آدابِ دعاء

ظاہر ہے کہ کونی امور دنیا میں ان فطری قوانین کے مطابق سر انجام پاتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔۔۔ جبکہ ہر داعی کی ہر دعا قبول و منظور ہو جانے سے ان فطری قوانین میں خلل واقع ہوتا ہے۔ مثلا ہر آدمی مال و دولت چاہتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ ہر آدمی کی اس تمنا و خواہش کو پورا کر دیں تو انسان ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے لگیں اور زندگی تباہ ہو جائے۔۔۔دنیا میں غنی و فقیر، خادم و مخدوم، حاکم و محکوم کا امتیاز ختم ہو کر رہ جائے اور اس طرح انسانی مصالح ناپید ہو کر رہ جائیں۔ حالانکہ یہ چیز دنیوی زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقررہ طریق کے خلاف بھی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَو بَسَطَ اللَّـهُ الرِّ‌زقَ لِعِبادِهِ لَبَغَوا فِى الأَر‌ضِ وَلـٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ‌ ما يَشاءُ إِنَّهُ بِعِبادِهِ خَبيرٌ‌ بَصيرٌ‌ ﴿٢٧﴾... سورة الشورىٰ

"اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کو فراخ وزق عطا فرما دے، تو لوگ زمین پر بغاوت و سرکشی کرنے لگیں، لیکن وہ جتنا چاہے ایک حساب سے نازل کرتا ہے۔ یقینا وہ اپنے بندوں کے بارہ میں باخبر اور ان پر نگاہ رکھنے والا ہے۔"

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

﴿نَحنُ قَسَمنا بَينَهُم مَعيشَتَهُم فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا وَرَ‌فَعنا بَعضَهُم فَوقَ بَعضٍ دَرَ‌جـٰتٍ لِيَتَّخِذَ بَعضُهُم بَعضًا سُخرِ‌يًّا ...﴿٣٢﴾... سورة الزخرف

"ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کر دیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے کدمت لے۔"

3۔ دعاء کے فورا قبول نہ ہونے کا آخری احتمال یہ بھی ہے کہ دعا کی قبولیت کی جو شرائط ہیں وہ معدوم ہوں۔ وہ شرائط یہ ہیں:

(1)اخلاص (2) جلدی نہ کرنا (3) نیکی کی دعا کرنا (4) حضورِ قلب (5) حلال خوری

دعا کی عدم قبولیت کی حکمت


اس بارے میں امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ سے خطاب کرتے ہوئے اپنے نفس کو سرزنش کرتے ہوئے کیا خوب کہتے ہیں:

"میں مصائب میں گھر چکا ہوں۔ دعائیں بہت کیں۔ کشادگی، خوشی و آرام طلب کیا لیکن دعا کی قبولیت متاخر ہوتی چلی گئی۔ میرا دل بہت زیادہ پریشان ہوا۔

تو میں نے اسے زور دے کر کہا، تجھ پر بڑا افسوس ہے۔ ذرا سوط تو سہی تو مملوک ہے یا مالک؟ تو خود تدبیر کرتا ہے یا تجھ پر کوئی اور مدبر ہے؟ کیا تو نہیں جانتا کہ دنیا آزمائشوں اور امتحانوں کی آماجگاہ ہے؟ جب تو اپنی مطلوبہ چیزیں ہی طلب کرے اور اپنی مرضی کے خلاف کچھ برداشت نہ کرے تو یہ آزمائش اور امتحان تو نہ رہا۔ مقاصد کا پورا نہ ہونا ہی تو آزمائش ہے۔ ذرا تکلیف و پابندی کے معنی پر غور تو کر، جو باتیں تجھے مشکل اور بھاری نظر آ رہی ہیں، پابندی کا مفہوم سمجھنے سے وہ سب ہلکی اور آسان ہو جائیں گی۔۔۔میں تجھے جو کچھ کہہ رہا ہوں اس پر تدبر کرے تو تجھے کچھ سکون مل جائے گا۔

پھر میں نے اپنے دل سے کہا، میرے پاس ایک دوسرا جواب بھی ہے۔ وہ یہ کہ تو اللہ تعالیٰ سے اپنی مطلوبہ خواہشوں اور تمناؤں کا تقاضا کرتا ہے، لیکن جو تجھ پر ذمہ داریاں ہیں، ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ یہ تو عین جہالت ہے، حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا۔ تو مملوک (غلام) ہے اور عقلمند غلام اپنے مالک کے حقوق کی ادائیگی خوب کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ مالک اس کی خواہشات کو پورا کرنے کا پابند نہیں ہے۔

میں نے دل سے مخاطب ہو کر پھر کہا کہ میرے پاس ایک تیسرا جواب بھی ہے۔ تو نے دعاء کی قبولیت کی تاخیر کو بہت زیادہ محسوس کیا ہے، حالانکہ تو نے گناہ کر کر کے خود دعاء کی قبولیت کے راستے مسدود کر دئیے ہیں۔ اگر تو ان بند راستوں کو کھول دے تو دعاء جلد قبول ہو جائے گی۔

شاید تجھے نہیں معلوم کہ آرام و راحت کا اصل سبب تقویٰ ہوتا ہے۔ کیا تو نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا:

﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجعَل لَهُ مَخرَ‌جًا ﴿٢﴾ وَيَر‌زُقهُ مِن حَيثُ لا يَحتَسِبُ ...﴿٣﴾... سورةالطلاق

"جو شخص اللہ سے ڈرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے (پریشانیوں) سے خلاصی کی صورت پیدا کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے اہم و گمان بھی نہ ہو؟"

نیز فرمایا:

﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجعَل لَهُ مِن أَمرِ‌هِ يُسرً‌ا ﴿٤﴾... سورةالطلاق

"اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا تو وہ اس کے کام میں سہولت پیدا کر دے گا۔"

کیا تجھے یہ بات ابھی سمجھ میں نہیں آئی کہ ادلے کا بدلہ ہوتا ہے اور خوابِ غفلت میں مدہوش ہونا، تمناؤں کی کھیتی میں پہنچنے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔۔۔یہ باتیں سن کر دل مطمئن ہو گیا۔ میں نے دل سے مخاطب ہو کر پھر کہا کہ میرے پاس جو تھا جو اب بھی ہے، وہ یہ کہ تو ایسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے جس کے انجام سے تو بے خبر ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں تیرا نقصان ہو۔۔۔تیری مثال اس بیمار بچے کی ہے، جسے بخار ہو اور میٹھی چیز طلب کرے۔ تیرے معاملات کی تدبیر کرنے والا ہی تیری مصلحتوں کو بہتر جانتا ہے۔۔۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَعَسىٰ أَن تَكرَ‌هوا شَيـًٔا وَهُوَ خَيرٌ‌ لَكُم... ٢١٦﴾... سورة البقرة

جب یہ باتیں دل کو سمجھ میں آ گئیں تو اسے خوب اطمینان ہو گیا۔ تاہم میں نے ایک بار پھر دل کو خطاب کیا اور کہا کہ میرے پاس ایک پانچواں جواب بھی ہے۔ وہ یہ کہ تجھے تیرے اس مقصود مطلوب کے ملنے سے تیرے ثواب اور درجات میں کمی آجائے گی۔ لہذا اللہ تعالیٰ کا یہ چیز تجھے نہ دینا بھی اس کا فضل ہے۔ اگر تو ایسی چیز کی دعاء کرے جو اخروی لحاظ سے تیرے لیے مفید ہو تو یہ زیادہ بہتر اور مناسب ہے۔ اے دل میں نے تجھے جو کچھ کہا ہے، اسے خوب سمجھ لے۔۔۔تو دل نے میری باتیں سن کر کہا، تو نے جو تفصیل بیان کی مجھے خوب سمجھ میں آ گئی ہے۔" (صید الخاطر 2/291)

دعاء کی بدعات


یہ دعاء سے متعلقہ چند وہ بدعات ہیں، جن کی تائید میں کتاب و سنت میں کوئی قوی دلیل موجود نہیں۔ احکامِ اسلام کو ملاوٹ سے محفوظ رکھنے کے جذبہ کے پیش نظر ہم ان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تاکہ جو لوگ ان بدعات میں بالفعل ہو چکے ہیں، یا واقع ہونے کے قریب ہیں، ان سے احتراز کریں۔

1۔ دعاء کے بعد چہرہ پر ہاتھ پھیرنا:

چونکہ اس بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ کچھ بھی ثابت نہیں، لہذا یہ بدعت ہے۔ اس بارہ میں محقق علماء کرام کی تحقیق ملاحظہ ہو:

سنن ابی داؤد میں ایک حدیث "«فَإِذَا فَرَغْتُمْ، فَامْسَحُوا بِهَا وُجُوهَكُمْ» (رقم الحدیث: 1485) مندرجہ ذیل سند کے ساتھ مروی ہے:

«عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ،»

اس حدیث کے بعد امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ كُلُّهَا وَاهِيَةٌ، وَهَذَا الطَّرِيقُ أَمْثَلُهَا وَهُوَ ضَعِيفٌ أَيْضًا»)

کہ "یہ حدیث محمد بن کعب سے کئی سندوں کے ساتھ مروی ہے۔ اور وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔ صرف یہی ایک سند باقی سندوں سے بہتر اور اچھی ہے لیکن یہ بھی ضعیف ہے۔"

اس حدیث پر امام البانی یوں تعلیق فرماتے ہیں:

" اس حدیث کے ضعف کا سبب وہ مبہم راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں ہوا۔ ابن ماجہ وغیرہ محدثین نے اس کا نام صالح بن حسان ذکر کیا ہے۔ (اس کی تفصیل میں مشکوٰۃ المصابیح کے حاشیہ پر دے چکا ہوں) یہ بھی بہت زیادہ ضعیف ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ زیادتی منکر ہے۔ ابھی تک مجھے اس کی تائید میں کوئی شاہد نہیں ملا۔ شاید اسی لیے العز بن عبدالسلام نے لکھا ہے کہ دعاء کے بعد جاہل کے سوا کوئی آدمی چہرہ پر ہاتھ نہیں پھیرے گا۔ اور اس پر علامہ منادی کا اعتراض درست نہیں۔ کیونکہ یہ زیادتی محض ضعیف ہی ہوتی تب بھی اس پر عمل جائز نہ ہوتا۔ کیونکہ اس میں ایک شرعی حکم بیان ہوا ہے۔ اور شرعی احکام ضعیف احکام سے ثابت نہیں ہوتے۔ اب جبکہ یہ بہت ہی زیادہ ضعیف روایت ہے، تو اس سے یہ مسئلہ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے۔" (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ 2/146)

2۔ انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگانا:

یہ بھی ایک بدعت ہے۔ خیرالدین وائلی کہتے ہیں کہ مشہور صوفی ابوالعباس بن ابی بکر الرداد الیمانی اپنی کتاب "موحیات الرحمہ وعزائم المغفرۃ" میں مجہول راویوں کی منقطع سند کے ساتھ خضر علیہ السلام سے بیان کرتے ہیں کہ جو شخص اذان سنے اور "أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ)" سن کر یوں کہے:

(مرحبا بحبيبى وقرة عينى محمدبن عبدالله ﷺ)

اور انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگائے تو اس کی آنکھیں کبھی نہیں دُکھیں گی۔ اس کے بعد ایک اور حدیث بھی پیش کی ہے۔

ان دونوں حدیثوں کا ذکر کرنے کے بعد امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "المقاصد الحسنہ" کے صفحہ 384 پر رقم طراز ہیں:

(ولا يصح فى المرفوع من كل هذا شئى)

کہ "اس بارہ میں کوئی مرفوع حدیث صحیح ثابت نہیں۔"

خیرالدین وائلی لکھتے ہیں کہ عام مسلمان جو اذان سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگاتے ہیں، ان کی دلیل یہی حدیث ہے۔۔۔اور چونکہ یہ حدیث صحیح نہیں، لہذا اس کا اعتماد اور مؤقف شدید کمزور ہے۔ (المسجد فی الاسلام ص206)

3۔ اجتماعی دعاء:

لوگ کسی وبا سے حفاظت اور کسی اجتماعی پریشانی اور مصیبت کے ازالہ کی دعاء کی خاطر مسجد میں اکٹھے ہوتے ہیں اور مل کر دعاء کرتے ہیں۔ چونکہ یہ عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں، لہذا یہ عمل ان بدعات میں سے ایک ہے، جن کی شرع میں کوئی بنیاد نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے اکابر کثرت سے موجود تھے۔ لیکن ان میں سے کسی سے بھی ایسا کرنا نہ تو منقول ہے اور نہ ہی کسی نے اس کا حکم دیا۔ (ایضا ص292)

4۔ دعاء کے وقت ہاتھ سینے سے لگانا:

حدیث میں، جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دعاء کے وقت آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔ سینے سے ہاتھ ملانا خلافِ سنت ہے۔

5۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بطورِ وسیلہ پیش کرنا:

اس بارہ میں لوگوں کی دلیل ایک حدیث ہے جس میں ہے:

توسلو بجاهى قان جاهى عندالله عظيم

"تم میرے مقام کا وسیلہ پیش کیا کرو۔ کیونکہ میرا مرتبہ اور مقام اللہ کے ہاں بہت بڑا ہے۔"

یہ حدیث باطل ہے، کتب حدیث میں اس کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "القاعدۃ الجلیلۃ" میں فرماتے ہیں:

"بلاریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تمام انبیاء علیھم السلام کے مقام سے بڑھ کر ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مخلوق کا مقام خالق کے ہاں وہ نہیں، جو مخلوق کا مقام مخلوق کی نظر میں ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکتا۔ اس کے بالمقابل مخلوق مخلوق کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر دیتی ہے۔ اور مطلوبہ چیز کے حصول میں وہ ایک دوسرے کے شریک بھی ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔"

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُلِ ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِ اللَّـهِ لا يَملِكونَ مِثقالَ ذَرَّ‌ةٍ فِى السَّمـٰوٰتِ وَلا فِى الأَر‌ضِ وَما لَهُم فيهِما مِن شِر‌كٍ وَما لَهُ مِنهُم مِن ظَهيرٍ‌ ﴿٢٢﴾وَلا تَنفَعُ الشَّفـٰعَةُ عِندَهُ إِلّا لِمَن أَذِنَ لَهُ حَتّىٰ إِذا فُزِّعَ عَن قُلوبِهِم قالوا ماذا قالَ رَ‌بُّكُم قالُوا الحَقَّ وَهُوَ العَلِىُّ الكَبيرُ‌ ﴿٢٣﴾... سورةسبا

"(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ان (مشرکین) سے کہہ دیجئے کہ جن کو تم اللہ کے سوا (اپنا معبود) سمجھے بیٹھے ہو ان کو پکار کر دیکھ لو، وہ نہ تو آسمانوں میں کسی ذرہ برابر چیز کے مالک ہیں اور نہ زمین ہی میں، زمین اور آسمان کی ملکیت میں تو ان کا حصہ تک نہیں۔ اور ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار بھی نہیں۔ اور اللہ کے ہاں کسی کے لیے بھی سفارش مفید نہیں الا وہ شخص کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ سفارش کی اجازت مرحمت فرما دیں۔"

4۔ "(اقامهاالله وادامها)" دعاء پڑھنا:

نماز کے لیے جب اقامت ہو، اور اقامت کہنے والا جب کلمہ "(قدقامت الصلوة)" کہے تو سننے والے اس کلمہ کے جواب میں "( اقامهاالله وادامها)" کہتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں، کیونکہ اس بارہ میں جو حدیث ہے وہ ضعیف ہے۔ لہذا اس کا ترک کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا واجب ہے جبکہ اکثر لوگوں کا اس پر عمل ہے۔

محمد القشیری کہتے ہیں، جس حدیث میں یہ بیان آیا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے "( قدقامت الصلوة)" کہا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں "( اقامهاالله وادامها)" فرمایا۔

نیز ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں:

«وجعلنى من صالحى اعمالها او اهلها»

تو اس حدیث کو امام ابوداؤد نے اپنی السنن میں اور ابن السنی نے شہر بن حوشب سے روایت کیا ہے لیکن یہ راوی محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک ضعیف اور دوسروں کے نزدیک متروک ہے۔

میزان الاعتدال میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"اس کی روایات قابل حجت اور قابل عمل نہیں۔ البتہ بعض ناقدین نے اسے ثقہ بھی کہا ہے۔" (السنن والمتبدعات ص51)

7۔ (حسبى من سؤالى علمه بحالى)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ دعویٰ باطل ہے:

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں چونکہ اللہ تعالیٰ بندے کے تمام احوال و ضروریات سے خوب واقف ہیں، لہذا دعاء اور سوال کی کوئی ضرورت نہیں۔ بلکہ یہ لوگ دعاء کرنے والے کو الزام دیتے ہیں کہ گویا وہ دعاء کر کے اللہ پر یہ الزام تراشی کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے حالات سے باخبر نہیں۔۔۔ان لوگوں کی یہ سوچ بہت بڑی گمراہی ہے۔ کیا تمام انبیاء کرام صلوات اللہ علیھم اجمعین بھی دعائیں کر کے اللہ رب العزت پر معاذاللہ الزام و تہمت کے مرتکب ہوتے رہے؟۔۔۔یہ بہت بڑی جسارت ہے۔

ان صوفی حضرات کے اس دعویٰ کی سب سے بڑی دلیل وہ بے بنیاد حدیث ہے، جسے یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ اسرائیلیات میں سے ہے، اور مرفوع صحیح روایات میں اس کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ اس حدیث کو امام بغوی نے سورۃ الانبیاء کی تفسیر میں ذکر کیا ہے اور ضعف کی نشاندہی بھی کر دی ہے۔

حدیث یوں ہے:

"کعب الاحبار سے روایت ہے، لوگوں نے جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا تو حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا "ابراہیم علیہ السلام، کوئی خدمت ہو تو ارشاد فرمائیں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا"آپ کے لائق اس وقت کوئی کام نہیں۔" جبریل علیہ السلام نے کہا، "اللہ ہی سے کچھ مانگ لیں۔" تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:

(حسبى من سؤالى علمه بحالى)

"چونکہ میرا رب میرے حالات سے خوب واقف ہے، لہذا مجھے سال کرنے اور دعاء کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔"

لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان لوگوں کا رد کرتی اور تاقیامت ان کے منہ کو پتھروں سے بھر رہی ہے:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

«سلو الله كل شئى حتى الشسع فان الله عزوجل ان لم ييسره لم يتيسر»

"ہر چیز یہاں تک کہ تسمہ تک، اللہ ہی سے مانگو۔ کیونکہ یہ بھی اگر اللہ تعالیٰ مہیا نہ فرمائیں تو نہیں مل سکتا۔"

خاتمہ


آخر میں ایک دعاء کر کے ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں:

(اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت، خلقتني وأنا عبدك، وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت، أعوذ بك من شر ما صنعت، أبوء لك بنعمتك علي، وأبوء لك بذنبي فاغفر لي، فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت)

"یا اللہ تو میرا رب ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو ہی میرا خالق ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ مجھ سے جس حد تک ہو سکا تیرے ساتھ کیے ہوئے وعدوں اور عہد پر قائم رہوں گا۔ میں اپنے اعمال کی برائیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اپنے اوپر تیرے انعامات کے سبب تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں۔ میں اپنے گناہوں کو لے کر تیری طرف آتا ہوں۔ کیونکہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخشتا۔"

آخر میں آپ کو ایک حدیث دوبارہ یاد دلا کر اپنی گزارشات کو ختم کرتا ہوں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مسلمان کی اپنے مسلمان بھائی کے حق میں اس کی غیر موجودگی میں کی گئی دعاء مقبول ہے۔۔۔لہذا سب مسلمان بھائی میرے لیے دعاء فرمائیں۔

(سبحانك اللهم وبحمدك اشهد ان لا اله الا انت استغفرك واتوب اليك!


حاشیہ و حوالہ جات

1. دعا کے بعد چہرہ پر ہاتھ پھیرنا (تعلیق از مترجم)

2. دعاء کے بعد چہرہ پر ہاتھ پھیرنا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر اسلاف سے ثابت ہے۔ اس لیے اسے بدعت کہنا درست نہیں۔ الادب المفرد میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے موقوفا باسناد صحیح نقل فرمایا ہے:

3. (ضعيف) عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ- وَهُوَ: وَهْبٌ - قَالَ: "رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ وَابْنَ الزُّبَيْرِ يَدْعُوَانِ، يُدِيرَانِ بِالرَّاحَتَيْنِ عَلَى الوجه"

4. (الادب المفرد ص159 نمبر 609، باب رفع الایدی فی الدعاء)

5. "ابونعیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کو دیکھا، وہ دونوں کے وقت ہتھیلیوں کو چہرہ پر پھیرتے تھے۔"

6. مولانا ارشاد الحق اثری فرماتے ہیں کہ:

"اس مسئلہ کے بارہ میں امام طبرانی نے یزید بن سعید الکندی کی روایت سے ایک حدیث نقل کی ہے۔ اس کے بارہ میں شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب الامالی (مخطوط) میں رقمطراز ہیں: اس کی سند میں ایک راوی ابن لہیعہ ضعیف ہے اور اس کا استاذ غیر معروف ، لیکن اس حدیث کے مؤید شاہد موجود ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کچھ نہ کچھ بنیاد ہے۔ نیز حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی باسناد حسن اس کی تائید مروی ہے۔ اس کلام سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو اس عمل کو بدعت قرار دیتے ہیں۔" (دیکھئے العلل 2/357)

7. اسی طرح بلوغ المرام میں حضرت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ دعاء کے بعد چہرہ پر ہاتھ پھیرنے کی احادیث کے بارہ میں فرماتے ہیں:

مجموعها يقضى بانه حسن)

کہ "ان احادیث کو جمع کرنے سے یہ حدیث حسن بن جاتی ہے۔" (بلوغ المرام حدیث نمبر 1463)

8. اسی طرح اس حدیث کی شرح میں علامہ امیر صنعانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

(وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ مَسْحِ الْوَجْهِ بِالْيَدَيْنِ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْ الدُّعَاءِ.(سبل السلام1230/4))

کہ "اس حدیث سے دعاء کے بعد چہرہ پر ہاتھ پھیرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔"

9. خلاصہ کلام یہ کہ مندرجہ بالا گزارشات سے ثابت ہوا، اس بارہ میں بہت سی ضعیف احادیث مروی ہیں۔ تاہم چونکہ یہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بھی صحیح سندوں کےساتھ ثابت ہے، لہذا اسے بدعت کہنا درست نہیں۔ زیادہ سےزیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسنون نہیں۔

10. "محدث" عنقریب اس حدیث کی مکمل تحقیق جناب غازی عزیر کے قلم سے شائع کر رہا ہے۔ ان شاءاللہ

11. سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ 1/28

12. صحیح بخاری 11/98۔ یہ دعاء سید الاستغفار ہے۔ احادیث میں آیا ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ دعاء والی یقین کے ساتھ صبح کو پڑھ لے اور شام ہونے سے پہلے فوت ہو جائے، وہ جنتی ہے۔ اسی طرح جو آدمی شام کو یہ دعاء دلی یقین کے ساتھ پڑھ لے اور رات کو صبح ہونے سے پہلے فوت ہو جائے، وہ بھی جنتی ہے۔