فتاویٰ جات
1۔مختلف سیاسی اوردینی جماعتوں کاتعارف
2۔تمباکو نوش امام
کراچی سے ایک طویل مکتوب آیا ہےلکھا ہے:
1۔کالعدم پیپلز پارٹی کوہم نہیں سمجھ سکے اسے کیا تصور کیا جائے:
2۔کالعدم جماعت اسلامی کوکیا کہاجائے باتیں ان کی اچھی ہیں مگر یہ جس امیر کےافکار کانچوڑ ہےاس سے کوئی بھی جماعت مطمئن نہیں ہے۔سیاسی اور دینی تمام جماعتیں اس کےامیر کےخیالات کودین کے منافی قراردیتی ہیں آپ کا کیا خیال ہے؟
3۔تبلیغی جماعت کےبارے میں آپ کاکیا نظریہ ہے؟
4۔جمعیت اہلحدیث کے دونوں دھڑوں کےدعویداروں نےایک دوسرے کےبارے میں جوالزامات عائد کیے ہیں ا ن کی کیا حیثیت ہے؟
5۔ حنفی جب اہلحدیثوں کی بات کرتے ہیں تو غیر مقلد کہہ کر نام لیتے ہیں جیسے یہ بھی کوئی گالی ہے۔ مقلد اور غیر مقلد کیا شے ہیں؟
الجواب:
کالعدم پیپلز پارٹی
اس جماعت نےعوامی نعروں سے مسلح ہوکر ہوام کااستحصال کیا ہے اورعوام کی خوش فہمیوں کی اساس پر اپنی کرسی اقتدار کی عمارت کھڑی کی بات ہے اور بالکل اسی طرح جس طر شور مچ جانے پر چور بھی چور چور کہہ کر لوگوں میں مقبول ہوجاتا ہے اسی طرح مصیتب کےمارے عوام میں جماعت کے لیڈر بھی عوام عوام کہہ کہہ کر مقبول ہوگئے ہیں۔بہرحال یہ جماعت اپنی طبعی عمر گزار کر چلتی بنی مگر عوام کاکوئی مسئلہ بھی حل نہ ہوا۔ہمارے نزدیک یہ جماعت وعدوں کی بھول بھلیوں کانام عوام خوش فہمیوں کا قبرستان نوجوان نسل کواسلام سے بدگمان کرنےوالی نادان جماعت ہے۔ناداروں کاخون پی پی کر جوجوان ہوئی ہیں وہی شاہی جونکیں ان سے بغلگیر بھی ہورہی ہیں۔عوام غریب اور قائد شاہزادے.... یہ تضاد انتہائی مقام حیرت ہے۔
کالعدم جماعت اسلامی:
جماعت کاجومنشور ہوتا اسے سرکار حیثیت حاصل ہوتی ہے منشور کےعلاوہ نجی حیثیت میں اس کےلیڈر کےوہ علمی افکار بھی ہوتے ہیں جن کی جماعت پابند نہیں ہوتی اور نہ ہی جماعت کاکوئی فرد اپنےامیر کےسامنے ان کا جواب دہ ہوتا ہے کیونکہ ان کی حیثیت غیر سرکاری ہوتی ہے ۔یہاں بھی اس کی یہی شکل ہے۔
باقی رہے اس کےامیر کےوہ افطار جن سے علماء اختلاف کرتے ہیں ان کی حیثیت صرف تحقیقی اورعلمی ہے ایسا اختلاف معیوب نہیں ہوتا ۔ اگر اسے کوئی بدنیتی سے اچھا لتا ہے تو اور بات ہے ورنہ یہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جہاں تک مولانا مودودی کے ذاتی اورعلمی قسم کےمسائل ہیں ہم خود ان سب سے اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن اس کے باوجود ہم ان کو گردن زدنی بھی تصور نہیں کرتے۔ علمی میدان میں اس قسم کےاختلاف کا ایک ایسا چمنستان آباد ہےجس کی سیر ہر اس شخص نے کی ہے جس کوعلم تحقیق سے کبھی کوئی واسطہ پڑا ہے۔ ایک دوسرے کےاختلاف کو دین کے منافی قراردینا عموما نادانی ہوتی ہے یا بدنیتی ورنہ اسے ایک اختلاف رائے یا صرف اختلافی نوٹ کہا جاسکتا ہے جس طرح دنیا کےنظامہائےعدالت میں ججوں کےفیصلوں اور دلائل کی نوعیت میں اختلافی کی شکل ہوتی ہے ۔بہرحال یہ جماعت معصوم عن الخطاء نہیں ہے تاہم اس کی غالب حیثیت صواب کی ہے او رکسی کوبراداشت کرنے کےلیے اتنی سی بات کافی ہوتی ہےجہاں تک اس کے موجود امیر و ہیں وہ تو اس جھنجھٹ سے بھی دور ہیں.... اس لیے اب تو اس جماعت کےسلسلے میں کسی سابق امیر کی باتوں کی آڑ لینے کی بھی گنجائش نہیںرہی کیونک یہ جماعت او ر اس کے امیر جماعتی حیثیت میں مولانا موددی کےعلمی اور نجی افکار کاذمہ داری بھی قبول کرناضروری تصور نہیں کرتے ...خلاصہ یہ کہ جماعت اسلامی کے قائد سےاختلاف کی گنجائش ہے۔لیکن اس اختلاف کی نوعیت کفر واسلام کی نہیں ہے علم وتحقیق کی ہے ایسا اختلاف خطاء اور صواب کاہی اختلاف کہلاتا ہےکفردین نہیں اسلاف کےاندر ایسے اختلاف کے نمونے ملتے ہیں جوکسی بھی اہل اعلم سے مخفی نہیں ہیں۔
تبلیغی جماعت:
یہ حنفی دیوبندیوں کا ایک ٹولہ ہےجن کی نیکی پر مسلکی چھاپ یعنی حنفیت غالب رہتی ہے اور پھر چند گنی روحانی مشقوں پر ان کوقانع بنادیا ہے اور اس سارے روحانی سفر میں تلوار ان کےہاتھ میں آئی نہ کتاب وسنت۔ ایک ہاتھ میں کنزوقدوری رہی اوردوسرے ہاتھ میں تسبیح ۔ اس روز مگاہ حیات میں جینے کایہ اندار نبوی نہیں خانقاہی ہے۔
جمعیت اہلحدیث کے دونوں دھڑے:
پہلے ہم نے اول بدل کر فریقین سےنیک توقعات قائم کیں لیکن جب دونوں نےایک دوسرے کوکھری کھری سنانا شروع کیں تو ہم سمجھے ہم سے بھول ہوئی۔بہرحال یہ ان کاانفرادی جنگ اقتدار ہےاو رہماری موجود قیادت ہماری روایتی قیادت سےمختلف ہےجس کی وجہ سےاغیار کاقلم ہمار تصویر کھینچ کر پیش کرنے والا ہے وہ انتہائی مکروہ ہوگی... اس لیے ایک اہلحدیث کی حیثیت سےہم اعلان کرت ہیں جمعیت کےموجودہ قائدین نےجتنا او رجیسا کچھ پیش کیا ہے وہ ان کاذاتی کردار ہےجماعت اہلحدیث ایک مسلک کی حیثیت سے ان کی ان بحثوں سے اپنی براءت کااعلان کرتی ہے۔
مقلد اورغیر مقلد:
محض حسن ظن کی بناء پر اوردلیل کی بغیر کسی غیر نبی کی اطاعت پر قناعت کرنے کی تقلید کہتے ہیں .... اور اس کی یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ ہمیں خود نظر نہیں آتا اس لیے کسی آنکھوں والے کےپیچھے چلتے ہیں.... یعنی ہم اندھے ہیں اس لیے دوسرے کی ڈنگوری پکڑ کی رکھتےہیں۔ حضرت امام احمد بن حنبل کاارشاد ہے کہ:غیر معصوم (غیر نبی) کی تقلید اتنی بری ہے کہ صرف آنکھوں کی بصارت نہیں دل کی بینائی (بصیرت،) بھی جاتی رہتی ہے:
ان التقليد لغير المعصوم مذموم وفيه عمى للبصيرة-
(الميزان الكبري للامام الشعراني ص 68)
اس لیے بزرگوں کے نزدیک تقلید مقام معذرت ہے مقام فخر نہیں ہے کیوں کہ آپ ایسے اندھا کوئی نظر نہیں آئے گاجو اپنے اندھے پن پر اتر اتا ہو اوراچھل اچھل کر لوگوں سےکہتا ہو کہ :بھئی میں اندھا ہوں اندھا : اس کےباوجود اگر کوئی مقلد اپنی تقلید پر فخر کرتاہے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کوہوش دے:
بس یہی ان کاحال ہے ہے کہ اگر تقلید پر وہ ناز کرتے ہیں تو یہ ان کی سمجھ کاقصور ہے۔آپ کو ان پر ترس آناچاہیے اور دعا کرناچاہیے کہ ان کو اللہ آنکھیں دے۔
غیرمقلد:
جوحضرات کتاب وسنت کے حوالے اور سند کےبغیر کسی بات نہیں مانتے بشرطیکہ یہ ان کوغیر مقلد کہتے ہیں۔ یہ لوگ ان کےخلاف احتجاج کرتے ہیں۔ اب آپ غور فرمائیں یہ عدم تقلید گالی ہےیا نسبت عظمی؟
(2)
تمباکو نوش امام
اوکاڑہ سے محمد حسین صاحب ظاہری لکھتے ہیں:
کیافرماتے ہیں علماء دین شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ تمباکو نوش اور تمباکو خور کو امام بنا جائز ہےیا نہیں؟ خصوصا ماہ رمضان میں نماز تروایح کےلیے امام مقرر کرنا۔اس مسئلہ کی قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔مہربانی ہوگی۔
الجواب:
تمباکو نوشی کی شرعی حیثیت میں شدید اختلاف ہے علماء کےایک طبقہ کےنزدیک اس کا پینا حرام ہے لیکن اس کے باوجود ان کاکہنا ہے کہ ایسے شخص کو مستقل امام نہیں بناناچاہیے اگر نماز کہیں پڑھنی پڑگئی یا کسی نےاتفاقا پڑھ لی او راسے پھر پتہ چلاکہ یہ امام صاحب تمباکو نوش تھے تونماز ہوگئی دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔برگذشتہ صلون آئندہ را احتیاط
دوسرے گروہ کےنزدیک اس کاپینا مکروہ ہے.... مکروہ تحریمی یا تنزیہی ؟ اس میں بھی دور رائیں ہوگئی ہیں۔
علمائے امت کی ایک جماعت کےنزدیک اس کاپینا مباح ہے ۔ احناف کی معتبر کتاب ردالمختار میں اس کو ترجیح دی گئی ہے(ملاحظہ ہو رد المختار ص406)
صحیح یہ ہے کہ : یہ مباح بھی نہیں اور نہ مکروہ تنزیہی .... بلکہ مکروہ تحریمی ہے...اگر یہ دیکھا جائے کہ یہ طبقہ کاشعار بھی ہے جس کی اکثریت کو عوام کا لانعام اورکجر وتصور کیا جاتا ہے تو یہی کہنا پڑے گایہ کہ یہ حرام سے قریب تر فتنہ ہے... بالخصوص ان حضرات کو اس سے پر ہیز کرناچاہیے جوکسی درجہ میں مسلم معاشرہ دینی پیشرو سمجھے جاتے ہیں۔
اس لیے جن حضرات کواس کاروگ لگ گیا ہے۔انکوقطعا امام نہیں بنانا چاہیے ۔حضور نے جس طرح نشہ آور شے سے منع کیا ہے اسی طرح جوچیز قلب ودماغ اوردوسرے قابل ذکر اعضاء میں استرخا اورتفتیر (یعنی فتور)پیدا کردیتی ہے۔اس سےبھی نہی فرمائی ہے:
نهى رسول اللهﷺ عن كل مسكر ومفتر
(ابوداؤد باب ماجاء في السكر)
قال الشوكانى فى بعض فتاواه هذا حديث صالح للاحتجاج به لان ابادواؤد وسكت عنه-
(عون المعبود ص377ج3)
باقي رہے وہ جوڑ توڑ تمباکو کوحامیوں نےتخلیق کیے ہیں ان تار عنکبوت سےبھی کمزور تصور کرتے ہیں۔ اگر کبھی ان مباحث کوچھڑا گیا تو ہوسکتا ہے کہ ہم بھی اس سلسلے میں مزید کچھ عرض کرسکیں۔واللہ اعلم