نومبر 1984ء

امام غزالی شریعت کی عدالت میں

(قسط 4)


ذیل میں امام غزالی کے کچھ تصوف آمیز اقوال اور ان پر بعض اکابرین کی آراء نقل کی جا رہی ہیں:

امام غزالی کی ایک اہم کتاب جس کی نسبت کے متعلق کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں۔ "المنقذ من الضلال" ہے۔ اس کتاب میں امام غزالی فرماتے ہیں:

"مکاشفات اور مشاہدات کا احداث صوفیہ کو تصوف کے طریق اول میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ جاگتے ہوئے بھی ملائکہ اور ارواح انبیاء کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان کی آوازیں سنتے اور ان سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ پھر وہ مشاہدہ صور و افعال سے ان درجات کی طرف ترقی کرتا ہے جہاں اس پر نطاق النطق ضیق ہو جائے۔" (المنقذ من الضلال للغزالی ص118 بتحقیق عبدالحلیم محمود، شیخ الجامعۃ الازہرا، مصر، طبع ثالث)

امام غزالی ایک مقام پر فرماتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر لمس، بصر، سمع اور ذوق کے حواس پیدا کیے، پھر اس کے لیے عقل تخلیق فرمائی۔۔۔ وراء العقل ایک دوسرا مرحلہ بھی ہے جس میں اس کی دوسری آنکھ کھل جاتی ہے، اس سے وہ دیکھتا ہے غیب کی چیزوں کو اور جو کچھ مستقبل میں ہے اور دوسرے امور کو لیکن عقل ان چیزوں سے معزول ہے۔ اؒک" (ابن تیمیہ بطل الاصلاح الدینی لمحمود مہدی استانبولی ص47 طبع ثانی، مکتبہ دار المعرفۃ بدمشق)

امام غزالی کا مشہور قول ہے:

"عوام کی توحید "لا الہ الا اللہ" ہے اور خواص کی توحید "لا الہ الا ہو" (نہیں مگر وہی) ہے۔ کیونکہ وہ عام ہے اور یہ خاص اور یہ زیادہ شامل زیادہ لائق، زیادہ دقیق اور اس کے ماننے والے کو فردانیت میں زیادہ داخل کرنے والا ہے۔ مخلوقات کے معراج کی انتہاء فردانیت ہے (یعنی خالق و مخلوق، عبد و معبود میں دوئی باقی نہ رہے)"۔ (مشکوۃ الانوار للغزالی ص31 وکذا فی الجواہر الغوالی ص125)

امام غزالی نے اپنی اسی کتاب میں ایک مقام پر لکھا ہے:

"جس کا وجود غیر سے آیا ہے وہ مانگا ہوا وجود ہے اور اسے اپنی ذات میں کوئی قیام حاصل نہیں بلکہ جب اس کی ذات پر من حیث الذات غور کیا جائے گا تو وہ محض عدم ہو گا، کیونکہ اس کا وجود غیر کی نسبت سے ہے اور یہ حقیقی وجود نہیں جیسا کہ کپڑے اور غنی کی مثال سے تم نے سمجھ لیا ہے۔ معلوم ہوا کہ حقیقتا موجود صرف اللہ تعالیٰ ہے جیسا کہ حقیقی نور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔" (مشکوۃ الانوار للغزالی ص25)

محجوبین کے متعلق امام غزالی کے فرمودات بھی قابلِ ذکر ہیں، صنم پرستوں کے متعلق آپ فرماتے ہیں:

"وہ اللہ کے انوار و صفات کے جمال اور نور عزت کے محجوب ہیں۔" (الجواہر الغوالی ص142)

اسی طرح جو اشجار کی پرستش کرتے ہیں ان کے متعلق آپ فرماتے ہیں:

"وہ نور جمال کے ساتھ ظلمت حس کے محجوب ہیں۔ جو آتش پرست ہیں وہ نور سلطہ اور حسن کے محجوب ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انوار میں سے ہے۔" (الجواہر الغوالی ص143)

امام غزالی کا قول ہے:

"اگر کسی جگہ بیٹھ کر حواس کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے، اور ہمیشہ زبان کے بجائے دل سے اللہ اللہ کا ذکر کیا جائے تو بیداری کی حالت میں ان چیزوں کا مشاہدہ ہو گا جو خواب کی حالت میں نظر آتی ہیں۔ پس اس پر ملائکہ اور انبیاء کی ارواح کا ظہور ہو گا اور اس پر زمین و آسمان کی عظیم سلطنت منکشف ہو گی اور وہ ایسی ایسی چیزیں دیکھے گا جن کی شرح اور جن کا وصف بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ (الجواہر الغوالی ص15)

امام غزالی فرماتے تھے:

"ان کے قلب کے لیے دو خاص وقت ہیں جن میں سے ایک لوح محفوظ کی اطلاع دیتا ہے۔ قلب کی شبیہ آئینہ جیسی ہے اور لوح محفوظ بھی مراۃ یعنی آئینہ کے ساتھ ہے۔ جب یہ دونوں آئینے آپس میں لوح محفوظ بھی مراۃ یعنی آئینہ کے ساتھ ہے۔ جب یہ دونوں آئینے آپس میں مقابلہ کرتے ہیں تو جو لوح محفوظ میں ہوتا ہے وہ دل پر نقش ہو جاتا ہے۔" (الجواہر الغوالی ص14)

حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

"ابو حامد (امام غزالی) کہتے تھے:

"انه سمع الخطاب كما سمعه موسىٰ"

یعنی "انہوں نے بھی موسی علیہ السلام کی طرح (اللہ تعالیٰ) کا خطاب سنا ہے۔" (کتاب الرسائل والمسائل لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ص87)

امام حافظ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے امام غزالی کے متعلق لکھا ہے:

"انہوں نے علم مکاشفہ میں گفتگو کی اور قانون فقہ سے باہر ہو گئے۔۔۔ اور اپنی کتاب مفصح بالاحوال میں لکھتے ہیں کہ صوفیہ حالتِ بیداری میں ملائکہ اور ارواحِ انبیاء کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان سے آوازیں سنتے ہیں اور فوائد اخذ کرتے ہیں۔ پھر ان صورتوں کے مشاہدہ سے ترقی کر کے حالت ان درجات پر پہنچتی ہے جو تنگنائے کلام سے باہر ہیں۔ مصنف نے کہا کہ ان لوگوں نے جو یہ چیزیں تصنیف کیں ان کا سبب یہ ہوا کہ سنن اور اسلام و آثار کا علم کم رکھتے تھے۔" (تلبیس ابلیس، مصنفہ امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ ص255 ترجمہ مولانا عبدالحق املوی مطبع فاروقی دہلی)

شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"(امام غزالی) ان میں سے ہیں جن کا مقصد صوفیانہ ہے اور جو بزعمِ خود یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو وہ سب کچھ حاصل ہو چکا ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کو عطا ہوا تھا اور ابو حامد (امام غزالی) اس طریقہ کی تعریف و مدح میں بہت بڑھ جایا کرتے تھے۔" (کتاب الرسائل والمسائل لامام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ص87)

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مقام پر امام غزالی کے کلام پر تعلیقا لکھا ہے:

"بلاشبہ یہ وہ کلام ہے جسے یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں میں سے کسی نے نہیں کہا بلکہ یہ ملاحدۃ صائبین اور فلاسفہ کے اقوال میں سے ہے۔" (السبعینیہ ص19)

امام غزالی کے متعلق حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب کے ملفوظات کی کتاب "امداد المشتاق" میں مذکور ہے: "فرمایا منقول ہے کہ شبِ معراج کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، حضرت موسی علیہ السلام نے استفسار فرمایا کہ "علماء امتى كانبياء بنى اسرائيل" جو آپ نے کہا ہے کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ حضرت حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ حاضر ہوئے اور سلام باضافہ الفاظ وبرکاتہ و مغفرتہ وغیرہ عرض کیا، حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کیا طوالت بزرگوں کے سامنے کرتے ہو؟ آپ (امام غزالی) نے عرض کیا کہ آپ سے حق تعالیٰ نے صرف اس قدر پوچھا تھا "﴿وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى ﴿١٧﴾... سورة طه" تو آپ نے کیوں جواب میں اتنا طول دیا کہ "﴿هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى ﴿١٨﴾... سورةطه" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ادب یا غزالی (حاشیہ) قولہ ادب یا غزالی (قول) یہ کسی بزرگ کا کشف ہو گا اور یہ معراج جس میں مکالمہ ہوا نیز ان بزرگ کو مکشوف ہوئی ہو گی جس میں ان ارواح کا اجتماع ہو گیا وہ معراج جسدی حضور کی مراد نہیں کہ ابعد عن الابعد ہے اور کشفیات میں ایسے واقعات بعید نہیں کہ حقیقت ان کی امثلہ ہوتی ہیں۔ بعض حقائق کے 12 (کتاب امداد المشتاق، ملفوظات حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مؤلفہ حکیم الامت اشرف علی تھانوی ص92)

استاذ محمود مہدی استانبولی نے اپنی تصنیف "ابن تیمیہ" میں ایک مقام پر امام غزالی کی ان پانچ باتوں کو جمع کیا ہے جن کو وہ اہل سنت کے خلاف امور قرار دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے: "تصوف کی طرف آپ کا دعوت دینا صحیح اسلام کی رُوح سے بعید ہے" دوسرا خلاف اہل سنت امر یہ بتاتے ہیں کہ: "علمِ شریعت و علمِ حقیقت کے متعلق آپ کا قول۔۔پس آپ نے اللہ کے دین کا نام "شریعت" رکھا اور اساطیر باطلہ کا نام "حقیقت" رکھا یا اللہ کے کلمات کے حقیقی معانی کا نام "ظاہری" رکھا اور ان ہی کلمات کے باطل معانی کو جنہیں انہوں نے ازخود گھڑا "باطنی" نام دیا۔ اور اس طرح عقیدہ و فکر اور اخلاق کو مبتلائے فساد کر دیا۔" تیسرا امر جو استاذ محمود مہدی کی نگاہ میں اہل سنت کے خلاف ہے وہ یہ کہ: "ان کی وہ دعائیں و اذکار جو دینی شعور و حس تک وصول امکانی کے لیے ضروری بیان کئے گئے ہیں۔ یہ وہ دعائیں اور اذکار ہیں جو کشف، طریقِ خلوت کے ذوق اور اذکارِ مبتدعہ کے نام سے معروف ہیں۔ اگر اس کے نتائج صحیح ہوتے تو خود (امام) غزالی کو وہ شعور و حس حاصل کیوں نہ ہوا جس سے وہ صحیح و ضعیف اور موضوع احادیث میں تمیز کر سکتے جو ان کی تمام کتب بالخصوص "الاحیاء" میں بکثرت ملتی ہیں۔" (ابن تیمیہ بطل الاصلاح الدینی، لاستاذ محمود مہدی استانبولی ص142،143 طبع ثانی مکتبہ دار المعرفہ بدمشق)

ثقافۃ الغزالی کے متعلق استاذ محمد رشاد سالم صاحب لکھتے ہیں:

"بخلاف ثقافت امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے ثقافت غزالی کی بنیاد تصوف پر ہے، جیسا کہ امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تلبیس میں یا ان کے علاوہ دوسروں نے لکھا ہے اور اس میں قانونِ فقہ کو ترک کیا گیا ہے۔" (مقارنہ بین الغزالی و ابن تیمیہ لدکتور محمد رشاد سالم)

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"مجھ سے ایک مرتبہ ایک جلیل القدر بزرگ نے، جنہیں معرفت و سلوک اور ان چیزوں کا علم حاصل تھا، کہا ابوحامد (امام غزالی) کا کلام ایسا ہے کہ اگر کوئی شوق کرے تو اس کے لیے سمجھنا اور پیروی کرنا آسان ہے، اور زیادہ شوق کرے تو منزل بہ منزل آسان ہوتا چلا جائے۔ پس اگر کوئی ایسا کرے تو انتہا میں اسے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔" (کتاب النبوات لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ص79 طبعۃ السید منیر الدمشقی)

امام غزالی کی کتب معتمدہ میں سے جو چند محیر العقول اقتباسات اوپر نقل کیے گئے ہیں۔ ان کی روشنی میں مجبورا یہی کہنا پڑتا ہے کہ فی الحقیقت امام غزالی اسلامی مفکر یا محقق یا عالم یا مجتہد کم اور صوفی زیادہ تھے۔ واللہ اعلم بالصواب

امام غزالی اور علم الکلام:

امام غزالی اشعری مکتبِ فکر سے منسلک و منسوب تھے لیکن ان کی تصانیف دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ محض متقدمین اشاعرہ کے مباحث و تحقیقات کے ناقل یا ترجمان یا شارح نہیں بلکہ علم الکلام پر مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔ امام ابوالحسن اشعری اور ابوبکر باقلی نے ان عقائد کے ثبوت کے لیے جو مقدمات و دلائل قائل کیے تھے، امام صاحب نے انہیں بعینہ تسلیم نہیں کیا بلکہ بعض جگہ ان مقدمات و دلائل و اصول کو ترک کیا اور ان سے ہٹ کر دوسرے مقدمات و دلائل استعمال کیے جو زیادہ دلپذیر و مؤثر ثابت ہوئے۔ اسی طرح امام صاحب نے اپنے پیشرو متکلمین کی زبان و اصطلاحات اور ان کی ترتیب و ترکیب کی پابندی بھی نہیں کی اور بہت سے متکلمین کی طرح احتمال و آفرینیوں، تشکیلات اور منطقی مقدمات و نتائج کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ بقول مولانا ابوالحسن علی الندوی صاحب، کہ امام غزالی نے اپنی مجتہدانہ بصیرت سے اشعری علم الکلام، جس کا حلقہ تقلید و جمود پذیر ہو چکا تھا، کی تجدید کی زبردست خدمت انجام دی ہے۔ (تاریخ دعوت و عزیمت، مصنفہ ابوالحسن علی الندوی ج1 طبع لکھنؤ)

چونکہ امام صاحب نے ابوالحسن اشعری اور ان کے نامور متبعین کی تحقیقات سے کہیں کہیں اختلاف کیا تھا اس لیے متکلمین اشاعرہ کا حلقہ ان سے سخت ناراض تھا۔ اور ان کی مجتہدانہ فکر کو مسلکِ سلف سے بُعد و انحراف قرار دیتا تھا۔ بعض لوگوں نے امام صاحب کو اس طرح توجہ دلانی چاہی تو آپ نے اپنے موقف کی صحت بتاتے ہوئے ناقدین پر بہت سخت الفاظ میں تبصرہ فرمایا جو مستقل ایک رسالہ کی شکل میں موجود ہے۔ (ملاحظہ ہو رسالہ فیصل التفرقہ بین الاسلام والزنادقہ للغزالی)

امام غزالی نے علم الکلام کی خدمت کے ساتھ کہیں کہیں اس پر تنقید بھی کی ہے، اور دین کو اس سے جو نقصانات پہنچے ہیں ان کا اعتراف بھی کیا ہے، چنانچہ ایک مقام پر علم الکلام کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"فادلة القرآن مثل الغذاء وينتفع به كل انسان وادلة المتكلمين مثل الدواء وينتفع به احادالناس ويتضر ربه الاكثرون بل ادلة القرآن كالماء الذى ينتفع به الصبى والرضيع والرجل القوى وسائر الادلة كالاطعمة التى ينتفع بها الاقوياء مرة ويمرضون بها اخرى ولا ينتفع بها الصبيان اصلا"(الجام العوام عن علم الكلام ص20)

"قرآنی دلائل غذا کی طرح ہیں جس سے ہر انسان فائدہ اٹھاتا ہے اور متکلمین کے دلائل دوا کی طرح ہیں جس سے کوئی کوئی فائدہ اٹھاتا ہے اور اکثر آدمیوں کو اس سے نقصان ہوتا ہے بلکہ قرآنی دلائل کی مثال پانی کی سی ہے جس سے شیرخوار بچہ اور طاقتور آدمی یکساں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ باقی سارے دلائل (کلامیہ) کھانے کی اقسام و انواع کی طرح ہیں کہ کبھی ان سے طاقتور آدمیوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور کبھی ضرر اور بچوں کے لیے وہ مطلقا کارآمد نہیں ہیں۔"

ایک اور مقام پر علم الکلام سے اسلام کو پہنچنے والے نقصانات کا ذکر اپنے تجربات کی روشنی میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:

"والدليل على تضرر الخلق به المشاهدة والعيان والتجربة وما ثارمن الشر منذ نبغ المتكلمون وفشت صناعة الكلام مع سلامة العصر الاول من الصحابة عن مثل ذلك"(الجام العوام عن علم الكلام ص20)

"لوگوں کو علمِ کلام سے جو نقصان پہنچا ہے اس کی دلیل خود مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ اہلِ تجربہ جانتے ہیں کہ جب سے متکلمین پیدا ہوئے اور علم کلام کا چعچا ہوا کیسی مصیبت آئی اور خرابی پھیلی، صحابہ کا دور اس خرابی سے محفوظ تھا۔"

بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام غزالی نے اولا علم الکلام کی خدمت میں اور اپنی تصانیف میں جابجا بہت سے کلامی مباحث کو جگہ دی، لیکن بعد میں جب اس کے نتائج سے باخبر ہوئے تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی طرح خود بھی اس کی سخت مذمت کرنے لگے۔"

لیکن واقعہ یہ ہے کہ امام صاحب کی یہ خدمت اس درجہ و حیثیت کی نہ تھی کہ ان کی سابقہ تصانیف میں جو کلامی مباحث آئے تھے ان سے رجوع کر لیتے۔ لہذا اگر اس کو خدمت نہ کہہ کر یہ کہا جائے کہ کسی حد تک اس کی مضرت کے قائل و معترف ہو گئے تھے تو زیادہ صحیح ہو گا۔

حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام غزالی کی مختلف تصانیف میں جہاں جہاں ایسے کلامی مباحث پائے جو کتاب و سنت کی رُوح سے ہٹے ہوئے تھے، ان پر سخت تنقید فرمائی ہے۔ چنانچہ مولانا ابوالحسن علی الندوی بھی امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی گرفت کے متعلق یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ "اس میں بعض ایسے کلامی مباحث ہیں جو ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کتاب و سنت کی رُوح کے پورے طور پر مطابق نہیں ہیں اور ان کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔" (تاریخ دعوت و عزیمت، مصنفہ ابوالحسن علی الندوی ج1 ص183 طبع لکھنؤ)

استاذ محمود مہدی استانبولی نے ایک مقام پر امام غزالی کی ان پانچ باتوں کا ذکر کیا ہے، جنہیں امام صاحب نے اہل سنت کے خلاف کام کیے ہیں، ان میں سے دو امور یہ ہیں:

"مذہب اشاعرہ کے جبر کثیر اور بتکلیف اقوال سے آپ کا اعتناق" اور "ایجادِ کائنات کی حکمت سے آپ کا انکارِ سبییہ" (ابن تیمیہ بطل الاصلاح الدینی لاستاذ محمود مہدی ص142)

امام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام غزالی کے نہج علم الکلام پر ایک جگہ ضمنا لکھا ہے:

"اور ان لوگوں نے اپنی علم الکلام کی کتب میں نظر و دلیل اور علم کے مقدمات قائم کیے ہیں، بلاشبہ بصیرت کے لیے علم چاہئے اور علم واجب ہے۔ اور متکلمین نے جنسِ نظر، جنسِ دلیل، جنسِ علم میں علم الکلام کی مدد سے حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے۔ پھر اگر تم دیکھو کہ دین میں کونسی چیز اصل اور دلیل ہے تو احداث اجسام پر احداث اعراض سے استدلال کرو جو شرع میں دلیل مبتدع ہے۔" (معارج الوصول ص4 من مجموعہ رسائل لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ مطبوعہ الخانجی)

امام غزالی اور علومِ عقلیہ (یعنی منطق و فلسفہ)

امام غزالی کو دینی علوم کے ساتھ علومِ فلسفہ و منطق سے بھی کافی شغف رہا ہے، چنانچہ آپ کی تصانیف میں جا بجا منطقی اور فلسفیانہ طرز کی بحثیں، منطقی استدلال اور فلاسفہ کے اقوال ملتے ہیں۔ بعض مقامات پر امام صاحب نے منطق کو میزان العلوم، تک قرار دیا ہے، جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ علومِ عقلیہ پر انہیں کس قدر اعتبار و اعتماد تھا۔

ذیل میں چند اکابرین کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں جن سے امام صاحب کا، علومِ عقلیہ کے ساتھ حد درجہ اشتغال کا اظہار ہوتا ہے۔

ابوبکر رازی کا قول ہے:

"(ابوحامد) فلسفہ کے شکم میں داخل ہو گئے اور جب بھی اس سے نکلنے کا ارادہ کیا ان میں اس کی استطاعت نہ ہوئی۔" (ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بطل الاصلاح الدینی، لاستاذ محمود مہدی ص137)

اور ذہبی کی روایات کے مطابق ان کے شاگرد قاضی ابوبکر ابن العربی نے کہا کہ:

"ہمارے شیخ ابوحامد فلسفہ کو اپنے حلق کے نیچے اتارے ہوئے تھے، ان پر کلام کا ارادہ رکھتے تھے مگر استطاعت نہ ہوئی۔" (سیرۃ الغزالی، لعبد الکریم عثمان ص70)

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:

"المضنون على غير اهله وهو فلسفة محضة قول المشركين من العرب خير منه..... دع قول اليهود والنصٰرٰى "(الرسائل والمسائل لامام ابن تيمية ص81)

ابوزہرہ مصری، استاذ کلیۃ الشریعۃ جامعۃ القاہرہ، امام غزالی کے متعلق لکھتے ہیں:

"اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ (امام) غزالی کی ذات کو فلسفہ میں کس قدر عجز تھا اور وہ اس سے خروج کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے معرفتِ حقیقت کے لیے اسے حاصل کیا تھا۔ پس ان کی نیت ایسے اسباب حاصل کرنے کی رہتی تھی جس میں فلسفہ کی کثرت ہو اور وہ اسی فلسفہ کی پراز تخیل میں (مگن) رہتے تھے۔ نتیجتا علمِ شرح ایک فلسفی کی عقل سے ملتقی ہوا اور انہوں نے شریعت کو فلسفہ بنا کر رکھ دیا یا (یہ کہا جائے کہ) فلسفہ نے شرع کا لبادہ اوڑھ لیا، قطع نظر اس کے کہ اس میں اس بات کی صلاحیت یا شعور تھا بھی یا نہیں۔" (ابن تیمیہ مصنفہ استاذ ابوزہرہ مصری ص239)

(جاری ہے)


حاشیہ

امام غزالی کے اس قول کے متعلق استاذ محمود مہدی استانبولی فرماتے ہیں: "اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام غزالی وحدت الوجود یا شہود پر اعتقاد رکھتے تھے، جس کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بعد جو صحابہ رضی اللہ عنھم آئے، بلکہ تمام انبیاء علیھم السلام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل گزر چکے ہیں، ان سب کا ایمان عوامی تھا حالانکہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: "افضل ما قلت انا والنبيون من قبلى لا اله الله وحده.... الحديث" (ابن تیمیہ بطل الاصلاح الدینی لمحمود مہدی استانبولی ص129، 13 طبع دوم مکتبہ دارالمعرفۃ دمشق)

امام غزالی کے اس قول کے متعلق حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس کا مقصد یہ ہے کہ انہیں اس بات کا بھی علم نہیں کہ اس بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کچھ فرمایا ہے۔ (سچ یہ ہے کہ) نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ سلف و صالحین میں سے کسی نے اس بارہ میں کچھ بیان کیا اور نہ ہی یہ قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے۔(ابن تیمیہ بطل الاصلاح الدینی لمحمود مہدی ص131) اور استاذ محمود مہدی نے اس قول پر یہ حاشیہ لکھا ہے: "ہمارے لیے یہ عبارت قابلِ غور ہے۔ اولا: یہ کذب و اختلاق ہے اور تجربہ میں اکبر برہان۔ ثانیا: کلمہ "اللہ اللہ" کا ذکر مبتدع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم و تابعین رحمۃ اللہ علیھم میں کسی ایک سے اس بات کو کوئی جانتا ہے، او رپھر کفار بھی تو "اللہ اللہ" کہا کرتے تھے پھر آخر ان کا یہ ذکر ان کو جہنم کی آگ سے نہ بچا سکا۔ "﴿وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ وَسَخَّرَ‌ الشَّمسَ وَالقَمَرَ‌ لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنّىٰ يُؤفَكونَ ﴿٦١﴾... سورةالعنكبوت" ثالثا: جب تک زبان کا دل کے ساتھ اشتراک نہ ہو، ایسے ذکر کو ذکر نہیں کہا جا سکتا۔" (حاشیہ نمبر 2 بر کتاب ابن تیمیہ بطل الاصلاح الدینی لاستاذ محمود مہدی استانبولی ص131 طبع ثانی مکتبہ دارالمعرفہ بدمشق)

"میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء علیھم السلام کی طرح ہیں"

استاذ محمود مہدی استانبولی امام غزالی کو "حجۃ الاسلام" کا لقب دینا صحیح تصور نہیں کرتے اور بتاتے ہیں کہ "حجۃ الاسلام، بمعنی حجۃ المسلمین" ہے۔ کیونکہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور چیز اسلام کے لیے حجت نہیں ہو سکتی۔" (ابن تیمیہ بطل الاصلاح الدینی ص142) ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: "لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (امام غزالی) کسی بھی طرح "حجۃ السلام" کے لقب کے مستحق نہیں ہیں لیکن جو لوگ ان کو "حجۃ الاسلام" کے لقب سے نیچے اتارنا گوارا نہیں کرتے وہ طائفہ مقلدین اور مبتدعہ مستسلمین میں سے ہیں جو انسانوں کو حق کی مدد سے پہچاننے کے بجائے حق کو انسانون کی مدد سے پہنچاتے ہیں۔" (طل الاصلاح الدینی ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لاستاذ محمود مہدی ص141)

"اے موسی علیہ السلام! تیرے داہنے میں کیا ہے؟" (طہ 17)

(طہ 18) "میری لاٹھی ہے، چلنے میں اس کا سہارا لیتا ہوں، اسی سے اپنی بکریوں کے لیے درختوں کے پتے جھاڑ لیتا ہوں، میرے لیے اس میں اور بھی طرح طرح کے فائدے ہیں۔" (ترجمہ از قصص القرآن، مصنفہ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ج1 ص403، طبع ندوۃ المصنفین جامع مسجد دہلی)

ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی صاحب نے امداد المشتاق کی یہ عبارت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: "ھاشیہ لکھنے والے صاحب مصیبت میں مبتلا ہو گئے۔ بات بنائے نہیں بنتی۔ کیونکہ امام غزالی 460ھ کے قریب پیدا ہوئے اور 505ھ میں وفات پائی او معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے واقع ہوئی۔ اسی طرح سے معراج کے واقعہ اور امام غزالی کی پیدائش کے درمیان کم سے کم چار سو ساٹھ سال کا فرق ہے۔ یہ پیدائش سے پہلے معراج کے موقع پر پہنچ جانا کسی عام انسنا کے بس کی بات تو نہیں ہے، یہ تو انہی کا دل گردہ ہے۔۔۔ دراصل جو واصل بحق ہو کر فرادانیت کے مقام تک پہنچ گیا اس کے لیے حال کیا اور ماضی و استقبال کیا/" (کتاب توحید خالص (گھر کے چراغ9 قسط اول ص64، مصنفہ ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی، ناشر ادارہ توحید محلہ شیخاں علی گڑھ)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مشہور ہے کہ آپ نے اپنے ایک شاگرد کو علم الکلام سے بچنے کے لیے اس طرح تاکید فرمائی تھی: "کلام ایک بے کار فن ہے جس میں خیر کا کوئی پہلو نہیں۔ پس تمہیں اہلِ کلام اور اہل جدال سے بچنا چاہئے اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن مضبوطی سے تھامے رہنا چاہئے۔ تم سے پیشتر جو اہلِ علم تھے وہ بھی فن کلام کو ناپسند کرتے تھے۔ بلاشبہ سماتی ان چیزوں کے ترک کر دینے میں ہے۔۔۔ پھر فرمایا: "اگر تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو کلام سے دلچسپی رکھتا ہے تو اس سے کنارہ کشی اختیار کر لو۔" (تاریخ الذیبی و مقدمہ المسند ص22 طبع معارف مصر) اسی طرح ایک مرتبہ کسی شخص نے ایک خط لکھ کر اہلِ کلام سے مناظرہ اور ان کے ساتھ نشست و برخاست کرنے کے سلسلہ میں سوال کیا تو اس کے جواب میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے یہ خط املاء کرایا: "خدا تمہاری عاقبت سنوارے! ہم نے جو کچھ سنا ہے اور جو کچھ پایا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اسلاف فنِ کلام کو ناپسند کرتے تھے اور اہلِ زیغ و بدعت کے ساتھ نشست و برخاست کو بھی ناپسند کرتے تھے۔ اصل بات جو ہے وہ تسلیم و رضا ہے، کتاب اللہ کے سامنے اس سے تجاوز کبھی نہیں کرنا چاہئے۔ یہ اسلاف دین میں ہر نئی چیز کو اور بدعتیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھے کو پسندیدہ سمجھتے تھے کہ دین کے نام سے جو کچھ وہ کہتے ہیں اس سے تاثر پیدا نہ ہو۔" (تاریخ الذہبی و مقدمۃ المسند ص22 طبع معارف، مصر) استاذ ابوزہرہ مصری مرحوم نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا علم الکلام کے متعلق یہی موقف اس طرح بیان کیا ہے:

"امام احمد لوگوں کو علم الکلام کی موشگافیوں سے باز رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ یہ وہ علم ہے جو مذہبی عقائد کو فلسفیانہ طور پر پرکھتا ور بحث کرتا ہے۔ لہذا آپ اہلِ کلام کی مذمت فرمایا کرتے تھے، اگرچہ کسی مسئلہ میں وہ برسرِ حق ہی کیوں نہ ہوں۔ نیز باری تعالیٰ کے بارے میں تدقیق اور نکتہ آفرینی سے بھی آپ منع کیا کرتے تھے۔ امام احمد کا یہ مسلک۔ علمِ کلام کے خلاف۔ اس امر پر مبنی تھا کہ یہ ایسا راستہ ہے جس پر سلف نے بھی قدم فرسائی نہیں کی۔ اس راہ میں چلنے والا اگر ایک مرتبہ صحیح قدم اٹھاتا ہے تو بھی وہ بالآخر گمراہی کے راستہ پر جا پڑتا ہے۔" (حیات احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، مصنفہ استاذ ابوزہرہ مصری، مترجم سید رئیس احمد جعفری، ص96، 97 پبلشرز ملک سنز فیصل آباد)

ملاحظہ ہو مقدمہ المستصفی للغزالی ج1 ص10