معروف سیرت نگار اور محقق پروفیسر ڈاکٹر یٰسین مظہرصدیقی ہر سال کی طرح امسال بھی پاکستان کےعلمی دورہ پر تشریف لائے اور آپ نے ایک ماہ کے دوران سرگودھا ، فیصل آباد ، لاہور اور کراچی میں سیرت النبی ﷺکے موضوع پر اہم خطبات دیے۔ آپ نے مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا محمد رابع حسنی ندوی جیسی شخصیات سےکسبِ فیض کیا اور تمام تعلیم دار العلوم ندوۃ العلماء ، جامعہ ملّیہ اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے حاصل کی ،لیکن مسلم علی گڑھ یونیورسٹی آپ کی پہچان بن گئی، جہاں آپ شعبہ تاریخ میں بطور ِ ریسرچ سکالر،بعد ازاں اُستاذ ہوگئے ، پھر ڈائریکٹر شعبہ علوم اسلامیہ کی ذمہ داری انجام دیتے رہے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو یونیورسٹی کے ذیلی ادارہ' شاہ ولی اللّٰہ ریسرچ سیل' کا سربراہ بنا دیا گیا اور اب تک اسی میں مصروفِ عمل ہیں۔ آپ کو شاہ ولی اللّٰہ ایوارڈسے بھی نوازا گیا ۔
سیرت نگاری آپ کا مخصوص میدان ہے۔موصوف کی عربی، اُردو اور انگریزی زبان میں متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں اور پانچ سو کے قریب مختلف موضوعات خصوصاً سیرت النبی ﷺ پر آپ کے مقالات مختلف جرائد میں چھپ چکے ہیں۔قاضی سلیمان منصور پوری،مولانا شبلی اور سید سلیمان ندوی کے بعد ڈاکٹر یٰسین مظہر کے قلم نے سیرت کےبہت سے پوشیدہ پہلوؤں کو اُجاگر کیا ہے۔
اس سال یونیورسٹی آف سرگودھا میں ڈاکٹر صاحب کو'مکی عہد میں سیرت النبی ﷺ کے زاویے' کے عنوان پر خطبات کی سیریز کے لیے مدعو کیا گیا تھا جس کے لیے چیئر مین شعبہ علوم اسلامیہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر مسلسل ایک سال سے ان سے رابطہ میں تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے دس خطبات ارشاد فرمائے جو 9 تا 13 مارچ ، پانچ دنوں میں روزانہ تین گھنٹے کی نشست میں سیرت کے مختلف پہلؤوں کے حوالے سے دیے گئے۔یہ مقالات یونیورسٹی آف سرگودھا کی طرف سے عنقریب اشاعت پذیر ہوں گے۔اس دوران ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کی رات گئے تک ڈاکٹر صاحب کے ساتھ علمی نشستیں بھی جاری رہتیں، راقم نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے تبادلہ خیال اور بہت سے مسائل میں استفادہ کیا۔یہ انٹرویو ذیل میں قارئین محدث کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
طاہر :آپ کا تعارف اورابتدائی حالات
ڈاکٹر صاحب: پورا نام محمد یٰسین مظہر صدیقی ہے۔26دسمبر1944ءکو اُترپردیش میں پیدا ہوا ۔ ہجری تقویم کے حساب سے تاریخ ولادت 1363ھ بنتی ہے اور مظہر صدیقی کے نا م سے مشہور ہوں۔اور یہ نام میرے والد صاحب نے رکھا تھا، ان کی یہ روایت تھی کہ وہ اپنے بچوں کےنام تاریخی مناسبت سے رکھتے تھے۔ان کا نام مولوی انعام علی تھا اورمیں اُنہیں 'بابا جان 'کہتا تھا۔ میری تعلیم و تربیت اُنہوں نے کی اورسب کچھ اُنہی کی تربیت کا فیض ہے۔
اُنہوں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اسے عالم دین بناؤں گا۔ اللّٰہ تعالیٰ نےاُنہیں میری شکل میں بیٹا دے دیا۔ میری تعلیم ابتدا میں خود فرمائی۔ میں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبہ گولا...جو کہ بڑا تاریخی قصبہ ہے ... میں حاصل کی جس کے بعد میں 1953ء میں لکھنؤ چلا گیا۔وہاں ندوۃ العلماء سے 1959ء میں 'عالم ' اور 1960ءمیں لکھنؤیونیورسٹی سے 'فاضل ادب' کیا۔ اس کے بعد بابا جان کی خواہش پر شادی ہوگئی، چھوٹی بہن کی بھی شادی ساتھ کر دی گئی، ہمارے ہاں چھوٹی عمر میں شادی کر دی جاتی تھی۔
اس کے بعد مجھے میڈیکل کی دکان پر بٹھا دیا گیا ۔باباجان نےمیڈیکل سٹور میرے لیے کھولا تھا لیکن مجھے اس میں قطعاً دلچسپی نہ تھی ۔ اُنہوں نے جب دیکھا کہ میری توجہ کام کی طرف نہیں تو اس کی وجہ پوچھی۔ میں نے بتا دیا کہ اگر میں نے دینی علوم پڑھ کر بھی یہی کام کرنا تھا تو پڑھنے کا کیا فائدہ؟ اور جو پڑھا تھا، وہ اب بھولتا جار ہا ہے ۔ اس پر باباجان نے کہا: ٹھیک ہے، آپ جو کرنا چاہتے ہو کر و ۔ میں نےکہا میں اَب انگریزی تعلیم حاصل کروں گا۔
اس طرح بعد میں میں نے جامعہ ملّیہ میں ہائیر سیکنڈری میں داخلہ لے لیا، 1960ءسے 1962ء تک میں نے ہائیر سیکنڈری کیا اور پھر بی اے میں داخلہ لے لیا۔ چونکہ مجھے سکالر شپ مل گیا تھا ، اس لیے بی اے میں بھی آسانی سے داخلہ مل گیا، اس کے بعد ایم اے میں داخلہ لیا ۔کچھ ساتھیوں نے بی ایڈ میں داخلہ لینا چاہا تو میرا بھی فارم بھر دیا حالانکہ میرا بی ایڈکا ارادہ نہیں تھا ۔ جامعہ ملیہ میں بی ایڈ کی تعلیم بہت اچھی دی جاتی ہے، آج بھی وہاں کا ٹیچر ٹریننگ کالج بہت مشہور ہے ۔ جب اس میں داخلہ ٹیسٹ ہوا تومیں نے ٹاپ کیا اور مجھے اس میں بھی سکالر شپ ملا ۔ اس کے بعد 1968ءمیں ایم اے تاریخ کےلیے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ۔1969ء میں ایم فل اور 1970ء میں مجھے ملازمت مل گئی ۔ 1975ء میں میری پی ایچ ڈی مکمل ہوئی ۔ اس طرح میں نے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی علی گڑھ سے کیے ۔ شعبۂ تاریخ میں میرا تقرر ہوا تھا۔ 14سال سروس کےبعد 1983ء میں مجھے شعبہ علوم اسلامیہ میں ریڈر ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیا گیا ۔ 1991ء میں پروفیسر ہوگیا اور اس طرح میری ساری زندگی گزر گئی ۔
طاہر :آپ کا تصنیفی ذوق کب سے شروع ہوا ؟
ڈاکٹر صاحب : یہ تو شروع ہی سے تھا، پڑھنے لکھنے اور مصنف بننے کا بچپن ہی سے شوق تھا اور یہ طے کر لیا تھا کہ مجھے مصنف ہی بننا ہے ۔ ندوہ میں جب میں درجہ سوم کا طالب علم تھا تو سیدنا ابو ہریرہ کی شادی کا قصّہ پڑھا تھا، اس واقعہ کو میں نےافسانہ کی شکل دی تھی اور وہ افسانہ 'شکست' کےنام سے آرام باغ کراچی سے نکلنےوالے ایک رسالے 'تذکرہ' میں شائع ہوا ۔ پہلے پہل میں مجلّات میں عربی مضامین کواُردو قالب میں ڈھال کر چھپواتا رہا، ان دنوں بنارس سے ایک رسالہ 'سیرت' کے نام سے نکلتا تھا ،اس میں میرے مضامین چھپتے رہے، وہیں سےمیرے ذوق کو جلاملی ۔
ندوہ میں اس بات کا اہتمام ہے کہ ہر ہفتہ عربی میں مضمون لکھنا پڑتا ہے،اسی طرح کلاس میں بھی اس طرح کی اسائنمنٹ بنا کر دینا پڑتی تھیں اور اس کی پریزنٹیشن بھی ۔اُردو میں تقریر کرنا بھی لازمی تھا۔ اس میں یوں ہوتا تھا کہ اگر کوئی تقریر نہیں کر سکتا تواس کے لیے ضروری تھا کہ سٹیج پر آکر معذرت کرےاور وجہ بتائےکہ کیوں تقریر نہیں کر سکتا ۔ وہاں کے اساتذہ بہت مشفق تھے، بولنے کا شوق دلاتے اور پورا تعاون فرماتے ۔ بی اے میں بھی میں نے بہت سے مضامین لکھے بلکہ اپنے دوستوں کو بھی لکھ لکھ کر دیے لیکن وہ مضامین چھپوائے نہیں۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس چکر میں پڑ گئے توتعلیم کا مسئلہ رہ جائے گا ۔ ایم اے کرنے کے فوراً بعد انگریزی میں مضمون لکھنا شروع کر دیا، بادشاہوں اور حکمرانوں کے متعلق مضامین لکھے، پھر ریسرچ کرتے گئے اور بہت سے مضامین لکھے ۔
1978ءمیں، میں نے پہلا اُردومضمون رسالہ 'برہان' میں لکھا۔یہ رسالہ 'ندوۃ المصنفین، دلی 'سے نکلتا تھا ۔ مولانا اکبر الٰہ آبادی سے بھی ملاقات تھی، وہ مجھ سےمضامین لکھواتے تھے اور کئی مضامین میں نے اُنہیں چھاپنے کے لیے دیے ۔
طاہر : آپ کی سب سے پہلی کتاب کب اور کونسی تھی ؟
ڈاکٹر صاحب: میری سب سے پہلی کتاب انگریزی میں تھی۔ سیرت کی طرف اس طرح آیا کہ باباجان نے کہا کہ بھائی ہم نے تمھیں اس لیے لکھنا پڑھنا تو نہیں سکھایا کہ تم بادشاہوں کے قصیدے لکھنا شروع کردو کیونکہ میں اکثر امیر خسرو اور بادشاہوں پر مضامین لکھتا تھا ۔ بابا کہتے تھے: میں نے تو تمہیں اس لیے پڑھایا ہے کہ تم رسول اللّٰہ ﷺ پر لکھو۔نبی کریم ﷺ سے ان کی بے پناہ عقیدت تھی، نام لیتے ہی رونے لگتے تھے ۔ اس طرح میں دھیرے دھیرے سیرت کی طرف آیا اور اتفاق سے مجھے بی اے سےایم فل میں جو کورس دیے گئے ان میں انڈیا اور قرونِ وسطی کےساتھ ساتھ اسلامی تاریخ بھی دے دی گئی ۔ اس میں یہی ہوتا تھا کہ سٹوڈنٹس کو بتانا کہ فلاں کتاب پڑھنا، فلاں نہ پڑھنا، اس پر وہ شور کرتے کہ سر آپ ہر کتاب سے منع کر دیتے ہیں تو ہم کیا پڑھیں ؟ تو پھر آپ خودکیوں نہیں ایسی کتاب لکھ دیتے جو ان سب اعتراضات سے مبرا ہو۔ میں نے کہا: ہاں! لکھیں گے، فی الحال آپ میرے نوٹس جومیں بورڈ پر دیتا ہوں ، وہ نقل کر لو۔ اس طرح تدریس سے مجھے بہت فائدہ ہوا اور اسی سے لکھنے کا موقع بھی مل گیا۔
ایک دفعہ ایک سیمینار تھا، اس میں مجھے بھی لکھنے کو کہا گیا اور حضرت عثمانؓ کےوالیان وعمّال پر مضمون دے دیا گیا۔ جب میں نے اُنہیں جمع کیا تو پتہ چلا کہ ان میں سے اکثر توحضرت عمرؓ کے زمانے کےتھے ۔ پھر اور غور کیا تو پتہ چلا کہ وہ حضرت ابوبکر اور نبی اکرمﷺ کے زمانے کے تھے تو سوچا کہ کیوں نہ اصل سےہی شروع کیا جائے، تب رسول اللّٰہ ﷺ کے دور سے شروع کیا۔ اسدالغابہ کو سامنے رکھا اور اس میں سے صحابہ کےبارے میں کہ کون تھے؟ کہاں پر متعین ہوئے؟ کس کام پر متعین ہوئے؟ کس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے؟ ایک فہرست بنا لی اور ضمیمے تیار کر لیے، ضمیموں کے بعد اس کا متن لکھا تویہ ایک ہزار صفحے تک پہنچ گیا۔ اُستاد نے کہا کہ بھائی یہ توبہت طویل ہو گیا ہے ،اسے مختصر کرو ۔ لہٰذا اسے کم کر کے 600صفحات تک لایا گیا۔ یہ انگلش میں تھا اور یہ کتاب Organization of Government Under The Holy Prophet (Saw) کے نام سےچھپنے چلی گئی اسی زمانے میں لاہور کے 'نقوش' کا رسول نمبرﷺ نکلنےوالا تھا۔ ان سے تعلق ہوا تو اُنہیں یعقوبی کی سیرت نگاری پر ایک مضمون بھیج دیا ، وہ انہیں بہت پسند آیا۔ پھر میں نے طفیل صاحب جو کہ اس کے ایڈیٹر تھے، اُنہیں خط لکھا کہ آپ کو سیرت کے بارے میں کیسے مضمون درکار ہیں میری تو پوری کتاب چھپنے جا رہی ہے ۔اور اس کے علاوہ بھی جو میں پڑھاتا رہا ہوں ،سیرت کے بارے میں بہت سا لکھا موجود ہے تو اُنہوں نے کہا :جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے،ہم سب چھاپنا چاہتے ہیں۔ میں نےان کواپنی کتاب کا پہلا باب بھیج دیا۔ بہت خوش ہوئے،بہت تعریفیں کیں اور کہنے لگے: ہم اسی موضوع پرایک اور کتاب چھاپ رہے ہیں۔ تو میں نےوہ سب ابواب اُردو میں کرکے اُنہیں بھیج دیے ۔ وہ کتاب 'عہد نبوی میں تنظیم و ریاست' کے نام سے چھپی ۔
طاہر : آپ کی کتابیں کتنے موضوعات پر ہیں ؟
ڈاکٹر صاحب: سیرت پر 15ہیں،قرآنِ مجید پر بھی ہیں۔ قرآن نمبر میں بھی آٹھ دس مضمون ہیں۔ انگریزی میں چار پانچ کتابیں، عربی میں ایک کتاب کا ترجمہ ہوا ہے اس کےعلاوہ میرے کئی مضامین کا ترجمہ بھی عربی میں ہو چکا ہے ۔
انڈیا میں مسلمانوں کے حالات
طاہر :انڈیا میں ہندو مسلم حالات پر کچھ روشنی ڈالیے ۔
ڈاکٹر صاحب:انڈیا میں عام طور پر مسلم اور ہندوؤں میں تعلقات بہت اچھے ہوتے ہیں۔ لین دین ، آناجانا ، شادی بیاہوں میں شرکت سب کچھ ہوتا ہے،لیکن جب فساد ہوتا ہے تو پھر مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں ہندو اکثریت میں اور مسلمان اقلیت میں ہوتے ہیں، وہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہوتا ہےاور یہ مسائل پیدا ہوتےہیں ۔
طاہر : پاکستان کے وجود میں آنے کو آپ کس زاویے سے دیکھتے ہیں ؟
ڈاکٹر صاحب:آپ کےعلاقے کےمسلمان تو بہت فائدے میں رہے اور ہندوستان میں رہ جانےوالے مسلمانوں کا خاصا نقصان ہوا۔ یہی وجوہات تھیں کہ مولانا ابو الکلام آزاد آخروقت تک پاکستان بننے کے حق میں نہ تھے۔ ان کاموقف تھا کہ اگر مسلمان متحد ہوتے اور تقسیم نہ ہوتے تو ان کووہ حقوق بھی حاصل رہتے جو بٹوارے کے بعد نہ مل سکتے تھے ۔ عبدالغفار خان جنہیں سرحدی گاندھی کہا جاتا تھا، وہ بھی اس کے حق میں نہ تھے ۔ اس کے علاوہ کانگریس کے بڑے بڑے ذمہ دارلوگ یہی چاہتے تھے کہ ہندوستان اس طرح تقسیم نہ ہو۔ پاکستان کی تقسیم کےبعد ان دونوں میں پھر اتنی دشمنی پیدا کر دی گئی ہے کہ اب دونوں ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے ۔
طاہر :انڈیا میں مسلمان طبقہ خاص طور پر مذہبی طبقہ، کس سیاسی پارٹی کی طرف مائل ہے ؟
ڈاکٹر صاحب:مسلمانوں نے اکثر طورپر کانگریس پر بھروسہ کیا اور کانگریس نےہمیشہ دھوکہ دیا ۔ اب مسلمان علاقائی پارٹیوں کے ساتھ ہیں۔ یوپی میں جیسے سماج وادی پارٹی اور بھاؤجن سماج پارٹی کے ساتھ مسلمان ہیں ۔
طاہر :ملازمتوں کے لحاظ سے انڈین سرکار کا مسلمانوں کے ساتھ کیسا رویہ ہے ؟
ڈاکٹر صاحب:ان کا رویّہ برا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مقابلےکےامتحانوں میں حصہ ہی نہیں لیتے ۔ امتحان میں اُن کے 25ہزار آدمی شریک ہوں تو ہمارے دو ہزار آدمی شریک ہوں گے، ظاہر بات ہے پھر آگے کتنے لوگ آئیں گے؟ انڈین مسلمانوں میں مقابلہ اور مسابقہ کی سپرٹ نہیں پائی جاتی۔ تعلیم اور تدریس بہت کم ہے۔مسلمان کسی صورت پڑھنا نہیں چاہتے۔ یونیورسٹیوں میں نہیں جاتے، ٹیکنیکل کالجز میں داخلہ نہیں لیتے بس چھوٹی موٹی، معمولی نوکریوں پر قناعت کر لیتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کانقصان ہو رہا ہے کہ علم کی طرف اُن کا بالکل رجحان نہیں ہے۔ اور یہ بات طے ہے کہ بناعلم کے آپ کسی بھی میدان میں ترقی نہیں کرسکتے ،لیکن اب تھوڑے عرصہ سے نوجوانوں میں کچھ تبدیلی آ رہی ہے۔ وہ مقابلے کے امتحانوں میں آگے آرہے ہیں اور اچھے عہدوں تک پہنچتے ہیں۔ ان کی یہ رفتار بھی تسلی بخش نہیں ہے اور سابقہ شرح میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ۔ جب مقابلے میں جائیں گے ہی نہیں تو نتیجہ یہی نکلے گا۔
ایک زمانے میں ایک کرنل تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم علی گڑھ سے پولیس میں بھرتی کریں گے کیونکہ پولیس میں مسلمانوں کی کم تعداد کا شور مچتا رہتا تھا ۔ وہ وہاں گئے تو بڑی کوشش کی اور بڑی مشکل سے دس بیس لڑکے تیار ہوئے۔ جب ٹریننگ شروع ہوئی تووہ سب لڑکے بھی بھاگ گئے ۔انڈین مسلمان بہت آرام طلب ہو گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔
طاہر : محمد علی جناح دو قومی نظریہ کےتناظر میں یہ موقف رکھتے تھے کہ اگر الگ خطہ نہ لیا گیا تو مسلمان اپنا تشخص کھو بیٹھیں گے۔ پاکستان کی طرف ہجرت کے بعد انڈیا میں رہ جانےوالی مسلم آبادی کے لیے کیا اب یہ خدشات اور زیادہ نہیں ہو جاتے ؟
ڈاکٹر صاحب:اسلام کا تعلق کسی خطے سے نہیں ہے، مسلمان تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ان کا تشخص کہیں بھی خطرے میں نہیں ہے۔ نہ ان کی شناخت خطرے میں ہے، نہ ان کا اسلام خطرے میں ہے جیسے آپ کے ہاں پکےمسلمان ہیں، اس سے زیادہ ہمارےہاں پکےمسلمان ہیں۔اس کے علاوہ ہمارے منصوبے ،ہمارے ادارے ، ہماری جامعات، ہمارے دار العلوم آپ سے کہیں زیادہ طاقتور اور مضبوط ہیں ۔ باقی رہا رسم و وراج میں تداخل وہ توآپ کےہاں بھی ہوتا ہے۔ میں نے ایک دفعہ یہاں دیکھا کہ کسی شادی میں گروپ کی صورت میں لڑکیاں آ رہی ہیں اور تھالی میں موم بتیاں روشن کیے ہوئے ہیں۔ میں نےاپنی بہن سے پوچھا: کیا تمہارے علاقے میں ہندو رہتے ہیں؟ کہنے لگی: نہیں ہندو تونہیں رہتے۔میں نے کہا تو یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کہنے لگی یہ مسلمان لڑکیاں ہیں اور منگنی ہور ہی ہے، حالانکہ انڈیا کے مسلمانوں میں اس کا تصور بھی نہیں جبکہ آپ کے ہاں شادی بیاہ کے سب رواج ہندوؤں کے ہیں ۔
طاہر : ہندوؤں اور مسلمانوں کی آپس میں شادیوں کے بارے میں بتائیے ۔
ڈاکٹر صاحب:ہاں ہندو لڑکیاں اکثر مسلمان لڑکوں سے شادی کر لیتی ہیں اور بہت کم مسلمان لڑکیاں ہندوؤں سے شادی کرتی ہیں۔
طاہر : مشترکہ ہدف سے ہمیشہ اتحاد کی راہیں بنتی ہیں ۔ تو کیا انڈیا کے مسلمان بت پرستی کےمقابل متحد نظر آتے ہیں ؟
ڈاکٹر صاحب: بت پرستی کا اتحاد سے کوئی تعلق نہیں، لیکن ایک بات اپنی جگہ پر ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایسے طبقات ، مسالک او رایسے رجحانات ہیں جن کے نتیجے میں بت پرستی موجود ہے۔ مزارات پر جانا، شرک کے کام کرنا ہمارے یہاں یہ سب کام ہوتے ہیں ۔ آپ کے پاکستان سے بہت سے لوگ اجمیر شریف اور اس جیسی دوسری جگہوں پر جاتے ہیں۔ میں نے خود پاکستانیوں سے سنا ہے کہ تین یا پانچ مرتبہ پہنچ جائیں تو ہمارا حج ہو جاتا ہے ۔
مختلف علمی پہلوؤں پر ڈاکٹر صاحب کی رائے
طاہر :آپ اپنی زندگی میں کن علمی شخصیات سے متاثر ہوئے ہیں ؟
ڈاکٹر صاحب:بہت سی علمی شخصیات سے متاثر ہوا جن میں مولانا مودودی ،مولانا عبد الماجد دریا آبادی، اپنے استاد مولانا غلام محمد، مولانا تھانوی ، مولانا داؤد غزنوی ، عبد الجبار،ندوہ کے اساتذہ سےاس کے علاوہ ایک بہت بڑی فہرست ہے جن سے میں بہت متاثر ہوا ۔
طاہر :آپ کی شخصیت پر کس اُستاذ کا زیادہ اثر ہے ؟
ڈاکٹر صاحب:یہ تو کہنامشکل ہے بہت سے اساتذہ کا اثر ہے ۔ سیرت کے حوالے سے دیکھیں تو شبلی نعمانی اور سلیمان ندوی کا اثر ہے ۔ کیونکہ علامہ شبلی اور علامہ ندوی کی کتابوں نے مجھے اس طرف رغبت دلائی اور قرآ ن مجیدمیں شاہ ولی اللّٰہ کا اثر ہے ۔
طاہر :اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کس مسلک سےتعلق رکھتے ہیں تو آپ کا کیا جواب ہو گا ؟
ڈاکٹر صاحب:میں کسی مسلک میں کبھی بھی نہیں رہا۔ ندوہ میں یہ سب سے بڑی خوبی رہی کہ ہمارے اساتذہ حنفی بھی تھے، شافعی اور اہل حدیث بھی ۔ ہمارے وہاں قاری منیر صاحب تھے جو ہمیں قراءت سکھاتے تھے۔مسجد کے امام بھی تھے جب خود نماز پڑھتے تورفع الیدین کرتے اور جب جماعت کرواتے تو حنفیوں کی طرح نماز پڑھاتے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ قاری صاحب ایک بات پوچھوں؟ تو کہنے لگے: ہاں پوچھو پوچھو۔ تم بھی پوچھو، لوگ پوچھتے آئے ہیں تم بھی پوچھ لو۔ میں نے کہا کہ قاری صاحب پھر آپ یہ مسئلہ بتا دیجئے ۔تو کہنےلگے: یہاں اکثریت حنفیوں کی ہے اور اُنہوں نے مجھے امام بنا دیا تو میں ان کی رعایت کر کے ان کو رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھا دیتا ہوں اور اکیلے نماز اس طریقے پر پڑھ لیتا ہوں جو مجھے بہتر نظر آتا ہے۔ میں نے کہا قاری صاحب! اس میں آپ کو کوئی اختلاف نظرنہیں آتا تو کہنے لگے: بھئی میری نظر میں یہ دونوں ہی سنتیں ہیں، یہ بھی سنت اوروہ بھی سنت ۔
اسی طرح ہمارے ایک فقہ کے اُستاد نابیناتھے۔ وہ بڑے پکےحنفی تھے۔ وہ نماز پڑھنے اپنے محلے کی مسجد میں جایا کرتے تھے۔ ہم نے ان سے کہا: مولانا! آپ نہ جایا کریں، یہیں نماز ادا کر لیا کریں تو فرمانے لگے: ہمارے محلے میں اہل حدیث امام ہے تووہاں ان کے پیچھے نماز ادا کر کے میری ایک سنت پوری ہو جاتی ہے۔ ہم نے تو اس طرح کے ماحول میں تربیت پائی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے وہاں بھٹکل کے طلبا تھے ، وہ سب شافعی تھے۔ لیکن اُنہیں فقہ حنفی پڑھائی جاتی تھی۔ وہ سب کے سب ایک دفعہ درخواست لے کر ادارے کےذمہ دار کے پاس پہنچے کہ ہم یہاں سے فقہ حنفی پڑھ کر جاتے ہیں اور وہاں لوگ فقہ شافعی کے مسائل پوچھتے ہیں توہمیں وہ مسائل نہیں آتے، لہٰذا ہمیں فقہ شافعی پڑھائی جائے تو فوراً اُ ن کے لیے فقہ شافعی کا درجہ کھول دیا گیا اور ان کے لیے بھٹکل سے فقہ شافعی کے استاد عبدالعزیز بھٹکلی کو تدریس کے لیے مقرر کیا گیا ۔ اس وقت سے وہاں یہ سلسلہ مستقل جاری ہے کہ حنفی شافعی طلبا اپنے اپنے درجہ میں اساتذہ سے پڑھتے ہیں ۔
طاہر : شبلی نعمانی کی سیرت میں مذکور درایتی اُصولوں پر آپ کی کیا رائے ہے ؟
ڈاکٹر صاحب:اصل میں اُن کے بیان کردہ سیرت نگاری کے اُصول تو کم ہیں، البتہ حدیث کے درایتی اُصول زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ دو چیزوں میں فرق نہیں کر پائے ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ سیرت نگاری میں ان کا مقدمہ بہت زبردست ہے اور اس میں اضافے کی گنجائش ہے، علم کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے، یہ ایک جگہ رکا نہیں رہتا، آگے بڑھتا رہتا ہے ۔
طاہر : عربی اور اُردو کے سیرت نگاروں میں سب سے متاثر کن کام کس کا ہے؟
ڈاکٹر صاحب:عربی اور اُردو میں شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کے پائے کا کام ابھی تک نہیں ہو سکا۔ یاد رہے! شبلی کی سیرت کی کتابوں میں پہلی دو جلدوں کو سیرت شمار کیا جا سکتا ہے ۔ 1986ء میں سید سلیمان ندوی پر ایک سیمینار ہوا تو میں نے اس میں مقالہ پڑھا اور یہ بیان کیا کہ سیرت نگاری پہ شبلی کی دو ہی جلدیں ہیں یا تیسری کو ہم کسی حد تک معجزات کے باب میں شامل کر سکتے ہیں۔ باقی سب سیرت نہیں بلکہ اسلام اور دوسری چیز یں ہیں۔ تووہاں ہنگامہ برپا ہو گیا اور حاضر مجلس احباب مجھ پر برس پڑے اور میری تردید پر اُتر آئے لیکن کچھ لوگوں نے میرے موقف کی تائید بھی کی ۔ اور میرے اس موقف کی شہادت موجود ہے کہ مولانا شبلی نے جب سیرت کا خاکہ بنایا تو اس میں سیرت ، قرآن ، اخلاقیات اور اسلام سے متعلقہ ابحاث بھی تھیں کسی نے کہا کہ مولانا! یہ تو اسلام سے متعلق ہے، سیرت سے متعلق تو نہیں؟ کہنے لگے: ہاں! بالکل ایسا ہی ہے،یہ سیرت کے ابواب نہیں ہیں ۔ بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے نبی سےبے پناہ محبت وعقیدت رکھتا ہے، چلو اس بہانے وہ اسلام بھی پڑھ لے گا اور اسے اسلام کی بھی سمجھ آ جائے گی ۔ اصل میں شبلی کی پہلی دو جلدیں اپنی لکھی ہوئی ہیں، البتہ خُطہ(نقشہ) ان کا ہی تھا ،لیکن اس خطہ کو بہت تبدیل کر دیا گیا تھا۔ سید سلیمان ندوی نے اس میں خاصی تبدیلیاں کی ہیں ،مثلاً شبلی نے سیرۃ النبی کےاس خاکے میں ایک جلد قرآن اورایک مستشرقین پربنائی تھی، ان دونوں کوختم کر دیا گیا۔ حالانکہ سید سلیمان قرآن پر بہت اچھا لکھ سکتے تھے کیونکہ علوم قرآن اور ادب پر اُنہیں دسترس حاصل تھی اور شبلی سے اُنہوں نے قرآن پڑھا تھا۔ علامہ شبلی کا قرآنی علم بڑا وسیع تھا۔ علی گڑھ میں علامہ شبلی لوگوں کو قرآنِ مجیدکاباقاعدہ درس دیتےتھے ۔ مولانا محمد علی جوہر جیسے بڑے بڑے لوگ مولانا شبلی کے قرآ نی علم سے بہرہ ور ہوئےہیں ۔شبلی قرآن کے متن اور تفسیر پر بڑا زور دیتےتھے ۔
طاہر :آپ کےنزدیک سیرت نگاری سے دنیا میں، بالخصوص اُمت مسلمہ میں کس حد تک بیداری پیدا کی جا سکتی ہے ؟
ڈاکٹر صاحب:ایک انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے اوربرپا کیا جارہا ہے۔ ایک مصنف کے بقول :''اللّٰہ کواگر ہم نے پہچاناہے تویہ بھی نبی ؐ کی وجہ سے ہے ۔'' تو اسی ذات سے ہمارا تعلق ہے۔ پھر آپﷺ رول ماڈل بھی ہیں کہ ایک انسان کودنیا میں کیسے زندگی گزارنی چاہیے ۔
طاہر : توہین رسالت کے حوالے سے عالم کفر کا رویہ آپ کے سامنے ہے، مسلم ممالک اور علماے کرام کی اس حوالے سے کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں ؟
ڈاکٹر صاحب:اگرچہ شاتم رسول کی سزا میں ، میں کوئی دو رائے نہیں سمجھتا ، لیکن شتم رسول کے مرتکب کو سزا دینا حکومتوں اور ذمہ دار قوتوں کا کام ہے ۔ انفرادی طور پر اگر یہ کام شروع کردیا جائے تو کوئی شخص کسی کو بھی یہ الزام دےکر قتل کرسکتا ہے جس سے درست نتائج نہیں نکلیں گے ۔ اہل علم کو علمی اور تحقیقی طور پر بھی ایسی کوششوں کا جواب دینا اوراشتعال سے بچنا چاہیے ۔ رسول اللّٰہ ﷺ کی زندگی سے اب تک توہین رسالت کی مذموم کوششوں کا سلسلہ چلا آرہا ہے ۔ اس کا جواب کبھی شدت سےنہیں دینا چاہیے بلکہ دلائل کے ساتھ بات کر کے بیداری پیدا کرنی چاہیے ۔
طاہر : خلافت و ملوکیت بارے آپ کا کیاموقف ہے ؟
ڈاکٹر صاحب:وہ خلافت و ملوکیت کا تصور جو ہمارے ہاں مولانا مودودی کی وساطت سے مسلمانوں کےدرمیان آیا ہے کہ حضرت علی ؓکے بعد حضرت معاویہؓ کے زمانےمیں ملوکیت آ گئی تھی تو میں اس سے متفق نہیں ہوں اور اُموی خلافت بھی اسی طرح اُصولاً خلافت ہی تھی جس طرح خلافتِ راشدہ تھی۔شاہ ولی اللّٰہ کے موقف کے مطابق پہلی خلافتِ نبوت تھی اور بعد کی خلافت بھی خلافت ہی ہے ۔
میں نے مولانا مودودی کی زندگی میں یہ کہا تھا اور بڑی زوردار بحث کی تھی اور اس پر میں نے مضمون بھی لکھا تھا کہ جس طرح اُنہوں نےحضرت عثمانؓ پر الزامات لگائے ہیں کہ وہ اقرباپرور تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ ان پر اقربا پروری کا الزام لگا رہے ہیں تو وہ خلیفہ راشد کیسے رہے؟ سید مودودی صاحب نے اپنا موقف ثابت کرنے کےلیےاپنے مطلب کی گری پڑی روایات کو بھی لے لیا جبکہ اپنے موقف کے خلاف صحیح تاریخی روایات کو بھی نظر انداز کر گئے ۔
باقی رہی جمہوریت تو اس کا موجودہ ڈھانچہ جو انڈیا اور پاکستان میں پایا جاتا ہے ، اس سے میں متفق نہیں ہوں، حالانکہ برٹش جمہوریت ہماری جمہوریت سے لاکھ بہتر ہے ۔ جمہوریت کی خامیوں میں ایک بنیادی خامی یہ ہےاس میں عالم اور جاہل رائے کے اعتبار سے برابر سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ ایک مسلمہ اُصول ہےکہ ہر کام کےلیے لیاقت و اہلیت درکار ہوتی ہے لیکن اس نظام میں ہرآدمی کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ انگوٹھا چھاپ وڈیرے بھی ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں ۔
طاہر :اقامتِ دین کامسئلہ بڑا اہم مسئلہ رہا ہے۔ اس میں دو نظریے پائے جاتے ہیں، افراد سازی کے ذریعے اوراقتدارکے ذریعے... آپ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟
ڈاکٹر صاحب:اقتدار کےذریعے اقامتِ دین کبھی نہیں ہو سکتی۔ رسول اللّٰہﷺ کا مکی دور یہ ثابت کرتا ہے کہ جب تک افراد سازی اور تہذیبِ نفس نہیں ہو گا، نہ آپ فرد کی اصلاح کر سکتے ہیں نہ معاشرے کی اور نہ ہی اقامتِ دین ہو سکتا ہے۔ رسول اللّٰہ ﷺنے تیرہ برس تک جان لگا کر لوگوں کی تربیت کی تھی، انہی تربیت یافتہ لوگوں نے پھر حکومت قائم کی تھی۔ پہلے افراد بنتے ہیں، طبقات بنتے ہیں، پھر معاشرہ اور پھر اُمت بنتی ہےاور جب تک اُمّت نہ بن جائے، تب تک ریاست وحکومت نہیں بنتی اور اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو پھر وہی ہوتا ہے جو آج کل پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک میں ہو رہا ہے ۔
طاہر :عالم اسلام اس وقت خلفشار کا شکار ہے، آپ امت کے مستقبل کو کن مناظر میں دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر صاحب:بربادی کی طرف جار ہے ہیں۔ من حیث الامت سارے مسلمان غلامی کا شکار ہیں ۔ ان کی ساری دولت دوسروں کے قبضے میں ہے اور اُنہیں اپنی عیش وعشرت سےفرصت نہیں ہے ۔ جس خطے میں اگر کوئی اچھا مسلمان آبھی جاتا ہے، مثال کےطور پر مصر میں اخوان المسلمین کے معاملہ کو دیکھ لیجیے اور جہاں جہاں مسلمان پارٹیاں برسراقتدار آ ئیں، ان سب کا مشاہدہ کر لیجیے ،اُنہیں کس طریقے سے ہٹایا گیا ۔ امریکہ اور اسرائیل تو بعد میں آتے ہیں، سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی اچھی دین پرور حکومتوں کی مخالفت کی ہے، ان باتوں نے اُمت کےمستقبل کو مخدوش بنا دیا ہے ۔
طاہر :مسلمانوں میں مغربی تہذیب کا نفوذ ہو چکا ہے ،اس سے بچنا کس طرح ممکن ہے ؟
ڈاکٹر صاحب: اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی کچھ اچھی چیزیں ہیں :ایمانداری ، خدمت خلق، عوام کی بہتری کے اُصول اور ایک دوسرے کی مددکے ذرائع وغیرہ۔ یہ سب قابل قبول ہیں اُنہیں لے لیناچاہیے۔ یہ ہماری ہی گم گشتہ متاع ہے جو ان کے پاس چلی گئی ہے ۔ میرے ایک استاد کہا کرتے تھے: ''جتنی ہماری اچھی چیزیں تھیں، وہ عیسائیوں اور یہودیوں نے لے لیں اور ان کی بری چیزیں ہم نے اپنا لیں ۔'' ہم ان کی اچھی چیزیں نہیں لیتے جیسے وقت کی پابندی، محنت اور سچ بولنا۔ یہ سب ان کے اچھے اوصاف ہیں اور ہم ان سے کوسوں دور ہیں۔
طاہر : مولانا وحید الدین خان صاحب اور جاوید احمد غامدی صاحبان کےمتعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟
ڈاکٹر صاحب: جہاں تک مولانا وحید الدین خان کا تعلق ہے اس بارے میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بی جے پی کا ایجنٹ ہے اور مسلمانوں کی بربادی کے لیے کام کر رہا ہے ۔ اور جاوید احمد غامدی کے اصول ونظریات علماے اُمت سے بالکل جداگانہ ہیں اور اُنھیں کسی طور درست نہیں کہا جاسکتا۔
طاہر :اہل پاکستان خصوصاً مذہبی طبقات کے لیے کوئی پیغام دیں ۔
ڈاکٹر صاحب :مذہبی طبقے کے لیے سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ وہ اپنے اندر اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کریں اور علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مسلمان سمجھ کر مؤاخات اور اتفاق کا معاملہ کریں۔ صورت حال یہ ہے کہ مسلکی اختلافات کو اس طرح سامنے لایا جاتا ہے کہ ہمارے لیے غیر مذہب تو قابل قبول ہوتا ہے جبکہ غیر مسلک قابل قبول نہیں رہتا۔