نبوی انداز تربیت

بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ حضرات ابو ہریر بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن رسو اللہﷺ نےہمیں وعظ نصیحت فرمائی پھر آپ ﷺ کھڑے ہوگئے ہم بھی ساتھ ہی کھڑے ہوگئے اچانک ایک اعرابی آیا جس نے آپ ﷺ کو گردن میں لپٹی ہوئی چادر سےپکڑ کر کھینچنا شروع کردیا اورچونکہ آپ ﷺ اس کی جانب متوجہ ہوئے تو اس نے کہا کہ میرے ان دو اونٹوں کوساماں سے لادو کیونکہ یہ تمہارا یاتمہار ےباپ کا مال نہیں ہے اس اعرابی کی یہ بات سن کر آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا نہیں واقعی یہ میرا اور میرے باپ کا مال نہیں اور تیری خواہش ضرور پوری ہوگی مگر مجھے گرفت سےتوآزاد کرو۔لیکن اعرابی یہ کہتا رہاکہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نےدیہاتی کی یہ بات سنی ہم جلدسےاس کی طرف لپکے مگر فورا حضور ﷺ ہمار ی جانب متوجہ ہوئے اورایک شخص کوبلاکر کہا کہ اس کےایک اونٹ کوجواوردوسرے کوکجھور سےبھر دو اس کےبعد آپ ﷺ ہماری طرف متوہ ہوئےاور فرمایا جاؤ اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ۔

یہ حدیث عمل تربیت کےمیدان میں بعد میں آ نےوالی تمام نسلوں کےلیے مکمل مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے یہ انداز تربیت اس قدر جامع اور مکمل ہے کہ ہر بعد میں آنے والی نسل اپنے سےپہلی نسل سے اسے اخذ کرتی رہے تواس میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید ترقی ہوتی رہے گی جبکہ دوسرے مذاہب وافکار کےنظریات تربیت کا اگر مشاہد ہ کیا جائے تویہ باکھل کر سامنے آتی ہے کہ ان اس قدر جامعیت اورکمال نہیں ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت گزرنےکےساتھ ساتھ وہ ناقص ہوتے چلے جاتے ہیں اورلوگوں کےوقتی تقاضوں کوپورا نہیں کرسکتے۔اسی طرح ان میں وقوت تاثیر بھی باقی نہیں رہتی جس کی بناء پر لوگ انہیں قبول کرنے پر آمادہ ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کےاندر عملی اورتطبیقی عنصر کافقدان ہوتا کہ جسے عناصر تربیت میں بنیادی اورانتہائی اہم حیثیت حاصل ہے ۔

لیکن جہاں تک حضور اکرم ﷺ کےاندار تربیت کاتعلق ہےتو وہ ایسا موثر انداز ہے کہ اگر اسے اختیار کرلیا جائے تو انسان کی شخصیت نکھر جاتی ہے اس کی شخصیت کے اند تمام انسانی خصوصیات آجاتی ہیں اور وہ انسانیت کاوفادار انسان بن جاتا ہے پھر اس کےدل کندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہےکہ جب تلک وہ اس سے عہدہ برا ہونےکےلیے کوئی کسر نہ اٹھارکھے گا وہ دیانتدار اورسچاشخص نہیں بن سکتا... نبی اصول تربیت کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ فقط نظریاتی نہیں ہے بلکہ وہ ایک عملی اورتطبیقی نظام تربیت ہے۔حضور اکرم ﷺ اسے خود کرتے ہیں پھر دوسرے سے فرماتے ہیں کہ اس عمل کوتم بھی اختیار کرو اور اگر اگر یہ نظریاتی نظام ہوتا تو اس کے اورانظریات تربیت کےمابین کوئی فرق نہ ہوتا جنھیں علماء تربیت مختلف احوال وظروف انسانی سوچ اور محض بشری کلام ہےتودوسری طرف والہی اور پیغام ربانی ہے جو علیم وخبیر کی طرف سے اپنےرسول ﷺ کی جانب بھیجاگیا اوریہی ہےکہ اس نظام میں تاثیر بھی ہےاورقناعت بھی:

درحقیقت یہ مسلمانوں کےلیے مقام سعادت ہے کہ رسول اکرم ﷺ میدان تربیت میں پہلے خود اپنی ذات پر تجربہ فرماتے تھےز..... اور اس سلسلے میں آپ ﷺ کسی بڑی سے بڑی سختی کو بھی خاطر میں لانے والے نہ تھے بلکہ اس لحاظ سے آپ ﷺ کی شخصیت ایک منفرد شخصیت نظر آتی ہے اور یہ ایک ایسا امتیازی اورانفرادی وصف ہےجونبوت ورسالت کےسوا کسی کولائق نہیں ہے......آپ ﷺ کی شخصیت تجربہ کی تمام سختیوں کی جھیلنی اور تمام اذیتوں کوبرداشت کرتی رہی تاکہ امت محمدیہ (علی صاحبہاالصلان والسلام)کی مکمل تربیت ہو اور مسلمانوں کےلیے اس عمل کواپنی ذات پر منطبق کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو....تاریخ انسانیت میں یہ نظریہ تربیت سب نظریات سےاعلیٰ افضل اور انتہائی بلند ہے۔

اور یہ بھی مسلمانوں کےلیے باعث سعادت ہےکہ نبی نظام تربیت اسلام کےدوسرے نظاموں کی طرح وحی کی تعلیمات پر مشتمل ہے..... اور اس لحاظ سے یہ دوسرے نظاموں کی طرح وحی کی تعلیمات پر مشتمل ہے... اور اس لحاظ سے یہ انتہائی مقدس عظیم اوراعلیٰ ترین نظام ہے۔

رسول اللہﷺ کے اسلوب تربیت کو پہچاننے کےلیے ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں صرف مذکورہ ایک حدیث پر ہی غور کر لیا جائے تو اس سلسلے میں آپ ﷺ کی تمام خصوصیات نمایاں ہوجاتی ہیں ۔ رسول اللہﷺ نبی آخر الزمان ہونے کے باوجود ایک انسان تھے۔ہر شخص آپ ﷺ سےمخاطب ہوسکتا تھا۔آپ ﷺ کی مجلس میں بیٹھتا۔آپ سےلین دین اورسوال وجواب کرسکتا تھا۔

غور فرمائیں کہ تند مزاج او رسخت طبیعت اعرابی آپ ﷺ کےساتھ کس انداز سے پیش آیا مگر آپ ﷺ نےاس کی ترشی کے مقابلے میں کیسا انداز اختیار فرمایا وہ اچانک نمودار ہوتا ہے او ر آپ ﷺ کی روئےمبارک کو کھینچنا شروع کردیتا ہے۔آپ ﷺ کی گردن مبار ک پر نشان پڑجاتے ہیں مگر آپ ﷺ نہ ناراضگی کااظہار فرماتے ہیں اور نہ اسے ڈانٹتے ہیں.....اور یہ ممکن تھاہی نہیں کیونکہ آپ ﷺ نےزندگی بھر اپنی انتقام لینے کاسوچا ... بلکہ اس کےبرعکس آپ ﷺ اس کھر دری طبیعت والے اعربی کی جانب سائلانہ نزر سے دیکھتے ہیں جیسے فرمارہے ہوں کہ اے میرےامتی بتا تو سہی تجھے کس چیز کی ضرورت ہےتاکہ میں وہ پوری کردوں؟ تو اعرابی جواب دیتا ہے اور اس کےجواب میں وہی ترش ہوتی کہ میرے ان اونٹوں کے غلےسے لادو...... اور پھر وہ اس سے زیادہ تلخ بات کہتا ہےکہ یہ تم مجھے اپنے یا اپنے باپ کےمال سےنہیں دے رہے ہو۔

اور یہ بھی عرض کردوں کہ آپ ﷺ کایہ موقف ہمیں ان تلخ مزاج او رترش لوگوں کی جانب بھی توجہ دلاتا ہے جو اپنےمتعلق یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ کلمہ حق کہنےمیں کسی سے نہیں گھبراتے ہیں اور بڑے نڈر اوردلیر ہیں.. نہیں شجاعت تلخ مزاجی کانام نہیں اور نہ ہی طبیعت کی سختی کلمہ حق کی ادائیگی کانام ہے.... بلکہ کلمہ حق کہنے کاوہی انداز درست اورصحیح ہے جو ہمیں آداب نبویﷺ سےحاصل ہوتا ہے اور آپ ﷺ کاطریقہ تربیت بھی وہ طریقہ ہے جس کی بنیاد پر زبان سےنکلا ہو کلمہ براہ راست دلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ اس قدر وسیع القلب تھے کہ آپ ﷺ نے کبھی ذاتی انتقام کےمتعلق سوچا تک نہ تھا.... بلکہ آپ ﷺ امت کےلیے ایک شفیق باپ تھے صاحب دیانت داعی تھے اور بہترین محافظ تھے... اگرآپ ﷺ اپنی امت کی طرف سے پہنچنےوالی اذیت پر صبر نہ فرماتے تو او ر کون ان مکارم اخلاق کی تعلیم دےسکتا؟ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں اس ہستی مقدس پر کہ جس سے بڑھ کر انسانیت نےعظیم ہستی نہیں دیکھی۔

اعرابی مزید تلخ ہوجاتا ہےاورکہتا ہے کہ میں آپ کونہیں چھوڑوں گا.... لیکن حضور اکرم ﷺ اپنی امت کویہ سبق سکھلاناچاہتےہیں کہ برائی کاجواب برائی سے نہیں بلکہ عفودر گزر سے دینا چاہیے چنانچہ اپنے ایک صحابی کوبلاکر کر ارشاد فرمات ہیں کہ جاؤ اس کی خواہش کوپورا کرو:

آپ ﷺ کایہ درس تربیت ایک تطبیقی درس ہے.... اور اس خدشہ کے پیش نظر کہ کہیں آپ ﷺ کے صحابہ اس اعرابی کوبربھلا نہ کہیں ان سے فرماتے ہیں کہ جاؤ اپنے گھروں کولوٹ جاؤ....... کتنی عظیم ہےانبیاء کی انسانیت اور کیسا خوب ہے ان کاانداز تربیت:

صلوات الله تعالیٰ علیهم اجمعین