ ہےکہ زندگی کواس صراط مستقیم کےذریعہ اورپر چڑھنے کافائدہ کیا ہوگا۔آپ کے نزدیک اوپر کوئی خدا تو نہیں وہ توہرجگہ موجود ہےپھر اوپرٰ جاکرزندگی کرے گی کیا؟

ایک روحانی بزرگ صراط مستقیم کاتصور کچھ اس طرح پیش کرتے تھے کہ ذات باری سے ہر ایک جاندار ایک روحانی شعاع کےذریعے منسلک ہے۔اوراس کی دلیل میں وہ یہ آیت پیش کرتےتھے:

﴿ما مِن دابَّةٍ إِلّا هُوَ ءاخِذٌ بِناصِيَتِها...﴿٥٦﴾... سورة هود

''زمین پر جوکوئی چلنے پھر نے والا ہےخدا اس کی چوٹی کوپکڑے ہوئے ہے۔''

ان کےتصور کےمطابق اس روحانی شعاع کاایک سرا ہر جاندار کےدماغ میں پیوست اور دوسرا خدا کےہاتھ میں ہے۔یہی روحانی شعاع صراط مستقیم ہے اور اسی پر روحانی سفر ہوگا۔اس زمین سےاوپر ہوئی کرہ کے بعد سب سے پہلے جہنم آتا ہے پھر اعراف پھر جنت پھر عالم لاہوت ملکت مثال اورعالم امر ہیں۔پھر اس کےبعد عرش الہی ہےاور اس سے اور ذات باری تعالیٰ ۔اوربزعم خویش یہ بزرگ یہ روحانی سفر طے بھی کرچکے تھے۔ان کی صراط مستقیم سےمتعلق یہ تحقیق یا ان کی دوسری تحقیات ٹھیک ہوں یا غلط اس ہمیں سروکار نہیں البتہ ایک بات ان کی قابل فہم ہےاور وہ یہ کہ وہ خدا کواوپر سمجھتے تھے۔لہذا ان کی صراط مستقیم کارخ اوپر کی طرف ہی ہونا چاہیے تھا۔مگر پرویز صاحب کےنزدیک خدا اوپر توہےنہیں بلکہ ہرجگہ موجود ہے۔پھر انہیں صراط مستقیم کواوپر کی طرف لےجانےکی کیاضرورت پیش آئی؟ اوریہ سوال بھی تاحال حل طلب ہےکہ اس صراط مستقیم کےذریعہ ارتقاء کی اگلی منزل کیاہوگی؟ اس سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں:

ارتقاء کی اگلی منزل:

ان تصریحات سے آپ نےدیکھ لیا ہوگا کہ نہ تو انسان خالص طبیعی ارتقاء کی آخر ی کڑی ہے(بلکہ اس کی انسانیت طبعی ارتقاء کےسلسلہ علت ومعلول سے الگ ہے)اورنہ ہی اس کامزیدار ارتقاء طبیعی ہوگا۔طبیعی ارتقاء کی پیدوار صرف اس کاجسم ہےاس میں جوہرچیز ارتقاء طبیعی ہوگا۔طبیعی ارتقاء کی پیداوا صرف اس کاجسم ہے اس میں جوہر انسانیت غیر طبیعی ہے۔جسم انسانی میں اس جو ہر انسانیت ک فیصلوں کےلیے معلومات فراہم کرنے کاذریعہ ۔اس کےبعد مزید ارتقاء جسمانی نہیں بلکہ جو ہر انسانیت کاہوگاجسے ہم موت کہتے ہیں وہ درحقیقت جوہر انسانیت کاجسم کے آسرے کو چھوڑدینے کانام ہے۔جوہر انسانیت (انسانی اختیار واردہ)کی نشونما ارتقاء۔قرآنی نظام ربوبیت سےہوتی ہے ۔زندہ وہ ہے جس کےاختیار ارادے کی قوتیں (قرآن کی روشنی میں تمام خارجی کائنات کو جس میں خود اس کاجسم بھی شامل ہے)مسخر کیے جاتی ہیں ۔نہ کہوہ جس کےجسم کی طبیعی مشینری چل رہی ہے جو اس طرح زندہ ہے وہ موت سے مرنہیں سکتا اس کا نام ارتقاء کی اگلی منزل طے کرناہے۔(ایضا ص 348)

اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ:

1۔ارتقاء کی اگلی منزل موت ہےجب جسم کااسرا ا اسم ہوجائےگا۔

2۔لیکن یہ ارتقاء کی منزل وہی طے کرسکے گاجس کاجو ہرانسانیت نشونما یافتہ ہو..... جو قرآنی نظام ربوبیت کے اختیار کرنے سےحاصل ہوتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ موت تو سب کوآتی ہےاورجسم کا آسرابھی ختم ہوتا ہے۔جولوگ نظام ربوبیت کےذریعہ اپنے جوہر انسانیت کی نشونما کرلیں گے وہ تو ارتقاء کی اگلی منزل طے جائیں گے۔اورجواس نظام کواختیار نہیں کرتے یا اس پر ایمان نہیں لاتے ان کابنےگا؟

آخرت کاتصور:

جسم کاکام انسانی قوت فیصلہ نفس کےلیے معلومات فراہم کرنا اور اس کے فیصلوں کوجاری کرناہوگا(یعنی قرآنی نظام ربوبیت یاقانونی معاشرے میں) اس قوت میں جس قدر پختگی اور وسعت ہوتی جائے گی اسی قدر انسانی زندگی ابدیت سےہمکنار ہوتی جائےگی۔جب جسمانی نظام طبیعی قانون کےتحت مضمحل ہوکر منتشر ہوجائے گا(جسے موت کہتے ہیں )تو اس پختگی اوروسعت یافتہ قوت نفس کاکچھ نہیں بگڑے گا اس کےبعد اسےمعلومات فراہم کرنےاوراس کےفیصلوں کونافذ کرنے والا اورنظام مل جائے گا۔(ایضا ص347)

اس اقتاس سےیہ معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت نظریہ ارتقاء کااصول بقاء لاصلح() لاگو ہوگا۔پھر جس انسان نےاپنےنفس کوقرآنی نظام ربوبیت کےذریعہ جس پختہ کرلیا ہوگا اس قدر اس کانفس ابدیت سےہمکنار ہو گا۔اس نظریہ کادوسرا پہلویہ بھی نکلتا ہےجن لوگوں نےاس نظام کے ذریعہ اپنےنفس کوپختہ نہیں بنایا وہ ختم ہوجائیں گےاورتربیت یافتہ نفوس جوابدیت سےہمکنار ہونےوالے ہیں۔ ان کومعلومات فراہم کرنےکےلیے نیاجسم نہیں بلکہ نیانظام بھی مل جائےگا۔

اخروی زندگی:

اب کسی صاحب نےاس نئے نظام کےمتعلق آپ سے مزید روشنی ڈالنےکی درخواست کی تو آپ نےاس کی وضاحت بدیں الفاظ فرمائی:

زندگی کی موجودہ منزل میں انساں کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ زندگی کی آئند منزل کے متعلق کچھ معلوم کرسکے۔ہمارے ذرائع معلومات ہمارے حواس واحساسات ہیں اور ان کاتعلق محسوسات ومدرکات سے ہے۔لہذا ذرائع معلومات سےکچھ معلوم نہیں کرسکتے آنےوالی زندگی کیسی ہوگی؟ اس نظام کا کیا ہوگا؟ اس کی شکل صورت کیاہوگی؟ ہم نہیں جان سکتے۔اس پر البتہ ہماراایمان ہے کہ زندگی کی شکل وصورت کیا ہوگی؟ ہم نہیں جان سکتے اس پر البتہ ہمارا ایمان ہے کہ زندگی کاسلسلہ غیر منقطع ہے اس لیے اس زندگی کےبعد دوسری زندگی بھی یقینی ہے۔اب تو سائنس کی تحقیقات کارخ بھی اس طرف ہےکہاس زندگی کےبعد دوسری زندگی کاامطان یقینی ہے۔

علاوہ ازیں اس زندگی میں اس کاوش کی ضرورت بھی نہیں کہ آنے والی زندگی کی کیفییت کیا ہوگی؟ آنے والی زندگی کاتعین قانون مکانات عمل کےلیے ضروری ہے اورجس شخص کا ایمان ہے کہ مسلسل زندگی ہے۔اس کایہ ایمان قانون مکافات عمل کی غیر منقطع ہمہ گیری کےلیے کافی ہے ۔یہی وہ ایمان ہےجس پر ایمان ہےجس اسلامی تصور حیات کی عمارت اٹھتی ہے۔(ایضا ص 310)

سائل نےجونئے نظام پرروشنی ڈالنے کےلیے کہا تواس کاجواب آپ نے دوصورتوں میں دیا ہے۔

1۔ہم موجودہ احساسات سے اس نظام کوسمجھ نہیں سکتے۔

2۔اس نظام کوسمجھنے کی ہمیں اس دنیا میں کوئی ضرورت نہیں۔

اب سوال یہ ہےکہ قرآن نےجوآخرت یوم جزا وسرزا جنت ودوزخ کی لاتعدار تفصیلات بیان کی ہیں اورحضور اکرم ﷺ نے اپنی مکی زندگی کابیشتر حصہ اس نئے نظام کوہی ذہن نشنین کرانے پر صرف کردیا کیا اس سے ہم صرف اس وجہ سے قطع نظر کرلیں کہ وہ نیانظام ہمارے حیطہ ادرک سےیاہر ہے۔وحی سے روشنی حاصل کرنے اور ایمان بالاخرت کاکیا مطلب ہے؟ اب نئے نظام کےادرک کی ضرورت تویہ ہےکہ اس ادراک اورعقیدہ کی بناء پر ہماری یہ دنیوی زندگی بگڑتی یاسنورتی ہے۔اگر انہیں جاننے کی ضرورت ہی نہیں تو قرآن نےاتنی تفصیلات کیوں بیان کی ہیں؟

آپ زندگی کی غیر منقطع ہونےپر ایمان صرف اس لیے نہیں رکھتے ہیں کہ اس پر اسلامی تصور حیات کی عمارت اٹھتی ہےبلکہ اس کی دوسری وجوہ بھی آپ نے بیان فرمادی ہیں۔

1۔اب توسائنس کی تحقیقات کا رخ بھی اس طرف ہےکہ اس زندگی کےبعد دوسری زندگی کاامکان یقینی ہے۔

2۔مکانات عمل کا وہ بےلچک قانون جوکائنات میں جاری وساری ہےاورجسے مادہ پرست بھی تسلیم کرتے ہیں۔

ہمار اس خیال کو بدظنی پر محمول نہ کیا جائے۔اگر وخی ایمان لانے کی بات درست ہوتو پھر نئے نظام کی تفصیل میں ہمارے موجود حواس پر انحصار کی ضرورت بھی کب پیش آتی ہے؟

ایمان بالغیب تواسی چیز کانام ہےکہ جوباتیں ہمار حیطہ ادراک سےباہر ہیں۔ انہیں ہم صرف اس لیے تسلیم کریں کہ وہ بذریعہ وحی ہم تک پہنچی ہیں۔

طلوع اسلام کاتضاد:

پرویز صاحب بہر حال اس بات کے قائل ہیں کہ زندگی غیر منقطع ہے اورموت کےبعد بھی جاری رہے گی لیکن آپ کےاستاد جناب حافظ اسلم صاحب مرنے بعد اورقیامت تک درمیانی عرصہ برزخ میں کسی طرح زندگی کےقائل نہیں۔قرآنی فیصلے میں ایک طویل مضمون عذاب قبر کےعنوان سےشائع ہوا ہےجس میں حافظ صاحب موصوف نےبدلائل ثابت کیا ہے کہ ازروئے قرآن برزخ کوئی زندگی نہیں جبکہ پرویز صاحب کے غیر منقطع ہونے کے قائل ہیں۔