سعودی اتحاد کے ذریعے یمنی بغاوت کی سرکوبی

مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال، اِمکانات اور پاکستان کا کردار

یمن میں جاری خانہ جنگی کا پس منظر طویل ہے ، خدانخواستہ یہ ایک عالمی جنگ کی طرف نہ بھی بڑھے تو مستقبل میں عالم اسلام میں اس کے اثرات بڑے دور رَس دکھائی دیتے ہیں۔ اصل صورتِ واقعہ کیا ہے اوراس کا درست حل کیا ہونا چاہیے، پاکستان کو اس میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے، ذیل میں ان پہلوؤں پرہماری معروضات پیش خدمت ہیں :

یمن کی خانہ جنگی کے فریق

یمن کی خانہ جنگی کے تین نمایاں فریق ہیں: اوّل) یمنی صدر عبد ربّہ ہادی منصور کے تحت قائم قانونی حکومت جس کے مطالبے پراُس کے تحفظ واستحکام کے لیے سعودی عرب معاونت کررہا ہے۔خلیج تعاون کونسل کے عمان کے علاوہ پانچوں ممالک (سعودی عرب، امارات، قطر، کویت اور بحرین) عرب لیگ ،اُردن، لبنان، مصر، سوڈان اورمراکش وغیرہ کا غیر مشروط تعاون سعودی اتحاد کو حاصل ہے۔ غیر عرب میں عالم اسلام کے اہم ممالک ترکی، ملائشیا اور پاکستان بھی اس کے ہم نوا ہیں۔ یمنی حکومت کے مطالبے پر ان اتحادی افواج کی قیادت سعودی عرب کررہا ہے۔ان کے ساتھ یمنی حکومت کی وفادار افواج اورعوام کی اکثریت شامل ہیں۔ یمن کی قانونی اور اخلاقی حکومت اُن کے پاس ہے، اقوام متحدہ بھی اسی فریق کی تائید کرتی ہے۔

دوم) دوسری طرف حوثی باغیوں کی مدد کرنے والوں میں یمن پر 30 سال اقتدار میں رہنے والے سابق آمرصدر علی عبد اللّٰہ صالح اور اس کی ملیشیا،سابق صدر کی حامی اسٹیبلشمنٹ جو فوج اورانتظامیہ میں ہے،اور ایران کی بھرپور معاونت شامل ہے۔ حوثی اور سابق صدر صالح کی حامی ؍وفادارملیشیا کی تعداد ایک ، ایک لاکھ سے زائدہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ حوثی قبائل مزاحمت کی اصل طاقت نہیں بلکہ فیصلہ کن قوت دو برس قبل معزول ہونے والے آمرعلی عبد اللّٰہ صالح اور اس کے حامی عناصر کو حاصل ہے۔ علی عبد اللّٰہ صالح نے لمبی حکمرانی کے دور میں اربوں ڈالر کے اثاثے جمع کیے ہیں، وہ جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہوئے سعودی عرب کے اہم شہروں مثلاً طائف تک یمن کی حدود کو وسیع کرنا چاہتا ہے۔جس طرح عرب بہار کے نتیجے میں مصر میں جمہوری قیادت سنبھالنے والے صدر ڈاکٹر مُرسی کو صرف ایک سال کے بعد جون 2013ء میں معزول کرکے، عالمی قوتوں نے جنرل عبد الفتاح سیسی کو سریر آرائے اقتدار کردیا تھا، اور اس سلسلے میں مغربی قوتوں کی حقیقی مدد حسنی مبارک کی برسہا برس سے چلی آنے والی اسٹیبلشمنٹ نے کی تھی، اسی طرح یمن میں بھی آمرعلی عبد اللّٰہ صالح کی سابقہ انتظامیہ، فوج وبیوروکریسی فیصلہ کن قوت ہیں، جنہوں نے حوثی قبائل کی آڑ لے رکھی ہے۔ اور حوثی قبائل کے غلبہ جماتے ہی وہ اُن سے حکومت چھیننے یا اُن کی مفاہمت سے حکومت چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔1990ء میں شمالی وجنوبی یمن کو متحد کرتے ہوئے سعودی عرب کی حمایت سے علی عبد اللّٰہ صالح کا اقتدار متحدہ یمن تک وسیع ہوگیا تھا۔عرب بہار کے نتیجے میں عوامی غیظ وغضب کے سامنے نومبر 2011ء میں علی عبد اللّٰہ صالح نے خلیج تعاون کونسل کی ضمانت پر بعض شرائط پر اقتدار سے علیحدگی قبول کی تھی، جن میں اس کے نائب عبد ربہ ہادی منصور کو صدر بنا دینے کے ساتھ ، علی عبد اللّٰہ صالح کے پاس فوج کی ایک بڑی تعداد کی تدریجا ً قیادت چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ، لیکن اس پر عمل درآمد نہ کرتے ہوئے، اس وقت تک یمنی فوج کی اکثریت علی عبد اللّٰہ کے ہی زیر اثر ہے۔گویا دوسرا اور باغی فریق بظاہر حوثی، درحقیقت سابقہ یمنی آمر اور اس کی حامی قوتوں اور درپردہ ایرانی معاونت کا مجموعہ ہے۔پہلے فریق نے عملاً بغاوت کی قیادت سنبھال رکھی ہے، سابقہ یمنی آمر خلیج تعاون کونسل سے معاہدہ کرکے، ان کی ضمانت کے بعد، اپنے عہد سے پھر چکا ہے، اور ایران آج تک علانیہ فریق بننے کے بجائے ان دونوں کی درپردہ مدد کررہا ہے، کیونکہ حوثی اور علی عبد اللّٰہ صالح دونوں ہی شیعہ ہیں۔

سوم) یمن کا تیسرا فریق امریکی فوج اور مغربی لابی ہے،جو 2004ء میں 'مرکز برائے انسانی حقوق' اور 2011ء میں 'ریسپانسو گورننس پروجیکٹ' وغیرہ کے ناموں اور اپنی افواج کے ذریعے سرگرم عمل ہے، گذشتہ 11 سالوں میں یمن میں این جی اوز کے ذریعے لاکھوں ڈالر کے امریکی پروجیکٹ شروع کیے گئے ہیں۔ یہ سازشی عناصر یمنی نوجوانوں میں بے حیائی، فحاشی اور لبرل خیالات وآزادی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ 'جنوبی عرب ریاست' کے قیام کے لیے متحرک ہیں۔ امریکی افواج طویل عرصہ یمن میں موجود رہیں اور ڈرون حملوں کے ذریعے وہاں القاعدہ کو نشانہ بنایا جاتا رہا ، جو فی زمانہ دنیا بھر میں القاعدہ کا سب سے مضبوط نیٹ ورک ہے۔ القاعدہ کے ساتھ داعش کے جنگجو بھی شریک ہیں جنہوں نے امریکی اڈوں پر حملہ کرنے اور اُنہیں بھگانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے(امریکی افواج نے مارچ 2015ء میں یمن سے بظاہر اپنے فوجی نکالنے کا دعویٰ کیا ہے)۔ انہی دنوں یمنی شہر مکلا کو القاعدہ نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

بظاہر مغربی اقوام یمن کی قانونی حکومت کی تائید کرتی ہیں، سعودی عرب کے امریکی سیاسی حلیف ہونے کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن درپردہ امریکی لابی ، حوثی اور باغی عناصر کی معاونت کرتی ہے، جیسا کہ صنعا میں ستمبر2014ء میں حوثیوں کے غلبے کو امریکی این جی اوز اور اُن کے سرکردہ عناصر نے خوش آمدید کہا اور فروری میں عبد ربہ ہادی منصورکی یمنی فوج کی بظاہر تائید کے لیے بھیجا جانے والے نصف ارب ڈالر کا اسلحہ عملاً حوثی قبائل کے ہاتھ لگوا دیا گیا، جن میں ہیلی کاپٹر، جنگی کشتیاں، ڈرون طیارےاور لاکھوں ایمونیشن راؤنڈز شامل ہیں۔ان حوثیوں کو ڈیڑھ برس قبل ایران نے بھی بحری جہازوں کے ذریعے بھاری اسلحہ پہنچایا، اور صنعا پر باغیوں کے قبضے کے دوران بھی باقاعدہ ایرانی طیاروں کے ذریعے وسیع پیمانے پر اسلحہ پہنچایا گیا۔ ان دنوں بھی ایرانی بحریہ یمنی ساحلوں کےقریب منڈلاتی رہتی ہے اور یومیہ تین بحری جہاز ایرانی اسلحہ پہنچا رہے اور یمن کے زخمیوں کو طبی امداد مہیا کی جارہی ہے۔ 15؍اپریل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے15 میں سے 14؍ ارکان نے حوثیوں کو اسلحہ کی فراہمی پرپابندی لگاتے ہوئے،اُنہیں صنعا اور یمن سے نکل جانے کا حکم دیا ہے، سلامتی کونسل نے یمنی خانہ جنگی کی اہم ترین وجہ علی عبد اللّٰہ صالح کے ناجائز اقدامات کو قرار دیا ہے۔

ایران سےاہل مغرب کا ایٹمی معاہدہ؛ملتِ اسلامیہ کو لڑانے کی سازش

یمن کی خانہ جنگی میں عالم کفر کا رویّہ بڑا پیچیدہ ہے۔ ایک طرف امریکہ اور عالمی قوتوں کی شدید خواہش ہے کہ عالم اسلام باہمی شورشوں اور آویزشوں کا شکار رہے، ان کی سرزمین طویل عرصے تک میدانِ جنگ بنی رہے۔اس مقصد کے لیے عالم اسلام میں پھوٹ ڈالتے ہوئے شیعہ عنصر کو پروان چڑھانا اور اُنہیں تقویت دینا عالمی سامراج کی حکمتِ عملی کا بنیادی نکتہ ہے تاکہ اس طرح ملتِ اسلامیہ کو آپس میں لڑا کر، ہر دو طرف سے فوائد حاصل کیے جائیں۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت ماضی قریب کی جنگِ خلیج سے امریکہ نے عظیم مالی فوائد سمیٹے۔ داعش کی صورت میں عراق میں دولتِ اسلامیہ کے قیام سے بھی امریکہ کی قیادت میں عالم کفر اپنے ان شرانگیز مقاصد سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا۔ اس بنا پر ایران کا ایٹمی صلاحیت کا حامل ہونا بھی عالم کفر کو مسلم ممالک سے زیادہ بہتر فوائد حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔

امریکہ اور اس کے حواری ممالک یہ چاہتے ہیں کہ عالم اسلام میں کچھ کی ظاہری مدد کریں اور کچھ کی مخفی اور دونوں طرف سے اپنے فوائد سمیٹتے اور اسلام ومسلمانوں کو کمزور تر کرتے رہیں۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت دو ماہ پہلے تک بظاہر امریکہ کی سٹریٹجک سپورٹ القاعدہ اور داعش کے خلاف موجودہ یمنی حکومت کو حاصل تھی۔ سعودی عرب نے عالم اسلام کے اتحاد کے بعد اپنے تئیں 25 مارچ کو بدھ کی رات یمن کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کردیا تو امریکہ میں متعین سعودی سفیر کو طلب کرکےصورتحال کی وضاحت لی گئی اور دو روز بعد امریکہ نے ازخود سعودی اتحاد کی تائید کردی۔

اہم سیاسی چال چلتے ہوئے 3 ؍اپریل کو سات ایٹمی طاقتوں نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ پر اتفاق کرکے سعودی فرمان روا کو آگاہ کردیا ۔ دس برس سے ایران کی جوہری صلاحیت پرچلے آنے والے اختلاف کاخاتمہ سب سے بڑےعالمی قضیہ کا حل ہے، جس میں ایران کی ایٹمی صلاحیت کو ایک تہائی سینٹری فیوژن تک بظاہر محدود کرکے، درونِ خانہ ایران کو آئندہ پندرہ سال کے لیے محدود پیمانے پر ایٹمی صلاحیت کا جواز مہیا کردیا گیا ہے۔اس عرصہ میں ایران کو ایٹمی صلاحیت کو مستحکم کرنے کا موقع ملے گا۔ یادرہے کہ ایران نے مغربی طاقتوں سے دوطرفہ معاہدہ کیا ہے جس میں مغربی قوتیں اگر معاہدے کی پاسداری نہیں کرتیں تو ایرانی صدر حسن روحانی کے بقول، وہ بھی اس صلاحیت کو محدود کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔

30 جون 2015ء کو معاہدہ حتمی ہونے سے قبل تک ایران پوری طرح آزاد ہے، اور اس کے بعد جب کبھی اس نے خلاف ورزی کی تو ایٹمی ادارے کے جائزے کے بعد لگنے والی پابندی سے اس وقت تک ہونے والی ایٹمی پیش قدمی واپس نہیں ہوجائے گی۔امریکہ کی قیادت میں ہونے والے اس ایٹمی معاہدہ کے بعد ایران میں جشن کا سماں اور اسے تعلقات کی تجدید قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اس سے ایران کی تباہ حال معیشت کو بھرپور سہارا ملے گا۔ اسرائیل نے بھی اس کو تسلیم کرتے ہوئے، اپنے وزیر اعظم نتن یاہو کی زبانی یہ شرط عائد کی ہے کہ 'تاہم' اس معاہدہ سے قبل ایران کو اسرائیل کا وجود بھی تسلیم کرنا چاہیے۔اس معاہدے کے نتیجے میں ایران کو بے پناہ تجارتی اور عسکری فوائد حاصل ہوں گے ، تجارتی پابندی ختم ہوکرتیل وگیس برآمد کرنے، اور مغربی ممالک سے سامان درآمد وبرآمد کرنے کی سہولت حاصل ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے دوران ایرانی حکومت کا پورا زور پابندیوں کے خاتمے پر رہا اور اس کا مطالبہ تھا کہ دوبارہ یہ پابندیاں از خود عائد کرنے کے بجائے، عالمی ایجنسی کی رپورٹوں پر منحصر کی جائیں۔ خلیجی ممالک کا مطالبہ تھا کہ ایران سے کسی قسم کا ایٹمی معاہدہ نہ کیا جائے، لیکن اپنے حلیفوں کے مفادات ومطالبوں کونظر انداز کرنے کی روایت پر عمل کرتے ہوئے، مغربی قوتوں نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کو ترجیح دی۔

درحقیقت یہ معاہدہ عالم اسلام کے مفادات کو نظرانداز کرکے، مغرب اور ایران کے گٹھ جوڑ کا مظہر ہے۔امریکی اتحاد دراصل عراق میں داعش کے خلاف ایرانی تائید حاصل کرنا چاہتا تھا، جس کے مقابلےمیں ایران کا موقف یہ تھا کہ اگر امریکہ ایران سے یہ مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ اس کی ایٹمی حیثیت کو تسلیم کرے۔ گویا ایران کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف جارحیت میں اُصولی اختلاف نہیں بلکہ وہ اس کی معقول قیمت وصولنا چاہتا تھا۔اب اس ایٹمی معاہدہ کے بعد عراق میں دولتِ اسلامیہ کی قوت کو ایران کی مدد سے پارہ پارہ کیا جائےگا، پھر یمن میں بھی درپردہ حوثی باغیوں کی مدد جاری رکھی جائے گی۔سعودی عرب اپنے شمال میں عراق، اور جنوب میں یمن ، ہر دوسمت سے ایرانی دباؤ کا سامنا کرتا رہے ۔

یمن کی موجودہ خانہ جنگی نے مغرب وایران کو درپردہ گٹھ جوڑ کرنے اور عالم اسلام کے خلاف متحد ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ داعش کے یہی جنگجو ان دنوں لیبیا میں بھی اپنا اقتدار قائم کررہے ہیں اور دار الحکومت کے علاوہ دو بڑے شہروں اور کئی آئل ریفائنریز پر بھی قابض ہیں۔ امریکی دانشور جانتے ہیں کہ سعودی عرب، خلیجی ممالک اور داعش والقاعدہ کی شریعت ایک ہے اور ان میں سیاسی اختلاف کسی بھی مرحلے پر کنٹرول میں لایاجاسکتاہے، اسی لیے ان کے زیر اثر عوام ایک دوسرے کے خلاف دل وجان سے لڑنے کو آمادہ نہیں۔اس اُبھرنے والی اسلامی قوت کو ایک مضبوط مخالف لابی کے ذریعے اور مسلمانوں کو باہم لڑا کرہی اہل مغرب سکون کا سانس لے سکتے ہیں۔

اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مغربی ممالک کے لیے شیعیت اور سنیت کوئی حقیقت نہیں رکھتیں، وہ دونوں کے مشترکہ دشمن ہیں، تاہم عسکری جذبہ سے محروم مغرب اور ایران کے لیے سازشیں اور 'لڑاؤ اور حکومت کرو' ہی کارگر حکمتِ عملی ہے۔ایسی صورتحال میں ملتِ اسلامیہ میں اختلاف پیدا کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھنے والے عناصر مغربی ممالک کے لیے نعمتِ غیرمترقبہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی اختلافی عناصر اگرسنیوں میں جہاد کے نام پر پیدا ہوجائیں تو وہ بھی اُن کے لیے بیش قیمت تحفہ ثابت ہوتے ہیں، جن کے ذریعے صرف ڈالر ڈپلومیسی اور مفادات کی سیاست کرکے وہ ملتِ محمدیہ کو کمزور سے کمزور تر کرنے کی مساعی کرتے رہتے ہیں۔الغرض امریکہ اور یورپی ممالک دوہرے تہرے موقف کے حامل ہیں اور وہ یمن میں جاری اس آگ کو بھڑکانے کی بھی دوطرفہ کوشش کرکے اپنے اپنے مفادات حاصل کریں گے۔

یمنی بغاوت کی سرکوبی

یمنی حکومت کے مقابل آنے والی بڑی قوت حوثی قبائل، دراصل یمن کے زیدی شیعہ ہیں جو اپنے عقائد وفقہ کے لحاظ سے اہل سنت کے ہمیشہ سے بہت قریب رہے ہیں، لیکن 1990 ء کے بعد یمن میں سیاسی تحریکوں کی فعالیت اورایرانی اثرورسوخ بڑھنے کے بعد، 1997ء میں حوثیوں کا قائد حسین بدرالدین حوثی تہران منتقل ہوگیا۔ 2003ء میں واپس آیا اور یمنی حکومت کے خلاف بڑے مظاہروں کے ذریعے مزاحمت کی۔ حکومت نے پوری قوت سے اُنہیں کچلا،حوثی قائد تو مارا گیا لیکن حکومت مخالف تحریک مضبوط ہوتی گئی۔ 2008ء میں قطر نے حوثیوں اور یمنی حکومت میں صلح کرادی۔ اس وقت حوثیوں کی قیادت عبد المالک حوثی کے ہاتھ میں ہے جو ایران کی مشہور قم یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہے۔ ماضی کے زیدی رجحانات والے شیعہ میں بہت سے ایرانی اثرات کی بنا پر اس وقت اثنا عشری شیعہ ہوچکے ہیں۔ تاہم حوثیوں میں صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ یمنی حکومت کی طویل خانہ جنگی کی تاریخ رکھنے والے حکومت مخالف سنی عناصر بھی شامل ہیں۔ ماضی کا شمالی اور جنوبی یمن کا اختلاف بھی دوبارہ نمایاں ہو رہا ہے۔

یمن کے حوثی قبائل کافی عرصے سے اپنے ملک میں انتشار پھیلاتے رہے ہیں، ان کی حالیہ بغاوت کو بھی ایک بغاوت کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے اور ان سے وہی سلوک کیا جانا چاہیے جو کسی بھی ملک میں باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ حوثیوں نے بغاوت کرتے ہوئے یمنی دار الحکومت صنعا اور قریبی قصبوں پر کنٹرول مکمل کیا اور اہم ساحلی شہر عدن کی طرف پیش قدمی کی اور وہاں صدارتی محل پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ اس بنا پر 28 مارچ کو مصر ی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی عرب سربراہی کانفرنس میں یمن کے موجودہ صدر عبد ربہ منصور ہادی نے خطاب کرتے ہوئے برادر اسلامی ممالک سے یہ اپیل کی کہ اس بغاوت کو فرو کرنے میں ان کی مدد کی جائے۔ یمن کے موجودہ صدر نے سعودی اتحاد کی پیش قدمی کے ساتھ ہی سعودی عرب میں سیاسی پناہ حاصل کرلی ہے۔ 12؍اپریل کو صدر منصور ہادی نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا کہ

''یمن میں خانہ جنگی ایران کی اقتدار کے لیے ہوس اور پورے خطے کو کنٹرول کرنے کے لیے خواہش کا نتیجہ ہے۔ یمنی عوام اور میری آئین کی رو سے جائز حکومت کے خلاف حوثیوں کے جارحانہ حملوں کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ یمن کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت پر بھی حملہ ہے۔ حوثی باغی ایرانی حکومت کے آلہ کار ہیں اور ایران کی حکومت کو عام یمنیوں کی قسمت سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کو صرف خطے میں اپنی بالادستی سے مطلب ہے۔

سعودی عرب کی قیادت میں 'آپریشن فیصلہ کن طوفان'میری حکومت کی درخواست پر اور یمن کی امداد کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اگر حوثی شہروں کو خالی نہیں کرتے اور اپنی ملیشیا کو غیر مسلح کر کے سیاسی مذاکرات کے عمل میں دوبارہ شریک نہیں ہوتے تو ہم اتحاد سے کہیں گے کہ وہ ان کے خلاف اس فوجی مہم کو جاری رکھے۔

ہمارے ہمسایہ ممالک جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ ہمارے پڑوس میں ایک مکان جل رہا ہے، اس آگ پر سب سے پہلے قابو پایا جانا چاہیے اور اس کے بعد پورے خطے کو راکھ کا ڈھیر بننے سے بچایا جانا چاہیے۔''

اس لحاظ سے ایک تو یہ اُس بغاوت کا خاتمہ کرنے کی کوشش ہے جس کو بیرونی ترغیب وامداد مل رہی ہے اوراس سلسلے میں اسلامی ممالک سمیت، تمام اُصول پسند دنیا کو یمنی حکومت کا ساتھ دینا چاہیے اور بغاوت کی سرکوبی کرنا چاہیے۔

دوسری طرف سعودی عرب کے ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے حوثی قبائل ماضی میں سعودی سرحد پر جھڑپیں کرتے رہے ہیں، اور ان سے ملی ہوئی 16 سو کلومیٹر لمبی طویل سرحد کی بنا پر اس شورش سے سعودی حکومت براہِ راست متاثر ہوتی ہے۔سابقہ یمنی حکومت کے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ برس قبل حوثیوں نے سعودی علاقوں میں بھی جارحیت کی، جیساکہ اُن کے برے عزائم اور دعوؤں سے بھی ظاہر ہے۔ مزید برآں خلیج عدن میں اہم ترین بحری تجارتی گزرگاہ باب المندب پر اگر حوثی قبائل کو غلبہ حاصل ہوجاتا ہے تو اس سے بھی سعودی حکومت کے تجارتی اور علاقائی مفادات پر زَد پڑتی ہے کیونکہ خلیجی ممالک کی تیل کی آمدورفت اور ساری تجارت یہاں سے ہوتی ہے۔ جیساکہ صدر منصور ہادی اپنے مضمون میں مزید لکھتے ہیں:

''آبنائے باب المندب کے دوسرے کنارے ایک مخالف حکومت اقوام عالم کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ اہم آبی تجارتی گذرگاہ نہر سویز کی جانب جاتی ہے۔ اگر حوثیوں کو روکا نہیں جاتا ہے تو وہ ایران کی پشتی بانی میں ایک اور حزب اللّٰہ بننے جارہے ہیں اور وہ اس خطے اور اس سے ماورا علاقوں کے لوگوں کو ڈرائیں دھمکائیں گے۔ بحیرہ احمر سے گذرنے والے تیل کے ٹینکر خطرات سے دوچار ہوں گے۔''

خلیج تعاون کونسل کا یمن پر اقدام ایک تو بغاوت کو فرو کرنے کی کوشش ہے، جس کی درخواست اس سے یمن کے قانونی صدر اور حکومت نے کی ہے، علاوہ ازیں خلیج کونسل نے نومبر 2011ء میں یمنی عوام کی بغاوت میں علی عبد اللّٰہ صالح کا موجودہ حکومت سے معاہدہ کرایا، جس کے بعد صالح دوسال سعودی عرب میں زیر علاج رہا۔ اب صالح اپنے سابقہ اثرورسوخ کو استعمال کرکے، اسی معاہدہ کی خلاف ورزی اور حوثی قبائل کو شہ دے رہا ہے۔

جہاں تک اس صورتحال سے ایران کا تعلق ہے ، تو نہ اس کی کوئی سرحد یمن سے ملتی ہے، نہ یمنی یا سعودی حکومت کی جارحیت سے اُسے کوئی خطرہ درپیش ہے، نہ اس کا یمنی حکومت سے کوئی دفاعی معاہدہ ہے اور نہ ہی ایران نے اس خانہ جنگی کے فریق بننے کا واضح اور باضابطہ اعلان کیا ہے۔ جس طرح یمن میں حوثیوں کی بغاوت ناجائز ہے، اسی طرح ایران کا ان باغیوں سے تعلق اور تعاون بھی ناجائز اور اسلامی ملک یمن کے معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔ ایرانی بحریہ کے بعض جہاز عدن کے ساحل پر حوثیوں کی مدد کے لیے آئے تاکہ اس طرح خلیج عدن پر ایرانی قبضہ مستحکم کیا جائے لیکن اتحادی طیاروں کی پیش قدمی سے دوبارہ خلیج فارس کی طرف بھاگ گئے۔ الغرض یمن میں جاری جنگ شیعہ سنّی جنگ کی بجائے، یمن کی داخلی سیاسی جنگ ہے،جسے عالمی سیاست کے مسلّمہ اُصولوں کی بنا پر ہی جانچا جانا چاہیے۔

اگر یہ کوئی شیعہ سنّی جنگ ہوتی تو پھر سعودی عرب میں موجود شیعہ کے خلاف بھی اس جنگ کو پھیلایا جاتا۔حوثیوں میں بھی بہت سے سنّی عناصر موجود ہیں اور اُن کو علی عبد اللّٰہ صالح کی ایک بڑی سُنّی فوج کی تائید حاصل ہے۔ یوں بھی حوثی قبائل ، شیعیت کے اس فرقے پر مشتمل ہیں جسے زیدی کہا جاتا ہے اور زیدیہ کو ایران میں اقلیتوں کی صف میں شمار کرتے ہوئے ان کے لیے متعصّبانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔

جس طرح 70 فیصد سنّی اکثریت کے ملک یمن پر شیعہ آمر علی عبد اللّٰہ صالح کی حکومت کا خاتمہ ، شیعیت کا خاتمہ نہیں بلکہ موروثی آمریت کا خاتمہ تھا،جس طرح پاکستان میں طالبان کے خلاف پیش قدمی سنیت کے خلاف جارحیت نہیں بلکہ ایک ملک میں بغاوت کو فرو کرنے کی کوشش تھی،جس طرح امریکی حکومت کی جارحیت کے نتیجے میں صدام حسین کی سنی حکومت کے خاتمے کی خلیجی ممالک نے تائید کی،اسی طرح یہ مسئلہ شیعہ سنی مسئلہ کی بجائے، یمن کا ایک سیاسی بحران ہے جس میں عالمی کھلاڑیوں کی 'گریٹ گیم' کے ذریعے ایک قانونی اور اخلاقی حکومت کو ناجائز اور غیرمؤثر قرار دے کر اپنے مفادات کے لیے اسے ختم کرنے اور خطے کو خانہ جنگی کا شکار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

ایران کے توسیع پسندانہ عزائم واقدامات

ایرانی حکومت کا رویہ بڑا عجیب وغریب ہے۔ ایک طرف ایرانی انقلاب کو سابق بادشاہ حاکم رضاشاہ پہلوی کی طویل حکومت کے خلاف ایک عظیم مثال قرار دیا جاتا ہے۔ اور اس بنا پر ملوکیت وآمریت کی بلندبانگ آہنگ میں مذمت کی جاتی ہے تو دوسری طرف اگر شام میں بشار الاسد اور یمن میں علی عبد اللّٰہ صالح کی طویل آمریت کے خلاف عوام مؤثر مزاحمت کرتے ہیں تو ایران اُن کی صرف اس بنا پر بھرپور تائید کرنے کے لیے آن موجود ہوتا ہے کہ وہ دونوں شیعہ ہیں۔ ایک طرف ایران امریکہ کی بظاہر شدید مخالفت کا اعلان کرتا ہے تو دوسری طرف عراق میں امریکی کٹھ پتلی نوری المالکی کی شیعی حکومت کے لیے جان توڑکی بازی لگا دیتا ہے۔

ایک طرف وہ وحدتِ اسلامی کا علم ہاتھ میں تھامے ہوئے ہے تو دوسری طرف ہر مسلم ملک میں انتشار وخانہ جنگی کو ہوا دیتا ہے۔ امارات کے تین جزیروں طنب صغیر، طنب کبیر اور جزائر موسیٰ پر قبضہ جما کر ایرانی فوجی اڈّے بناتا ہے، جو خلیج عرب میں واقع اور سمندری قانون کے تحت امارات کے قریب ہونے کے ناطے اس کی ملکیت بنتے ہیں۔ لبنان، شام، بحرین ، یمن ، سعودی عرب اور عراق میں درپردہ شیعہ مفادات کو تحفظ دیتا اور اس کے لیے عسکری جدوجہد کرتا ہے۔ نام اسرائیل وامریکہ دشمنی کا لیتا ہے لیکن عملاً نیٹو افواج کو راستہ دیتا، تجارتی فوائد سمیٹتا اور اپنی عسکری کاروائیوں کا نشانہ اہل اسلام کو بناتا ہے۔ افغانستان میں امریکی جارحیت کا سامنا کرنے والے طالبان کی مدد کرنے کی بجائے، ان کی بھرپور مخالفت کرتا ہے۔اس کا جنرل قاسم سلیمانی، ایرانی پاسداران انقلاب کے عہدیداران اوراس کے روحانی پیشوا عراق کے بعد شام اور یمن میں شیعہ مفادات کے لیے ہر جدوجہد کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ برادر وہمسایہ ملک ہونے کے ناطے پاکستان سے اس کا قریبی تعلق ہونا چاہیے لیکن پاکستان سے بلوچستان کے مسئلے پر سرحدی اختلافات رکھتا اور افغانستان کی سرحدوں میں دراندازی کرتا ہے۔ پاکستان کے بجائے بھارتی افواج کے ساتھ عزمِ محبت کرتا ہے۔دیگر ممالک کو شیعہ اقلیت کے حقوق دینے کی تلقین کرتا اور خوداپنی 35 فیصد سنی آبادی کے مذہبی حقوق غصب کیے ہوئے ہے، حتی کہ ایران میں کوئی تنظیم، شیعہ روحانی پیشوا خامنہ ای کی پیشگی منظوری اور ان کے ساتھ مکمل وفاداری کے اظہار کے بغیر نہیں بن سکتی۔ ایرانی حکومت کی ان چالبازیوں نے اس کے موقف کو داخلی تضادات کا ملغوبہ بنا کررکھ دیا ہے۔ دنیا میں مصلحانہ کردار اور نیک نامی حاصل کرنے کے لیے ضرورت تو یہ تھی کہ سامراج کے حمایت یافتہ طویل موروثی اقتدار سے خودنجات پانے کے بعد، ایرانی انقلاب اس اُصول کو اپنا محور بنا لیتا، شیاطین ثلاثہ: امریکہ، اسرائیل اور بھارتی مفادات کو صرف زبان کی بجائے اپنے دوٹوک عمل سے نشانہ بناتا،عراق کی بجائے اسرائیل سے جنگ کرتا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد!

ہر مسلم ملک ایران کی دخل اندازی پر چیختا چلاتا رہ جاتا ہے۔ کبھی بلوچستان میں ایران کے اسلحہ سے بھرے ٹرک پکڑے جاتے ہیں، کبھی عراق میں جنرل قاسم سلیمانی کی القدس بریگیڈ اہل اسلام کو نشانہ بناتی ہے، اور کبھی یمن میں بھرپور جنگی مدد دی جاتی ہے۔ مسلم ملک عراق سے 8 سالہ جنگ کرنےوالے ایران کو اسرائیل کے خلاف عسکری کاروائی کرنے کی کبھی کوئی توفیق نہیں ہوئی ۔ ایران کو مسلم ممالک میں دخل اندازی کا یہ حق کس نے دیا ہے اور ایسا کرکے وہ کس 'اسلامی انقلاب 'یا 'عالم اسلام' کی خدمت کررہا ہے؟

ستمبر میں حوثیوں کے صنعا پر غلبے کے بعد ایرانی پارلیمنٹ کے رکن علی رضا زاکانی نے کہا کہ ایران کو تین عرب دارالحکومتوں کے بعد چوتھے دار الحکومت پر بھی اختیار حاصل ہوگیا ہے، بغداد، بیروت، دمشق اور یمن ... اور اس طرح عرب دنیا میں ایرانی اثر ورسوخ نے ایک نیا رخ اور نئی طاقت حاصل کرلی ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی کے مشیر علی یونسی نے اعلان کیا کہ ایران ایک عظیم سلطنت بن چکا ہے، اب دار الحکومت بغداد ہوگا۔ سابق ایرانی صدر محمد خاتمی کے انٹیلی جنس کے وزیر رہنے والے اس مشیر نے یہ بھی قرار دیا کہ سارا مشرقِ وسطیٰ ہمارا ہے۔ ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ علی شیخانی نے وضاحت کی کہ بحیرہ روم کے دہانے اور یمن کے باب المندب دونوں طرف موجود ہیں، شام کے ساحل اور یمن کےبین الاقوامی سمندر ی راستے پر قبضہ ہونے کی بنا پر اب دنیا ہماری محتاج ہے۔

ایران کی یہ توسیع پسندی اور برادر اسلامی ممالک میں جارحیتیں،سعودی عرب کی قیادت میں متحد عالم عرب واسلام کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور ان کو اپنے دباؤ میں رکھنے کی سازش کا حصہ ہیں، جس کی تائید اور ایٹمی قوت بننے کے لیے اسے اہل مغرب کی حمایت بھی حاصل ہے۔

جولوگ یمن کی خانہ جنگی کو ایک جداگانہ مسئلہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے طویل جنگی ماضی، یمن میں خلیجی حکومتوں کے معاہدات او رضمانتیں،سعودی سرحد کے ساتھ شرپسندی اور جارحانہ عزائم اورمشرقِ وسطی پر ایران کی بڑھتی قوت سے کاٹ کر دیکھنا چاہتے ہیں، وہ صورتِ واقعہ سے غافل ہیں یا دنیا کو اپنی خواہش کی آنکھ سے دیکھنا چاہتے ہیں۔کسی ملک میں بغاوت کے خاتمے کے لیے ہمسایہ اور دوست ممالک کا کیا کردار ہونا چاہیے، وہ اس سے بھی بے پروا ہیں۔ان کے خیال میں سعودی عرب ہمسایہ ملک میں دخل اندازی کررہا ہےاور عملاً یمن میں بغاوت کے خاتمہ کی کوشش سعودی اتحاد کی ایک متکبرانہ جنگ کے سوا کچھ نہیں۔ جبکہ عالم اسلام میں اس انتشار وبغاوت اور دخل اندازی کا آغاز درحقیقت ایران کی طرف ہوا ہے اور سعودی اتحاد اس سر پر آن پہنچنے والی جنگ کو آخری مورچے پر ٹالنے پر مجبور ہوچکا ہے۔جارحیت کا آغاز سعودی اتحاد نے نہیں، بلکہ ایران اور اس کی مدد پانے والے باغی حوثی ٹولے نے کیا ہے اور یہی بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی کہنے پر مجبور ہوئی ہے کہ ''فساد کی جڑ عبد اللّٰہ صالح کی چالیں ہیں، حوثی قبائل کو ایرانی اسلحہ کی سپلائی بند کی جائے اور وہ مقبوضہ علاقوں تک واپس لوٹ جائیں۔ حوثی قائدین کے اثاثے منجمد کیے جائیں۔'' کیونکہ یہ اتنے بڑے سیاسی حقائق ہیں، جن کو میڈیا کے بل بوتے پر تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

یمن کی جنگ میں پاکستان کا کردار؟

پاکستان کو اس اتحاد میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ کسی بھی ملک بالخصوص اسلامی ممالک میں بغاوت کے خاتمہ کےلیے دیگر ممالک کی طرح پاکستان پربھی یہ ذمہ عائد ہوتی ہے کیونکہ سعودی عرب کے نہ صرف پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے ہیں بلکہ دیرینہ قریبی اور دوستانہ تعلقات اس امر کے متقاضی ہیں کہ وہ عالم اسلام کی اس مشترکہ جدوجہد میں ان کا ساتھ دے۔

جہاں تک پاکستان کے ذاتی مفادات کا تعلق ہے توحوثیوں کی بغاوت کی طرح پاکستان کو خود سرحدی علاقوں میں بغاوت کا مسئلہ درپیش ہے، اور جو رویّہ پاکستانی حکومت اپنے علاقوں میں اختیار کرتی ہے ، اس کو وہی رویہ دیگر مسلم ممالک میں بھی باغیوں کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے۔ علی عبد اللّٰہ صالح وغیرہ ماضی کی غاصب وقابض قوتیں ہیں، اور پاکستان سمیت ہر خیر کے متلاشی کو ایسی ظالمانہ حکومتوں کی مخالفت میں متحد ہونا چاہیے اور اہل اسلام کے مفادات کی پاسداری کرنی چاہیے۔

اگر اس کو ایران وسعودی عرب دونوں کے مابین مخاصمت کے تناظر میں دیکھا جائے تب بھی پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ایران سے بہت زیادہ قربت اور اپنائیت پر مبنی ہیں۔ یوں بھی ایران نے ابھی تک اس جنگ کے فریق ہونے کا اعلان ہی نہیں کیا، اور اس کے یمنی بغاوت سے تعلقات خفیہ اور ناجائز کے ذیل میں آتے ہیں، جبکہ سعودی عرب یمن کا ہمسایہ ہونے کے ساتھ، یمنی سیاست کا ضامن ہے، موجودہ حالات میں اس سے مدد مانگی جارہی ہے اور وہ اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہوسکتا ہے۔پاکستانیوں کا سعودی عرب میں حرمین شریفین سے دینی رشتہ تو اتنا مضبوط ہے جوکبھی کمزور نہیں ہوسکتا۔عالم اسلام میں سعودی عرب پاکستان کا سب سے بڑا نظریاتی وعملی دوست ہے، سعودی عرب اُمتِ محمدیہ کا روحانی محور ہے تو پاکستان دفاعی مرکز ہے۔ سعودی حکمرانوں کی زبانی پاکستان سے یہ دوستی محبت سے بڑھ کر اسلامی اخوت اور بھائی چارہ ہے۔

اس سے بڑھ کر پاکستان کے مادی مفادات کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ سعودی عرب میں پاکستان کے 25لاکھ افرادہرسال7 ارب ڈالر کا زرِمبادلہ پاکستان میں بھیجتے ہیں۔پاکستانی برآمدات کے بعدزرِمبادلہ کے اس سب سے بڑے ذریعے کا نصف صرف سعودی عرب سے پاکستان آتا ہے۔ان 25 لاکھ افراد میں خلیجی ممالک میں مقیم مزید 15 لاکھ افراد شامل کیے جائیں تو اتنے زیادہ پاکستانیوں کے مفاد کو ملحوظ رکھنا بھی پاکستان کے ذمّے ہے۔ اس بنا پر سعودی عرب کے استحکام میں نظریاتی ودینی کے ساتھ ساتھ پاکستان کا معاشی استحکام بھی شامل ہے۔اسی طرح ہر مشکل وقت میں سعودی عرب کا بیش قیمت اور فراخ دلانہ تعاون پاکستانی حکومت وعوام کو حاصل رہا ہے، یہ ایٹمی دھماکوں کے وقت تیل کی بندش کی بات ہو یا قدرتی آفات کے وقت پاکستانی عوام کا ساتھ دینے کا فریضہ یا سفارتی تائید۔ اس لیے اپنے ماضی کی شاندار روایات کے مطابق سعودی حکومت اور عالم اسلام کے ساتھ پاکستان کو شانہ بشانہ کھڑے ہونا چاہیے۔

جہاں تک پاکستان کے کاروباری مفادات کی بات ہے تو گوادر کی بندرگاہ سے جس طرح پاکستان کے مفادات وابستہ ہیں، پاک چین تجارتی شاہراہ کا قیام جس طرح پاکستان کے لیے امکانات کا نیا جہاں کھول دے گا، خلیج عرب اور عدن میں صورتحال تبدیل ہونے اور باغیوں کے ہاتھوں یہ بندرگاہ چلے جانے سے پاکستانی بندرگاہیں اور ان کا تجارتی کردار بھی ضرور متاثر ہوگا۔ اس بنا پر پاکستان کے تجارتی مفادکا تقاضابھی یہی ہے۔

پاکستان نے آغاز میں سعودی حکومت کو اپنی حمایت کا یقین دلایا، اس بنا پر پاکستان کا جھنڈا سعودی اتحاد میں دکھائی دیا جو بین الممالک تعلقات کی پاسداری و وفاپروری اور پاکستانی عوام کے بھرپور جذبات کا مظہر تھا۔جب پاکستانی وفد ریاض گیا، اور وزیر اعظم ترکی کے دورے پر چلے گئے تو اس کو عالم اسلام سے محبت کرنے والے سب پاکستانیوں نے بنظر تحسین دیکھا۔لیکن بعد میں پاکستان میں لادین ،مغربی لابی اور ایران نوازی نے رنگ جمایا اور اس معاملہ میں کئی ایک شبہات پیدا کیے گئے، پارلیمنٹ کے کردار کی دہائی دی جانے لگی۔ پارلیمنٹ میں سعودی عرب سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے بعض ارکان نے دھواں دھار تقاریر میں سعودی عرب پر خلافِ حقیقت الزامات لگائے، جن کی وہاں شافی وضاحت نہیں دی گئی۔ حکومت کی متفقہ قرارداد کی خواہش نے اُنہیں غیرضروری حد تک مفاہمت پر مجبور کیا اور تحریک انصاف نے ایک طرف قرارداد میں پاکستان کے 'نیوٹرل' یعنی غیر جانب دار رہنے کے الفاظ شامل کروائے تو دوسری طرف مذاکرات میں پاکستان کے ثالثی کردار کا مطالبہ کیا۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے دنوں میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے ہوئے تھے، جنہوں نے وزیر اعظم او رجی ایچ کیو میں ملاقاتیں کیں۔

یمن کی جنگ ایک سنگین سیاسی مخمصہ ہے جس کےپس پردہ طویل کشمکش اور نظریاتی اختلاف کارفرما ہے۔ جو بھی اس صورتحال کا مکمل ادراک نہ کرے، وہ اس جارحیت کے صحیح تجزیہ اور منصفانہ حل تک نہیں پہنچ سکتا۔ ایران کا اس میں کردار توسیع پسندانہ اورناجائزنوعیت کا ہے۔ نیز مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں امریکہ و ایران کی تدبیر او رچالبازی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ پاکستانی قومی اسمبلی کو سعودی عرب کے سلسلے میں غیر جانبداری ظاہر کرنا تو یاد رہا لیکن یہ خیال نہ آیا کہ وہ یمن میں حوثی باغیوں کی شدت پسندی کو غیرقانونی اور غیراخلاقی قراردے اور ایرانی دراندازی اور درپردہ مدد کی واضح الفاظ میں مذمت کرے اور عالم اسلام میں اس کے توسیع پسندانہ کردار کو ہدف ِتنقید بنائے۔یہ تو ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس سے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے چودہ ملک بھی انکار نہیں کرسکے۔ سیکورٹی کونسل یمن کے مسئلے پر غیرجانبدار نہ رہ سکی اور اس نے حوثی بغاوت کو ناجائز قرار دے کر، قبضہ چھوڑنے کا حکم دیا۔

اس صورتحال میں پاکستان کے جھنڈے کو سعودی اتحاد سے علیحدہ کرلیا گیا، اور پاکستان ، ترکی کے ساتھ ایران کے اس ثالثی موقف کا حامی نظرآیا جس میں جنگ بندی کی جائے ،یمنی جنگ کے جملہ فریقوں کے مابین مذاکرات کئے جائیں اور ایران کی تائید کے ساتھ ایک وسیع البنیاد حکومت تشکیل دی جائے۔

قومی اسمبلی کی اس قرارداد کے بعد، اماراتی وزیر خارجہ ڈاکٹر انور قرقاش نے ٹویٹر پر کہا کہ

الموقف الملتبس والمتناقض لباكستان وتركيا خير دليل على أن الأمن العربي من ليبا إلى اليمن عنوانه عربي، اختبار دول الجوار خير شاهد على ذلك

باكستان مطالبة بموقف واضح لصالح علاقاتها الاستراتيجية مع دول الخليج العربي المواقف المتناقضة والملتبسة في هذا الأمر المصيري تكلفتها عالية.

''پاکستان اور ترکی کے اس موقع پر موقف سے پتہ چلتا ہے کہ یمن سے لیبیا تک عرب ممالک کا امن وامان، ملتِ اسلامیہ کا نہیں، صرف عرب دنیا کا مسئلہ ہے۔ہمسایہ ممالک کا موجودہ صورتحال میں امتحان ان کے رجحانات کا بخوبی پتہ دیتا ہے۔

پاکستان سےہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ خلیج تعاون کونسل کی چھ ریاستوں کے ساتھ اپنے سٹریٹیجک تعلقات کے حق میں واضح موقف اختیارکرے۔ اس حساس موقع پر مبہم ومتضاد موقف کے نقصانات سنگین ہوسکتے ہیں۔''

انہوں نے کہا کہ ''لگتا ہے کہ اسلام آباد وانقرہ کے لیے خلیجی ممالک کے بجائے تہران زیادہ اہم ہے۔یہ ایک کاہلی پر مبنی غیرجانبدارانہ موقف کے سوا کچھ نہیں۔''

اماراتی وزیر کے بیان میں دکھ کے ساتھ دھمکی کی آمیزش بھی موجود تھی، جس سے پاکستانی قوم بھی رنج کا شکار ہوئی اور ایرانی وزیر خارجہ کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی وزیر مذہبی اُمور نے امارات کے اس انداز سے عدم اتفاق کرتے ہوئے، پاکستان پارلیمنٹ کے فیصلے کو اس کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی حکومت سےمطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سعودی عرب سے محبت کرنے والے پاکستانی عوام کی آرا کی پاسداری کرے۔انہوں نے ثالثی اور مذاکرات کی پیش کش کو ایک مذاق قرار دیا۔

اوپر یمنی صدر اور پھر امارتی وزیر کے بیانات کو بعینہٖ درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان بیانات سے اس سیاسی صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے جس سے سعودی اتحاد نبردآزما ہے۔ یمن میں پیش قدمی صرف یمن کا نہیں، بلکہ یمن سے لیبیا تک جزیرہ عرب کے امن کا سوال ہے۔یہ اس گریٹ گیم کا ایک اہم مرحلہ ہےجس کو امریکہ و ایران عالم اسلام کے لیے کئی برس سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایک طرف سنی مسلمانوں کے مرکز ومحور کے گرد پانچ ، چھ شیعہ ریاستوں کا قیام، تودوسری طرف ہمسایہ اسلامی ممالک میں شیعہ انقلاب کے لیے تیز ترپیش قدمی، اور تیسری سمت امریکہ اور عالمی قوتوں کی ایران کی ہلہ شیری، اس حصار کو بالکل واضح کردیتی ہے، جس سے نکلنے کے لیے خلیجی ممالک ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اس شیعہ حصار کا ہدف کفر ویہود نہیں بلکہ عالم اسلام ہے، اور یہی وقت کی سپرطاقتوں کی بھی خواہش ہے۔ اس طرح عالم اسلام کو باہم دست وگریبان کرکے، ملت اسلامیہ پر ان کا عرصۂاقتدار بہت طویل ہوسکتا ہے۔ ان حالات کا مقصد ارضِ حرمین کو آخرکار اسی بدامنی اور بے چینی کا شکار کرنا ہے، جس سے پورا عالم اسلام پہلے ہی دوچار ہے۔تو کیا ان حالات میں ضروری نہیں کہ سامنے نظرآنے والی جنگ سے حجازِ مقدس کے اندر اُترنے سے پہلے پہلے اس کے جوار میں مشترکہ قوت کے ساتھ نمٹ لیا جائے۔

یمن میں باغی قوتوں اور غاصبانہ سازشوں کو مزید موقع دیا جاتا ہے تو ان کا اگلا قدم، ارض مقدس کے سوا اور کچھ نہیں۔اور ارض مقدس کا تحفظ ودفاع ہر مسلمان کا ایمانی تقاضا ہے۔ بظاہر سعودی اتحاد کی جارحیت دراصل دفاع کا وہ آخری مورچہ ہے، جس کے بعد ارض حرمین بھی سیاسی خلفشاراور خدانخواستہ بدامنی کا شکار ہوجائے گی۔

اس مرحلہ پر مذاکرات اور ثالثی کی بات کرنا دراصل باغیوں (حوثی + صالح) اور ایران کی درپردہ تائید کو اپنی حیثیت سے زیادہ وزن دینا ہے۔ حوثیوں کو یہ حیثیت ایران کی غلط سفارتی، افرادی اور اسلحہ جاتی شہ نے دے رکھی ہے، اسی لیے اقوام متحدہ نے ناجائز شہ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔جب ان تینوں باغی عناصر کا ہر اقدام قانونی اوراخلاقی جواز سے خالی ہے تو پہلے اُن کے ناجائز قبضہ کو چھڑانا چاہیے، پھراُنہیں غیرمسلح کرنا چاہیے ۔اور جب وہ اس پر آجائیں تو اس وقت حوثیوں سے مذاکرات کرکے ان کے جائز عوامی حق کو تسلیم کرنا چاہیے ، کسی حکومت کو اپنے شہریوں پر تشدد اور بدنظمی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔منصور ہادی کی حکومت کوئی فرشتوں کی حکومت نہیں ، تاہم ہر حکومت کی اصلاح کا ایک نظام ہوتا ہےجس کی پاسداری ہونی چاہیے۔ باغیوں سے مذاکرات میں ایران کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یمن کا مسئلہ قانون واخلاق کی رو سے کسی طرح ایران کا مسئلہ نہیں ہے۔

پاکستان کو اس صورتحال کا پوری طرح ادراک کرتے ہوئے، اپنی افواج کو حق کی مدد کے لیے اور اپنے دیرینہ دوست کی تائید کے لیے پیش کرنا چاہیے۔اور کم ازکم سعودی سرحد پر پاکستانی افواج کو اس طرح صف آرا ہوجانا چاہیے جس طرح 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں چین نے اپنی افواج کو بھارت کی سرحد پر کھڑا کردیا تھا۔ حق کی تائید اور دوستی ووفاداری میں عزت پانے والی اس دنیا کا عسکری دستورتو یہی ہے، وگرنہ پاکستان کو درپیش سنگین حالات میں ہمارے دوست اسی غیرجانبداری کا مظاہرہ کرکے ہمیں دشمن کے سامنے اکیلے چھوڑ دینے میں عافیت سمجھیں گے۔ ملت اسلامیہ کے لیے قرآن ِکریم کا حکم بھی یہی ہے کہ

﴿وَإِن طائِفَتانِ مِنَ المُؤمِنينَ اقتَتَلوا فَأَصلِحوا بَينَهُما ۖ فَإِن بَغَت إِحدىٰهُما عَلَى الأُخر‌ىٰ فَقـٰتِلُوا الَّتى تَبغى حَتّىٰ تَفىءَ إِلىٰ أَمرِ‌ اللَّهِ...﴿٩﴾... سورةالحجرات

''اگر مسلمانوں میں سے دو جماعتیں آپس میں نبردآزما ہوجائیں، تو دونوں میں صلح کرواؤ۔ اگر کوئی ایک دوسری پر جارحیت کرے، تو پھر جارح کے خلاف اس وقت تک صف آرا ہوجاؤ جب تک وہ اللّٰہ کے حکم (اتحاد ملت) کی طرف لوٹ نہیں آتی۔''

پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات، دنیا میں کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں، ان تعلقات میں ایران کوئی براہِ راست متاثر ہونے والا فریق بھی نہیں۔ دونوں ملک نظریاتی وحدت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، ہر مشکل وقت میں سعودی عرب پاکستان کا ساتھی اور گہرا ہمدرد رہا ہے۔ پاکستان کو کرائے کا فوجی، جارح وغاصب کے حامی، سیاسی مفادات کا قیدی اور اس صورتحال سے بہتر مفاد حاصل کرنے کی تلقین کرنے والے دراَصل حالات کو اُلجھانے اور غیریت برتنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اسلامی اتحاد واخوت کے تقاضے اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

سعودی عرب نے ماضی میں اسلامی اخوت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، پاکستان کی اہم مراحل پر مدد کی اور یہی ملت اسلامیہ کا ایک دوسرے پر حق ہے جو قومی مفاد ات سے بالاتر ہے۔ آج پاکستان کو اُسی اسلامی اخوت کی پاسداری کرنا چاہیے، فرمانِ نبویؐ ہے:

«المُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا» ... وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ

''مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے مضبوط عمارت کی مانند ہے، دونوں ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں، اور آپﷺنے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کرکے دکھایا۔''

پاکستان نے حالیہ قرارداد میں اپنے آپ کو غیر جانب دار قرار دیتے ہوئے اپنے سابقہ متفقہ موقف کو بھی متاثر کیا ہے،جس میں مسلم لیگ و پیپلز پارٹی کی قیادتیں سعودی عرب کی سفارتی تائید کا دعویٰ کرچکیں اور پاکستانی افواج سعودی عرب کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کررہی ہیں۔

حرمین کے خادم ومیزبان سعودی عرب کا تحفظ

ایک مسلمان کے طور پر دیکھا جائے تو سعودی عرب ، ایسی سرزمین ہے جہاں سب سے زیادہ اللّٰہ کی بندگی کی جاتی ہے۔ صوم وصلوٰۃ اور حج وزکوٰۃ کا سب سے بڑا مرکزیہی ہے۔ اس کی شہادت یہاں کی مساجد اور رہنے والے شہری دیتے ہیں۔ اجتماعیت کے میدانوں میں دیکھا جائے تو اللّٰہ کی شریعت زندگی کے اکثر میدانوں میں نافذ دکھائی دیتی ہے۔ عدالتیں مستند علما قاضیوں کی نگرانی میں قرآن وسنت کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ تعلیمی نظام ایسا شاندار کہ مدارسِ دینیہ کے فضلا یہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ سعودی عرب کی عظیم اسلامی یونیورسٹیاں:مدینہ یونیورسٹی، اُمّ القریٰ یونیورسٹی اور امام یونیورسٹی دنیا بھر میں مستند ترین اور فرقہ پرستی سے پاک علما فراہم کرتی ہیں اور سعودی عرب کے دعوتی مشن سے دنیا بھر کے ممالک میں ہزاروں لوگ وابستہ ہیں۔

سعودی عرب میں موجود دنیا کا بہترین اسلامی نظام معاشرت قائم ہے جس میں مردوزن کے اختلاط کے سب سے کم امکانات ہیں، امربالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے باقاعدہ اہل کار متعین ہیں جو نمازوں کے دوران کاروبار کو بند کراتے اور کھلے عام اللّٰہ کی شریعت کی مخالفت سے روک ٹوک کرتے ہیں۔ سعودی عرب ارضِ توحید ہے، اسلامی علوم اور جدید مسائل پر شرعی تحقیقات یہاں سب سے زیادہ شائع ہوتیں اور دنیا بھر میں پھیل جاتی ہیں۔

عین اسلامی ہدایات پر کاربند بہت سے مالی ادارے اور بنک بھی یہاں موجود ہیں جو آہستہ آہستہ غیراسلامی اورسودی معیشت کی بنیادوں کو ختم کرتے جارہے ہیں۔عوام کی دینی رہنمائی کے لیے مساجد میں دعوتی دروس او رمفت لٹریچر، مستند ترین علما کی سپریم کونسل، فتاویٰ کونسل اور اسلامی رہنمائی کے درجنوں ادارے یہاں کام کررہے ہیں۔دنیا بھر میں سب سے زیادہ غیرمسلم یہاں اسلام قبول کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کسی قسم کی فرقہ واریت اور انتہاپسندی وتنگ نظری کا وجود تک نہیں ہے۔ ارضِ حجاز سے آگے بڑھ کر امن وامان کی نعمت سے پورا سعودی عرب مالا مال ہے۔ رزق اور مال میں برکت اور سکون واطمینان کی فراوانی ، اس سرزمین پاک کی وہ خاصیت ہے جس سے باقی مسلم ممالک محروم ہیں۔ اللہ عزّوجلّ یہ نعمتیں پاکستان اور پورے عالم اسلام کو عطا فرمائیں۔

سعودی حکومت دنیا بھر کے مسلمانوں کی میزبانی کرتے ہوئے ، حرمین وشریفین کی بہترین خدمت کا اعزاز رکھتی ہے۔ تاریخ میں کبھی اللّٰہ کے مہمانوں کی اس قدر بڑے پیمانے پر اور اِس خوش اُسلوبی سے میزبانی نہیں کی گئی جیسا کہ موجودہ سعودی حکومت کا طرۂامتیاز ہے۔ اس بنا پر بلاتردّد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دور کی یہ سب سے بہترین میسر اسلامی ریاست ہے اورشریعتِ اسلامیہ کے نفاذ کی بنا پر اسے بجا طور پر 'دار الاسلام' قرار دیا جاسکتا ہے۔ سعودی شاہوں کے زیر سایہ یہاں اللّٰہ عزوجل کی شریعت کا نظام نافذ وجاری ہے۔ملتِ اسلامیہ کے زوال کے اس پرآشوب دور میں سعودی حکومت کے زیر انتظام حرمین وشریفین کا یہ حسن انتظام ، مسلمانوں کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے جس سے متاثر ہوکر ہی کئی غیرمسلم اسلام کی طرف کھچے چلے آتے ہیں۔

سعودی عرب اپنے اندرونی اقدامات کے حوالے سے ایک بہترین ریاست ہے، گو کہ اس میں بہتری کے بہت سے مزید امکانات موجود ہیں اور بہت سی نئی کوتاہیاں بھی راہ پکڑ رہی ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب کا عالمی سیاست میں ایک کردار ہے جس کے حوالے سے گذشتہ چند سالوں میں ملت کے بہت سے دردمندوں کو کئی ایک تشویشات لاحق ہیں اور سعودی عرب کو موجودہ بحران پیش آنے میں بھی ان کوتاہیوں کا بڑا عمل دخل ہے، تاہم فی الوقت ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اور سابقہ سعودی حکومت کے بعد حال ہی میں زمام اقتدار سنبھالنے والے شاہ سلمان بن عبد العزیز کی قیادت سے خوش کن اُمیدیں قائم کرتے ہیں۔ انہوں نے حکومت میں آتے ہی بعض علامتی اقدامات اور غیر معمولی رجحانات کے ذریعے ملتِ اسلامیہ میں اُمید کی نئی کرن پیدا کی ہے۔ بعید نہیں کہ شاہ سلمان کی صورت ، اہل اسلام کو شاہ فیصل شہید جیسا مدبر اور ملت کا درد رکھنے والا حکمران میسّر آجائے۔

بطورِ مسلمان ہمیں فی زمانہ میسّر مثالی اسلامی ریاست کے دفاع میں یکسو ہوجانا چاہیے۔اپنے وطن کی طرح ایک اسلامی ریاست کا تحفظ بھی ہمارا دینی فریضہ ہے۔ اگر ہمیں حرمین شریفین کا امن اور تحفظ عزیز ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ وہاں اسی طرح دنیا بھر سے عازمین سکون واطمینان سے آتے رہیں تو ہمیں اپنی صلاحیت کا آخری حصہ بھی اس کے لیے وقف کردینا چاہیے۔ یہ ہمارا سیاسی سے بڑھ کر، اسلامی اور ملی فریضہ ہے۔ اس حکومت کا ہم پر یہ حق ہے جس نے اس قدر بہترین انداز سے دیارِ مقدسہ کی حفاظت اور شریعتِ اسلامیہ کا نفاذ کر رکھا ہے۔

پاکستانی حکومت وفوج کا موقف یہ ہےکہ وہ سعودی عرب اور بالخصوص حرمین کے دفاع کے لیے اپنی ہر صلاحیت کھپا دیں گے۔ یہ پاکستانی فوج ہی نہیں ،ہر مسلمان کا فرض ہونا چاہیے۔ اور اس سے بڑھ کر پاکستانی افواج کو یمن میں بھی باغیوں اور غاصبوں کی بیخ کنی کرنے اور ان کی قوت کو ختم کرنے کی مساعی میں بھی عرب افواج کے شانہ بشانہ ہونا چاہیے۔پاکستانی حکمران جس طرح اندرون ملک میں اور ترکی کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات بروے کار لاکر، سعودی عرب کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، یہ بہت احسن اور قابل تعریف اقدام ہے۔

ملتِ اسلامیہ کا اتحاد اور خلافت کی طرف پیش قدمی

سعودی عرب نے اس حساس صورتحال کو بھانپ کرجس طرح عالم اسلام کے سرکردہ ممالک کی عسکری تائید سے پیش قدمی اورکامیاب سفارتکاری کا مظاہرہ کیا ہے اور جس طرح اسلامی ممالک نے اس کی پکار پر لبیک کہا ہے، ہماری گزارش ہے کہ ارضِ حجاز کے خادموں کو اپنی حقیقی قوت کو پہچاننا چاہیے اور ملتِ اسلامیہ کی ہرمیدان میں قیادت کرنا چاہیے۔سعودی بادشاہت سے بڑھ کر ملتِ اسلامیہ ،اُن کی خدمتِ حرمین اور نفاذِ اسلام کے لیے کاوشوں پر مسرور ومطمئن ہے۔کفر کے مقابلے میں اُمہ کو متحد کرنا ، ان میں اختلاف کے ہر امکان اور رخنے کو بند کرنا اور ان کے مشترکہ مفادات کے لیے اُنہیں مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایک طرف عالم کفر، ملتِ محمدیہ کو ٹکڑے ٹکڑے اور باہم صف آراکرنے کے لیے بدترین سیاسی چالیں اور سازشیں بروئے کار لارہا ہے، گذشتہ پچیس سالوں میں عالم اسلام اوربالخصوص مشرقِ وسطیٰ عالمی سیاست کا گڑھ بن چکاہے، دنیا کی تمام شورشیں اور جنگیں، ارض اسلام کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ دنیا بھر کی طاقتیں اہل اسلام کو دسترخوان بناکر ان پر جھپٹنے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ صہیونی میڈیا کی زبانی جو خبریں چھن چھن کر آرہی ہیں، ان سے بھی صورتحال کی ابتری وپیچیدگی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے تینوں اطراف میں آگ دہک رہی ہے۔ ارضِ حجاز کے شمال میں داعش اورجنوب میں یمنی حوثیوں اور مشرق میں بحرین کے ذریعے گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔

اقوام متحدہ کی صورت میں مغربی طاقتوں نے اپنے مفادات کو منظّم اور حاصل کرنے کے ایک ادارے کو تشکیل دے رکھا ہے۔ ویٹو کرنے والی ایٹمی طاقتیں اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں کوئی بھی مسلم ملک شامل نہیں، اور مسلم ممالک واسلامی عناصر کو جھوٹے مفادات کالالچ دے کر ملّتِ اسلامیہ کو مزید لڑانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ ان حالات میں سعودی حکومت کو سلامتی کونسل سے کوئی اُمید باندھنے اور اپنے دیرینہ سیاسی حلیف امریکہ سے کوئی توقع رکھنے کی بجائے، عالم اسلام کی حقیقی قوت ہی پر انحصار کرنا ہوگا۔

شریعت کی پاسداری اور دینی اقدار وشعائر کی حفاظت کی بنا پرسعودی حکومت بجا طور پر ملتِ اسلامیہ کی قیادت کرسکتی ہے۔سعودی عرب کی پکار پر عالم اسلام کے تمام اہم عناصر ، اس کے ہم نوا بن چکے ہیں۔ ایک دو ممالک کو چھوڑ کر اس وقت مسلم دنیا کا ہر قابل ذکر ملک سعودی عرب کا حلیف اور ہم نوا ہے۔ ملت کی یہ طاقت کیا کم ہے؟ اپنی غلطیوں کو پہچانا جائے، ملت کے ناراض عناصر کو یکسو اور متحد کیا جائے، میزانِ شریعت پر ان کے جائز مطالبے ہمدردی سے سنے جائیں،اور صرف آج ہی نہیں، مستقبل کے لیے ان مسائل کے خاتمہ کی ٹھوس حکمتِ عملی تشکیل دی جائے۔ یمن میں اُٹھنے والی خانہ جنگی اگر جلد نہ تھمی تو بدامنی کا یہ سلسلہ خدانخواستہ ارضِ حرمین تک پھیل جانے کے قوی امکانات ہیں اور یہی دشمنانِ اسلام کا ہدف ہے۔

اس صورتحال کا ایک ہی حل ہے، ملتِ اسلامیہ کا اتحاد اور پہلے مرحلے میں مؤثر 'مسلم تعاون کونسل 'کا قیام جس میں پاکستان اور ترکی کو ساتھ ملایا جائے، پھر وطنیت کی ان زنجیروں کو کاٹ کر پیغمبر اسلام کی ایک اُمّت کی طرف پیش قدمی۔ اس وقت ہر مسلم ملک اپنے اپنے مفادات کی ڈفلی بجاتا ہے، اور عرب ممالک میں اپنے مفادات کے تحفظ کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ ملکی مفادات ہی آخر کار ملت کو ٹکڑوں میں بانٹتے ہیں۔ نظریاتی فرقہ واریت کی شکار ملتِ اسلامیہ، سیاسی سرحدوں اور وطنیت پرستی کی بھی اسیر ہے۔ یہ مسئلہ عرب لیگ سے حل ہونے کا نہیں، عرب ممالک کی مشترکہ فوج بھی اس مسئلہ کا دائمی حل نہیں،بلکہ اسلام لیگ اور اسلامی فوج ہی اس مسئلہ کا دائمی، شرعی اور روحانی حل ہے۔ اور اسی خلافت سے مغربی دنیا کی جان ہوا ہوتی ہے۔ملت کے سیاسی بحران بھی ہمیں اسی طرف متوجہ کرتے ہیں اور مرکز ملت محمد رسول اللّٰہﷺ کی مسلسل اہانت کا بحران بھی ملت کو اسی طرف پکار رہا ہے اور شرافت واخلاق سے یہ نام نہاد مہذب دنیا تو ہمیں اپنے پیارے نبی کی عزت و ناموس کا حق دینے کو بھی تیار نہیں...!!

اہل اسلام کو اپنے علمی وفقہی اختلاف کو علمی مجالس تک محدود کرتے ہوئے،اسے تعصّب وفرقہ واریت کا شکار نہیں کرنا چاہیے۔فقہی آرا اور اختلافِ رائے ، لازماً تعصب وحزبیت کا شاخسانہ نہیں ہوتے۔ مخالف سیاسی وفقہی موقف رکھنے والوں کو برداشت کیا جائے، جائز حقوق دیے جائیں، اور تشدد سے بچ کرافہام وتفہیم اور دلیل واستدلال کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اہل السنّہ کو مل کر کفر کے مقابلے میں ایک سیاسی موقف اپنانا چاہیے، اور پھر مشترکہ قوت کے ساتھ اہل تشیع کو بھی آمادہ کرناچاہیے کہ وہ ملتِ اسلامیہ کے مفادات کو اپنے داخلی مفادات پر ترجیح دیں۔ ایران کی ایٹمی صلاحیت ملتِ اسلامیہ کے لیے خوشی کی نوید بن سکتی ہے ، اگر اس کا ہدف عالم اسلام کی بجائے ملت کفریہ ہو۔مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے نام سے موجود ناجائز وغاصب ریاست کے خلاف سعودی عرب و ایران اور داعش واخوان کو اپنی سرگرمیاں مرکوز کرنا چاہیئں اور پھر تمام روابط و مفادات کو ملتِ محمدیہ کے طور پر استوار کرنا چاہیے۔ ایسا سب کچھ بخوبی ممکن ہے، صرف خلوص وللہیت اور جذبۂ ایمانی کی کمی ہے!!

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے

کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں!


حاشیہ

1. اقوام متحدہ کا رویہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، ایک طرف وہ قانونی حکومت کے طو رپر عبد ربہ منصور ہادی کو صدر تسلیم کرتی ہے تو دوسری طرف 21ستمبر2014ء میں حوثیوں کے صنعا میں ایک ماہ کے دھرنےکے بعد اقوام متحدہ کے ایلچی جمال بن عمر کی نگرانی میں یہ معاہدہ طے پایا کہ عبد ربہ کی حکومت مستعفی ہوجائے گی اور ٹیکنو کریٹس کی حکومت عنقریب قائم کی جائے گی۔اب یمن کی حالیہ جنگ میں 15 ؍اپریل 2015ء کو اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے حوثی باغیوں کو ایرانی اسلحہ کی فراہمی پر پابندی عائد کرتے ہوئے اُنہیں صنعا اور عدن ومقبوضہ علاقوں سے نکلنے کا حکم دیا ہے۔

2. باغیوں کی سرکوبی کے لیے ، قرآنِ میں یہ واضح حکم موجود ہے کہ ﴿وَإِن طائِفَتانِ مِنَ المُؤمِنينَ اقتَتَلوا فَأَصلِحوا بَينَهُما ۖ فَإِن بَغَت إِحدىٰهُما عَلَى الأُخر‌ىٰ فَقـٰتِلُوا الَّتى تَبغى حَتّىٰ تَفىءَ إِلىٰ أَمرِ‌ اللَّهِ... ﴿٩﴾... سورةالحجرات ''اگر مسلمانوں میں سے دو جماعتیں آپس میں نبردآزما ہوجائیں، تو دونوں میں صلح کرواؤ۔ اگر ایک دوسری پر بغاوت کرے، تو پھر جارح کے خلاف اس وقت تک صف آرا ہوجاؤ جب تک وہ اللّٰہ کے حکم کی طرف لوٹ نہیں آتی۔''
 جہاں تک معاہدہ کی پاسداری اور اس کی ضمانت کا تعلق ہے تو سیرتِ طیبہ میں فتح مکہ کا واقعہ دراصل مسلمانوں سے قریش کی ایک بدعہدی کے نتیجے میں رونما ہوا تھا ۔بنو بکر قریش کے اور بنوخزاعہ مسلمانوں کے حلیف تھے ، اور بنوبکر نے عہد شکنی کرتے ہوئےبنوخزاعہ پر حملہ کردیا تھا، اس عہد کی پاسداری کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے بنوبکر اورقریش کی سرکوبی کے لیے مکہ کی طرف رخت سفر باندھا اور اسی نتیجے میں 8 ہجری میں مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ (الرحیق المختوم: 535)

3. 1985ء میں کوئٹہ کی شاہراہ علم دار سے بھاری مقدار میں ایرانی اسلحہ برآمد ہوا، نوشکی کے قریب ایرانی اسلحہ سے بھرےٹرک پکڑے گئے، وقت کے وزیر داخلہ اسلم خٹک نے قومی اسمبلی میں ایرانی اسلحہ کی تصدیق کی۔ بے نظیربھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں ایرانی زہریلے لٹریچر کی درآمد پر ایران سے احتجاج کیا، محترمہ کےخارجہ امور کے سپیشل سیکرٹری اور یمن میں سابق پاکستانی سفیر ظفر ہلالی بتاتے ہیں کہ ایرانی سفیر کو شکایت کرنے پر انہوں نے جواباً یہ دھمکی دی کہ جانتے ہو پاکستان میں 75 ہزار لوگ ہمارے کہنے پر حکومت کے خلاف اسلحہ اٹھانےکو تیار ہیں۔

4.  صحیح بخاری: باب نصر المظلوم، رقم 2446