صلاحیتوں کی پہچان اوراُسوۂ نبوی

﴿اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا...﴾

دنیا میں تمام انسان صلاحیتوں کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہیں۔کسی میں کوئی صلاحیت ہوتی ہے تو کسی میں کوئی اور،کسی میں کم توکسی میں زیادہ ۔ اسی وجہ سے دنیاکا ہرکام ہرانسان بخوبی انجام نہیں دے سکتا اورنہ وہ تنہا اجتماعی اہداف کے حصول میں کامیاب ہوسکتاہے۔ بلکہ جس میں جس کام کی صلاحیت موجود ہو، وہ اسی کام کو بخوبی انجام دے سکتاہے۔اس لیے کاموں کی صحیح طریقے سے انجام دہی کے لیے افراد سازی ضروری ہے۔ لیکن افرادکو وہی مقام دینا ہوگا جو اُن کے شایانِ شان ہو۔عربی میں اسے وضع الشيء في محلّه سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ گھر سے لے کر دفتر،اور كاروبار سے لے كر سیاست تك كے تمام شعبوں سے جڑا ہوا ہے ۔ ایک کامیاب امیرکارواں کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ اس میں افرادسازی کا ملکہ، صلاحیتوں کوپرکھنے کا کمال اورتفویضِ کار کا ہنر حاصل ہو۔

آج معاشرے میں جوخرابیاں دَرآئی ہیں، ان كی ایك وجہ یہ بھی ہے کہ کسی اہم ترین کام کی ذمہ داری کسی ایسے شخص کے حوالے کردی جاتی ہے جوکسی بھی لحاظ سے اس کا اہل نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ایک باکمال اورباصلاحیت شخص کو نظرانداز کردیاجاتاہے، حالانكہ اس کی صلاحیتوں سے قوم وملت اور معاشرے میں بہتری آ سکتی ہے۔نبی کریمﷺ نے ایک عام اصول بیان فرمایا:

«أَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ»

''لوگوں سے اُن کے مرتبے کے مطابق پیش آؤ۔''

اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کسی نااہل شخص کواتنابڑامرتبہ نہ دے دیاجائے جس کا وہ اہل نہ ہو اورنہ کسی باصلاحیت آدمی کو نظراندازکردیاجائے۔خصوصاً جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، اس میں اور بھی زیادہ محتاط ہونے كی ضرورت ہے۔ كیونكہ یہ قربِ قیامت كا دور ہے اور اس كے متعلق آپﷺ كا فرمان ہے:

«إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلى غَیْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ»

''جب باگ دوڑ نا اہل لوگوں كے سپرد كر دی جائے تو پھر قیامت ہی كا انتظار كرنا۔''

یعنی یہ علامتِ قیامت ہے جو ہمارے ہی ہاتھوں ظاہر ہو رہی ہے۔

نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کے اندرچھپی ہوئی صلاحیتوں کو پرکھ لیتے تھے، مزیدبہتر بنانے کے لیے ان کی تربیت بھی کرتے تھے اوراُن کے مطابق اُنھیں ذمہ داری سونپ کران سے کام لیتے تھے۔

افراد شناسی اورلوگوں کی صلاحیتوں سے استفادے کے لیے ان کو صحیح مقام ومرتبہ دینا ایک بہت ہی اہم خوبی ہے ۔ اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا مبارك طریقہ ہماری رہنمائی کرتا ہے۔درج ذیل صحابہ کرام کو آپ نے ان کی صلاحیت،فہم وبصیرت اور ہنرمندی کے پیش نظر مختلف ذمہ داریاں سونپی تھیں۔

خلفاے راشدین

1. حضرت ابوبکرصدیق جواپنے لقب 'صدیق' سے زیادہ مشہورہیں،وہ انتہائی سچّے اور قول وعمل میں پوری طرح مطابقت رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں ایک اور خاص صفت جوآپ کے اندرتھی، یہ کہ آپ طبیعت كے نرم تھے اور دوسروں کو مبتلائے دردوغم دیکھ کر بے چین وبے تاب ہو جایا كرتے تھے۔نبی کریمﷺ سیدنا ابوبکر کی شخصیت سے بہت خوش تھے۔ایک موقع پر حضرت عمروبن العاص نے سوال کیا کہ آپﷺ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت کس کی ہے؟آپ ﷺنے جواب دیا: 'ابوبکرصدیق ۔ ایک مرتبہ تو آپﷺ نے یہ بھی ارشادفرمایا:اگرمیں کسی کو اپنا خلیل (گہرا دوست )بناتاتو میں ابوبکرؓ کواپنا خلیل بناتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے انتہائی مشکل وقت میں جب کہ آپﷺ ہجرتِ مدینہ کررہے تھے تو رفیق سفر سیّدنا ابوبكر ہی تھے۔نبی کریم ﷺ تمام معاملات میں آپ کوترجیح دیتے تھے ۔

نبی کریم ﷺ جب مرض الوفات میں تھے توآپﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق کو امامت کا حکم دیا۔ ازواج نے اور نام لیا مگر آپ كی نگاہِ انتخاب ابو بكر ہی پر تھی اور بالآخر انہیں ہی امامت كی ذمہ داری دی گئی۔ جو جس كام كا اہل ہو اسے ہی اس پر فائز كرنا یہ بھی اسوۂ رسول ہے۔

مناسب شخصیات كا انتخاب اور تقرر وقت پر بہت فائدہ دیتا ہے۔ اسی لیے جب رسولِ کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو صحابہ کرام میں ایک عجیب سی مایوسی چھاگئی تھی۔اس وقت سیّدنا ابو بكر﷜ نے شاندارخطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا:

''جومحمد ﷺ کی عبادت کرتاتھا توبلاشبہ محمدﷺرحلت فرماگئے، اورجو اللّٰہ کی عبادت کرتاہے تویقیناً اللّٰہ زندہ ہے جسے موت نہیں!پھر اس آیت كی تلاوت كی:

﴿وَما مُحَمَّدٌ إِلّا رَ‌سولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّ‌سُلُ ۚ أَفَإِي۟ن ماتَ أَو قُتِلَ انقَلَبتُم عَلىٰ أَعقـٰبِكُم ۚ وَمَن يَنقَلِب عَلىٰ عَقِبَيهِ فَلَن يَضُرَّ‌ اللَّهَ شَيـًٔا ۗ وَسَيَجزِى اللَّهُ الشّـٰكِر‌ينَ ﴿١٤٤﴾... سورة آل عمران

''محمدﷺ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک رسول ہیں،ان سے پہلے اوررسول بھی گزرچکے ہیں ، پھر کیا اگروہ فوت ہو جائیں یا قتل کردیے جائیں توتم لوگ اُلٹے پاؤں پھرجاؤگے؟یاد رکھو! جواُلٹاپھرے گا وہ اللّٰہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللّٰہ کے شکرگزار بندے بن کررہیں گے، انھیں وہ اس کی جزادے گا۔ ''

سیدنا ابوبکرصدیق اپنے اوصافِ حمیدہ کے سبب اس لائق تھے کہ انھیں یہ مقام ومرتبہ دیا جاتا۔

2. رسول اللّٰہ ﷺ نے خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق کی صلاحیتوں کوپرکھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے دعابھی کی تھی کہ

«اَللّٰهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْكَ بِأَبِيْ جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ»

''اے اللّٰہ! ابو جہل یا عمر بن خطاب ان دونوں میں سے جو تجھے محبوب ہے اس كے ذریعے سے اسلام كو عزت نصیب فرما۔''

ان کی دلیری ،قوتِ ارادی اور دوررس اَفکار و خیالات کے سبب اُن کے متعلق آ پ ﷺ نے فرمایا:

«لَوْکَانَ بَعْدِيْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرَ»

''اگرمیرے بعد کوئی نبی ہوتا توعمرہوتے۔''

چنانچہ خلیفہ اوّل کی وفات کے بعد جب مسلمانوں نے حضرت عمر کے ہاتھ پر بیعت کی اورآپ ؓ امیرالمؤمنین مقررہوئے توآپ ؓ نے اپنے دورِخلافت میں جو کار نامے انجام دیے، انھیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔آپ کا دل خوفِ خدا سے لرزاُٹھتاتھا ۔ آپ کے عدل وانصاف کے قصّے معروف ہیں ۔آپ ؓ دین کے معاملے میں کسی قسم کی مداہنت ومصالحت کو پسند نہیں کرتے تھے۔آپ باطل کے لیے ہمیشہ ننگی تلوار رہے، مگر حق کے لیے موم کی طرح پگھل جانے والے شخص بھی تھے۔راتوں کوگشت کرتے اور غریبوں مسکینوں کا پوراخیال رکھتے اور اُن کے لیے وظیفہ جاری کرتے تھے۔

آپ کے اندرخلیفہ ہونے کی پوری صلاحیت موجودتھی اورنبی کریم ﷺ نے جوتربیت فرمائی تھی اس کی بدولت آپ نے اسلامی سلطنت اور وہاں كے باشندوں کوبہت ہی مضبوط اورمستحکم کیا۔رفتہ رفتہ عرب كے علاوہ دنیا كے طول وعرض میں پرچم اسلام لہرانے لگا۔ الغرض!مناسب شخصیت كے انتخاب سے كامیابیوں اور كامرانیوں كے دروازے كھلتے چلے گئے۔

3. حضرت عمرفاروق کی شہادت کے بعد23ہجری میں حضرت عثمان غنی خلیفہ مقرر ہوئے۔ آپ نے اسلامی مملکت کو مزید وسعت بخشی۔ آپ کے اہم کارناموں میں مسجدِنبوی کی توسیع اور قرآنِ مجید کو رائج رسم الخط كے نسخے پر جمع كرنا ہے اوراسے ایک مصحف میں جمع کرنا شامل ہے۔اسی وجہ سے آپ کو جامع القرآن بھی کہاجاتاہے۔حضرت عثمان نہایت ہی باحیا، فیاض، محسن ،نرم طبیعت اورخوش اخلاق شخصیت کے مالک تھے۔

آپﷺ حافظِ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ مناسک حج کو اچھی طرح جانتے تھے۔ مدینہ منورہ میں صحابہ کرام کے پاس پینے کے لیے میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا، وہ ایک یہودی کے کنویں سے قیمتاً پانی لیتے تھے۔ آپ ﷺ كی ترغیب پر عثمان﷜نے وہ کنواں خریدکرصحابہ کرام کے لیے وقف کردیا۔۔ اپنے صلاح وتقویٰ اور امتیازی صلاحیتوں کے ساتھ اسلام کی قیادت سنبھالے ہوئے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے کہ سن ۳۵ہجری میں عبداللّٰہ بن سبا یہودی كے كھڑے كیے ہوئے فتنے میں بلوائیوں کے ہاتھوں اس حال میں شہیدہوئے کہ زبان پر تلاوت جاری تھی۔جسم سے نکلاہوا خون اس آیت: ﴿فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ ﴾ پر پڑاجوہمیشہ کے لیے یادگاربن گیا۔

4. حضرت علی اسلام قبول کرنے والوں میں دوسرے نمبرپر ہیں ۔انھوں نے نبی کریم ﷺ کی زیرتربیت پرورش پائی۔علم وحکمت کے ماہر،قرآنیات پر عبور،اللّٰہ والے ایک دلیر صحابی تھے۔ ان کا لقب ابوتراب تھا، فاتح خیبرکے لقب سے بھی مشہورہیں۔نبی کریمﷺ نے جنگِ خیبرکے موقع پرارشادفرمایاتھا:

«لَأُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ رَجُلًا یَفْتَحُ اللهُ عَلىٰ یَدَیهِ، یُحِبُّ اللهُ وَرَسُوْلُهُ وَیُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ»

''میں ایک ایسے شخص کو جھنڈادوں گا جس کے ذریعے اللّٰہ فتح عطا کرے گا۔وہ اللّٰہ اوراس کے رسول سے محبت کرتاہے اوراللّٰہ اوراس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔''

نبی کریم ﷺ نے انھیں مختلف طرح کی ذمے داریاں سونپیں، ان میں عہدنامے،خطوط نویسی، جنگ کی قیادت وغیرہ شامل ہیں۔ان ذمے داریوں کی ادائیگی میں اُنھیں بہت سے مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا۔

5.  رسول اللّٰہ ﷺنے خالدبن ولید کو فوجی قیادت سونپی۔ چناں چہ انھوں نے بھی اپنے اس فن میں ماہر ہونے کی حیثیت سے وہ کارنامے انجام دیے جوایک بہادر فوجی لیڈرکے شایا نِ شان تھے اور آپ کے فہم وبصیرت اورجرات وبہادری سے بہت سے مقامات فتح ہوئے،جس پر ان کو سیف اللّٰہ کا خطاب بھی دیا گیا ۔

6. حضرت زید کوعلم وراثت اورترجمے کاکام سونپاگیا۔دور نبوی میں آپ کو قرآنِ کریم کی آیات لکھ کر محفوظ کرنے کا کام دیا گیا، دور صدیقی میں سیدنا ابوبکر صدیق نے یہی مبارک کام آپ سے لیا اور پھر دور عثمان میں بھی جمع قرآن کے سلسلےمیں آپ کی شاندار خدمات ہیں۔

7. حضرت اُبی بن کعب کوحفظِ قرآن مجید کے سلسلے میں ذمے داری دی گئی جنھوں نے بہت سے حفاظ کرام تیارکیے ۔ جب تلاوت کرتے تو اپنی خوش الحانی سے فضاکوروح پروربنادیتے تھے۔حتی کہ آپ کی قراءت سننے کے لیے فرشتے بھی آپ کے گردمنڈلانے لگتے تھے۔

8. رسول اللّٰہ ﷺ نے اپنے چچا عباس کو کسی معاملے کا والی بنایاتوفرمایاکہ ''اے میرے چچا! میں اس معاملے میں کسی دوسرے کومناسب نہیں سمجھتاکہ اسے والی بناؤں۔'' سیدنا عمر﷜کا فرمان ہے:

«مَنْ وَليَِ مِنْ أَمْرِ الْـمُسْلِمِيْنَ شَيْئًا فَوَلّٰى رَجُلًا لِقَرَابَةٍ أَوْ مَوَدَّةٍ فَقَدْ خَانَ اللهُ وَرَسُوْلُهُ»

'' جس نے قرابت یا آپس كی محبت کی بنیاد پر کسی کووالی یاامیربنایاتو اس نے اللّٰہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی۔''

9. حضرت معاذبن جبل زودفہمی ،قوتِ استدلال، خوش بیانی اوربلندہمتی کے لحاظ سے ایک منفردممتازمقام رکھتے تھے۔ان کی تعریف وتوصیف اللّٰہ کے رسول اللّٰہ ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی : «أَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُبْنُ جَبَلٍ....»

ان کے اسی علم وفہم، سوجھ بوجھ کے پیش نظر اللّٰہ کے رسولﷺ نے اُنھیں یمن کا گورنربناکر بھیجا۔ روانہ کرتے وقت آپﷺ نے ان سے پوچھا: تم لوگوں میں کیسے فیصلہ کروگے؟ معاذؓ نے جواب دیا:''میں پہلے اللّٰہ کی کتاب کے ذریعے فیصلہ کروں گا ،اگراس میں حکم نہ ملا تو سنت میں تلاش کروں گا،اگراس میں بھی نہ ملاتو پھراجتہادکے ذریعے فیصلہ کروں گا۔''

آپ نے بہت سے مقامات پر ان کو ذمّے دار بنایا، حضرت عمر فاروق نے بھی بہت سی ذمے داریاں ان کو سونپیں۔

10.  رسول اللّٰہﷺ اچھے اوصاف سے متصف لوگوں کی تعریف کرتے تھے۔آپﷺ کا ارشادہے:

«خِیَارُکُمْ فيِ الْجَاهِلِيَّةِ، خِیَارُکُمْ فيِ الْإِسْلَامِ»

''جولوگ زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے، وہ زمانہ اسلام میں بھی بہترہیں۔''

11. آپﷺنے حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کی خوبیوں کے پیش نظراُنھیں'امین الامّہ' کا خطاب عطاکیا ۔''ایک موقع پریمن کے کچھ لوگ آئے ،اورآپﷺ سے دریافت کیا کہ ہمیں کوئی ایسا شخص دیجئے جوہمیں اسلام اورسنّت سکھائے، آپ نے حضرت ابوعبیدہ کا ہاتھ تھاما اور فرمایا : "هٰذا أمین هذه الأمة"یہ ہیں اس اُمت کے امین ۔ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا:

«إِنَّ لِکُلِّ أُمَّةٍ أَمِیْنًا وَاِنَّ أَمِیْنَنَا أَیَّتُهَا الْأُمَّةُ أَبُوعُبَیْدَةُ بْنُ الْجَرَّاحِ»

''ہرامت کا ایک امین ہوتاہے ،اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔''

12. رسول اللّٰہ ﷺ نے ایک نیک، دانش منداور کم سن نوجوان صحابی کو عظیم الشان ذمہ داری سونپی جواکثر رسول اللّٰہ ﷺ سے میدانِ جنگ میں شرکت کی اجازت کے لیے بے تاب اور کوشاں رہتے تھے۔آپﷺ نے ان کے اس حوصلے اور دانش مندی کے سبب ان کو محض بیس سال کی عمرمیں رومیوں سے جنگ کی قیادت سونپ دی۔انھیں ایسی فوج کا کمانڈربنایاجس میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ موجودتھے۔اس کمسن قائد کا قافلہ آپﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کے زمانۂ خلافت میں روانہ ہوا۔ان کی بہادری نے رومیوں کا خوف مسلمانوں کے دل سے نکال پھینکا اوریہ فاتح جوان مدینہ میں بہت سے مالِ غنیمت کے ساتھ واپس لوٹا۔سیرتِ صحابہ سے واقف حضرات کے لیے اس کم سن جوان کی پہچان کے لیے ان کا نام ہی کافی ہوگا۔ ان کا نام حضرت اُسامہ بن زید ہے جنھیں نبی کریم ﷺ نے ان کی قابلیت اورصلاحیت کی بنیاد پر اتنی بڑی ذمے داری سونپی ۔ حضرت عمر اسامہ سے ملتے توکہتے: مرحبًا بأمیري(میرے امیر! خوش آمدید)اس پر لوگ تعجب کا اظہار فرماتے توفرماتے:

''رسول اللّٰہﷺ نے ان کو میرا اَمیر مقرر فرمایا تھا۔''

امارت وحکومت یا کسی معاملہ کی ذمّہ داری ایک بہت بڑی امانت ہے۔ اس کے لیے بہت غوروخوض کے بعد فیصلہ لیناچاہیے اوراس کے لیے جوشخص مناسب ہو تو اسے کسی مخالفت کے بغیرذمہ داری دینی چاہیے اورجواس کے لیے مناسب نہ ہوتو اس کوذمے داری ہرگزنہیں سونپنی چاہیے۔ ورنہ وہ کام تو خراب ہوگاہی، ساتھ ہی معاشرہ بھی بہت سی پریشانیوں اور اختلافات کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔ کیوں کہ معاشرے کے بہت سے معاملات اس سے جڑے ہوتے ہیں اوربہت سے حقوق اس سے وابستہ ہوتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے اہلیت کی بنیاد پر ذمہ داریوں کی تقسیم کاری کی۔جولوگ اس میں غیرذمہ دارانہ رویہ اختیارکرتے ہیں یا پھرامارت ومنصب كو محض تعلق اور رفاقت کی بنیادپر بانٹ دیتے ہیں ،ایسے لوگوں کے سلسلے میں سخت پہلواختیارکرتے ہوئے آپﷺ نے ارشادفرمایا:

«مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْ عِیْهِ اللهُ رَعِیَّةً یَمُوتُ یَوْمَ یَمُوْتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِیَّتِهِ اِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةِ»

''جس شخص کو اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کا ذمہ داربنائے اور وہ اس میں خیانت کرے تو اللّٰہ اس پر جنت کی خوشبو حرام کردے گا۔''

دوسری جگہ ارشاد ہے:

«مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ الْـمُسْلِمِیْنَ شَیْئًا فَأَمَّرَ عَلَیْهِمْ أَحَدًا مُحَابَاةً، فَعَلَیْهِ لَعْنَةُ اللهِ، لَایَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا، وَلَاعَدْلًا،حَتّٰی یُدْخِلَهُ جَهَنَّمَ»

''جس شخص کو عام مسلمانوں کی ذمے داری سپردکی گئی ہو ،پھراس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی وتعلق کی وجہ سے بغیراہلیت کے دے دیا ،اس پر اللّٰہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ اللّٰہ اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا،یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے گا۔''

نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ وہ امارت وولایت کی تمنا نہ کریں اور نہ اس کی خواہش میں لگے رہیں۔ آپﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن سمرۃ کو ہدایت فرمائی :

''اے عبدالرحمٰن! تم عہدۂ امارت طلب مت کرو،اگر تم کوطلب کرنے کے بعد امارت عطا کی گئی توتم اسی کے سپردکردیے جاؤگے۔ اگربلامطالبہ تمہیں یہ عہدہ مل گیاتو اس پر تمہاری مددکی جائے گی۔''

ذمّے داری سونپنے کا معاملہ انتہائی نازک ہے۔ اس سے یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہیے کہ جس کو لوگوں کے کسی معاملہ کی کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی، وہ مرتبہ میں کم ہے۔ حضرت ابوذرؓ کوآپ کے نزدیک بہت قدرومنزلت حاصل تھی۔آپ بہت ہی متقی وپرہیزگار صحابی تھےمگرآپ نے ان کوکسی معاملہ میں ذمہ دارنہیں بنایا۔آپﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا:

«یَا أَبَا ذَرٍّ! إِنِّي أَرَاكَ ضَعِیْفًا، وَإِنِّيْ أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِيْ، لَا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَیْنِ، وَلَا تَوَلَّیَنَّ مَالَ یَتِیمٍ»

''اے ابوذرّ!میں تمھیں کمزورپاتاہوں۔ میں تمہارے لیے وہی پسند کرتاہوجواپنے لیے پسند کرتاہوں،تم دولوگوں پر بھی ذمہ دارنہ ہونا اورنہ مال یتیم کا ولی بننا ۔''

دوسری جگہ حضرت ابوذرؓ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

«إِنَّهَا أَمَانَةٌ، وَإِنَّهَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ خِزْیٌ وَّنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّی الَّذِی عَلَیْهِ فِیْهَا»

''یہ امانت ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی و ندامت کا سبب بنے گی۔ سوائے اس کے جواس کا حقدار ہو اوراپنی ذمہ داری کوصحیح طریقے سے انجام دے۔''

سلف صالحین کا طریقہ

نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام بھی اس کی اہمیت اورنزاکت کے سبب اس معاملہ میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔حضرت عمر کا قول ہے:

"من ولي من أمرالمسلمین شیئًا فولي رجلا لمودة أوقرابة بینهما، فقد خان الله ورسوله والمسلمین"

''جس شخص کو مسلمان کے کسی معاملے کا ذمے داربنایاگیا اور اس نے دوستی اورقرابت کی بنیاداس کا کوئی کام کیا۔ اس نے اللّٰہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی۔''

اسی طرح کا معاملہ تابعین وتبع تابعین کا بھی تھا۔جناب عمربن عبدالعزیزؒ خلیفہ بنائے گئے ۔انھوں نے اپنے پہلے خطاب میں کہا:''مجھ سے خلافت کی بیعت لی گئی جب کہ میں اس کا متمنی نہیں تھا۔لہٰذا آپ لوگ جسے چاہیں اپنا خلیفہ متعین کرلیں۔اس پر مجمع روپڑااوراپنی بھرائی ہوئی آواز میں کہا: اے محترم! ہم نے آپ کا انتخاب کیااور ہم آپ سے خوش ہیں۔توعمربن عبدالعزیز بھی روپڑے اورکہا:

''اللّٰہ مددگارہے۔پھر منبرکے گرد موجودلوگوں کویہ کہتے ہوئے نصیحت کی کہ میں تمہیں اللّٰہ کا تقویٰ اختیارکرنے کی وصیت کرتا ہوں۔جواللّٰہ کی اطاعت کرے گا، اس کی اطاعت واجب ہے اورجواللّٰہ کی نافرمانی کرے گا، اس کی کوئی اطاعت نہیں۔پھراپنی آواز بلندکرتے ہوئے کہا :تمہارے درمیان جب تک میں اللّٰہ کی اطاعت کروں تو تم میری اطاعت کرنا ،اگر میں اللّٰہ کی نافرمانی کروں توتمہارے ذمہ میری اطاعت لازم نہیں ہوگی۔''

پھرقصرخلافت کی طرف روانگی کے لیے لوگوں نے سواری پیش کی توآپ نے کہا کہ میں بھی عام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں،اس لیے میری آمدورفت بھی اسی طرح ہوگی اورقصرخلافت کے بجائے اپنے مکان کا رخ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جواللّٰہ کی خاطرتواضع اختیار کرے گا، اللّٰہ اسے بلندمقام عطا کرے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف ذمہ داری کی نزاکت اورآخرت میں جواب دہی کے احساس کے سبب اسے قبول کرنے سے کتراتے تھے۔بہت سے لوگ جیلوں میں ڈال دیے گئے ، ان پر کوڑے برسائے گئے لیکن اُنھوں نے کوئی منصب قبول نہیں کیا۔کیونکہ ان کے سامنے اپنے بزرگوں کے تاریخی احوال موجودتھے اور ان کے تقویٰ ودیانت داری کے قصے سنائے جاتے تھے۔ لہٰذا ان کی نگاہ میں اس احساسِ ذمے داری کے ساتھ کسی منصب یا ذمے داری کو قبول کرلینا معمولی بات نہیں تھی۔

حاصل کلام یہ کہ قائدین اُمت کو اس مسئلے پرپوری دیانت داری کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ان پر لازم ہے کہ اپنے بعد آنے والوں کو عمدہ دینی تربیت دیں اور افرادسازی کے ساتھ ساتھ تفویض کارمیں بھی باریک بینی سے کام لیتے ہوئے ذمے داری سونپنے کا فریضہ انجام دیں۔ کیونکہ یہ ایک امانت ہے جس میں کسی ذاتی منفعت کے پیش نظرخیانت کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ۔اس سے امت بحران کا شکار ہوتی اورملت کوبہت بڑے نقصان کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ اللّٰہ کی نصرت ایسے ذمہ داروں پر نہیں ہوتی جوکسی مفادکے پیش نظرکسی عہدے پر فائز ہوں۔


حوالہ جات

1. سنن ابی داود،كتاب الأدب، باب في تنزیل الناس منازلهم: ۴۸۴۲...حدیث ضعیف

2. صحیح بخاری، كتاب العلم، باب من سئل علمًا وهو مشتغل في حدیثه: ۵۹

3. صحیح بخارى، كتاب المغازي، باب غزوة ذات السلاسل: ۴۳۵۸

4. صحیح بخاری، كتاب فضائل أصحاب النبيﷺ، باب قول النبي لو كنت متخذًا خلیلاً......: ۳۶۵۶

5. جامع ترمذی، كتاب المناقب، مناقب أبي حفص عمر بن خطابؓ: ۳۶۸۱

6. جامع ترمذی، كتاب المناقب، باب في مناقب عمر بن الخطابؓ: ۳۶۸۶

7. تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی: ۳؍۱۷۰

8. صحیح بخاری، كتاب الوصایا، باب إذا وقف أرضًا: ۲۷۷۸

9. صحیح بخاری، كتاب الجهاد، باب فضل من أسلم على یدیه رجل: ۳۰۰۹؛

10. صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل على بن أبي طالب: ۲۴۰۵

11. كنز العمال: ۲؍ ۱۳۹، حدیث: ۱۴۳۰۵

12. سنن ابن ماجہ، كتاب السنة، باب فضائل أصحاب رسول اللهﷺ: ۱۵۴

13. مسند احمد: ۲؍ ۴۸۵

14. صحیح بخاری ، كتاب فضائل أصحاب النبي، باب مناقب أبي عُبیدة بن الجراح: ۳۷۴۴؛

15. صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبي عبیدة بن الجراح: ۲۴۱۹

16. صحیح مسلم، كتاب الإیمان، باب استحقاق الوالي الغاش لرعیته النار: ۱۴۲

17. مسند احمد: ۱؍۶ ...اسنادہ ضعیف

18. صحیح بخاری، كتاب الأحكام، باب من لَمْ یَسْاَلِ الإمارة أعانه اللهُ علیها: ۷۱۴۶؛

19. صحیح مسلم، كتاب الأیمان، باب ندب من حلف یمینًا......: ۱۶۵۲

20. صحیح مسلم، كتاب الإمارة، باب كراهة الإمارة بغیر ضرورة: ۱۸۲۶

21. صحیح مسلم، باب كراهة الإمارة بغیر ضرورة: ۱۸۲۵

22. كنز العمال: ۲؍ ۱۳۹، حدیث: ۱۴۳۰۵