الہی اسماء وصفات میں تاویل وتحریف کےاسباب وعلل.... اثرات ونتائج حقائق کی روشنی میں
سید قطب طانقطہ نظر:
اخیر میں اسلامی دعوت کےبعض علمبرداروں کواس مسئلہ میں تنبیہ ہوا وہ ہیں استاذ کبیر سید قطب موصوف نےجیل میں قرآنی فرید(1) یعنی ایک بےنظیر قرآنی گروہ کےزیر عنوان یہ بتلانے کی بعد کہ اس قرآن کی دعوت نےپوری اسلامی تاریخ بلکہ پوری انسانی تاریخ میں ایک ایسی بےنظیر اورممتاز نسل کوتیار کیا ہےجس رنگ ڈھنگ کی نسل دوبارہ وجود پذیر نہ ہوسکی ۔استاذ موصوف نےاس کے اسباب دریافت کیے ہیں جب کہ اس دعوت کا قرآن تاہنوز موجود ہے۔رسول اکرم ﷺ کی احادیث آپﷺ کااسوہ حسنہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ سب کچھ ہمارے پاس موجودح ہےجس طرح کہ اس بینظبر قدوسی جماعت کےپاس یہ ساری چیزیں موجود تھیں فرق صرف یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ کی ذات گرامی ہمارے درمیان نہیں ہے۔اس کاجواب دیتے ہوئے سید صاحب لکھتے ہیں:
اگر اسلامی دعوت برپا ہونے اور اس کےنتائج وثمرات کےحصول وظہور کے لیے ذاب رسول ﷺ کاوجود ضروری ہوتا تو ہرگز اللہ رب العالمین اس دعوت کو ساری انسانیت کےلیےعام نہ بناتا اورنہ ہی اسے آخری ودعوت وپیغام اقرار
ملاحظہ فرمائیں سید قطب عربی کتاب معالم فی الطریق
دیتا اور نہ رہتی دنیا تک کے لیے روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کامعاملہ اس پر چھوڑتا ۔
پھر اس معجزہ (بے نظیر جماعت) کےبار بار معرض وجود میں آنےکے مختلف عوامل وااسباب کاذکر کیا ہے جس میں سب سے اہم سبب سرچشمہ ۃصافی کے مزاج وطبیعت کی تبدیلی کو قرار دیا ہے سید صاحب فرماتے ہیں:
پہلا سرچشمہ جس سے وہ بےمثال تاریخی سیراب ہوئی تھی وہ قرآن ....اور صرف قرآن تھارسول اکرم ﷺ کی احادیث اورراہنما ئیاں اسی قرآن کا ایک عکس تھیں۔جیساکہ حضرت عائشہ سےجب آپﷺ کےاخلاق کی بابت سوال ہوا تو بتلایا کہ آپ ﷺ کااخلاق قرآن تھا۔
یعنی صرف قرآن واحدسرچشمہ تھا جس سے وہ قدوسی جماعت فیض یاب ہور ہی تھی اور سامنےآگیں ہوئی۔ نیز صرف جس کادرس لیتی تھی اور یہ اس ناتے نہیں تھا کہ انسانیت کےسامنے اس وقت کوئی تہذیب وثقافت نہ تھی یاعلم وتصنیفات اورتحقیقات ناپید تھیں... یہ تمام چیزیں ہرگز ناپید نہ تھیں بلکہ اس وقت روم کی تہذیب وثقافت اس کی کتابیں اس کے قوانین تھے جس کےمطابق یاجس ڈگر پر یورپ اب جی رہا ہے۔اس طرح سے یونانی تہذیب کےبقایا جات اس کی منطقی وفلسفہ اور اس کافن موجود تھاجوناہنوز مغربی افکار کاسرچشمہ ہے۔نیز فارس کی تہذیب اس کافن اس کےاشعار وقصص اس کےعقائد اورنظامہائے سیاست موجود تھے.... ان کے علاوہ بھی دوسری بہت سی قریب وبعید کی مختلف تہذیبیں تھیں...... ہندوستانی تہذیب چینی تہذیب وغیرہ ۔جبکہ رومانی وفارسی تہذیب جزیرہ عرب کوشمال و جنوب ہر دوجانب سےڈھانپے ہوئے تھی۔ساتھ ہی وسط جزیرہ عرب پریہود یت ونصرانیت کاتسلط تھا۔تو اسکا مطلب یہ ہواکہ تاریخ کے اس مثالی گروہ نےصرف قرآن کو اپنے لیے کافی اس لیے نہیں سمجھا تھاکہ اس وقت عالمی تہذیبیں اورعالمی ثقافتیں ناپید تھیں بلکہ ایسا منظم پلان اور مقصود طریقہ کےتحت ہواتھا۔اس کی دلیل رسول اکرمﷺ کاوہ غیظ وغضب ہےجوحضرت عمربن خطاب کے ہاتھ میں صحیفہ تورات دیکھنےکےنتیجہ میں پیدا ہوتھا اوراس موقعہ پرآپکا یہ ارشاد کہ بخدا اگر موسیٰ بھی تم لوگوں کےدرمیان موجود ہوتے توانہیں بھی میر ے اتباع سے چھٹکارا نہیں ملتا(1)
رسول اکرمﷺ کے پیش نظر ایک ایسا گروہ تیار کرناتھا جس کاذہن وضمیر جس کےتصورات وحساسات جس کے نشونما خدائی طریق کار جس پر قرآن مشتمل ہےکے سوا ہر طرح کےخارجی مؤثرات سےبالکل پاک وصاف ہوں۔
اس طرح وہ عدیم النظیر جماعت صرف ایک سرچشمہ خداوندی سے فیضیاب ہوئی تھی اسی وجہ تاریخ انسانی میں سے ایک امتیازی شان اور منفرد مقام بھی ملا ۔مگر اس کےبعد کیاہوا؟
مختلف سرچشمے باہم ایک دوسرے میں مل گئے ۔بعد کی نسلیں جس سرچشمہ سےفیضیاب ہوئیں اس میں یونانی فلسفہ ومنطق فارسی قصص وتصورات یہودی اسرائلیات نصرانی لاہوت ان کےعلاوہ دوسر تہذیبوں اورتقاضوں کےخرافات کی آمیزش ہوگئ تھی اس طرح سے ان تمام چیزوں کااختلاط تفسیر قرآن اورعلم کلام کےعلاوہ فقہ واصول فقہ سے بھی ہوا۔اوراسی سرچشمہ سے فیضاب ہوکر بعد کی نسلیں نکلیں ۔اوریہی وہ سبب ہے کہ وہ مثالی نسل دوبارہ معرض وجود میں نہ آسکی۔
پھر سید قطب نےدوسرے دواسباب کےوتلاش کیا ہےاس کے بعد صفحہ 17 میں رقمطراز ہیں:
جس جاہلیت سےاسلام کاپالا پڑا ہےآج ہم ایسی ہی جاہلیت بلکہ اس سے بھی زیادہ تیرہ وتاریک جاہلیت سےدوچار ہیں۔ہمارے اردگرد جاہلیت ہی جاہلیت ہے۔لوگوں کےتصورات وعقائد ان کے عادات ورسوم ان کی ثقافت ان کےفنون وآداب ضوابط قوانین یہاں تک بہت سی چیزیں جنھیں ہم اسلامی ثقافت اسلامی مراجع اسلامی فلسفہ اور اسلامی فکر کانام دیتے ہیں وہ بھی اسی جاہلیت کی دین ہیں۔
اس لیے ہمارے دلوں کےاندر اسلامی اقدار استوار ہوئے اور نہ اسلام کاصیح تصور ہمارے
یہ حدیث حسن ہے مسند دارمی اور مسند احمد میں یہ روایت موجود ہےتفصیل کےلیے ملاحظہ فرمائیں(ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل 1589)
ذہن و دماغ میں نمایاں ہوپاتا ہے۔ نیز اسی ناتے اس انداز کی کوئی انسانی جماعت دوبارہ ہمارے درمیان برپا نہ ہوسکی ۔ جس انداز اور جس طرز کی جماعت کواسلام نےپہل باجنم دیا تھا۔
لہذا اسلامی تحریک کی طریق کار میں ضروری ہےکہ نشوونما ہی کےدور میں ہم لوگ جاہلیت کےان تمام مؤثرات سےاپنے آپ کوپاک کرلیں جن کے اندر ہم جی رہے ہین اور استفادہ کےان تمامؤثرات سےاپنے آپ کو پاک کرلیں جن کے اند ر ہم جی رہےہیں اور استفادہ کرتے ہیں... لابدی ہے کہ آغاز ہی میں اس صاف وشفاف سرچشمہ کی جانب رجوع کریں جس سے ان لوگوں نےاخذ استفادہ کیاتھاوہ محفوظ سرچشمہ میں کسی بھی اجنبی چیز کی امیزش کاشبہ نہ ہو... ہم اسی خالص سرچشمہ کےجانب رجوع کریں۔اسی پورے وجود اورانسانی وجود کی حقیقت کےسلسلے میں اپنے تصورات اخذ کریں۔ پھر ان دونوں کے وجود کے مابین اورحقیقی وجود کامل یعنی اللہ سبحانہ کےوجود کے مابین تعلق وار تباط کی نوعیت وحقیقت کاتصور اسی سرچشمہ سے اخذ کریں......زندگی اوراپنے اقدار واخلاق حکومت وسیاست معیشت نیز زندگی کےتمااصول وضوابط کےمطالب کا تصور اسی سرچشمہ ہدایت سےلیں۔
گویاضروری ہےکہ جا ہلی معاشرہ جاہلانہ تصورات جاہلانہ رسوم جاہلی قیادت کےاثردباؤ
سے اپنے ضمیر کوبالکل آزاد کرلیں ۔ہمارا کام یہ نہیں ہےکہ اس جاہلی معاشرہ کی صورت حال سے صلح کرلیں اوراس طرف دوستی کاپینگ بڑھائیں کیونکہ یہ سوسائٹی جاہلیت کےاس وصف کےساتھ اس پوزیشن میں نہیں ہےکہ اس کےساتھ مصالحت کی جائے بلکہ ہماری ذمہ داری اور فریضہ تویہ ہےکہ پہلے ہم دل کی دنیا میں انقلاب لاکر پھر اس جاہل سوسائٹی مین انقلاب برپاکردیں۔
البتہ اس سلسلے میں بڑی مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا اور زبردست قربانیوں کی ضرورت پڑے گی...... لیکن جب پہلی بار وجود پذیر ہونےوالے اس اسلامی گروہ کرے طریق کار پر چلنا ہےجس کےہاتھون اللہ نےاپنا طریقہ ومنہج قائم کیا اورجاہلانہ طرز حیات وغلبہ عطا کیا توپھر ہم خود مختار اورآزاد نہیں ہیں۔
اس لیے اسلامی دعوت کےمیدان میں تمام کام کرنےوالوں پر واجب ہے کہ ہر وہ چیز جوجاہلانہ اورمخالف اسلام ہو اس سے گلو خلاصی حاصل کرنے کی خاطر باہم ایک دوسرے کاتعاون کریں اور اس کاصرف ایک ہی راستہ ہے۔قرآن وسنت کی جانب رجوع .... جیساکہ ہادی اعظم ﷺنےاس حقیقت کی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
تمہارے مابین دوچزیں چھوڑے جارہاہوں اگر انہیں مضبوطی سےپکڑ ے رہے توپھر گمراہ نہیں ہوسکتے اللہ کی کتاب اورمیری سنت اوریہ دونوں چیزیں حوض پر پہنچنے سے پہلے کبھی جدا نہیں ہوسکتیں۔
اگر اسلامی دعوت کےحاملین یہ کام کرلیں توگویا ان لوگوں نےایک خالص اسلامی معاشرہ کی تشکیل وتخلیل کےلیے نیورکھ دی اور نہ اس کے بغیر ان کی کوئی حیثیت ہوگی اور نہ کوئی مسلم حکومت قائم ہوسکتی ہے۔
اورمجھے توسخت تعجب اورحیرت ہےان ارباب قلم پر جو ضمیر وقلب کےبعض امراض کےعلاج کی بات کتابیں تصنیف کرتے ہیں۔مثال کےطور پر باطن الاثم الخظر الاکبر فی حیاۃ المسلمین نامی کتاب کےمؤلف ناواقفیت کا انکشاف بھی کرتے ہیں جس طرف کی سید قطب نےاپنے کلام سابق میں ارشادہ کیا ہے۔
مؤلف رسالہ کویہ حقیقت نہ بھائی تواس حقیقت اور اس کی جانب توجہ دلانےوالے پر اپنے مذکورہ رسالہ کےصفحہ 85 مین ہماری مشکلات اخلاقی ہیں فکری نہیں کےزیر عنوان اعتراض اورنکتہ چینی شروع کردی فرماتے ہیں:
ہماری تمام معروضات کامطلب یہ نکلا کہ ہماری تمام ترپریشانیوں کاتعلق اخلاق وجدان سےان کا کسی طرح کوئی تعلق عقیدہ یافکر سے نہیں۔
بعدازاں مؤلف نےان لوگوں پر اظہار کیا ہے جو اس عظیم اخلاقی بحران کاشعور ادراک رکھتےہیں جومؤلف نےان لوگوں پر اظہار تعجب کیا ہے جو اس عظیم اخلاقی بحران کاشعور اورادراک رکھتے ہیں جومؤلف نےان لوگوں پر اظہار تعجب کیا ہے جو اس عظیم اخلاقی بحران کاشعور ادر کھتے ہیں جومؤلف کی نگارہ میں مسلمانوں کےلیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔مگر یہ شعور رکھنےوالے بجائے اس کے کہاس کاعلاج اس انداز سےکرتے جو انداز مؤلف نےاپنی کتاب میں بتایا ہےاس کاعلاج بہت سےفکری مباحث سے کرتے ہیں۔ پھر مؤلف نےسید قطب کی بات کی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
توجاہیل معاشرہ کی لمبی چوڑی تشریح دشمنان اسلام اورفکر اسلامی کے خلاف جنگ کرنے والوں کےعدوانی پرگراموں کےانکشاف واظہار یا اسلامی فکر اسلامی دعوت کےطریق کار کی توضیح وبیان کااہتمام کرنےسےکیا فائدہ ہوگا جب کہ مسلمان جس بحران سےدوچار ہین وہ یہ نہیں ہے کہ مسلمان ان تمام سےنابلد ہیں بلکہ سب سے خطرناک اوراہم مرض وہ ہےجومسلمانوں کےدلوں پر مسلط ہے؟
اب مزید اس فکری تحقیات کی مسلمانوں کی ضرورت نہیں ہے۔مسلمان اپنی ثقافتوں میں اختلاف کےباوجود ان تمام نواحی میں اتناشعور رکھتے ہیں اگر معاملہ صرف شعور پر موقوف ہو تومسلمان پورے طور پر محفوظ ہوں گے۔
انہیں بس ایک ایسی زبردست قوت کی ضرورت درپیش ہے جو انہیں عمل وتفیذ پر ابھارے اورعمل وتنفیذ کامعاملہ صرف فکر وعقل کی دسترس میں ہونا بعید ہے۔
اورجس قوت ہائلہ کی ضرورت ہےوہ اخلاقی کی قوت ہے۔
یہ ہے صاحب علم ودانش فاضل ڈاکٹر صاحب کاارشاد موصوف کے اس بیان میں اتنی لغزش اورمغالطے ہیں جن پر تفصیلی گفتگو کا یہ موقعہ نہیں ہے مگر موصوف کےکلام سے پیدا ہونے والے وہم کےبرخلاف کوئی بھی اسلامی داعی یہ کہنے کےلیے کہ صرف شعور وفکر موجود بحران کےحل کےلیے کافی ہین سوچ بھی نہیں سکتا ۔مگر جس بحران وپریشانی کامحرم ڈاکٹر صاحب کاانکار کرتے ہیں دراصل وہی اخلاقی قوت کاسرچشمہ اورمصدر ہےیعنی وہ ایمان اور صحیح توحید اور صالح عقیدہ ہے ۔
اسی ناتے انبیاء ورسل اور ان کے متبعین دعوت کاآغاز جس چیز سے کرتے تھے وہ اللہ کی توحید تھی۔آغاز کار میں اخلاقی بحران کاعلاج کرتے تھے اور نہ معیشت وغیرہ کی پریشانی کا علاج کرتے تھے جن میں اصل بحران سے غافل ہوکر دور حاضر کےبہت سے ارباب قلم پھنس گئے ہیں۔اور وہ اصل بحران ہے دورحاضر وماضی کےبہت سے مسلمانوں کاصحیح عقائد سے انحراف اس بحران کےپیدا کرنےمیں فلسفہ وکلام کی ان کتابوں کابڑا دخل ہے جنھیں توحید کی کتابوں کانام دیاجاتا ہے ۔میں محترم دانشور جناب ڈاکٹر صاحب سے صرف ایک سوال کرتاہوں کہ کیا کسی فرد یا چند افراد یاکسی جماعت اورامت کےلیے جب کہ اس کے عقائد صحیح نہ ہوں یہ ممکن ہے کہ وہ قوت بائلہ یعنی اخلاقی قوت حاصل کرلیں گے جس کی انہیں ضرورت ہے ؟ اگر اس کےجواب میں موصوف محال ناممکن کہتے ہیں تو پھر ہمارا سوال ہےکیا محترم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی مسلم امت پائی جاتی ہےجس کے عقائد بالکل صحیح ہوں جیسے کہ سلف کےدور میں تھا؟ علی الرغم اس کے مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جومنکرین صفات معتزلہ اورجبریہ جیسا عقیدہ رکھتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جوغالی صوفیاء پائے جاتے جونکرین صفات معتزلہ اورجبریہ جیسا عقیدہ رکھتے ہیں اورایسے بھی ہیں جوغالی صوفیاء کاعقیدہ رکھتے ہے کہ مسلمانوں کوقرآن وسنت اورفہم قرآن وسنت کے لیے معاون علوم پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں محض اللہ کاتقویٰ کافی ہے ۔پھر اس کی دلیل سےدیتے ہیں کہ خود ان کےخلاف حجت ہے بشرطیکہ وہ اسے جان سکیں مثلا(واتقواللہ ویعلمکم اللہ) اور اللہ سےخوف کھاؤ اور اللہ تمہیں بتلادے گا اور اس بنیاد پر بہت سےدینی حقائق مثلا انبیاء ورسل بالخصوص خاتم الانبیاء ﷺ کی ثابت شفاعت عیسیٰ کے نزول وخروج دجال وغیرہ کا انکار کرتے ہیں۔........ مصر اورہندوستان میں کچھ لوگ ہیں جواپنے اہل قرآن کہتے ہیں(1) اوراحادیت رسول اقوال صحابہ تابعین ومجتہدین ائمہ کےآثار سے بے نیاز ہوکر قرآن کی تفسیر کرتے ہیں بلکہ عربی علمی قواعد کی بھی رعائت نہیں کرتے۔
تو اگر ڈاکٹر صاحب جواب میں یہ فرماتے ہیں آج کل کےمسلمانوں کاعقیدہ وہی ہے جوس سلف کے دور میں تھا توہم عرض کریں گے کہ کیا وہ غلط عقائد جن کاآپ نےتذکرہ کیا ہے وہ موجود دور میں خاص طور سے آپ کے ملک میں نہیں پائے جاتے ؟ تو اگر اقرار کرلیتے ہیں جیساکہ امید ہے تو پھر یہ بات کہنے کی جسارت کیسےکرتے ہیں کہ:
اب مسلمانوں کو مزید ان فکری تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے مسلمان اپنی ثقافتوں میں اختلاف کےباوجود ان تمام گوشوں میں اتنا شعور رکھتے ہیں کہ اگر معاملہ صرف شعور پر موقوف ہو تو مسلمان پورے طور پر محفوظ ہوں گے۔
لیکن اگر ڈاکٹر صاحب ہٹ دھرمی اور مکابرہ پر تل جائیں اور یہ کہیں کہ اس حیثیت سے مسلمانوں میں خیر وبرکت موجود ہےتو پھر بات ہی کرنی عبث ہے بقول شاعر
جب دن ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت پڑے تو پھر ذہن میں کوئی چیز صحیح نہیں ثابت ہوسکتی ۔
اخیر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ محترم ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ایک سوال عرض کردوں جس سے اگر اب تک واضح نہ ہوسکی ہے توموصوف کی وہ غلطی واضح ہوجائے گی جس کے نتیجہ میں انہوں نےعنوان باطن الاثم الخ ثبت کردیا ہے موصوف ہم آپ سے وہی سوال کرتے ہیں جورسول اکرم ﷺ نے لونڈی سے کیا تھاکہ اللہ کہاں ہے ؟ اگر اس کے جواب میں آپ وہی کہتے ہیں جس پر ہمارا ایمان ہے اورسول اکرم ﷺ نےجسے اس لونڈی کےلیے علامت ایمان قراردیا تھا یعنی آسمان اور کا وہی مفہوم آپ لیتے ہیں جوسلف نے سمجھا ہے یعنی یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ عرش کےاوپر ہےتو یقینا آپ بجانب ہیں اور اس مسئلہ میں جس کاتعلق افکار و عقائد سے ہیے نہ کہ اخلاق سے آپ ہمارے ساتھ لیکن تب آپ جمہور مسلمانوں یہاں تک کہ ان مشائخ اوراساتذہ نیز ڈاکٹر ان کے خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں جن سے آپ نے دینی تعلیم حاصل کی ہے ۔ کیونکہ یہ لوگ آپ کےاس صحیح جواب میں آپ کے ہمنوا نہ ہوں گے......
کوثری نیزر ابوزہرہ اور آپ کےدرمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔
اور اگر آپ میرے یہ سوال کرنے کےمخالف ہوں جسے خودرسول اکرم ﷺ نے ہمارے لیے مسنون قراردیا ہے پھر اس کااثبات میں جواب دینے سے گریز کریں یا معتزلہ والاجواب دیں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہےجس کےمعنی یہ ہوئےے کہ خالق ومخلوق میں اتحاد پایا جاتا ہے اوریہ سراسرکفر ہے یاوجواب دیں جوالجوہرۃ اور اس کےحاشیہ وغیرہ کتب فلسفہ وکلام میں ہے جو آپ پڑھ چکے ہیں اورجن کے مطابق آپ تربیت ہوئی ہے۔یہاں تک کہ آپ کےحصہ میں اتناشعور آگیا جس سے آپ پورے طور محفوظ مضبوط ہوگئے تویہ سب جواب دیکر آپ قرآن وسنت اوراجماع امت کی مخالفت کریں گے۔جیساکہ ہم نےگذشتہ صفحات میں بعض ائمہ سے منقول اقبال کی طرف اشارہ کیا ہےکہ ہم سب کےنزدیک ثقہ ہیں اورجن کےمذہب پر ہم سب ہیں۔.. مختصر یہ کہ اس عقیدہ میں آپ ہمارے ہمنوا ہوں یا مخالف بہرحال دونوں فریق کی نمائندگی لاکھوں مسلمان صدیوں سے آج تک کرتے چلے آرہے ہیں۔وہ گر وہ جوحدیث پاک میں وارد سوال وجواب کےقائل ہے۔اس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے محقق شاگر ورشید ابن قیم الجوزیہ نیز ہمارے وہ تمام حنبلی اخوان ہیں جو شیخ محمدبن عبدالوہاب نجدی کے متبعین ہیں ... اور بیشک دونوں فریق کو آپ کا وسیع وعریض گمان شامل ہے جس میں گمان کی تعبیر اوراظہار آپ نے اپنے مذکورہ بالارسالہ کےص 9 میں اس انداز سے کیا ہے:
اور میرا خیال ہےکہ ہم سب مومن ہیں کہ اللہ ہی اکیلا معبود ہے اس کاکوئی ساجھی نہیں اور اسی کےہاتھ میں اختیار ہے۔
اور مجھے یقین ہےکہ دونوں فریق اسلامی آداب سےآراستہ ہونے کےباوجود اپنی زبان حال بازبان قال سے اپنےمخالف گروپ کوکہےگاکہ انا واياكم لعلى هدى اوفى ضلال مبين))
نیز میرے خیال سے ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں کہ دونوں فریق میں سے کوئی ایک گمراہ ضرور ہے اوریہ گمراہی اخلاقی ناحیہ سے نہیں بلکہ فکر وعقیدہ کےناحیہ سے ہے۔ اس مسئلہ اور اس طرح کے بہت سے اعتقادی مسائل میں دونوں فریق کی نمائندگی لاکھوں مسلمان کررہے ہیں تو پھر ڈاکٹر صاحب کیا اختلاف کی شکار مسلمان قوم فکری تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے میں مزید فکری تحقیقات نہیں کہہ رہا ہوں اس لیے کے سوجھ بوجھ رکھنے والا انسان مزید کی توقع یاطمع اس وقت رکھے گا جب مزید علیہ (یعنی کچھ فکری تحقیقات) موجود ہوں اور یہاں تو فکری تحقیقات ناپید کےدرجہ میں ہیں تو کیسے مزید کی طمع کرے ۔پھر مزید علیہ کی اس صورتحال میں کیا یہ تمام مسلمان ان فکری تحقیقات کے شدید حاجت مند نہیں ہیں تاکہ گمراہ فریق کےسامنے حق واضح ہوجائے اورحق جماعت میں شامل ہوجائے ؟نیز حق کےاپنی حقانیت پر ایمان میں اضافہ ہوجائے۔ساتھ ہی اپنے طریقہ نیز اس کی طرف دعوت کی معرفت زیادہ ہوجائے اور اس طرح ہم مطلوب اسلامی سوسائٹی کی طرف بڑھتے چلے جائیں اگر بعض داعیان اسلام فکری واعتقادی تحقیقات کایہ کام کرتے رہیں تویہ اس کےمنافی نہیں ہے کہ کچھ دوسرے داعی حضرت نفسانی امراض واخلاق کا بھی علاج کرتے رہیں جیساکہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس رسالہ باطن الاثم میں کیا ہے مگریہ شرط ہے کہ فکری داعتقادی بحران حل کرنے والوں کی زبردست کوششوں کو نظر انداز نہ کیا جائے اور نہ ہی انہیں اس بات کی دعوت دی جائے کہ اخلاق بحران کاحل تلاش کرنے کےلیے ان کی راہ پر چلیں۔