فتاویٰ جات

1۔حدیث علم حاصل کر وخواہ چین سےملے کی تحقیق

2۔باطنیوں کےعقائد واعمال کاشرعی حکم

................................................

خواجہ عبدالحمید صاحب بٹ لودھراں سےلکھتے ہیں:

آئے دن ٹیلویژن اوراخبارات میں یہ بات تہدی سےبیان کی جاتی ہےکہ علم حاصل کر خواہ تمہیں چین جاناپڑے۔

ایسی کوئی حدیث ہےیاکسی بزرگ صحابی یاتابعی کاقول ہے؟ وضاحت فرمادیں۔ نوازش ہوگی۔

الجواب

اس روایت کےالفاظ یہ ہیں :

اطلبو العلم ولو بالصين فان طلب العلم فريضة على كل مسلم (رواه العقيلى فى الضعفاء وابن عدى فى الكامل والبيهقى فى شعب الايمان وابن عبدالبر فى جامع بيان العلم عن انس بسند ضعيف(جامع الصغير للسيوطى)

یہ روایت ابن ماجہ میں آئی ہے لیکن اطلبو العلم ولو بالصين کےبغیر ۔ملاحظہ ہو ابن ماجہ باب فضل االعلماء ص24)

بہرحال یہ سارے روایات علی الانفراد بالکل بے کار ہیں :

قال ابن حبان باطل لااصل له وحكم ابن الجوزى بوضعه قال النيسابورى واالذهبى لم يضع فيه اسناد-(اسنى المطالب فى احاديث مختلفة المراتب ص44)

امام بیہقی فرماتے ہیں:اس حدیث کامتن (عبارت )لوگوں میں مشہور ہے اورسند کی ضعیف ہے اوریہ روایت اس سےزیادہ سندوں سےآئی ہےاوروہ سب کی سب ضعیف ہیں۔

وقال هذا حديث مثنة مشهور واسناده ضعيف وقدورى من اوجه كلها ضعيف (مشكوة كتاب العلم ص 34)

امام السخاوي فرماتے ہیں یہ ورایت ضعیف ہے:

وفى المقاصيد بزياده فان طلب العلم فريضه على كلم مسلم وقال ضعيف(تذكره الموضاعا للفتى ص17)

طلب العلم فريضة والی روایت کےبارے میں آئمہ دین نےخاصی طویل بحث کی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ اس کی سندوں کی تعداد پچاس تک پہنچ گئی ہےاس لیے مجموعی لحاظ سے یہ روایت صحیح لغیرہ تصور کی جاسکتی ہے۔

ملاحظہ ہومرقات شرح مشکوۃ ص 285 تذکرہ الموضاعت للفتنی ص 17 جاشیہ سندی ابن ماجہ 99 ج1)جہاں تک اس کی روایتی حیثیت ہے وہ بہر حال تسلی بخش نہیں ہےجہاں تک اس کے مضمون کی بات ہے ہمارے نزدیک بالکل صحیح ہے اورامت کاتعامل اس کاموید ہے۔محدثین ہوں یا فقہاء مفسرین ہوں صرف نحو کےعلماء سب نےحصول علم کےلیے ساری دنیا کی خاک چھان ڈالی ہےاور اس راہ میں ان پر جو گزری ہےوہ اس روایت کےمضمون کی اہمیت کواضح کرنے کےلیے کافی ہے...روایت کاحاصل بھی یہی ہےکہ حصول علم کےلیے جہان تک جانا پڑے دریغ نہ کریں اور یہ تلقین بالکل بجاہے اورکتاب وسنت کی تلقینات کےعین مطابق ہے واللہ اعلم!

ٔٔٔٔ.............................

جترال سےقاضی خلیل الرحمن لکھتے ہیں:

کیافرماتے ہیں گے علمائے دین متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ہمارے علاقہ چترال کےعلاوہ گلگت کراچی اوردیگر علاقوں میں اسماعیلی(آغاخانی) فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کافی تعداد آباد ہےجواپنے آپ کومسلمان کہلاتے ہیں مگر ان کےعقائد ونظریات مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔کلمہ:اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمد ارسول الله واشهد ان اميرالمومنين عليا ولى الله-

2۔امام :یہ لوگ آغا خان کو اپنا امام مانتے ہیں اوراسی کوجملہ اشیاء اورہر نیک وبد کامالک جانتے ہیں اس کے اقوال واحکامات کوفرمان کانام دیتے ہیں اور اس کےفرمان ماننے کوسب سےبڑا فرض سمجھتے ہیں۔

3۔شریعت :ظاہر شرع کی پابندی نہیں کرتے بلکہ آغا خان کوقرآن ناطق کعبہ بیت المعمو ر اورسب کچھ جانتے ہیں ان کی کتابوں میں ہے کہ اس ظاہری قرآن میں جہاں کہیں اللہ کالفظ آیا ہے اس سے مراد امام زماں (آغا خان) ہے۔

5۔نماز پنچگانہ کےمنکر ہیں۔ ان کےبجائے تین وقت کی دعاؤں کےقائل ہیں

5۔مسجد :مسجد کی بجائے جماعت خانہ کےنام سے اپنے لیے مخصوص عبادت خانہ بناتےہیں۔۔

6۔ زکوۃ :شرعی زکوۃ نہیں مانتے اس کے بجائے اپنے ہرقسم کےمال کادسواں حصہ مال واجبات اوردشوند کےنام سے آغا خان کےنام پر دیتے ہیں۔

7۔روزہ: رمضان المبارک کےروزہ کےمنکر ہیں۔

8۔حج :حج بیت اللہ کےمنکر ہیں اس بجائے آغا خان کی دیدار کوحج کہتے ہیں۔

9۔سلام:السلام علیکم کی بجائے ان کامخصوص سلام یاعلی مدد ہے۔

10۔جواب وعلیکم السلام کی بجائے یاعلی مدد کےجواب میں وہ مولا علی مدد کہتے ہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ:

1۔ان عقائد ونظریات کی باوجود کیا یہ فرقہ مسلمان کہلانے کامستحق ہے یاکافر ہے؟

2۔ان پر نمازہ جنازہ جائز ہے؟

3۔مسلمانوں کے مقبرہ میں ان کودفنانا جائز ہے؟

4۔ ان کےساتھ مناکحہ جائزہے؟

5۔ان کاذبیحہ حلال ہے؟

کیا ان ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کیاجاسکتا ہے؟

اللہ جواب صادر فرماکر مسلمانوں کی الجھنوں کو دور فرمائیں۔واجرکم علی اللہ

الجواب:

استفتاء میں جن امور کاذکر کیاگیا ہےان کی ہرشق ان قائل کوملت اسلامیہ کے دائرہ سےخارج کرنے کےلیے کافی ہے اونٹ رے تیری کون سی سیدھی مستفسرہ امور میں ایک ایسا امر نہیں ہےجس دین ایمان کے باب میں قابل برادشت تصور کریاجاسکتا ہو؟

سوال نامہ میں جن نظریات اعمال اورافکار کی نشاندہی کی گئی ہےان کامطالعہ کےبعد یہی کہاجاسکتا ہےیہ کوئی الگ امت ہے جسے امت محمدیہ سےدور کابھی واسطہ نہیں ہےہاں اسےامت دعوت قراردیا جاسکتا ہے جیسے دوسرے غیر مسلم گروہ ہیں... زکوۃ کے منکرین سے حضرت صدیق نےجہاد کیا... تارک نماز کو کافر تصور کیا گیا منکر نماز کا خود ہی انداز کر لیجیے !استطاعت کےباوجود جو حج نہیں کرتا اس کے متعلق فرمایا کہ: وہ اب یہودی ہوکر مرے یا عیسائی .... الغرض بنیادی ارکان دین کے انکار کےبعد کسی کومسلمان تصور کرنا کچھ آسان بات نہیں ہےاور نہ ہی ان کےساتھ وہ معاملہ کیاجاسکتا ہے جو ہم مشرب دوسرے کےساتھ روارکھ سکتے ہیں۔اخیر میں جوسوال کیے گئے ہیں ان کےسلسلے میں ہم ان کےسوا اورکیا کہ سکتے ہیں کہ افسوس ان کفریہ نظریات اورتعامل کےبعد ان سے اسلامی بنیاد بر برادرانہ معاملہ کرنےکاحوصلہ نہیں پڑتا ۔باقی رہا یہ امر کہ : وہ اپنے کومسلمان بھی کہتے ہیں.. توعرض ہےکہ کہتے رہیں قادیانی بھی غیر مسلم اقلیت قرادیے جانے کےباوجود آخر مسلمان ہی کہلارہے ہیں اس قسم کی باتوں کانوٹس اسلامی حکومت ہی لیے سکتی ہے اور وہ جیسی کچھ حکومتیں ہیں آپ سےپوشیدہ نہیں ہیں .... ارباب اقتدار کےخلاف کوئی بات منہ سے نکل جائے تو پوری انظامیہ حرکت میں آجاتی ہے رہا اسلام یا ہادی اسلام سو ان کےخلاف جتنا اورجیسا جوکچھ بھی کوئی کہتا رہے ان کےلیے یہ کوئی قابل اعتراض بات یہیں ہے۔ہاں ان کی وسعت ظرفی اپنی پوری بہار پر آجاتی ہے... اگر ان سےکوئی یہ کہہ دے کہ:

ان لوگوں کی یہ باتیں اوریہ چونچلے اسلام کی بنیادی پالیسی سےمتصادم ہیں توبول اٹھتے ہیں کہ یہ تنگ نظر ملا کی دقیانوسی باتیں ہیں....

ہمارے نزدیک اصلی روگ مسلم حکومتوں کی نامسلمانی ہے ۔ ورنہ جوجس خطاب کامستحق ہوتا ہے۔اس کواس دائرہ میں رہنےکاحکومت ضرور راہتمام کرتی ہے کیونکہ جہاں مرچ مسالے دودھ اورآٹا ۃغیرہ میں ملاوٹ جرم ہوتا ہےوہاں افکار اوردین ایمان میں ملاوٹ اور کھوٹ غش کی امیزش کی بھی قانونا جرم ہوناچاہیے۔صرف یہی نہیں کہ مسلم کی مسلمانی میں ملاوٹ نہ ہو بلکہ ہم غیر مسلم کی نامسلمانی کوبھی دوسرے کےنظریات سےپاک رکھنا ضروری تصور کرتے ہیں نامسلمانی اس طرح عزیز ازجان ہوتی ہےاس لیے اس واقعی امتیاز کو ملحوظ رکھنادونوں کے مفاد میں ہے اور دونوں کو اپنی اپنی حدود کااحترام کرناچاہیے... اور انہیں یہ بات یقین کر لینی چاہیے دوسرے مکتب صافی کواپنے مداخلت بے جاکے ذریعے گد لا کرنے سےدوسرے کا حرج ہوتا ہے اس طرح خود کوان کی اقدار کی ظاہری نمائش سےگدلا کرکے خود بھی اپنی ذات اوراپنے مکتب کوداغدار کرنے کااعتراف کربیٹھے ہیں.... ہم یہ باتیں صرف اپنے ایمانی مفاد کی بناء پر نہیں کہہ رہے بلکہ ہر غیر مسلم کےمخصوص مشرب کےلحاظ سےبھی تنگ نظری کی بھپتی کے ذریعے کسی ایمانی حدود کامذاق اڑاؤ گے تو تمہارا اپنامشن اور مشرب بھی مذاق ہوکر رہ جائے گا.... کیونکہ خواص جونمونہ دکھاتے ہیں عوام اسے ہی دین ایمان تصور کرلیتے ہیں۔

اسلام کی منجملہ خوبیوں میں سے یہ بھی ایک خوبی ہے کہ وہ دوسرے کسی مکتب فکر کی ماہیت کاحلیہ بگاڑنے کی اجازت نہیں دیتا اور ان کےجوامتیازات ہیں ان کو بعینہ پیش کرکے اپنےمتبادل نظام دکھاتا ہے پھر دجل وتلبیس یا جیرہ واکراہ جیسے ہتھکنڈوں سے کاخم لینے کی بجائے ان کو ان کے اپنے ہی حال پر چھوڑدیتا ہے۔یہی توقع ہمیں ان سےہونی چاہیے اگر یہ لوگ کامل اسلام سے مطمئن نہیں تو ن کواس کانام بھی استعمال نہیں کرناچاہیے اوراسلام نےاپنے ماننے والوں کےلیے جوحدود متعین کی ہیں ان کی ان راہوں کو مسخ کرنے سےپرہیز کیا جائے۔

بہرحال آغانی دوست جوکچھ پیش کررہے ہے ہیں وہ اسلامی زمین اسلامی حدود اوراسلامی خصائص سےقطعی مختلف ہے اس لیے جوکرنا ہے ان کو چاہیے کہ وہ اسلام کےنام پر کرنے سےاحتراز کریں تاکہ گندم اورجو کاامتیاز قائم رہے او رلوگ ہر چیز کواس کےاصلی خدوخال میں اورچہرے مہرے کودیکھ کر اس کےبارے میں خود ہی کوئی رائے قائم کرسکیں۔