پارلیمنٹ اور تعبیر شریعت

پانچواں اور آخری نقطہ، نویں آئینی ترمیم اور شریعت بل کے حوالے سے پارلیمنٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے اختیار کے تقابل کا ہے۔

دراصل پارلیمنٹ اور تعبیر شریعت کی حالیہ بحث کا محرک یہی دونوں بل ہیں۔ جن کا تعلق نفاذِ شریعت کے طریقہ کار سے ہے۔۔ان میں سے نویں آئینی ترمیم کا بل حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا، جو ایوان بالا (سینٹ) سے پاک ہو کر قومی اسمبلی (ایوان زیریں) میں آ چکا ہے۔ جبکہ شریعت بل، پرائیوٹ ہونے کی بناء پر مختلف کمیٹیوں کے سپرد ہوتا ہوا رد و قبول کی دوہری پالیسی کے حربوں کا شکار ہے۔ اگرچہ نویں ترمیم حکومت کے بعض اہم مفادات کے پیش نظر اب تک پاس ہو جانی چاہئے تھی۔ لیکن چونکہ حکومت کے لیے، اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت، اپنے قریبی تعلق رکھنے والے بعض دینی حلقوں کو مطمئن رکھنا بھی ضروری تھا۔ اس لیے اس نے "عائلی قوانین" ایسے نازک مسئلہ کو بھی اس ترمیم کی رو سے وفاقی شرعی عدالے کے دائرہ اختیار سماعت میں شامل کرنے کی حامی بھر لی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت اور مذکورہ دینی حلقوں کی مصالحت کے باوجود ملک کے سیکولر حلقے نفاذِ شریعت کی راہ میں ایک اور مخالف محاذ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان لوگوں نے چند مغرب زدہ عورتوں کا سہارا لے کر جلسے جلوس اور مظاہروں کی پالیسی اپنائی، تو حکومت کی راہ میں۔۔ جو نویں ترمیم کو "سرکاری شریعت بل" کے طور پر پاس کرا کے دینی حلقوں کو یہ تاثر دینا چاہتی تھی کہ وہ نفاذ شریعت کے بارے میں مخلص ہے۔۔۔ایک نھی رکاوٹ حائل ہو گئی۔ اور یوں وہ اپنی تمام تر "نیک تمناؤں" کے باوجود نویں آئینی ترمیم کو پاس کرانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نویں آئینی ترمیم سے حکومت کا جو بڑا اہم مفاد وابستہ ہے، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

نفاذ شریعت کے نعروں کی شورا شوری میں، ایک ایسا قانونی قدم چودھویں صدارتی آرڈی ننس (1985ء) کی شکل میں اٹھ چکا تھا جو ملک کے دستور و قانون میں ایک انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اور یہ قرار دادِ مقاصد کو آئین کے مقدمہ کی بجائے اصل آئین کی دفعہ 2 میں "2۔الف" کے اضافہ سے شامل کرنا ہے۔ جس کی بناء پر اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات وسیع ہو کر قرآن و سنت کی متعین تعلیمات کی روشنی میں ہر قانون کی جانچ پرکھ کی جا سکتی ہے۔ بلکہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس تنزیل الرحمن نے تو تین مقدمات میں اسی بناء پر سودی کاروبار کے بعض ناجائز حیلوں کو قرار داد مقاصد کی اسی آئینی دفعات 2۔الف کے منافی قرار دے بھی دیا ہے۔ اب حکومت کی نظر میں قرارداد مقاصد کی اس مؤثر حیثیت کا واحد توڑ یہ ہے کہ نویں آئینی ترمیم کی پیش کردہ آئینہ دفعہ 2 میں وہ ترمیم ہو جائے، جس سے قرآن و سنت کے احکام کی تعبیر و تفنین کے لیے پارلیمنٹ کا وضع کردہ طریق کار ہی مجاز حیثیت رکھتا ہو۔ چنانچہ یہ وہی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے اس سے قبل بھی دستور 1973ء میں ان دفعات کو غیر مؤثر بنایا گیا تھا جو بظاہر استقلال پاکستان کی دینی اساس کو تسلیم کرتے ہوئے آئین میں رکھی گئی تھیں۔ مثلا دفعہ 227 یوں ہے:

"All existing laws shall be brought in conformity with the Injuctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunnah, in this part referred to as the Injuctions of Islam, and no law shall be enacted which is repugnant to such Injuctions"

اس دفعہ میں تعبیر کا اندازہ خواہ کچھ بھی ہو، تاہم دو درج ذیل اہم باتیں اس میں آ گئی ہیں:

1۔ موجودہ قوانین کو قرآن و سنت سے ماخوذ اسلامی احکامات کے مطابق بنایا جائے گا۔

2۔ آئندہ کوئی قانون ان اسلامی احکامات کے منافی نہیں وضع ہو گا۔

یہ دو آئینی نکتے جس قدر قانونی اہمیت کے حامل تھے، اسی قدر انہیں غیر مؤثر بنانے کے لیے ایک انتہائی آسان تدبیر یہ کی گئی کہ اس دفعہ کی ذیلی دفعہ 2 میں بطور توضیح درج ذیل الفاظ کا اضافہ کیا گیا:

"Effect Shall be given to the provisions of clause (I) only in the manner provided in this part"

کہ "دفعہ ہذا کے مؤثر ہونے کی صرف وہی صورت ہو گی جو اس باب میں (طریق کار کی صورت میں) طے کر دی گئی ہے۔"

چنانچہ یہ طریق کار اس باب کی اگلی دفعات میں مذکور ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سات سال تک تو محض سفارشات مرتب کرے گی۔ اور اس کے بعد بھی پارلیمنٹ کو ان سفارشات کے رد و قبول کے لامحدود اختیارات حاصل ہوں گے۔۔۔اب قارئین کرام بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ وہ طریق کار ہے، جس کی بناء پر یہ اہم دفعہ (227) بڑی آسانی سے کالعدم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اور بالکل یہی کام اب نویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کی دفعہ 2 میں "قرآن و سنت سے ماخوذ احکامات" کے سلسلہ میں پارلیمنٹ کے تعبیر و تقنین کے اختیارات سے لیا جانا مقصود ہے۔۔۔مجوزہ نویں آئینی ترمیم کا وہ حصہ جو دفعہ 2 میں۔۔۔"Islam shall be the state religion of Pakistan"۔۔کے الفاظ کے بعد اضافہ کرنے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے، پیش خدمت ہے:

"and the Injuctions of Islam as laid down in Holy Quran and Sunnah shall be supteme Law and source of guidance for legislation to be administered through laws enacted by the Majlis-e-Shoora (Parliament) and Provincial Assemblies, and for policy making by the Government"

یعنی قرآن و سنت کے احکامات کی تعبیر اور اس کی راہنمائی میں قوانین کی تشکیل پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں جو کچھ بھی کریں گی، انہیں اسلامی احکامات کی حیثیت سے بالا دستی حاصل ہو گی۔۔تو قرآن و سنت اصلی صورت میں کہاں باقی رہے، اسلام کے سرکاری مذہب بننے کا کیا اثر رہا اور قرارداد مقاصد کی آزادی کب مؤثر ہو سکے گی؟۔۔۔ظاہر ہے یہ نفاذ اسلام نہیں، بلکہ الفاظ کا ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جس سے عوام کو دھوکا تو دیا جا سکتا ہے، انہیں گوہر مقصود حاصل نہیں ہو سکتا۔۔۔حالانکہ مجوزہ آئینی ترمیم سے قبل ایک قرار داد، جو قومی اسمبلی میں 6 اکتوبر سئہ 1985ء کو پیش کر کے پاس کرائی گئی تھی، اس کے الفاظ یوں تھے:

"Quran and Sunnah shall be the supreme law of the country"

لیکن تدوین عبارت ہی میں قرآن و سنت کی ملک میں سپریم حیثیت کو تبدیل کر کے من مانا مفہوم دے دیا گیا۔ فاناللہ وانا الیہ رجعون۔

ہماری وزارت قانون اس بارے میں کس قدر حساس اور متحرک ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سئہ 77ء کی تحریک نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نتیجہ میں برسراقتدار آنے والے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر مملکت جنزل محمد ضیاء الحق یہ اعلان کرتے ہیں کہ قرآن و سنت کے منافی ہر قانون منسوخ کر دیا جائے گا۔ لیکن جب یہ آرڈر، صدارتی حکم نمبر 1 (1980ء) کی صورت میں وزارت قانون کی طرف سے مرتب ہو کر وفاقی شرعی عدالت کی تشکیل کا باعث بنا تو وفاقی شرعی عدالت تقریبا غیر مؤثر تھی۔ کیونکہ آئین کے باب 3۔الف کی تفصیلات جو اس عدالت کی تشکیل اور اختیارات کے بارے میں ہیں، ان کی رو سے ججوں کو صدرِ مملکت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کے علاوہ ان کے عدالتی اختیارات نہایت محدود تھے۔ چنانچہ انہیں قرآن و سنت کی روشنی میں بنیادی دستور "Constitution" مسلمانوں کے شخصی قوانین بشمول عائلی قوانین، عدالتوں اور ٹریبونلوں کے قوانینِ ضابطہ "Procidural Law" اور دس سال تک کے لیے مالی قوانین پر غور کرنے کا حق حاصل نہ تھا۔ اب نویں آئینی ترمیم کے ذریعہ بظاہر یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار کو وسعت دی جا رہی ہے، لیکن حال جوں کا توں ہے۔۔دستور، جو ملک کا بنیادی قانونی ڈھانچہ اور تفصیلی قوانین کا منطع و مرجع ہوتا ہے، کتاب و سنت کی نگرانی سے مسلسل دور رکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح مالی قوانین جو سرمایہ دارانہ نظام کی اسا پر مبنی ہیں، انہیں وفاقی شرعی عدالت کے اختیار سماعت میں دینے کے باوجود حیلہ سازی سے وہ تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے کہ سرمایہ داریت پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ کیونکہ وفاقی شرعی عدالت لمبی چوڑی سماعت کر کے ماہرین معاشیات سے مشوروں کے باوجود صرف سفارش کا اختیار رکھتی ہے، اس سلسلہ میں کوئی ہدایت جاری نہیں کر سکتی۔۔۔گویا نفاذ شریعت کا یہ سارا شہرہ شاعر کے اس شعر کی مصداق ہے

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خون نکلا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاصل یہ ہے کہ نویں آئینی ترمیم کے منظور ہو جانے کے باوجود دستور اسی طرح سیکولر رہے گا جیسے اس سے قبل بھی اس میں موجود متدعیہ اسلامی دفعات کے باوجود یہ سیکولر تھا۔ نیز کتاب و سنت کی بالا دستی کی بجائے پارلیمنٹ ہی کی بالادستی قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم عائلی قوانین کے نازل مسئلہ کو چھیڑ کو خود وفاقی شرعی عدالت کی اہمیت کو مشکوک بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ پارلیمنٹ کی طرح قانون ساز ادارہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد سیاسی کشاکش سے الگ رہتے ہوئے پرسکون عدالتی طریق کار سے مروجہ قوانین کے بارے میں یہ جائزہ لینا ہے کہ وہ کہاں تک اسلامی ہیں یا کون سا قانون کتاب و سنت کے منافی ہے؟۔۔۔عدلیہ کے اصل فنکشن کے بارے میں ہم آئندہ گفتگو کریں گے۔

یوں آئینی ترمیم پر اس تبصرہ سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ سرکار کی طرف سے اسے شریعت بل کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے، لیکن اس سے نہ صرف نفاذ شریعت کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکے گی، بلکہ یہ قرار داد مقاصد کے تعطل کا باعث بھی بنے گی۔ علاوہ ازیں یہ ترمیم، دستور کی سیکولر حیثیت اور سرمایہ داریت کے تحفظ کی ضمانت کے طور پر منظور کرائی جا رہی ہے۔ اسی بناء پر ہم کہتے ہیں کہ 1973ء کا دستور سیکولر ہے اور جس کے خلاف قومی اتحاد نے 1977ء میں نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک چلائی تھی۔ اس تحریک سے یہ مقصود تو حاصل نہ ہوا البتہ اس کے نتیجہ میں جو مارشل لاء حکومت وجود میں آئی، نفاذ اسلام کے بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود اس کی جملہ کوششیں سیکولر ازم کی روح کی بقا کے لئے ہی وقف رہی ہیں۔ لہذا نفاذ شریعت کی اولین مخلصانہ کوشش درحقیقت جولائی سئہ 85ء میں سینٹ میں پیش کیا جانے والا "نفاذ شریعت بل" ہے۔ اور جس نے علی الاعلان سیکولر ازم کو چیلنج کر دیا ہے۔ تاہم مفاذ شریعت کے مسئلہ پر مسلمانوں کے مکمل اتفاق کے باوجود اس بل میں شریعت کی تعریف نیز اس کے نفاذ کے طریق کار پر گفتگو ہو سکتی ہے اور اس سلسلے میں خود بل کے محرکین نے بھی کبھی دروازہ بند نہیں کیا ہے۔ کیونکہ شریعت پر کسی فرقہ کی اجارہ داری نہیں ہے اور کتاب و سنت کے دلائل سے بل کے الفاظ میں اصلاح و ترمیم کی گنجائش بہرحال موجود ہونی چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب ہم اس بل کے حوالہ سے شریعت کی تعریف اور اس کی تعبیر کے طریق کار کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہیں۔

اس سلسلہ میں ایک نقطہ نظر تو متعصب مقلدین کا ہے۔ جن کے نزدیک، ملک میں جس فقہ کے حاملین کی اکثریت ہو، اسی فقہ کو پبلک لاء کی حیثیت سے قرآن و سنت کی تعبیر کی جائے۔ گویا اس نقطہ نظر سے کفر و اسلام کے امتیاز کا طرز عمل خود مسلمانوں کے درمیان آزمانا چاہئے کہ پبلک لاء اگرچہ سب کے ایک ہوں لیکن شخصی معاملات میں سب کا اسلام جدا جدا رہے۔ حالانکہ قانون کی ایسی تفریق حقیقی مسلمانوں اور کافروں کے بارے میں بھی متفقہ نہیں ہے۔

اس کے برعکس دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر فرقہ کی اپنی خاص فقہ کو ہی قانونی تعبیر کی حیثیت حاصل ہو۔۔۔حکومت کی طرف سے اسی نقطہ نظر کو بظاہر اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ اس سے فرقہ وارانہ کھچاؤ کم ہو گا۔ حالانکہ فرقہ واریت کو اس سے تقویت ملے گی اور یہ پاکستانی شیعہ کی رائے ہے، جو پاکستان میں اقلیت ہونے کے باوجود اپنی فقہ (جعفری) کو اکثریتی فقہ (حنفی) کے مقابلہ میں اسی طرح منوانا چاہتے ہیں، جس طرح قبل ازیں وہ دینیات اور تاریخ اسلام کے نصابوں میں اس برابری کو منوا چکے ہیں۔ اور جس سے انہیں یہ فائدہ حاصل ہوا ہے کہ صرف وہی افکار و تاریکی نتائج نصابی کتب میں شامل ہو سکے ہیں جو شیعی عقیدہ کے مؤید تھے۔ اس سلسلہ میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اور امہات المومنین رضی اللہ عنھن سے لے کر بنو امیہ اور بنو ہاشم تک کے سارے سیاسی اختلافات شامل ہیں۔۔ واضح رہے کہ مذکورہ نقطہ نظر صرف پاکستانی شیعہ کا ہے۔ جبکہ ایرانی شیعہ اکثریتی فقہ والا قانون خود ایران میں اپنائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہاں اثنا عشری شیعہ کی اکثریت ہے۔

ہر فرقہ کے لیے اس کی اپنی خاص تعبیر کو پبلک لاء کی حیثیت سے تسلیم کرانے کا نقطہ نظر بظاہر بے ضرر نظر آتا ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک میں ان گنت فرقوں کی تعبیرات کا سوال اٹھ کھڑا ہو گا کہ جہاں دیوبندی حنفی، ندوی حنفی، بریلوی حنفی کی مختلف سنی جماعتوں اور جمعیتوں کے ساتھ ساتھ اثنا عشری شیعہ (جعفری) اسماعیلی شیعہ (آغا خانی، بوہری داؤدی) اور بہائی شیعہ کو بھی پبلک لاء میں اپنی اپنی تعبیروں کو شامل کرنے کا موقعہ ملے گا، وہاں اہل قرآن، اہل حدیث، نیز ترقی یافتہ اور نت نئے اسلام طلوع کرنے والے بھی اپنی اپنی پرانی اور نئی فقہیں تشکیل دے کر پبلک لاء میں انہیں شامل کرنے کا مطالبہ پیش کریں گے۔ جس سے ایک طرف اگر فرقہ واریت کو قانونی حیثیت حاصل ہو گی، تو دوسری طرف پبلک لاء کے سلسلہ میں نفاذ شریعت کا معاملہ

شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرہا


والا ہو گا۔۔۔کہ پبلک لاء ملک کے عوام اور حکمرانوں کو ایک لڑی میں پرونے کا ذریعہ ہوتا ہے، جس کے ذریعہ تمدن، معیشت اور سیاست میں استواری بھی ان کا مقصود ہوتی ہے۔۔۔لیکن مذکورہ صورت میں یہ ناممکن ہو گا۔ کیونکہ پہلے اگر فرقہ وارانہ اختلافات کا دائرہ صرف عقائد، عبادات اور خاندانی رسومات تک محدود تھا اور مذکورہ فرقوں کے امتیازی مسائل کی گرما گرمی بھی اسی حد تک تھی جسے قانونی اصطلاح میں "شخصی معاملات" کہتے ہیں۔ لیکن اب اس فرقہ واریت کو فروغ دے کر اجتماعیت کے جملہ شعبوں معاشرت معیشت اور قانون و سیاست تک وسعت دے دی جائے گی۔ جس سے عوام کو یہ "فائدہ" حاصل ہو گا کہ وہ آپس میں لڑتے مرتے رہیں گے اور حکومت بڑے اطمینان سے "Divide and rule" کے مزے لیتی رہی گی۔۔۔پھر یہ انتشار فکری نئے طلوع اسلام کے مواقع پیدا کرے گا یا اس سے ان خفیہ تحریکوں کو فائدہ پہنچے گا جو فکری انتشار کے اندھیروں میں سازشوں کے ذریعہ قوت و اقتدار کے چراغ جلا لیا کرتی ہیں اور جس کا نتیجہ بار بار مارشل لاء کا نفاذ ہوتا ہے۔۔۔پس قانونی اعتبار سے متعدد یا مختلف پبلک لاء کا تصور ہی محال بلکہ احمقانہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تفصیل سے یہ ظاہر ہے کہ شریعت کی تعریف اور اس کی تعبیر کے طریق کار کے مسئلہ میں محولہ بالا دونوں نقطہ نظر افراط و تفریط کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ ملک میں ایک ہی پبلک لاء ہو سکتا ہے اور وہ شریعت کی نظر میں کتاب اللہ ہے، جس کی تعبیر بھی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں متعین ہے اور جس کی طرف اسی سلسلہ کی گزشتہ سطور میں ہم بار بار تفصیلی بحثوں سے توجہ دلا چکے ہیں کہ کتاب و سنت ہی ملک کے تمام طبقوں کے اتحاد اور عوام و حکمرانوں کے معاملات کی استواری کے ضامن ہیں۔ اس لیے بعد میں متحدہ شریعت محاذ نے شریعت بل میں اصلاح و ترمیم کے ذریعہ سے شریعت کی جو تعریف "قرآن و سنت" سے کی ہے، وہی متفقہ اور مسلمہ ہے۔ کیونکہ یہ شریعت محمدی کا نفاذ ہے اور اب تک خلافتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم انہی قانونی بنیادوں پر قائم رہی ہے۔ چنانچہ آج بھی اگر کوئی حکومت صحیح اسلامی قانون تصور پر اپنا نظام قائم کرنا چاہے تو وہ صرف اور صرف شریعت محمدی ہے۔ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام۔

متذکرہ بالا قانونی نقطہ نظر کی رو سے اگر ہم عالم اسلام کی دو ایسی حکومتوں کا جائزہ لیں جو اسلام کی دعویدار ہیں، تو ایران کی بارے میں یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ وہ اکثریتی فقہ والا قانونی نظام اپنائے ہوئے ہے۔ البتہ سعودی عرب وہ واحد اسلامی ملک ہے جہاں ایک حد تک شریعت محمدی کا نفاذ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں وہاں کا امن و امان ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔سعودی عرب کا یہ قانونی فکر، سعودی عرب کے علاوہ U.A.E کی اکثر امارتوں میں بھی "قضاء شرعی" کی صورت میں مروج ہے اور جس کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔

متحدہ شریعت محاذ کے شریعت بل کی دفعہ 3-4 میں اس تصور کی جھلک موجود ہے۔ تاہم اس کا دارومدار اسی بل کی دفعہ 2 پر ہے جس میں شریعت کی تعریف "قرآن و سنت" کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن و سنت کے لئے ائمہ سلف سے راہنمائی کے علاوہ کوئی ایسی قدغن عائد نہیں ہونی چاہئے کہ جس کی بناء پر کسی خاص فرقہ کے اجتہاد کی اجارہ داری قائم کی جائے۔ کیونکہ اس طرح یہ بل متفقہ ہونے کی بجائے جہاں فرقہ وارانہ کشمکش کا شکار ہو گا، وہاں متعدد اجتہادات کو شریعت قرار دینے سے غیر وحی کو وحی الہی کا درجہ دینا لازم آئے گا۔ اسی طرح اجتہاد کہ جس میں اختلاف ایک لابدی امر ہے، کے اختلاف و تعدد کی بناء پر متعدد شریعتوں کا وجود تسلیم کر لینا بھی ناگزیر ہو گا، اور جس کا تصور تک محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت بل ایک خاص مکتبہ فکر کے دو سینیٹر حضرات کی طرف سے پیش کیا گیا تو دیگر جملہ مکاتب فکر نے اس سے اختلاف کیا۔ پھر جب شریعت کی تعریف "قرآن و سنت" کی گئی، تو نہ صرف کوئی فکری اختلاف باقی نہ رہا بلکہ جملہ مکاتب فکر پر مشتمل "متحدہ شریعت محاذ" کی صورت میں ایک عرصہ بعد دینی حلقوں کو یکجا ہونے کا موقع بھی ملا۔۔حقیقت یہ ہے کہ اتفاق و اتحاد کی یہی وہ واحد اساس ہے کہ جس کے خلاف تشتت و افتراق کی جملہ سازشیں ناکام ہو سکتی ہیں۔ تاہم شریعت بل کا المیہ یہ ہے کہ کبھی متفقہ شریعت بل تیار ہونے کے باوجود خود شریعت محاذ ہی کے بعض اساطین، اس متفقہ بل کی بجائے پرانے اور اختلافی بل کے منظور کرانے پر زور دینا شروع کر دیتے ہیں، تو کبھی اس بل کی ایسی تعبیریں کرنے لگتے ہیں کہ جن سے یہ بل پھر سے اختلافی بن جاتا ہے۔۔۔اور اگر یوں بھی بات بنتی نظر نہ آئے تو متفقہ ترمیمی شریعت بل کے الفاظ میں کمی بیشی کر کے سینٹ میں ترمیمات پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ وہ افسوسناک امر ہے کہ جس کے باعث نہ صرف "متحدہ شریعت محاذ" کا متفقہ شریعت بل آج تک کسی ایوان بالا اور ایوان زیریں میں پیش نہیں کیا گیا، بلکہ اس میں دو تین دفعہ جو ترمیمات پیش کی گئیں، وہ متفقہ شریعت بل میں تبدیلی کر کے پیش کی گئی ہیں۔ یعنی شریعت بل کی دفعہ میں شریعت کی تعریف "قرآن و سنت" کر کے بعد میں جو وضاحت دی گئی ہے، اس میں کبھی تو لفظ "راہنمائی" اڑا کر قرآن و سنت کو فقہ کا پابند بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی قرآن و سنت کو "ماخذِ شریعت" بتا کر شریعت کو فقہ کے مترادف قرار دینے کی جسارت کی جاتی ہے۔ حالانکہ قرآن و سنت ماخذ فقہ تو ہیں لیکن خود فقہ نہیں بلکہ شریعت ہیں۔ اور ماخذ و ماخوذ دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہوتی ہیں۔

باقی رہا شریعت بل کی دفعہ 5 میں وفاقی شرعی عدالت کے وسیع اختیارات کا مسئلہ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں فی الفور نفاذ شریعت کی بجائے، مروجہ قانون کو بتدریج شریعت کے مطابق بنانے کا طریق کار اختیار کیا گیا ہے اور اسی غرض سے وفاقی شرعی عدالت کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔

اب ظاہر ہے کہ اگر پاکستان میں نفاذ شریعت کے اسی تدریجی طریق کار کو اپنانا ہے تو اس کے لیے وفاقی شرعی عدالت کو بھرپور اور آزدانہ اختیارات ملنے چاہئیں۔ تاکہ مکمل قانونی ڈھانچہ کے بارے میں یہ کھل کر اپنی رائے دے سکے۔۔۔ورنہ اصل اور درست طریق کار تو یہ ہے کہ قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دے کر جملہ عدالتوں کو اس کا پابند بنا دیا جائے۔ کیونکہ حتمی اور ابدی حیثیت تو صرف اور صرف قرآن و سنت کی ہے نہ کہ کسی اجتہاد کی جبکہ وفاقی شرعی عدالت آخر اجتہاد سے ہی کسی قانون کے قرآن و سنت کے مخالف و موافق ہونے کا فیصلہ دیتی ہے۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ عدالتوں کا، قانون کی مثبت و منفی تعبیر کا کام صرف وضعی قانون سے متعلق ہے، ورنہ جہاں تک اسلامی قانون و تعبیر کا تعلق ہے تو یہ خود قرآن و سنت ہیں۔۔۔اسلام میں عدالتیں عوام و خواص کی طرف سے قانون کی پاسداری اور اس کے درست اطلاق کا جائزہ تو لیتی ہیں لیکن ان کا یہ فیصلہ فریقین میں متنازعہ امر کی حد تک فریقین پر لاگو ہوتا ہے۔ اس فیصلے کو فریقین کے معاملہ سے الگ کر کے دیکھا جائے تو اس کی حیثیت صرف "افتاء" کی ہوتی ہے۔۔۔قضاء اور افتاء کا فرق یہ بھی ہے کہ قضا واجب التعمیل ہوتا ہے جبکہ فتویٰ ایک شرعی رائے کا اظہار۔۔یہ فی ذاتہ واجب التعمیل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اختلاف و نزاع میں مختلف فتاویٰ کو قرآن و سنت پر پیش کیا جاتا ہے۔۔۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ ...﴿٥٩﴾... سورة النساء