تاریخ کی روشنی میں تصوف کی حقیقت

میرے یہ مضمون لکھنے کامحرک یوسف سلیم چشتی صاحب کاوہ مضمون ہےےجو ہندوسان میں بھگتی تحریک کےنامسے اکتوبر سن 1980 کےمیثاق میں شائع ہوا تھا۔اس مضمون میں چشتیوں صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان میں اسلام صرف صوفیوں اورچشتیوں نےپھیلایا ہےاورعلماء میں ذوق تبلیغ سرے ہی سے موجود نہ تھا۔چشتی صاحب نے صوفیوں کی اللہ کےدین کےخلاف کار گزاری کوعلماء کےسرتھوپ کر ان کی بڑی تحقیر کی ہے ۔

امر واقعہ یہ ہے کہ صوفیوں کےیہاں اطیعو اللہ والرسول کےتحت قرآن وحدیث آثار صحابہ اور مسلمانوں سے مروی تاریخ اسلام خارج ازبحث ہے۔لہذا سلیم چشتی صاحب نے ان علوم کےمقابلہ پروید پران منوسمرتی وغیرہ کااپنی زبان میں ترجمہ کرکے مسلمانوں کو ان کے حسن وقبح سے متعارف نہیں کیا مثلا فرماتے ہیں گائتری منتر کاوہی درجہ ہے جوقرآن میں آیت الکرسی کااس کاجاپ(ورد) انسان میں غیر معمولی قوت پیدا کردیتا ہے۔سور اس کے یہ پیدائشی وکی ہونے کےقائل ہیں میسی داس سے ان کوعقیدت بڑھی کہان سماوہی پر حاضری دینے لگے ۔لکھتے ہیں اکبر کے زمانے میں علماء کی جو شکست ہوئی تھی(Jesuit) پرتگالی پادریوں نےاس موضوع پر کئی کتابیں لکھی ہیں جومیری نظر سےگزرچکی ہیں چشتی صاحب نےاپنی کتاب اسلامی تصوف میں مسلمان مؤرخین کی کتابوں پر اعتماد کرنے کی بجائے اپنےمؤقف پر بطور دلیل کام چلانے کےلیے اسلام دشمن مشتشرقین کی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کےحوالے استعمال کیے ہیں۔

میرے اس مضمون کاخصوصی حصہ یعنی ایرانی ساختہ اسلام اور اس کی تبلیغ لکھنے سے قبل مناسب ہے کہ جلیل القدر تصوف کےاقوال جو ان کی عربی کتابوں سےترجمہ ہورمیثاق ستمبر 1978 میں چھپ چکے ہیں ناظرین کی معلومات کےلیے یہاں نقل کیے جائیں ۔یہی ائمہ تصوف جملہ صوفیوں اورچشتیوں کی محور ہیں۔

ابن عربی :

جن کاخطاب شیخ اکبر ہے اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں ﴿وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾

کی تفسیر اور من عادى لى وليا كى توضيح يوں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی ذات میں داخل ہوجاتا ہے توظاہر میں تووہ بندہ بندہ ہی رہتا ہے لیکن باطن میں خدا ہوجاتا اور یہ دخول بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انسان میں بصارت سماعت حرکت وسکون داخل ہیں اس کی مثال حضرت ابراہیم کی ذات اقدس ہےجس میں اللہ تعالیٰ داخل ہوگیا یا وہ خود اللہ کی ذات میں داخل ہوگئے۔

﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ﴾

کی تفسیر یوں فرماتے ہیں کہ خواہش نفس ہی انسان کاسب سے بڑا رب ہے اوریہ کہ صوفی کی خواہش ہی سب سے بڑا رب ہےہمہ اوست کے فلسفہ میں فرماتے ہیں کہ یہ کتے اور سور بھی ہمارے الہٰ ہیں۔

ابن فارضی:

جن صوفیاء سلطان العاشقین کےلقب سےیاد فرماتے ہیں اپنے ایک قصیدے میں لکھتے کہ عرب کے مشہور معشوقات لبنیٰ لیلیٰ ثبینہ اور عزہ جیسے فانی معشوقون میں ذات الہی حلول کیے ہوئے تھی اور ان کےچاروں عاشق جمیل قیس کثیر اورعامر کی صورتوں میں اللہ جلوہ گر تھے۔

عبدالوہاب شعرانی:

ان کاخطاب ہیکل ہمدانی ہےاپنی کتاب طبقات کبرٰی میں ﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ کی تفسیر مین اپنے استاد دسوتی کایہ قول نقل کرتے ہیں اولیاء اللہ سےسرگوشیاں کرتے رہتے ہیں اورازل میں میں خود اور اللہ کےرسول ﷺ اللہ کےسامنےموجود تھے حضور ﷺ نےمجھ سے فرمایا کہ دوزخ کےداروغہ کو جاکر حکم دے کہ آگ بند کردے اوررضوانسے کہو کہ جنت کےدروازے کھول دے چنانچہ دونون میرے حکم کی تکمیل کی ۔

بایزید بسطامی:

آپ سلطان العارفین کےنام سےملقب ہیں۔وحدۃ الوجود کےساتھ ارکان اسلام یعنی صوم وصلوۃ اورحج وزکوۃ سے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

1۔ایک بار حج کےارادے سے چلا راستہ میں ایک قطب ملے انہوں نے فرمایا بسطامی اللہ نےمجھ میں اپنا مسکن بنالیا ہےتونے تو مجھ کودیکھ کر اللہ کادیدار کر لیا واپس جاتجھ پر تمام تکلفات شرعیہ ساقط کردیے گئے اور محرمات تیری منہاج ہیں۔

2۔ایک بار اللہ تعالیٰ نےمجھے اپنے پاس بلاکر فرمایا بسطامی میرے بندے تجھے دیکھنا چاہتے ہیں میں عرض کیا باری تعالیٰ تومجھے اپنی وحدانیت سےنواز اپنی انانیت کی خلعت عطا فرما اور اپنی احدیث تک بلند فرمادے۔

3۔حضرت موسی نےاللہ کو دیکھنے خواہش کی تھی لیکن میں اللہ کو دیکھنےکبھی خواہش نہیں کی بلکہ خدانے مجھے دیکھنے کی خواہش کی ۔

بھلا ان عقائد کاقرآن اوراسلام سےکیا واسطہ؟ علماء مصر نے صوفیاء کی ان کتابوں کوچھاپنا گناہ قراردیا ہے۔

ایرانیوں کےہاتھوں اسلام کوسب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے!

اسلام جہاں کہیں بھی عربوں کے توسل سےعربی زبان میں پہنچا وہاں لوگوں نےقرآن جیسی بے بہا دولت ملنے پر عربون سے محبت اور ان کی احسان مندی کےاعتراف میں عربی زبان عربی لباس اور عربی تہذیب ایسی اختیار کرلی کہ وہ بالکل عرب قوم بن گئے چنانچہ شام سے لیکر مراکش تک یہ وہی لوگ ہیں ۔عراق پر ایرانی تسلط تھا۔وہاں کی زبان اورتہذیب بھی ایرانی تھی اسلام قبول کرنے بعد وہاں کی آبادی نےبڑی حدتک عربیت اختیار کرلی تھی تاہم یہ علاقہ اسلام کی بیخ کنی کےلیے مجوسیون کی سازشوں کی اماجگاہ رہا ۔ایران کی اسلام دشمنی کی ابتدا حضور ﷺ کے دعوتی خط ملتے ہی شروع ہوگئی تھی۔آں حضرت ﷺ کے وصال کے بعد اسلام دشمنی کی ابتداء حضورﷺ کےدعوتی خط ملتے ہی شروع ہوگئی تھی۔آں حضرتﷺ کے وصال کےبعد عراق سے ملحقہ عرب میں مانعین زکوۃ مرتدین اور کاذب نبیوں نے جوبغاوت برپا کی اس میں ایرانیون کاخاصا ہاتھ تھا ایرانی جنرل ہرمز فوج لیے ہوئے سرحد پر منتظر کھڑا تھاکہ جیسے ہی مجاہدین کےمقابلہ پر ایرانیوں باغی کامیات ہوکر مدینہ کارخ کریں تویہ بھی اپنے فوج لے کر مدینہ چڑھائی کردے ۔اس کےبرعکس یہ ہواکہ باغی کامیات ہوکر مدینہ کارخ کریں تویہ بھی اپنی فوج لے مدینہ چڑھائی کردے۔اس کے برعکس یہ ہوا کہ باغی پناہ لینے کےلیے عراق جاگھسے اورمجاہدین ان کے تعاقب میں لاعلمی سے ایرانی حددور میں داخل ہوگئے ارو ہرمز کی فوج سے مڈبھیر ہوگئی ۔ایرانی پے درپے شکست کھانے کےباوجود کسی صورت جنگ بند کرنےپر راضی نہیں ہوئے یہاں تک کہ مسلمانوں کےہاتھوں اپنے ملک کاچپہ چپہ فتح کرادیا ۔ہرمز گرفتار ہوکرمدینہ آیا حضرت عمر نےاس کےقتل کاحکم دیا ہر مز نے کہاکہ قتل کرنےسے پہلے مجھے پانی پلاودیجیے پانی منگوایا گیا۔اس نے پیالہ ہاتھ میں لے کر پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ وعدہ کیجیے کہ جب تک میں یہ پانی نہ پو لوں آپ مجھے قتل نہیں کرسکتے اس نےعیاری کےذریعے اپنی جاں بخشیی کرالی اور ایمان لانےکےبہانے مدینہ میں رہنے کی اجازت حاصل کرلی۔ ایک ایرانی غلام ابولولو کےہاتھوں حضرت ہمر کوجنھیں ایرانی آج تک آپناسب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں قتل کرادیا۔ایرانی قو م نے ابو لولو کو ایرانی جوہر فیرورزہ کےنا م پر فیروز کاخطاب دیا۔اس پتھر کوایرانی آج تک اپنی انگوٹھیوں کانگینہ بنائے ہوئے ہیں اور اس کو چومتے رہتے ہیں کہ فیروزے تونےہی ہمارےسب سے بڑے دشمن کوہلاک کیاتھا۔

حضرت عثمان کےخلاف عبداللہ بن سبا یہودی منافق نےلوگوں کوبغاوت پر اکسایا یہ سازش ایرانیون کے تعاون سےعراق میں پروان چڑھی ۔ حضرت عثمان کی شہادت کےبعد شیعیت کی بنیاد پڑی۔ایرانی درپردہ تومجوسی رہے لیکن بظاہر شیعیت کالبادہ اوڑہ لیا کہ ایک فرقہ بن کر مسلمانوں کےدرمیان رہتے ہوئے اسلام اورعربوں کی بربادی کے کام کرتے رہیں۔ایرانیوں اورعراقیوں کاہی یہ مرکب ٹولہ تھاجوحضرت علی کو مدینہ سے کوفہ لے آیا اورتاحیات ان کوستاتا رہا ایرانیوں نےاپنی مددسے بنوعباس کی بنی امیہ کی حکومت کےخلاف کامیاب کرایا اوردور عباسیہ میں یہی حکومت کے کل پرزے بن گئے ان کی اسلام دشمنی اوردرپردہ آتش پرستی کی جرات کااندازہ اس مثال سے لگایا جاسکتا ہے کہ یحییٰ برمکی جس کوہارون رشید پدر بزگوار کہاکرتاتھا ایک دفعہ ہارون رشید کےساتھ حج پر گیا تووہان ہارون کومشورہ دیا کہ حرم شریف کےصحن کے اورگوشوں کو معطر رکھنے کےلیے اس عود ولوبان کےسلگتے رہنے کامستقل اہتمام کردیا جائے۔ہاروں نےدبی زبان میں صرف اتنا ہی کہا کہ بدنام ہوجاؤں گاکہ میں نے حرم شریف میں آتش پرستی شروع کرادی۔

ایرانیون نےابتداء ہی سےعربی زبان اپنانے سےگریز کیا ان کاخدشہ تھاکہ عربی ان کےیہاں مروج ہوگی توآگے چل کر ان کونسل بھی اس طر ح مستقل مسلمان اورعرب قوم بن جائے گی جیساکہ شمالی افریقہ کی اقوام مامون رشید جوایرانی ماں سےتھا یحییٰ برمکی کی بیوی اس رضاعی ماں جعفر برمکی اس رضاعی بھائی فارسی اس کی مادری زبان تھی عربوں کےبجائے اس کوایرانیوں پر اعتماد تھاہارون رشید نے ان تمام باتوں کاخیال کرتے ہوئے اس کوخراسان کی حکومت سونپ دی تھی۔باپ کاانتقال ہونے پر اس کابڑا بھائی امین رشید خلیفہ ہوا ایرانیوں نےمامون کو خلیفہ بننے کالالچ دیا امن قتل ہوا اور مامون خلیفہ بن گیا۔ایرانیوں پر مشتمل ایک جماعت تیار کی گئی۔جس کانام فوج تطہیر رکھا گیا اس فوج نے مملکت کے طول وعرض میں تلاش کرکے مملکت کےنظم کوایسا ملیا میٹ کیا کہ ایرانی منصوبے کےمطابق جب عباسی حکومت ڈگمائی تو اس کی جگہ کوئی لینےوالانہ تھا۔ایرانیوں نے کھلے عام مجوسیت بر عمل شروع کردیا۔ایرانیوں نے مامون سے وہی کام لیا جو ابو الفضل اور فیضی نے بعد میں اکبر سےہندوستان اسلام کی بیخ کنی کاکام لیا فرق دونوں میں صرف اتنا تھا اس نے بھونڈ پن سے کام نہیں کیا اوراب تک ایرانی ثقافت کےزور پر اس کاشمار ہیروز میں ہے۔

ایرانیوں نے ملک وقوم کو عربی زبان سے پوری طر ح محفوظ کرلینےکےبعد اس منصوبہ پر عمل کیا کہ ایران سےاسلام اورعربی زبان اپنے اصل رنگ ورب میں جانب مشرق نہ گزرنے پائے لہذا اس کوفارسی زبان میں ڈھالا اورمجوسیت صوفیت رافضیت منطق اور فلسفہ کی جتنی بھی ملاوٹ اسلام میں کرسکے وہ کی گئی اورحد کردی کہ اسلام کی بنیادی ستون صوم وصلون کانام مجوسی طریقہ عبادت روزہ نماز رکھ دیا۔ اللہ بچائے خدالفظ مروج کرادیا۔بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے اورپڑھنےکے بجائے786کے ہندسے لوگ لکھنے لگے حالانکہ ان اعداد سےمراد حضرت علی کی شیعہ پسند توصیف ہے۔بعض غالی لوگ اس کےنیچے 30بھی لکھتے ہیں سےمراد محمد ہے۔ عرض ایسی بےشمار باتیں ہیں جن کےذکر سے تکلیف ہوتی ہے۔

تصوف کی حقیقت:

تھیو صوفی یاتھیو صوفیہ یونانی زبان کےالفاظ ہیں جن کے معنی ہیں صوفی کامسلک ومذہب دنیا کی تمام لغتوں میں اس کے معنوی تشریح یہ کی گئی ہے کہ نبی اور وحی کےبغیر خدا کوصرف گیان ودھیان سےپہچاننا ۔چنانچہ اللہ تعالی کےبھیجے ہوئےادیان کےعلاوہ جتنے مذہب ہیں ان کےبانیان نےاپنےگیان ودھیان ہی سے آکاش اور اس کےبنانے و الے کااندازہ لگایا ہےجلیل القدر ائمہ جن عقائد کےحامل ہیں وہ ان کااپنی ہی تو گیان ودھیان ہے جس کو وہ مراقبہ ماحصل بتاتے ہیں یاعطیات شیوخ کہتے ہیں مسلمانوں کےروپ میں اسی گروہ کےلوگ جادو سیکھتے ہیں اورجادور گری کےکرشموں کوکرامت کےنام سےمنسوب کرتے ہیں اور ان جادوگروں کوولی کےنام سے مشہور کیا جاتا ہے (اس کی تفصیل کتاب جادوکی حقیقت میں ملے گی)

حاملان تصوف نےبڑی دلیری سےکام لیا کہ ان یونانی الفاظ کوجوں کاتوں صوفی کوصیغہ واحد اورصوفیاء کےصیغہ جمع میں اختیار کرلیا ورنہ دنیا کےحلقہ ہائے تصوف سےکٹ جاتے ۔

مسلمانوں کواس لفظ سےمانوس کرنےکے لیے اس کارشتہ اخوان الصفاء سےجاملایا۔یہ اخوان حضورﷺ کےزمانے میں مسجد نبوی سے ملحقہ چبوترے پر مقیم حصول دین اورتبلیغ دین کےلیے اپنے آپ کو وقف کیےہوئےتھے(یہ چپوتر ہ اب بھی مسجد نبوی میں روضہ مبارک سےمتصل محفوظ ہے)ان اخوان کوصفا کہہ کر اس لیے پکاراجاتاتھا کہ اذان کےبعد صف اول انہی سے بنتی تھی۔

کلام مجید میں یہ لفظ صف درصف ہونے اور صف بنانےکےمفہوم میں متعدد مقام پر آیا ہے واللہ اعلم!

صوفیت کےشیدائیوں ن ص یر زبر کی جگہ پیش لگانے کی تحریف کرکے موصوف بنایا جس کےمعنی بال اور اون کے ہیں یعنی صوف سے بنا ہواکپڑا پہننے والے اخوان کو اگر اس رعایت سےصفا کہاجائے تومدینہ کےتمام لوگ وہی کپڑا پہننتے تھے جواخوان کونصیب تھا لہذا مدینہ کی تمام آبادی کوصفا کہا جاتا ۔حقیقت یہ ہے کہ تصوف اورصوفی کےالفاظ نہ قرآن میں ہیں نہ حدیث میں نہ کہیں آثار صحابہ میں ملتے ہیں۔دائرہ معارف اسلامی کی جلد ششم صفحہ 419 پر لکھا ہے کہ الصوفی کولقب کےطور پر تاریخ میں پہلے آٹھویں صدی کےنصف اخیر میں کوفہ کےایک شیعہ کیمیا گر جابر بن حیان کےنام کےساتھ استعمال کیاگیا ہے۔کوشش یہ کی جارہی ہےکہ اسکو اسلامی تصوف کانام دے کر مسلمانوں کے دلون سے اس کی کراہیت مٹائی جائے یہ بالکل ایسا ہی فعل ہےجیسے کمیونزم کواسلامی سوشل ازم کانام دے کر مسلمانوں کوگمراہ کیاجارہا ہے۔

ہندوستان میں ایرانی ساختہ اسلام کی تبلیغ:

ایران سے جانب مشرق انہی صفات وعقائد کے تربیت یافتہ صوفیوں کوایران کاساخت کردہ اسلام پھیلانے کےلیے بھیجا گیا۔ہندوستان میں انہوں نےدیکھا کہ یہاں گرو اورچیلوں کارواج ہےاورچیلے گروہ کےلیے بہت بڑی طاقت ہیں لہذا انہوں نےاس جگہ ایرانی اصطلاح میں پیری مریدی کردی ان کےیہاں عبادت سےمراد بھجن گانا اوربجانا ہےانہوں نے اس کابدل قوالی سے کیا ۔ہندوؤں کےبجانےکےآلات ڈھول گھنٹہ ناقوس اورجل ترنگ تھے ان کےعلاوہ چند آلات مزامیراصوفی لوگ ایران سےاپنے ساتھ لائے اورکچھ انہوں نےیہاں ایجاد کیے جیسے امیر خسرونےستار ایجاد کیا ہے۔ہندواپنےمٹھوں اورتیرتھوں پر سالانہ جمع ہوکر تیرتھ مناتےہیں صوفیوں نےپیروں کےنام سےمزار بنائے اور ان پر سالانہ عرس کرنےلگے اور عرس کی فضلیت حج سےبڑھادی ۔حج کی فرضیت اس بہانے سےختم کردی کہ راستے دشوار اور غیر محضوظ ہیں۔مزاروں میں مدفون لوگوں کےفیوض وبخشش کی شہرت کادور دور تک اہتمام کیا گیا ۔کام اللہ بناتے ہیں لیکن اس کا اہل قبر کی دین اور فیض بتایا جاتا ہے۔محاورں کی آمدنی اورگل چھرے دیکھ کر قبر پرستی کی وبام ہوگئی ۔

شریعت کےمقابلہ پر طریقت اورسری وباطنی علم کاڈھونگ :

حجۃ الوواع کے موقع پر حضورﷺ نےتقریبا سوالاکھ صحابہ سےشہادت لی تہی کہ آپ لوگ شاہد ہیں اللہ نےجودین مجھ پر نازل فرمایا ہےوہ میں من وعن آپ کوپہنچادیا۔تمام حاضرین نےہاتھ اٹھااٹھا کر باآواز بلند کہا ہم شاہد ہیں کہ آپ نے ہم کوپورے کاپورادین پہنچادیا ہے۔اس کےبعدآپ ﷺ نے ہاتھ بلند کرکے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اللہ آپ بھی شاہد رہیے لیکن صوفیاء کاکہنا ہےکہ سری وباطنی علم (جس سے ان کی مراد تصوف ہے)

حضور ﷺ نےصرف حضرت علی کودیاتھاجوسینے بسینے ان پہنچا ہے۔یہ حضور کی شان میں انتہائی گستاخی اور آپ ﷺ کی دیانت پر شرمناک دست درازی ہے صوفیوں کایہ بھی عقیدہ ہےکہ جس کو طریقت کاعلم تصوف پر عمل کاطریقہ آجاتا ہے اس پر سے شریعت کی تمام پابندیان ختم ہوجاتی ہیں اس سے یہ مقصد حاصل کیا کہ بظاہر مسلمان بہ باطن صوفیوں کےبین الاقوامی عقیدوں سے وابستگی قائم رہی ۔دنیا میں صوفیوں کی انجمنوں(Thoosophical socities)کی تعدادپچاس ہے جوچار بین الاقوامی وفاقوں میں منسلک ہیں ۔کراچی میں تھیو صوفیکل سوسائٹی کادفتر کتب خانہ اورہال بندروڈ پر ہے۔ ان کی تقریبات میں صوفی گانے(Mysticism in islam)بڑے اہتمام سے گائے جاتے ہیں۔تھیوصوفیکسٹ کی کتاب(Sufi songs) میں مسلمان صوفیوں کی خاصی وضاحت ہے(ہندو پاکستان صوفیوں کارشتہ صوفیت کی ایرانی شاخ سے ملتا ہے رضا شاہ نےاپنی بادشاہی کے آخر ایام میں ایران چھوڑنےسےقبل اعلان کیا تھا میں صوفی ہوں(مسلمان ہونےکااعلان نہیں ) یہی وہ سلسلہ صوفیت ہےجس سے اس نےاپنی وابستگی کااظہار کیا تھالیکن ایرانیوں نےاس سابقہ کردار کی وجہ سے اس پر اعتبار نہیں کیا۔

صوفیوں کے بین الاقوامی عقیدے:

(1)دنیا کےتمام انسانوں سےبلاامتیاز نسل ومذہب قوم رنگ اخوت برتنا۔

(2)تمام مذاہب وفلسفون کاتقابلی مطالعہ کرنا۔

(3)اپنے کیان ودہیان ومراقبہ سےآکاش کےبھیدوں کاپت لگانا۔

(4)ہمہ اوست یعنی ہرشے خدا ہے۔

(5)تناسخ (مرنےکےبعد اسی دنیا میں کسی مختلف ہیئت میں زندہ رہنا اوراگر مرنے والامرشد کےدرجہ کاآدمی ہےتو اس کی فیض رسانی پر ایمان)

(6)ترک حیوانات یعنی گوشت کھانے سےپرہیز برصغیر کےصوفیوں کےیہاں اکثر وظیفوں میں ترک حیوانات لازمی ہےان کے خیال میں روحانیت بڑھانےکایہ بڑا ذریعہ ہے اپنے یہاں کاصوفی کافر کوکافر کہنےکےخلاف ہے۔کسی کےخلاف شریعت عمل کورمز پر محمول کرتا ہے(کافرون کی کتابوں کامطالعہ اور ان کرترجموں کی مسلمانوں میں تشہیر پر یوسف سلیم چشتی کو اس وجہ سے اصرار ہے)صوفیاء کےمراقبوں کےاحوال تو ان کےجلیل القدر ائمہ کےاقوال سےواضح ہیں صوفیوں کےمندرجہ ذیل عقائد کوزیر بحث لانے سے اجتناب بھی بہتر ہے۔

(ا) عشق حقیقی سےپہلے عشق مجازی لازم ہے۔

(ب) خواہش نفس یاصوفی کی خواہش انسان کاسب سےبڑا رب ہے۔

(ج)محرمات ان کی منہاج ہیں۔

دنیا کےتمام صوفی اپنے کسی نہ کسی بزرگ میں الوہیت کےقائل ہیں شیعوں کےگروہ میں یہ لوگ حضرت علی کوالوہیت کامقام دیے ہوئے ہیں اور سنیوںمقام رسالت کےبہانے حضورﷺ کونعوذباللہ بلاجھجک اوراعلانیہ اللہ کی جگہ سمجھتے اورپکارتے ہیں۔

کتاب وسنت آثار صحابہ اورتاریخ سےناآشنا یہی لوگ ہندوستان میں اسلام کی نمائندگی کرتے چلے آرہے تھے وہ بھلا گمراہیوں میں گھرے ہوئے اکبر کوکس طرح اللہ کاراستہ دکھاسکتے تھے اور ان کی محفلوں میں کافروں کی دریدہ دہنیوں کاجواب دینا ان کےبس کی بات نہ تھی مجدد الف ثانی ﷫ نےجہانگیر کواس کے باپ کی گمراہی کااحساس دلایا مگر عام مسلمانوں اس اصطلاح کےآثار پیدا نہیں ہوسکے۔

اوررنگ زیب عالمگیر کواللہ نےدل مسلم عطا کیاتھا وہ کفر شرک میں ملوث مسلمانوں کوراہ راست پر لانے کےلیےمتردد تھے۔اسلام کاکوئی ضابطہ سامنےنہیں تھا۔شاہ عبدالرحیم﷫ کےسپردی یہ کام ہواشاہ صاحب نےقرآن وحدیث کی روشنی میں ایک ضابطہ عالمگیری کےنام سےتشکیل دیا لیکن صوفیاء وقت نےاس کواپنانےسےانکارکردیا اوریہ کتاب ایک دن کےلیے مروج نہ ہوسکی۔

یہ تھاصوفیون اورچشتیوں کاہندوستان میں پھیلایاہواسلام جوحقیقت میں اسلام کےخلاف لگایا ہواایسا سنگین وپختہ بند ہےکہ ان کےمعتقدین آج تک اسی اسلام سمجھتے ہیں اورحاملان دین متین سے ان انتہائی نفرت ہے۔

فتاوی عالمگیری کےخلاف کے صوفیوں کی ہنگامہ آرائی دیکھتے ہوئے عالمگیر اورشاہ صاحب اس نتیجے پرپہنچے کہ جب عالم دین ہی موجود نہیں تودین کون پھیلائے اوراسلامی اقدار کیسے جاری ہوں لہذا طے پایا کہ پہلے علماء دین پیدا کیے جائیں۔

اس طویل المدت منصوبہ کےتحت ہندوستان میں پہلی دینی درس گاہ مدرسہ رحمییہ کےنام سے قائم ہوئی شاہ عبدالرحیم کےبعد ان کےبیٹے شاہ ولی اللہ اسکو لے کر آگے بڑھے شاہ ولی اللہ کےبعد ان کےچاروں بیٹون نےیہ کام سنبھالا ۔شاہ صاحب نےقرآن کافارسی زبان میں ترجمہ کیا تو ان صوفیاء نےکفر کافتوی لگایا اور ان کوقتل کرانےکی بھی کوشش کی گئی پھر ان کےبیٹے عبدالقادر﷫ نےاردو میں ترجمہ کیا توان پر بھی تکفیر جاری ہوئی۔ہندوستان پاکستان میں دین متین کے حامل وپیر آج نظر آرہے ہیں وہ اسی خاندان ولی الہی کی برکتوں کانتیجہ ہےاورصدیوں سےبند کردہ حج کااجراء بھی سن1820 میں انہی خانوادوں کےطفیل ہوا۔